International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, May 8, 2008
عوامی توجہ ہٹانے کے مصنوعی بحران۔۔۔ تحریر:چودھری احسن پریمی اے پی ایس
12 مئی کو ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو 14 مئی کوعوام آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے، بعض عوامی حلقوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد برقرار رہنا چاہئے ورنہ آمریت کو مزید تقویت ملے گی۔ججوں کی بحالی کیلئے قائم کردہ کمیٹی نے گزشتہ بدھ کو ججوں کی بحالی کی قراداد کے مسودے پر اتفاق کرلیا ہے اور اس حوالے سے تجاویز تیار کی گئی ہیں جنہیں حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہان آصف علی زردرای اور میاں نواز شریف کے سامنے پیش کیا جائے اور اب ان تجاویز کے حوالے سے حتمی فیصلہ دونوں رہنما کریں گے۔ کمیٹی میں شامل آئینی ماہرین نے ڈرافٹ کی تیاری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے تاہم قرارداد پر عمل درآمد کے معاملے پر اختلاف موجود ہے ۔ یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے مسودے کو اتحادی جماعتوں کے قائدین کے سامنے پیش کردیا جائے گا جسے پڑھنے کے بعد دونوں رہنما طے کریں گے کہ اس پر کس طرح عمل درآمد کیا جائے۔ آئینی پیکیج اور قرارداد کے حوالے سے آصف زرداری اور نواز شریف میڈیا کو آگاہ کریں گے، دونوں رہنما چاہیں تو مسودے میں تبدیلی کرسکتے ہیں یہ قرارداد کا آخری اجلاس تھا جس میں فخر الدین جی ابراہیم کے علاوہ تمام ارکان نے شرکت کی۔اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ و ہ پی سی او ججز کو تسلیم نہیں کرتے۔ ادھر وزارت پارلیمانی امور نے ججز کی بحالی کے حوالے سے قومی اسمبلی کا اجلاس 24 گھنٹے کے نوٹس پر بلانے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خصوصی ہدایات پر پارلیمانی امور ڈویڑن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری مرتب کرلی ہے۔ حکمران اتحاد کے ذرائع کے مطابق اتحاد میں شامل جماعتوں کے پارلیمانی رہنماو¿ں کی جانب سے تمام ارکان اسمبلی کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کیلئے ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ٹاپ ایجنڈا معزول ججوں کی بحالی ہوگا۔ اختلافات کو حل کرنے کیلئے ایک طریقہ کاروضع کیا جا ئے عدلیہ کے معاملہ کو جلد از جلد حل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ عوام کو درپیش سنگین مسائل کی طرف فوری اور بھرپور توجہ دیکر انہیں حل کیا جا سکے۔ قوم عدالتی مسئلہ میں پھنسی ہوئی ہے جبکہ بہت سے دیگر بحران حل طلب ہیں جن میں بجلی، خوراک، افراط زر اور بیروزگاری جیسے انتہائی اہم معاملات شامل ہیں۔ کامیابی سے چلتے حکومتی اتحاد کو ناکامی سے دوچار کرنے کے خواہاں بعض عناصر سازشوں میں مصروف ہیں ۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ جج عام ملازمتوں کی طرح کی ملازمت نہیں ہے اور چیف جسٹس کا تقرر باقاعدہ ایک عمل کے تحت ہونا چاہئے اور چیف جسٹس کا تقرر پارلیمنٹ میں اسکروٹنی کے بعد ہونا چاہئے، میں پی سی او اور نان پی سی او ججز کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا، میرے لئے پاکستان کی بقاء سب سے زیادہ اہم ہے، خدانخواستہ اگر ہمارے ملک کو کچھ ہوگیا تو 18 کروڑ لوگ کہاں جائیں گے۔سارے ججز پی سی او ججز ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ معزول جج 12 مئی تک بحال ہوجائیں۔ پیپلز پارٹی پرویز مشرف کو قانون اور آئینی صدر تسلیم نہیں کرتی لیکن ہم محاذ آرائی کی سیاست نہیں چاہتے، پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی صدر سے ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان تمام وسائل کے باوجود غربت کا شکار ہے، میں نے سیاسی زندگی کے 20 سال جمہوریت کیلئے جدوجہد میں گزارے، روٹی، کپڑا اور مکان پیپلز پارٹی کا بنیادی فلسفہ ہے، ہم عوام کی امنگوں پر پورا اتریں گے۔ جناب آصف زرداری کی ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن ان سے گزارش ہے کہ پنجابی کا محاورہ ہے کہ برے کو نہ مارو اس کی ماں کو مارو۔ برے کی ما ں کو مارنے سے ہی برائی جنم سے بند ہوگی۔ ججز کی بحالی کا بھی مسئلہ ایسا ہے کونکہ تمام بحرانوں کے پیدا کرنے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے ججز کی بحالی ناگزیر ہے۔ عوام اور وکلاء اب مزید انتظار نہیں کر سکتے،اور نہ ہی پی سی او ججز کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اللہ کرے یہ معاملہ سلجھ جائے۔ 12مئی کو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اچھے کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ قوم مزید کسی انتظار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پی سی او ججوں کو قبول کرنا 3 نومبر کے غیر آئینی اقدامات کو قبول کرنا ہوگا ججوں کو ایک قرارداد کے ذریعے بحال کیا جا سکتا ہے ججوں کی بحالی کو آئینی پیکیج سے منسلک نہیں کیا جانا چاہئے۔ پہلے ججوں کو بحال کیا جائے اگر آئینی پیکیج لانا بھی ہے تو اس پر بعد میں بھی غور ہو سکتا ہے۔ اگر چوہدری اعتزازاحسن یہ محسوس کریں کہ ججوں کی بحالی کی کمیٹی وکلاء کی خواہشات کے تحت کام نہیں کر رہی تو ان کو اس کمیٹی سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے۔ اس وقت ملک میں آئین کی بالادستی قائم کرنے کے لئے معزول ججوں کی بحالی بہت ضروری ہے تا کہ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔ عوامی حلقوں میں یہ بھی واویلے ہورہے ہیں کہ عوام کی ججز کے حوالے سے توجہ ہٹانے کیلئے مصنوعی بحران پیدا کئے گئے ہیں تاکہ عوام ججز کا نام لینے کی بجائے آٹا اور بجلی کی بات کریں۔ جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے رفقا میں موجود پاور فل اور اصلی اختیارات کے حامل بعض مہروں نے ججوں کی بحالی کے ایشو کو الٹ کر مہنگائی اور عام سماجی ایشوز کا واویلا کرنے کا لائحہ عمل تیار کرلیا ہے ۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس ٹارگٹ پر عمل کرنے کیلئے ایک خصوصی چال کے تحت میڈیا کے بعض اہم افراد کے علاوہ اپنے ہم خیال سیاست دانوں اور دانشوروں سے بھی رابطہ قائم کرلیا گیا ہے تاکہ عوام کی توجہ ججوں کی بحالی کے ایشو سے ہٹائی جاسکے ۔ صدر کے رفقا کے ایک اور گروپ نے بھی اس چال کی حمایت کرتے ہوئے اسے مستقبل کے لئے ترپ کا پتہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مہنگائی ایشو کے پھندے کو مزید تنگ کر کے موجودہ حکومت کے گلے میں ڈال دیا جائے تو اس سے مستقبل میں صدر کے لئے نہ صرف کبھی بھی بڑا ایکشن لینے کی راہ ہموار ہوجائے گی بلکہ ماضی کی طرح بڑا ایکشن لینے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے کا ماحول بھی بن جائے گا۔ پھر لوگ فوراً مان لیں گے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنے کیلئے صدر کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ صدر کے بعض دوسرے رفقا اس طرح کی تیز اندازی کو خود اپنے لئے خطرناک قراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس چال میں ہم خود پھنس کر رہ نہ جائیں ۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اگر میڈیا پر مہنگائی، آٹے اور پیٹرول کی قیمتوں اور روپے کی قدر کے ایشو کو ابھارا گیا تو اس رونے دھونے کی ہر تان مشرف حکومت اور ان کی صوبائی حکومتوں، شوکت عزیز اور نگران حکومت پر جاکر ٹوٹے گی۔ اس گروپ نے یاد دلایا کہ بجلی کا بحران آپ کے دور حکومت میں بھی تھا جس کی وجہ سے لاتعداد کارخانے بند ہوگئے تھے۔ بعض رفقا نے صدر کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کے وہ کرتا دھرتا جو شوکت عزیز کے پرانے رفقا میں سے ہیں،سے بھی رابطہ قائم کیا جائے تاکہ اسٹاک ایکسچینج کے ایسے چیمپئن اپنا کردار ادا کریں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment