International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, July 17, 2008

پاکستان مسلم لیگ (ن) ججوں کی بحالی پر پیپلز پارٹی سے فیصلہ کن مذاکرات کرے گی، ذرائع

اسلام آباد ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن )نے ججوں کی بحالی کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے ساتھ حتمی اور فیصلہ کن مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے مسلم لیگ (ن)کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں محمد نواز شریف اس سلسلے میں اس ماہ کے آخر میں آصف علی زرداری سے تفصیلی اور دو ٹوک مذاکرات کریں گی کہ اگر ججوں کی بحالی اور صدر کے مواخذے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کو یقین دہانی نہیں کرائی جاتی تو مسلم لیگ (ن)کے لیے حکومتی اتحاد میں شامل رہنا مشکل ہو جائے گا۔ مسلم لیگ نواز کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نواز کے اصولی موقف میں کسی بھی طرح کی لچک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

٧١ فیصد پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد سے نکلنے کا مطالبہ کر دیا ۔امریکی ادارے کا سروے

اسلام آباد ۔ امریکی ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان میں حالیہ سروے میں 83 فیصد پاکستانیوں نے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری سمیت دیگر معزول ججز کی بحالی ، 51 فیصد نے فاٹا میں فوجی آپریشن کی مخالفت ، 83 فیصد نے صدر پرویزمشرف کے استعفی یا برطرفی ، 67 فیصد نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو صدر بنانے اور 71 فیصد نے دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد سے باہر آنے کی آراء دے دیں ۔ گزشتہ روز ادارے کی اس عوامی سروے کے نتائج جاری کر دئیے گئے ہیں ۔آئی آر آئی کی جانب سے یہ عوامی سروے 1 جون سے 15 جون 2008 ء کے درمیان کرایا گیا جس میں ایک سال کی معاشی اقتصادی سمیت دیگر شعبوں کی صورتحال کے بارے میں عوام سے رائے لی گئی ۔ سروے کے لیے چاروں صوبوں کے50 اضلاع میں 223 دیہی علاقوں اور 127 شہری علاقوں کو منتخب کیاگیا ۔ 3484 افراد سے رائے کی گئی ۔ عوامی سروے کے مطابق 83 فیصد عوام نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت معزول ججز کی بحالی کی حمایت کی ہے ۔61 فیصد عوام نے مذہبی انتہا پسندی کو سنگین مسئلہ قرار دیا ہے۔ 45 فیصد عوام نے القاعدہ اور طالبان کو سنجیدہ مسئلہ قرار دیا ہے ۔ 83 فیصد نے مدرسہ ویلفےئر اتھارٹی کے قیام کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ 27 فیصد نے صوبہ سرحد اور فاٹا میں فوجی آپریشن کی حمایت کی ہے۔ 51 فیصد نے آپریشن کی مخالفت جبکہ 3 فیصد نے رائے نہیں دی ۔ 65 فیصد عوام نے ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے حکومتی اعلان کی حمایت کی ہے ۔19 فیصد نے مذاکرات کی مخالفت کی ہے۔ 71 فیصد پاکستانیوں نے رائے دی ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے خلاف امریکا کا اتحادی نہیں ہونا چاہیے ۔ 71 فیصد عوام نے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے ۔13 فیصد نے بے روزگاری کو اہم مسئلہ جبکہ 5 فیصد نے عسکریت کو بڑا مسئلہ قرار دیا ہے ۔ 92 فیصد عوام نے گندم ، پٹرول ، قدرتی گیس ، بجلی کی قلت کو سنگین مسائل قرار دیا ہے ۔86 فیصد پاکستانیوں نے کہا ہے کہ ملک درست سمت میں گامزن نہیں ہے ۔ 72 فیصد نے کہاکہ ایک سال میں معاشی حالات مزید خراب ہوئے 46 فیصد نے کہا کہ آئندہ سال کے دوران یہ حالات مزید خراب ہوں گے ۔ سروے کے مطابق پرویزمشرف کی مقبولیت کم ہو کر 3 فیصد تک آ گئی ہے جبکہ میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے یہ 38 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ 83 فیصد پاکستانیوں نے رائے دی ہے کہ صدر مشرف استعفی دیں یا پھر انہیں برطرف کیاجائے ۔67 فیصد عوام نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو صدر بنانے کی رائے دی ہے

زرداری نے پارٹی رہنماؤں کو میڈیا سےگفتگو کیلئے ٢٢ نکات جاری کردئیے

اسلام آباد۔ زرداری ہاؤس نے حکومتی و پارٹی پالیسی پر گفتگو کے لیے سینٹ میں قائد ایوان ، سینئر رہنماؤں اور پیپلزپارٹی کے وزراء سمیت پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کو 22 ٹاکنگ پوائنٹس جاری کردئیے گئے ۔ وزراء ،سینئر رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ سے کہا گیاہے کہ انہیں جب میڈیا میں گفتگو کرنی ہو تو پارٹی کی جانب سے جاری نکات کو مدنظر رکھا جائے اور گفتگو کا آغاز سابقہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو اجاگر کیا جائے ان ٹاکنگ پوائنٹس میں نئی حکومت کی جانب سے معزول ججز کی رہائی انہیں تنخواہوں کی ادائیگی ، لیبر پالیسی ، طلبہ ومحنت کشوں کی یونینز کی بحالی ،بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ سکیم ، اقوام متحدہ کی جانب سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام، خواتین کے حوالے سے حکومتی اقدامات ، زراعت سے متعلق حکومتی اقدامات ، ایڈہاک ملازمین کو منتقل کیے جانے ، تمام محکموں میں ملازمتوں کی بھرتیوں کے لیے میڈیا میں اشتہارات کی اشاعت، سیاسی بنیادوں پر نکالے گئے ملازمین کی بحالی ، دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے سمیت دیگر نکات کو شامل کیا گیا ہے ۔ پارٹی کے اراکین سے کہا گیا ہے کہ وہ ان نکات کو بھرپور طورپر اجاگر کریں۔پارٹی کے وزراء ، رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ کو ایک خط کی صورت میں یہ ٹاکنگ پوائنٹس جاری کیے گئے ہیں ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی وصیت جعلی ہے، دستاویزات ان کی شہادت کے بعد تیار کی گئیں ۔غلام مصطفی کھر

لاہور۔ سابق گورنر پنجاب وپیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ملک غلام مصطفی کھر نے کہا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وصیت جعلی ہے۔ انہوں نے شہادت سے قبل کوئی صیت نہیں کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی فوج کو عالم اسلام کی فوج کہنے پر قتل کیا گیا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ عوام نے انہیں ووٹ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر دیئے ہیں جھوٹ بولتے ہیں۔ اس وقت ملک پر تھرڈ کلاس لیڈر شپ مسلط ہے جس کی وجہ سے ملک کی یہ حالت ہوگئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان عدل میں لاہور بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ملک غلام مصطفی کھر نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جعلی وصیت ان کی شہادت کے بعد تیار کی گئی ۔ جب ان کی شہادت ہوئی کسی نے ایسی وصیت کا نام نہیں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور حکومت کی باگ دوڑ ضیاء الحق کے بچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم ضیاء کا بچہ ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی آمریت کے خلاف برسرپیکار تھے تو ایک شخص نے انہیں کہا تھا کہ ایوب خان بہت طاقتور ہے اس چکر میں نہ پڑو۔ جس پر بھٹو نے جواب دیا کہ آپ تاریخ نہیں جانتے جس شخص کے ساتھ طلبہ اور وکلاء نہ ہوں وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جس روز لوگوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوجائے تو کوئی رکاوٹ ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وکلاء کی تحریک کے نتیجہ میں جو لوگ آج کرسی پر بیٹھے ہیں کہتے ہیں کہ عوام نے انہیں ووٹ ججوں کی بحالی کیلئے نہیں بلکہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرہ پر دیا ہے۔ جو ایسا کہتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ بیٹھ کر ایسی باتیں کرنا بھٹو کی توہین ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جرات کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی اور نہ ہی میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آتے اور الیکشن بھی اس طرح شفاف نہ ہوسکتے۔ آج بھی مشرف مضبوط اور ملک میں چودھریوں کی حکومتی ہوتی۔ انہوںنے کہاکہ افتخار محمد چودھری کو افتخار چودھری وکلاء نے بنایا ہے۔ وکلاء ایک بڑی طاقت بن کر ملک میں ابھرے ہیں۔ پاکستان کی بدقمستی ہے کہ ماضی میں جب پاکستان پر مشکل وقت آتا دوست ممالک خزانوں کے منہ کھول دیتے تھے۔ آج پاکستان بے یارومددگار پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے فیصلے آج سیکرٹری لیول کا ایک آدمی کررہا ہے اور وہاں (امریکہ) بیٹھ کر ڈکٹیشن دے رہا ہے۔ اس وقت ملک پر تھرڈ کلاس لیڈر شپ مسلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے کبھی پیپلز پارٹی کو نہیں چھوڑا بلکہ مجھے پارتی سے نکالا جاتا رہا ہے۔ مجھے جب بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان ڈیل کا علم ہوا تو میں نے پارٹی پلیٹ فارم سے اس کی مخالفت کی تھی۔ آج پارٹی میں جو کوئی بھی حق کی بات کرے اسے ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر جیتنے کا دعویٰ کرنے والوں کو میں چیلنج کرتا ہوں ملتان‘ فیصل آباد ، راولپنڈی اور لاہور جس شہر میں چاہیں وزیراعظم اور آصف علی زرداری اس ایشو پر میرا مقابلہ کرلیں اگر لاکھ کے مجمع میں پانچ ہزار لوگ بھی ان کی حمایت کردیںتو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ جو 90روز میں مسائل حل نہیں کرسکتے وہ 90سال میں بھی نہیں کرسکیں گے۔ کارکردگی حکومت کے آخری نہیں پہلے دور میں دکھائی جاتی ہے۔ میرے مشورہ پر عمل کیا جائے تو حکمران تین ماہ میں مسائل حل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ آخری سانس تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ رہیں گے۔

ملک کی تینوں اسٹاک مارکیٹوں میں مسلسل شدید مندی ، سرمایہ کاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ، املاک کی توڑ پھوڑ

کراچی۔ کراچی اسٹاک ایکس چینج میں جمعرات کو مسلسل مندی کے16ویں روز سینکڑوں ناراض چھوٹے سرمایہ کاروں نے مارکیٹ کی کھڑکیاں دروازے توڑ ڈالے اور ہجوم[L:8] کی صورت میں مارکیٹ کے باہر احتجاج کیا۔ان مطالبہ تھا کہ عارضی طور پر مارکیٹ بند کی جائے جبکہ سیکیورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے چئیرمین رضی الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم حل کی تلاش میں کوشاں ہیں تاہم یہ رویہ روبہ نہیں ہے۔ڈیلرز کا کہنا ہے کہ حکومت کو سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کیلئے جارحانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے جبکہ ماہرین کے مطابق مجموعی معاشی صورتحال کی ذمہ دار کمزور اتحادی حکومت ہے اور اب حکومت کو قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کی مندی کے بعد سرمایہ کاروں میں عدم اعتماد انتہائی درجے کو پہنچ گیا۔کراچی اسٹاک ایکس چینج میں جمعرات کو حصص کی قیمتوں میں 4 فیصد کمی ہوئی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 1.3فیصد کمی ہوئی جس کے سلسلے میں ماہرین کاکہنا ہے کہ سیاسی و معاشی بے یقینی بشمول افراط زر کی دہرے ہندسوں کی شرح اس صورتحال کی کلیدی وجوہات ہیں۔کراچی اسٹاک ایکس چینج میں کے ایس ای 100انڈیکس میں جمعرات کو 278.96 پوائنٹس کی کمی ہوئی اور انڈیکس 10212.92پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا۔266 سرگرم کمپنیوں میں سے 45کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ اور 212کے حصص کی قیمتوں میںکمی ہوئی جبکہ 9کمپنیوں کے حصص بغیر کسی تبدیلی کے بند ہوئے۔علاوہ ازیں مارکیٹ میں کاروباری حجم 8کروڑ95لاکھ حصص سے زائد رہا۔کراچی اسٹاک ایکس چینج میں کے ایس ای 100 انڈیکس میں گزشتہ پیر سے تاحال 14فیصد کمی ہوچکی ہے جبکہ 21 اپریل کو حاصل ہونے والی تاریخ کی بلند ترین سطح سے اس میں 27فیصد کمی ہوچکی ہے۔کراچی میں جمعرات کو کراچی اسٹاک ایکس چینج میں جاری مندی کے مسلسل 16ویں روز سرمایہ کاروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ان کی جانب سے مارکیٹ میں املاک کی توڑ پھوڑ کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ کے گارڈن میں مظاہرہ کیا گیا جس میںکم و بیش 1000 سرمایہ کاروں نے شرکت کی انکا مطالبہ تھا کہ کراچی اسٹاک ایکس چینج کو کم از کم 2 یوم کے لئے بند کیا جائے۔مظاہرین کی دھکم پیل کے باعث 2 افراد شدید زخمی ہوگئے جنہیں مقامی اسپتال منتقل کیا گیا۔اسٹاک ایکس چینج کے گارڈن میں مجتمع مظاہرین کی جانب سے حکام کے مجوزہ 50 ارب روپے مالیت کے اسٹیبلائیزیشن فنڈز کے جلد از جلد اجراء کا مطالبہ بھی کیا گیا۔مظاہرے میں مالیاتی و تجارتی خسارے کی توسیع پذیری، افراط زر کی شرح پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی اور عوامی مسائل کے حل میں حکومتی پالیسیوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور حکومت کے خلاف نعروں کے بینرز بھی آویزاں کئے گئے۔پاکستانی معیشت کی بدحالی کا اندازہ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو رواں سال کے آغاز سے 16.9 فیصد تنزلی کا شکار ہوچکا ہے جبکہ جمعرات کو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت خرید 72 روپے اور قیمت فروخت72روپے10پیسے ریکارڈ ہوئی۔کراچی اسٹاک ایکس چینج میں مظاہرین کی اس بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر پولیس اور رینجرز اہلکاروں کو طلب کرلیا گیا جنہوں نے املاک کو مزید نقصان سے محفوظ رکھنے کی غرض سے اسٹاک ایکس چینج کے دروازوں کو اندر سے بند کرلیا دوسری جانب لاہور میں بھی سرمایہ کاروں کا شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا جہاں 100 سے زائد سرمایہ کاروں نے ٹائر جلائے اور سڑک بلاک کردیں۔کیپیٹل ون ایکوئیٹیز میں ڈائیریکٹر بروکریج شجاع رضوی کے مطابق سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کے لئے حکومت کو جارحانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ڈیلرز کے مطابق پاکستان میں 3 ماہ سے جاری معاشی سست روی کو یکدم تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم حکومت کو قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک میں معاشی امور کے ماہر صائم علی کے مطابق افراط زر کی 3 دہائیوں کی بلند شرح، روپے اور ڈالر کا توسیع پذیر شرح تبادلہ اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ مجموعی معاشی صورتحال کو کمزور اتحادی حکومت سے نقصان پہنچا ہے۔کراچی اسٹاک ایکس چینج میں جمعرات کو نمایاں کمپنیوں میں این آئی بی بنک 1کروڑ13لاکھ77ہزار حصص کے کاروبار کے ساتھ والیوم لیڈر رہا جسکے حصص 5پیسے کی کمی سے 8روپے65پیسے ریکارڈ ہوئے دیگر نمایاں کمپنیوں میں حب پاور کے حصص 60پیسے کی کمی سے 24روپے، او جی ڈی سی ایل کے حصص 1روپے38پیسے کی کمی سے 105روپے50پیسے، ٹی آر جی پاکستان کے حصص 18پیسے کے اضافے سے 4روپے68پیسے جبکہ زیل پاک کے حصص 19پیسے کی کمی سے 1روپے52پیسے رہے۔

ہرات میں نیٹو کا حملہ ٥٠ افراد ہلاک ، حامد کرزئی کے ٢ ساتھی بھی مارے گئے

کابل ۔ افغانستان میں نیٹو کے طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 50 شہری جاں بحق ہو گئے ہیں افغان صدر حامد کرزئی کے دو قریبی ساتھی بھی شامل ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق نیٹو کے طیاروں نے یہ فضائی کی حملہ افغانستان کے مشرقی صوبہ ہرات میں کیا جس کے نتیجے میں 50 افغان شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق جاں بحق ہونے والوںمیں افعان صدر حامد کرزئی کے دو قریبی ساتھی بھی شامل ہیں ۔

خیبر ایجنسی میں پاکستان پوسٹ پر امریکی حملے کے حوالے سے نیو پارک ٹائمز کی رپورٹ غلط اور حقائق کے برعکس ہے ۔ترجمان پاک فوج




اسلام آباد ۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ نیو یارک ٹائم کی رپورٹ سراسر غلط اور پاکستان امریکی حکام کی یہ بات قطعاً ماننے کو تیار نہیں جس میں کہاگیا ہے کہ خیبر ایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر امریکی حملہ غلطی تھی انہوںنے کہاکہ اس حملے کو ہم غلطی نہیں مانتے جس میں ایف سی کے گیارہ اہلکار شہید ہوئے تھے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ اس حملے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور آخری مرحلے میں ہیں اس کے بعد ہی صحیح حقائق سامنے آئیں گے۔ترجمان کاکہنا ہے کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں موجود تمام پوسٹوں کے بارے میں 2003ء سے اب تک کم سے کم تین دفعہ اتحادی افواج کے ساتھ نقشوں کا تبادلہ کیا جاچکا ہے راولپنڈی میں انٹر سروسز ریلیشنز کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کو غلط اور حقائق کے برعکس قرار دیا گیا ہے نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستانی پوسٹوں کا امریکی فوج کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا ترجمان کا کہنا تھا کہ اتحادی افواج کو پوسٹوں کی نشاندہی کیلئے باقاعدہ نقشے فراہم کئے گئے جن میں پوسٹوں پر نشان لگائے گئے تھے اس صورتحال میں نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں اتحادی افواج کو آگاہ نہ کرنے سے متعلق بات حقائق کے منافی ہے