International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, May 22, 2008

Musharraf’s November 3 actions were extraconstitutional: PML-Q

ISLAMABAD — A panel of four leading constitutional experts set up by the pro-Musharraf Pakistan Muslim League-Quaid (PML-Q) has termed as extra-constitutional President Gen. Pervez Musharraf’s actions of November 3, 2007, including purge in judiciary and recommended to the party to support the move for restoration of deposed judges.
The committee, however, opined that a constitutional amendment is needed for judges’ reinstatement. It asked the PML-Q to support such an amendment which provides for such a restoration, should not disturb the present judges who must be retained.
The committee comprised Senators Wasim Sajjad, S.M. Zafar, Mohammed Anwar Bhinder and Dr Khalid Ranjha.
PML-Q chief Chaudhry Shujaat has said his party will move its own resolution if the ruling coalition failed to do so. The committee said it would meet again after the PPP submitted its constitutional package in parliament.
Former Senate chairman Wasim Sajjad said tabling a resolution was “not a bad idea”, but the resolution should also contain guidelines for the judges’ reinstatement.
He said that in the opinion of the committee, the present judges needed to be retained through an amendment in the Judges Act of 1997.

US Gen Petraeus may urge more troop cuts in Iraq

WASHINGTON - The top US commander in Iraq said on Thursday he expects to recommend further cuts in US forces in Iraq before he relinquishes command in September because of improved security.
"My sense is I will be able to make a recommendation at that time for some further reductions," General David Petraeus said in confirmation hearings on his appointment to become head of the US Central Command.
At the same time, Petraeus acknowledged that the US goal of turning all 18 provinces to Iraqi security control by the end of the year will not be met, in part because of violent conditions around Mosul in northern Iraq.
And he said provincial elections, a crucial step in Iraq's political consolidation, are likely to slip from October to November.
Petraeus said he would make the recommendations on further troop cuts following the withdrawal of the last of five surge brigades in July and a 45-day period of consolidation and assessment.
"I do not mean to imply that that would be a BCT (brigade combat team) or some major formation -- but it could," he told the Senate Armed Services Committee.
"But I do believe that there will be certain assets that, as we are already looking at the picture right now, we'll be able to recommend can be either redeployed or not deployed to the theater in the fall," he said.
A combat brigade consists of about 3,500 troops.
The general said security conditions have continued to improve despite the withdrawal of three of the five surge brigades, with security incidents falling last week to the lowest point in more than four years.
"This week's is even significantly lower," he said, without providing specifics.
The general attributed the improvement to military operations against Iranian-backed Shiite militias in the southern city of Basra and Baghdad's Sadr City.
The exposure of Iranian activity in Basra has galvanized "a degree of opposition, resentment and so forth" against Iran in the Shiite led government of Prime Minister Nuri al-Maliki, he said.
Petraeus said he was looking for signs of Iran pulling back in the wake of a recent visit to Tehran by an Iraqi delegation who conveyed the Maliki government's concerns.
"We know, though, that a number of the special group leaders have gone back to Iran, as they have been put under pressure in first Basra then other areas in the southern provinces and now in Sadr City," he said.
Petraeus was joined at the hearing by General Raymond Odierno, his former number two in Iraq and the Pentagon's choice to succeed Petraeus as the top general there.
The generals' performance was roundly praised on both sides of the aisle, and their confirmation appeared assured.
Senator Carl Levin, the committee chairman, said they would bring "unprecedented continuity of senior military leadership" and provide "unparalleled knowlege of the situation on the ground."
The change will put Petraeus in command of a vast portfolio of security challenges in a region that stretches from Afghanistan to Lebanon, and where demand for US military forces has exceeded the supply.
He faces a reconstituted al-Qaeda leadership in Pakistan, a resurgent Taliban in Afghanistan, an emboldened regime in Tehran, political strife in Lebanon, and instability in Somalia and the Horn of Africa.
"Engagement will be a central aspect of my responsibilities as the CENTCOM commander, if confirmed," Petraeus said.
"In most of the issues we'll address, a purely military approach is unlikely to succeed and our strategy must recognize that," he said.
Petraeus said one of his first trips as the Centcom commander would be to Pakistan, whose new government has struck a peace deal with Taliban insurgents.
He highlighted the need to strengthen Pakistani security forces, which he said were not adequately equipped to "deal with the growth of terrorist elements and the insurgency in the FATA (Federal Administered Tribal Areas)."
"It is clear that we and other countries supporting Pakistan should support Islamabad as Pakistani leaders develop a comprehensive approach to countering extremist and insurgent activity," he said.

اب پاکستان کے ساتھ مذاق نہیں ہونے دیا جائے گا۔معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری



کراچی ۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج قوم کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ کراچی بار سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ماضی میں عدلیہ آمروں کے سامنے نہ جھکتی تو آج حالات کچھ اور ہوتے لیکن ماضی کی طرح اب پاکستان کے ساتھ مذاق نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ انہوں نے وکلاء میڈیا اور سول سوسائٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ پہلی مرتبہ سولہ کروڑ عوام قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ پاکستانی قوم اب غیور ہو چکی ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کی تحریک چودہ ماہ سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور مسلم لیگ ن نے عدلیہ کی بحالی کے لیے وزارتوں کی قربانی دی ہے ۔ یہ قدم پاکستان کو اس کی منزل تک پہنچائے گا معزول چیف جسٹس نے کہاکہ اٹھارہ فروری کے بعد پاکستان میں نظام تبدیل ہو چکا ہے ۔ پرویز مشرف خود تسلیم کر چکے ہیں کہ تین نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے ۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ ساٹھ ججوںنے ان کا ساتھ دیا مگر انیس ججوں نے خود کو حالات کے حوالے کر دیااور پی سی او کے تحت حلف اٹھایا جس کاانہیں بے حد افسوس ہے۔ اس موقع پر انہوںنے 24 مئی کو فیصل آباد بار اور 31 مئی کو پشاور بار سے خطاب کا اعلان بھی کیا۔
۔۔۔۔تفصیلی خبر ۔۔۔۔۔
وکلاء اور ججوں کے پاس سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے, کسی نے سجھوتا کیا تو قوم اسے معاف نہیں کرے گی
معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کا جمعرات کو وکلاء تنظیموں کے مشترکہ جنرل باڈی اجلاس سے خطاب
معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اب وکلاء اور ججوں کے پاس سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ کسی نے سجھوتا کیا تو قوم اسے معاف نہیں کرے گی۔ شخصی حکومت کا حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے جج قابل تحسین ہیں جنہوں نے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو وکلاء تنظیموں کے مشترکہ جنرل باڈی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کے ساتھ وہ جج صاحبان مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے غیر آئینی اقدامات کو تسلیم کرنے یا شخصی حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ معزول چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں آمروں نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ حاصل کیا اور بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان میں ان تمام حالات میں عدلیہ کو مبرا نہیں سمجھتا اگر عدلیہ 1952ء سے لے کر 2002ء تک غیر آئینی اقدامات کی حوصلہ افزائی نہ کرتی تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اب 60 سال بعد یہ وقت ایسا آیا ہے جہاں وکلاء، جج صاحبان، سول سوسائٹی اور عوام نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر مملکت کو چلانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 نومبر 2007ء کو غیر آئینی مارشل لاء لگانے کی کوشش کی گئی مگر اعلیٰ عدالتوں کے اکثر جج صاحبان نے ان غیر آئینی اقدامات کو اٹھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ عبوری آئینی حکم نامے کا حلف نہ اٹھانے والے جج صاحبان تمام تکلیف دہ حالات کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں جو قابل تحسین ہے۔ معزول جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کو دوبارہ تقرری کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے اس لئے انکار کر دیا کہ ایسا کرنا 3 نومبر کے اقدامات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب عام آدمی کو معلوم ہو چکا ہے کہ جج آزاد ہوں گے تو مجرموں کو سزا بھی ملے گی اور باقی مسائل حل ہوں گے۔ انھوںنے کہا کہ پی سی او کا حلف اٹھانے والوں کو میں جج نہیں سمجھتا۔معزول چیف جسٹس نے کہا کہ آج پاکستان کے طول و عرض کے عوام معزول چیف جج صاحبان کے ساتھ کھڑے ہیں اب وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو مزید آزمائش کیلئے تیار کریں۔انھوں نے کہا کہ وکلاء تحریک کی کامیابیوںمیں میڈیا کے کردار کو کبھی فرا موش نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ تاریخ میں اتنی بڑی تحریک کی مثال نہیں ملتی۔

دہشت گردی کے عزائم ناکام بنائیں گے ، سید یوسف رضا گیلانی

اسلام آباد ۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دہشت گردی کے مذموم عزائم ناکام بنانے کا عزم دہرایا ہے۔ وہ امریکا کی انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز ایسوسی ایشن کے صدر گریگوری آرکوپلے سے باتیں کر رہے تھے جنہوں نے آج جمعرات کو یہاں ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ انتہا پسندوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ملک کو بدنام کریں اور اسے اپنے غلط نظریات کے ذریعے یرغمال بنائیں جواسلام کی روح کے قطعی برعکس ہیں۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان ایک اعتدال پسند ملک ہے جو حالیہ قومی انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے جس میں عوام نے قومی دھارے کی بڑی سیاسی جماعتوں کو بھاری اکثریت سے ووٹ دئیے اور انتہا پسند عناصر کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ۔ وزیر اعظم نے پاکستان کے بارے میں کتابچہ چلانے پر امریکا کی بین الاقوامی سٹریٹجک سٹڈیز ایسوسی ایشن کے اقدامات کو سراہا تاکہ پاکستان کو تحقیق کاروں طلبہ صحافیوں اور عام لوگوں کے لیے اپنے سٹریٹجک طریقہ کار میں شامل کیا جاسکے ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ کتابچے سے نہ صرف موجودہ خلا کو پر کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ پاکستان اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک اہم دریعہ ثابت ہوگا۔ گریگری کوپلے نے وزیر اعظم کو اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد اور کارکردگی سے آگاہ کیا۔ جبکہ پاک سوزوکی موٹرز کے چیف ایگزیکٹو افسر کم چی آیو کاوا سے باتیں کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ملک میں بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم وقت اور کم ایندھن خرچ کرنے والی گاڑیوں کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرے گی ۔ انہوں نے کہاکہ سی این جی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کیونکہ یہ ماحول دوست اور متوسط طبقے کی پہنچ میں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دیہی علاقوں میں سی این جی سے چلنے والی جیپوں کی بڑی مانگ ہے اور انتظامیہ کو کم قیمت سی این جی جیپوں کی تیاری کو ترجیح دینی چاہیے آیوکاوا نے وزیر اعظم کو پاک سوزوکی کی کارکردگی کے بارے میں بتایا

پاکستان پیپلزپارٹی میں بغاوت کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا، کسی بھی جماعت میں دراڑیں جمہوریت اور وفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ میاں نواز



لاہور۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد محمدنوازشریف نے کہا ہے کہ 3نومبر 2007ء کے غیرآئینی اقدام کے بارے میں کوئی بھی موقف اختیارکرنا پاکستان پیپلزپارٹی کا اندرونی معاملہ ہے اور میں کسی بھی جماعت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا جمہوری قدروں کی خلاف ورزی سمجھتا ہوں۔پاکستان پیپلزپارٹی میں بغاوت کے حوالے سے میں نے کوئی بیان نہیں دیا، میں جمہوری جدوجہدمیں شریک صحافیوں کو ساتھیوں کے طور پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ موجودہ نازک سیاسی صورتحال میں رپورٹنگ کرتے وقت انتہائی احتیاط برتیں تاکہ جمہوری قوتوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے والی سازشی قوتوں کو کھیل کھیلنے کا کوئی موقع میسر نہ ہو۔کسی بھی جماعت میں دراڑیں صرف اس جماعت کو نہیں بلکہ جمہوریت اور وفاق کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہیں، جن کا میں کبھی تصوربھی نہیں کرسکتا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے معروف کالم نویس عطاء الحق قاسمی کی ر ہائش گاہ پر دانشوروں اور کام نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ محمدنوازشریف نے کہا کہ اصولی موقف کو نظرانداز کرکے چند وزارتوں کو تو بچایاجاسکتا تھا لیکن اس سے ملک وقوم کا مستقبل طویل عرصے کیلئے تاریکیوں میں ڈوب جاتا۔انہوں نے کہا کہ 3نومبرکے غیرآئینی اقدامات کوتسلیم کرنا جمہوریت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قتل کردینے کے مترادف ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک کسی طرح بھی عوام کو ریلیف دینے میں حائل نہیںاور ان کی جماعت عوا م کو ریلیف دینے کے ہر قدم کی غیرمشروط حمایت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ وہ پنجاب حکومت کے مسلم لیگی وزراء کو ہدایت جاری کرچکے ہیں کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر روزگار،رہائش ،ٹرانسپورٹ ،تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کرنے ،مہنگائی کو روکنے اور بنیادی اشیاء خوردونوش کو بہترین حد تک عوام تک پہنچانے کی عملی کوششوں کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیں تاکہ عوام کو سیاسی حقوق کے ساتھ ساتھ معاشی انصاف بھی مہیاہوسکے۔

صدر پرویز مشرف کو گھر بھیجنے کے لیے موجودہ حکومت پر شدید دباؤ ہے ۔آصف علی زرداری



نئی دہلی ۔ پیپلزپارٹی کی شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون قائم کرکے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر سے فوجوں کی کمی 60 سالہ پرانے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔ صدر پرویز مشرف کو گھر بھیجنے کے لیے موجود ہ حکومت پر شدید دباؤ ہے ۔ بھارتی خبررساں ادارے کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں آصف علی زرداری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج میں کمی قابل تحسین ہے ہم پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون بنانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کی کمی کو نیم فوجی دستوں اور پولیس سے پورا کیا جا سکتا ہے جو 60 سالہ پرانے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گارثابت ہو گا۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کو سرحدوں پر اکنامک زون بنا کر مضبوط بنایا جا سکتا ہے اورتھرمیں موجود کوئلے کے ذخائر کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کوئلے کے ذخائر کو بھارت برآمد بھی کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارتی معیشت میں توانائی جیسے اہم شعبے میں تعاون کرکے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اسی نظام میں رہ کر کام کرنا چاہتا ہوں اور صدر سے کوئی ٹکراؤ نہیں چاہتا ۔ انہوں نے کہا کہ صدر پرویز مشرف جمہوریت کی راہ میںبڑی رکاوٹ ہیں اور مشرف کو گھر بھیجنے کے لیے موجودہ حکومت پر شدید دباؤ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ پاک بھارت ویزہ سسٹم کو آسان بنایا جائے تاکہ دونوں جانب کے عوام کو سفری سہولیات میں آسانیاں ہوں ۔

روپے کی قدر میں تنزلی کی وجہ سٹہ بازی ہے ۔گورنر اسٹیٹ بنک

کراچی ۔ گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں تنزلی کی وجہ سٹہ بازی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس میں کیا۔ڈکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستاں آزادانہ پالیسی پر یقین رکھتا ہے تاہم کسی کو شرح تبادلہ میں مصنوعی اضافے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔انہوں نے اس موقع پر شرح سود میں 150بیسز پوائنٹس اضافے کا بھی اعلان کیا جس سے ڈسکاؤنٹ ریٹ کی شرح10.5فیصد سے 12فیصد ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری اور پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے جبکہ گزشتہ 4سے 5ماہ میں حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے بہت زیادہ قرضے لئے جس سے جاری کھاتوں میں خسارے میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا تیل کا درآمد بل بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں تنزلی کے باعث ہوشربا سطح پر پہنچ چکا ہے۔انہوں نے پریس کانفرنس میں مزید بتایا کہ یکم جون سے کمرشل بنک کھاتیداروں کو سیونگ اکاؤنٹس پر5فیصد شرح سود دیں گے جبکہ کھانے پینے کی اشیاء کیلئے ایل سی کھلوانے پر35فیصد مارجن وصول کیا جائیگا۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے بتایا کہ اکتوبر2007ء سے غیر ملکی ذرمبادلہ میں 7.6فیصد کمی ہوئی ہے اور 2006ء سے اب تک 4.6ارب ڈالرز کا خسارہ ہوچکا ہے۔انہوں نے بنکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو اضافی غیر ملکی کرنسی اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پاس محفوظ کرانے اور حکومت کو مالیاتی ایکٹ میں ترامیم کی بھی تجویز دی۔

صدراور پارلیمنٹ کے اختیارات میں توازن چاہتے ہیں کوئی ناراض ہوتاہے تو پرواہ نہیں ، فرحت اللہ بابر

اسلام آباد۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہاہے کہ پیپلز پارٹی صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں توازن چاہتی ہے اور اگر اس سے کوئی ناراض ہوتا ہے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔ جمعرات کو میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی مذمت کی اور کہاکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو عوام کے اعتماد کی ضرورت ہے صدر مشرف کے اعتماد کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایوان صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختیارات کا توازن چاہتے ہیں اور اس پر اگر کوئی ناراض ہوتا ہے تو اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ میڈیا میں خبریں شائع ہوئی تھیں کہ اگر صدر پرویز مشرف کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے کوئی آئینی پیکج آیا تو صدر پرویز مشرف اسے ناکام بنانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں گے

وکلاء پر لاٹھیاں برسانے سے ہماری حکومت بچتی ہے تو ایسی حکومت کو خود گرادیں گے۔ رانا ثناء اللہ

لاہور ۔صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ اگر وکلاء پرسڑکوں پر لاٹھیاں برسانے اور انہیں جیلوں میں بند کرنے میں ہماری صوبائی حکومت کی بقاء ہے تو ہم ایسی حکومت کو اپنے ہاتھوں سے گرا کر وکلاء کی اصولی تحریک میں شامل ہوکر آئین اور عدلیہ کی بحالی کی جدوجہد کریں گے۔ آمریت کا علاج صرف سرجری ہے ورنہ یہ پورے جسم میں ناسور کی طرح پھیل جائے گی۔ پرویز مشرف تسلیم کرچکے ہیں کہ ان کا 3نومبر کا اقدام غیر آئینی تھا اسی لئے افتخار محمد چودھری ملک کے آئینی وقانونی چیف جسٹس ہیں ہم انہیں ان کے عہدے کی مناسبت سے پروٹوکول دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج لاہور ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر انور کمال اور سابق صدر احمد اویس ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بعض افراد کو یہ غلط فہمی ہے کہ وکلاء تحریک کو دبایا جاسکتا ہے۔ ایسا ناممکن ہے اور نہ ہم ایسا ہونے دیں گے۔سو سال کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہمیں آزادی تو مل گئی مگر اصل مقصد حاصل نہ ہوا۔ 60سال کی مزید جدوجہد کے بعد کالے کوٹ کی شکل میں دیدہ ور پیدا ہوا ہے۔ بہت جلد چمن میں بہار بھی آئے گی۔ ہمیں آئینی پیکج پر اختلاف نہیں ۔ ہم سردار لطیف کھوسہ، بابر اعوان اور فاروق ایچ نائیک کی عزت کرتے ہیں مگر ان کا آمریت کے خاتمہ کیلئے اختیار کردہ طریقہ علاج ہومیوپیتھک ہے جبکہ مرض تقاضا کررہا ہے کہ اس سے قبل کہ آمریت کا سرطان پورے جسم میں پھیلے سرجری کردی جائے۔ بار سے خطاب کرتے ہوئے احمد اویس ایڈووکیٹ نے کہا کہ کالے کوٹ والوں نے ڈٹ کر مقابلہ کرکے خاکی وردی والوں کو گراؤنڈ کیا ہے۔ ہم پارلیمنٹ ہاؤس کے گھیراؤ سے قبل آرمی ہاؤس پر پڑاؤ ڈالیں گے۔ پاکستان کا کوئی فوجی پرویز مشرف کی حمایت میں باہر نہیں نکلے گا۔ ہم آئین سے غداری کے آرٹیکل سکس پر عملدرآمد کروائیں گے۔
٭۔ ۔ ۔ میں آج زندہ ہوں تو یہ وکلاء کے احتجاج کا نتیجہ ہے وگرنہ میرا خاندان گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ میری تصویر اٹھائے سڑکوں پر احتجاج کررہا ہوتا۔ رانا ثناء اللہ خان
میں اگر آج زندہ اور آپ کے سامنے موجود ہوں تو یہ وکلاء کے احتجاج کا نتیجہ ہے ورنہ میرا خاندان بھی میری تصویر اٹھا کر گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ احتجاج کررہا ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے لاہور ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اکتوبر 1999ء اور مارچ 2003ء میں دو بار حکومتی ایجنسیوں نے انہیں اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔ لاہور ہائی کورٹ بار جس کا رکن ہونے پر مجھے فخر ہے نے بھرپور احتجاج کرکے میری جان بچائی ورنہ آج شائد میں زندہ نہ ہوتا یا میرا نام بھی گمشدہ افراد کی فہرست میں ہوتا اور میرا خاندان میری تصویر اٹھاکر حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہا ہوتا۔

انسانی حقوق کے اداروں کی پاکستان کے یو این کونسل کا ممبرمنتخب ہو نے پر تنقید

نیویارک ۔ حقوق انسانی کے گروپوں نے پاکستان، بحرین، گبون اور زیمبیا کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جا نب سے حقوق انسانی کونسل کے لیے ر کن منتخب ہو نے پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کونسل حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کا کلب بن گیا ہے۔ یورپ کے لیے کونسل کی دو نشستوں پر فرانس اور برطانیہ نے کامیابی حاصل کی جبکہ سپین کوصرف ایک ووٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فرانس کو ایک سو تیئس، برطانیہ کو ایک سو بیس ووٹ ملے جبکہ سپین کو ایک سو انیس ووٹ ملے۔ ہیومن رائٹس کونسل کا انتخاب علاقی گروپ خفیہ رائے دہی سے کرتے ہیں۔ایشیا کے لیے چار نشتوں پر پاکستان، جاپان، بحرین اور جنوبی کوریا نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ سری لنکا اور مشرقی تیمور کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ لاطینی امریکہ سے ارجنٹینا، برازیل اور چلی کونسل کیممبر منتخب ہوئے ہیں۔ممبران تین سال تک کونسل پر کام کریں گے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کا واحد مخالف ہے اور خود کو اس کی رکنیت سے باہر رکھا ہے۔ امریکہ کا خیال میں نئی تنظیم ممبر ممالک کو انسانی حقوق کی پامالی سے نہیں روک سکے گی۔

برطانیہ پاکستانی حکومت اور قبائلی رہنماؤں کے مابین سمجھوتے کے حق میں ہے‘ ڈیوڈ ملی بینڈ


واشنگٹن + لندن۔ برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ برطانیہ پاکستانی حکومت اور قبائلی رہنماؤں کے مابین سمجھوتے کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں شدت پسندی روکنے کا فوجی حل نہیں ہو سکتا لیکن سمجھوتہ یا بات چیت انہی لوگوں سے ہونی چاہیے جو خون خرابہ چھوڑنے کو تیار ہو۔ یاد رہے کہ بدھ کو صوبہ سرحد کی حکومت اور سوات کے مقامی طالبان کے مابین پندرہ نکاتی امن معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت سوات کے مقامی طالبان پاکستانی ریاست، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی عملداری تسلیم کرتے ہوئے ان کے دائرہ کار کے اندر رہیں گے جبکہ معاہدے کے مطابق حکومت مالاکنڈ ڈویڑن میں بہت جلد شریعت محمدی کا نفاذ عمل میں لائے گی۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں حکومت اور مقامی عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو دہشتگردی کی منصوبہ بندی کی آڑ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔امریکہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان شان میکارمک نے کہا ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھنا چاہیں گے کہ سمجھوتے کی آڑ میں شدت پسندوں کو دہشت گردی کی منصوبہ کی آزادی مل جائے۔ واشنگٹن میں دفترِخارجہ کے ترجمان شان میکارمک نے کہا کہ وہ یہ دیکھنا چاہیں گے کہ جو لوگ پہلے سیاسی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے کیا وہ اب اس میں شامل ہوں گے اور خون خرابہ چھوڑ دیں گے۔ دوسری طرف برطانیہ نے حکومت پاکستان کی قبائلی علاقوں میں امن بات چیت کی حمایت کی ہے۔

PM hopeful of ISSA’s handbook on Pakistan to remove misperceptions




ISLAMABAD : Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani Thursday appreciated International Strategic Studies Association (ISSA), USA for publishing a handbook on Pakistan’s strategic situation, and hoped it would help remove misperceptions about the country. Talking to Gregory R. Copley, President ISSA at PM House, the Prime Minister expressed the hope that handbook would prove as authentic research material on Pakistan, and be helpful for researchers, students, journalists and the general public.
The Prime Minister said Pakistan is a moderate country, which was also proved by the results of national elections where people overwhelmingly opted for moderate political parties and totally rejected the extremists.
Gilani said his government was determined to defeat designs of extremists and would not allow them bring bad name to the country through their misguided ideology, which was against the spirit of Islam and raison d’etre of Pakistan.
Copley briefed the Prime Minister about objectives and activities of his organization and said his organization would continue to promote international understanding and cooperation.

Present setup to usher in new era of media freedom: Sherry Rehman




ISLAMABAD : Minister for Information and Broadcasting, Sherry Rehman Thursday said the present coalition government was well aware of the problems of media persons and it was working to usher in a new era of media freedom. “Freedom of media is not a gift of government but a hard earned right. We believe in complete freedom of speech because present setup led by Pakistan Peoples party (PPP) always supported cause of media,” she said while addressing a meeting with columnists and editors.
“Our government wants to engage media on permanent basis and the consultative meeting with columnists and editors is a step in this regard,” she said.
Sherry Rehman said such consultations are also important to remove misunderstandings, adding that the government wants good wishes, guidance and cooperation from media.
The Minister assured that the government would not create any hurdle in the way of licensing process for any channel, rather it would continue its efforts to facilitate and promote media. There will be no delay in the issuance of licenses to TV channels, she added.
The Minister said Ministry of Information and Broadcasting has been made facilitator and added Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto started the liberalization process of media and “we will remove all those laws which can hinder media freedom.”

Governor Punjab calls on Asif Zardari




ISLAMABAD : Governor of Punjab Salman Taseer Thursday called on Pakistan People’s Party (PPP) Co-Chairman Asif Ali Zardari here at Zardari House. Senior minister of the government of Punjab Raja Riaz also accompanied him. Political and administrative issues particularly the situation arising out of the resignations of PML-N ministers, the major coalition partner of the government, Judicial crisis and party matters were discussed in the meeting.
Sources said Co-Chairman directed Governor and Senior minister to move forward for improving relationship with coalition partners in Punjab government and pay heed to reservations of PML-N top leadership.
The Governor also presented a report to Asif Zardari on distinct political and managerial issues and consulted him.
The Co-Chairman also stressed developing enduring relations of party’s leadership with workers and resolving their problems. Zardari maintained that federal and provincial ministers would hold Kutcherys at party offices and their respective districts.
There was a consensus that problems of the commonman must be resolved at their doorstep to restore their confidence in PPP.

Pakistan to request to UN for setting up International Commission to probe Benazir’s assassination




ISLAMABAD : Pakistan Thursday decided to send formal request to the UN Secretary General to establish an ‘International Commission’ to probe the assassination of former Prime Minister and leader of Pakistan People Party Mohtarma Benazir Bhutto. Foreign Minister Shah Mahmood Qureshi and Law Minister Farooq Naek briefing newsmen here at Foreign Office said they will meet UN Secretary General next month to formally hand over the request from Pakistan government to constitute the International Commission to probe and trace the culprits involved in the assassination of Benazir Bhutto who was killed in Rawalpindi on December 27, last year.
The Foreign Minister said national sovereignty and integrity would be protected at all cost and there will be no compromise on it during the investigation by International Commission in this case.
Giving details of the procedure being adopted in this regard, Shah Mahmood Qureshi, said a formal request has been sent to the UN Secretary General through Pakistan’s Permanent Representative to UN Munir Akram for a meeting with him and Law Minister so that formal request from Pakistan government can be handed over to him.
The Foreign Minister said the basic aim of requesting the UN to constitute International Commission for probing the assassination of Mohtarma Benazir Bhutto as it was a great loss to the country and international community because her death as she was a great leader.
He said, the probe by International Commission is only to find the culprits behind the assassination and it is not a matter of witch-hunting or to achieve any political benefit.
Qureshi said the request for probe to UN is being sent after unanimous resolutions passed by National Assembly and the four provincial assemblies and on the directive of Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani.
He said Ministry of Foreign Affairs, Ministry of Law and Interior worked together and consulated each other before finalising the formal request to be sent to the UN for establishing an International Commission to probe the assassination of Benazir Bhutto.
He said following the passage of unanimous resolutions, the request has public support and mandate and it reflects aspirations of the people of Pakistan.
Qureshi said during their visit to United Nations, they will also consult the matter with other countries especially the permanent members of the UN Security Council.
The Law Minister Farooq Naek said co-Chairman of PPP Asif Ali Zardari wanted to have enquiry by UN Commission but the UN treated requests only from the government, therefore, now the government has decided to send such proposal in a formal manner.
He said the main objective to the International Commission would be to probe the culprits, who financed the murder, and who were responsible for it.
Referring to the statements of officials during the caretaker government, Law Minister said, there were reports that Baitullah Mahsood could be involved in the murder of Benazir Bhutto, therefore, it was necessary to go in detail into the murder through a international investigation.
“We want fair, impartial and natural investigation,” said Shah Mahmood Qureshi adding that the government has no intention to point finger on any one in this case.
The Foreign Minister said, “We want that the investigation process should be completed in a way that no one could be criticised of victimised.
Replying to a question for the justification to send the request to UN for investigation, the Law Minister said as Baitullah Mahsood has links with Al-Qaida and its has been operating from different countries and Pakistani investigative agencies have limitation and restriction to reach to such international factors.
About sharing the terms of reference and other details being mentioned in the formal request to be delivered to the UN Secretary General, the Foreign Minister said once the request will be delivered to the SG then its details could be shared with the media.
The Foreign Minister said as Baitullah Mahsood has denied involvement in the assassination, therefore, it was more essential to probe the incident by a international commission.
Regarding the investigations done by a team of Scotland Yard, the Foreign Minister said the team came to Pakistan with limited reference and the cause of the death was the main objective for them.
The Foreign Minister said all documents, letters of Benazir Bhutto about threats to her life, and investigations done in this regard would be presented to the members of the International Commission including the report that some officials had washed the crime scene.

Coalition govt committed to Peace with India: Nawaz




ISLAMABAD : Former Prime Minister Mian Muhammad Nawaz Sharif has said that irrespective of the domestic compulsions, the new government is committed to peace with India.
Nawaz Sharif in an interview with an India Channel NDTV said that he believed in India-Pak dialogue process. “We laid the foundation by signing the historic Lahore document with Mr Vajpayee for initiating the dialogue process effectively”, he said.
The PMLN head said he was very serious and sincere to resolve all the outstanding issues between the two countries and also move forward the field of economic development adding a good beginning was made during his tenure as Prime Minister.
The phase of composite Pak-India dialogue process was launched in 2004 which was a strong step toward resolving the disputes, he added.
To a question regarding Kashmir dispute, he said there is need to build more confidence to resolve this issue.
He said that both the sides should make a serious resolve for amicable solution of this longstanding issue.

Haqqani urges a comprehensive strategy to eliminate terrorism




ISLAMABAD : Time is ripe for Pakistan to devise its own strategy to fight and eliminate terrorism from the whole region, Pakistan ambassador designate to USA Hussain Haqqani said Thursday. It is in America’s interest that Pakistan should be allowed to fight terror in its own way as the leadership of the country better know ground realities here as compared to people sitting thousands of miles away and ordering to bomb anywhere without checking the facts, he said.
He said goodwill for democratic forces has already been created in US media,Congress and other important institutions by Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto and country should take benefit of it.
“ A window of opportunity has already been provided by Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto to devise our role by ourselves,” he told Aaj TV.
Advisory groups of three American presidential candidates are agreed that if Pakistan made a comprehensive strategy to deal terror in its own way they will extend cooperation to Pakistan, he added.
The only need is to strengthen the institutions and avoid confrontation in the country.Pakistan will never compromise on democracy and supremacy of constitution, he added.
Both Pakistan Peoples Party and Pakistan Muslim League (N) are agreed to strengthen democracy and not to indulge in any form of confrontation as it has already weaken democratic forces.
Both the coalition partners are agreed to restore the deposed judges as their reinstatement is an integral part of supremacy of democracy.

State Bank brings more monetary checks for macroeconomic stability




KARACHI : State Bank of Pakistan has decided to introduce certain tightening measures including increase in interest rate and discount rate to bring desired macroeconomic stability enabling the country to escape a structural downward shift and brightening the long-term growth prospects.
These measures along with the government’s consolidated fiscal program for the medium-term will help manage and cool-off inflation expectations and to tame the underlying dynamics, said Governor SBP, Dr Shamshad Akhtar while briefing media at SBP Head Office here on Thursday.
Highlighting these corrective measures, the SBP Chief announced to increase in the SBP policy discount rate by 150 bps to 12.0 percent w.e.f. May 23, 2008. This increase has been necessitated by the persistent and excessive government borrowing from SBP to meet the financing requirement of the budget deficit. Stock of government borrowing from SBP is more than double of last year’s level. For offloading this huge debt to the scheduled banks, this increase will act as a critical measure to induce scheduled banks to participate actively in T-bill auctions, which have been mostly unsuccessful in mobilizing receipts for the government in recent past.
She said that this will also help in pushing up the low and decline real lending rates necessary to curb the demand pressures and decelerate the current rapid rise in inflation.
An increase in interest rates is necessary to encourage savings in the economy, importance of which cannot be over emphasized given the state of fiscal and external current account deficits.
The increase in the policy rate will also calm down the sentiments in the domestic foreign exchange markets and make it attractive to lure more foreign inflows. It will also curb the second round impact of food inflation and oil price increase to headline CPI inflation going forward.
Secondly, she announced increase in the Cash Reserve Requirement (CRR) for all deposits up to one year maturity by 100 bps to 9.0 percent while keeping the CRR for deposits of over one year maturity unchanged at zero percent. In addition, the Statutory Liquidity Requirement (SLR) is increased by 100 bps to 19 percent of the total time and demand liabilities.
The increase in the CRR is supposed to have an immediate impact on interbank interest rates by drying up excess liquidity. This can be ensured at present only with a concomitant rise in the SLR since the banks are already keeping government papers over and above the current requirement of 18 percent.
In case, the CRR is increased in isolation, she said, banks are likely to liquidate their investments to make up the liquidity shortages due to CRR increase , thereby diluting the impact of policy measures.
The net impact of the rise in both the CRR and the SLR would then be translated into an increase in market interest rates. An additional positive impact of this measure is likely to be on deposit mobilization as the banks would be forced to generate more deposits to cope with liquidity requirements for their operations, she said.
Thirdly, the SBP Governor told that effective 1 June 2008, all Banks are required to pay a minimum profit rate of 5 percent of Saving/PLS saving products. The saving deposits category account for more than 43 percent of all bank deposits and constitute 63 percent of the total number of countrywide deposit accounts. While on the margin deposits rates have risen, given the stock of deposits on which returns remain low the average return on all saving accounts is at 2.1 percent. The inelasticity of the deposit rates to the monetary policy signals of SBP makes the transmission of the monetary stance less effective. Impact of any increase in the discount rate by SBP is immediately transmitted through advances. However, there is little impact on the deposit rates and hence, there is no incentive for the currency in circulation to move into bank deposits.
She said SBP has been relying on moral suasion and competition among banks to encourage rise in returns on deposits. While this has facilitated greater awareness in banks and differential and higher returns by smaller banks, but by and large increment on deposit rates has happened principally for large deposit holders. In 2008, given the low returns, the growth of deposits has been impacted thereby affecting the capacity of the system to service growing economy wide requirements.
This measure is also necessitated by the slower growth in overall deposits. The rise in deposit rate will help bring in high level of currency in circulation into the financial intermediation process and allow banks to have higher level of resources to serve the credit requirements of the economy , she explained.
Fourth Corrective step which will be effective from 23 May, the Central Bank Governor , said the L/C margins on all imports except for oil and selective food imports is being imposed at 35 percent.
Fifthly, the Government is well advised to sterilize the expected foreign inflows by using the foreign resources to settle its obligations to SBP. Rather than use fresh foreign inflows to finance new expenditures, retirements of MRTBs will help reduce the reserve money pressures, she informed.
Sixth tightening step in this regard , she informed , is that the Government is being further advised to amend the Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act, 2005 to incorporate appropriate provisions to restrict the debt monetization.
Most countries have disallowed government to borrow from central banks to allow smooth monetary transmission, while averting the inflationary consequence of debt monetization.
Currently, the Government has kept borrowings from the central bank outside this legislation which has eroded the fiscal discipline and diluted the impact of the Fiscal Responsibility Act. In FY08, it is estimated that up till now the Government will have financed around 80 percent of its fiscal deficit from SBP borrowings.
Excessive borrowings from the central bank has also resulted in rise in floating debt (that comprise of short-term instruments such as T-bills), raising its share in GDP from 11.1 percent at end-June 2007 to 14.7 percent by end-April 2008. On margin this heavy reliance on debt monetization helps the government reduce its financial cost. However, real economic costs of central bank borrowings cause enormous inflationary pressures, whose burden falls on businesses, industry and public at large. So the government is best advised to launch a program of scaling the SBP borrowing by reducing its stock of borrowing from the central bank over next few years, while not relying anymore on central bank financing.
She said this will infuse greater fiscal discipline as the real hard constraints are imposed on the budget.
Governor, State Bank of Pakistan, Dr. Shamshad Akhtar said during media briefing that these corrective steps would also enhance exchange rate stability for which the SBP has already taken several measures during the last three weeks including—Exchange companies have been directed to transfer foreign currency from their Nostro accounts held outside Pakistan to commercial banks in Pakistan and henceforth exchange companies will have to close all Nostro accounts abroad—Exchange companies have been encouraged to focus on promoting home remittances and companies can only affect outward remittances to the extent of 75 percent of the home remittances mobilized by the respective company—For meeting the demand of foreign currencies within Pakistan, the Exchange Companies have been directed to surrender their surplus foreign currency to State Bank earlier exchange companies were exporting most of the foreign currency, except dollars abroad. Now exchange companies, besides dollar, will not be able to export Pound Sterling, Euro and UAE Dirham’s—Exchange companies have been required to surrender a minimum of 15 percent, instead of earlier 10 percent, of foreign currencies received by them from home remittances to the interbank markets—Limits on advance payments that were relaxed last year have been tightened. Now advance import payments will only be allowed against letter of credits and that too only to the extent of 50 percent. Advance payments against contracts are now not allowed. Last year advance payments against letter of credit and firm registered contracts were allowed to importers via banks to the extent of 100 percent.
The Central Bank Governor informed that some reforms of the forward hedging mechanism available to importers / exporters have been introduced to ensure that there is no misuse of the facility other than true hedging.
State Bank of Pakistan has increased the frequency of surprise inspections on banks and exchange companies in relation to their compliance of all foreign exchange related regulations, she said.
The SBP Chief , speaking of the salient features of the last Monetary Policy Statement (issued on January 31st, 2008) , said the tightened monetary policy was issued in perspective of the trends and developments surfacing in the first two quarters of FY08.
She said the SBP had also enunciated clearly in the MPS the growing domestic vulnerabilities and risks facing Pakistan’s economy given the disruptions in 2007 both on economic and political front.
Dr Akhtar said renewed pressures are visible in the country as the domestic and international economic environment and outlook has changed significantly. Multidimensional global developments including the growing liquidity crunch and the rising global commodities prices as well as the rising domestic twin deficits reflect the significant aggregate demand.
Together these developments are now manifesting themselves into heightened inflationary pressures which unless curbed is expected to magnify further, she said.
The unfolding events on both international and domestic front have enhanced the economic stress worldwide as well as in Pakistan. Most countries, developed or developing, are likely to register a slowdown and have witnessed exceptional rise in inflation, which is now emerging as the biggest challenge facing the global economy.
Central Banks are and will be expected to play a key role in the current global scenario to strike a balance between growth and price stability. On the balance it is being acknowledged across all economies that managing domestic demand pressures is critical in avoiding further and steeper rise of inflation ; current rate of inflation has already started to impact economic growth and has induced fresh threats to economic stability.
Pakistan’s macroeconomic outcome for FY08 has deviated considerably from the original projections. This has necessitated re-examination of the monetary policy framework that was based on different assumptions related to fiscal and external current account deficit as well as output growth and inflation.
The slippages in twin deficits and borrowings of the government from the SBP have grown persistently every month. Equally concerning is steady rise, but now a sharp spike in year-on-year indicator of food inflation . These trends have reached a proportion that are now unsustainable and without corrective actions carry risk of creating more macroeconomic complications.
She said few developments stand out and reflect the unprecedented economy-wide pressures and highlight the urgency of an immediate monetary policy tightening.
1) External current account deficit has increased at a pace that is difficult to sustain the slowdown in financial inflows. The rising external current account deficit owing to widening trade deficit indicates that, despite a decent export performance , significant import demand pressures exist in the economy.
Underlying this alarming trend , most worrisome is the acceleration in import demand during the first four months of 2008 that has been rising unabated over the entire fiscal year. During this period , import bill has increased by 13.4 billion dollars while export revenues grew by only 6.9 billion dollars resulting in an increment of 6.5 billion dollars in trade deficit.
Most distinct is the extraordinary growth in the non-oil and non-food imports running at 42 percent during the same period. Consequently, the external current account deficit is projected to range between 7.3 to 7.8 percent of GDP , which is much higher than the initial projection of 5 percent for FY08. This is clearly unsustainable and calls for taking urgent corrective actions.
2) Original projections of balance of payments were casted assuming growth in foreign exchange inflows in line with the results of FY07. However, liquidity constraints in global financial markets and the domestic political uncertainty have impacted the net foreign inflows position. Burgeoning external current account deficit along with slowdown in foreign direct investment and foreign portfolio outflows has resulted in drawdown of reserves by US$3.7 billion over July 1- May 16 FY08 and by US$4.6 billion relative to end-October 2007.
3) Complications on financing of external current account deficit coupled with speculative positions in the domestic foreign exchange market have put enormous pressure on the exchange rate, she said.
Dr Shamshad Akhtar said that since end of June 2007, the Pak Rupee has depreciated by 14.9 percent up to May 21 , 2008 and most of this depreciation is concentrated in the last six weeks or so. By the end of March 2008 , the Rupee depreciated by only 3.9 percent and since then it has depreciated by 10.8 percent.
The effects of this depreciation on domestic inflation will emerge in the coming months . Recognizing the prevailing pressures on exchange rate , SBP is committed to maintaining macroeconomic stability which should help further stabilize exchange markets.
She said the monetary tightening along with the structural changes to limit Central Bank borrowings for budget should help infuse exchange rate stability. In tandem, SBP has launched structural reforms of exchange companies which are intended to activate them to augment inflows, while maintaining strict discipline and proper disclosure.
4) Given substantial slippages , budget deficit is projected to be significantly higher relative to the original budgetary estimates for FY08. By December 2007 (latest available data), it had reached Rs356 billion against the full year budgeted estimate of Rs399 billion and since has exceeded the budgeted target by a wide margin, she said.
The Governor SBP said the aggregate demand pressure from fiscal module compounded as the government opted to rely excessively from central bank borrowings which, being inflationary , have fuelled considerable inflationary pressures. Rather than retiring its borrowings from central bank , as mutually agreed at the beginning of FY08, government’s borrowing during July 1- May19, 2008 reached Rs 544.1 billion.
Stock of outstanding Market Related Treasury Bills (MRTBs) , an instrument through which government borrows from SBP on tap for replenishment , has reached Rs 945.9 billion ( almost 9.4 percent of GDP); highest ever in Pakistan’s history and more than double of last year’s level of Rs 452.1 billion.
The borrowings from the SBP are leading to enormous expansion in reserve money and overall money supply in addition to seriously complicating monetary policy management. This trend has reversed the decline in core inflation which had come down to 5.2 percent by May 2007 -- a success achieved as a result of few rounds of monetary tightening over the preceding 18 months.
5) Despite monetary tightening in January private sector credit has grown consistently and has outpaced last year’s growth. Credit to manufacturing, particularly textile sector that benefitted from additional incentives , has been steady . One plausible explanation for strong private sector credit growth is the fall in real lending rates. As a result of persistent increase in domestic inflation, real interest rates have fallen from 3.4 percent in December to a meager 1.9 percent in March 2008 . Real lending rates in Pakistan has been low now for quite some time. To suppress the aggregate demand pressures and rising inflationary trends, it is imperative for real lending rates to increase.
6) The SBP said that combination of these developments has raised the headline inflation to an alarming level. On year on year (YoY) basis, it has almost doubled in just four months; moving from 8.8 percent in December 2007 to 17.2 percent in April 2008. More disturbing is the trend of food inflation, which has also doubled spiking to 25.5 percent from 12.2 percent during the same period.
Although the importance of administrative supply side measures cannot be undermined in taming food inflation, the urgent need for further tightening to address their second round impact on headline inflation cannot be ignored either. Core inflation measures, depicting persistent and mounting demand pressures, also portray worrying trends, she said.
Non-food non-energy measure of core inflation has jumped from 7.2 percent in December 2007 to 10.8 percent in April 2008. Similarly, 20 percent trimmed measure of core inflation has peaked to 14.1 percent. These trends have undermined the past few years of monetary tightening which had significantly curbed by mid 2007. With oil price in the international market now hovering around US$ 130 per barrel, there is likely to be additional consequences for macroeconomic imbalances and inflation.
Significant slippages in domestic and external deficit for FY08 and the complications of its financing mix and requirements, particularly borrowings from the SBP, have reached unsustainable levels. Based on current macroeconomic trends, the average headline inflation for the entire FY08 is forecasted to be over 11 percent— almost double the target of 6.5 percent, the Governor State Bank said.

عوام کا قانون شکن قیادت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔۔۔ تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد

حکومت کومعاشی استحکام کے لیے سخت کام کر نا ہوگا تاکہ آئندہ بجٹ عوام دوست ہو جس میں غریب عوام کو ریلیف پیکج فراہم کیا جاسکے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اشیائے خورد نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر عوام کو کیسے ریلیف دیا جائے۔ عوام کو قومی مجرموں نے مصیبت میں ڈال دیا ہواہے اور دور دور تک دکھائی نہیں دیتا کہ تمام بحرانوں پر قابو پا لیا جائے گا۔ حکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے اور عوام ایک وقت کی روٹی کیلئے بلبلا رہے ہیں۔ملک میں انصاف نا م کی کوئی چیز نہیں اور جس ملک میں انصاف نہ ہو و ہاں چور چکے اور قرضہ چور بد معاش دن دیہاڑے پو لیس اسکواڈ کے پروٹوکول میں سرعام دھند ناتے پھرتے ہیں۔ ججز کی بحالی کے بعد بھی اگرچہ تما م بحران جوں کے توں رہیں گے لیکن یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ بحران کے پیدا کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف کار وائی ضرور ہوگی۔ اور اس وقت عوام کا تماشا دیکھنے والے سیاسی اور اسٹیبلیشمنٹ کے منہ زور قانون شکن بد معاش جوابدہ ہوں گے۔ اور جب ان سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پوچھیں گے کہ یہ کر سی اور اقتدار آپ کو جہیز میں نہیں ملا اور جب انہیں بتا یا جا ئے گا کہ یہ ملک آپ کے باپ کا نہیں کہ آپ جو چاہیں من ما نی کر تے رہیں بلکہ یہ ملک اس سولہ کروڑ عوام کا ہے جس کی خوشحالی اور ترقی کے نا م پر آپ اربوں ڈالرز غیر ملکی قرضے کھا گئے ہیں اور یہ سا را بوجھ مختلف بحرانوں کی شکل میں عوام کے کندھوں پر ڈال پر دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے کہ تما م قومی مجرم ،ججز کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس وقت ججز کی بحالی ملک و قو م کی بقا کا مسئلہ ہے۔ عوام اس وقت آٹا،بجلی،پانی،مہنگائی،بے روزگاری اور نا انصافی سے تنگ آ کر چلا رہے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے لیکن کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقتدار کی ہوس نے سب کو اندھا کر کے رکھ دیا ہے کو ئی بھی اقتدار چھوڑنے کو تیا ر نہیں قانون شکن ما فیا بے شرم ہو چکا ہے اور ایک دوسرے کی ٹا نگیں کھیچنے میں لگا ہوا ہے۔ اس وقت جو ملک کے حا لات کا ناک نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ سرحد والے اپنی من ما نی کر رہے ہیں، پنجاب والے اپنی من ما نی کر رہے ہیں جبکہ گورنر پنجاب اپنی بیان بازی کر رہے ہیں اور یہی صورت حال مر کز میں ہے کہ پیپلز پا رٹی کس خفیہ ہاتھ سے بلیک میل ہو رہی ہے ؟ جو کہ حیران کن بات ہے حالانکہ پیپلز پا رٹی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کی قیادت ماضی میںکسی حا ضر سروس جر نیل سے بھی بلیک میل نہیں ہوئی ۔جان دے دی لیکن اپنے اصولی موقف پر ڈٹی رہی۔ایوان صدر اپنی جگہ ڈٹا ہوا ہے۔ن کے وفاقی وزراء کے جانے سے وازرتیں خا لی پڑی ہوئی ہیں اگرچہ ان کے اضافی چارج دے دیے ہوئے ہیں لیکن ایک وزیر کے پاس چار چار اضافی چارج ہیں وہ کسی ایک وازرت میں وقت نہیں دے سکتا جس کی وجہ سے عوام کو دقت کا سا منا ہو رہا ہے ۔ پیپلز پا رٹی کے اراکین اسمبلی کی اکثریت ہے لیکن قیادت کو ان پر اعتبار ہی نہیں کہ انھیں کسی وزارت کی ذمہ داری سونپی جا سکے۔ ان وزارتوں کے متعلقہ محکموں اور ڈا ئریکٹورٹ میں طرح طرح کی من مانیاں اور اختیارات کا غلط استعمال کر کے وہاں کے ملازمین اور عوام کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ عوام کو وزراءکی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے رسائی حاصل نہیں ہورہی اور آئے روز مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم جناب خورشید شاہ سے بھی گزارش ہے کہ وہ وفاقی نظامت تعلیمات کی بھی خبر لیں وہاں کچھ اساتذہ کو دو دو سال سے مکا نوں کا کرایہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے انھیں کئی مسائل کا سامنا ہے کرایہ اسلئے نہیں دیا گیا کہ بجٹ شاٹ ہے بلکہ بعض سکولز کی پر نسپل نے بعض ٹیچر کو تنگ کرنے کیلئے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہائرنگ فارمز کی تصدیق ایک سال تک روکے رکھی اور جب ایک سال بعد ان کی فائل جمع ہوئی تو پتہ چلا کہ اب بجٹ شاٹ ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم اور قائم مقام ڈی جی ایجوکیشن عتیق الرحمن سے گزارش ہے کہ ان پر نسپلز کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور اس ضمن میں ایف جی جونئیر ماڈل سکول کی پر نسپل مسرت صادق کے دحونس آمیز رویے کا سکینڈل قومی اخبارات میں آ چکا ہے لیکن اس کے خلاف ابھی تک کو ئی کا روائی عمل میں نہیں آسکی۔ جسکی وجہ وفاقی نظامت تعلیم میں اسے ان کا لی بھیڑوں کی پشت پنائی حاصل ہے جو مسرت صادق جیسی بدکردار پر نسپلز کو استعمال کر کے شریف النفس ٹیچرز کو ذہنی کو فت پہنچا تے ہیں اور ان کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازشیں کر کے اور جھوٹے الزامات لگا کر بد نام کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنی اولین فرصت میں حل کریں اور اس سر کش پر نسپل کے خلاف کا روائی کریں تاکہ اس پتہ چلے کہ اختیارات کا غلط استعمال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔جبکہ اب عوام عدلیہ کی آزادی اور آئین وقانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس وقت ملک میں لاقانونیت کا سیلاب آیا ہوا ہے جس میں عوام خشک تنکوں کی طرح بہہ رے ہیں اور بعض ڈوب کے مر رہے ہیں اگرچہ فوج کو سیاست سے دور کیا جا رہا ہے جو کہ جنرل کیا نی کا ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن پاک فوج کی یہ روایت اور شان رہی ہے کہ جب بھی وطن عزیز میں کوئی ناگہانی آفت یا مصیبت آئی ہے اس نے اس عوام کو بچانے کی کوشش کی ہے مثال کے طور پر ملک کے کسی حصے میں جب بھی کوئی سیلاب آیا ہے تو پاک فوج کے جوانوں نے نہ صرف ڈوبتے لوگوں کو بچایا ہے بلکہ ہیلی کاپٹروں سے ان تک خوراک بھی پہنچانے کا اہتمام کیا ہے میرا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں قانون شکن اور اقتدار کی ہوس کے بھوکے قومی مجرموں کی وجہ سے مختلف بحرانوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور یہ سیلاب اتنا شدید ہے کہ عوام کو کچھ نظر نہیں آ رہا کہ یہ بحران کسی کنارے بھی لگے گا اور اس کے حل کیلئے عوام کو فوج کی مدد درکار ہے عوام ا پنی پاک فوج سے بے حدمحبت کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں نااہل قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں درا ڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہمارے عوام با شعور ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کہ ہماری پاک فوج دنیا کی ایک بہترین منظم فوج ہے اور اسلام دشمن طاقتوں کو پاک فوج کھٹکتی ہے۔ ملک میں اس وقت جو عدلیہ کا بحران ہے اس کو عوامی خواہشات اور قانون کے مطابق حل کرنے میں کوئی بھی تیار نہیں اور بچوں کی طرح ہر کوئی ضد کر رہا ہے کہ میں ئینی صدر ہوں کوئی کہتا ہے کہ ہمیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے کوئی کہتا ہے کہ عوام نے عدلیہ کی بحالی اور مشرف کی پا لیسوں کے خلاف ووٹ دیے ہیں وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور عوام کے مسائل حل کر نے کی کسی کو ہوش نہیں ۔عوام کدھر جائیں تو اس نا امیدیں میں بھی عوام ما یوس نہیں کیونکہ ان کی نظریں پاک فوج کے سر براہ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ آئینی بحران کو حل کرنے میں عوام کی مدد کریں گے جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاک فوج قوم کی حمایت سے موجودہ اور ابھرتے ہوئے داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ جبکہ عوام نے خبر دار کیا ہے کہ مائنس ون یا مائنس ٹو کا فارمولہ وکلاء اور عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہر صورت بحال ہونا ہے ان کے بغیر معزول ججوں کی بحالی وکلاءتحریک کے منافی ہوگی جس پر سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ وکلاء تحریک کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے اور آئندہ چند روز کے اندر وکلاء تحریک کا فیصلہ کن اور آخری راو¿نڈ شروع ہونے والا ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے دیگر معزول جج صاحبان کو 24 مئی کو فیصل آباد اور اس کے بعد لاہور میں وکلاء کنونشن کے موقع پر آئین کے تحت ان جج صاحبان کو مکمل پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کرے گی جبکہ وکلاء تحریک کے دوران لانگ مارچ سمیت ہر ایونٹ کے موقع پر وکلاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی ۔ مسلم لیگ (ن) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے ججوں کے معزولی کے 3 نومبر کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتی ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔ لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور معزول کئے جانے والے دیگر تمام ججوںکو آئین کے تحت انہیں سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا وہی پروٹوکول ہو گا جو آئین و قانون کے تحت ایک چیف جسٹس کا ہونا چاہیئے کیونکہ آئین کے تحت انہیں معزول نہیں کیا گیا اور عوام کی نظرمیں وہ آج بھی حقیقی چیف جسٹس ہیں ۔ ججوں کی بحالی کے حوالہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے تاہم ان کی بحالی کیلئے طریقہ کار پر اختلاف ضرور ہے ۔ وفاقی حکومت تو ان ججوں کو تنخواہ دینے کی پیش کش بھی کر چکی ہے ،تنخواہ صرف حاضر سروس ججوں کو ہی دی جا سکتی ہے ۔ ججوں کی بحالی کوئی غیر آئینی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کسی کو بھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیئے ۔پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر اختلافات کو دور کیا جا چکا ہے ۔ باقی ماندہ اختلافات دور کرنے کیلئے دونوں جماعتوں کی جانب سے 3`3 ارکان پر مشتمل سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے ۔ اگر چیف جسٹس کے پروگراموں پر متعلقہ بار ایسوسی ایشن سیاسی رہنماو¿ں کو شرکت کی دعوت دیں تو اسے قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ماضی میں ایسے پروگراموں میں سیاسی رہنماو¿ں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تاہم مسلم لیگ (ن) کے ورکرز چیف جسٹس اور دیگر معزول جج صاحبان کا بار ایسوسی ایشن کی باو¿نڈری وال کے باہر بھرپور استقبال کریں گے ۔ ایک گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے مسلم لیگ (ن) کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے تاہم جب وہ نگران وزیر تھے اس دوران کچھ مسائل ضرور پیدا ہوئے ۔ پنجاب حکومت کی معزول ججوںکو پروٹوکول دینے کی پالیسی ایوان صدر سے ٹکراو¿ نہیں ہے ۔ جب 3 نومبر کا اقدام ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا تو پھر ٹکراو¿ کیسا ۔ جبکہ پنجاب کے وزیر قانون نے یہ بھی کہا ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کیلئے مسلم لیگ اپنی صوبائی حکومت سمیت کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کر ے گی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر مشرف کو بھی پنجاب حکومت سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ یہاں آئیں گے تو اس کا فیصلہ بھی کرلیا جائے گا ہماری اپنی سیاسی سوچ اور اپنا منشور ہے جس پر ہم اپنے اپنے طریقے سے عمل پیرا ہیں ۔ ایوان صدر نے 18 فروری کے انتخابات کے نتائج کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا حالانکہ جنرل (ر) پرویز مشرف انتخابات سے پہلے اعلان کر چکے تھے کہ اگر ان کی حامی جماعتیں الیکشن ہار گئیں تو وہ مستعفی ہو جائیں گے ۔ قوم مایوس نہ ہو ججز ایک نہ ایک دن ضرور بحال ہوں گے ۔ مسئلہ کشمیر کا ایسا حل ہونا چاہیے جو دونوں ملکوں کو قابل قبول اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ ججز کی بحالی کیلئے پیپلز پارٹی سے دوبارہ معاہدہ کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی کو گولی سے نہیں بات چیت سے خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کیاجا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقد یر کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہیے ۔با اختیار حکومت ہی روٹی کپڑا اور عوام کے دیگر مسائل حل کر سکتی ہے ۔ پنجاب کے گورنر کی تعیناتی پرن کو اعتماد میں نہیں لیاگیا انھیں اقتداد چھوڑنے کا نہیں اتحاد ٹوٹنے کا دکھ ہے ۔ ملک میں عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی میں میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے قوم کا حکمران اتحاد کے ساتھ اعتماد کا رشتہ ہے مگر ججوں کو بحال نہ کر کے قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ اتحاد ٹوٹنے سے ایوان صدر میں تھوڑی سی جان پڑی ہے۔ لوگوں نے تبدیلی کیلئے ووٹ استعمال کیا مگر ابھی تک تبدیلی نظر نہیں آرہی ابھی تک وہی چہرے اقتدار پر براجمان ہیں ۔ پرویزمشرف کے تمام اقدامات کو ختم کرنے میں کیا امر مانع ہے ۔ لوگ ججز کی بحالی چاہتے ہیں نواز شریف نے آصف علی زرداری سے ایک معاہدہ کیا مگر اس پر تاحال عمل نہیں ہوا مشرف ابھی تک سیٹ پر موجود ہیں اس لئے لوگ مایوس ہیں اتحاد میں دراڑ جس نے بھی ڈالی ہے قوم سب جانتی ہے پہلی مرتبہ دو بڑی جماعتوں نے اتحاد قائم کر کے ایک نئی مثال قائم کی مگر اس میں دراڑ سے قوم مایوس اور پریشان ہے اتحادی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ ڈکٹیٹر کے تمام غیر آئینی اقدامات کو فوراً ختم کر دیتی مگر تاحال مسئلہ جوں کا توں ہے دونوں کے درمیان بات چیت ہوئی اسی کے تحت ہی معاہدہ طے پایا مگر اس پر عملد رآمد نہیں ہو سکا جس سے قوم میں مایوسی پھیلی ۔ ججز کی بحالی کیلئے سادہ قرار داد ہی کافی تھی کہ آئینی پیکج کی ضرورت نہ تھی جمہوریت کے دشمن جو مختلف روپ دھار کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مل کر ڈکٹیٹر کے اقدامات کو ختم کریں وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوریت پھلے پھولے ۔ جبکہ نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمیں کابینہ سے استعفے دینے پر افسوس ہے ہم نے بیس سال متحارب رہنے کے بعد اتحاد کا راستہ اپنایا تھا مگر یہ زیادہ دیر نہ چلا اس کا ہمیں افسوس ہے انہوں نے کہا ہے کہ اقتدار کی لالچ نہیں اگر ایسا ہوتا تو اتنی وزارتیں نہ چھوڑتے ہمارے سامنے ایک مقصد تھا مگر افسوس کہ وہ پورا نہ ہوا ہم کسی آمر کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک نہیں کرنا چاہتے میرے خیال میں آصف علی زرداری نے ایسا نہیں کیا انہوں نے کہاکہ ججز بحال ہونے چاہیے تھا عدلیہ صرف ہماری نہیں پوری قوم کی ہے او رپوری قوم کو اس کی بحالی کی امیدیں ہو چلی تھیں قوم کی محبوب عدلیہ کو مشرف نے نکال کر اپنی من پسند عدلیہ لگائی عدلیہ کو بحال کر کے قوم کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے تھا مگر افسوس ہم کامیاب نہیں ہو سکے قوم نے ہمیں ججز کی بحالی کیلئے ہی ووٹ دیا تھا ہم نے ایسا نہ کر کے قوم کو مایوس کیاہے ہم نے اس مقصد کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لندن گئے دبئی گئے انہوں نے امید ظاہر کیا کہ ججز ایک نہ ایک دن عزت ووقار کے ساتھ ضرور بحال ہوں گے۔ تاہم اس کیلئے ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا کہ وہ کب بحال ہوں گے مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ ضرور بحال ہوں گے ۔ میڈیا کی اس سلسلے میں کوششوں کی داد دیتا ہوں ایک سوال پر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ آمر کبھی بھی غیر قانونی طور پر اقتدار میں نہیں رہ سکتا مصمم ارادہ یہی ہونا چاہے کہ عدلیہ آزا دہو میڈیا آزاد ہو فوج کی سیاست میں مداخلت ختم ہو ہمارا ملک ہماری عزت کا سمجھوتہ نہ ہو ہمارے فیصلے ملک کے اندر ہی ہوں باہر نہ ہوں لوگوں نے پارلیمنٹ با اختیار منتخب کی ہے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو بالادست ہی رکھیں اگر ایسا نہیں تو قصور ہمارا ہے کسی اور کا نہیں ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنے اختیارات واپس لے اس کا فائدہ قوم اور ملک کو پہنچے گا سیاسی جماعتوں کو تو پہنچے گا ہی عوام نے ہمیں اختیار دیا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنا اختیار استعمال کریں اسی اختیارات سے آٹا ، بجلی اور ضروری اشیاء سستی کریں آج عوام روٹی کی وجہ سے بلبلا اٹھے ہیں بجلی نہیں ہے اگر پیچھے سازشی عناصر بیٹھے ہوں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ہمیں چائیے کہ ججز بحال کرتے سترہویں ترمیم کرتے آئین بحال کرتے صدر سے غیر قانونی اختیارات واپس لیتے ہم اس سب کو ممکن بنانے کیلئے ساتھ دینے کو اب بھی تیار ہیں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارے منشور میں ججز ،معیشت کی بحالی کی بات ہے امن وامان کی بات کی ہے عوام کو ریلیف د ینے کی بات ہے ججز کی بحالی ، عدلیہ کی آزادی پر ملک و قوم کا مستقبل وابستہ ہے نواز شریف اس معاہدے کا پابند ہوں جو مری میں ہوا اگر پیپلزپارٹی اس سے ہٹی ہے تو میں نے اسے منانے کی بھرپور کوشش کی ہے عوام کا ہمارے ساتھ اعتماد کا رشتہ ہے مگر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ہم کبھی بھی پیپلز پارٹی کو غیر مستحکم نہیں کریں گے ہم اس عمل کو چلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت حکومت سے باہر آگئے ہیں حکومت کو گرانے کی کوئی بات نہیں کریں گے بلکہ چلانے میں مدد کریں گے ججز کی بحالی اگر اعلان مری کے مطابق ہوتی ہے تو دوبارہ اتحاد کے آپشنز کھلے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم اتنے گئے گزرے نہیں ہیں کہ مشرف ہمیں سائیڈ پر کر دیں اگر ہم کابینہ سے باہر ہو گئے ہیں تو کوئی قیامت نہیں آئی مشرف نے آگے ہمیں ملک سے باہر کر دیا تو سیاست اور عوام کے دلوں سے تو باہر نہیں کر سکے ہم الحمد اللہ اب بھی عوام اور سیاست میں موجود ہیں پرویزمشرف سیاسی اور اخلاقی طور پر بہت کمزور ہو گئے ہیں ایوان صدر اٹھارہ فروری کو تو بالکل فارغ ہو گیا ہے ہمارے اتحاد ٹوٹنے سے تھوڑی سے اس میں جان پڑی ہے انہوں نے کہاکہ فوج کو ا پنا کام کرنا چاہیے صدر یا سیاستدانوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے قوم اور ملک کی ہوتی ہے وہ کسی شخص کی نہیں ہوتی اس وقت فوج اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا رہی ہے اسی طرح ہمیشہ ہونا چاہیے ماضی میں مشرف نے جو کچھ کیا ہے وہ قوم کی طرف سے نہیں کیا ہے اس وقت کے جرنیلوں کو اس کام کیلئے مشرف کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہو سکتا ہے کہ صدر بش کی ذاتی حمایت مشرف کے ساتھ ہو مگر انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ حالات کیا رخ اختیار کر چکے ہیں ہم پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیکھنا چاہتا ہم کسی بیرونی طاقت کی ملک کے اندر مداخلت کو پسند نہیں کر تے ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم ججز کو اندرونی طورپر بحال کرسکتے ہیں انہوں نے کہاکہ عوام میں مایوسی کی کیفیت ہے تاہم ہم حالات کو بحال ضرور کر لیں گے ہم جمہوری سسٹم کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے انہوں نے کہاکہ ججز کی بحالی پاکستان کو مستحکم کرے گی اگر ایسا ہو گا تو ہم بہت خوش ہوں گے ہم پھر سے زرداری کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں گے پنجاب میں ہماری مخلوط حکومت ہے پیپلزپارٹی کو ہر فیصلے میں اپنی اتحادی جماعت سے پوچھنا چاہیے ان کے ووٹ ہم سے کوئی بہت زیادہ نہیں اس لئے کوئی فیصلہ کرنا سے پہلے ہم سے ضرور پوچھا جانا چاہیے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ہماری پارٹی کو نقصان پہنچایا ان کو واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے طاقت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا طاقت استعمال کر کے دیکھ لیا گیا ہے دہشت گردوں کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ بات چیت کا راستہ ہر ایک کیلئے کھلا رکھنا چاہیے ڈاکٹر قدیر کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے تمام تنازعات کو حل ہونا چاہے کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اگر دونوں ممالک کے درمیان ویزہ سسٹم ختم کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے دونوں جانب کی عوام کو آر پار آزادانہ آنا جانا چاہیے میں بھارتی حکام سے بھی صرور بات چیت کروں گا کہ بات چیت جاری رہنی چاہیے ہم چاہتے ہیں کہ کارگل کے مسئلے پر کمیشن قائم ہونا چاہیے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ طے شدہ فارمولے کے تحت ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی راولپنڈی سمیت کسی جگہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے مین امیدوار کھڑا نہیں کرے گی ۔ 18 فروری کے انتخابات بھی پوری طرح شفاف نہیں تھے تاہم نتائج بطور احتجاج اس لیے قبول کیے کہ ملک کو جمہوریت کی کی فوری ضرورت تھی ۔ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے مکمل حامی ہیں لیکن عجلت میں کوئی کام کرنے کی بجائے عدلیہ کی مستقل آزادی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔ گندم کا بحران ان اندرونی سازشوں کی ایک کڑی ہے جس کے ذریعے بعض عناصر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ آٹھ سال کے دوران راولپنڈی کی احتساب عدالتوں میں اپنے خلاف زیر سماعت ریفرنسز کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے اعزاز مین ایک تقریب کے موقع پر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ‘ پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر ‘ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان بھی موجود تھے۔ گفتگو کے دوران آصف زرداری مزاح سے بھرپور دلچسپ چٹکلے اور جملے بھی چست کرتے رہے ۔ آصف زرداری نے خوشگوار موڈ میںگپ شپ لگاتے ہوئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان یہ فارمولہ پہلے سے طے ہے کہ اٹھارہ فروری کے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی جیتی ہوئی سیٹ پر دوسری پارٹی کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرے گی جس کی پابندی کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نواز شریف اور شہباز شریف کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرے گی جبکہ راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 سمیت دیگر حلقوں میں بھی مسلم لیگ کے مدمقابل کو ئی امیدوار کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے 18 فروری کے نتائج کے حوالہ سے کہا کہ یہ نتائج پوری طرح تسلی بخش نہیں اور نہ ہی میں یہ نتائج تسلیم کرتا ہوں ہم نے حالیہ انتخابات کے نتائج بطور احتجاج اس لیے قبول کیے کہ ملک کوجمہوریت کی فوری ضرورت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے سمیت پوری پیپلزپارٹی ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کی حامی ہے ا ور ہم ہر قیمت پر ججوں کو بحال اور عدلیہ کو آزاد کریں گے ۔ لیکن اس حوالے سے بعض لوگ عجلت میں جو نتائج چاہتے ہیں وہ آسان نہیں ہم سیاستدان ہیں اور سیاست میں ایسا راستہ تلاش کررہے ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی ‘ جمہوریت کے استحکام ‘ معیشت کی مضبوط ملک وقوم کی ترقی کے ذریعے عوامی خواہشات پر عمل کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے آئینی پیکج تقریبا تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور نواز شریف کی اسلام آباد آمد پر انہیں اس کے مندر جات سے تفصیلی آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت ملک میں پیدا کردہ خوراک کا بحران مصنوعی ہے ۔ کیونکہ بعض عناصر ملک قوم کے خلاف اندرونی سازشوں میںملوث ہیں جس طرح چنگیز خان کوئی علاقہ یا قلع فتح کرنے سے پہلے اپنے ایجنٹ بھیج کر وہاں کی طاقت کو اندرونی طورپر کھوکھلا کرتا تھا اسی طرح آج پاکستان کو تورنے کے لیے بھی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ اور اندرونی سازشیں باہر سے مسلط کردہ جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گندم سمیت خوراک کے بحران پر قابو پانے کے لیے مشاورت جاری ہے جلد اس پر قابو پالیا جائے گا انہوں نے گندم کی افغانستان سمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کی گندم پالیسی میں ہمیشہ افغانستان کو شامل رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا انحصار ہی پاکستان پر ہے ۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اب تک ملک وقوم کو پانچ بھٹو دے چکے ہین انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے جس کے لیے پنجاب ‘ بلوچستان اور سندھ مین ان کی حفاظت کے لیے الگ الگ گاڑیاں اور سخت سیکورٹی پلان تھا لیکن ہم نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ بی بی کے ساتھ پنجاب میں اتنا بڑا سانحہ پیش آئے گا ہمارا خیال تھا کہ وہ یہاں محفوظ ہیں اور یہاں انہیں کچھ نہیں ہو گا انہوں نے کہا کہ جیلوں کے نظام میں اصلاحات کے لیے صوبوں کوہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔ جبکہ صدارتی ترجمان راشد قریشی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کسی قسم کے آئینی پیکج کو ایوان صدر میں پیش کرنے کی تردید کرتے ہوئے اس خبر کو بالکل بے بنیاد اور حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ نہ کوئی آئینی پیکج ایوان صدر میں پیش کیاگیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ایوان صدر کے پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی رابطے ہیں یہ بالکل لا شعوری بات ہے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے صدارتی ترجمان نے کہاکہ اس بارے میں خبریں اور تبصرے بالکل غلط ہیں میں نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا ہے انہوں نے واضح کیا کہ ایوان صدر کی آئینی پیکج پر کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی سے کوئی رابطہ ہے جبکہ پاکستان بار کونسل نے عدلیہ کی بحالی کے لئے ہونے والے لانگ مارچ اور وکلاء کنونشن کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کیلئے عملدرآمد کمیٹی کے قیام اور اس کے عہدیداروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے ، لانگ مارچ کا نام”جسٹس افتخارمارچ“رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وکلاء رہنماو¿ں نے جنرل باڈی اجلاسوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این آر او کے خاتمے کے خوف سے ججوں کو بحال نہیں کیا جارہا،لیکن وکلاء اپنی جدوجہد کر رہے ہیں اور ہم بہت کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری منیر الرحمن نے کہا ہے کہ وکلاء تحریک ضرور کامیاب ہوگی‘ وکلاء اتحاد کا مظاہرہ کریں ورنہ 9 مارچ‘ 12 مئی‘ 9 اپریل اور 3 نومبر جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ جنرل باڈی سے شعاع النبی‘ غفار کاکڑ نے بھی خطاب کیا۔ سندھ بار کونسل کے رکن صلاح الدین نے کہا کہ پی سی او کے تحت حلف لینا غیر آئینی ہے‘ عوام کا حکمرانوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔تفصیلات کے مطابق عملدرآمد کمیٹی کے عہدیداروں میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین حاجی سیدالرحمن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن کو عملدرآمد کمیٹی کا معاون کنوینر مقرر کیا گیا ہے جبکہ ارکان میں حاجی سیدالرحمن، چوہدری اعتزازاحسن، رشید اے رضوی، حامد خان، امداد اعوان، علی احمد کرد، چوہدری امین جاوید تمام صوبائی بار کونسلوں کے وائس چیئرمین، تمام ہائی کورٹس بار ایسوسی ایشنوں کے صدر اور لاہور کراچی پشاور اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشنوں کے صدر شامل ہیں۔ عملدرآمد کمیٹی کو لاہور میں ہونے والے آل پاکستان وکلاء نمائندہ کنونشن کی قرارداد کی روشنی میں حتمی شکل دی گئی ہے۔ عملدرآمد کمیٹی لانگ مارچ کے روٹس کا تعین کریگی اور وکلائ کنونشن سمیت دیگر تمام معاملات کو بھی حتمی شکل دے گی تاکہ 10 جون سے لانگ مارچ کا آغاز کیا جاسکے۔ حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کیلئے اجلاس صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی سردار عصمت اللہ خان کی زیرصدارت ہوا جس میں کراچی بار کے جنرل سیکرٹری نعیم قریشی نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ اجلاس میں صحافیوں کو بیٹھنے سے روک دیا گیا تھا نہ ہی اجلاس میں موجود ڈویڑنل نمائندوں کی فہرست جاری کی گئی۔ اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں سردار عصمت اللہ خان نے کہا کہ 10 جون کو جو لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس کا نام چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مارچ رکھا گیا ہے۔ 24 مئی کو فیصل آباد میں وکلاء کنونشن میں شرکت کیلئے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو وکلاء جلوس کی شکل میں صبح 7 بجے ان کی رہائش گاہ سے لے کر بذریعہ موٹر وے فیصل آباد جائیں گے۔ انہوں نے سول سوسائٹی، طلبہ، تاجر برادری، مزدوروں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ 24 مئی کے کاروان میں شرکت کریں کیونکہ ججز کو فنکشنل کرنے کی تحریک اب ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہمیں کسی سے گلہ نہیں ہماری جنگ جاری رہے گی۔ کراچی بار کے سیکرٹری جنرل نعیم قریشی نے کہا کہ 19 اپریل کو کراچی میں بار اور وکلاء کو جلایا گیا لیکن اس پر راولپنڈی میں جو ردعمل تھا اس نے ہمارا حوصلہ بلند کیا ۔ این آر او کی تلوار معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے ججز کی بحالی میں رکاوٹ ہے۔ جبکہ وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کیلئے اتحادی حکومت پر کوئی دباو¿ نہیں ہے اور نہ ایسا کچھ قبول کیا جائے گا، عوام کو مایوس نہیں کرینگے،انہوں نے واضح کیا کہ مسئلہ حل کرنے کے لئے طریقہ طے کرنا ہے ،کیو نکہ کرسی ایک ہے اور چیف جسٹس دو ہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ ایک غلطی کا ارتکاب کیا گیا اسے دہرایا نہیں جا سکتا، ن لیگ کے وزراء جلد کابینہ میں شامل ہو جائیں گے، دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے تیار کی گئی 3نکاتی حکمت عملی کو امریکا نے سراہا ہے ۔ اس بارے میں میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں، نواز شریف کے ذہن میں کوئی شبہ نہیں ہے اور کسی سیاسی جماعت کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان معزول ججوں کو جلد از جلد بحال کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ وسیع البنیاد ہے اور اس کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماہرین طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں اور جلد سفارشات پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک غلطی کا ارتکاب کیا گیا اور اسے دہرایا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ دنوں انھوں نے بین الاقوامی فورم پر اس کمٹمنٹ کا اظہاربھی کیاکہ تمام معزول جج صاحبان کو بحال کیا جائے گا۔ جب ان سے طریقہ ہائے کار کے بارے میں استفسار کیا گیا تو وزیراعظم نے کہا کہ ایک موجودہ چیف جسٹس ہے اور ایک دوسرا چیف جسٹس ہے، جسے بحال کرنا ہے، ہمیں ایک چیف جسٹس رکھنا ہے اور آئینی ماہرین اس بارے میں طریقہ کار وضع کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی طرف سے دیئے گئے استعفوں کو قبول نہیں کیا ہے کیونکہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کی بحالی کے بعد بہت جلد کابینہ میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ججوں کی بحالی کیلئے لوگوں کو کب تک انتظار کرنا ہو گا تو یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان کے عوام بہت بالغ النظر، ذہین اور متحمل مزاج ہیں۔ وہ حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں اور ہم انہیں مایوس نہیں کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے صدر بش کو بتایا کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کیلئے تین نکاتی حکمت عملی کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے ساتھ سیاسی بات چیت شامل ہے جو عسکریت پسند نہیں ہیں یا جو ہتھیار ڈال کر دہشت گردی کے انسداد میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے، مواصلات کو بہتر بنانے، روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے فاٹا میں ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنے کی بھی خواہاں ہے اور آخری چارہ کار کے طور پر اس معاملہ سے نمٹنے کیلئے وہاں فورس موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکمت عملی امریکہ کو قابل قبول ہے اور انہوں نے ہماری کوششوں کو سراہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ ہماری سرزمین پر 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہیں، عالمی غذائی سیکورٹی کا خطرہ بھی ہمارے اوپر منڈلا رہا ہے، ہمیں نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں بلکہ افغانستان کی بھی اور گندم وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اسمگل کی جا رہی ہے۔ ایک اور سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغانستان کی تعمیرنو کیلئے 30 کروڑ ڈالر کی معاونت دے رہے ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ پاک۔بھارت تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ شاندار تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ پاکستان بھارت سے اچھی توقعات رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا، کشمیر کے عوام اپنا حق خود ارادیت چاہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے درمیان تعاون کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ شرم الشیخ میں مسلم رہنماو¿ں کے ساتھ ملاقاتوں میں انہوں نے بہت اچھی بات چیت کی ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی، زراعت، دفاع اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے بارے میں تجربات کا تبادلہ کیا۔ وزیراعظم نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے سیاسی حمایت کو تقویت دینے اور ملک و قوم کیلئے وسیع تر اقتصادی مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی، ہم تیز تر اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے، سرمایہ کاری کو راغب کرنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور سماجی و اقتصادی ترقی کے فروغ کے خواہاں ہیں۔ وکلاء نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان کہ ایک چیف جسٹس کی موجودگی میں نیا چیف جسٹس نہیں لایا جاسکتا ،پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے انکا خیال ہے کہ اس طرح کے بیانات سے پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف مزید گررہاہے اور پارٹی عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوگئی ہے ریٹائرڈ جسٹس وجہیہ الدین احمد نے کہا کہ 3نومبر 2007کو جسٹس افتخار چوہدری کی موجودگی میں نیا چیف جسٹس لایاگیا اور پیپلز پارٹی مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتی رہی ہے اور یہ واضح نہیں کہ وزیر اعظم 3نومبر کے اقدامات کا حوالہ دے رہے تھے یا کسی اور صورتحال کا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے سے اب تک کسی بھی ایشو پر نتائج دینے میں ناکام رہی ہے اور وزیر اعظم کا بیان مری اعلامیہ کے خلاف ہے۔ چاہے ججوں کا معاملہ ہو یا اقتصادی بحران ، سکیورٹی مسائل ہوں یا سیاسی معاملات، پیپلزپارٹی نے عوام کو مایوس کیا ہے پارٹی نے ایک بھی ایشو پر نتائج نہیں دیئے وکلاء رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے ترجمانوں سے اس سلسلے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے انہوں نے مزید کہا پیپلز پارٹی کو موجودہ مسائل حل کرنے ہونگے ورنہ اسکی مقبولیت مزید گرے گی“ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آئینی پیکیج تیار کررہی ہے جس سے چاروں مستفید ہوں،پرویز مشرف ، آصف زرداری، پی سی او ججوں کو فائدہ ہو اور کچھ عوامی مطالبات بھی تسلیم ہو جائیں انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے کہ اگر ہر ایک کو” خوش“ کرنے کی کوشش کی گئی تو سب کچھ ضائع ہو جائیگا ۔جسٹس وجہیہ الدین نے کہا کہ ”وکلاء تحریک عدلیہ کی آزادی کیلئے شروع ہوئی تھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زرداری یا وزیر اعظم کیا کہتے ہیں ۔جسٹس (ر) طارق محمود نے بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کو واضح اعلان کرنا چاہئے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے درمیانی راستہ اختیار کرکے معزول عدلیہ کی بحالی پر پوری قوم کو ابہام کا شکار کیا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ 3نومبر کو ایک چیف جسٹس کی موجودگی میں گن پوائنٹ پر دوسرا لایا گیا مگر وکلاء یہ معاملہ اٹھاتے رہے ہیں کہ کسی جج کی تعیناتی صرف خالی سیٹ پر ہی کی جاسکتی ہے موجود ججوں کی جگہ پر نہیں انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنی مرضی سے ایسا بیان نہیں دے سکتے ہیں یہیں سے ”کسی“ نے انکو ایسا کرنے کیلئے کہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی قرار داد کے ذریعے ججوں کی بحالی پر واضح نہیں ہے مگر تنخواہوں کی ادائیگیوں کے حکم سے وہ انہیں سپریم کورٹ کا جج تسلیم کرتے ہیں وکیل نے کہا کہ اگر 2نومبر کے مطابق معزول ججوں کو تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں تو پیپلز پارٹی جسٹس افتخار چوہدری کو بطور چیف جسٹس آف پاکستان کے خود بخود تسلیم کرتی ہے لیکن انکا وزیر اعظم اصل صورتحال کے برعکس بیان دے رہا ہے ۔سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اور معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے قریبی معاون اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی پارٹی کے منتخب وزیر اعظم نے ایسا بیان جاری کیا جس سے ایک آمر کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا بیان بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں اور انکے فلسفے سے انحراف ہے جنہوں نے ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کیلئے اپنی زندگیاں قربان کیں یہ خوفناک بات ہے کہ ایسی پارٹی کا منتخب وزیراعظم مشرف کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرنیوالے بیانات دے رہا ہے ۔اس طرح ملک کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے ۔اطہر من اللہ نے کہا ”کسی سپریم کورٹ نے کبھی پی سی او کو معطل نہیں کیا “لیکن اس پی سی او کو سپریم کورٹ کے 7رکنی بنچ نے معطل کیا انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کا بیان میثاق جمہوریت کی بھی واضح نفی ہے ۔ جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے ہٹنے تک خود کش حملے ختم نہیں ہوں گے۔ جب تک پرویز مشرف منظر سے نہیں ہٹتے پاکستان میں خود کش حملے ختم نہیں ہوں گے۔ جبکہ وفاقی سیکرٹری برائے انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ محمد اکرم شہیدی نے کہا ہے کہ نئے انفارمیشن ایکٹ میں صحافیوں کو اطلاعات تک بروقت رسائی دینے ، احتساب کا عمل یقینی بنانے میں مدددینے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے میڈیا کی تمام ضروریات کا احاطہ کیاجائیگا،شہید ی نے اس موقع پر مزید کہا کہ سی پی این ای، اے پی این ایس اور پی ایف یوجے سمیت تمام فریقین کے ایک اور اجلاس 25 تا26 مئی تک ہوگا جس میں اس پر غور کیاجائیگا جس کے بعد یہ بل منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کر دیاجائیگا۔سیکر ٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت ایک آزاد فضاپیدا کرنے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور اس حقیقت کا ایک مظہر یہ ہے کہ اب تمام ٹی وی چینلز کے اینکرز مختلف معاملات پر آزادانہ بحث کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج ملک میں60 کے قریب ٹی وی چینلزکام کر رہے ہیں اور میڈیا سے وابستہ اداروں کو ذمہ داری اور بالغ نظر صحافت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اور وزارت اطلاعات ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور اس طرح میڈیاکی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت میڈیاکو دبانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کریگی ۔ جبکہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول تک صدر پرویز مشرف کو اقتدار میں رکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ(ن) لیگ کو پیپلزپارٹی سے دور کرکے پی پی پی (ق) لیگ اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت بنانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور اس میں وہ کافی کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ ایک انٹرویو میں مرزا اسلم بیگ نے کہا ک ہے ہ جب ذاتی مفادات قومی مفادات پر مقدم ہو جائیں تو کمزور فیصلے ہوتے ہیں این آراو کے تحت جو آصف زرداری کو مفادات حاصل ہوئے ہیں مقدمات ختم ہوئے ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف قتل سمیت 2800 مقدمات تھے سب ختم ہو گئے جب اتنا بڑا احسان مندی کا بوجھ ہو تو پھر ذاتی مفادات قومی مفادات پر غالب آجاتے ہیں اور جب تک یہ غالب رہیں گے یہ لوگ دب کر بات کرتے رہیں گے مگر ایسا کوئی دباو¿ نواز شریف اور اے پی ڈی ایم پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس ٹکراو¿ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں جو آج پیدا ہوا ہے اگر یہاں مضبوط قومی حکومت قائم ہوئی تو وہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت نہیں ڈال سکتی بلکہ طاقت کے زور پر ان معاملات کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں طالبانائزیشن ناکام اور ناقص خارجہ پالیسی کارد عمل ہے۔ پرویز مشرف صرف اپنی کرسی بچانے کے لیے وطن عزیز کے محب وطن اور معصوم شہریوں کو اپنی انا اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا ایندھن بنا رہے ہیں ۔ قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی حملوں اور دیگر دھماکوں میں معصوم شہری اور پاکستانی فوجی ہی مارے جارہے ہیں لیکن حکومت سچ چھپا رہی ہے ۔ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ پاک فوج قبائلی علاقو ںمیں ستر ملین ماہانہ لے کر امریکا کی خدمت کررہی ہے اور اس کے کرائے کے گوریلوں کاکردار ادا کر رہے ہیں ۔ طالبانائزیشن کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان اور پاکستانی فوج قبائلی علاقوں سے فوری طور پر نکل جائیں اور سنگین مسئلہ کا حل مذاکرات سے ہی نکالا جائے بصورت دیگر وطن عزیز پر طالبانائزیشن اور دہشت گردی جیسا عذاب مسلط ہی رہے گا۔ ملکی موجودہ صورتحال سے ثابت ہو گیا کہ اے پی ڈی ایم کے الیکشن بائیکاٹ کا فیصلہ درست تھا ۔انہوں نے کہا کہ اٹھارہ فروری کے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر نیگرو پونٹے اور باو¿چر کی پارٹی قیادت سے ملاقاتوں اور امریکی مداخلت پر پیپلز پارٹی الیکشن لڑنے پر مجبور ہوئی تھی لیکن اس وقت ساری سیاسی جماعتیں اے پی ڈی ایم کی کال پر الیکشن کا بائیکاٹ کرتیں تو آج یہ کھچڑی نہ پکتی اور ججز اور عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا ۔ عمران خان نے کہا کہ ملک پر مسلط چور ڈاکو قومی لٹیرے اور الطاف حسین جیسے دہشت گرد معزول ججز کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اسی لیے اب آئینی پیکج کے تحت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہاتھ باندھنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں لیکن وکلاء سیاستدانوں سمیت پوری پاکستانی قوم چیف جسٹس کی پشت پر ہے اور معزول ججز سمیت عدلیہ کی بحالی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ انہوں نے ملک بھر کے وکلاء کی جرات اور تحریک کو سلام پیش کیا کہ شریف الدین پیرزادہ سمیت کئی ایک میر جعفر اور میر صادق ان کی صفوں میں گھسے ہوئے ہیں مگر وکلاء نے ان کی سازشیں ناکام بنا کر ملک کو لیڈر شپ دی ۔عمران خان نے کہاکہ یہ کہاں کا قانون و انصاف ہے کہ مفاہمتی آرڈیننس کے تحت آصف زرداری اور سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سمیت تھوک کے حساب سے کرپشن کیسز والوں کے مقدمات ختم کر کے انہیں این آر او کی گنگا سے نہلا کر پاک صاف کر دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف دور میں 55 ارب سے زائد رقم کے قرضے لے کر معاف کروائے گئے ایک غریب معمولی جرم اور معمولی قرضے کی پاداش میں سالوں جیلوں میں سڑتا رہتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اربوں روپے لوٹنے والوں اور کتنے ہی معصوم بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کو تحفظ فراہم کر کے انہیں ہر قسم کے احتساب سے بچا لیا ہے ۔عمران خان نے بتایا کہ پرویز مشرف نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف دائر کیسز کے سلسلے میں صرف ایک وکیل کو بارہ کروڑ روپے دئیے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قومی لٹیروں کے خلاف قائم کیسز کے لیے کروڑوں روپے کا کس قدر بے دریغ استعمال کر کے اور خزانہ خالی کر کے ان قومی مجرموں کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کر دیاگیا اس کا احتساب ضروری ہےجبکہ صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں ان کا سیاسی کردار ہے لہذا وہ استعفیٰ نہیں دیں گے آئینی طورپر منتخب صدر ہوں پانچ سالہ مدت پوری کروں گا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور حامد ناصر چٹھہ سے ملاقات کے دوران کیا ملاقات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ججز کی بحالی اور صدر ، وزیراعظم کے درمیان اختیارات میں توازن قائم کرنے اور سیکیورٹی کونسل کے خاتمے سے متعلق آئینی پیکج اور حالیہ ملکی سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال ہوا ۔ یہ ملاقات صدر پرویز مشرف کی خواہش پر ہوئی ہے جس میں (ق) لیگ کی طرف سے معزول ججز کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر صدر پرویز مشرف نے عدم اطمینان اور ناخوشی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے تین نومبر کے اقدامات کے خلاف( ق) لیگ بھی میدان میں آ گئی ہے صدر مشرف نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی او ر(ن) لیگ سے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی کہ ان کے تین نومبر کے اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا جائے تو وہ اپنے عہدے سے اس سال کے آخر تک مستعفی ہو جائیں گے یہ ایک گلے شکوے کی ملاقات تھی جس میں چوہدری شجاعت حسین نے ان کوششوں اور سازشوں پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس میں مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے انہیں ہٹانے کیلئے کوشش کی گئیں اور اس میں کچھ سرکاری ادارے بھی شامل تھے پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے تیار کئے جانے والے آئینی پیکیج کے اہم نکات سامنے آ گئے ہیں مجوزہ آئینی پیکیج کے تحت سروسز چیفس اور صوبائی گورنرز سمیت اہم ترین عہدوں پر تقرری کا اختیار وزیراعظم ہو کو ہو گا چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد تین سال مقرر کر دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکیج کے اہم نکات سامنے آ گئے ہیں اس مجوزہ آئینی پیکیج کے تحت آئین کی دفعہ اٹھاون ٹو بی ختم اور سروسز چیفس سمیت دیگر اہم ترین عہدوں پر تقرری کا اختیار وزیراعظم کو منتقل کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی پیکیج میں صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا جائے گا۔ آرمی چیف سمیت مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کو ہو گا جبکہ صوبوں کے گورنروں، چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل کی تقرری بھی وزیراعظم کریں گے۔ عدلیہ کے حوالے سے آئینی پیکیج میں چیف جسٹس کی میعاد عہدہ تین سال مقرر کرنے کی تجویز ہے جبکہ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی مدت ملازمت تین سال بڑھائی جائے گی۔صدارتی ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت میں بتایا کہ آئینی پیکیج کی منظوری پارلیمنٹ کا اختیار ہے تاہم ججوں کی بحالی اور صدر وزیراعظم کے درمیان اختیارات کے توازن کے حوالے سے آئینی پیکیج کا مسودہ دیکھنے کے بعد ہی ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ تو آئینی پیکیج کا کوئی مسودہ ایوان صدر آیا اور نہ ہی یہاں سے کوئی بھیجا گیا ہے ذرائع کے مطابق آئینی پیکیج پر مشاورت کے لئے صدر پرویز مشرف سے چوہدری شجاعت، حامد ناصر چٹھہ، رضا حیات ہراج اور ماروی میمن نے ملاقات کی ہے۔جبکہ حکومت پاکستان نے واضح کیاہے کہ دہشت گردوں سے امن معاہدہ ہوا ہے او رنہ ہی ان سے بات چیت کی جائے گی اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیاہے کہ فاٹا کو پر امن علاقہ بنانے کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی گئی ہے آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نجی شعبے کو گندم کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دے دی ہے تمام سرکاری محکموں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ واپڈا کے واجبات ایک ماہ کے اندر ادا کر دیں اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر شیریں رحمن نے میڈیا کو بریفنگ دی اورکہاکہ اجلاس میں فیصلہ کیاگیاہے کہ کسی دہشت گرد سے بات چیت نہیں ہو گی اور فاٹا کو پر امن علاقہ بنانے کیلئے حکومت کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے ایسے لوگ رہا نہیں ہوں گے جو اسلحہ رکھتے ہوں اور زور و جبر سے عزائم منوانا چاہتے ہوں جنوبی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی میں کمی لائی گئی ہے تاکہ وہاں کے پرامن علاقائی لوگ واپس اپنے گھروں کو جا سکیں مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ کوئی امن معاہدہ طے پا رہا ہے شیریں رحمان نے کہا کہ فوج نے اپنی کوئی بٹالین وہاں سے کم نہیں کی ہے بلکہ وہ سویلین کی مدد کے اپنے آپ کو منظم کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومت ان لوگوں کو معاوضہ دے گی جن کے گھر یا جائیداد کو نقصان پہنچا ہے حکومت وہاں کے متعلقہ لوگوں کے ساتھ امن کے قیام کیلئے مل کر کام کرے گی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ گندم کی برآمد پر پابندی جاری رہے گی تاکہ صارفین تک وافر مقدار میں گندم کی رسائی ہو پاسکو کو کہا گیا ہے کہ وہ بلوچستان اور سرحد کے لئے مقرر کردہ گندم کا ہدف پورا کرے کیونکہ وہاں گندم کی سب سے زیادہ کمی ہے یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ حکومت نجی شعبے کو گندم کی درآمد کی اجازت دے گی اور اس پر دس فیصد ڈیوٹی وہ بھی ہٹا دی گئی ہے گندم کی سرکاری خریداری کا ہدف پچاس لاکھ ٹن مقرر کیاگیاہے جبکہ گندم کی برآمد پر پابندی برقرار رہے گی آٹے کی سپلائی کو یقینی بنانے کیلئے مخصوص سطح پر گندم کا ذخیرہ سال بھر برقرار رکھا جائے گا آئینی پیکج کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں شیری رحمان نے بتایا کہ تمام فیصلے قومی امنگوں کے مطابق کئے جائیں گے اگر کسی فیصلے پر کسی جانب سے کوئی احتجاج ہوتا ہے تو یہ عوام کا جمہوری حق ہے کابینہ کم از کم اجرت 6 ہزار مقرر کرنے کے فیصلے پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ قانون میں تبدیلی اور اسے بچت کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا قومی مفاہمت کی پالیسی کے تحت کابینہ نے جہیز کی حد مقرر کرنے کا سرکاری بل واپس لینے کا فیصلہ کیاہے سینٹ میں مسلم لیگ (ق) کے انور بھنڈر کا نجی بل پہلے ہی متفقہ طور پر منظور کیا جا چکا ہے بل کے تحت جہیز کی حد 30 ہزار روپے جبکہ تحائف کی حد 50 ہزارروپے مقرر کی گئی ہے وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران چین میں زلزلے کی وجہ سے اموات اور لا پتہ افراد کی تعداد 70ہزار سے بھی تجاوز کرنے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ نقصان کے پیش نظر ہم امدادی سامان میں جائزہ لے رہے ہیں انہوں نے کہاکہ چین ہمارا عظیم دوست ہے اور شرم الشیخ میں انہیں حکومت چین کی جانب سے درخواست کی گئی کہ متاثرین کیلئے خیموں کی اشد ضرورت ہے اس لئے پاکستان کی جانب سے فوری طور پر چار۔130طیاروں اور 30ٹرکوں کے ذریعے خیمے اور دوسرا امدادی سامان چین روانہ کیاگیا چین میں زلزلے سے ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی پاکستان میں 2005ء کے زلزلے کے بعد چین نے امدادی اشیاء کے علاوہ 3کروڑ ڈالر سے زائد مالی امداد فراہم کی تھی۔ تحریر : اے پی ایس اسلام آباد