International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 4, 2008

امریکہ کے مقابلے میں پوری امت کو متحد ہونا چاہیے اوراعلان کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ سراسر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ قاض


٭۔ ۔ ۔ اسلامی ممالک کے وسائل حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے مغرب کے قبضے میں آچکے ہیں آج افغانستان اور عراق پر امریکہ اور اتحادی افواج نے قبضہ کیا ہوا ہے٭۔ ۔ ۔ فلسطین اور کشمیر میں بھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ان کی شخصی آزادیوںکو سلب کرلیا گیا ہے۔ ایرانی دارالحکومت تحران میں سہ روزہ بین الاقوامی ’’ وحدت اسلامی کانفرنس ‘‘ کے افتتاحی سیشن سے خطاب

لاہور ۔ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے اتحاد امت کو وقت کی بڑی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں پوری امت کو متحد ہونا چاہیے اور اپنے اتحاد سے اعلان کرنا چاہیے کہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ سراسر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ یہ جنگ مسلمانوں کیلئے مزید قابل قبول نہیں ہے اور اسے بند نہ کیا گیا تو پوری دنیا کے مسلمان مل کر اس کیخلاف مزاحمت کریں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایرانی دارالحکومت تحران میں سہ روزہ بین الاقوامی ’’ وحدت اسلامی کانفرنس ‘‘ کے افتتاحی سیشن سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس سیشن کی صدارت ایران کے سابق صدر آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے کی ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ پاکستان اور ایران کو دی جانے والی امریکی دھمکیاں قابل مذمت ہیں ۔ ایرانی قوم کا اتحاد اور استعماری قوتوں کے مقابلے میں لڑ مرنے کا جذبہ ایران کی سلامتی خود مختاری اور آزادی کی علامت بن گیا ہے اور یہ تمام اسلامی ممالک کیلئے مشعل راہ ہے ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ اسلامی ممالک کے وسائل حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے مغرب کے قبضے میں آچکے ہیں ۔ آج افغانستان اور عراق پر امریکہ اور اتحادی افواج نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔ یہ افواج امن کے نام پر آئی تھیں لیکن اب تک لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر کے اسے دہشت گردی اور بد امنی کے تاریک دور میں بد لدیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر میں بھی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ان کی شخصی آزادیوںکو سلب کرلیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ کی صورتحال خاصی خطرناک اور مسلمانوں کی توجہ کی طالب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اہل غزہ کو شعب ابی طالب کی صورتحال کا سامنا ہے اور اسرائیل نے فلسطینیوں کے نسلی صفایا کا منصوبہ بنا یا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام چیلنجز کا مقابلہ مسلمانوں کے عملی اتحاد سے ہی ممکن ہے ۔ قاضی حسین احمد نے بین الاقوامی ’’ وحدت اسلامی کانفرنس ‘‘ کو صحیح سمت میں اہم پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ کانفرنس میں تیار کی جانے والی ’’ میثاق وحدت ‘‘ کی دستاویز عالمی سطح پر امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے عملی قدم ثابت ہو گی ۔ سابق ایرانی صدر آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے نے اپنے صدارتی خطبے میں اتحاد امت کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مسلم ممالک کے نوجوانوں کو تعلیم و تحقیق کے میدانوں میں آگے آنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ للچائی ہوئی نظروں سے امت مسلمہ کے وسائل پر نظریں گاڑے ہوئے ہے ۔ پوری دنیا کے مسلمان مل کر اس کے خلاف مزاحمت کو تیز کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کو شدید تجارتی خسارے توانائی کے بحران اور اخلاقی فساد و دیوالیہ پن کا سامنا ہے ۔ اگر مسلمان اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں تو امریکہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔

Pakistan's ruling party leader to get official protocol




ASSOCIATED PRESS SERVICE

ISLAMABAD -- The Pakistani government has decided to give official protocol to Pakistan People's Party (PPP)Co-Chairperson Asif Ali Zardari like the country's president and prime minister.
The local news agency Sunday quoted sources as saying that the prime minister secretariat has directed the interior ministry to give official protocol to Zardari and tighten his security like the president and the prime minister.
Advisor to Prime Minister on Interior Rehman Malik issued the order to the interior ministry for providing full protocol to the leader of the ruling PPP.
Zardari has three personal bullet-proof Land Cruisers equipped with jammers besides police security and personal guards.
Meanwhile, the interior ministry has asked the federal ministers and other important political figures to remove the wireless sets from their vehicles.
The ministry is of the view that these wireless sets disclose their security planning and the police squad will be provided to the federal ministers.

تین مئی آزادی ٍصحافت کاعالمی دن ڈاکٹر نگہت نسیم، سڈنی




پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت کو آزاد کہا جاتا ھے لیکن آزاد پسند لوگ ایک سوال ھر ایک سے پوچھتے ھیں کہ جہاں کرپشن ، غریبی اور خوف کے بادل ھر سو چھائے ھوں وہاں لوگ آزاد نہیں ھوتے تو یہ صحافت کیسے اور کب آزاد ھوسکتی ھے ؟ ۔ اور تو اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ھیں کہ خدا را ھمیں کوئی بتائے گا کہ صحافت ھوتی کیا ھے ؟ ۔ یقین جانیئے یہ وہ اٍس لیئے نہیں پوچھ رھے کہ انہیں معلوم نہیں ھے کہ صحافت کیا ھے ؟ بلکہ وہ صحافت کی نئی اصطلاح اور تعریف چاھتے ھیں جو آج ھر طرف نظر آتی ھے ۔ کہ یہ تو وہ بھی اچھی طرح سے جانتے ھیں کہ یہ صحافت وہ نہیں ھے جس کو تین مختلف پہلوؤں ( مندرجات ، پروڈکشن اور کام ) کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا ۔ اور صحافت کو ابلاغ یعنی ماس کمیونیکیشن سے علیحدہ نہیں بلکہ اُس کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا ۔ کیوں نہ آج صحافت کی تاریخ کو زرا سا دھراتے ھوئے دیکھتے ھیں کہ صحافی کہاں تک صحافت میں آزاد ھیں ۔ صحافت ابلاغ کی نسبت اطلاعات اور معلومات پہنچانے کا ایک سُست زریعہ ھے کہ اٍس سے ایک وقت میں لاکھوں کڑوڑوں تک پیغام نہیں پہنچ سکتا ۔ صحافت میں براہ راست نشریات پیش کرنا بھی ممکن نہیں ھے کہ صحافت میں صرف تحریر سے کام لیا جاتا ھے اور ایک مسلسل عمل کی طرح تمام معلومات ایک تواتر سے ایک وقفے سے لوگوں تک پہنچائی جاتی ھے ۔ مزید یہ بھی کہ صحافت میں نہ رواں تبصرے پیش ھوسکتے ھیں اور نہ متحرک تصاویر پیش کی جا سکتی ھیں جس کی وجہ سے اصل مقامات جہاں واقعہ ھوا ھوتا ھے اُس کو دیکھانا ممکن نہیں ھوتا ۔یہی وجہ ھے صحافت کا دائرہ کار محدود ھوتا ھے اور ابلاغ کا دائرہ کار بہت وسیع ھوتا ھے کہ اُس میں صحافت کے دائرہ کار میں آنے والے اخبارات و جرائد ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ جلسہ عام ، انٹرنٹ ، ویڈیو ، کتابیں اور پوسٹرز بھی آتے ھیں ۔ مطبوعہ صحافت ، اخبارات و رسائل کی قوت اور اہمیت ھر دور میں یقینی رھی ھے خواہ مارشل لاء کاتاریک دور رھا ھو یا نام نہاد سی جمہوریت کے دن رھے ھو ، تاھم کسی بھی ملک میں جب کبھی صحافت پر پابندیاں لگی ھیں تب تب قلمکاروں نے اپنے خون ٍ جگرسے آزادی کی شمع روشن کی ھے ۔ مطبوعہ صحافت یعنی پرنٹڈڈ جرنلزم ایک نہایت موثر اور طاقتور ہتھیار ھے کیونکہ اُن کے کندھوں پر ملکی اور قومی استحکام و سالمیت کے نقطہ نظر سے اہم زمہ داریاں عائد ھوتی ھیں ۔ صحافت کی تمام اقسام میں مسایل کے بارے میں حقائق ثبوت کے ساتھ پیش کیئے جاتے ھیں جس کی وجہ سے قبولٍ عام کی سند رکھتے ھیں ۔ ویسے بھی انسان فطری طور پر تجسس کا مادہ رکھتا ھے اور اٍسی بنا پر خود کو باخبر رکھنے کے لیئے اخبار پڑھنا زیادہ پسند کرتا ھے۔ ابتدا میں صحافت صرف خبروں تک ھی محدود تھی جس میں آہستہ آہستہ اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق تبصرے ، تجزیے، تجاویز اور آرا بھی شامل ھوتی گئیں ۔ اٍسی وجہ سے صحافت کو سرکار(executive ) ، عدلیہ (judiciary) اور انتظامیہ (legislature) کے بعد ریاست کا چوتھا ستون بھی کہتے ھیں ۔ اگر کوئی ایک بھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاھی کرے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ھے ۔ اٍسی وجہ سے صحافت کی آزادی ایک آئینی حق ھے اور صحافت کے تمام زرائع کو حق ھے کہ وہ حقائق کی پاسداری کے لیئے کسی دباؤ کے بغیر کام کریں کیونکہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ھے ۔صحافت جہاں رائے عامہ کہ تشکیل اور قومی شعور کے لیئے انتہائی اھم زریعہ ھے وہی پر حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطہ بھی ھے جس کے زریعے لوگ اپنےحکمرانوں اور انتظامیہ کا احتساب بھی کرتے ھیں اور فکری رہنمائی کے زریعے بین ا لاقوامی سطح پر ملکی یکجہتی سے اپنے دینی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ثقافت اور جمہوریت کو غیر جانباداری سے پیش بھی کرتے ھیں ۔یہ کہنا بلکل غلط نہ ھو گا کہ تخلیق ٍ آدم کے ساتھ ھی ابلاغ کا آغاز ھو گیا تھا ۔ مسلمان ھونے کے ناطے ھمارا یقین ھے کہ اللہ پاک نے انسان کو قلم کے زریعے علم سکھایا۔ اٍس سلسلے میں حضورٍ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ھونے والی وحی میں “ الذی علم با لقلم “ کے الفاظ سند ھیں ۔ تحقیق بتاتی ھے کہ لکھنے کے لیئے سب سے پرانا رسم الخط چینی اور جاپانی ھے اور اٍس کو لکھنے کے لیئے پہلے چمڑے ، جانوروں کی شانے کی ھڈی ، درخت کی چھال اور پتوں کو تو کبھی موم کے تختوں کو استعمال کیا گیا ۔ محققین کہتے ھیں کہ تقریباً پانچ سو قبل مسیح میں مصریوں نے پانی کے اندر اگنے والے درخت “پے پی رس “ کے پتوں کو تحریر کے لیئے استعمال کیا ۔ چین کے “ سائی لون “ جو ریشم کے کپڑے پر لکھا کرتا تھا بعد میں اُسے نے کاغذ ایجاد کیا اور تحریروں کو محفوظ کرنا سکھایا۔ سو سب اٍس بات کو صیحع جانتے ھیں کہ چھپائی کاآغاز بھی چین میں ھی ھوا ۔ وہاں کے قدیم صوبے “کانسو“ میں دنیا کی قدیم ترین کتاب دریافت ھوئی جو گیارہ مئی 868 ء میں شائع ھوئی تھی ۔مطبوعہ اخبار کا آغاز “ وینس “ سے ھوا اور سب سے پہلے 1566 ء میں Notize Seritte کے نام سے پہلا اخبار شائع ھوا ۔ اُس کے علاوہ 1570 میں Gazzetta کے نام سے ایک اور اخبار جاری ھوا ۔ پھر “کولون“ سے 1594 میں The Mercuius Gallo- Belgicus جاری ھوا ۔ اُس کے بعد سترھویں صدی میں صحافت کا آغاز یورپ میں ھوا۔ اور وہاں 1609 میں جرمنی کے شہر آگس برگ سے Avisa Relation Order Zeitung کے نام سے اخبار جاری ھوا ۔ 1611 میں برطانیہ میں News From Spain کے نام سے اور 1615 ء میں فرینکفرٹ سے Die Frabkfurter Oberpostamts Zeitung سے اخبار نکلا ۔ سب سے اچھا اخبار 23 مئی 1622 میں نتھانیل بٹر اور تھامس آرچر نے ویکلی نیوز کے نام سے جاری کیا۔ برطانیہ کا “ آکسفورڈ گزٹ “ جو 1665 ء میں شائع ھوا تھا آج تک “ لندن گزٹ “ کے نام سے جاری ھے ۔ امریکہ میں سب سے پہلا اخبار 1690 ء میں “ Publick Occurence کے نام سے بنجمن ہیرس نے بوسٹن سے جاری کیا تھا۔ برصغیر میں چندر گپت موریہ کے عہد سے لے کر اسلامی دورٍ حکومت تک ھر دور میں کسی نہ کسی طرح حکومت اطلاعات و معلومات لوگوں تک پہنچاتی رھے ھے ۔مغل دور ٍحکومت میں جہاں دوسرے شعبوں میں مسلمانوں نے ترقی کی ، وہاں مغلوں نے اٍس طرف بھی توجہ دی ۔ اکبر نے خاص طور پر ایک نظام قائم کیا تھا اور حصول ٍ خبر کے لیئے جہاں لوگوں کو خوب مراعات دے رکھی تھی وہی غلط خبر پر سخت ترین سزا بھی رکھی ھوئی تھی ۔ مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں انگریزوں میں جیمز آکسٹس ھکی نے “ ھکی گزٹ “ نکالا تھا اور کلکتہ سے “ انڈیا گزٹ پیٹر ریڈ نے نکالا۔ ویسے برصغیر کا پہلا باقائدہ اخبار 29 جنوری 1780 میں “ بنگال گزٹ “ نے نام سی شائع ھوا تھا۔ اردو زبان میں پہلا اخبار 27 مارچ 1823 میں “ جام جہاں نما “ کے نا سے نکلا جو بعد میں فارسی میں جاری ھوا اور اردو کو ضمیمہ کے طور پر ساتھ لگا دیا گیا۔ اُس کے بعد “ دھلی اردو اخبار “ کے نام سے مولانا محمد حسین کے والد محمد باقر کی زیر ادارت 1836 میں شائع ھوا ۔ اٍسی طرح لاھور کا پہلا اردو اخبار “ کوہ نور “ کے نام سے 14 جنوری 1850 میں شائع ھوا۔ پھر تو جیسے اخبارات کاسلسلہ سا چل نکلا جو حکومتوں پر اثر انداز ھوتے رھے اور عوامی رائے عامہ بھی ھموار کرتے رھے۔ انقلاب نہ تو ایک دن میں آتا ھے اور نہ ھی ایک دن میں اُس کے اثرات ختم ھوتے ھیں ۔ لیکن جب بھی کسی ملک میں انقلاب آنا ھوتاھے اُسے فوری ردٍ عمل نہیں کہاجاتا بلکہ ھر ایک کی طویل قربانیوں کاثمر ھوتا ھے اور اُس میں صحافت کا کردار ایک “ پُل ‘ کی طرح ھوتا ھے جو دونوں طرف منشور کے اچھے اور برے نتایج سے ایک سازگار سی فضا بنا دیتے ھے ۔ یہی وجہ تھی ک صحافت ھمیشہ ھی حکومت کے لیئے لٹکتی تلوار رھی ھے اور اُس کے بے داغ کردار کو داغدار کرنے کا کوئی موقعہ ھاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا گیا جیسے دھلی اردو اخبار کے مدیر مولوی محمد باقر کو ایک انگریز ٹیلر کے قتل کے الزام میں گولی مار دی گئی اور اُن کے بیٹے کو دیکھتے ھی گولی مار دینے کا حکم جاری کیا گیا صرف اٍس لیئے کہ وہ محمد باقر کے بیٹے تھے اور دھلی اخبار کے پرنٹر اور پبلیشر ھونے کے ساتھ ساتھ اپنی نظموں اور نثر سے مسلمانوں کے بھڑکاتے بھی تھے ۔ جمیل الدین جو“ صادق الاخبار“ کے مدیر تھے اور انگریزوں کے خلاف لکھنے پر تین برس جیل رھے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں کو صحافت سے باھر کر دیا گیا اور اٍس کی وجہ سے 1853 میں نکلنے والے 35 اخباروں میں 1858 میں سرف چھ اخبار رہ گئے ۔ اٍس تاریک دور کے بعد سرسید احمد خان کا شاندار دورٍ صحافت آتا ھے جس کا آ غاز 1840 میں ھوا ۔ اُن کے کہنے کے مطابق مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجی علوم و فنون سے عدم واقفیت ھے اور اگر اٍسی طرح مسلامن اپنے احوال سے بے خبر رھے تو اُن کی مکمل تباھی یقینی ھے ۔ انہوں نے کئی مشہور تصانیف کے ساتھ ساتھ تین مارچ 1866 میں علی گڑھ سے اخبار “ علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ“ جاری کیا جو اُن کی موت کے بعد بھی جاری رھا۔ اٍسی طرح ھندوستانی صحافت میں مولانا محمد علی جوہر کا نام جرات اظہار کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتے ھیں ۔ جنہوں نے 14 جنوری 1911 کو کلکتہ سے اپنا مشہور اخبار “ کامریڈ “ اور 1913 میں اردو اخبار “ ھمدرد“ نکالا ۔ مولانا محمد علی جوہر 1930 میں گول میز کانفرنس کے لیئے لندن گئے تھے ۔ وہاں تقریر کرتے ھوئے انہوں نے کہا کہ “ میں آزادی کا منشور لے کر ھندوستان جانا چاھتے ھوں ۔ میں غلام ھندوستان میں نہیں جاؤنگا ۔ اگر آپ مجھے ھندوستان کی آزادی نہیں دیتے تو پھر آپ کو مجھے یہاں قبر کے لیئے جگی دینی پڑے گی “ چنانچہ 4 جنوری 1931 ء میں لندن ھی میں وفات پا گئے آپ کا یک شعر جو آج بھی اُن کی پہچان ھے قتلٍ حسین اصل میں مرگٍ یزید ھے اسلام زندہ ھوتا ھے ھر کربلا کے بعد بیسویں صدی کے پہلے اور دوسرے عشری کی بے مثال بے باک صحافت کے بعد مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات کا سلسلہ شروع ھوتا ھے جنہیں اپنی شعلہ بیانی اور شعری اور نژری ادب میں منفرد اور نمایاں نام رکھنے پر “ بابائے صحافت “ کے لقب سے یاد کیا جاتا ھے ۔ انہوں نے جنگٍ طرابلس کے بعد اپنے والد کے روزنامہ “ زمیندار “ کو پندرہ اکتوبر 1911 میں اخبار کا درجہ دیا۔ مولانا نے اپنے اخبار کے زریعے جو جہاد کیا وہ آزادی تک جاری رھا ۔ 1953 میں تحریک ختمٍ نبوت کے دوران جب لاھور میں مارشل لاء لگا تو “زمیندار “ اشاعت معطل ھو گئی جو اُن کے انتقال کے بعد تک بھی بحال نہ ھو سکا۔ پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح ، مسلم عوام اور مسلم صحافت کا طویل جدوجہد کا ثمر تھا۔ آزادی کے بعد اخبارات میں تبدیلی صاف نظر آتی ھے ۔ پہلے جہاں صرف آزادی اور تحریک کی باتیں ھوتی تھی بعد میں اُن کی جگہ معاشی ، معاشرتی موضوعات نے لے لی اور اُس کے ساتھ کارٹون ، سفرنامے ، فکاہی کالم ، فیچرز ، ادب و ادیب ، اسپورٹس ۔ طب ، بچوں ، خواتین کے ایڈیشن ، کے ساتھ ساتھ فلمی اور تعلیمی ایڈیشن بھی آ گئے جن میں ھر لحاظ سے عوامی دلچسپی کا خیال رکھا جاتا ھے ۔ اخبارات جسے پہلے صرف دردمند لوگ ھی چلایا کعرتے تھے اب باقائدہ بزنس اختیار کر گئے تھے ۔ اور اُس کے ساتھ ھی مقابلے کی فضا نے ڈائجسٹ جرنلزم کی بنیاد بھی رکھی ، سرخیوں کی بہتات کے ساتھ اشتہارات بھی انگنت ھو گئے ۔ پاکستان کے نمایاں اردو کے اخباروں میں “ نوائے وقت ،جو 22 جولائی 1944 میں پہلی بار شائع ھوا، امروز 4 مارچ 1948 کو نکلا ، کوہستان 1953 میں راولپنڈی سے مشہور ناول نگار نسیم حجازی کی زیر ادارت ھوا، مشرق 1963 میں نکلا ، روزنامہ جنگ کا آغاز دہلی سے 1940 میں شائع ھوا، روزنامہ جسارت 1949 میں ملتان سے جاری ھوا ۔ انگریزی روزناموں میں “ڈان “ جس کے بانی قائدٍ اعظم تھے بارہ اکتوبر 1942 سے جاری ھوا ، پاکستان ٹائمز چار فروری 1947 کو شائع ھوا، فرنٹئر پوسٹ پشاور سے نکلا ، “ دی مسلم“ ، اسلام آباد سے 1978 میں جاری ھوا ۔ “ دی نیشن “ کے بعد “ دی نیوز “ ایک اچھے اخبار کے طور پر سامنے آئے ۔ پاکستان میں اٍس وقت جو روزنامہ اور اخبارت شائع ھو رھے ھیں ، اُن کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ھوتی ۔ قومی اخبارات کوچھوڑ کر علاقائی اور مضافاتی اخبارت کی تعداد بہت زیادہ ھے ۔ جن میں زیادہ تر پرچے غیر ھنر مند، کم تعلیم یافتہ افراد نکال رھے ھیں جس کی بنا پر پاکستان کی صحافت بہت متاثر ھو رھی ھے ۔ایسے اخباروں میں عام طور پر چیختی ھوئی آٹھ کالمی سُرخیاں لگاتے ھیں جن کا خبری متن سے کوئی خاص واسطہ نہیں ھوتا ۔ ایسی صحافت سی سنسنی خیزی پھیلتی ھے اور منفی جذبات کو ھوا ملتی ھے ۔ شام اور دوپہر کے اکثر اخبارات میں معمولی خبروں کو اچھالا جاتا ھے اور اندورنی صفحات شو بز کی نیم عریاں ماڈل کی تصاویر سے بھرے ھوتے ھیں جس سے صحافت کا معیار روز بروز گر رھا ھے ۔ ایسے ھی کئی اخبارات میں بلیک میلنگ کا مواد بھی بے دھڑک چھاپا جاتا ھے جس کو سرکاری محکموں میں بیٹھے کرپٹ لوگوں ، قبضہ گروپوں اور دیگر جرائم پیشہ لوگ دوسرے لوگوں کو بلیک میل کر کے خوب پیسے بناتے ھیں ۔ آج بھی درجنوں چھوٹے بڑے اخبار اپنی اخلاقی حدود پار کرتے نظر آتے ھیں جس کی وجہ سے فکری انتشار اور غیر معیاری زبان کو رواج ملا ھے ۔ دوسری طرف کچھ اخبار حکومتی ترجمان بنے رھتے ھیں اور جو تھوڑی بہت تنقید کرنے والے اخبارات ھوتے ھیں اُن کے اشتہار بند کروا دیئے جاتے ھیں ۔اور انہیں سوائے اٍس کے حکومتی راگ الاپے یا اشاعت بند کر دے تیسرا اور کوئی رستہ آسان نہیں ھوتا ۔ صحافت میں ایک اور جدید دور کا آغاز 1987 ًٰ میں کمپیوٹر کی وجہ سے ھوا جسے جنگ اخبار نے پہلی دفعہ استعمال کیا اور پہلا انٹرنٹ اخبار سب نے پڑھا ۔ الیلکٹرانک میڈیا کے مقابل پرنٹ میڈیا ھی اخبار میں واحد میڈیا ھے جو جدید صحافت کا مقابلہ کر رھا ھے ۔ پھر بھی دیکھا جائے تو گزشتہ دس سالوں میں اخبارات کی اشاعت میں جو کمی اور بیشی ھوئی ھے وہ اٍس طرح سے ھے ۔ ١۔ 1995 میں پنجاب میں شائع ھونے والے 3055 اخبارات میں سے صرف 361 رہ گئے ٢۔ سندھ میں مجموعی طور پر 257 سے بڑھ کر 622 ھوئی ٣۔ سرحد میں کم ھو کر 104 سے 102 رہ گئی ٤۔ بلوچستان میں بڑھ کر 1193 ھوئی پاکستان بھی آزادی صحافت پر یقین رکھتا ھے لیکن ایسی آزادی معاشرہ کسی بھی ادارے کو نہیں دیتا جس میں حقوق اور فرائض کی پاسداری نہیں کی جاتی ۔ یعنی دوسروں کا احترام بحرحال ضروری ھے وگرنہ معاشرے میں لاقانونیت اور طرفداریوں کا لامتناھی سلسلہ چل پڑے ،بدنظمی اور افراتفری کاطوفان برپا ھو جائے اور صرف طاقتور ھی آزاد رہ جائے اور کمزور ختم ھو جائے ۔ اگر کئی قسم کی آزادی کو ملایا جائے تو صحافتی آزادی بنتی ھے مثلاً “ فطری آزادی ، معاشی آزادی ، معاشرتی آزادی، سیاسی آزادی اور قومی آزادی ، کیونکہ اگر کسی ملک میں صحافت آزاد ھے تو دوسرو آزادیوں کو تحفظ خود بخود مل جاتا ھے ۔صحافت کی آزادی آمروں کے لیئے ھمیشہ آزمائش رھی ھے اٍس لیئے ابتدا سے لے کر آج تک اُس پر تحریر اور تقریر کی پابندیاں لگتی رھی ھیں ۔ کبھی قوانین کا سہارا لیا گیا تو کبھی طاقت کا لیکن صحافتی آزادی کی جدوجہد متواتر جاری رھی ۔ وقت بدلتا رھا ، انسان اظہار رائے کی آزادی کے لیئے جدوجہد کرتا رھا اور حکمران طبقہ انہیں دباتا رھا اور یہ بھول گیا کہ جہاں بے جا پابندیاں زہن کو زنگ آلود اور انقلاب کی راہ ھموار کرتی ھے وہاں بے جا آزادی اور بے لگامی معاشرتی اقدار کی تباہی و بربادی اور بد نظمی کا سبب بنتی ھے ۔ جو بلکل آج کل ھو رھا ھے ۔ آزادی ٍصحافت کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جارھا ھے جس میں سب سے مہلک احساسات اور خیلات کا ختم ھونا ھے اور اُس کے ساتھ ھی سچ لکھنے پر پابندی معاشرے کی فلاح بہبود کے لیئے جمود بن جاتی ھے ۔ اگر اٍسی آزادی ٍصحافت کو مثبت طور پر استعمال کرنے سے امن و سکون اور ترقی حاصل ھوتی ھے ۔ جیسا کہ ھم سب جانتے ھیں کہ آًمرانہ نظام ٍحکومت ھمیشہ ایک ھی فردٍ واحد کے گرد گھومتا ھے سو وہ پریس پر کنٹڑول کر کے شخصی پالیسی بنا لی جاتی ھے اور پھر اپنی برتری کے لیئے جبروتشدد سے کام لیا جاتا ھے ۔ سو اخبارات کے لیئے سوائے آمرانہ پرچار کے کوئی صورت ٍحال نہیں بچتی اور پھر یہی اخلاقی پستی اچھے برے کی تمیز بھی ختم کر دیتی ھے ۔ جمہوری نظام کو بہتر بنانے کے لیئے 26 اکتوبر 2002 میں PEMRA) Pakistan Electronic Media Regulatory Authority ) بنیاد رکھی گئی جو 2007 میں ترمیم کے ساتھ سامنے آئی ۔ صدر مشرف نے آزادیٍ صحافت کے قوانین کے مطابق اٍس امر کو یقینی بنایا گیا کہ پاکستان کے شہریوں کو سرکاری ریکارڈ تک پہلے سے بہتر رسائی ھو اور اٍس سلسلے میں وفاقی حکومت کو جوابدہ بنایا گیا ، اٍس کے مطابق سرکاری اداروں سے متعلق اطلاعات تک رسائی کے لیئے متعلقہ اداروں کو پابند کیا گیا اور صحافیوں کے پُر زور اصرار پر اٍس ترمیمی بل میں شق تین ختم کر دی گئی جس کے تحت رپورٹرز ، پبلیشرز، ایڈیٹرز، اور ڈستڑی بیوٹرز پر اگر کوئی الزام لگایا گیا اور جرم ثابت بھی ھوگیا تو قابلٍ سزا ھونگے ۔ جس کو وکلاء اور صحافیوں نے مسترد کر دیا تھا۔ اٍس تناظر میں اگر ھم اپنے ملک پاکستان کی صحافی آزادی بات کرے جس کا عالمی دن آج منایا جا رھا ھے تو پاکستان میں جتنی حکومتیں بھی آیئں انہوں نے اخبارات و جرائد کو پابند کرنے کی کوششیں کیں ۔ ایوب خان نے دور میں خصوصی قوانین بنائے گئے ۔ اشتہارات ، کاغذ کا کوٹہ اور ڈیکلیریشن کی منسوخی کو ہتھیار بنایا ۔ ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء کا دور ٍصحافت کے لیئے ایک بدترین سیاہ دور تھا۔ جنرل ضیاء نے مخالف سیاست دانوں کے بیانات اور خبروں کی اشاعت پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ خبریں باقائدہ سنسر ھوتی تھی ۔ خبروں کی اشاعت روکنے کے لیئے فوجی افسران تعیانات کیئے ھوئے تھے جو کسی خبر کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے ۔ اُن کے زمانے میں بٹھو کی تصویر تک شائع کرنا جرم تھا ۔ اور یہ پابندی صحافت میں گیارہ سال تک رھی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو میں صحافت زیادہ آزاد ھی رھی کہ اُن کا کہنا تھا کہ “ میں پرواہ نہیں کرتی کہ اخبارات کیا چھاپ رھے ھیں کیونکہ ووٹرز کی اکثریت پڑھنا نہیں جانتی “ ۔ اب بات کرتے ھیں شجاعت حسین کی وازارت عظمی کے دور کا جب ہتک عزت کے قانون میں ترامیم کر کے تیس جولائی 2004 میں “ ویج بورڈ ایوارڈ “ نے اُسے اور سخت ترین بنا دیا گیا تھا جس کو آزادیٍ صحافت پر شب خون بھی کہا گیا ۔ اور اُس کے تحت ڈیلی ڈان اور نوائے وقت کے اشتہارات بند کر دیئے گئے جو 28 اگست 2004 کو بحال ھوئے تھے ۔ جب پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 میں برسرٍ اقتدار آئے تھے ۔ وہ اپنے دور ٍ حکومت کو صحافی آزادی کا دور کہتے رھے جبکہ تاریخ گواہ ھے جو 2002 کے شروع میں ھونے والے “ وال سٹریٹ جنرل“ کے رپورٹر “ ڈینٹل پرل “ کا قتل فراموش نہیں کر سکتی ۔ جس کے اغواہ سے لے کر موت تک ساری دنیا کا میڈیا پاکستان کی طرف فوکس ھورھا تھا ۔ اٍسی سلسلے میں عمر سعید کو اٍس قتل کا محرک قرار دیا گیا اور 15 مئی 2002 کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ 20 اکتوبر 2002 میں روزنامہ “کاش“ کے نمائندے شاہد سومرو کو اُن کے گھر کے سامنے گولی مار کر ھلاک کر دیا گیا اور یہ سب جانتے ھیں کہ اُن کے بے باک قلم کی وجہ سے سندھ اسمبلی کے ایک رکن باقائدہ انہیں دھمکیاں دے رھے تھے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ 31 اگست 2002 میں مشرف نے میڈیا کو کسی حد تک کنٹرول میں کرنے کے لیئے چار آرڈینس جاری کیئے ۔ اٍس میں ڈیفریشن آرڈینس ، رجیسٹریشن آرڈینس، پریس آرڈینس اور ہتکٍ عزت قانون کے آرڈینس شامل تھے ۔ یہ وہی قانون تھے جنہیں صحافیوں اور وکلاء نے مسترد کر دیا تھا۔ اُس کے بعد ھونے والی صحافت کی آزادی کی جدوجہد اور اُن کی شہادتیں کون بھول سکتا ھے جو انہوں نے اپنی خدمات انجام دیتے ھوئے دی ۔ اور اب بھی صحافی اپنی آزادی ٍاظہار کی جنگ لڑ رھے ھیں ۔ دنیا بھر کی ترقی پسند قومیں الیکشن سے پہلے ، الیکشن کے درمیان اور بعد تک تبصرے اور تجزیات کسی بھی حوالے سے لکھتی اور سناتی رہتی ھے اور اپنی قوم کو با خبر رکھتی ھے ۔لیکن مشرف کی حکومت نے اتنی قنوطیت دکھائی کہ الیکشن سے 36 گھنٹے پہلے صحافیوں پر اظہار کی پابندی لگا دی گئی تھی ۔جو کہ ابھی تک جاری ھے ۔ آج اگر صحافت کا آزادی کا عالمی دن نہ ھوتا تووزیر اطالاعات شیری رحمان یہ کبھی نہ کہتی کہ پمرا صحافت کو آزادی کے لیئے مزید مراعات دے گی ۔۔۔اور صحافیوں کی انشورنس کی جائے گی اور یہ بھی کہ پابندیاں جلد ختم کر دی جائے گی ۔۔ تو عزیز شیری رحمان جی کیوں نہ ھم آزادیٍ صحافت کا دن بھی پھر کبھی منا لیں گے جب آزاد ھو جا یئنگے ۔ پاکستان کی عوام صیحع ھی تو آپ سے پوچھ رھی ھے کہ جہاں کرپشن ، غریبی اور خوف کا راج ھو وہاں صحافت کیسی اور کب آزاد ھو سکتی ھے ؟؟؟؟؟؟؟ پھر بھی آج چونکہ آزادیٍ صحافت کا عالمی دن ھےاور آپ سب کا اصرار بھی ھے تو ھم دنیا داری کرتے ھوئے مل کر کہہ دیتے ھیں ۔۔ پاکستان میں میڈیا اور آزادیٍ اظہار کی آزادی ۔۔۔زندہ باد ۔۔۔۔

دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں ‘ ہم صرف ان سے مذاکرات کریں گے جو ہتھیار پھینک دیں گے‘سید یوسف رضا گیلانی




وزیراعظم کی جانب سے ملتان میں خواتین یونیورسٹی کے قیام سمیت اربوں روپے مالیت کے بڑے ترقیاتی پیکج کا اعلان
صدر سے متعلق تمام معاملات پارلیمنٹ طے کرے گی ۔میڈیا نے اپنے کردار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ مملکت تاریخ اور فعال ستون ہے
میڈیا کی آواز کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے ۔وزیراعظم پاکستان کا ملتان پریس کلب کے پروگرام ’’ گفتگو ‘‘ میں اظہار خیال
ملتان
۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں ‘ ہم صرف ان سے مذاکرات کریں گے جو ہتھیار پھینک دیں گے‘صدر سے متعلق تمام معاملات پارلیمنٹ طے کرے گی ۔میڈیا نے اپنے کردار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ مملکت تاریخ اور فعال ستون ہے اس کی آواز کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے آبائی شہر میں خواتین یونیورسٹی کے قیام سمیت اربوں روپے مالیت کے بڑے ترقیاتی پیکج کا اعلان کردیا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو ملتان پریس کلب کے پروگرام ’’ گفتگو ‘‘ کے دوران کیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان خصوصا ملتان کی صحافی برادری نے ہر موقع پر میرا بھرپور ساتھ دیا ہے جب تک جمہوریت کی جنگ کے دورن مجھے پابند سلاسل کیا تو صحافیوں کے قلم نے میرے حوصلے بلند رکھے اور جمہوریت کے لیے میرے عزم کو تقویت ملی ۔ میڈیا نے اپنے کردار کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ مملکت تاریخ اور فعال ستون ہے اس کی آواز کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے ۔ جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی آزادیکی تحریکوں کی کامیابی میں میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا ‘ ایک آزاد میڈیا آئین کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی ‘ جمہوری اداروں کے استحکام جمہوری اقدار کے فروغ اور ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کی ضمانت ہیں انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام کی بنیاد فرد کی آزادی ہے اور پریس کی آزادی فرد کی آزادی کی ضامن ہے موجودہ قانون انتہائی ناقص ہے اس لیے اس قانون میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے ہم فریڈم آف انفارمیشن کے قانون کو دور رس بنانے کے لیے اپنے کام کاآغاز کردیا ہے اس قانون کے تحت اخباری کارکنوں ا ور صحافیوں کو ملازمت کا تحفظ اور ان کی عزت و احترام کو یقین بنائیں گے ان کے لیے ویج بورڈ ایوارڈ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشش کریں گے وزیراعظم نے کہا کہ ان کے کام کاج کے حالات اور معاوضہ کے قوانین کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ ہم نے پیمرا قوانین میں تبدیلی کے لیے بھی اپنا کام شروع کردیا ہے ۔انشاء اللہ یہ ادارہ الیکٹرونک میڈیا کے لیے بہتر ماحول اور سہولتوں کو یقینی بنائیگا۔ میں اس موقع پر میڈیا کے ساتھیوں کو گذارش کروں گا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے آپ اپنے کردار سے ہرگز غافل نہ ہوں آپ کی ذمہ داری ہے کہ میڈیا مملکت ستون ہونے کے باعث مملکت کے ہر ادارہ کے عمل کی نگرانی کریں جمہوریت کا فروغ اور جمہوری اداروں کے استحکام میں اپنا کردار ادا کرین ہمارے میڈیا کی ایک اہم قومی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے سماجی اور سیاسی شعور کو اجاگر کریں میں اس موقع پر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم میڈیا کو اس کے جائز مقام سے ہرگز نہیں گرنے دیں گے اور اس سلسلے میں ہونے والی کسی بھی سازش کو ناکام بنا دیں گے ۔میں ملتان پریس کلب کے لیے پیکج کا اعلان کرتے ہوئے پچاس لاکھ روپے کی خصوصی گرانٹ کا اجراء کرتا ہوں میں صوبائی حکومت کو ہدایت کرتا ہوں وہ ملتان پریس کلب کو سالانہ دس لاکھ روپے کی گرانٹ مہیا کرے پریس کلب کے لیے حال سٹور اور پارٹی شیڈ کی منظوری کے لیے میں گرانٹ کا اعلان کرتا ہوں فاطمہ جناح فیز ٹو میں واقع جرنلسٹ کالونی کی تعمیر جولائی 2008 ء سے شروع کرنے کے لیے میں ایم ڈی اے کو ہدایت کرتا ہوں ملتان کے صحافیوں کی بیرونی دوروں میں شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس کی میں وفاقی محکمہ اطلاعات و نشریات کو ہدایت جاری کر رہا ہوں میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے پریس کلب میں مدعو کیا میں اس کے علاوہ ہم نے ڈیمانڈ آ کیکشن کے سلسلے میںمیپکو و کی کچھ مجبوریاں ہیں ہم مقامی طورپر یہاں ضلعی حکومت کی طرف سے خود حل کرلیںگے اس پر آپ کو مسئلہ نہیں ہو گا جہاں تک آپ کے دوسرے مطالبات کا ذکر اس کے لیے میں پریس کلب کے صدر اور سیکرٹری جنرل کو اسلام آباد میں دعوت دوں گا اور انشاء اللہ اس کے لیے ہم بہتر طریقے سے متبادل انتظام کریںگے تاکہ آپ کے تمام معاملات کو سیدھے طریقے سے حل کر سکیں ۔ پریس کلب نے بلوچستان اور کشمیر کے میرے دورے کا ذکر کیا میں آپ کی ا طلاع کے لیے بتاما چاہتا ہوں کہ میں پنجاب فرنٹیئر بلوچستان کشمیر کا دورہ کیا اور بلوچستان میں دوبارہ شائین ٹو میزائل کے تجربے کے لیے میں نے دورہ کیا ۔ اور میں نے دو مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس کیا دو مرتبہ کابینہ کا اجلاس منعقد کیا 3,2 مرتبہ ای سی سی کا اجلاس کیا اور کئی امن وامان کی صورت حال پر بریفنگ بھی دیں اس کے بعد آج میں یہاں ملتان میں ہوں یہ میرا 35,30 دن کا پروگرام تھا جو میں نے کیا اور اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں یہاںکے نمائندوں اور کارکنوں سے ملاقات کروں کیونکہ ہماری اتحادی حکومت جو بنی تھی اس کے لیے عوام نے واضح مینڈیٹ دیا ہے یہ مینڈیٹ جمہوری قوتوں کے حق میں دیا گیا ہے ۔ ان طاقتوں کے حق میں مینڈیٹ دیا گیا ہے ۔ جنہوں نے اس وقت آئین کی بحالی کی بات کی جنہوں نے اس وقت عدلیہ کی بحالی آزادی کی بات کی ان طاقتوں کے لئے جنہوں کے ایمرجنسی کو اٹھانے کے لئے پابند سلاسل ہو ئے جن میں میں بھی شامل تھا ہمیں جو مینڈیٹ ملا ہے وہ اتحاد کا ملا ہے ۔کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی لہذا ہم نے ایک وسیع اتحادی حکومت بنائی ہے ۔ جس میں تمام سیاسی قوتوں نے ساتھ دے ، اس کے لئے میں قوم کا احسان مند ہوں قوم نے مجھ پر اعتماد کیا ہے اور مجھے بھاری ووٹ ملے ہے چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قوم بھی سمجھ چکی ہے کہ 10کروڑ عوام کے شعور کی توہین نہیں کی جا سکتی ۔ ان کا شعور کہتا ہے کہ کسی ایک پارٹی کا کام نہیں ، سب کو مل کر ملک کو اس بھنور سے نکالنا ہے ۔ اس ملک کو ترقی دینی ہے پٹڑی پر چلانا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور دوسرا مسئلہ معیشت کا ہے ۔ ان دونوں کو ہم نے سیدھا کرنا ہے اگر امن و امان ہو گا تو سرمایہ کاری ہو گی ۔ صنعتیں لگیں گی ،لوگوں کو روز گار ملے گا جب سیاسی استحکام ہو گا تو معاشی استحکام بھی ہو گا ۔ انشاء اللہ ہماری اتحادی حکومت ان دونوں کی طرف زیادہ توجہ کررہے ہیں ہم ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں ۔اگر ہم نے ووٹ حاصل کیے بھی تو 73کے آئین کی بحالی کے لئے کیے حاصل ہیں ۔ اداروں کے استحکام کے لئے حاصل کیے ہیں انشاء اللہ قوم کو مایوس نہیں کریں گے ۔ جہاں آج ہمارا سر خوشی سے بلند ہے وہاں میری گردن اس شہر کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ۔ میں نے اس شہر میں ہوش سنبھالا ، یہاں زندگی کی اولین دوستیاں بنائیں یہیں میری تعلیم و تربیت ہوئی یہیں سے میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔ آج اس شہر میں وزیر اعظم کے طور پر عزم عوام کے درمیان موجود ہوں ۔ صوفیہ کرام کے شہر سے میر ی وابستگی ایسی ہے جیسے پرندے کی آشیانے سے ہوتی ہے ۔ یہ شہر میرے اندر بستا ہے میرا دل اس کے لئے دھڑکتا ہے ویسے تو میں بطور وزیر اعظم پورے ملک اور دھرتی کا مقروض ہوں اس ملک کے تمام عوام میرے لئے بہت معتبر ہیں لیکن میرے اپنے شہر کی مٹی کا قرض مجھ پر نسبتاً زیادہ ہے ۔خصوصاً ان لوگوں کا جنہوں نے مجھ جیتنے کے لئے ووٹ دیے میں اس قرض کو اتار نہیں سکتا میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس شہر کے اپنے خطے کے لئے جسے سرائیکی خطہ کہتے ہیں جو بڑے عرصے سے محرومیوں اور حکمرانوں کی نا انصافیوں کا شعار رہا ہے اس کی ترقی کے لئے میں ہر ممکن کوشش کروں گا ۔ ملتان انسانی تاریخ کا ایک قدیم ترین شہر ہے میرے خیال میں دمشق اور پھر ملتان کا موازنہ کیا جا تا ہے 5ہزار سال کی ان کی تہذیب میں اس شہر کی ثقافت تہذیب اور تمدن اور بود و باش کے لئے اقدامات کرنا چاہتا ہوں ایسے اقدامات جو ہماری اصلی شناخت ہمیں بخشیں ۔ ہمارے قومی اور علاقائی تشخص کی بنیاد بنیں ۔ وزیر اعظم پاکستان ملتان ترقیاتی پیکج مورخہ 4مئی 2008 کے حوالے میں سب آج ملتان کے لئے ایک خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان کررہا ہوں اس پیکج میں سڑکوں ائیر پورٹ ، واٹر سپلائی سیوریج ،تعلیم ، صحت ، ہاؤسنگ ،سپورٹس و پبلک پارک قومی ورثہ اور شہری تحفظ اربن کنور سیشن سے متعلقہ منصوبہ جات شامل ہیں تمام منصوبے 5سال کے اندر مکمل کیے جائیں گے ۔ نئے منصوبوں کی فزیبلٹی ڈیزائن اور تخمینہ نیسپاک و متعلقہ محکموں اور عوامی نمائندوں کی مشاورت سے تیار کرے گی پیکج کا مکمل حجم ماہرین کنسلٹن کے تخمینہ جات تیار کرنے پر سامنے آئے گا ۔ پیکج میں شامل ملتان وزیراعظم نے کہا کہ بیرونی و اندرونی رنگ روڈ کے علاوہ دیگر سڑکیں بھی سکیم میں شامل ہوں گی جن پر کام فوری طورپر شروع کیا جائے گا وزیر اعظم نے ملتان کے لیے بہت سے ترقیاتی اورسڑکوں کی تعمیر کا اعلان کیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان منصوبوں کے لیے رقم مرحلہ وار فراہم کی جائے گی ۔ وزیراعظم نے ملتان ائیر پورٹ کو عالمی معیار کا بنانے کا بھی اعلان کیا ۔ خواتین یونیورسٹی کے قیام کے منصوبے پر کام جولائی 2008 ء سے کام شروع ہو جائے گا اور سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی چک 14 فیض ملتان بہاولپور سول روڈ پر کام کی جائے گی جس پر کام جولائی 2008 ء سے شروع ہوجائے گا۔ کیڈت کالج پانچ خواتین اور دو بوائز کالج بھی قائم کیے جائیں گے۔وزیراعظم نے خواتین کالج ملتان کے لیے پندرہ بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا ۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم بھی شروع کی جائے گی ۔ لائبریریوں کو جدید بنانے کا کام بھی شروع کیا جائیگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملتان کو قومی ورثہ بھی بنایا جائے گا۔ بجلی کی فراہمی کے لیے بھی منصوبے شروع کیے جائیں گے وزیراعظم نے کہا کہ ہڑتال کرنے والے گرفتار یا پارٹیوں کے ورکروں کو بھی چھوڑنا کا اعلان کیا گیاہے ۔ ملتان کو صحت کا ماڈل ضلع بنانے کے لیے بھی کام جون سے شروع ہو جائے گا۔ بنیادی صحت کے یونٹوں کو ڈاکٹر اور ادویات مہیا کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو صحت کی جدید سہولیات دی جا سکیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں اس پیکج پر عملدر آمد کے اپنی ذاتی نگرانی کو یقینی بناؤں گا اس کے لئے کمیٹی بنائی جارہی ہے جس کا سربراہ میں خود ہوں گا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کینسر ہسپتال کو بھی اپ گریڈ کرنے کا اعلان کرتا ہوں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تاخیر سے پیکج کا اعلان کرنے پر میں معذرت چاہتا ہوں ۔ ایک سوال پر وزیر اعظم نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے بھی خصوصی پیکج ا اعلان کیا جائے گا ۔ وزیر اعظم بیت اللہ محسود کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ ہم کسی دہشت گرد کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں ہم صرف ان سے مذاکرات کریں گے جو ہتھیار پھینک دیں گے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنی بہتر حکمت عملی سے تمام بحرانوں پر قابو پالیں گے ۔ صدر کی رخصتی کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ تمام معاملات پارلیمنٹ طے کرے گی ۔ گندم کی قیمت کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا چونکہ گندم سندھ سے آئی تھی اس کے سندھی بھائیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے گندم کی قیمت بڑھائی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے مزید گندم درآمد کی جائے گی ۔

پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ نہیں بننے دیں گے ‘ سید یوسف رضا گیلانی



آئین کی پاسداری کے عوامی مینڈیٹ کو کسی صورت ٹھیس نہیں پہنچنے دیں گےاداروں کو مضبوط اور ان کے اختیارات میں توازن پیدا کریں گےمہنگائی کے ایک بڑے جن کا سامنا ہے ‘ غلط پالیسیوں نے بحرانوں کو جنم دیاغربت اور کمزور طبقات کی فلاح و بہبود پسماندگی کا خاتمہ اولین ترجیح ہےوزیر اعظم کا ملتان میں مستحق طلبا و طالبات میں چیکوں کی تقسیم تقریب سے خطاب

ملتان ۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکمران اتحاد کو آئین کی پاسداری کا مینڈیٹ ملا ہے ۔ آئین کی حفاظت کرتے ہوئے اداروں کو مضبوط کیا جائے گا ۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کو ربڑ سٹیمپ نہیں بننے دیں گے ۔ اختیارات میں توازن پیدا کریں گے ۔ محروم کمزور پسماندہ طبقات کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے انقلابی اقدامات کئے جائیں گے اس مقصد کے لئے وزیر اعظم نے فوڈ سپورٹ پروگرام کی رقم 4 ارب 38 کروڑ سے بڑھا کر 6 ارب روپے وفاق کی سطح پر کیش گرانٹ پروگرام اور تحصیل کی سطح پر خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے وویمن ڈویلپمنٹ مذاکرات کے قیام کے اعلانات کئے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو اپنے آبائی شہر ملتان میں مستحق طلبا و طالبات میں امدادی چیکوں کی تقسیم کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔مجموعی طور پر 9کروڑ مالیت کے چیک تقسیم کیے گئے ۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو منقسم مینڈیٹ ملا کوئی سیاسی جماعت تنہا حکومت نہیں بنا سکتی تھی تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر حکومت کی تشکیل ہو ئی ۔ بحرانوں سے نکالنے کے لئے سب کی مشاورت اور اتحاد میں لے رہے ہیں ۔ اتحاد قائم کیا ‘ سیاسی جماعتیں آزاد ارکان ‘ فاٹا کو نمائندگی دی گئی ۔ کوشش کی سب کو ساتھ لے چلیں ۔ نوجوانوں عوام ‘ بزرگوں ‘ خواتین کو یقین دلانا چاہتا ہوں ہماری نیت صاف ہے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں جس دن وزیرعاظم بنا میں نے کہا کہ آج سے مخدوم نہ کہا جائے ہم عوم کے خادم ہیں ۔ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں ۔ ملک باگ دوڑ سنبھال لی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 1973 ء کے متفقہ قابل قبول آئین جو ذوالفقارعلی بھٹو نے دیا تھا اس کی پاسداری ہماری ذمہ داری اور فرض ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام نے آئین کی حفاظت کا مینڈ یٹ دیا ہے ۔ وفاق کو آئین نے قائم رکھا ہوا ہے ۔ بنگلہ دیش کے قیام کے وقت چھوٹے صوبوں سے احساس محرومی ا ور پاکستان آئین کے خلاف بات ہوتی تھی ۔ ذواالفقارعلی بھٹو نے کہ کہ ایک ایوان نہیں ہو گا۔قومی اسمبلی سینٹ قائم ہو گا ۔ سینٹ میں چاروں اکائیوں کی نمائندگی ہو گی ۔ سینٹ کے بغیر قانون سازی نہیں ہو سکتی چاہے قومی اسمبلی کو دو تہائی اکثریت کیوں حاصل نہ ہو ۔ آئین کی حفاظت کے لیے کوشاں رہیں گے انہوں نے کہا کہ عوام سے وعدہ کرتے ہیں آئین کی حفاظت کریں گے اور اداروں کا تحفظ کریں گے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کریں گے سینٹ قومی اسمبلی کو کو ربڑ سٹیمپ نہیں بننے دیں گے اختیارات توازن قائم کریں گے۔ صحافت کو آزاد کریں گے ۔ میڈیا کی اطلاعات تک رسائی ہو گی عدلیہ کو آزاد کریں گے تاکہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جا سکے ۔ عوام کو سستا انصاف مل جائے تو سولہ کروڑ عوام کو فائدہ ہو گا۔ جس ملک میں انصاف مل رہا ہو ۔ وہ جنگیں نہیں ہارتے ۔ حکومت کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے عوام آگاہ ہیں کہ بحران ایک دن مین حل نہیں ہو سکتے ۔ بے نظیر بھٹو حکومت نے بجلی کے لیے وہ وہ حکومت ہے جو ساٹھ سالوں مین نہ اٹھائے گئے عوام نے حکومت دی ہے آنکھیں بند نہیں کریں گے مسائل ورثے ملے ہیں یہ ذمہ داری پوری کریں گے ۔ صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہیں جس معاشرے میں متوسط طبقے خم ہو جائیں اس ملک میں انقلاب آجاتا ہے زیادہ سے زیادہ متوسط طبقہ پیدا کیا جائے تاکہ معاشرے میں توازن ہو ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے امیر ‘ امیر تر غریب غریب تر ہو رہا ہے ۔81 فیصد عوام صحت ‘ تعلیم ‘ رہائش اور دیگر بنیادی سہولتوں سے مہروم ہیں ۔ یہی طبقہ بے روزگاری اور مہنگائی ‘ قدرتی آفات سے براہ راست متاثر ہوتا ہے ۔ مہنگائی کے ایک بڑے جن کا سامنا ہے گزشتہ سالوں میں 53 بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں 12.2 فیصد کی شرح اضافہ ہوا ۔ مہنگائی کی رفتار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ غریب عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ آگے بجلی اور پانی کے بحرانوں سے معاشرے میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ یہ صورت حال بہت بڑی چیلنج تھی حکومت نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے بحران راتوں رات ختم نہیں ہو سکتے طویل عرصے کی ناقص پالیسی کار فرما ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے مسائل کو حل کے لیے پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتوں کو منتخب کیا ہے ۔ قوم کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ غیر منصفانہ پالیسیاں نہیں ہوں گی ۔ غربت کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیحات کا اہم حصہ ہے ۔ غربت سے نمٹنے کے لیے عام آدمی کو صحت ‘ تعلیم ‘ فنی تربیت کی سہولتیں فراہم کریں گے سماجی انصاف کے ذریعے ترقی کے یکساں مواقع موجود ہوں گے۔بے روزگاروں کو روزگار دیں گے۔ بے گھر کو چھت فراہم کریںگے۔ ناخواندہ افراد کو لکھنے پڑھنے کی سہولتیں دیں گے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنے کے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی بڑی مقدار دیہاتوں میں رہتی ہے ۔ دیہی علاقوں میں معاشی استحکام کو یقینی بنایا جائے گا۔ تاکہ اس آبادی میں روزگار کے مواقع میں خاطر خواہ اضافہ ہو ۔وزیراعظم نے کہا کہ غریب طبقات کی فلاح و بہبود حکومتی ترجیحات میں شامل ہے ۔ نوجوانوں کو ہر میدان میں فنی تعلیم دیں گے تاکہ انہیں باعزت روزگار حاصل ہو سکے ۔ بیت المال کے نظام کو مزید مضبوط اور موثر بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارے غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ صحت تعلیم کے حوالے سے گزشتہ سال 7500 ملین روپے فراہم کیے گئے سماجی تحفظ ہماری ذمہ داری ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ فوڈ سپورٹ پروگرام کے فنڈز کو 4.38 ارب روپے سے ڑھا کر 6 ارب روپے کردیا گیا ہے ۔انہوں نے نشتر میڈیکل کالج کے 500طلبا کو وظائف، کینسر اور یرقان کے مریضوں کے مفت علاج کے اعلانات بھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کمزور طبقات کی مالی امداد کی جائے گی تاکہ یہ معاشرے کا مفید شہری بن سکیں انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلے مرحلے میں وفاقی سطح پر کیش گرانٹ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جبکہ اگلے مرحلے میں صوبوں اور مقامی حکومتوں تک توسیع دی جائے گی انہوں نے وفاق اور پنجاب حکومت کی شراکت سے 90 ک روڑ روپے کی لاگت سے جناح برن سنٹر کی تعمیر کو خوش آئند قرار دیا ۔ وزیراعظم نے پاکستان بیت المال کے ذریعے گردوں کے مریضوں کے لیے دو ڈائیلس سنٹر زکے قیام کا اعلان کیا ۔ انہوں نے اعلان کیا تحصیل کی سطح پر خواتین کو باخاتیرا بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے وویمن ڈویلپمنٹ کے قیام کا اعلان کیا ۔

اتحادی جماعتوں میں دراڑیں نہیں ڈالی جا سکتیں ۔نواز شریف



لندن ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے لئے پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ بھوربن پر عمل درآمد ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں میں اتحاد بہت مضبوط ہے اور سازشی امن میں انشاء اللہ دراڑ نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ اگر یہ اتحاد ٹوٹ گیا تو اس کا فائدہ آمریت کو ہو گا ۔ یہاں ایک نجی ٹی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ججوں کی بحالی کا براہ راست تعلق پاکستان کی بقاء سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جس ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہو گی وہاں کمے عوام کو تحفظ روز گار حاصل نہیں ہو سکتا ۔ نواز شریف نے کہا کہ ججوں کی بحالی اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں ۔ جس ملک میں عدلیہ آزاد نہ ہو وہاں کا نظم ونسق بہتر طریقے سے نہیں چل سکتا ۔ اس ملک میں نہ انصاف ہوتا ہے نہ امن قائم ہو سکتا ہے نہ بے روزگاری اور غربت ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی آمریت کی حکمرانی ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام چیزیں آزاد عدلیہ سے منسلک ہیں اور پاکستان میں آزاد عدلیہ پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ 3نومبر کے اقدامات کو ختم کرانے کی کوشش کرے ۔ انہوں نے کہا آج تک کسی ملک میں اس طرح کا اقدام نہیں ہوا کہ ایک فوجی سربراہ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نکال باہر کیا اور بعد میں گھر میں قید کردیا ۔ نواز شریف نے کہا کہ ججوں کی بحالی ایک اولین ترجیح ہے اور جج بحال ہوں گے تو ملک کی گاڑی آگے چلے گی

١٢ مئی کو ججز کی بحالی کا امکان نہیں ہے ، موجودہ اور معزول دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے ۔ مولانا فضل الرحمان


عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو دنوں میں بند کرکے دونوں بڑی جماعتوں نے سیاسی غلطی کی ہےموجودہ اور معزول دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے کوئی فرق نہیں پڑے گاججز کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے اور فوج اور سیاستدانوں کی حمایت کا تاثر درست نہیں ہےامریکہ نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے اسے پاکستان پر دباؤ کا حق اور اختیار حاصل نہیں ہو گاجمعیت علماء اسلام (ف ) کے سربراہ کی جے ٹی آئی کی شوریٰ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد ۔ جمعیت علماء اسلام (ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 12مئی کو ججز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ موجودہ اور معزول دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے ۔30دنوں میں عدلیہ کی بحالی کا جو ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا وہ 10دنوں میں کیسے حاصل ہو گا ۔ آئینی و قانونی مسائل کے حل کے لئے دن مقرر نہیں کرنے چاہیں ۔ نواز شریف کی ا نتخابات سے بائیکاٹ اور ان کے وفاقی وزاراء کے صدر پرویز مشرف سے حلف کے معاملے پر قلابازیوں اور یو ٹرن کو بھی اجاگر ہونا چاہیے ۔ سی ٹی بی ٹی کی پر امریکہ نے دستخط نہیں کیے اسے پاکستان پر دباؤ کا حق اور اختیار حاصل نہیں ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو اسلام آباد میں جمعیت طلبا اسلام کی مرکزی مجلس شوری سے خطاب کے بعد پولیس کانفرنس سے خطاب کرتے ہؤے کیا ۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبد الغفور حیدری بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ مولانا فضل الرحمان جے یو آئی کی شوریٰ کے فیصلوں کے حوالے سے 13،14،15اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور پر ملگیر طلبا کنونشن اور مفتی محمود کانفرنس کے انعقاد کی اعلان کیا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طلباء یونیز کے انتخابات کے حوالے سے حکومت طلباء تنظیموں کو کو اعتماد میں لیں ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ طلبا یونیز کے ذریعے طلبا کے منتخب نمائندوں کو تعلیمی نظام کی مدد رنی چاہیے ۔ اپنے اداروں کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہیں ۔ تعلیمی اداروں کو جنگ و جدل اور نعرہ بازی کا میدان نہ بنایا جائے ۔ طلبہ یونینز کے انتخابات سے طلبا میں فیصلہ سازی کی قوت بڑھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کی شوریٰ میں طالبات کی تنظیمیں قائم کی تجویز کا بھی جائزہ لیا گیا موجودہ ماحول سے کیسے الگ تھلگ رہے سکتے ہیں ۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذاکرات اور مشاورت کے لئے دونوں بڑی جماعتوں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اس پر ہمیں تحفظات ہیں ۔ 30دنوں میں ججز کو بحال نہ کیا جا سکا 10دنوں میں یہ ہدف کیسے حاصل ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ اہم آئینی اور قانونی معاملات کو دنوں میں بند نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ درست سیاسی انداز نہیں ہے ۔10دنوں میں معاملے کو بند کرنا سیاسی غلطی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان پر سی ٹی بی ٹی اور این پی ٹی کے حوالے سے بیرونی دباؤ کی مذمت کی اور کہا کہ عالمی قوتیں پسماندہ ممالک کو عالمی معاہدات کے شکنجے میں جکڑنا چاہتی ہیں جو کہ قوموں کی آزادی و خود مختاری کے منافی ہے ۔ داخلی اقتدار اعلیٰ کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے خود سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے وہ کس طرح پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہمارے لیے قابل احترام ہے جب ریفرنس کا معاملہ اٹھا تو پوری قوم سڑکوں پر بھی کی یہ نا انصافی ہوئی تھی ۔ لیکن جب پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کی بات کی جاتی ہے تو میثاق جمہویرت کو کیوں فراموش کردیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسے اس انداز میں بھلا دیا جائے گا ۔ اس کا ہم شعو ر بھی نہیں کر سکتے ۔ موقع پرستی نہیں ہونی چاہیے ۔ معاملات کو اصول کے تابع ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ججز کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ فلاں ججز آئے اور فلاں ججز کسی اور کے حامی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے تو یہی تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ کہ کچھ ججز کی پشت پر فوج کچھ کو سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں یہ دو تاثر پائے جاتے ہیں کہ یا تو دونوں ججز کو باقی رکھنا چاہیے یا معزول اور موجود دنوں کو فارغ ہونا چاہیے ہم یہی کہتے ہیں کہ معزول اور موجودہ دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے ۔ آئینی اور قانونی معاملات کا ماہرین ہی حل تجویز کر سکتے ہیں ۔ طاہر کوئی قانونی اور آئینی رکاوٹیں ہو نگی تو اسے کے لئے آئینی پیکج آئے گا ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ دونوں بڑی جماعتوں نے کرنا ہے ۔ ہم نے اپنی پارلیمانی طاقت اورحجم کے مطابق بات کرنی ہے ۔ صدر کے بارے میں طاقتور جماعتو ں کی بات سامنے آنے پر بات کر سکیں گے تاہم ملک کو آمریت سے پاک کرنے اور جمہوریت کے ہدف کو مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا جا تا ہے ۔ مرحلہ وار آگے بڑھنا ہو گا ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 12مئی کو ججز بحال ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی اور قانونی تنازعات کے لیے عوامل کو بھی دور کرنا ضروری ہے اگر آج وقتی طور پر فیصلے کو حل کرلیا گیا کل کو بھی اس طرح کی مشکل آئی تو کیا ہو گا ۔ معاملات کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا تاکہ آئندہ یہ بحران پیدا نہ ہوں ۔ اختیارات میں عدم توازن نہ ہو۔ اور اختیارات کا غلط اور نا جائز استعمال نہ کیا جائے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 17ویں ترمیم پر ہم نے معاہدہ کیا تو ہمیں طعنے دئیے گئے ۔ آج 17ویں ترمیم کو برقرار رکھنے کی بات کیوں کی جارہی ہے اور صرف اپنی پسند کی شق لانے کی باتیں گردش کررہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو اسے جرات مندانہ اقدام قراردیا اسے واپس یا تو دانشورانہ فیصلہ قرار دیا گیا ۔ نواز شریف نے وزراء کے صدر مشرف سے حلف نہ لینے کی بات کی تو اس جرات مندی قرار دیا گیا ۔ ان کے وزراء کی جانب سے حلف لے لیا گیا تو اس دانشمندی قرار دیا گیا ۔ میڈیا نواز شریف کی پلابازیوں اور یو ٹرن کو اجاگر کیوں نہیں کرتا ۔ یہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہے غریب اور پسماندہ ملا کی اذان پر بھی کلمہ پڑھ لینا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان اور قطر کے درمیان رواں سال ٣٠ ہزار پاکستانیوں کو روزگار کیلئے قطر بھیجنے کا معاہدہ طے پا گیا



مختلف اداروں سے جبری طورپر نکالے گئے ملازمین کو بحال کرنے کے بعد مراعات کے ساتھ ریٹائرمنٹ دیں گے۔ سید خورشید شاہ
تمام اداروں سے یونین سازی پر پابندی ختم کریں گے ‘ بجٹ میں محنت کشوں کا خصوصی خیال رکھا جائے گا
وفاقی وزیر محنت وافرادی قوت و سمندر پار پاکستانیز کے مفاہتی یادداشت پر دستخط و پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات میں گفتگو

اسلام آباد ۔ محنت و افرادی قوت و سمندر پار پاکستانیز کے وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ اس سال کے دوران 30 ہزار پاکستانی ہنر مند افراد قطر اور پاکستان کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر اسلام آباد میں آج دستخط کیے گئے ۔ یادداشت پر پاکستان کی طرف سے محنت و افرادی قوت و سمندر پار پاکستانیوں کے وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے قطر کے وزیر نے دستخط کیے ۔ معاہدے کے مطابق اس سال تیس ہزار ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد قطر بھیجے جائیں گے افرادی قوت کے حوالے سے پاکستان اور قطر کے درمیان 1987 ء میں معاہدہ ہوا تھا بعدازاں ٹیکسلا و اہ کینٹ کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ مختلف اداروں سے جبری طورپ ر نکالے گئے محنت کشوں کو بحال کیا جائے گا یا پھر مکمل مراعات کے ساتھ ریٹائرمنٹ دی جائے گی ۔ وفد میں پیپلزپارٹی تحصیل ٹیکسلا کے صدر ملک نجیب الرحمان ارشد ‘ راجہ محمد خسرو ‘ سید ضیاء حسین شاہ ‘ ذوالفقار علی جنجوعہ ‘ راجہ مشتاق احمد ‘ وسیم احمد خان ‘ میر جاوید ‘ توفیق حسین شاہ ‘ منطور حسین شاہ ‘ مسعود خان خٹک ‘ شاہ محمد اور ملک ابراہیم شامل تھے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ پی او ایف ‘ ایچ آئی ٹی اور ایچ ایم سی سمیت دیگر قومی اداروں سے نکالے گئے ملازمین کی بحالی ‘ کنٹریکٹ اور ملازمین کی منتقلی سمیت بہت جلد ایک مراعاتی پیکج تیار کیا جائے گا گزشتہ دور میں استحصال کا شکار ہونے و الے ملازمین کو خصوصی مراعات دی جائیں گی نیز بجٹ میں محنت کشوں کا خصوصی خیال رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جن اداروں میں یونین سازی پر پابندی عائد ہے اسے ختم کیا جائے گا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی ٹیکسلا سٹی کے صدر سید ضیاء حسین شاہ نے وفاقی وزیر کو دورہ ٹیکسلا کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور بتایا کہ وہ بارہ مئی کو سعودی عرب کے دوررے سے واپسی کے بعد ٹیکسلا واہ کینٹ کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک نازک حالات سے گزرر ہا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کی جرات مندانہ قیادت میں عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کی پہلی ترجیح مہنگائی پر قابو پانا ‘ بے روزگاری کا خاتمہ کرنا اور محنت کشوں کو مراعات دینا ہے

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد مسلم کش فسادات مقدمے کا فیصلہ سنا دیا


نئی دہلی ۔ بھارت میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کے دوران قتل کے ایک مقدمے میں 5 افراد کی سزا کی توثیق کے بارے میں منقسم فیصلہ دیا ہے ۔ ایک جج نے اقلیتوں کے خلاف ملکی پولیس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے 5 ملزمان کی عمر قید کی سزا کی توثیق کی جبکہ دوسرے جج نے پانچویں ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا ۔ ملزموں کو ٹرائل کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے ایک ہفتے کے بعد 14 دسمبر 1992 ء کو آسام میں ایک مسلمان خاتون اور اس کی دو کمسن بیٹیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں سزا سنائی تھی ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے ایک معاملے کا فیصلہ کرتے وقت سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلاف پیدا ہو گیا جس کے بعد اس معاملے کو چیف جسٹس کے سپرد کر دیا گیا ۔ یہ اختلاف جسٹس ایس بی سنہا اور جسٹس ایچ ایس بیدی کے درمیان فسادات کے دوران ایک قتل کے معاملے کے 5 ملزمین کو بری کئے جانے اور مجرم قرار دیئے جانے پر ہوا ایک طرف جہاں جسٹس ایس بی سنہا نے 5 ملزمان کو بری کئے جانے کا حق میں فیصلہ سنایا وہیں دوسری جانب ایچ ایس بیدی نے پولیس مشنری پر ’’ اقلیت مخالف ‘‘ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ملزم ہریندر سرکار سمیت 5 ملزمان کی عمر قید کی سزا پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ واضح رہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم کش فسادات کے دوران آسام کے ڈبو کا ضلع کے چنگمازی پٹھار گاؤں میں ساحرہ خاتون اور ان کی 2 کمسن بچیوں بملا خاتون ( 3 سال ) اورہاجرہ خاتون ( 7 سال ) کو قتل کر دیا گیا تھا ذیلی عدالت نے اس قتل کے 5 ملزمان کو مجرم ٹھہرایا تھا ۔ جس کے خلاف ملزمان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جسٹس بیدی نے فیصلہ سناتے وقت پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام لگایا کہ وہ فرقہ وارانہ معاملات میں ’’ اقلیت مخالف ‘‘ ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فی الحقیقت یہ بڑی المناک بات ہے کہ فسادات کو روکنے کے لئے درجنوں مشٰرے دیئے گئے اور بے انتہا کاغذات برباد کئے گئے مگر مختلف وجوہات کی بناء پر یہ کینسر پھیلتا ہی جا رہا ہے انہوں نے متعدد کمیشنوں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام کمیشنوں کی رپورٹ میں یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پولیس اس بلا سے نمٹنے میں ناکام رہی ۔ جسٹس بیدی نے مزید کہا کہ مقامی سطح پر بڑی شخصیات کے ذریعہ نامی غنڈوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے دینے کا تشویشناک رحجان پیدا ہو رہا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پولیس اس معاملے میں پوری طرح الزامات سے پاک نہیں ہے ‘‘ انہو نے عرضی گزاروں کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ انہیں غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے ۔ ذیلی عدالت نے ملزمان کو ساحرہ کے شوہر اور واقعے کے چشم دید گواہ محمد طاہر الدین کی گواہی کی بنیاد پر مجرم ٹھہرایا تھا دوسری جانب جسٹس سنہا نے ملزمان کو بری کئے جانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایف آئی آر درج کئے جانے میں کافی تاخیر ہو گئی تھی اور اصل ملزم کوبری کر دیا گیا ہے اس لئے دیگر ملزمان کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔

عراق، فضائی حملے ، بم دھماکے اور جھڑپوں میں ٤ امریکی فوجیوں سمیت ٢٠ افراد ہلاک ،٤٥ زخمی


بغداد ۔ عراق میں بم دھماکوں اور جھڑپوں کے دوران 4امریکی فوجیوں سمیت 20افراد ہلاک اور 45زخمی ہو گئے ۔ بغداد سے امریکی فوج کے جاری کردہ بیان کے مطابق صدر سٹی میں امریکہ اور عراق کی فوج نے زمینی اور فضائی حملوں میں 14مزاحمت کاروں کو ہلاک کردیا ۔ ہسپتال حکام نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کہ اسی دوران 25افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ صدر سٹی میں واقع ایک ہسپتال کے نزدیک امریکی فوج کی جانب سے میزائل حملے میں 20افراد زخمی ہو گئے جبکہ ہسپتال کی گاڑیوں کو بجلی نے نقصان پہنچا ۔ دوسری جانب امریکی فوجی ترجمان نے بغداد سے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ الابنار میں سڑک کنارے بم دھماکے میں اس کے 4فوجی ہلاک ہو گئے ۔صدر سٹی پر ہونے والے امریکی فضائی حملے میں 2 افراد جاں بحق اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے ۔ امریکی فوج نے صدر سٹی میں واقع الصدر ہسپتال پر دو راکٹ فائر کئے زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ راکٹ حملوں سے ہسپتال میں کھڑی 11 ایمبولینس گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں ۔ امریکی فوج نے اس واقعہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں ان کے گھروں اور گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ ترکی کی فوج نے شمالی عراق میں فضائی حملوں کے ذریعہ 150سے زائد پی کے کے کرد باغیوں کو ہلاک کردیا ہے ۔ ترکی فوج نے ایک ویب سائیٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ اس نے اس مہم میں قندیل علاقہ میں پی کے کے باغیوں کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کردیا ہے ۔ باغیوں کے سرکردہ ارکان بھی مہلوکین میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ بیان کے مطابق 150سے زائد باغی ہلاک ہوئے ہیں اور فوجی مہم کا دہشت گردی تنظیم کے ارکان پر زبردست خوف چھا گیا ہے ۔

Government to take along coalition partners to confront all challenges; Gilani





ASSOCIATED PRESS SERVICE

MULTAN : Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani Sunday said the coalition government will take along all its partners to resolve the challengs confronting the country.Addressing a large gathering here at the Multan Public School to distribute cheques among the deserving for health, education and small business, worth around Rs 90 million, the Prime Minister vowed to protect all national institutions.
Prime Minister said that PPP’s founder-chairman Zulfikar Ali Bhutto founded a strong federal system in which Parliament and Constitution rule supreme and gave this nation a unanimous Constitution of 1973 which has kept the federation intact and it will be protected and upheld at all cost.
He said the federation today owes its strength to this constitution and pointed out that the the clause of amending the constitution through two-third majority was placed to ensure that all major decisions are taken with consensus and the rights of the small provinces are protected.
“Parliament will not be a mere rubber stamp and all institutions will be protected, while judiciary and media freedom will be ensured,” Gilani said. He said cheap justice at the door steps of the people will serve each and every person across the country and help make the country strong.
The Prime Minister quoted British Premier Churchill who had said if British courts are working independently then the country faces no danger.
He said the challenges being faced by the masses were not easy to address and will take time, but the Prime Minister vowed that these would be met.
“We would not blame the previous governments for all the prevailing ills. Now the people have given us the mandate and it is now our responsibility to tackle all the challenges with courage and determination to provide the best possible facilities to the people,” the Prime Minister said.
Owing to the large number of cheques, the Prime Minister handed over the cheques to heads of various departments. The money was distributed among 4000 recepients.
He said the PPP was given a split mandate in the Feb 18 elections and in the supreme national interest the party formed coalition governments at the centre and in the four provinces. He said these are broad-based dispensations.
He said it was the endeavour of the PPP government to take along all its coalition partners to serve the masses and address their long standing problems and meet their just demands.
Prime Minister Yousuf Raza Gilani said the government was currently facing numeous challenges in all areas, but the government was determined to address these through prudent policies. He cited end of poverty as his government’s top priority. Provision of employment was a key element of the planning of his government, he added.
He said around 25 percent of country’s population were living below the line of poverty, while 56 percent constituted the middle class, living at the threshold. He added that it was government’s endeavour to maintain balance by increasing the middle class. He said the government was endeavouring to bridge the divide between the rich and the poor.
He said the poor were suffering the most and the government was helping them through Pakistan Baitul Mal.
The Prime Minister said 85 percent of the people did not have full access to health and education and can be termed as the most vulnerable sections of the society.
He said for health and education sector the Pakistan Baitul Mal has provided 7.500 million which were being given to 2.5 million people, while the allocation for food support program has been increased to rupees six billion, while under the child support program free uniform, books and and food will be provided to encourage them to get education, and Rs 150 million has been allocated for the Jinnah burn centre.
Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani appreciated the Managing Director of Pakistan Baitul Mal Brig. Sarfraz and his entire team for the good work done to help the needy. He also noted the computerisation of the PBM which has also been appreciated by the United Nations.
He said Rs 30,000 will be provided to 1000 students of Bahauddin university, along with 500 students from Nishtar medical college. He said 120 children will be provided free education, books, uniform and Rs 300 per month to encourage them to study in the labour colony.
Multan will also have a diagnostic centre, while free treatment will be provided to patients suffering from Hepatitis and cancer and two dialysis centres will be established with the cooperation of NGOs, he said adding, at the Tehsil level centres will be setup for women trainings in various fields.
The Prime Minister pointed that 53 items have shown an increase of 12.2 percent in their prices and was continuing to increase. He said this was a strong cause of concern in the society about the shortage of electricity and gas and rising prices of everyday commodities.
He addded that these crisis were not created overnight but were the result of wrong policies that have created this situation. However, he said the government was in the process of taking steps to improve the situation, as the nation has reposed confidence on the new leadership.
He said vocational training was being provided to the people so that they may turn out to be useful citizens of the society and contribute to the national economy.
Brig. (Retd) Mohd Sarfraz MD Pakistan Baitul Mal informed the Prime Minister about the various schemes of Baitul Mal and how it was helping the various segments of the society by providing assistance to the needy through free medical treatment, education scholarships and small loans.
Governor Punjab Lt Gen (Retd) Khalid Maqbool said poverty was a big impediment and damaged the will and determination to progress. He said it was the responsibility of a true Islamic welfare state to provide the necessary funds to help people stand on their feet and live their livelihood in a respectable manner.
He cited in detail the various steps the Punjab government has taken to help the needy and those with little resources to provide them health, education, vocational training and funds to set up their own business.

مکتوب ڈسکہ مرزا عبد القیوم ڈسکہ



شدید گرمی کے باعث ڈسکہ بھر میں آشوب چشم کی وباءپھیلنے کے ساتھ بچے بڑے ہیضہ، دست کا شکار ہو گئے تفصیل کے

مطابق گرمی میں شدت آنے کے بعدڈسکہ بھر کے متعدد شہری آشوب چشم میں مبتلا ہو گئے جسکی وجہ سے عینکوں کی خریداری میں اضافہ ہوگیا اور ڈسکہ کے فٹ پاتھوں پر لگے سٹالوں پر عینکوں کی قیمتوں میں ہوشرباءاضافہ کر دیا گیا مین بازار ڈسکہ میں خریداری کی غرض سے آئے شہریوں و دیہاتیوں اسلم ، شہباز، نعمان ، شازیہ بی بی ، عارف، تصدق بی بی نے بتایا کہ گرمی کے باعث لوگ آشوب چشم کا شکار تو ہوئے ہی ہیں مگر شہری بالخصوص بچے اور خواتین ہیضے اور دست کا بھی شکار ہو رہے ہیں جسکے لئے کوئی حفاظتی انتظام نہیں کئے گئے انہوں نے بتایا کہ گھروں میں مچھروں کی بہتات ہو چکی ہے جسکے خاتمہ کےلئے کوئی سپرے نہیں کی جا رہی جسکی وجہ سے شہری مختلف موزی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ سینٹری اہلکار اپنے عزیزو اقارب اور دوست احباب کے گھروں اور محلوں میں سپرے کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ڈسکہ:گندم کی کٹائی کا مرحلہ تاحال جاری ہے ڈسکہ بھر کے کاشتکار گرمی میں شدت اور آئے روز فصلوں میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہونے کے بعد اپنی زمینوں میں کاشت تیار گندم کی کٹائی میں دن رات مصروف ہیں کئی بڑے زمینداروں نے آگ لگنے کے خوف سے اپنے کھیتوں پر پہرے لگا دیئے ہیں جب سے گندم کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا آج تک ڈسکہ کے نواحی علاقہ جات میں3سو ایکڑسے زائد گندم کی فصل آگ لگنے سے جل گئی جس کے نتیجہ میں کاشتکاروں کولاکھوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا گندم کی کٹائی کے بعد ڈسکہ شہر اور اسکے گردونواح کے مکینوں نے گندم کی زخیرہ اندوزی کے خدشہ کے پیش نظر ملوں کے باہر لائنوں میں لگ کر آٹا مہنگے داموں خریدنے سے بچنے کےلئے2،2سال کی گندم خرید کر جمع کر لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ڈسکہ: تھانہ سٹی ڈسکہ کے معطل ہونے والے ایس ایچ او آصف خاں کی جگہ تھانہ سٹی کی نگرانی سب انسپکٹر بشیر احمدکے ذمے آگئی ہے تا حال نئے ایس ایچ او کی تقرری نہیں ہو سکی۔ یادرہے ناقص کارکردگی کی بنیاد پر معطل کئے جانے والے ایس ایچ او آصف خاں بیگووالہ سے جبکہ ایس ایچ او اعظم ڈھلوں تھانہ ستراہ سے سمبڑیال میں تبدیل کئے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈسکہ:ٹریفک اصولوں کی خلاف وزری کرنے والے ڈرائیوروں کو قطعی طور پر رعائت نہیں دی جائے گی، سڑک پر نکلتے وقت اپنے کاغذات کامکمل رکھیں ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کرنے والے ہی ملک کے اصل خیر خواہ ہیں ان خیالات کا اظہار ہیڈ کانسٹیبلز ظہیر احمد، ہدائت اللہ نے کالج روڈ ڈسکہ پر ٹریفک پولیس کے دفتر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ چند لوگ انکے خلاف من گھڑت الزام تراشی کر رہے ہیں جو سرا سر زیادتی کے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

High waves kill eight on SKorean coast

SEOUL - Waves whipped up by sudden high winds swepteight people to their deaths while 14 went missing feared drowned a port on South Korea’s western coast, Yonhap news agency reported on Sunday.
A total of 27 people were rescued, it said. Storms and high winds caused waves to rise and hit the Yellow Sea port of Boryeong Namdo, 115 miles southwest of Seoul. Most of the victims were family vacationers with children.

Egypt to send intelligence chief to Israel

CAIRO - Egypt will send intelligence chief Omar Suleiman to Israel soon for talks on a truce deal Cairo hopes to seal between Israel and Palestinian militants, President Hosni Mubarak said on Sunday.
“I think the head of intelligence will travel there, but after the holiday celebrations in Israel. He will go to talk to the Israeli side,” Mubarak told reporters in remarks aired live on state television.
Mubarak did not give a specific date for the trip, but Israel marks Memorial Day on Wednesday and its 60th anniversary on Thursday.
Egypt has been trying to broker a truce between Palestinian militants and the Jewish state. Egyptian state media reported last week that Palestinian groups meeting in Cairo had agreed to a truce starting in the Hamas-controlled Gaza Strip.
But a number of Palestinian factions were equivocal in their support for a ceasefire, and some said they reserved the right to retaliate against Israeli attacks.
A senior Israeli official said on Thursday that Israel would likely agree to an informal truce in Gaza if cross-border rocket attacks and arms smuggling into the territory ended.
Egypt’s state news agency MENA has said the truce proposal is part of a broader plan that would eventually lead to the lifting of the blockade that Israel has imposed on Gaza since last June.
The plan includes attempts to reconcile the two biggest Palestinian groups -- the Hamas Islamists who control the Gaza Strip and President Mahmoud Abbas’s Fatah movement, which controls the Palestinian Authority from its base in the West Bank.
Israel has been targeting Hamas members in Gaza and the West Bank while Hamas and other groups have been firing crude rockets across the border into Israel. Each side says it is responding to attacks by the other.

Torch in mainland China gets thunderous welcome

SANYA, China - Thunderous applause and cheers greeted the Olympic torch on Sunday on the first leg of its marathon relay through mainland China after a protest-harried overseas journey.
“Go China,” people lining the streets chanted, waving Chinese flags as the flame made its way from a man-made island just off the tropical resort city of Sanya, on the southern tip of the island province of Hainan.
Some of the thousands who turned out climbed up trees to get a better view of the torch, which has already been paraded through the Chinese territories of Hong Kong and Macau to an overwhelmingly enthusiastic welcome.
“As the first stop for the torch relay in mainland China, we are very honoured and proud,” Sanya’s Communist Party boss, Jiang Zelin, told a carefully selected audience of dignitaries, celebrities and ordinary people, before the relay set off.
The torch ended its Sanya leg of its tour with Hong Kong-born action star Jackie Chan, running with a local resident, carrying the flame to a closing ceremony on a beachfront park.
A bold plan to take a special flame to the top of Mount Everest faced a possible setback at the weekend as snow fell on the world’s highest mountain.
The climbing team has been at 6,500 metres (21,300 feet) in advanced base camp or higher for at least three days, waiting for better weather to take the flame to the 8,848-metre (29,030-foot) peak and claim the crowning moment of a relay that was marred by anti-China protests on its round-the-world journey.
The demonstrations that dogged the main torch, which were mostly over China’s crackdown against protests in Tibet, deeply embarrassed Beijing and provoked retaliatory rallies at home and abroad by patriotic Chinese.
Talks with envoys for exiled Tibetan spiritual leader, the Dalai Lama, whom Beijing blames for inciting the Tibet protests, were scheduled to start in southern China on Sunday.
Some in the Hainan crowd wore nationalist T-shirts reading: ”Tibet was, is and will always be part of China”.
Others wore T-shirts emblazoned with the calligraphy of Chairman Mao Zedong: “A sea of red over the rivers and mountains of the motherland”.
“JOURNEY OF HARMONY”
Security in Sanya was low key but noticeable, with police speedboats patrolling offshore and officers helping marshal the crowds, where a carnival-like atmosphere prevailed.
The chances of any further disruption to the torch relay as it snakes its way through China ahead of August’s Beijing Games appeared remote.
“The sacred Olympic flame relay will have a ’Journey of Harmony’ through the land of China,” organisers said in a statement, using a Beijing-coined phrase to express a sentiment much lacking in cities like London, Paris and San Francisco.
Thoughts of Tibet and the problems that marred the global leg of the relay appeared to be far from the minds of the people who flocked to see the torch on Sunday.
“That we can reach the stage where we can hold the Olympics shows that we are a developed country which is becoming rich and powerful,” Wu Qi, 23, a teacher from Hainan, said.
Though the weather in Sanya was sunny and warm, meteorologists expect showers in the coming days across much of Hainan and relay organisers have prepared raincoats for the torch runners, a Website of state news agency Xinhua said.
Chinese Olympic speed skating gold medallist Yang Yang was the first person to carry the torch.
“It went too fast,” she told state television, having run just 200 metres, like the other torch bearers.
The torch was to be carried by 208 runners -- including businessmen, celebrities, athletes and “model” Communist Party members -- and run over a course featuring both beaches and coconut groves.
After Sanya it works its way up to provincial capital Haikou and then onto every province in China, including Tibet and the restive far western region of Xinjiang, where Beijing has accused al Qaeda of working with Muslim separatists.

More than 240 killed in Myanmar cyclone: govt

YANGON - More than 240 people were killed when cyclone Nargis tore through military-run Myanmar this weekend, an information ministry official said on Sunday.
“According to the latest information we have, altogether 19 people were killed in Yangon division and then about 222 people killed in Ayeyawaddy division,” the official told AFP.
Nargis made landfall around the mouth of the Ayeyawaddy (Irrawaddy) river, about 220 kilometres (137 miles) southwest of Yangon, late Friday before hitting the country’s economic hub of Yangon.
The cyclone ripped down power lines, battered buildings and left uprooted trees and other debris scattered across the streets of Yangon.
Five central and southern regions and states -- Yangon, Ayeyawaddy, Bago, Mon and Karen -- have been declared disaster areas, the official said.
Police and army have been deployed throughout the worst hits areas to start the clean-up operation.
The information ministry official said that seven empty boats had sunk in the country’s main port, while Yangon’s international airport was closed until further notice with flights diverted to the city of Mandalay.
The storm cut most electricity and telecommunications in the nation just a week before a crucial referendum on its new constitution, the first polling in Myanmar since general elections in 1990.

Brown Brown says he can recover from British poll debacle

LONDON - British Prime Minister Gordon Brown voiced confidence on Sunday that his Labour Party would recover from its worst local election defeat in 40 years and rejected suggestions he should resign.
As commentators warned that last week’s poll rout could spell the end for the Labour government at national elections due by 2010, he admitted mistakes but said the global economic slowdown was largely to blame for his party’s performance.
Starting his post-election fightback with an interview on BBC television, he said: “Of course we can recover from this position and I will tell you how.
“First of all by sorting out the immediate problem with the economy and showing people we can come through, as we have in the past, very difficult economic times.
“Secondly by showing people we have a vision of the future that will carry the country -- optimistically in my view -- into its next phase.
“The test of the leadership is how you deal with adversity,” Brown said.
He said Labour was putting “big building blocks” in place for the future, such as giving working families a fair deal and helping people buy their first home.
He said he was looking forward to taking the fight to the main opposition Conservative Party, who were the big winners in the elections in England and Wales, capped by the victory of the eccentric Boris Johnson in the London mayor race.
The local elections had amounted to a “referendum on Labour”, but when the country was faced with a general election and a clear choice between the Conservatives and Labour “it will be very clear that Labour is the party on the side of hard-working families,” Brown said.
He added: “If we are the underdog, we are certainly fighting and we are fighting hard.”
Asked if he would stand down less than a year since taking over from Tony Blair, Brown said: “I think it is time to get on with the job.
“I’m resolute and determined and I’ve got conviction and ideas and I’m not going to be put off by a few days’ headlines from the job that I’m determined to do for this country.”
He compared his predicament to Senator John McCain, who was written off in the US presidential election race last year but recovered to clinch the Republican Party nomination.
Brown conceded that rumours last year about him calling a snap general election before he decided against holding a vote had been damaging.
“I let speculation on the general election go on for too long and perhaps I spent too little time on getting our message across,” he said, adding he would now spend more time travelling the country to meet voters.
Responding to suggestions he came across as a distant person who played badly with the electorate, Brown said: “I think it’s true that I am a more private person in a public arena.
“Perhaps I have spent too much time... looking at the detail to solving people’s problems.
“But to solve people’s problems you have got to understand their problems.
“I come from a pretty ordinary background, we as a family felt the pinch when things were wrong, we as a family felt under pressure when the economy was going through difficult times.
“I understand what people are thinking and I understand what people are feeling and I believe that I’m the right person to take the country through these difficult times.”
The prime minister insisted he would not re-introduce the 10-pence tax rate, the scrapping of which has been pinpointed by senior Labour figures as a mistake.
Instead, the government would introduce measures to help low-income families and people aged 60 to 64, he said.
And he said he would press ahead with his plan to extend the period of detention without charge for terror suspects to 42 days -- a move which is likely to lead to another clash with Labour backbenchers.
“It’s the right thing for the country,” he said.

China seeking ‘positive outcome’ from Tibet talks

SHENZHEN, China - China’s president said he was hoping for “positive results” from talks with envoys of the Dalai Lama, which opened on Sunday, but state media kept up a barrage of attacks on Tibet’s exiled spiritual leader.
“(I) hope contacts this time will yield positive results,” China’s state news agency Xinhua quoted Hu Jintao as saying.
The fence-mending talks between Chinese officials and the two aides of the Dalai Lama, the first since an eruption of Tibetan protests and deadly riots in March, began behind closed doors in the city of Shenzhen, near Hong Kong.
The unrest, the most serious challenge to Chinese rule in the mountainous region for nearly two decades, prompted anti-China protests around the world that disrupted the international leg of the Olympic torch relay and led to calls for Western leaders to boycott August’s Beijing Games.
“When determining a person’s position, we must not only listen to what he says but also watch his deeds,” Hu told a group of Japanese reporters in Beijing ahead of his Japan visit.
“The door to dialogue has always been open. We sincerely hope the Dalai side can show through action that they have genuinely stopped separatist activities, stopped plots to incite violence and stopped to sabotage the Beijing Olympics,” Hu said.
These would “create conditions for the next round of dialogue”, Hu added.
Security was tight outside the Shenzhen state guest house where the talks were believed to have been held, and reporters were not allowed into the compound.
“The meeting took place this morning. It will continue tomorrow and possibly the day after ... We are expecting them back on the 7th or 8th (of May),” Tenzin Taklha, a senior aide to the Dalai Lama, told Reuters on Sunday.
“We hope the Chinese are serious about the talks and we are hopeful that the Chinese are willing to look into the problems in Tibet.”
Xinhua identified the Chinese negotiators as Zhu Weiqun and Sitar, both vice-ministers of the Communist Party’s United Front Work and responsible for winning over religious leaders and ethnic minorities.
Lodi Gyari and Kelsang Gyaltsen, the Dalai Lama’s representatives in Washington and Switzerland respectively, arrived in China on Saturday.
A commentary in the Tibet Daily, mouthpiece of the Tibet regional government, accused the Dalai Lama of being a “loyal tool of international anti-Chinese forces” and attempting to split Tibet from China.
EXPECTATIONS LOW
Some analysts said the repeated condemnations in the run-up to the talks suggested that China was in no mood to compromise following the riots in Tibet, which stoked Western criticism of its rule there.
The India-based Tibetan government-in-exile has said it ”can’t have great expectations” from the talks.
There have been six rounds of dialogue between China and the Dalai Lama’s envoys since 2002, with no breakthrough.
China proposed the latest talks last month after Western governments urged it to open new dialogue with the Dalai Lama, who says he wants a high level of autonomy, not independence, for the predominantly Buddhist Himalayan homeland he fled in 1959.
The Dalai Lama also says that he objects to violence and supports the Beijing Olympics. China says he is insincere.
China says the rioting in Tibet’s capital, Lhasa, in March killed 18 “innocent civilians” and a police officer. It has not specified how many, if any, protesters have died but says troops used maximum restraint and avoided using lethal weapons.
Exiled groups say many more Tibetans have died in a crackdown on rioters. The government-in-exile estimated last week that 203 Tibetans might have died in the unrest since March 10.

Georgia calls on UN to check Russian presence in Abkhazia

MOSCOW - Georgia has called on the United Nations to send more observers to the separatist Georgian region of Abkhazia to check on the increase in Russian troops there, a parliamentary spokesman said Saturday.
"We have serious suspicions that there have been violations," said Nika Sturoua the vice-president of the defence and security committee, the Interfax news agency reported.
Sturova said they believed that Moscow had exceeded the quota of troops allowed for its contingent in the pro-Russian province and that "illegal weapons" had been deployed there.
Sturovas said that the UN was going to send extra observers to check on the weapons displayed, he added.
Extra Russian troops deployed Thursday in Abkhazia, despite objections from Georgia, which denounced the move as a "dangerous escalation."
The development sparked expressions of concern from the United Nations, the European Union and US Secretary of State Condoleezza Rice.
Russia already had a force of more than 2,000 stationed there as part of an agreement ending the armed conflict in the early 1990s between the Abkhaz separatists and the Georgian government.
That agreement allows for up to 3,000 Russian soldiers to be deployed there, said Abhkhaz foreign affairs spokesman Sergei Chamba. It is not clear how many Russian soldiers arrived in the region Thursday.
The United Nations observers mission in Georgia (UNOMIG) was set up in 1993 to ensure the ceasefire there was respected.
Meanwhile, the so-called defence minister of Abkhazia, Merab Kichmario, said his forces were prepared for any kind of military intervention by Georgia, Interfax said.
"We are in the loop about Georgian plans for a military intervention in Abkhazia. We are ready ... and our units are in a state of alert," he said, warning that in such a case his forces would enter Georgian territory.

China on alert as deadly EV-71 virus spreads

BEIJING - China's Health Ministry has ordered heightened efforts to stem the spread of infectious diseases following an outbreak of a virus that has killed 22 children in one city and is spreading.
The outbreak of enterovirus 71, a type of hand, foot and mouth disease that children are susceptible to, is another headache for the communist government as it prepares for the Olympic Games already tarnished by an uprising among Tibetans in western China and an international torch relay disrupted by protests.
Stepped up vigilance by health bureaus and hospitals to prevent the spread of infectious diseases was necessary to guarantee the smooth staging of the Beijing Olympics and Paralympics and to practically preserve social stability," the ministry said in an order posted on its Web site Saturday.
What prompted the government to act was an unusual jump in cases of the enterovirus, known as EV-71, in Fuyang, a fast-growing city set amid the rural heartland of central China.
As of early Saturday, 3,736 cases of EV-71 were reported in Fuyang's mainly rural outskirts, a rise of 415 in about 24 hours, health officials said. Besides the 22 deaths, 1,115 people remain hospitalized, 42 of them in serious or critical condition, said the health department of Anhui province, where Fuyang is located.
The ministry sent expert teams to Anhui to lead treatment of the disease and prevent the spreading. State-run television showed workers spraying disinfectant around houses in rural areas outside Fuyang and medical teams visiting families with small children.
Meanwhile, nearly 800 other cases were reported elsewhere in Anhui, the health department said in a statement on its Web site. In Guangdong province, 1,700 kilometers (1,000 miles) to the south, preliminary tests showed an 18-month-old boy who died Friday was infected with EV-71, and a second suspected death was under investigation, the Xinhua News Agency said.
Cases of hand, foot and mouth outbreaks, but not necessarily EV-71, have been reported in at least two other provinces, Xinhua said.
Hand, foot and mouth disease are viruses that cause fever, mouth sores and rashes with blisters. Spread by contact with the stool or discharges from sneezes or coughs of infected people, the viruses mainly strike children 10 years and younger. Some cases can lead to fatal brain swelling. The illness is not related to the foot and mouth disease that hits livestock.

Exiled Tibetan PM positive about talks

BEIJING - Tibet's prime minister in exile said he was hopeful of a positive outcome from talks with Chinese officials beginning Sunday, but cautioned not to expect too much from the first meeting between the two sides since violent anti-government protests erupted in Tibet.
Talks were scheduled to last for a day or two in the southern Chinese city of Shenzhen, said Prime Minister Samdhong Rinpoche of the Tibetan government-in-exile based in Dharmsala, India.
We are positive that something good will come out of it,' Samdhong Rinpoche told The Associated Press.
A report by China's official Xinhua News Agency confirmed the Dalai Lama's envoys, Lodi Gyari and Kelsang Gyaltsen, would meet with two vice ministers of the United Front Work Department, designed to deal with influential people in groups outside of China's Communist Party.
Two of the Dalai Lama's representatives planned to push for peace in Tibetan areas of China and address Beijing's accusations that the spiritual leader has been masterminding the recent unrest, Samdhong Rinpoche told a public rally in Dharmsala.
Our hopes are high, but this is just a small step in a long process,' he said.
The Tibetan government-in-exile has called the meetings informal talks with representatives of the Chinese leadership.'
International critics have accused China of heavy-handed tactics in quelling protests in Tibet and other Tibetan areas of western China. Some experts believe Beijing agreed to meet with the Dalai Lama's envoys to ease that criticism ahead of the Olympics, which begin in August.
China says 22 people died in violence in Tibet's capital of Lhasa in March, while overseas Tibet supporters say many times that number have been killed in protests and the security crackdown.
Beijing argues the Dalai Lama and his supporters organized the riots with the aim of breaking the far western Himalayan region of Tibet away from Chinese rule.
The Dalai Lama, who fled Tibet amid a failed uprising in 1959, says he is seeking meaningful autonomy for Tibet rather than independence from Chinese rule. He has decried cultural genocide' in his homeland, which has a unique Buddhist tradition distinct from the rest of China.

Survivors count blessings after US twisters

DAMASCUS, Arkansas - Smoke rose from burning heaps of wreckage Saturday as residents of rural Arkansas cleaned up what was left of their homes after deadly tornadoes scoured a state that has been plagued by severe weather this year.
The storms killed seven people, damaged or destroyed about 400 homes, and knocked out electrical and telephone service for thousands of customers.
Altogether, meteorologists said more than 25 tornadoes may have touched down across middle America late Thursday and early Friday, but Arkansas was the hardest hit.
All that remained of Shelia Massey's home was a chimney, a bathroom wall, and a bathtub that was her storm shelter.
God's hand came down and held us there while the rest of the house just blew away," said Massey, 54. That's all there was to it. The Lord held us there."
Down the road from Massey's house, parishioners at Southside Baptist Church salvaged what was left of their old sanctuary and their new church, still under construction.
Men backed up pickup trucks to the front door of the old church and loaded up boxes filled with red-leather hymnals. The storm had collapsed the roof of the their new sanctuary, bending its steel beams like sipping straws.
In the countryside outside Damascus, John Rusin, 62, said he and his wife, Marsha, 60, took shelter in a small room along with two dogs after forecasters broke in on a television show they were watching. Winds almost ripped a mattress out of his arms as he held it over his wife, he said.
The pressure on it felt like my ears were going to pop off my head," he said.
Only after the storm passed did he realize it had picked up their house and moved it 65 feet (20 meters) off its foundation.
Public officials offered comfort and support. U.S. Rep. Vic Snyder, an Arkansas Democrat, shook hands with volunteers cleaning the church, and Arkansas Gov. Mike Beebe toured damaged areas.
National Weather Service teams were sent out to survey damage for their count of the tornadoes, and state emergency management workers helped county officials with damage assessments. Arkansas National Guard members were on hand to provide security.
Elsewhere Saturday, the National Weather Service posted tornado watches during the morning for parts of Louisiana, Mississippi and Alabama as an arc of strong thunderstorms rolled across the region.
Those storms, with possible tornadoes, damaged at least two dozen homes and knocked out power Mississippi's Union County. No injuries were reported.
A line of storms crossing southeastern Louisiana damaged trees and homes. The Weather Service reported 6 inches (15.24 centimeters) of rain in parts of the states with estimates of 10 inches (25.4 centimeters) in some places, meteorologist Bob Wagner said. Flooding was expected along the Bogue Falaya River at Camp Covington, but there was no immediate estimate of how many people lived in the area.
In Arkansas, Massey, learned of the approaching tornado from a friend who lived miles south in the larger town of Perryville and had seen television news reports.
Massey and her daughter ran to the bathroom with Massey's three grandsons, ages 2 weeks, 2 and 4. The boys and their mother slumped down in the tub, covered by sofa cushions, while Massey held on to the outside. Massey said she felt the house shake and the bathtub begin to move as the storm hit. A wall fell on them, but instead of causing injury it provided protection against other debris.
Catastrophic weather has been a recurring event in Arkansas this year, with at least 26 deaths, most occurring in rural communities and on farms far from the nearest warning siren.
Six of those who died Friday resided among the rolling hills and piney woods of central Arkansas. A 4-year-old girl and her grandparents died when a tornado struck their home near. A teenage girl died in the city of Siloam Springs in northwest Arkansas.
Near Center Ridge, Beebe paused briefly to watch a bulldozer shove drywall, bedding and a television set into a burn pile.
Beebe acknowledged that state officials have become adept at responding to disasters since tornadoes killed 13 Arkansans on Feb. 5. After that bout of severe weather, the state endured a foot-deep (30.48-centimeter) snowfall; later, at least five people died in widespread flooding.
It never gets any easier," Beebe said.
After walking past mud-stained clothes drying on an uprooted tree, Beebe spoke with Bobby Rose, 43, who was helping clean up after Friday's storm. The governor offered his condolences to residents of the rural neighborhood, but Rose remained upbeat.
This is Arkansas," Rose said. We hold up."

Family of missing Pakistan's envoy worried

ISLAMABAD - The family of Pakistan's ambassador to Kabul kidnapped by the Taleban in a tribal region three months ago expressed concern over the government's failure to recover him and urged authorities to expedite their efforts.
Ambassador Tariq Azizuddin went missing in the Khyber tribal region on the Afghan border along with his driver and guard while traveling to Kabul on February 11.
Last month, Azizuddin appeared in a video on an Arabic television saying he was being held by the Taleban and urged the Pakistani government to meet their demands.
"We, the wife, children and grandchildren, brothers and sisters and our close family are deeply concerned and in a state of anguish that after a lapse of almost three months there are no signs of his and his companions early and safe recovery," the statement released late on Saturday said.
"We appreciate that such a case would not be without its complexities, but what we're unable to understand is why it's taking so long with all the resources at the disposal of the authorities."
The family also urged the kidnappers to release the envoy and his companions as early as possible.
In his video, Azizuddin did not say what demands the Taleban wre making but Pakistani media reports had reported they had called for the release of several jailed militants.
Government officials said the kidnappers have not communicated any demands to them.
Pakistan's long tribal belt on the Afghan border is notorious for being a den for smugglers and bandits and has turned into a major sanctuary for al Qaeda and the Taleban militants who fled from Afghanistan after a U.S.-led invasion in the wake of the Sept. 11 attacks in 2001.
Scores of people have been abducted in the dangerous border region and the ambassador's disappearance highlighted mounting lawlessness in the tribal areas.

Israeli PM Ehud Olmert (L), welcomes US Secretary of State Condoleeza Rice (R), shake hands during a meeting in Jerusalem, on Saturday. Condoleeza Rice is on a two-day visit to the Middle East to try to speed up Israeli-Palestinian peace talks. -

Terrorism hurdle in investment, prosperity: Gilani




MULTAN : Terrorism is a hurdle in the way to foreign investment, progress and prosperity, said Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani here Sunday.Talking at the residence of MPA Ahmed Hassan Daher the Prime Minister said the nation is facing challenges like, law and order, terrorism, sectarianism and economic wellbeing.
He said the country can not progress unless its law and order improves and terrorism comes to an end. He said foreign investors want a peaceful milieu for their investment.
The Prime Minister said the menace of terrorism is smearing the image of the Muslims all over the world and it has to be extirpated.
He said the Muslim saints spread Islam with the help of rosary and affection and not with sword as it is commonly misconceived.
He said we have to defend our borders not only for defence but to stop smuggling and cross-border intrusions as well.
Syed Yousuf Raza Gilani called upon the need to establish peace in the society so that economic activities could be geared up for the betterment of the common man.
He said coalition partners including PML-N, ANP, MMA, MQM, Fata and other independent members are working with harmony and would steer the country out of the big challenges like independence of judiciary, media, revival of the 1973 Constitution and end to price hike and unemployment.
The Prime Minister said the government would enforce the manifesto of PPP by providing bread, clothing and shelter to all citizens.
Prime Minister’s brother Ahmed Mujtaba Gilani and Ahmed Hassan Daher also spoke on the occasion.