International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, May 24, 2008

چوہے ، بلی ،گھنٹی اور قوم کے مجرم ۔۔۔۔ تحر یر چودھری احسن اے پی ایس اسلا م آباد


پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہوں نے صدر پرویز مشرف کو کبھی آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اور ہم چاہتے ہیں وہ چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو۔ فوجی سربراہان، گورنرز اور ججوں سمیت آئینی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار صدر کے بجائے وزیر اعظم کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھنے کی تجویز ہے، سینٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیت کا نمائندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی شق ختم کرنے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے کی بھی شقیں شامل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کی دفعہ 62 ‘ 63 اور 90 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ دفعہ 62 اور 63 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے بارے میں ہیں اور دفعہ 90 صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور ترمیم کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم اور کابینہ کو بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ چاروں صوبوں کے گورنرز اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کے مشورے سے مشروط کرنے کی تجویز پیکج میں دی گئی ہے ۔مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق آئین میں کنکرنٹ لسٹ کو 80 فیصد ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے مشورے سے ہو گا ۔ اور اگر یہ نہیں ہوں گے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے مشورے سے یہ تقرر کیا جائے گا۔ نیشنل فنانس کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کو شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹ کے قائد ایوان کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ آئینی پیکج میں ایک شق شامل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں ۔ ایک دوسری شق کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے تاہم اس کے لیے مزید صلاح و مشورے ہوں گے۔ آئینی پیکج کے مطابق کوئی بھی شخص دو سے زائد مرتبہ صدر نہیں بن سکے گا اور صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے کی تجویز بھی آئینی پیکج میں شامل ہے ۔آئینی پیکج کے مطابق آرٹیکل 104کے تحت نگران حکومت سپیکر کی مشاورت سے قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں گورنر کی مشاورت سے کی جائے گی ۔سی سی آئی کا اجلاس ہر سال میں دو دفعہ ہو گا ۔ قومی اقتصادی کونسل کو فعال بنایاجائے گااور فنانشل کونسل کا اجلاس تین سال بعد ہو گا اجلاس میں پیش کی گئی قرار داد کے مطابق بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیا اور دوسری سیاسی جماعتوں سے آئینی پیکج کے بارے میں مشاور ت کی تائید کی ۔ آصف علی زرداری کے سیاسی اقدامات جمہوریت کی طرف سفر و عوام کو بحران سے نکالنے کیلئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اجلاس نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آصف علی زرداری جو پالیسی بھی اختیار کریں گے پارٹی اس پر عملدرآمد کرے گی یہ مجوزہ آئینی پیکج مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اور اس پر نواز شریف کی جانب سے آنے والی آو¿ٹ پٹ کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہاکہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے آئینی پیکج کی منظوری کے بعداس کو نواز شریف ، ایم کیو ایم ، اسفند یار ولی اور دوسری جماعتوں کو بھیج دیا گیاہے۔ آئینی پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سب جماعتوں سے لیں گے انہوںنے کہاکہ ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں گے جس کے تحت 90ہزار فوجیوں کو شملہ میں مذاکرات کے ذریعے رہاکروایا گیا اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین کو واپس لیاگیااور بے نظیر کی اسی پالیسی کے تحت صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ۔ انہوں نے کہاکہ ہم آئینی پیکج پر صدر پرویز مشرف سے بھی ڈائیلاگ کریں گے اور پارلیمنٹ سے اسے منظور کروائیں گے اور پوری دنیا کی جمہوری قوتوں کے سامنے رکھیں گے اور ان سے مشاورت کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر مشرف کوقرار دئیے جانے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ حق پیپلزپارٹی کا کیونکہ قوم نے ہمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو سبو تاڑ نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے آصف علی زرداری نے کہاکہ ججوں کی بحالی کیلئے ہم وکلاء سے بھی بات چیت کریں گے کیونکہ ہم ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔جمہوریت اور آمریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی لیکن ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس کو منظور کروا لیں انہوں نے کہاکہ وکیلوں کا اور ہمارا موقف مختلف نہیں ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب میں نے شدید مشکلات کے اندر آئی ایس آئی کی بات نہیں مانی تو اب ان حالات کے اندر کس طرح مانوں گا ۔ آئی ایس آئی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے خلاف لڑنے کا زیادہ تجربہ ہے ۔ عوام کاپریشر ہو گا ، میڈیا کاپریشر ہو گا ہمارا بل سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہوگا ۔ صوبوں میں اور قومی اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے بل کو وہاں سے پاس کروائیں گے اور پھر سینیٹر سے درخواست کروںگا۔ جبکہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمدنے کہاہے کہ پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 29مئی تک فارغ ہو جائیں گے ایک نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی خان نے کہاہے کہ آئینی پیکج کے بہت سے نکات جمہوری نظام کو مستحکم کریں گے جبکہ مسلم لیگ نواز کے رہنما راجہ ظفر الحق نے اپنے رد عمل میں کہاکہ آئینی پیکج پر غور کے بعد فیصلہ کیاجائے گا جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے اس آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں کہاہے کہ ایسا لگتاہے کہ یہ آئینی پیکج واشنگٹن میں تیار کیاگیا ہے جسے ایوان صدر کے ذریعے پیپلز پارٹی کے حوالے کیاگیا۔اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ یہ آئینی پیکج قوم کیلئے نا قابل قبول ہو گا جس میں پرویز مشرف کے ناجائز اقدامات کو بھی تحفظ دیا جارہا ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو بھی تحفظ فراہم کیاگیا ہے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) بھی اس آئینی پیکج کو مسترد کردے گی انہوں نے کہاکہ اے پی ڈی ایم کی جانب سے اٹھارہ اور انیس جون کو بلائی جانے والی کانفرنس میں آئینی پیکج کے مسودے کی تجاویز پر غور کیاجائے گا مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ابھی پورا آئینی پیکج ہمارے سامنے نہیں آیا میں نے اپنی پارٹی کا پارلیمانی اجلاس سموار کو طلب کیا ہے پیکج کی تفصیلات جاننے کے بعد ہی اس کی مختلف شقوں پر اپنی حتمی رائے دے سکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار بنایا جانا چاہیے ایگزیکٹو کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیاجانا چاہیے کیونکہ یہ پارلیمان طرز حکومت کی اصل روح ہے ۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی ترجمان محمد صدیق الفاروق نے کہاکہ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف بے نظیربھٹو کے مبینہ قاتل،2002ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے مجرم ،کارگل شکست کے ذمہ دار ،پاکستان میں گندم اور انرجی کا دانستہ بحران پیدا کرنے کے مبینہ مجرم،عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو غیر مستحکم کرنے ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کو فروغ اور تحفظ دینے ، صنعتی و تجارتی کارٹلز(Cartels)کوتحفظ فراہم کرنے ،غیر ملکی اورملکی قرضوں کو 6ہزار ارب روپے تک بڑھانے ،تجارتی خسارے کو 1.6ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک پہنچانے ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کرنے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پہنچانے اور پاکستان کو Ungoverable بناکر سول وار کی طرف دھکیلنے کے مجرم ہیں۔ان جرائم کی روشنی میں وہ Misconduct اور ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے مجرم ہیں ۔ وہ اس وقت جبراً صدر کے عہدے اور ایوان صدر پرقابض ہیں اور موجودہ منتخب مخلوط حکومت کے خلاف مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ ملکرسازشیں کرنے میںبھی مصروف ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ اِن جرائم کے ارتکاب کی بنیاداور وفاق کو بچانے کیلئے ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو “عہدے” سے برخواست (Impeach) کرنے کیلئے بلاتاخیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایاجائے ۔اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ملک اور قوم کو مزید نقصان پہنچنے کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔مسلم لیگ(ن) کے مرکزی ترجمان نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ،بلال مشرف،ترکی میں پاکستان کے سفیر اور سابق گورنر سرحدریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل افتخارکوبیرون ملک سے طلب کرکے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی ،سابق آئی بی چیف ریٹائرڈ اعجاز شاہ،سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم یعنی پرویزمشرف سمیت8کے ٹولے سے تفتیش کی جائے جس کے نتیجے میں اِن تمام جرائم اور پرویزمشرف کی ذاتی کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے بیرون ملک اثاثے بے نقاب ہو سکیں۔صدیق الفاروق نے کہاکہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش پرویزمشرف نے ق لیگ کے رہنماو¿ں اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے مشورے سے تیار کی اور انہی کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرایا۔اس حوالے سے مارک سیگل کے نام بے نظیر بھٹو شہید کی ای میل اور 16اکتوبر 2007ء کو مشرف کو لکھاگیا خط ناقابل تردیدثبوت ہیں۔ اپنی ای میل جسے نزعی بیان سمجھا جا رہا ہے بے نظیر بھٹو نے کہا،”اگر مجھے کچھ ہوگیا(قتل کردی گئی) تو میر ے نزدیک اس کے ذمہ دار پرویزمشرف ہونگے”۔ سی آئی اے لاس انیجلس ٹائمز (CIA Times Los Angeles) نے 18 جنوری 2008ء کو اپنی اشاعت میں سی آئی اے کے حوالے سے پرویزمشرف کو ہی بے نظیر بھٹو کو قاتل بتایا ہے۔ صدیق الفاروق نے کہاکہ پرویز مشرف نے ہر ممکن کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو اپنی پارٹی میں ان کی (مشرف) کی پسند کے آدمی کو وزیراعظم بنوادیں او رخود پاکستان نہ آئیں لیکن بے نظیر بھٹو نے ان کی یہ بات نہ مانی۔ جب صدر بش کے دباو¿ پر انہوںنے نہ چاہتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دی تو18اکتوبر2007ء کو ان پر قاتلانہ حملہ کروادیا۔ اس حملے میں بھی وہی طریقہ کاراختیار کیاگیا جو 27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اختیار کیاگیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں مشرف حکومت کا تین بار موقف تبدیل کرنا،حملے سے پہلے محافظ پولیس کی گاڑیاں واپس بلالینا،جیمرزکوناکام بنانا،اوپر سے ملنے والی ہدایت پر سعودعزیز کا فوراً”جائے وقوعہ کو دھونے اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے احکامات جاری کرنابھی بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویزمشرف،وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی بی چیف وغیرہ کا ملوث ہوناثابت کرتا ہے۔کارگل شکست کی منصوبہ بندی کے ذریعے انہوںنے پاکستان اور بھارت کو نہ صرف ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچادیاتھا بلکہ وہ 3000سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بھی مجرم ہیں۔پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فاو¿ل کھیل کھیلا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور خود پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے فوجی سپاہی سے لے کر لیفٹننٹ جنرل اور خفیہ اداروں کے اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اب تک 2ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی اور ہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستانی فوج میں تقسیم کرنے کیلئے دیئے گئے 4.58 ارب ڈالر(270ارب روپے) کا کوئی حساب نہیں دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں آئی ایس آئی کے ذریعے انہوںنے دھاندلی کی اور ق لیگ کے علاوہ کچھ دیگر لوگوں کو بھی پارلیمنٹ کا ناجائز ممبر بنوایا۔ اس کی تصدیق اس وقت آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر کر چکے ہیں ۔ پرویزمشرف نے دھاندلی کے ذریعے اسمبلی میں پہنچائے جانے والے اپنے آدمیوں کے ذریعے اپنے 12اکتوبر99ئ کے غیر آئینی اقدام کو 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دلوایا۔آئین اور قانون کی نظر میں دھاندلی کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں جانے والے لوگ غیر ممبر تھے۔ لہذا انہوں نے آئین میں جوترمیم کی وہ بھی آرٹیکل6کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پرویزمشرف مس کنڈکٹ (Misconduct) کے بھی مجرم ہیں ۔ جبکہ اعلی ترین سابق عسکری قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا محفوظ اور پر امن راستہ اب بند ہو چکاہے ۔انہیں کارگل سے لے کر قبائلی علاقوں میں فوج کشی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کاحساب دینا ہو گا ۔ نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے۔ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد پرویز مشرف کو آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں وہ آرمی ہاو¿س کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کر رہے ہیں اور فوج کی حمایت کاتاثر دے رہے ہیں فوج اور حکومت ان سے فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ ایکس سروس مین مسلح افواج پر جمہوری کنٹرول کی حامی ہے کو منتخب حکومت بھی جرات مندانہ اور آزادانہ فیصلے کریں ۔ پرویز مشرف نے اگر اٹھاون ٹو بی سے تحفظ لینے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گی۔لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) اسد درانی نے کہا کہ 18 فروری سے قبل اور 3 نومبر کے بعد ہماری کوشش تھی کہ ایکس سروس مین کو اکٹھا کر کے ملک کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کی جائے اور قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 18 فروری کے انتخابات ، وکلاء سول سوسائٹی کی جدوجہد اور میڈیا کے کردار نے ملک میں ایک شعور اجاگر کیا۔ انتخابات میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کیاگیایہ ایک ریفرنڈم تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خدشات میں وقت کے ساتھ پھر اضافہ ہو رہاتھا ۔انہوں نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام کا اصل مطالبہ اور فیصلہ یہ تھاکہ پرویزمشرف صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری اور آئینی عدم استحکام پیدا کیا ۔انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت کے منصب سے الگ ہونا چاہیے ۔ پرویزمشرف نے عدلیہ کے بھی تانے بانے ادھیڑ دئیے۔ عدلیہ کے خلاف اقدام کے بعد اگر اب بھی 2 نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہوئی تو پھرکبھی یہ ادارہ آزاد نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس کو آرمی ہاو¿س ، ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاو¿س میںبلوانا عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی نئے شکوک و شبہات پیداہو رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے باہم اتحاد کا مظاہرہ کر کے احسن اقدام کیا۔ انہوں نے حکمران اتحاد سے اپیل کی کہ 18 فروری کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی پاسداری کریں۔ ایکس سروس مین حکومت کی طرف سے فاٹا ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ہمیں ہر طرح کے بیرونی دباو¿ کو مسترد کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ ہم نے جب بھی اپنے فیصلے آزاد ہو کر کئے ان میں کامیابی ملی ۔ ہمیں نیگرو پونٹے اور امریکی سفیر کے اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا راستہ اب بندہو چکا ہے۔ انہیں کارگل سے آج تک فوجی اور قومی امور پر کڑے ٹرائل سے گزرنا ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جو پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ قبائلی علاقوں میں لشکر کشی ، لال مسجد آپریشن سمیت تمام سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی فورسز پر جمہوری کنٹرول کے حامی ہیں تاکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی کی راہ متعین کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے جو فوج کے لیے بذات خود انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا پاک فوج فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فی الفور پاکستان واپس بلوا کر احتساب اور انکوائری کے عمل سے گزارا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اگرچہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن وہ آئینی صدر نہیں ہیں جو اٹھاون ٹو بی کو اپنا محافظ خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے دوبارہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گے ۔ آج ملک میں مہنگائی بد امنی بے روزگاری زوروں پر ہے ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چار سال سے جاری یہ سنگین ایشوز جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کا بھی ذریعہ بنا یہ نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے ۔ نومنتخب حکومت لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے پیشن گوئی کہ پاکستان میں آئندہ بہت جلد بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئین کی خلاف ورزی پر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی نہیں بلکہ نو منتخب حکومت کو اچھے اقدامات پر خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں بعض چیزوںکی نشاندہی کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں ذاتی حیثیت میں ہمارے بھی بع لوگوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر ایسے کام ہوئے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے ہی ہم وسیع تر قومی مفاد میں نئی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا اقدام بذات خود غیر آئینی و غیر قانونی تھا لہذا اس کے تحت جاری ہونے والے اقدامات اور تقرریاں و تعیناتیاں بھی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین نے وکلاءکی ملک گیر تحریک میں بھرپور شمولیت کرے گی اور تحریک کے دوران وکلاء کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے گی ۔ ایکس سروس مین کے پچیس لاکھ اراکین قومی مفاد کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاںمحمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسا نظام لائیں گے جس سے مستقبل میں جمہوری حقوق کے لئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ریاست کی جانب سے جارحانہ کاروائیوںکاسلسلہ ترک ہوجائیگا۔ پارٹی کی اصل طاقت اس کے کارکن ہیں اورپارٹی کے وزراء ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات انہی کارکنوں کی وجہ سے آج ان عہدوں پرسرفراز ہیں ۔ درخت کی جڑیں نہ ہوں تو وہ زمین پرآرہتا ہے اوراگر سیاسی کارکن نہ ہوں تو قیادتیں لنگڑی اور اندھی ہوجاتی ہیں ،افسران غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات ماننے کی روش اور عادت بدل لیں ،چادر اور چاردیواری کا تقدس مجروح کرنے والوں کو نظروں سے دور رکھا جائے گا عدلیہ اور ججز کی بحالی کی جنگ جاری رہے گی ۔ پارٹی قیادت گزشتہ 8سالہ دور آمریت میںجمہوریت کے لئے جد وجہد کرنے والے پارٹی کارکنوں کو سلام پیش کرتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مشرف حکومت کے ظالمانہ او رجابرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قیدو بند کی صعبوتیں برداشت کیں ، جیلیں کاٹیں ، بدترین ریاستی جبرو تشد د کا مردانہ وا رمقابلہ کیا، لاٹھیاں او رگولیاں کھائیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بھگتے لیکن ہمارے ان عظیم کارکنوں نے سخت ترین حالات میںبھی پارٹی او رلیڈر شپ کو زندہ رکھا۔جس کی قائد مسلم لیگ(ن) محمدنوازشریف او روہ دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ کارکنوں کی 8سالہ سیاسی جد وجہد پارٹی کے لئے گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے ہمارے ان کارکنوں نے آمروں کی گود میںپلنے والوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔کسی قسم کا لالچ او ردباو¿ ان کے پایہ استقلال میں لغزش پید ا نہ کرسکا مسلم لیگ(ن) اپنے ان کارکنوں کی جمہوریت کے لئے دی گئی لازوال قربانیوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ کارکنوں کی جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ 18فروی کو ایک آندھی چلی اور عوام کی اکثریت نے آمریت اور اس کی گو د میںپرورش پانے والوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیا ۔محمد شہبازشریف نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ و ہ اطمینان رکھیںکیونکہ اب زیادتیوں کا دور ختم ہوچکا ہے اور کارکنوں کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں۔آپ کے حقوق دلوانے میں میں آپ کا وکیل بن کر لڑوں گا اور عوام کو حکومت سے سہولت دلوانا آپ کے فرائض میں شامل ہے ۔یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ حکومت کی آنکھیں بن کر اسے اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگا ہ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں آٹے کی فراہمی ، صحت و علاج کی خدمات اور تھانے کچہری میں انصاف کے حصول کے لئے سرگرم رہیں ۔ آپ کو آپ کا حق ملے گااور میں اس بات کو یقینی بناو¿ں گا کہ کسی کارکن کی حق تلفی نہ ہوہم آ پ کو عوامی خدمت اور منصوبوں کی مختلف کمٹیوں میں نمائندگی دیں گے کارکن تجاویز دیں ان کی تجاویز پ رعمل کیا جائے گا اور انہیںساتھ لے کر چلیں گے جس کسی افسر نے بھی ماضی میںسیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ زیادتیاں کی انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا ہمیں پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری ، آٹے کے بحران اور بجلی کے بحران سے نجات دلانی ہے عدلیہ کو آزاد،ججوں کو بحال کرانا ہے او رپاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے ۔ ہم انشاء اللہ اپنے کارکنوں کے ساتھ عدلیہ مل کر شبانہ روز محنت کریں گے اورا س ملک سے مہنگائی بے روزگار،غربت کا خاتمہ کرکے عوام کو انصاف مہیا کریں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے آج قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کا یہی خواب ہے کہ پاکستان میں جج بحال ہوںآزاد ہو مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران کا خاتمہ ہو عوام کا معیار زندگی بلندہو انہیں روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوں ملک سے بھوک افلاس کا خاتمہ ہو اور ہم انشاءاللہ عوام کے تعاون اور آپ کی تجاویز سے یہ تمام کام کریں گے۔ انہوں نے کہا نوکر شاہی کو اس بات کا پابندبنایا جائے گا کہ وہ کارکنوں کی عزت کریں اور انہیں ان کا جائز مقام دے ۔
ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج میں تبدیلی کی ضرورت ہے اگر اس پر غورو خوض اور اس میں تبدیلیاں نہ کی گئیں تو معاملہ جوں کا توں رہے گا۔ وکلاء کی تحریک ایک ہی نقطے پر مرتکز ہے اور وہ نقطہ معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کو دو نومبر 2007ء والی پوزیشن پر بحال کرنا ہے ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج کے اندر ججوں کی بحالی کے حوالے سے جو نکات ڈالے گئے ہیں ان میں تبدیلی ، غور وخوض اور بحث کی ضرورت ہے اگر ان کو تبدیل نہ کیاگیا تو معاملہ جوں کا توں رہے گا اور صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ملک کے عوام اس امید سے ہیں کہ انشاء اللہ افتخار چوہدری اور دیگر جج ضرور بحال ہوں گے اور افتخار چوہدری اس ملک کے چیف جسٹس بنیں گے۔ آزاد عدلیہ کی بحالی تک ملک میں جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اے پی ایس اسلام آباد

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا قافلہ فیصل آباد انٹر چینج پر پہنچ گیا


ججوں کی بحالی کے اپنے دیرینہ موقف پر قائم ہیں ۔ جاوید ہاشمی


لاہور۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر ورکن قومی اسمبلی مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے 9مارچ 2007کے موقف پر قائم ہے اور ان ججوں کی بحالی تک تحریک جاری رہے گی۔ اس امر کا اظہار انہوں نے ماڈل ٹاؤن میں سینئر رہنماؤں کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس کی صدارت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے کی جبکہ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف ، سابق صدر مملکت رفیق تارڑ، سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ، احسن اقبال، میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن ، خواجہ سعد رفیق، چودھری عبدالغفور ودیگر نے شرکت کی۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ آزاد عدلیہ کی بحالی تک ملک میں جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجوزہ آئینی پیکج کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ جب یہ پیکج سامنے آئے گا تو اس کے حوالے سے اپنے موقف سے آگاہ کریں گے۔

پختونوں کے مزید قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے، ہم ہر قیمت پر اپنے اس خطے میں امن بحال کر نے کیلئے اپنے فیصلے خود کریں گے، وزیراعلیٰ سرحد



پشاور۔ وزیر اعلیٰ صوبہ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ ہم اپنی سر زمین پر اغیار کی جنگ اور مفادات کیلئے پختونوں کے مزید قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم ہر قیمت پر اپنے اس خطے میں امن بحال کر نے کیلئے اپنے فیصلے خود کریں گے۔ صوبائی خود مختاری اور اپنے وسائل پر اپنے اختیار کی جدوجہد مجھے اپنے قائدین سے وراثت میں ملی ہے۔ جسے منطقی انجام تک پہنچانامیری اولین ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مردان میں فرنٹیئر ہاؤس کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں ڈسٹرکٹ ناظم حمایت اللہ مایار، سیکرٹری ایڈمنسٹریشن کرنل (ر)سیدغلام حسین، اعلیٰ صوبائی و ضلعی حکام کے علاوہ معززین علاقہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپنی کرسی کو بچانے کیلئے مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس کے بارے میں اے این پی کے قائد اسفندیار ولی نے اسی وقت پیشن گوئی کر دی تھی کہ وزیرستان سے شروع ہونے والی اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ پورے صوبے میں پھیل جائے گی پھر حالات و واقعات نے ان کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت کر دی اور آج اس آگ کی تپش پشاور اور مردان تک آن پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد پختونوں کے تحفظ اور امن کی بحالی کیلئے ہم نے اپنا طریقہ اختیار کیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مولانا صوفی محمد کی رہائی اور سوات کے مولانا فضل اللہ کے ساتھیوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو امن کے حصول کی جانب کامیاب پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھی صوبہ سرحد میں امن لانے کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ کوشاں ہیں ۔اسی طرح سوات کے مقامی طالبان نے حکومتی رٹ کا احترام کرنے اور بندوق نہ اٹھانے کا عہد کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ فاٹا میں شورش اور بدامنی کے خاتمے کیلئے روایتی جرگوں کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ دونوں طرف سے پختون شورش کی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیںغیر ملکیوں کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور نہ ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے۔ ہم دوسروں کے مشورے پر اپنے بھائیوں پر گولی چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ مٹھی بھر شرپسند حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔تا ہم انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عوامی تائید اور حمایت سے اس قسم کی سازشوں کے آگے بند باندھ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے بعد ان کی دوسری بڑی ذمہ داری سیاسی مالیاتی اور انتظامی خود مختاری کا حصول ہے۔ اپنے وسائل پر اپنے اختیار کے بغیر ہم اپنے لوگوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ پن بجلی کے بقایا جات، ٹوبیکو سیس، تیل اور گیس کی رائلٹی اور دیگر معدنی وسائل کی آمدن میں وفاقی حکومت سے صوبے کا حصہ وصول کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تیسری ترجیح اپنے لاکھوں ایکٹر بنجر اراضی کو سیراب کرنے کیلئے انتظامات کرنا ہے۔گومل زام اور جنوبی اضلاع کے دیگر ڈیموں کی تکمیل سے سات لاکھ ایکٹر اراضی سیراب ہو گی جو خوراک کی مد میں صوبے کی خود کفالت کی ضامن ثابت ہو گی۔وزیراعلیٰ نے مشکل حالات میں فرائض انجام دینے اور جانی قربانیاں پیش کرنے پر پولیس فورس کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چار ارب روپے کے پیکج کے تحت پولیس فورس کو مضبوط بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے مردان کے لوگوں کے مقامی مسائل اور حکومتی افسران سے براہ راست رابطے کے لئے سیکرٹریٹ کے قیام کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔اس کیمپ آفس میں ہر وقت اعلیٰ حکومتی ذمہ داران اور افسران موجود رہیں گے جو عوامی مسائل کو موقع پر حل کرنے کیلئے احکامات جاری کریں گے۔ قبل ازیںوزیراعلیٰ نے مقامی زکواۃ کمیٹیوں میں زکواۃ کی رقم کے چیک تقسیم کیے جن میں باری چم کے فلک شیر ، بجلی گھرکے منورشاہ ،غفران آباد کے گوہررحمان ،سرانجام کورونہ کے مراد علی ،شام گنج کے محمدافضل ،ضامن آباد کے شکیل احمد ،باجہ زئی کے حیات محمد ،بکیانڑے کے سردارعلی ،گھڑی دولت زئی کے وصال محمد ،کروغہ کے جاوید خان ،منگہ کے قیوم خان ،نعمت علی ،یوسف شاہ ،سیف الرحمن شامل تھے ۔اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ناظم مردان حمایت اللہ مایار نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے امن کے قیام کے لئے موجودہ حکومت کامیابیوں کو سراہا اور اس جدوجہد میں بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ مردان کیمپ آفس کے قیام سے مردان کے لوگوں کو مقامی مسائل کے حل کیلئے پشاور جانے سے نجات ملے گی۔ انہوں نے تمام محکوموں کے ضلعی افسران کو ہدایت کی کہ وہ مقامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

شمالی وزیرستان ، افغان باشندہ امریکہ کے لئے جاسوسی کے الزام میں قتل

مران شاہ ۔ شمالی وزیرستان میں ایک افغان باشندے کو امریکہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں قتل کر دیا گیا ہے۔ مقامی پولیٹکل انتظامیہ نے لاش کو ان کے لواحقین کے حوالے کردیا ہے۔مقامی انتظامیہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہفتہ کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے پچیس کلومیٹر دور شمال کی جانب سپین وام میں مقامی لوگوں کو ایک لاش ملی۔ لاش کے ساتھ ہی پشتو زبان میں ایک خط بھی پڑا تھا جس میں الزام لگایا گیاتھا کہ مقتول امریکہ کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ خط میں خبر دار کیا گیا ہے کہ امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے والوں کا انجام یہی ہوگا۔ خط میں اس شخص کا نام گل پایو خان اور اس کا تعلق افغانستان کے صوبہ خوست کے علاقے کرم باغ سے بتایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق گل پایو خان کو چند دن پہلے نامعلوم نقاب پوشوں نے خوست کے علاقے سے اغواء کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گل پایو خان کو پھانسی دیکر قتل کیاگیا تھا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق لاش کو خاصہ دار فورس کے اہلکاروں نے ان کے قریبی رشتہ دار سعادت خان کے حوالے کر دیا گیا جس کے بعد لاش کو افغانستان روانہ کر دیا گیا ہے۔ اس واقعہ سے ایک ہفتہ پہلے ایک مقامی شخص کو امریکہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں ہلاک کیا گیا تھا۔

اٹک ‘ سنجوال آرڈنینس فیکٹری میں دھماکہ ‘ ٢ افراد زخمی

اٹک ۔ اٹک میں سنجوال آرڈنینس فیکٹری میں دھماکہ دو افرا دزخمی ہو گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق یہ دھماکہ ہفتہ کی شب آٹھ بجے کے قریب ہوا زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ۔ سنجوال آرڈنینس فیکٹری اٹک شہر سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے

صدر پرویز مشرف چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو ۔ آصف علی زرداری



پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد آصف علی زرداری ، فاروق ایچ نائیک اور جہانگیربدر کی نیوز بریفنگ
اسلام آباد ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہوں نے صدر پرویز مشرف کو کبھی آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اور ہم چاہتے ہیں وہ چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو۔یہ بات انہوں نے پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ اور وزراء کے اجلاس کے بعد نیوز بریفنگ میں کہی۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج پر تمام سیاسی جماعتوں سمیت ایوان صدر سے بھی بات چیت کریں گے۔ اس موقع پر وزیر قانون فاروق نائیک نے آئینی پیکیج کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ فوجی سربراہان، گورنرز اور ججوں سمیت آئینی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار صدر کے بجائے وزیر اعظم کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھنے کی تجویز ہے، سینٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیت کا نمائندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی شق ختم کرنے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے کی بھی شقیں شامل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کی دفعہ 62 ‘ 63 اور 90 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ دفعہ 62 اور 63 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے بارے میں ہیں اور دفعہ 90 صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور ترمیم کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم اور کابینہ کو بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ چاروں صوبوں کے گورنرز اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کے مشورے سے مشروط کرنے کی تجویز پیکج میں دی گئی ہے ۔مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق آئین میں کنکرنٹ لسٹ کو 80 فیصد ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے مشورے سے ہو گا ۔ اور اگر یہ نہیں ہوں گے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے مشورے سے یہ تقرر کیا جائے گا۔ نیشنل فنانس کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کو شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹ کے قائد ایوان کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ آئینی پیکج میں ایک شق شامل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں ۔ ایک دوسری شق کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے تاہم اس کے لیے مزید صلاح و مشورے ہوں گے۔ آئینی پیکج کے مطابق کوئی بھی شخص دو سے زائد مرتبہ صدر نہیں بن سکے گا اور صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے کی تجویز بھی آئینی پیکج میں شامل ہے ۔آئینی پیکج کے مطابق آرٹیکل 104کے تحت نگران حکومت سپیکر کی مشاورت سے قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں گورنر کی مشاورت سے کی جائے گی ۔سی سی آئی کا اجلاس ہر سال میں دو دفعہ ہو گا ۔ قومی اقتصادی کونسل کو فعال بنایاجائے گااور فنانشل کونسل کا اجلاس تین سال بعد ہو گا سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ایک قرار داد بھی پیش کی گئی۔قرار داد کی تفصیلات بتاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے کہا کہ اجلاس میں پیش کی گئی قرار داد کے مطابق بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیا اور دوسری سیاسی جماعتوں سے آئینی پیکج کے بارے میں مشاور ت کی تائید کی ۔ آصف علی زرداری کے سیاسی اقدامات جمہوریت کی طرف سفر و عوام کو بحران سے نکالنے کیلئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اجلاس نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آصف علی زرداری جو پالیسی بھی اختیار کریں گے پارٹی اس پر عملدرآمد کرے گی یہ مجوزہ آئینی پیکج مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اور اس پر نواز شریف کی جانب سے آنے والی آؤٹ پٹ کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہاکہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے آئینی پیکج کی منظوری کے بعداس کو نواز شریف ، ایم کیو ایم ، اسفند یار ولی اور دوسری جماعتوں کو بھیج دیا گیاہے۔ آئینی پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سب جماعتوں سے لیں گے انہوںنے کہاکہ ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں گے جس کے تحت 90ہزار فوجیوں کو شملہ میں مذاکرات کے ذریعے رہاکروایا گیا اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین کو واپس لیاگیااور بے نظیر کی اسی پالیسی کے تحت صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ۔ انہوں نے کہاکہ ہم آئینی پیکج پر صدر پرویز مشرف سے بھی ڈائیلاگ کریں گے اور پارلیمنٹ سے اسے منظور کروائیں گے اور پوری دنیا کی جمہوری قوتوں کے سامنے رکھیں گے اور ان سے مشاورت کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر مشرف کوقرار دئیے جانے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ حق پیپلزپارٹی کا کیونکہ قوم نے ہمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو سبو تاژ نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے آصف علی زرداری نے کہاکہ ججوں کی بحالی کیلئے ہم وکلاء سے بھی بات چیت کریں گے کیونکہ ہم ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت اور آمریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی لیکن ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس کو منظور کروا لیں انہوں نے کہاکہ وکیلوں کا اور ہمارا موقف مختلف نہیں ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب میں نے شدید مشکلات کے اندر آئی ایس آئی کی بات نہیں مانی تو اب ان حالات کے اندر کس طرح مانوں گا ۔ آئی ایس آئی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے خلاف لڑنے کا زیادہ تجربہ ہے ۔ عوام کاپریشر ہو گا ، میڈیا کاپریشر ہو گا ہمارا بل سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہوگا ۔ صوبوں میں اور قومی اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے بل کو وہاں سے پاس کروائیں گے اور پھر سینیٹر سے درخواست کروںگا

پرویز مشرف کے لئے واپسی کا محفوظ اور پرامن راستہ بند ہو چکا ہے ۔سابق عسکری قیادت





مشرف کو کارگل ‘ قبائلی علاقوں میں فوج کشی ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کا حساب دینا ہو گا
نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے
جنرل ( ر ) اسد درانی ‘ جنرل ( ر ) حمید گل ‘ جنرل ( ر ) جمشید گلزار کیانی کی پریس کانفرنس

راولپنڈی۔ اعلی ترین سابق عسکری قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا محفوظ اور پر امن راستہ اب بند ہو چکاہے ۔انہیں کارگل سے لے کر قبائلی علاقوں میں فوج کشی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کاحساب دینا ہو گا ۔ نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے۔ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد پرویز مشرف کو آرمی ہاؤس میں رہنے کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں وہ آرمی ہاؤس کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کر رہے ہیں اور فوج کی حمایت کاتاثر دے رہے ہیں فوج اور حکومت ان سے فی الفور آرمی ہاؤس خالی کرائے ۔ ایکس سروس مین مسلح افواج پر جمہوری کنٹرول کی حامی ہے کو منتخب حکومت بھی جرات مندانہ اور آزادانہ فیصلے کریں ۔ پرویز مشرف نے اگر اٹھاون ٹو بی سے تحفظ لینے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گی۔ ان خیالات کااظہار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسددرانی نے ویسٹریج میں بریگیڈےئر ( ر ) محمود کی رہائش گاہ پر ایکس سروس مین کے سینیئر اراکین کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل اور سابق کورکمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) جمشید گلزار کیانی سمیت دیگر سابق افسران بھی موجود تھے ۔لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) اسد درانی نے کہا کہ 18 فروری سے قبل اور 3 نومبر کے بعد ہماری کوشش تھی کہ ایکس سروس مین کو اکٹھا کر کے ملک کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کی جائے اور قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 18 فروری کے انتخابات ، وکلاء سول سوسائٹی کی جدوجہد اور میڈیا کے کردار نے ملک میں ایک شعور اجاگر کیا۔ انتخابات میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کیاگیایہ ایک ریفرنڈم تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خدشات میں وقت کے ساتھ پھر اضافہ ہو رہاتھا ۔انہوں نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام کا اصل مطالبہ اور فیصلہ یہ تھاکہ پرویزمشرف صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری اور آئینی عدم استحکام پیدا کیا ۔انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت کے منصب سے الگ ہونا چاہیے ۔ پرویزمشرف نے عدلیہ کے بھی تانے بانے ادھیڑ دئیے۔ عدلیہ کے خلاف اقدام کے بعد اگر اب بھی 2 نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہوئی تو پھرکبھی یہ ادارہ آزاد نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس ، ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاؤس میںبلوانا عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی نئے شکوک و شبہات پیداہو رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے باہم اتحاد کا مظاہرہ کر کے احسن اقدام کیا۔ انہوں نے حکمران اتحاد سے اپیل کی کہ 18 فروری کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی پاسداری کریں۔ ایکس سروس مین حکومت کی طرف سے فاٹا ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ہمیں ہر طرح کے بیرونی دباؤ کو مسترد کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ ہم نے جب بھی اپنے فیصلے آزاد ہو کر کئے ان میں کامیابی ملی ۔ ہمیں نیگرو پونٹے اور امریکی سفیر کے اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا راستہ اب بندہو چکا ہے۔ انہیں کارگل سے آج تک فوجی اور قومی امور پر کڑے ٹرائل سے گزرنا ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جو پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ قبائلی علاقوں میں لشکر کشی ، لال مسجد آپریشن سمیت تمام سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی فورسز پر جمہوری کنٹرول کے حامی ہیں تاکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی کی راہ متعین کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد آرمی ہاؤس میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے جو فوج کے لیے بذات خود انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا پاک فوج فی الفور آرمی ہاؤس خالی کرائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فی الفور پاکستان واپس بلوا کر احتساب اور انکوائری کے عمل سے گزارا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اگرچہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن وہ آئینی صدر نہیں ہیں جو اٹھاون ٹو بی کو اپنا محافظ خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے دوبارہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گے ۔ آج ملک میں مہنگائی بد امنی بے روزگاری زوروں پر ہے ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چار سال سے جاری یہ سنگین ایشوز جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کا بھی ذریعہ بنا یہ نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے ۔ نومنتخب حکومت لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے پیشن گوئی کہ پاکستان میں آئندہ بہت جلد بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئین کی خلاف ورزی پر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی نہیں بلکہ نو منتخب حکومت کو اچھے اقدامات پر خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں بعض چیزوںکی نشاندہی کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں ذاتی حیثیت میں ہمارے بھی بع لوگوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر ایسے کام ہوئے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے ہی ہم وسیع تر قومی مفاد میں نئی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا اقدام بذات خود غیر آئینی و غیر قانونی تھا لہذا اس کے تحت جاری ہونے والے اقدامات اور تقرریاں و تعیناتیاں بھی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین نے وکلاء کی ملک گیر تحریک میں بھرپور شمولیت کرے گی اور تحریک کے دوران وکلاء کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے گی ۔ ایکس سروس مین کے پچیس لاکھ اراکین قومی مفاد کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہیں

مسلم لیگ (ن ) نے صدر پرویز مشرف کے خلاف چارج سیٹ جاری کردی



پرویزمشرف بے نظیربھٹو کے قاتل،2002ء کے انتخابات میں دھاندلی کے مجرم ،کارگل شکست کے ذمہ دار ،پاکستان میں گندم و بجلی بحران کے ذمہ دار ہیں ۔صدیق الفاروق
عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو غیر مستحکم کرنے ، کرپشن کو فروغ اور تحفظ دینے ، صنعتی و تجارتی کارٹلزکوتحفظ فراہم کرنے کیمجرم بھی ہیں
مسلم لیگ (ن ) کے مرکزی ترجمان کی پریس کانفرنس

لاہور ۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی ترجمان محمد صدیق الفاروق نے کہاکہ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف بے نظیربھٹو کے مبینہ قاتل،2002ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے مجرم ،کارگل شکست کے ذمہ دار ،پاکستان میں گندم اور انرجی کا دانستہ بحران پیدا کرنے کے مبینہ مجرم،عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو غیر مستحکم کرنے ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کو فروغ اور تحفظ دینے ، صنعتی و تجارتی کارٹلز(Cartels)کوتحفظ فراہم کرنے ،غیر ملکی اورملکی قرضوں کو 6ہزار ارب روپے تک بڑھانے ،تجارتی خسارے کو 1.6ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک پہنچانے ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کرنے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پہنچانے اور پاکستان کو Ungoverable بناکر سول وار کی طرف دھکیلنے کے مجرم ہیں۔ان جرائم کی روشنی میں وہ Misconduct اور ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے مجرم ہیں ۔ وہ اس وقت جبراً صدر کے عہدے اور ایوان صدر پرقابض ہیں اور موجودہ منتخب مخلوط حکومت کے خلاف مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ ملکرسازشیں کرنے میںبھی مصروف ہیں۔یہ چارج شیٹ صدیق الفاروق نے ہفتہ کو یہاں ایک پرہجوم نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیش کی۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ اِن جرائم کے ارتکاب کی بنیاداور وفاق کو بچانے کیلئے ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو “عہدے” سے برخواست (Impeach) کرنے کیلئے بلاتاخیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایاجائے ۔اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ملک اور قوم کو مزید نقصان پہنچنے کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔مسلم لیگ(ن) کے مرکزی ترجمان نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ،بلال مشرف،ترکی میں پاکستان کے سفیر اور سابق گورنر سرحدریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل افتخارکوبیرون ملک سے طلب کرکے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی ،سابق آئی بی چیف ریٹائرڈ اعجاز شاہ،سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم یعنی پرویزمشرف سمیت8کے ٹولے سے تفتیش کی جائے جس کے نتیجے میں اِن تمام جرائم اور پرویزمشرف کی ذاتی کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے بیرون ملک اثاثے بے نقاب ہو سکیں۔صدیق الفاروق نے کہاکہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش پرویزمشرف نے ق لیگ کے رہنماؤں اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے مشورے سے تیار کی اور انہی کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرایا۔اس حوالے سے مارک سیگل کے نام بے نظیر بھٹو شہید کی ای میل اور 16اکتوبر 2007ء کو مشرف کو لکھاگیا خط ناقابل تردیدثبوت ہیں۔ اپنی ای میل جسے نزعی بیان سمجھا جا رہا ہے بے نظیر بھٹو نے کہا،”اگر مجھے کچھ ہوگیا(قتل کردی گئی) تو میر ے نزدیک اس کے ذمہ دار پرویزمشرف ہونگے”۔ سی آئی اے لاس انیجلس ٹائمز (CIA Times Los Angeles) نے 18 جنوری 2008ء کو اپنی اشاعت میں سی آئی اے کے حوالے سے پرویزمشرف کو ہی بے نظیر بھٹو کو قاتل بتایا ہے۔ صدیق الفاروق نے کہاکہ پرویز مشرف نے ہر ممکن کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو اپنی پارٹی میں ان کی (مشرف) کی پسند کے آدمی کو وزیراعظم بنوادیں او رخود پاکستان نہ آئیں لیکن بے نظیر بھٹو نے ان کی یہ بات نہ مانی۔ جب صدر بش کے دباؤ پر انہوںنے نہ چاہتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دی تو18اکتوبر2007ء کو ان پر قاتلانہ حملہ کروادیا۔ اس حملے میں بھی وہی طریقہ کاراختیار کیاگیا جو 27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اختیار کیاگیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں مشرف حکومت کا تین بار موقف تبدیل کرنا،حملے سے پہلے محافظ پولیس کی گاڑیاں واپس بلالینا،جیمرزکوناکام بنانا،اوپر سے ملنے والی ہدایت پر سعودعزیز کا فوراً”جائے وقوعہ کو دھونے اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے احکامات جاری کرنابھی بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویزمشرف،وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی بی چیف وغیرہ کا ملوث ہوناثابت کرتا ہے۔کارگل شکست کی منصوبہ بندی کے ذریعے انہوںنے پاکستان اور بھارت کو نہ صرف ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچادیاتھا بلکہ وہ 3000سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بھی مجرم ہیں۔پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فاؤل کھیل کھیلا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور خود پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے فوجی سپاہی سے لے کر لیفٹننٹ جنرل اور خفیہ اداروں کے اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اب تک 2ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی اور ہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستانی فوج میں تقسیم کرنے کیلئے دیئے گئے 4.58 ارب ڈالر(270ارب روپے) کا کوئی حساب نہیں دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں آئی ایس آئی کے ذریعے انہوںنے دھاندلی کی اور ق لیگ کے علاوہ کچھ دیگر لوگوں کو بھی پارلیمنٹ کا ناجائز ممبر بنوایا۔ اس کی تصدیق اس وقت آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر کر چکے ہیں ۔ پرویزمشرف نے دھاندلی کے ذریعے اسمبلی میں پہنچائے جانے والے اپنے آدمیوں کے ذریعے اپنے 12اکتوبر99ء کے غیر آئینی اقدام کو 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دلوایا۔آئین اور قانون کی نظر میں دھاندلی کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں جانے والے لوگ غیر ممبر تھے۔ لہذا انہوں نے آئین میں جوترمیم کی وہ بھی آرٹیکل6کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پرویزمشرف مس کنڈکٹ (Misconduct) کے بھی مجرم ہیں

ایسا نظام لائیں گے جس سے مستقبل میں جمہوری حقوق کے لئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں کاسلسلہ ترک ہوجائیگا۔میاں شہباز شریف


لاہور ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاںمحمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسا نظام لائیں گے جس سے مستقبل میں جمہوری حقوق کے لئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ریاست کی جانب سے جارحانہ کاروائیوںکاسلسلہ ترک ہوجائیگا۔ پارٹی کی اصل طاقت اس کے کارکن ہیں اورپارٹی کے وزراء ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات انہی کارکنوں کی وجہ سے آج ان عہدوں پرسرفراز ہیں ۔ درخت کی جڑیں نہ ہوں تو وہ زمین پرآرہتا ہے اوراگر سیاسی کارکن نہ ہوں تو قیادتیں لنگڑی اور اندھی ہوجاتی ہیں ،افسران غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات ماننے کی روش اور عادت بدل لیں ،چادر اور چاردیواری کا تقدس مجروح کرنے والوں کو نظروں سے دور رکھا جائے گا عدلیہ اور ججز کی بحالی کی جنگ جاری رہے گی ۔انہوں نے یہ باتیں آج ماڈل ٹاؤن میں لاہور کے حلقہ پی پی 137تا 157سے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور عہدیداروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں ۔محمد شہبازشریف نے کہا کہ پارٹی قیادت گزشتہ 8سالہ دور آمریت میںجمہوریت کے لئے جد وجہد کرنے والے پارٹی کارکنوں کو سلام پیش کرتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مشرف حکومت کے ظالمانہ او رجابرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قیدو بند کی صعبوتیں برداشت کیں ، جیلیں کاٹیں ، بدترین ریاستی جبرو تشد د کا مردانہ وا رمقابلہ کیا، لاٹھیاں او رگولیاں کھائیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بھگتے لیکن ہمارے ان عظیم کارکنوں نے سخت ترین حالات میںبھی پارٹی او رلیڈر شپ کو زندہ رکھا۔جس کی قائد مسلم لیگ(ن) محمدنوازشریف او روہ دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ کارکنوں کی 8سالہ سیاسی جد وجہد پارٹی کے لئے گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے ہمارے ان کارکنوں نے آمروں کی گود میںپلنے والوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔کسی قسم کا لالچ او ردباؤ ان کے پایۂ استقلال میں لغزش پید ا نہ کرسکا مسلم لیگ(ن) اپنے ان کارکنوں کی جمہوریت کے لئے دی گئی لازوال قربانیوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ کارکنوں کی جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ 18فروی کو ایک آندھی چلی اور عوام کی اکثریت نے آمریت اور اس کی گو د میںپرورش پانے والوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیا ۔محمد شہبازشریف نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ و ہ اطمینان رکھیںکیونکہ اب زیادتیوں کا دور ختم ہوچکا ہے اور کارکنوں کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں۔آپ کے حقوق دلوانے میں میں آپ کا وکیل بن کر لڑوں گا اور عوام کو حکومت سے سہولت دلوانا آپ کے فرائض میں شامل ہے ۔یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ حکومت کی آنکھیں بن کر اسے اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگا ہ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں آٹے کی فراہمی ، صحت و علاج کی خدمات اور تھانے کچہری میں انصاف کے حصول کے لئے سرگرم رہیں ۔ آپ کو آپ کا حق ملے گااور میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ کسی کارکن کی حق تلفی نہ ہوہم آ پ کو عوامی خدمت اور منصوبوں کی مختلف کمٹیوں میں نمائندگی دیں گے کارکن تجاویز دیں ان کی تجاویز پ رعمل کیا جائے گا اور انہیںساتھ لے کر چلیں گے جس کسی افسر نے بھی ماضی میںسیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ زیادتیاں کی انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا ہمیں پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری ، آٹے کے بحران اور بجلی کے بحران سے نجات دلانی ہے عدلیہ کو آزاد،ججوں کو بحال کرانا ہے او رپاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے ۔ ہم انشاء اللہ اپنے کارکنوں کے ساتھ عدلیہ مل کر شبانہ روز محنت کریں گے اورا س ملک سے مہنگائی بے روزگار،غربت کا خاتمہ کرکے عوام کو انصاف مہیا کریں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے آج قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کا یہی خواب ہے کہ پاکستان میں جج بحال ہوںآزاد ہو مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران کا خاتمہ ہو عوام کا معیار زندگی بلندہو انہیں روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوں ملک سے بھوک افلاس کا خاتمہ ہو اور ہم انشاء اللہ عوام کے تعاون اور آپ کی تجاویز سے یہ تمام کام کریں گے۔ انہوں نے کہا نوکر شاہی کو اس بات کا پابندبنایا جائے گا کہ وہ کارکنوں کی عزت کریں اور انہیں ان کا جائز مقام دے

آئینی پیکج میں ججوں کی بحالی کے حوالے سے موجود نکات میں تبدیلی نہ کی گئی تو معاملہ کا جوں کا توں رہے گا اعتزازاحسن


اسلام آباد ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج میں تبدیلی کی ضرورت ہے اگر اس پر غورو خوض اور اس میں تبدیلیاں نہ کی گئیں تو معاملہ جوں کا توں رہے گا۔ہفتہ کو پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وکلاء کی تحریک ایک ہی نقطے پر مرتکز ہے اور وہ نقطہ معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کو دو نومبر 2007ء والی پوزیشن پر بحال کرنا ہے انہوں نے کہاکہ ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج کے اندر ججوں کی بحالی کے حوالے سے جو نکات ڈالے گئے ہیں ان میں تبدیلی ، غور وخوض اور بحث کی ضرورت ہے اگر ان کو تبدیل نہ کیاگیا تو معاملہ جوں کا توں رہے گا اور صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی انہوں نے کہاکہ انشاء اللہ افتخار چوہدری اور دیگر جج ضرور بحال ہوں گے اور افتخار چوہدری اس ملک کے چیف جسٹس بنیں گے

مستقبل قریب میں وکلاء کی جنگ سے زیادہ سیاسی جنگ کا خدشہ ہے ۔ مولانافضل الرحمان


سیاستدان احتیاط سے کام لیں ٹکراؤ سے گریز کیا جائے ۔ آئینی پیکج کے ذریعے سترہویں ترمیم کو مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے
ایوان صدر کو کچھ نہ کچھ تو قبول کرنا ہو گا آئینی پیکج کیلئے اپنے ماہرین کو سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کردی ہے

ڈیرہ اسماعیل خان ۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں مستقبل قریب میں وکلاء کی جنگ سے زیادہ بڑی سیاسی جنگ کا خدشہ ہے سیاستدان احتیاط سے کام لیں ٹکراؤ سے گریز کیا جائے ۔ آئینی پیکج کے ذریعے سترہویں ترمیم کو مکمل طور پرختم ہونا چاہیے ایوان صدر کو کچھ نہ کچھ تو قبول کرنا ہو گا۔ آصف علی زرداری کے بیان کے بارے میں صدر کا ردعمل فطری تھا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی اقامت پر ثناء نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب آئینی پیکج کے خدوخال اور تفصیلات سامنے آئیں گی تو اس کے قابل قبول ہونے یا اپنی سفارسات دینے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ اپنے آئینی ماہرین کو تجاویز مرتب کرنے کی ہدایت کردی ہے ماضی میں ماورائے آئین اقدامات کیے گئے تھے ۔ فرد واحد سے اختیارات کو پارلیمنٹ میں منتقل ہونا ہے ۔ اسی کے نتیجہ میں پارلیمانی طرز حکمرانی کا طرز عمل ابھر سکتا ہے ۔ ایک بار پھر سترہویں ترمیم والی صورت حال سامنے ہیں صرف لوگ تبدیل ہوئے ہیں ۔ ہم نے بھی اس وقت آئینی بحران کی بات کی تھی آج ایسا ہی کہا جا رہا ہے سترہویں ترمیم کے خلاف واویلا کرنے والے آج اس ترمیم کو مکمل طور پر ختم ہونے کی بات کیوں نہیں کرتے ۔ کل جسے ہمارا جرم قرار دیا جا رہا تھا آج اسے برقرار کیوں رکھنے کی بات کی جا رہی ہے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آصف علی زرداری کے بیان کے خلاف صدر کا ردعمل فطری تھا کیونکہ ایک بڑی پارٹی نے اس قسم کا عندیہ دیا تھا ۔ ظاہر ہے اس کے ساتھ عملی شکل کے حوالے سے اس کی سیاسی طاقت بھی وابستہ ہوتی ہے سیاستدانوں کو حالات بگاڑنے کی بجائے انتظار کرنا ہو گا ورنہ ایک بری سیاسی جنگ دیکھ رہا ہوں ۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی جدوجہد مربوط کرنا ہو گی اور باہمی ٹکراؤ سے گریز کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے اقدامات کرنے ہیں ایوان صدر کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا ہو گا۔ صوبہ سرحد میں امن و امان کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی امن معاہدے ہوئے ہیں عملدرآمد کا میدان سامنے ہیں کچھ قوتیں امن معاہدے کررہی ہیں جبکہ کچھ قوتیں انہیں سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ سیاستدان صورت حال کا احساس کریں جلد یا بدیر کی بات نہیں بلکہ ہمیں تو انتخابات نظر ہی نہیں آرہے ہیں مقامی حکومتوں کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی پیکج کے اس نظام کو ختم کرنے کا اقدام اٹھایا گیا تو بھرپور حمایت کریں گے ۔ مقامی ہکومتوں کا نظام عالمی ایجنڈے کے تحت قائم ہوا پرانے بلدیاتی نظام کو بحال کیا جاتا ہے تو موجودہ حکومت میں یہ بہت بڑا انقلابی فیصلہ ہو گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف تیزی کے ساتھ وفاقی کابینہ میں اپنی واپسی کے امکانات کو کم کررہے ہیں ۔

Cracks appear in French fishing protest

PARIS - Splits appeared in a long-running French fishermen's protest on Saturday, with some fishing fleets suspending their campaign against rising fuel costs while others voted to continue blockading ports and oil depots.
The price of marine diesel has surged by 30 percent in the past four months and trawler owners say they will go bust unless the government subsidies their diesel.
Agriculture Minister Michel Barnier, who last week offered 110 million euros ($173 million) in aid, subject to European Union approval, said on Saturday he would discuss the crisis with other EU ministers at a meeting on Monday.
Pending further talks, the fishermen who started the protest on May 10 in the Atlantic port of Sables d'Olonne decided to return to sea, but warned they would resume their strike in June if they failed to secure more concessions.
Soon afterwards, fishermen on the nearby Ile d'Oleron also voted to lift their blockade and put to sea.
"Sables d'Olonne ... started the protest and they are the ones who are leading the return to work," said Nicolas Masse, a trawler owner on the Ile d'Oleron.
Other fishermen, including in the Brittany ports of Le Guilvinec, Lorient and Saint-Malo, decided to continue their protests at least until Monday, expressing hope that trawlers in other EU countries would join the dispute.
"We need to get (subsidised) marine fuel from Brussels. If France is alone, it will be mission impossible. We need a common front with other countries," said Pascal Lecler, head of a local fishing committee in Saint-Malo.
The dispute has paralysed many ports and fuel depots in France and led to petrol shortages in the south of the country after road and sea routes to some refineries were blocked.
Ferry traffic between Britain and France was also hit, with the straits of Dover, one of the busiest seaways in the world, snarled on Friday.
The fishermen are demanding discounted diesel at 40 euro cents ($0.60) per litre, half the 80 euro cents they pay now. A direct subsidy would be illegal under EU law and Barnier is trying to find a way around the rules.
"The French government will seek solutions with the main European countries concerned and the European Commission," Barnier's office said in a statement.
The fishing industry employs an estimated 24,000 people in France and provides an extra 70,000 jobs in related sectors.
Fishermen at La Rochelle, just to the north of Sables d'Olonne, said they would retain a stranglehold on their port to keep up the pressure on the government.
"Nothing has changed. We want to pay 40 cents for a litre of diesel and we want written guarantees," said Pascal Guenezan, a spokesmen for the local fishing fleet.

Thousands march against South Africa violence

JOHANNESBURG - Thousands of people marched through South Africa's biggest city on Saturday, calling for an end to the violence that has killed at least 50 African migrants and forced tens of thousands to flee their homes.
Demonstrators carrying placards saying "Xenophobia hurts like apartheid" and "We stand against xenophobia" brought traffic to a standstill in Johannesburg's city centre.
People in the Hillbrow district, home to many African immigrants, cheered the march, which was organised by churches and labour unions.
Police said townships around Johannesburg were quiet but shops were looted and burnt outside Cape Town late on Friday.
The South African government has been criticised for its slow reaction to the violence, the worst since apartheid ended 14 years ago, and for not addressing the poverty that is widely blamed for the bloodshed.
President Thabo Mbeki said South Africans should not turn on other Africans and pledged that his government was committed to ending the violence.
"Today we are faced with a disgrace, a humiliation as a nation in that we have allowed a handful of people to commit crimes against other Africans living in our country," Mbeki said on visit to a mission school in the Eastern Cape province.
The violence started in Johannesburg's Alexandra township on May 11, and has spread to Cape Town and the eastern port city of Durban.
Police said at least 50 people had been killed in areas around Johannesburg. More than 25,000 had been driven from their homes in 13 days of attacks by mobs who have stabbed, clubbed and burnt migrants from other parts of Africa whom they accuse of taking jobs and fuelling crime.
Flashpoints
Police said townships around Johannesburg were quiet on Saturday and in South Africa's premier tourism destination of Cape Town security forces were monitoring several flashpoints after anti-foreigner violence continued during the night.
Superintendent Andre Traut said shops were looted and burnt in Du Noon squatter settlement and in Kraaifontein outside Cape Town, as well as the city's largest township, Khayelitsha, where an estimated one million people live.
"Most of the incidents (on Friday night) occurred in Khayelitsha, where we had our hands full to protect the community," Traut said. Most foreigners left the area voluntarily or were escorted by police.
South Africa's foreign minister said on Friday the violence was embarrassing for the government and created a "very bad image" for the country. Nkosazana Dlamini-Zuma told Reuters in Moscow that the government would deal decisively with it.
Manala Manzini, head of the National Intelligence Agency, has said that people linked to former apartheid security forces are stoking the violence.
Earlier this week, Mbeki authorised the army to help quell the violence, which comes amid power shortages and growing social discontent which have rattled investors in Africa's biggest economy.
Officials in the tourism industry fear overseas visitors will stay away from a country that hopes to draw half a million extra tourists for the 2010 soccer World Cup.

Wenders unveils ode to rock'n'roll at Cannes

CANNES, France - German director Wim Wenders said Saturday that his first film shot entirely in Europe in 15 years was an ode to the power of rock'n'roll, as he premiered the picture at Cannes.
"The Palermo Shooting" stars German punk singer Campino as a photographer from Wenders' hometown of Dusseldorf who, on a visit to Sicily, comes face to face with Death, embodied by Dennis Hopper.
Wenders, whose last international hit was the 1999 homage to traditional Cuban music "Buena Vista Social Club," packed the haunting soundtrack with his favourite artists including Lou Reed, Nick Cave and Portishead.
"Music is important in my life, you know that," the man behind 1984 Palme d'Or prize-winning "Paris, Texas" told reporters.
"The courage to make a film about this topic and to talk about things that concern us all very deeply... came from listening to rock'n'roll and realising how all my favourite bands were singing about things that no film tries to touch anymore."
In the movie, the photographer abandons his life in Germany and becomes the target of a mysterious gunman who hunts him through Palermo's ancient streets. Italian actress Giovanna Mezzogiorno plays a woman who teaches him about the redemptive power of love.
Wenders said he had set the picture in Italy because of the eternal lure of northern Europeans to the south, adding that he had read (Johann Wolfgang von) Goethe's diary of his time in Italy before making the movie.
"It's the classic journey of the German -- the journey to Italy," he said.
"For us people from the north, there's always such a desire to go there, and it always seems to us that life is so much fuller there."
Wenders is a longtime Cannes favourite, also being named best director for Wings of Desire in 1987 and landing the Grand Jury Prize for "Faraway, So Close!" in 1993.
Cannes critics compared the film to an extended music video with philosophical heft after a press preview screening. It will receive its gala premiere later Saturday.
"The Palermo Shooting" is one of 22 films vying for the Palme d'Or, to be awarded Sunday.

North Sea oil platform leak under control: operator

OSLO - More than 150 workers were evacuated from a North Sea oil platform Saturday amid fears that a leak would spark an explosion, but by mid-afternoon the rig's operator said the situation was under control.
"The leak from the tank on (the) Statfjord A (platform) has been stopped, and the pumping of oil-containing water to sea has also been stopped," Norwegian energy giant StatoilHydro said in a statement.
Two helicopters had been used to evacuate 156 of the 217 people working on the platform, located some 200 kilometres (125 miles) from the Norwegian coast, to nearby rigs after an oil leak was discovered at around 6:00 am (0400 GMT).
A storage cell had begun leaking oil into one of the platform's three shafts as work was being performed on a pipe, StatoilHydro said.
Due to a danger the oil would evaporate and create gas which could easily ignite, the company had decided to pump around 1,200 cubic metres (42,380 cubic feet) of water containing oil out of the shaft and into the sea, creating a "thin film" on the water surrounding the platform.
"This pumping has now been stopped. The oil concentration in the water is limited," the company said, adding that oil protection equipment had been deployed.
"With the worst case scenario in mind, in which there could be an explosion, we are taking the necessary security precautions," StatoilHydro spokesman Ole Morten Aanestad told AFP earlier, adding that 61 people had remained on the platform to help stop the leak.
By mid-afternoon, the company said: "The situation on the Statfjord A platform is being stabilised, considering that the safety of personnel is being properly ensured and the leak has been stopped."
No people were seriously injured in the accident. Two people had, however, been "slightly exposed to gas, but they are both feeling fine and have been given medical attention," the statement added.
A total of three rigs work in the Statfjord field, which produces 150,000 barrels of oil a day. Production from the affected rig had been suspended while the leak was dealt with.
Other rigs are also connected to Statfjord: around six million cubic metres of natural gas and between 470,000 and 480,000 barrels of oil transit the field every day, according to statistics provided by the Norwegian oil authorities.
The Statfjord A platform was last in trouble when more than 4,000 cubic metres of oil poured into the sea as it was being piped from the rig to a loading buoy last December, creating the second largest oil spill in Norway's history.
The Scandinavian country is the world's fifth largest oil exporter and the third largest exporter of gas.

China's Wen thanks world for quake help

CHENGDU, China - Chinese Premier Wen Jiabao Saturday thanked the international community for its help in fighting the devastating earthquake that hit southwest China, and pledged openness in his government.
"I would like to sincerely thank the international community, the leaders of the world, the governments and people of every nation for their concern and the materials and the help they have offered," said Wen during his first press conference with the foreign and domestic media.
"In this disaster, we have maintained a policy of openness (because) this earthquake disaster is not only a disaster for the Chinese people, but it is a disaster for humanity."
Wen made the comments in Yingxiu, a town in Sichuan province at the epicenter of the May 12 quake, ahead of a visit by UN Secretary General Ban Ki-moon.
"Faced with such a disaster, we welcome journalists from all over the world to come and report," Wen said.
"We believe you will use your conscience and humanitarian spirit to fairly, objectively and truthfully report the real situation of the disaster and the work we are doing."
Foreign journalists have not reported any major obstacles to their coverage of the disaster, implying the government wants to show a degree of openness after international condemnation of its handling of the Tibet crisis.
Nearly 87,000 people are dead or missing after the quake, in which more than 350,000 people were injured and over 11 million either left homeless or evacuated from dangerous areas.
Asked if the government would continue to maintain such openness after rescue and relief operations had ended, Wen replied:
"In this disaster, since it began we have maintained the policy of working for the people and placed priority on saving the lives of the people. Our leaders were on the scene when the disaster was at its worst," he said.
"As we handle sudden incidents like this and other domestic problems, we will see to it that the policy of working for the people never changes, that the policy of opening and reform never changes."

Mugabe aims to decimate Zimbabwe opposition

HARARE - Opposition leader Morgan Tsvangirai returned to Zimbabwe on Saturday for an election run-off with President Robert Mugabe and said the veteran leader wanted to "decimate" MDC structures.
Tsvangirai arrived at Harare airport aboard a regular South African Airways flight around 1030 GMT after cancelling his homecoming a week ago after his Movement for Democratic Change (MDC) said it had learnt he was the target of a military intelligence assassination plot.
The government dismissed the plot as a propaganda stunt.
Tsvangirai said at a news conference that Mugabe and the ruling ZANU-PF party had launched a concerted campaign against the MDC, which has seen 42 people killed and tens of thousands displaced.
"ZANU-PF wants to decimate MDC structures," Tsvangirai said, adding that many opposition officials were in hiding.
He said he was confident of victory, although conditions are not conducive for a free and fair election and ZANU-PF was trying to destroy his MDC before the run-off.
"The conditions on the ground for a run-off are not perfect, and will never be perfect. But we are saying with the support of SADC (Southern African Development Community), putting in election observers and peacekeepers, we can instil confidence in the people of Zimbabwe".
Tsvangirai has been travelling abroad since April 8 on a diplomatic drive to pressure Mugabe to surrender power following a March 29 presidential poll, which he says he won outright.
But Zimbabwe's electoral commission says he did not get enough votes for a straight victory and must face Mugabe in a June 27 run-off.
Peacekeepers
Tsvangirai said the regional SADC will hold a meeting on the run-off vote next Tuesday at which sending regional peacekeepers to Zimbabwe will be discussed.
"But I told them that by the 1st of June they should put these people on the ground otherwise we don't need them. You can't have peacekeepers and observers two weeks before an election because they will not be of any benefit. What we want is a complete demilitarisation of the situation," he added.
SADC, which is due to monitor the run-off, said earlier this month that conditions were neither safe nor fair yet for a fresh vote.
Zimbabweans hope the run-off will start recovery from an economic collapse that has brought 165,000 percent inflation, 80 percent unemployment, chronic food and fuel shortages and has sent millions fleeing to nearby countries.
The MDC has vowed to "bury" Mugabe in the run-off, ending his uninterrupted rule since independence from Britain in 1980.
But the 84-year-old veteran leader has also vowed that he will win the June 27 poll because his ZANU-PF could not afford to lose power to an opposition backed by "white imperialists."
Mugabe says the MDC enjoys the backing of Western powers out to oust him over his seizure of white-owned farms to give to landless blacks. The MDC denies the charge.
Mugabe's party lost control of parliament on March 29 for the first time since it came to power, and the opposition says the former guerrilla leader can only win the June 27 re-run through violence and vote rigging.

At least 25 killed in Ethiopian land clashes

ADDIS ABABA - At least 25 people have been killed in clashes over land between rival tribes in southwestern Ethiopia over the past week, a police spokesman said Saturday.
"Some 25 people were killed in clashes that erupted over land in Benishangul, but we expect the number to rise," Demsash Hailu told AFP.
He said the fighting had stopped after police were deployed in the Oromiya and Benishangul states that lie in the country's southern region.
In 2006, some 150 people were killed in southern Ethiopia in more than a week of clashes between rival clans over land ownership following a jurisdictional re-alignment.

Pandas arrive Beijing from earthquake's epicenter for Olympics visit

BEIJING - Eight pandas reached Beijing safely Saturday after a long journey from their damaged reserve near the epicenter of the recent earthquake in China.
The pandas will spend the next six months at the Beijing Zoo on a special visit, which was planned long before the quake, for the Olympics in August.
The eight 2-year-old pandas were flown to Beijing by a special plane from Chengdu, the capital of hard-hit Sichuan province in central China.
They have been under careful watch because they seemed nervous after the earthquake, sometimes eating and sleeping less. But they appeared lively after they were put into their exhibit space at the zoo on Saturday evening, even putting their paws on the glass that separated them from the public.
“I'm not sure about the mental state of the pandas right now," Ye Mingxia of the Beijing Zoo told The Associated Press days ago. “We will have to carefully observe them after they arrive."
But Wang Pengyan, deputy head of the pandas' home - the Wolong Giant Panda Reserve - assured the state-run Xinhua News Agency that the animals were fine. “The pandas have recovered from any nervousness about the quake and are all in good condition," he said Saturday.
The reserve, in a damp mountainous area, was badly damaged in the May 12 quake.
Conditions remained so bad at the reserve that in the past week the Chinese government shipped in about 5 tons of bamboo to feed about 60 pandas there.
Two pandas have been missing since the quake.
By Saturday the quake was reported to have killed more than 60,000 people, including five staff members of the panda reserve.
The panda is a powerful symbol of China and the country engages in what is often called “panda politics" by lending out the rare animals as a goodwill gesture. Among the pandas found safe at Wolong after the quake were Tuantuan and Yuanyuan, two pandas that have been offered to Taiwan.
About 1,590 pandas live in the wild, mostly in Sichuan and the western province of Shaanxi. An additional 180 have been bred in captivity.
The Wolong reserve is part of efforts to breed giant pandas in hopes of increasing the species' chances of survival.

Zardari unveils plan to drive Musharraf from power



ISLAMABAD - The head of the party leading Pakistan's ruling coalition unveiled proposed constitutional changes on Saturday that would take away President Pervez Musharraf's powers.
"We intend to walk him away, rather than impeach him away," said Asif Ali Zardari, who succeeded his late wife Benazir Bhutto as leader of the Pakistan People's Party after her assassination last December.
Zardari said the amendments would remove the president's right to dismiss the government and pass responsibility for appointing heads of the armed services and provincial governors to the prime minister.
The proposed amendments included a bar on a president running for office for more than two terms.
The PPP has to consult its three coalition allies over the 62 proposed amendments, that could be put before parliament by the end of June.
The coalition allies defeated pro-Musharraf parties in a general election in February, and a government was sworn in at the end of March under Prime Minister Yousaf Raza Gilani, a PPP loyalist picked by Zardari.
Constitutional changes are passed through the National Assembly and Senate, and the coalition partners lack the required two-thirds majority in the combined houses.
Senate elections are due at the end of the year, and many analysts expect the struggle between Pakistan's main political parties and Musharraf, who came to power in a 1999 coup, to come to a head then.
The United States has been closely involved in Pakistan's political transition.
Some political analysts believe Washington has tried to prop up Musharraf out of fear that his sudden departure could lead to instability in the nuclear armed state and hinder the campaign to wipe out al Qaeda.
Battle lines
How to tackle U.S. ally Musharraf has already led to strains within the coalition.
Nawaz Sharif, the prime minister overthrown by Musharraf, pulled nine ministers from his party out of the cabinet two weeks ago to protest against the PPP's failure to reinstate judges Musharraf dismissed during a brief phase of emergency rule last November.
Sharif's party has maintained support for the PPP-led government without being part of it.
The legality of Musharraf's re-election last October while still army chief by the outgoing parliament was being challenged in the Supreme Court when Musharraf purged the judiciary.
Zardari said the PPP had "never accepted General Musharraf as a constitutional president" but had kept a working relationship and would consult him over the constitutional package.
Musharraf's foes have talked of impeaching him for invoking emergency rule on Nov. 3, but Zardari has been wary of provoking Musharraf while he still possesses sweeping powers.
Political uncertainty has taken its toll on investor confidence in Pakistan.
The Karachi Stock Exchange's 100-share index ended Friday more than 17 percent below the record high struck on April 21, largely because of doubts about the PPP's ability to work in harness with Sharif's Pakistan Muslim League (Nawaz).
There had been speculation that Zardari would risk splitting his own party by turning to the pro-Musharraf parties for support if Sharif's PML-N withdrew backing for the government.
On Saturday Zardari sought to dispel any doubts over who the PPP intended to work with, saying: "Once this package is tabled in the parliament, then the lines will be clearly drawn that (show) who is with who."

Nepal PM asks Maoists to form new government

KATHMANDU - Nepal's prime minister, Girija Prasad Koirala, has asked Maoist former rebels to form a new government after their election win, a minister said on Saturday, in a sign he will not impede the process.
Koirala's call to Maoist chief Prachanda to press ahead ends a month of unclear signals from Koirala's side following the former guerrillas' unexpected victory in April.
The move came after several Maoist leaders demanded the prime minister's immediate resignation to clear the way for them to form a new cabinet. He ignored the demands.
"The prime minister has urged Prachanda to initiate moves to forge the necessary political consensus to form a new government as the biggest political party in the constituent assembly," Ram Chandra Poudel, the peace and reconstruction minister, told reporters after a meeting between the two leaders.
"Prachanda will come up with a proposal now," he said. He did not give details on how the government might look.
Although Koirala has been elected into the new assembly, it is unclear what position he will hold under a Maoist-led government. Some analysts said his long post-election silence could have indicated that he was negotiating with the Maoists for a suitable role.
The former rebels do not have an absolute majority in the 601-member assembly. They are urging other political parties, including the centrist Nepali Congress headed by Koirala, to join a national coalition government headed by Prachanda.
Many have refused. They say the former rebels have not given up the violent and intimidating practices honed during their decade-long war against the monarchy, despite striking a peace deal in 2006.
The Maoists say they hope to form a new government after the first meeting of the assembly next week, but it is unclear if it will be coalition or a minority government.
That meeting is expected to declare an end to centuries of monarchy and turn Nepal into a republic, a key condition in the 2006 peace deal that ended the conflict in which more than 13,000 people were killed.
The assembly will then begin work on a new constitution for Nepal, a job which is likely to take at least two years.

France calls for new approach to Afghan aid

PARIS - French Foreign Minister Bernard Kouchner on Saturday called for a new approach to rebuilding Afghanistan, saying aid efforts since the fall of the Taliban had failed to yield enough results.
Opening a conference of some 40 non-governmental organisations, Kouchner said Afghans themselves must play a larger role in the development of their country where US and NATO troops are still fighting a Taliban insurgency in the south.
"International aid has not fully yielded fruit since 2001," when US forces and their allies drove the Taliban out of Kabul, Kouchner said.
"We must review our tools and our approach."
A trained doctor who worked in Afghanistan during the 1980s, Kouchner called for an "Afghanization of international aid to involve all Afghans and ensure it benefits every one of them."
French officials said "Afghanizing" international aid could entail giving more direct support to development programmes run by the Afghan government.
Currently, only 20 percent of the financial aid is managed by Kabul with the remainder spent by donors themselves, according to Afghan deputy national security advisor Homayoun Tandar.
"International aid must be delivered and coordinated through the government in order to have greater impact," Afghan Rural Development Minister Ehsan Zia told delegates at the one-day conference.
"The government of Afghanistan is ready to account for every dollar."
The conference in Paris set the stage for an international donors' meeting that France is hosting next month, the third such fundraising drive organised by the international community for Afghanistan in recent years.
With nearly half of the promised aid still to reach Kabul, the Afghan government is hoping to secure 50 billion dollars (31.7 billion euros) in pledges at the June 12 conference to finance a five-year development plan.
Only 15 billion dollars out of the 25 billion dollars promised in aid have been released, according to a report by ACBAR, the Agency Coordinating Body for Afghan Relief made up of 94 organisations.
And about 40 percent of that amount returns to donor nations to cover consultant fees and projects carried out by various private contractors, according to the report released in March.
Seven years after the fall of the Taliban, much of Afghanistan's population, in particular outside Kabul, remains desperately poor and aid groups complain of too much focus being placed on the military effort.
NATO has deployed a 47,000-strong force drawn from 40 countries which is fighting a Taliban insurgency alongside some 20,000 US troops and supporting the weak central government of President Hamid Karzai.

Afghanistan urges Pakistan to stop attacks

KABUL - Pakistan must not allow its soil to be used to launch attacks in Afghanistan, the government said Saturday after a Pakistani militant vowed to continue "jihad" while pursuing peace talks with Islamabad.
The statement by Pakistani Taliban warlord Baitullah Mehsud Saturday was "naked interference" in Afghanistan's affairs, defence ministry spokesman General Mohammad Zahir Azimi told AFP.
"Our hope from the Pakistan government is to prevent its soil being used against our country," Azimi said.
The new government in Islamabad launched talks with Taliban on its side of the border soon after winning elections in February amid concerns that Pakistan President Pervez Musharraf's military approach is spawning more violence.
Azimi reiterated calls by Afghan and Western leaders for a combined approach to fighting the extremism that straddles the border.
"Any agreement must be based on regional and bilateral interests," he said. "Any unilateral agreement posing threat to a second country would be against the interests of the region and the world."
Extremists in Pakistan are said to be sending fighters across the border to attack Afghan, US and NATO troops as part of a Taliban-led insurgency. The religious hardliners were themselves in power in Kabul between 1996-2001.
Mehsud told reporters in his South Waziristan tribal district near the Afghan border Saturday: "Islam does not recognise boundaries and jihad (holy war) in Afghanistan will continue."
The statement made Afghanistan "even more determined in the fight against terrorism," Azimi said.

Army out in villages in India's Rajasthan

NEW DELHI - Army troops were deployed to keep peace in villages in India's Rajasthan state Saturday, a day after 16 people died as the ethnic Gujjar community held violent protests and clashed with the police, news reports said.


The Gujjars, an ethnic group who rear livestock and earn a living by selling milk and dairy products, are demanding that they be classified as a scheduled tribe in order to qualify for government jobs and slots in educational institutions reserved for this section.
The Gujjars, who were earlier nomadic, mainly inhabit India's northern and western areas like Jammu and Kashmir, Punjab, Haryana, Rajasthan and Gujarat.
The agitating Gujjars in Bayana town and adjoining villages of Rajasthan clashed with the police on Friday, leaving 16 people, including a policeman dead, PTI news agency reported.
Bayana, in Rajasthan's Bharatpur district, is about 155 kilometres east of capital Jaipur and barely 65 kilometres west of the Uttar Pradesh tourist town of Agra, home to the Taj Mahal.
Most of the dead were Gujjar protestors who were killed when the police opened fire on a rioting mob that set two police vehicles ablaze and lynched a policeman in Karwar village near Bayana, PTI reported.
Four columns of the army, numbering about 800 troopers, had been deployed in Bayana and three adjoining villages where the situation continued to be tense, Bharatpur district official T Ravi Kant was quoted as saying.
Orders prohibiting gathering of crowds and public meetings had been promulgated in five districts of Rajasthan including Bharatpur and Jaipur.
Gujjar leaders were sitting on the road refusing to bury their dead, NDTV reported. Protestors also damaged a rail track in the area disrupting train services on the Delhi-Mumbai route.
Friday's violence comes nearly a year after protests by Gujjars in Rajasthan over quotas claimed 26 lives.
Under India's affirmative action policy, quotas have been set for government jobs and admission to educational institutions for disadvantaged sections of society and lower castes who are listed as scheduled tribes and scheduled castes.
Gujjar leaders said they would take their agitation to other areas and the protests would continue till their demand was met.
They claimed Rajasthan's ruling Bharatiya Janata Party had promised to give them scheduled tribe status before local elections in 2003.
The state government has said such a decision can only be taken by the federal government to which it had sent a recommendation.

Pakistani Taliban vows jihad in Afghanistan

KOTKAI - The leader of the Pakistani Taliban, Baitullah Mehsud, vowed on Saturday to carry on fighting NATO and U.S.-led forces in Afghanistan regardless of negotiations for a peace deal with the government of Pakistan.
The Taliban leader told a group of journalists, invited to his stronghold in the tribal lands of South Waziristan, that he wanted to stop fighting the Pakistan army.
"Fighting between the Taliban and Pakistan is harming Islam and Pakistan. This fighting should come to an end immediately," the black-bearded, short, muscular Mehsud said.
But he made no commitment about halting attacks in Afghanistan, and said the jihad, or holy war, would carry on.
"Islam does not recognise frontiers and boundaries. Jihad in Afghanistan will continue," Mehsud said, as guards carrying Kalashnikov assault rifles looked on.
Mehsud emerged as a notorious militant commander over the past year, having been linked to a string of suicide attacks, including one that killed former prime minister Benazir Bhutto last December.
After an offensive in January, the army succeeded in bottling up Mehsud's forces in the mountainous tribal lands of Waziristan, giving the government a stronger position to negotiate from.
Though led by Bhutto's party, the new government, after taking office in March, opened talks with tribal elders to persuade Mehsud to desist from launching attacks from their territory.
Pakistani authorities say tribal elders were close to finalising the peace pact with Mehsud.
Pakistan's western allies, notably the United States, harbour grave reservations about any peace deal, as such pacts in the past have resulted in the militants regrouping in the safe sanctuary of the tribal lands.
Cross-border movements
The proposed 15-point agreement, a draft of which was seen by Reuters, called for an end to militant activity, an exchange of prisoners and gradual withdrawal of troops from Waziristan.
However, it made no explicit reference to militants stopping attacks in Afghanistan. The Pakistan army says it controls all roads out of Mehsud's tribal lands, which do not border Afghanistan, so the scope for cross-border movements is limited.
Mehsud has broke a peace deal signed with the government in 2005, and last year humiliated the army by capturing some 250 soldiers, and freeing them in exchange for the release of his own men.
U.S. Deputy Secretary of State John Negroponte voiced his government's misgivings about Pakistani peace talks with the militants during a congressional hearing on Tuesday.
Mehsud said he was proud to be an enemy of the United States. He said Afghans were leading the fight against U.S.-led forces in Afghanistan, while Pakistanis and other foreigners made up only five percent of the insurgents.
Mehsud said he had never met al Qaeda leader Osama bin Laden or Taliban chief Mullah Omar.
"But, like every true Muslim, I wish to have a glimpse of these two great leaders," he added.
U.S. General David Petraeus said on Thursday that al Qaeda's leadership was inside Pakistan's tribal areas, and the next major attack on the West would probably originate from there.
Mehsud denied involvement in Bhutto's murder. The government led by Bhutto's party plans to seek a U.N investigation, but Mehsud said he would not cooperate with any such probe.
"The U.N. is a slave body. We will not work with it."

Death toll rises to 16 in caste riots in India

JAIPUR, India - The death toll from rioting by members of one of India's lowest castes jumped to 16 Saturday after they protested a government ruling on their caste status
The deaths occurred across six villages in western India hit by violence on Friday, said Rohit Kumar Singh, the Rajasthan state information commissioner.
Police fired live ammunition and tear gas after Gujjars _ who occupy one of the lowest rungs on India's complex social ladder _ beat a policeman to death and set several police vans and a railway track on fire Friday in Bharatpur district, said K.L. Berwa, a senior Rajasthan police officer.
The Gujjars are demanding to be reclassified to a lower social level so they can qualify for government jobs and university places reserved for such groups.
The troubled area is 95 miles (150 kilometers) east of Rajasthan state's capital Jaipur _ the scene of Gujjar riots nearly a year ago that left 26 people dead.
With thousands of army, police and paramilitary forces patrolling the affected villages, no fresh violence was reported Saturday.
Traffic between Jaipur and Agra, where the famous Taj Mahal monument is located, has been severely disrupted by protesters blocking the highway, affecting thousands of travelers. Authorities stopped nearly 400 tourist buses and diverted trains to Mumbai, India's financial and entertainment capital, via another route, Singh told The Associated Press on Saturday.
The protesters uprooted a one-mile (1.5-kilometer) stretch of rail track Friday, Singh said. Nearly a dozen trains were canceled.
Gujjars took to the streets after a government panel set up to look into their demands recommended a US$70 million (Ð45 million) aid package for their community, but ruled out caste reclassification.
Gujjars are considered part of the second-lowest group, known as Other Backward Classes, a step up from the Scheduled Tribes and Castes.
The Hindu caste system was outlawed soon after independence from Britain in 1947, but its influence remains powerful.

President Patil's visit to Kashmir met by strike against 'occupation'

SRINAGAR - A strike called by a pro-Pakistan separatist group to protest the Indian president's visit paralyzed life in India's portion of Kashmir on Saturday.
Separatist groups and armed militants are opposed to India's rule in Kashmir and demand its independence or merger with Pakistan, a mostly Muslim nation. Jammu-Kashmir is Hindu India's only Muslim majority state.
Most shops, businesses and schools were closed for the day Saturday amid the strike, supported by Hezb-ul-Mujahedeen, the main armed rebel group fighting Indian rule in Kashmir.
President Pratibha Patil began a five-day visit to the region Friday by meeting soldiers posted close to India's highly militarized de facto frontier with Pakistan.
“We want to convey to the Indian president that Kashmiri people are against Indian occupation of Kashmir," said Syed Ali Shah Geelani, chief of the hard-line faction of All Parties Hurriyat Conference, an umbrella group of political and religious outfits.
Soldiers tightened security by erecting checkpoints at street crossings, while police and paramilitary soldiers patrolled the area to prevent protests.
Kashmir is divided between India and Pakistan, but both claim it in entirety. The rivals have fought two wars over control of the territory since they gained independence from Britain in 1947.
More than a dozen rebel groups have been fighting Indian forces since 1989. More than 68,000 people, mostly civilians, have been killed in the conflict.

2 bombs attacks killed local police chief, 2 civilians: Pakistan police

PESHAWAR - Separate roadside bomb attacks Saturday in Pakistan's volatile northwest killed three people including a local police chief, a senior police official said.
The first bomb went off near a civilian vehicle, killing one person and wounding three others in the town of Bara about 10 miles (15 kilometers) east of Peshawar, said Ata Ullah, Peshawar's police chief.
About two hours later a bomb struck a vehicle carrying district police chief Khaista Khan in Peshawar, killing him and his driver, Ullah said. Two policemen were also wounded in the attack.
He provided no further details, saying only that police were investigating.
Peshawar is the capital of Pakistan's restive North West Frontier Province bordering Afghanistan, where pro-Taliban militants often target security forces.
The latest violence comes despite peace talks between militants and Pakistan's new government, which is headed by the party of slain former Prime Minister Benazir Bhutto.
Analysts have said that the attacks will not necessarily undermine the talks, but that they reflect the fragmented nature of the militant movement across the volatile frontier region.
It was unclear who was responsible for Saturday's Peshawar bombings.
On Wednesday authorities signed a peace deal with militants operating in Swat, a former North West Frontier tourist destination 105 miles (170 kilometers) from Peshawar.
Under the deal, the Swat militants agreed to respect the government's authority, stop suicide and bomb attacks in the future and hand over any foreign militants in their areas.
In return, the government has promised to release an unspecified number of militants detained during recent military operation in Swat and to make limited concessions on the demands of the hardline cleric, Maulana Fazlullah, for the imposition of Islamic law in the region.

Russia hails China ties, defies Western critics

BEIJING - Russian President Dmitry Medvedev on Saturday hailed ties with huge neighbour China as a key factor in global security, and said the sometimes uneasy neighbours were determined to boost cooperation even if it unnerved the West.
Medvedev, sworn in earlier this month, has inherited a country with a booming economy and international ambitions, but locked in disputes with its Western partners, which he implied were suspicious of Moscow's links with China.
His speech came a day after the two jointly condemned U.S. plans to set up Eastern European bases for a missile defence system, although Washington shrugged off the remarks.
Analysts have said that this maiden foreign trip to ex-Soviet Kazakhstan and China was intended to demonstrate that Russia had other allies to counterbalance strained relations with Europe and the United States and will pursue a balanced foreign policy.
"[Chinese President] Hu Jintao and I agreed that Russian-Chinese cooperation has become a major factor of global security, without which important decisions are impossible," he told students at the elite Peking University.
"I will say frankly not everyone likes our strategic co-operation but we understand it is in the interests of our people whether or not others like it."
Medvedev won a standing ovation for his speech, which was lavishly scattered with quotes from Chinese thinkers like Confucius and Taoist sage Laozi.
Uranium enrichment
Moscow is also annoyed by what it sees as Western attempts to contain its diplomatic ambitions and keep Russian companies out of lucrative markets. It is keen to make China a potential ally in economic as well as strategic spheres.
"Both our countries are actively preparing for a powerful leap into the future ... on the basis of equal access into the ranks of leaders of the global economic development," he said.
"Both states strive to raise the living standards of their people, make families feel confident in their future."
During Medvedev's trip a deal will be sealed for Russia to build and supply a $1 billion uranium enrichment plant in China, which may raise hackles in the West.
But the nuclear cooperation, like the apparently united front on strategic issues, masks a sometimes uneasy relationship between the two giant neighbours, who have long jostled for influence in Central Asia and further afield.
CHINA and the Soviet Union split over the leadership of the Communist world in the early 1960s and fought a series of small military border skirmishes in the late 1960s.
They restored friendly relations after the Soviet Union collapsed but some in the Kremlin are still opposed to Moscow cozying up to its increasingly powerful neighbour -- and there are some practical stumbling blocks in the road to better ties.
Although Beijing is desperate to diversify energy supplies away from oil and gas shipped in to its coast, and Moscow wants to widen the circle of buyers for its rich resources, the two have been squabbling for years over planned pipelines.
They have yet to get off the drawing board because the two sides are unable to agree prices, and as crude markets soar, a deal looks no more likely in the near future. Russian diplomats said such deals would not be on the main agenda for this visit.