International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, June 12, 2008

شاہراہ دستور کو ’’ ریڈ زون‘‘ قراردے دیاگیاہے ۔ ۔ ۔ شیری رحمن



ایوان صدر ، پارلیمنٹ ہاؤس ، سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ڈپلومیٹک انکلیوژ کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی
لانگ مارچ میں 20ہزار افراد کی شرکت متوقع ہے ، 11سے 2 بجے کے درمیان اسلام آباد پہنچیں گے
لانگ مارچ کو صرف پریڈ گراؤنڈ تک جانے کی اجازت ہو گی
لانگ مارچ فیض آباد کے مقام سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گا اور کشمیر ہائی وے سے آبپارہ چوک اور سہروردی روڈ سے ایمبیسی روڈ سے ہوتا ہوا پریڈ ایونیو تک پہنچے گا
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی پریس کانفرنس

اسلام آباد ۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمان نے کہاہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ کے موقع پر شاہراہ دستور کو ’’ ریڈ زون‘‘ قراردے دیاگیاہے۔شاہراہ دستور پر ایوان صدر ، پارلیمنٹ ہاؤس ، سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ڈپلومیٹک انکلیوژ کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ضابطہ اخلاق دونوں فریقوں کی اتفاق رائے سے طے کیاجائے گا امن وامان کا قیام دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہوگی ۔حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاء کو پانی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے کھانا فراہم کیاجائے گا لانگ مارچ کو صرف پریڈ گراؤنڈ تک جانے کی اجازت ہو گی لانگ مارچ فیض آباد کے مقام سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گا اور کشمیر ہائی وے سے آبپارہ چوک پہنچے گا ، پھر سہروردی روڈ سے ایمبیسی روڈ سے ہوتا ہوا پریڈ ایونیو تک پہنچے گا۔ پریڈ ایونیو میں اسٹیج بنا دیاگیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں حکمران اتحاد کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا وزیر اطلاعات نے کہا وزیراعظم نے اسلام آباد کے شہریوں اور غیر ملکیوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا معمول کی ٹریفک رواں دواں رہے گی لانگ مارچ کے شرکاء ٹریفک پلان پر مکمل عمل درآمد کریںگے انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سینیٹر اسحاق ڈار ، خواجہ محمد آصف ، احسن اقبال جبکہ پیپلز پارٹی کے وفاقی وزراء رحمان ملک ، راجہ پرویز اشرف ، سید خورشید شاہ ، فاروق ایچ نائیک اور انہوںنے خود شرکت کی ۔اس سے قبل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر ہارون الرشید ، راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے صدر سردار عصمت اللہ ، جنرل سیکرٹری ریاست علی اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ضابطہ اخلاق پر دستخط کئے ۔ وعدے کے مطابق لانگ مارچ کو تقویت فراہم کریںگے ۔ سہولتیں دیں گے ، عدلیہ کی آزادی کیلئے ہم نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں پیپلز پارٹی کے کارکنان شہید ہوئے ہیں پنجاب حکومت او راسلام آباد انتظامیہ نے انتظامات پر اعتماد کا اظہار کیاہے ۔روٹ اس لئے طے کیاگیا تاکہ لانگ مارچ پر امن طور پر اپنے مقررہ مقام پر پہنچ سکے ۔انہوں نے کہاکہ پریڈ گراؤنڈ میں اسٹیج کے قریب پولیس تعینات ہو گی میڈیا سنٹر بھی قائم کیا جارہا ہے میڈیکل سنٹر قائم ہوں گے اور موبائل ٹیمیں بھی ہوں گی اتفاق رائے سے ریڈ زون قائم کیا ہے سرکاری و نجی املاک اور شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا ۔ پریڈ گراؤنڈ کے مقام پر واک تھرو گیٹس لگائے جائیں گے ضابطہ اخلاق کے مطابق لانگ مارچ میں کوئی شخص اسلحہ لے کر نہیں آئے گا۔ آگ بھجانے کا عملہ بھی موقع پر موجود ہو گا لانگ مارچ اور ریلی شہر کے کسی اور حصے میں نہیں جا سکے گی ۔انہوں نے بتایا کہ لانگ مارچ کی اسلام آباد میں گیارہ سے دو بجے تک آمد متوقع ہے ۔20ہزار افراد کی آمد متوقع ہے وفاقی وزراء مانیٹرنگ رومز میں ہوں گے ہماری اطلاعات کے مطابق نواز شریف لانگ مارچ میں شامل نہیں ہوں گے حکمران اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی قدغن نہیں لگائیں گے امن وامان کو برقرار رکھنا دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہو گی عوام سے کئے گئے وعدے کو پورا کریں گے ایک سوال کے جواب میں انہو ںنے کہاکہ مالیاتی بل میں 29ججز کی تنخواہیں الاؤنسز رکھے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکیوں کو امن وامان کے حوالے سے تشویش ہے جس کی وجہ سے تین غیر ملکی بینک بند ہو گئے ہیں لانگ مارچ جمہوری حق ہے تاہم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔صدارتی ترجمان راشد قریشی سے ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ راشد قریشی نے خیر سگالی کی ملاقات کی کوئی صدر کا پیغام نہیں پہنچایا اور نہ یہ کہا کہ صدر کو اضافی کوریج دی جائے صرف راشد قریشی نے ایم ڈی سے یہ ضرور پوچھا تھا کہ صدر کی ایک پریس کانفرنس کی کوریج کم ہوئی ہے صدارتی ترجمان کو بتادیاگیا کہ اس پریس کانفرنس سے پی ٹی وی کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا صدر مملکت سمیت تمام شخصیات کو آئین کے مطابق سرکاری میڈیا سے کوریج ملے گی اس میں ابہام نہیں ہے

کچھ تو شرم کرو مشرف ، جھوٹ بولتے ہو ‘‘۔ ۔ ۔ نواز شریف





لاہور۔’’ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو شرم کرو مشرف ‘‘۔آج آزادی چوک لاہور میں وکلاء کے لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہاکہ میں سلام پیش کرتا ہوں پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو انہوں نے صدر پرویز مشرف کے حالیہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کہتا ہے کہ 60جج خود ہی گھر بیٹھ گئے ہیں ، میں کہتا ہوں کچھ تو شرم کرو مشرف جھوٹ بولتے ہو۔

پرامن جدوجہد پریقین رکھتے ہیں،حکومت لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے تصادم سے گریز کرے۔ قاضی حسین احمد





لاہور ۔ جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ حکومت چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کو بحال کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد17سے بڑھا کر29کرنے کا جو اعلان کیاگیا ہے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ پی سی اوکے تحت غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پرحلف لینے والے ججوں کو نوازا جا رہا ہے۔آج اپنے ایک بیان میں قاضی حسین احمد نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ پرامن لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور تصادم کی فضا پیداکرنے سے گریز کرے، ہم پرامن جدوجہد پریقین رکھتے ہیں ہمارا ماضی اس پرگواہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے لاہور تک لانگ مارچ کے شرکاء پرامن رہے ہیں اور اس کے بعد بھی پرامن ہی رہیں گے اپنے مطالبات کے لیے پرامن جدوجہد ہمارا حق ہے اور یہ حق پوری دنیا تسلیم کرتی ہے،ریاستی جبر کے ذریعے ہمیں ا س حق سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج ججوں کی بحالی کو ٹالنے کے لئے پیش کیاجارہا ہے۔ ورنہ وزیراعظم نے اعتماد کے ووٹ کے بعد ججوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیاتھا اگر وہ اسی وقت ججوں کی بحالی کا آرڈر جاری کردیتے تو سارا مسئلہ حل ہوجاتا اور پیچیدگیاں پیدا نہ ہوتیں، لیکن جان بوجھ کر عوامی حکومت کے دعویداروں نے کمزوری دکھائی جس سے مسائل پیدا ہوئے۔ قاضی حسین احمدنے مطالبہ کیا کہ مری ڈیکلریشن کے مطابق ججوں کی بحالی کی قرارداد پیش کی جائے اسے آئینی پیکج کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے کیونکہ سینٹ میں حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ آئینی پیکج کے ذریعے ججوں کی بحالی پر اصرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو تسلیم کرکے اسے تحفظ دیا جا رہا ہے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ ججوں کی بحالی تک جماعت اسلامی وکلا کی تحریک کا بھرپور ساتھ دے گی۔

میں یہ لکھ کر دیتا ہوں کہ اصلی جج ہر صورت بحال ہو نگے ۔نواز شریف



لاہور۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اتحادی فوجوں کا پاکستانی سرحد کے اندر حملہ پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری پر حملہ ہے کل تک پاکستان کے معصوم شہریوں کو شہید کیا جاتا تھا آج فوجی جوان بھی شہید ہونے لگے ہیں ہم اس حملہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ یہ سب مشرف کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 18 فروری سے قبل معزول ججوں کی بحالی کے لئے ایک آمر کے خلاف تحریک جاری تھی اور اٹھارہ فروری کے بعد جمہوری حکومت قائم ہونے کے باوجود ان ججوں کی بحالی کے لئے تحریک جاری ہے جو انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ اصلی جج باہر بیٹھے ہیں ۔ ہم بکنے والے اور پاکستان کی بجائے مشرف کی ذات کا حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ میں یہ لکھ کر دیتا ہوں کہ اصلی جج ہر صورت بحال ہو نگے اور جب تک یہ جج بحال نہیں ہوتے پاکستان مسلم لیگ ن وکلاء کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد جاری رکھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے 9 مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا تھا ایسا نہیں ہے کہ چیف جسٹس کو پہلے تین مزید باوردی جرنیلوں کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو استعفی دینے پر مجبور کیا جب انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر ان کے خلاف کیس پھر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا ۔ ان خیالات کا اظہار انہو ںنے گزشتہ شام وکلاء کے لانگ مارچ کی لاہور سے اسلام آباد کے لئے رخصتی کے موقع پر آزادی چوک میں وکلاء اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن ، پیپلز پارٹی کے رہنما اقبال حیدر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خاں، مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی ، علی احمد کرد، منیر اے ملک، محمود الحسن اور دیگر رہنما بھی موجود تھے ۔میاں نواز شریف نے کہا کہ میں اکثر یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ 9 مارچ کے بعد سے وکلاء اور عوام ایک ڈکٹیٹر کے خلاف معزول چیف جسٹس کی بحالی کے لئے تحریک چلا رہے تھے ۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ اٹھارہ فروری کو جب ملک میں جمہوری حکومت قائم ہو گئی آج بھی ہم معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک چلا رہے ہیں ۔ پہلے تو یہ تحریک ایک آمر کے خلاف چلائی جا رہی تھی اب یہ جج بحال کیوں نہیں کئے گئے میری سمجھ سے باہر ہے ۔ پوری قوم سراپا احتجاج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف جھوٹ بولتے ہیں کہ ان ججوں کو انہوں نے ان ساتھ ججوں کو معزول نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود حلف نہیں لیا ۔ انہو ںنے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں نے جنرل مشرف کی ذات کا حلف لینے سے انکار کیا جنہیں میں سیلوٹ کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے جوسوغات پاکستان کو دی ہے اور جن ججوں نے پاکستان کی بجائے مشرف کی ذات کا حلف اٹھایا یہ قو م کو کیا انصاف دیں گے کیا پاکستان کی قسمت میں یہی جج رہ گئے ہیں جو وردی جھک کر سیلوٹ کرتے ہیں۔ کیا ان ججوں کے سروں پر تاج رکھا جائے ، انہیں ہلال جرات دیا جائے اور پھر جب یہ جج مر جائیں تو پیسوں کے لئے بکنے والے ان ججوں کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جائے جس طرح مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے والے جرنیلو ںکو قومی پرچم میں لپیٹ کر پورے قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا تھا کیا پاکستان کی تقدیر میں یہی کچھ رہ گیا ہے ۔ آج قوم کو جھاگنا ہو گا اور طوفان بن کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ اصلی جج باہر رسوا ہو رہے ہیں اور نقلی جج عدالتوں میں بیٹھے ےیں ۔انہوں نے کہا کہ اصلی چہرے چھپے ہوئے ہیں اور نقلی چہرے سامنے ہیں جو پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی مشرف ہیں مجھے ہتھ کڑیاں لگائیں ، اسمبلی توڑی ، منتخب حکومت ختم کی اور آئین توڑا اور پھر مجھے ملک بدر بھی کیا لیکن اللہ تعالی مجھے واپس لے آیا اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جھوٹ اپنے انجام کو پہنچا ۔ جب سچ باطل کے سامنے رسوا نہیں ہو سکتا تو پھر ڈر کس بات کا ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے چند روز پہلے (میڈیاسے) اپنی مرضی کے چند بندے سامنے بٹھا کر سوال جواب کئے اس کے چہرے پرجعلی ہنسی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔ بلکہ مشرف ہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ آمریت کی باقیادت کو بھی جانا ہو گا ۔ ہمیں آمریت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنا ہے ۔ یہ کیا مذاق ہے کہ ہر دس سال بعد وردی والا آجاتا ہے اور پوری قوم کو یرغمال بنا لیتا ہے کیا ہم بھیڑ بکریاں یا مٹی کے بت ہیں یا ہم زندہ قوم نہیں ہیں کہ ہمیں اس طرح یرغمال بنایا جاتا رہے ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے کرتوتوں کی وجہ سے جو سرحد پر حملہ ہو ا پہلے تو معصوم شہریوں کی جان جاتی تھی اب اس میں فوجی جوان شہید ہوئے ہیں جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں یہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ تھا ۔ کیا ہم نے 1947 میں قربانیاں دے کر یہ دن دیکھنے کے لئے پاکستان بنایا تھا کہ جہاں فوجی حکمرانی ہو ، ڈکٹیٹر آئین توڑے ، عوام فاقو ںاور خو د کشیوں پر مجبور ہوں ، آٹا نایاب اور بے روز گاری ہو ۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا ہے ۔ آج ہر بندہ خودکشی پر مجبور ہے ، چاروں طرف بد امنی ہے ۔انہو ںنے پاکستان کا کیا حشر کردیا ہے ۔ آج قوم کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے ۔ میں چیف جسٹس اور ان ساٹھ معزول ججوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشرف کی ذات کا حلف نہیں اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر قوم کے پاس اعتزاز احسن ، علی احمد کرد، منیر اے ملک ، اقبال حیدر اور حامد خاں جیسے دس بیس رہنما اور ہوں تو پاکستان کو کبھی مشکلات کا سامنا نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کے حلقے جہاں دونوں حلقوں سے ان کی ضمانتیں ضبط ہوئیں میں نے آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ یہاں سے اعتزاز احسن کو الیکشن لڑوائیں وہ ہمارے مشترکہ امیدوار ہونگے لیکن معلوم نہیں ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے تمام امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھایا تھا آج میں یہاں موجود تمام لوگوں سے حلف لینا چاہتا ہوں کہ وہ بھی ججوں کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جس کے بعد اجتماع میں موجود تمام لوگوں نے میاں نواز شریف کے پیچھے حلف پڑھا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ جب جج بحال ہونگے تو ملک میں نا انصافی کادور ختم ہو گا ، مہنگائی اور بے روزگاری بھی ختم ہو گی اور گڈ گورننس بھی ہو گی

مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے کوئی اختلافات نہیں ہیں ۔آصف علی زرداری



کراچی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ملک میں موجود بحران اور معاشی تباہی 60سالہ ہے یہ 60یومیہ حکومت کے گلے ڈالنا درست نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کیا۔اس موقع پر ان کے ہمراہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی افہام و تفہیم سے حکومتی نظم ونسق چلائیںگے اور اس سلسلے میں میری کراچی میں شہری حکومت کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے تحت کراچی میں ایسی ترقی ہوگی جو گزشتہ 60برسوں میں نہیں ہوئی۔جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان پیپلز پارٹی نے دی ہیں اور ہمارے پاس عدلیہ اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے روڈمیپ ہے۔آصف علی زرداری نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں حالیہ معاشی و صنعتی بحران کا ذمہ دار 60یومیہ حکومت کو نہیں ٹھہرا یا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہروں میں موجود ڈاکو صرف60دنوں میں ہی پیدا نہیں ہوئے ہیں تاہم میں اسکے باوجود وزیر داخلہ کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ہر 3ماہ بعد وزارت داخلہ کی کارکردگی کی رپورٹ صحافیوں سے شئیر کریں اور اس کی بنیاد پر میڈیا انہیں تعریف یا تنقید کا نشانہ بنانے کا مکمل حق رکھتا ہے۔آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان موجود خلیج کے حوالے سے کہا کہ یہ وقتی امر ہے اور دونوں پارٹیوں میں مضبوط ورکنگ ریلیشن موجود ہے۔

میاں شہبازشریف کا قبضہ گروپوں سے سرکاری زمینیں واگزار کرانے اور انہیں سزا دینے کا اعلان



ڈیرہ غازی خان۔ وزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہاہے کہ ماضی میں قبضہ گروپوں کو بہت فرو غ ملا اور جن قبضہ گروپو ںنے بڑے بڑے پلازے اورمحلات بنائے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی .ہم ایک ایک پائی کے امین ہیں . قومی وسائل کے ضیاع کی کسی کواجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ ان وسائل پر کسی اور کا نہیں صرف عوام کاحق ہے . ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج سرکٹ ہاوس ڈیرہ غازیخان کے لان میں معززین علاقہ ، ناظمین ،مسلم لیگی عہدیداروں اور ورکرز کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر مسلم لیگ ن پنجاب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ، صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ سردار دوست محمد خان کھوسہ، صوبائی وزیر زراعت ملک احمد علی اولکھ ، ممبران قومی اسمبلی سردار سیف الدین خان کھوسہ ، مسزشہناز سلیم اور ممبر صوبائی اسمبلی سردار شیر علی گورچانی بھی موجود تھے ۔ انہوںنے جلسہ گاہ میں بچھائے جانے والے قالینوں اور نصب کیے گئے شامیانوں پر انتہائی ناپسندیدگی کااظہار کیا او رکہاکہ جہاں بھوک ، غربت اور بیماری ناچ رہی ہووہاں قالین بچھے ہوں تو یہ بہت بڑی زیادتی ہے انہوںنے ہدایت کی کہ پورے پنجاب میں اس نمود ونمائش کو بند کیا جائے اور ایسی روایات نہیں ہونی چاہئیں . میاں شہبازشریف نے کہا کہ انہوںنے اپنے دورے کا آغاز جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور دور دراز علاقے ڈیرہ غازیخان سے کیاہے کیونکہ بہاولپو ر ، ڈیرہ غازیخان ، بہاولنگر ، مظفرگڑھ ، رحیم یار خان کے لوگوں کا بھی ترقیاتی منصوبوں اور سہولتوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا لاہور ، اسلام آباد اورراولپنڈی میں رہنے والے لوگوںکا ہے .انہوں نے کہاکہ وہ اپنے قائد میاں محمد نوازشریف ، شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی بھر پور تائید سے وزیراعلی منتخب ہوئے ہیں او رشہبازشریف وزیر اعلی نہیں بلکہ آپ کا خادم اعلی ہے . انشاء اللہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے . انہوں نے کہاکہ گزشتہ آٹھ سال کے دوران ناظمین اور منتخب نمائندوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں وہ ان کاازالہ کریں گے اور اب تمام فنڈزممبران اسمبلی ،ناظمین اور منتخب نمائندوں کے لیے وقف کر دیئے گئے ہیں اور یہ فنڈز پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندوں میں برابر تقسیم کیے جائیں گے . انہوںنے کہاکہ ماضی میں عوام کے خون پسینے کی کمائی کے عوض اربوں روپے لوٹے گئے،ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ فنڈز کا صحیح استعمال ہو تاکہ آنے والی نسلیں صدیوں تک دعائیں دیں . میاں محمد شہباز شریف نے کہاکہ میں نے آج کے دورے میں غازی خان میڈیکل کالج اور میٹھے اور صاف پانی کی فراہمی کے دومیگا پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا ہے . ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اور میڈیکل کالج کیلئے جتنے بھی فنڈز درکار ہوں گے فراہم کیے جائیں گے . انہوںنے کہاکہ حکومت نے ڈیرہ غازیخان میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے 40کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبے کا آغاز کیا ہے او رمیںنے ہدایت کی ہے کہ یہ منصوبہ ایک سال کے اندر مکمل کیا جائے انہوںنے اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ ڈیرہ غازیخان میں 70سال پرانے اور بوسیدہ پانی کے پائپ بچھے ہوئے ہیں جن میں سیوریج کا گندہ پانی شامل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں . انہوںنے کہاکہ مجھے اس بات پر بھی افسوس ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ کی حالت بہت خراب ہے اور حادثات اور دیگر ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو ملتان او ر بہاولپور لے جانا پڑتا ہے . انہوںنے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں جدید سہولتوںسے آراستہ ٹراما سنٹر کے قیام کا بھی اعلان کیا. وزیراعلی نے کہاکہ ڈیرہ غازیخان پنجاب کا حصہ ہے اور سرداروں اورجنگجوؤں کاعلاقہ ہے لیکن بہت پسماندہ ہے یہاں تعلیم اور علاج معالجہ کے مواقع میسر نہیں اور سنگلاخ پہاڑوں پر رہنے والے دلیر جنگجوؤں کو ترقی کے مواقع حاصل نہیں . انہی وجوہات کی بناء پر وہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی دعوت پر وزیراعلی بننے کے بعد سب سے پہلے ڈیرہ غازیخان کے دورے پرآئے ہیں . انہوںنے کہاکہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ مسلم لیگ کی شان ہیں اوراس بہادر سردار نے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران جدوجہد کے ذریعے مسلم لیگ کیلئے جو قربانیاں دی ہیں وہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں . انہوں نے شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران مسلم لیگ کے علم کو بلند رکھا . وزیر اعلی پنجا ب نے چوٹی زیریں میں بوائز ڈگری کالج اور پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ ڈیرہ غازیخان کی خالی زمین پر خواتین کیلئے پارک قائم کرنے کا اعلان کیااورانتظامیہ کو حکم دیا کہ 48گھنٹے کے اندرقبضہ گروپوں سے جگہ کا قبضہ حاصل کر کے پارک کی تعمیر شروع کی جائے . انہوں نے کہاکہ دریائے سندھ کے کٹاو کو روکنے اور آبپاشی کے منصوبوںکیلئے فنڈز فراہم کیے جائیں گے او راین ایچ اے کے تعاون سے ڈیرہ تا ملتان دو رویہ سڑک تعمیر کی جائے گی . میاں محمدشہباز شریف نے کہاکہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ شوریہ کینال پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے متعدد ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں لیکن بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے وہ ٹیوب ویل چالو نہیں ہو سکے انہوںنے حکم دیاکہ ۴۸ گھنٹے کے اندر جنریٹر خرید کر یہ ٹیوب ویل چالو کیے جائیں تاکہ شہریوں کو صاف پانی فراہم ہو سکے .

منزل اب دور نہیں ، وکلاء ثابت قدم رہیں ، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری



لاہور ۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے کے آغاز پر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ وکیلوں کا ساتھ دیں کیونکہ ان کے بقول وکیل قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔وہ لاہور ہائی کورٹ میں وکیلوں کے ایک ایسے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے جن میں لاہورکے علاوہ ملتان سے آنے والی لانگ مارچ کے شرکاء بھی شریک ہوئے۔اس اجتماع میں چیف جسٹس سمیت سترہ معزول جج، سپریم کورٹ کے آٹھ ریٹائرڈ جج اور ملک بھر سے آئے وکلاء نمائندوں نے شرکت کی۔ افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وکلاء نے 9 مارچ سے جو انقلاب برپا کرنا شروع کیا ہے اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ان سے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ سے ہی جمہوریت آگے بڑھے گی۔ انہوں نے وکلاء کو کہا ہے کہ ان کی منزل بہت دور نہیں، بہت قریب ہے وہ ثابت قدم رہیں اور کسی رکاوٹ سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔انہوں نے وکلاء کو ہدایت کی وہ ڈسپلن برقرار رکھیں۔ معزول چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء سے قوم کی محبت دوگنی سے چوگنی ہوگئی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ نیا سبق سکھایا ہے کہ ان کی بقا آئین اور قانون میں ہے۔ انہوں نے کہا آئین کی بالادستی ہوگی تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔انہوں نے کہا وکلاء نے آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے اس تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔پندرہ ماہ سے انہوں نے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ رکھے ہیں اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا ہے۔’اگر وکلاء یہ قربانی نہ دیتے تو یہ دن دیکھنے کو نصیب نہیں ہوتا۔ وکلاء کی قربانی کی وجہ سے قوم میں بیداری آئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا کہ وکیلوں کی تحریک صرف ججوں کی بحالی پر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ہم ریاست کا مزاج اور سوچ بدلیں گے اور پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ہائی کورٹ کے معزول جسٹس خواجہ شریف خطاب کے لیے آئے تو فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ انہیں پارلیمان سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر نے کہا کہ وہ روات سے اسلام آباد مڑ جانے کے فیصلے کو نہیں مانتے۔انہوں نے کہا کہ اس کی بجائے وکلاء راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے ہوتے ہوئے فوجیوں کی رہائش گاہوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے اسلام آباد جائیں گے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمودالحسن نے کہا کہ صدر مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے اور جس جج نے ان کے اقدامات کی توثیق کی انہیں بھی یہی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے آئینی پیکج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پی سی او ججوں کو بحال رکھنا ہے جو وکلاء کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ اسی ایسوسی ایشن کے ایک دوسرے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اراکین پارلیمان کو ان کے حلف کی اہمیت یاد دلانے کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء برادری نے اس طرح کا انقلاب برپا کیا ہے کہ اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے اور مجھے امید ہیں کہ آپ اس میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے پاکستانی میڈیا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے وکلاء نے 16 کروڑ عوام کو بیدار کیا اور اس وکلاء کی تحریک میں میڈیا کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے بعض اداروں نے مالی مشکلات کے باوجود وکلاء تحریک کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ بار کے صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا وکلائ[L:4 R:4] پاکستان کی تاریخ بدلنے نکلے ہیں اور صدر مشرف اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے فرانس کی ملکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اس نے کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ اسی طرح صدر مشرف بھی کہتے ہیں کہ اگر دال نہیں ملتی تو مرغی کھاؤ۔

صوبوں کو ان کا حق صرف این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔وزیر خزانہ سید نوید قمر



اسلام آباد ۔ وفاقی وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران میکرو اکنامک استحکام لانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ آئندہ بجٹ میں غریبوں کو ریلیف ا ور امیروں کے زیر استعمال پر تعیش اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے اس امر کا اظہار انہوں نے آج یہاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو عبداللہ یوسف ‘ سیکرٹری وزرات خزانہ فرخ قیوم اور وزارت خزانہ کے اقتصادی امور کے مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان اور دیگر اعلی افسران بھی موجود تھے۔ اس موقع پر خطا ب کرتے ہوئے وزیر خزانہ سید نوید قمر نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران حکومتی اخراجات کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور ریونیو میں اضافے کے ذریعے میکرو اکنامک استحکام لانا ایک چیلنج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہم نے ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے زراعت ا ور صنعت پر حکومتی توجہ دی ہے ۔ اس کے لیے نجی شعبے کو آگے لایا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور افراط زر کو قابو میں لا کر ہی ہم مالیاتی خسارے کو قابو کر سکتے ہیں ۔ تاکہ ہماری معیشت دباؤ سے نکل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ میکرو اکنامک استحکام کے لیے معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے کو ریلیف دیں گے جس کے لیے ہم نے ابتدائی طورپ ر 34 ارب روپے مالیت سے بے نظیر کارڈ سکیم کا اجرا کر رہے ہیں ۔ ابتدائی طور پر اس کارڈ کے ذریعے ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے 30 لاکھ گھرانوں کو ریلیف دیا جائے گا تاہم بعد میں اس فنڈ کو 50 ارب تک بڑھا دیا جائے گا۔ اور پچاس لاکھ گھرانوں کو ریلیف دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیت المال اور زکوہ کے نظام میں خامیوں کے باعث ہی بے نظیر کارڈ سکیم شروع کی ہے جس کے ذریعے نادرا کے ڈیٹا کے مطابق بلا تخصیص غریب طبقے کو ریلیف دیں گے۔ ان کارڈوں کو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ا ور بنکوں اور ڈاکخانوں کے ذریعے نقد رقم دی جائے گی اس حوالے سے تمام رکاوٹوں کو بھی ختم کیا جائے گا تاکہ غریب شخص آسانی سے بنک سے رقم نکلوا سکے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواؤں میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ جو بنیادی تنخواہ کے ساتھ ساتھ الاؤنسز کی بنیاد پر اضافہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری معیشت کو محصولات کی اشد ضرورت ہے ۔ آئندہ مالی سال کے لیے 12 کھرب 51 ارب روپے کا حدف مقرر کیا ہے ۔ جس کو حاصل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب ہم نئے شعبوں میں ٹیکس عائد کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ایف بی آر کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جائے گا۔ جبکہ افراط زر میں اضافے سے بھی محصولا ت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے روٹی ‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کے تحت غریبوں کو ریلیف دے رہے ہیں جبکہ امیروں کے زیر استعمال پرتعیش اشیاء پر ٹیکس لگا رہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کی شرح 15 سے 16 کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کہیں سے تو محصولات حاصل کرنے تھے اس کے لیے یاتو ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑتا تھا۔ یا پھر قرضے لینا پڑتے تھے مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ٹیکس میں اضافہ کرکے محصولات حاصل کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک ایکس چینج پر کیپٹیل گین ٹیکس لگانے کا فیصلہ اس لیے موخر کیا گیا کہ اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لائی جا رہی ہے اس کے لیے وزیراعظم سیکرٹریٹ نے رضا کارانہ اپنے اخراجات میں کمی لائی ہے انہوں نے کہا کہ ایوان صدر ‘ سپریم کورٹ ا لیکشن کمیشن اور وزیراعظم سیکرٹریٹ اپنا بجٹ مقرر بناتے ہین اس لیے ہم اس میں کمی یا بیشی نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نیب کو ایک غیر ضروری اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا ادارہ تصور کرتے ہیں۔ اس لیے اس کو مستقبل قریب میں ختم کردیا جائے گا۔ تاہم ابتدا کے طور پر اس کے بجٹ میں کمی لائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری نیب کے ذریعے نہیں بلکہ آڈٹ کے ذریعے ہی ہوا کرے گی ۔ چھوٹے چھوٹے قرضوں پر سود کی زیادہ شرح کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کو ختم کرنے کے لیے مائیکرو فنانسنگ انسٹیٹیوشن کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران حکومتی کارکردگی کے بارے میں جاری اعداد و شمار پر دستخط میں نے اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کئے ہیں اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں ۔ اگر کسی پر یہ ثابت ہوا کہ غلط اعدادو شمار غلط پیش کئے گئے ہیں تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ججوں کی تعداد 16 سے 29 کرنے پر انہوںنے کہا کہ وزارت خزانہ کاکام صرف ان ججوں کی تنخواہ اور فنانسنگ تھی تاہم باقی طریقہ کار طے کرنا دیگر وزارتوں کاکام ہے اور فنانس بل میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کو اعتماد میں لیاگیاتھا ۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری اور کارپوریشنوں کا فاضل پیسہ کمرشل بینکوں کے پاس پڑا رہتا ہے مگر اب اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے کہ یہ سرکاری پیسہ جو ان بینکوں میں پڑا رہتا ہے وہ اسٹیٹ بینک کے پاس چلا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ چھوٹے صوبوںکو زیادہ سے زیادہ فنڈز دئیے جائیں کیونکہ ہم صوبوں کی مضبوطی اور ان کی خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پراپرٹی ٹیکس صرف شہری علاقوںمیں بلڈرز پر عائد ہو گا تاہم ذاتی زمین فروخت کرنا اور دیہی علاقوں میںزمینیں کی خرید وفروخت پر اطلاق نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری کی پالیسی ہماری حکومت نے شروع کی تھی جس کو شفاف بنیادوں پر جاری رکھا جائے گا اور آئندہ مالی سال کے دوران نجکاری کا جامع پروگرام بجٹ کے معاملات ختم ہونے کے بعد تیار کر لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ جس کا ہدف 4.7 فیصد مقرر کیا گیاہے ۔اس کو پورا کرنے کے لیے غیر روایتی طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ جو نجکاری کے ساتھ ساتھ ملکی و عیر ملکی سطح پر بانڈز کے اجراء کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔

کشمیری عوام آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے ‘ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام خود کریں گے ‘ محمد یاسین ملک



اسلام آباد۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ کشمیری عوام آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے ۔ آزادی کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔ کشمیریوں کے سینے پر کھینچی خونی لکیر مٹ جائے گی کشمیرکے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام خود کریں گے ۔ کشمیریوں کو الگ رکھ کر کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کو کسی طور قابل قبول نہیں ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روزدیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے انہوں نے کہا کہ کشمیری تھکے ہیں نہ ہی ان کے عزم و حوصلے میں کسی طرح کی کوئی کمی آئی ہے ۔ سفر آزادی مہم کے دوران ہم نے کشمیری قوم کو پرعزم دیکھا ہے ۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی ایک عوامی تحریک ہے جس کے اندر کشمیر کے بزرگ جوان مرد و خواتین شامل ہیں ۔ یہ تحریک ختم ہونے والی ہے نہ ہی بھارتی مذموم حربے اسے سردخانے کی نذر کر سکتے ہیں یاسین ملک نے کہا کہ پیس پراسیس سے کشمیریوں کو بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن بھارت کے رویئے کی وجہ سے پیس پراسیس سے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ۔ بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مظالم میں اضافہ ہوا ہے نہتے کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ بھارتی فوج کی بربریت کی زندہ مثال مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں گمنام قبروں کی دریافت ہے ۔ گمنام قبروں کے انکشاف کے بعد بھارت کا اصلی چہرہ کھل کر عوام کے سامنے آ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا خطہ فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ ہر گاؤں اور قصبے میں بھارتی فوج کے کیمپ موجود ہیں ۔ کریک ڈاؤن اور گھروں کی تلاشیاں روز کا معمول ہے بھارتی فوج جسے چاہتی ہے اسے گرفتار کر لیتی ہے ۔ جگہ جگہ عام شہریوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے ۔ نہتے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ۔ آزادی سے لوگ مساجد میں نماز تک نہیں پڑھ سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سوچ رہے تھے کہ پیس پراسیس کے شروع ہونے سے بھارت مقبوضہ کشمیر سے فوج کا انخلاء شروع کر دے گا۔ مظالم ختم کئے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ فوج کا انخلاء کیا گیا نہ ہی انسانی حقوق کی پامالیوں میں کوئی کمی آئی ہے ۔ ظلم و جبر کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ نہتے اور معصوم کشمیری شہید اور عفت ماب خواتین کی عزت و عصمت تار تار کی جا رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں یاسین ملک نے کہا کہ پاکستانی عوام کی کشمیریوں سے غیر مشروط محبت ہے ۔ یہ محبت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔ کشمیرو پاکستان کے درمیان محبت کا یہ رشتہ قائم و دائم رہے گا ۔ پاکستان کے بزرگ نوجوان مرد و خواتین او ربچے ٹوٹ کر کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں ۔ پاکستان نے کشمیریوں کی ہر مرحلے پر اخلاقی سیاسی سفارتی مدد کی ہے جسے ہم فراموش نہیں کر سکتے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین نے کہا کہ تحریک آزاری جاری ہے اور منزل کے حصول تک ہر حال مین جاری رہے گی ۔ آزادی کے لئے دی جانے والی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ سفر آزادی مہم کے دوران عوام کا جوش و خروش قابل دید تھا ۔ اس سفر آزادی میں مرد اور خواتین سب شریک تھے ۔ سفر آزادی میں شریک زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جن کے بیٹے اور بھائی تحریک آزادی میں شہید ہو چکے ہیں یہ سب لوگ کشمیر کو آزاد ہونا دیکھنا چاہتے ہیں کشمیری عوام چاہتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں نے اپنا خون پیش کیا ہے اس مقصد یعنی آزادی کو ہر حال میں حاصل کیا جائے ۔ یاسین ملک نے کہا کہ سفر آزادی کامیاب رہا ہے ۔ کشمیری عوام نے سفر آزادی میں بھرپور شرکت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سفر آزادی کو بین الاقوامی سطح پر چلانے کا پروگرام رکھتے ہیں ۔ تاکہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر کے حالات سے آگاہ کر سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری قوم تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرے اتحاد و یکجہتی سے ہی بھارت کا غاصبانہ قبضہ ختم کرایا جا سکتا ہے ۔ ایک بڑے کاز کے لئے ہمیں چھوٹے چھوٹے اختلافات نظر انداز کر کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہو گا ۔

ایٹمی پروگرام جاری رہے گا ، ایران کااعلان



تہران ۔ ایران نے اعلان کیاہے کہ اسکا ایٹمی پروگرام جاری رہے گا۔ امریکی صدر بش اور یورپی یونین کی سخت دھمکیوں کے بعد قومی ٹیلی ویژن پرخطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا کہ اللہ کی مدد سے وہ آج کامیاب ہوئے ہیں اور دشمن طاقتوں کو شکست کاسامنا کرنا پڑ رہاہے اور بش دور ختم ہو گیا ۔پر امن ایٹمی پروگرام یا کسی دوسرے ملک کے دباؤ میں نہیں آئیں گے ۔ دوسری طرف جرمنی پہنچنے پر امریکی صدر بش نے جرمن حکام پر ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ صدر بش نے جرمنی پر زور دیا کہ وہ ایران سے اپنے اقتصادی تعلقات ختم کرے ۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے ملاقات میں صدر بش نے مشرق وسطیٰ ، افغانستان ، جی ایٹ کے اجلاس اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر گفتگو کی ۔ انہوں نے جرمن چانسلر کو بتایا کہ سلامتی کونسل کی طرف سے ایران پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں ۔مگر اب بھی ایران کی مشکوک ایٹمی سرگرمیاں جاری ہیں ۔ اس صورتحال میں جرمنی کو ایران سے اپنے کاروباری تعلقات ختم کر دینے چاہئیں ۔ انہوں نے کہاکہ وہ ایران کے مسئلے کا پر امن حل چاہتے ہیں لیکن انکے سامنے دوسرے آپشن بھی موجود ہیں

امریکی نوجوانوں میں کنوار اپن برقرار رکھنے کا نیا عزم

واشنگٹن ۔ آزاد جنسی زندگی کو نعمت سمجھنے والے امریکی نوجوان باالاخر اس کی تباہ کاریوں کے بھیانک انجام کو دیکھتے ہوئے اب کسی کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرنے تک اپنی دوشیزگی اور کنوار پن کو بچائے رکھنے کا عہد کر رہے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک کے رینڈ کارپوریشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنے ایک حالیہ سروے کی بنیاد پر کہا کہ حالانکہ امریکہ میں اپنی دوشیزگی کو بچائے رکھنے کا عہد کرنے کا سلسلہ 1993ء میں بیپٹسٹ کنونشن میں شروع ہوا تھا جس کی تبلیغ اب دنیا بھر میں سینکڑوں گر جا گھروں، اسکولوں اور کالجوں سے کی جا رہی ہے تاہم اس کے موثر ہونے کے متعلق متضاد ثبوت ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن نوجوانوں نے دو شیزگی اور کنوارپن برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے، ان میں سے 24فیصد نے خود کو جنسی فعل سے دور رکھا ۔ ان کے برخلاف اس طرح کا عہد کرنے والے 42فیصد نوجوانوں نے جنسی عمل کو برا نہیں سمجھا۔ رینڈ کار پوریشن نے اپنی تحیقیق میں مختلف مذہبی نظریات کے حامل افراد، والدین کی نگرانی اور دوستوں کی صحبت کو بھی سامنے رکھا ۔ اس تحقیقی ٹیم کی قیادت کرنے والے ماہر نفسیات اسٹیون مارٹینو نے کہا کہ شادی ہونے تک اپنی دوشیزگی کو برقرار رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ ایسا کرنے والے خود کو جنسی طور پر سر گرم ہونے سے دیگر تک روکے رکھ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس طرح کا عہد کرنے سے انہیں ایک طرف تو ذاتی خوشی محسوس ہوتی ہے ، دوسری طرف انہیں سماجی تائید بھی ملتی ہے۔ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اندازاً 23فیصد عورتوں اور 16فیصد مردوں نے دو شیزگی اور کنوار پن کو برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے ۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں ہائی اسکول میں پڑھنے والے 48فیصد کا کہنا ہے کہ وہ جنسی تجربے سے گزر چکے ہیں ۔

لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے پر انسانوں کاسمندر بن جائے گا ۔افتخار محمد چوہدری



عدلیہ کی آزادی کے بغیر انصاف کا حصول اور ترقی ناممکن ہے ، انصاف کا حصول ہر شہری کا حق ہے جو اسے بلا امتیاز ملنا چاہیے ، لانگ مارچ کے تاریخی استقبال سے ثابت ہوا کہ عوام تحریک کے ساتھ ہیں ، ٩ کا ہندسہ اب ملک کی تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل کر چکاہے ، ١٥ ماہ سے وکلاء سول سوسائٹی اور میڈیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے پر انسانوں کاسمندر بن جائے گا ۔ آئندہ نسلیں اس تحریک کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گی ۔
ملتان : معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاہے کہ انصاف کا حصول ہر شہری کا حق ہے جو اسے بلا امتیاز اور بلا تاخیر ملناچاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو ۔ انہوںنے کہا کہ اس مقصد کے لیے وکلاء کی تحریک انشاء اللہ کامیاب ہو گی۔ ملتان ہائی کورٹ بارسے خطاب کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ وہ اپنے اوروکلاء تحریک کے لانگ مارچ کے شرکاء کے تاریخی اور شانداراستقبال پرملتان کے شہریوں کے شکر گزارہیں ۔ معزول چیف جسٹس نے کہا کہ اس بلا کی گرمی میں ملتان کے شہریوں نے آزاد عدلیہ اور ججوں کی بحالی کی تحریک کے لانگ مارچ کا استقبال کر کے ثابت کردیاہے کہ وہ جان و دل سے اس تحریک کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ساری قوم 9 مارچ 2007 ء سے اسی طرح کی تقریبات منعقد کر رہی ہے اور 9 کا ہندسہ اب اس ملک کی تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل کر چکاہے ۔ 9 اپریل 2008 ء کو کراچی میں انتہائی تکلیف دہ سانحہ رونما ہوا اور 9 جون کو پاکستان بار کونسل کے ممبر رشید رضوی اور دیگر وکلاء رہنماوں کی رہنمائی میں اہم فیصلہ ہوا۔ جو پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 15 ماہ سے وکلاء سول سوسائٹی اور میڈیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اس دوران بہت سی منازل کامیابی سے حاصل کی جاچکی ہیں ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے انسانوں کا ایک سمندر بن جائے گا اور مقاصد کے حصول میں اس سے مدد ملے گی۔ انہوںنے کہاکہ آئندہ کی نسلیں اس لانگ مارچ کے شرکاء کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ معزول چیف جسٹس نے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے حیدر آباد سے اپنے ایک چار ماہ اور دو سال کے بچے کو ساتھ لے کر ایک خاتون آئی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتاہے کہ پاکستان کے عوام کو عدلیہ کی آزادی سے کتنا لگاؤ ہے انہوں نے کہا کہ وہ اس خاتون کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ آئین کی دفعہ 184 کی ذیلی دفعہ 3 کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے عام آدمی کو انصاف فراہم کیا جائے ۔ اس سے پہلے کی تاریخ میں کئی اہم سوموٹو کارروائیاں کی گئیں جن سے عوام کو فائدہ پہنچا اورایسے قوانین بنائے گئے کہ جن سے بھٹہ مزدور بھی فیض یاب ہوئے ۔ انہوںنے شجاع آباد کے ایک گاؤں میں گردہ کیس کا حوالہ بھی دیا۔ جس کے نتیجے میں گردے کی ناجائز خرید و فروخت کے قبیح دھندے کاازالہ ہوا۔ انہوں نے بے شمار از خود نوٹسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی کی تحریک کو اسی وجہ سے عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔ انہوںنے وکلاء سے کہا کہ وہ عام آدمی کو انصاف کے حصول میں نہ صرف مدد دیں بلکہ اسے یقینی بنائیں ۔ کیونکہ ایک عام آدمی اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ روایتی طریقے سے انصاف حاصل کر سکے۔ معزول چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ اگر آزاد ہو تو ملک ترقی کرتا ہے۔ اور عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انصاف پر چھوٹے بڑے شہری کا حق ہے اور وکلاء کا فرض ہے کہ وہ انہیں یہ حق دلانے میں اپنا کردار بطریق احسن کریں ۔

مہمند ایجنسی کے سرحدی علاقے پراتحادی طیاروں کی بمباری ، میجر سمیت ١٣ اہلکار شہید ہو گئے



مہمند ایجنسی ۔ مہمند ایجنسی کے سرحدی علاقے میں چوپاڑہ سیکورٹی پوسٹ پر افغانستان کی جانب سے اتحادی طیاروں نے بمباری کی جس سے گولہ باری کے بعد علاقے سے ایک میجر سمیت ١٣ اہلکاروں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں ذرائع کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب سرحدی چوکی پر افغانستان کے علاقے سے اتحادی فوجوںنے گولہ باری کی اور دولڑا کا طیاروں سے بمباری بھی کی جس کے نتیجے میں ١٣ سیکورٹی اہلکار جاں بحق ہو گئے جن میں میجر اکبر بھی شامل ہیں اس سے قبل بھی اس علاقے میں افغانستان کی جانب سے گولہ باری کی جاتی رہی ہے جاں بحق ہونے والوں کی لاشیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے غلزئی منتقل کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٤٠ اہلکار تاحال لاپتہ ہیں نہیںتلاش کیا جارہا ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اتحادی طیارے وقفے وقفے سے علاقے پر پرواز میں کر رہے ہیں۔
۔۔۔تفصیلی خبر۔۔۔۔۔
مہمند ایجنسی میں نیٹو و افغان فورسز کا حملہ ‘ امریکی طیاروں کی بمباری ‘ ایف سی کے میجر سمیت ١٣ اہلکار شہید ‘ ٤٠ لاپتہ
حملے میں 7 قبائلی اور 8 طالبان بھی جاں بحق ہوئے ‘ کئی اہلکار ‘ قبائلی اور طالبان زخمی ‘ لاپتہ اہلکاروں کی ہلاکت کا خدشہ
تحریک طالبان کا اتحادی فوجی ہیلی کاپٹر مار گرانے اور 7 افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو اغواء کرنے کا دعویٰ ‘ افغان صوبہ کنٹر میں 20 اتحادی فوجی ہلاک

سرحد پار جھڑپ میں ان کا کوئی جانی نقصان نہیں ، دوسری طرف ہلاکتوں کے بارے میں علم نہیں ، ترجمان ایساف
مہمند ایجنسی ۔ مہمند ایجنسی میں پاک افغان سرحد کے پہاڑی علاقے پر اتحادی فوج کے قبضے کے بعد شروع ہونے والے تنازعہ کے نتیجے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں اور شہری آ بادی پر امریکی طیاروں کی بمباری اور نیٹو افغان فورسز کے حملے کے نتیجے میں ایف سی کے ایک میجر اور 13 اہلکاروں سمیت کئی قبائلی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں جبکہ 40 اہلکار لاپتہ ہیں جن کی ہلاکت کا خدشہ ہے افغان صوبہ کنٹر میں 20 اتحادی فوجی ہلاک کر دیئے گئے ہیں ادھر تحریک طالبان نے ایک اتحادی فوجی ہیلی کاپٹر مار گرانے اور 7 افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو اغواء کرنے کا دعویٰ کیا ہے میجر اکبر سمیت 13 اہلکاروں کی لاشیں صدر مقام غلنٹی پہنچا دی گئی ہیں سرکاری ذرائع اور عینی شاہدین کے مطابق منگل کی رات نیٹو اور افغان فورسز کے سرحدی علاقے چوپاڑہ پر حملہ کیا جبکہ امریکی جنگی طیاروں سے چوپاڑہ اور گورہ پانٹرہ پر بمباری کی گئی چوپاڑہ پر نیٹو و افغان فورسز نے خود کار اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا اور آرٹلری شیل بھی فائر کئے گئے۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی ۔ نیٹو و افغان فوج کے حملے اور امریکی طیاروں کی بمباری میں ایف سی کے میجر اکبر سمیت 13 اہلکار شہید ہوگئے ۔ ذرائع کے مطابق چوپاڑہ کے قریبی علاقے گورہ پانٹرہ میںبھی 50 سیکیورٹی اہلکار تعینات تھے حملے کے بعد ان میں سے صرف 10 اہلکاروں سے رابطہ ممکن ہو سکا جبکہ باقی 40 لاپتہ ہیں جن کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ صوبہ کنڑ میں 20 اتحادی فوجی ہلاک کر دئیے گئے ہیں ۔ ادھر تحریک طالبان نے اتحادی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرانے اور 7 افغان سیکیورٹی فورسز کو اغواء کرنے کا دعویٰ کیاہے ۔ نیٹو و افغان فورسز کے حملے میں 8 طالبان جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے ہیں ادھر افغانستان میں کثیرالاقومی فوج ایساف کے ترجمان بریگیڈئر جنرل کارلوس برانکو نے بتایا کہ ان کی افواج پر سرحد پار سے فائرنگ کی گئی تھی جس کے جواب میں انہوں نے بھی فائرنگ کی۔ انہوں نے کہا کہ اس جھڑپ میں ان کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ انہیں دوسری طرف ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ طالبان تحریک کے ترجمان مولوی عمر نے واقع کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ منگل کی شام افغان اور نیٹو فورسز نے پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر 60 سے زائد طالبان نے ان پر حملہ کر دیا۔ مولوی عمر نے دعویٰ کیا کہ حملے کے بعد نیٹو فورسز نے فضائی مدد طلب کی جس نے پاکستانی علاقے میں موجود طالبان جنگجوؤں پر بمباری کی۔ اس بمباری کی زد میں ایک پاکستانی چیک پوسٹ بھی آ گئی اور ایک میجر سمیت پاکستانی اہلکار شہید ہو گئے۔ بمباری میں آٹھ طالبان جنگجو بھی شہید اور نو زخمی ہو گئے۔

قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔پہلا حصہ



اسلام آباد ۔ قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2008-09ء کیلئے 2010 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے ،جو گزشتہ مالی سال کے بجٹ کی نسبت تقریباً 3فیصد زیادہ ہے ۔نئے مال سال کے بجٹ میں 1493.2ارب روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ جبکہ 549.7ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ اور ایف بی آر کا ہدف 1295ارب روپے مقرر کیا گیا ہے نئے بجٹ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی آسامیاں 16 سے بڑھا کر 29 کرنے، انتہائی غریب طبقے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اجراؤفاقی حکومت کے تمام ملازمین کی بنیادی تنخواہ اور پنشن میں 20 فیصد اضافہ، کم سے کم پینشن 2000 روپے کرنے ،اقتصادی استحکام کی بحالی، مالیاتی خسارے میں نمایاں کمی، سبسڈیز کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے، کمزور طبقوں کے تحفظ و آمدن میں اضافے، زراعت اور مینوفیکچرنگ کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کو بجٹ کے بنیادی اہداف قرار دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا گیا ہے کہ آئندہ بجٹ معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گا اور اس سے مقامی و بیرونی سرمایہ کاری میں قابل قدر اضافہ ہو گا اور یہ اقتصادی استحکام، سماجی انصاف اور معاشرے کے تمام طبقوں کی خوشحالی کے ایک نئے دور کا نقیب ہو گا۔ وفاقی وزیر خزانہ سید نوید قمر نے بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ورثے میں ملنے والی معیشت 11 ستمبر2001ء کے واقعات سے پیدا ہونے والے حالات پر قائم تھی۔ معاشی ترقی ہوئی مگر وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ مغرب سے سرمائے کی ایک بڑی مقدار نکال کر ترقی پذیر ممالک کو منتقل کی گئی، مالیاتی منتقلیوںکے غیر رسمی چینلز بند کر دیے گئے جس کے نتیجے میں بنکاری کے معمول کے چینلز کے ذریعے ترسیلات کا بہت بڑا بہاؤ آیا۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے حلیفوں سے قابلِ ذکر امداد حاصل ہوئی۔غیر ملکی سرمائے کے بہاؤ میں قابلِ ذکر اضافے سے ملک کو ذرِمبادلہ کے زخائر کے ساتھ ساتھ درآمدات کے لیے زیادہ طلبکی بلند سطح قائم رکھنے میں مدد ملی۔ معیشت کے حجم میں نمایاں اضافہ ہوا اور بلند شرحِ نمو حاصل ہوئی۔ تاہم زیادہ تر شرحِ نمو کاروں، ٹی وی سیٹ، ریفریجریٹرز، ائرکنڈیشنرز، اور موبائل فون وغیرہ جیسی اشیاء کے استعمال میں اضافے کی صورت میں ہوئی۔ دیرپا بنیادوں پر بلند شرحِ نمو میں مدد دینے کے لیے صنعت، بنیادی ڈھانچے اور زراعت میں اِس تناسب سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ ترقی اور لازم انفراسٹرکچر کے درمیان اِس فرق کی عکاسی اِس حقیقت سے ہوتی ہے کہ ہمارے پاس اِس طرح کی دیرپا اشیاء کے استعمال کے لیے بجلی ہی نہیں ہے۔ اِسی طرح موٹر کاروں میں اضافے کے مطابق شہری سڑکوں میں توسیع نہیں کی گئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 9مارچ 2007ء کو عدالتی بحران شروع ہونے کے بعدملک کو کئی صدموںکا سامنا کرنا پڑا، جس سے ترقی کی کمزور بنیاد سامنے آ گئی، اس کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بڑے پیمانے پر خوراک کی قِلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اِن بحرانوں کے باوجود حکومت بے عملی کا شکار رہی اور اِن چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درکار تکلیف دہ فیصلوں میں سیاسی مصلحت کی بنا پر تاخیر کی۔ موجودہ بجٹ نے اِن بحرانوں سے منسلک تمام خرابیوںکا سامنا کیا ہے۔ یہ خرابیاں اِس قدر ہیں کہ اِن سے گذشتہ 4برسوں کے دوران معیشت کو حاصل ہونے والے ثمرات ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دورانِ سال پیش آنے والے غیر موافق واقعات پر ایک فوری نظر ڈالنے سے ہمیں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔2007-08ء میںمعیشت گذشتہ سال کے 7.2 فیصدکے ہدف اور 6.8 فیصد کی حقیقی شرحِ نمو کے مقابلے میں 5.8 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ اور زراعت دونوں شعبوں میں ہدف سے کم بالترتیب 5.4 فیصد اور 1.5 فیصد ترقی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ افراطِ زرکی شرح گذشتہ سال کی 7.8 فیصد کے مقابلے میں 11 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مربوط کوششوں کے باوجود رواں سال کے لیے بجٹ خسارے کا تخمینہ GDP کے 4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مالی رعایتوں کی مد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جو بڑی حد تک اِس بھاری خسارے کا سبب بنا۔407 ارب روپے کی اِن رعایتوں میں پٹرولیم کے لیے 175 ارب روپے، بجلی کے لیے 133 ارب روپے، گندم کے لیے40 ارب روپے اور ٹیکسٹائل و کھاد کے لیے 48 ارب روپے شامل ہیں۔ جبکہ سبسڈی کی مد میں بجٹ میں صرف 114 ارب روپے رکھے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ غیر معمولی مالیاتی خسارے کے باعث ادائیگیوں کے توازن کو بھی بے مثال خسارے کے سامنا ہے۔ حسابِ جاریہ کے خسارے کا تخمینہ 11.9 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 7 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر جو کہ اکتوبر 2007ء میں 16.5ارب ڈالر تھے، کم ہو کر اپریل 2008ء تک 12.3 ارب ڈالر رہ گئے۔ اِس سے شرحِ مبادلہ پر اثر پڑا، جولائی 2007ء سے اپریل 2008ء تک تقریباً 6.4 فیصد کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر خسارہ سٹیٹ بنک سے قرضے حاصل کر کے پوراکرنا پڑا۔ جس کا مطلب ہے کہ مزید نوٹ چھاپے گئے۔ مرکزی بنک سے کم سے کم مئی 2008ء تک 551 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے گئے جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ نوٹوں کی اِس چھپائی کا مطلب سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ بغیر پیداوار کے سرمایے میں اضافے سے صرف قیمتوں میں اضافہ ہونا تھا جو کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں اِس عمل کو روکنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر افراطِ زر کی شرح موجودہ شرح سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی اور جیسا کہ میں نے کہا افراطِ زر کی یہ شرح پہلے ہی ملک کی تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال2008-09ء کا بجٹ ایک دیرپا منصوبے کا حصہ ہے جس پر موجودہ حکومت کام کر رہی ہے اور جسے جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی۔اِسی طرح ہم بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے ایک طویل مدتی جائزہ لے رہے ہیں۔ آئندہ سال کے دوران پیش آنے والے مجموعی اقتصادی حالات کے حوالہ سے اہم مفروضات پر روشنی ڈالنا مفید ہوگا جو بجٹ پر اثرانداز ہوں گے۔ اِن میں سال 2008-09ء کے دوران مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں 5.5 فیصد اضافہافراطِ زر کو 12 فیصد تک محدود کرنا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے مجموعی سرمایہ کاری کی سطح25 فیصد رکھنا۔ مالیاتی خسارہ 4.7 فیصد تک محدود کرنا۔حسابِ جاریہ کے خسارے کو کم کر کے GDP کے 6فیصد تک لانا۔جون 2009ء کے آخر تک زرِ مبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر تک لاناشامل ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری ترقی کا ایک اہم محرک ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں نجی شعبے کے مقابلے میں اِس میں کمی آئی ہے مگر یہ ایک خوش آئند پہلو ہے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ نجی شعبہ اقتصادی ترقی کا زیادہ بوجھ برداشت کرے۔ قومی اقتصادی کونسل نے مالی سال 2008-09ء کے لیے 549.7 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی ہے جو 2007-08 کے لیے بجٹ کے ہدف 520ارب روپے سے5 فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بجٹ 2008-09 کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی اہداف مقرر کر رہے ہیں۔اقتصادی استحکام بحال کرنے کے لیے مالیاتی خسارہ میںنمایاں کمی ‘سبسڈیز کی فراہمی کے نظام کی بہتری اور جاریہ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو کم از کم 12 ارب ڈالر کی سطح پر لے جایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نقد رقوم کی فراہمی کے متعین پروگرام کے ذریعہ کمزور طبقوں کو تحفظ فراہم کرنا اور اُن کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا اور زراعت اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں کی پیداوار اور مقابلے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اقتصادی نمو، سرمایہ کاری اور نجی شعبہ کو قائدانہ کردار دینے کے عزم کے اعلان کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرکے نمو کی رفتار تیز کرنے کے لیے سازگار ڈھانچے کی فراہمی میں حائل بنیادی رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی اعشاریوں میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے اِس شعبہ کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ ہوگا جبکہ کم لاگت کے گھروںکی تعداد میں نمایاں اضافہ کرنا تاکہ گھروں کی ضرورت اور اُن کی فراہمی میں خاص طور سے کم آمدنی والے طبقوں کے لیے فرق کو کم سے کم کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2008-09 ء کے لیے بجٹ کا تخمینہ رواں سال 2007-08ء کے بجٹ کی کارکردگی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور رواں سال کے نظرثانی شدہ مالیاتی خسارے 7 فیصد کے مقابلہ میں آئندہ مالی سال 2008-09 بجٹ خسارے کا تخمینہ مجموعی ملکی پیداوار کا 4.7 فیصد ہے۔ اس سے نمایاں مالیاتی رد و بدل اور سرکاری مالیات میں استحکام ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے لیے اس ہدف کا تعین محصولات جمع کرنے کے نظام میں بہتری اور اخراجات پر کنٹرول کے اقدامات کے ذریعہ ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے محصولات کے 2007-08 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینے 1000 ارب روپے سے بڑھ کر 2008-09 کے لیے 1250ارب روپے ہو جائیں گے۔ یہ اضافہ 25 فیصد کے برابر ہے جبکہ قدرتی نمو اور بجٹ میں تجویز کردہ صوابدیدی کوششیں ہمیں محصولات کی وصولی میںمعقول اضافے کی توقع کی بنیاد فراہم کریں گے۔آئندہ سال وفاقی اخراجات کا تخمینہ 1493 ارب روپے ہے جبکہ 2007-08 کے لیے نظرثانی شدہ تخمینہ 1516 ارب روپے تھا۔ ہم مالیاتی نظم و ضبط کے لیے مجوزہ اقدامات کی بنیاد پر اخراجاتِ جاریہ میں مزید بچت کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نیشنل فنانس کمیشن دوبارہ تشکیل دے گی اور صوبوں کی جانب سے این ایف سی کے ارکان کی نامزدگی موصول ہوتے ہی کمیشن کا اجلاس طلب کرے گی۔صوبوں کو گرانٹ سمیت رقوم کی منتقلی کا اندازہ رواں سال کے لیے نظر ثانی شدہ تخمینے 490 ارب روپے کے مقابلہ میں2008-09 میں 606 ارب روپے ہے۔ یہ اضافہ 24 فیصد ہے۔ متوقع آمدنی اور اخراجات ظاہرکرتے ہیں کہ صوبوں کے کیش بیلنس میں اُن کے پی ایس ڈی پی کے لیے صوبوں کے اپنے حصے اور فاضل اخراجات پورے کرنے کے بعد79 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مذکورہ بالا اندازوں کی بنیاد پر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ بجٹ معیشت کو مستحکم کرنے، مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ ہماری کامیابی کاپیمانہ مالیاتی مارکیٹ کے اعتماد میں مزیدکمی کے عمل کے رُکنے میں ہے اور مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ کاری میں مزید اضافے سے ہو گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس امر کا دستاویزی ثبوت بکثرت موجود ہے کہ پاکستان میں گذشتہ دہائی کے دوران آمدنی کی تقسیم بتدریج خراب ہوئی۔ اِس عرصے کے دوران حاصل ہونے والی دولت مساویانہ طور پرتقسیم نہیں ہوئی۔ اگرچہ بیشتر افراطِ زر بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ ہے اور قیمتوں میں مطلوبہ اضافے کا ایک بڑا حصہ اب بھی منتقل کیا جانا باقی ہے۔ کمزور طبقات اور مقررہ آمدنی والے گروپوں کو درپیش حالات کم سے کم غیر مستحکم اور زیادہ سے زیادہ ناقابلِ برداشت سطح پر ہیں۔ ہم غریبوں کی حالتِ زار سے الگ تھلگ رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے پاس اب بھی اقدامات کا وقت ہے۔ اِس سے قبل کہ وہ ریاست کی جانب سے اپنی زندگیوں میں کسی نتیجہ خیز کردار سے مایوس ہو جائیں، اُن کے مطالبات کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اِن لوگوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور حقیقی آمدنیوںمیں کمی کی مشکلات سے دور کرناچاہیے۔

قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔دوسرا حصہ

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں نے سماجی انصاف کو جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد کا بنیادی اصول بنایا۔ اسی طرح ہم بھی اِن گروپوں کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اور موجودہ بجٹ اِس مسئلے کا حل پیش کرے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑھتی ہوئی اور دیرپا نموکے لیے درکار انفراسٹرکچر کے اہم منصوبوں میں نہ توسرکاری شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی اور نہ ہی نجی شعبے میں اِس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مثال کے طور پر بجلی کے شعبے میں ملک اپنی تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامناکر رہا ہے۔بجلی کی طلب اور رسد میں فرق تقریباً 4,500میگا واٹ ہے۔ میں اِس نُکتے کو اجاگر کرنا چاہوں گا کہ یہ فرق اِس حقیقت کے باوجود پڑا کہ باوجود گذشتہ دہائی میں نجی شعبے سے 6,500 میگا واٹ اضافہ کیا گیا جو تمام پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی انرجی پالیسی 1994ء کے تحت منظور کی تھی۔ یہ آئی پی پیز جو ہمارے لیے مفید وسیلہ ثابت ہوئے، کو بلاجواز بدنام کیا گیا اور اُن پر تنقید کی گئی۔ حالانکہ انرجی پالیسی 1994ء کے تحت دی گئی مراعات کے تحت سسٹم میں اضافی گیس قابلِ ذکر مقدار میں شامل کی گئی لیکن اب اِس وقت طلب اور رسد کے درمیان فرق 1.5 ارب مکعب فٹ ہے۔ اور اگر سسٹم میں اضافی فراہمی کے اہم ذرائع شامل نہ کیے گئے تو اِس فرق میں مزید تیزی سے اضافہ ہو گا۔ ہمیں مقامی ذرائع کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے درآمد اور سرحد پار پائپ لائنوں کے ذریعے گیس کی فراہمی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اپنی موجودہ سہولیات کے بہتر استعمال کی خاطر بجلی کے شعبے کو گیس کی فراہمی ترجیحی بنیاد پر بڑھانی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا، قوم کو لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ درپیش تھا۔ ہم نے صورتحال کا جائزہ لیا اور عوام کے ساتھ ساتھ صنعت و زراعت کے شعبوں کو بجلی کی قلت سے چھٹکارہ دلانے کے لیے مختصر درمیان اور طویل مدت کے مختلف اقدامات کررہے ہیں۔ اِن اقدامات میں بجلی کے استعمال میں بچت، موجودہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی پیداوار اور اس کا باکفایت استعمال شامل ہے جس سے 1500 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ ہم قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ اِن اقدامات کے ذریعے لوڈ شیڈنگ میں بڑی حد تک کمی ہو جائے گی۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے 24 گھنٹے مسلسل بجلی کی فراہمی جاری رہے گی جبکہ آٹے اور گھی کی ملوں کو روزانہ 18 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی۔ زرعی ٹیوب ویلوں کو ہر رات 10 گھنٹے مسلسل بجلی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ رعایتی نرخوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پانی کی دستیابی اب ملک کو درپیش ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں توسیع کی اِس سے پہلے اِس قدر ضرورت نہ تھی تاہم پانی کا باکفایت استعمال بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اِس لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اِضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے باکفایت استعمال پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن گذشتہ 8سال کے دوران اسے نظر انداز کیا گیا۔ کسانوں کے لیے ریلیف اور ترغیب کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے کے لیے مراعات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات اور سمتوں کا تعین کیا جا رہا ہے۔ تاکہ زرعی شعبہ قومی معیشت میںاہم کردار ادا کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 510 روپے فی 40 کلو گرام سے بڑھا کر 625 روپے کی ہے۔ بوائی کے آئندہ سیزن سے پہلے یعنی اگست ستمبر میں گندم کی آئندہ فصل کے لیے امدادی قیمت پر نظرثانی کی جائے گی۔ ملک بھر میں ڈیموں کی تعمیر، آبپاشی کے نظاموں کی بحالی، نکاسیٔ آب کے نظام میں بہتری اور نہروں اور کھالوں کو پختہ کرنے کے ذریعہ آبی وسائل کے باکفایت استعمال اور دستیابی میں بہتری لانے کے لیے پی ایس ڈی پی میں 75 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ زرعی پیداوار کے اعلیٰ معیارکوقائم رکھنے اور اِس کی برآمد میں سہولت پیدا کرنے کے لیے ملک بھر میں کولڈ چین قائم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ قابل کاشت رقبے میں اضافہ اور بہتری کے لیے غیر ملکی تعاون سے بلڈوزروں کی درآمد کے انتظامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی اے پی فصلوں کی پیداوار میںاضافے کے لیے نہایت اہم کھاد ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اس اہم کھاد کے استعمال کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔ اور زرعی پیداوار کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ حکومت ڈی اے پی کھاد پر سبسڈی کو دوگنے سے زیادہ کرتے ہوئے 470 روپے فی بیگ سے بڑھا کر 1000 روپے فی بیگ کر رہی ہے۔ دیگر کھادوں پر سبسڈی کی فراہمی بھی جاری رہے گی۔ کھادوں پر سبسڈی کی مد میں مختص رقم 25 ارب روپے سے بڑھا کر 32 ارب روپے کر دی گئی ہے۔کھادوں اور زرعی ادویات کی درآمد اور اندرون ملک فروخت پر سیلز ٹیکس سے چھوٹ تاکہ کسانوں کو یہ اشیاء سستے داموں فراہم ہو سکیں۔ کھادوں اور زرعی ادویات پر ڈیوٹی کے مکمل خاتمے سے بجٹ پر 6ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتی اور دیگر شعبوں کے مقابلہ میں زرعی شعبہ میں قرضوں کی فراہمی محدود ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران زرعی شعبہ کو قرضوں کے لیے 30 ارب روپے کی اضافی رقم فراہم کی جائے گی۔ اس شعبہ کو قرضوں کی مد میں پہلے ہی 130 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں اور ہم زرعی ترقیاتی بنک کو بھی مزید فعال بنا رہے ہیں اور اس کے دائرہ کار میں اضافہ کریں گے۔وزیر خزانہ نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ کو مالیاتی اقدامات کے ذریعہ یہ مراعات اور سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں چاول کی صحت مند اور معیاری پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے چاول کے بیج کی درآمد پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے اور غلے کو جہاز سے اتارنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ایسی مشینیں اور آلات جو مقامی طور پر تیار نہیں کیے جاتے، ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی مقامی سطح پر تیار ہونے کی شرط کو ختم کردیا گیا ہے اور فصلوں کی انشورنس کے پریمیئم پر عائد 5فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز۔ان اقدامات سے فصلوں کی پیداوار بڑھے گی اور عام آدمی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے لائیو سٹاک اور ڈیری کے شعبے کے حوالے سے کہا کہ مویشی اور دودھ دیہی آبادی کی آمدنی اور روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے، اس استعداد سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا گیا۔ اس شعبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے سفید انقلاب کے لیے وزیرِاعظم کے خصوصی اقدام کے تحت اس شعبہ کے لیے پی ایس ڈی پی کے ذریعہ 1.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبہ میں مویشیوں کی افزائش و پرورش، گوشت کی پیداوار، مویشیوں کے لیے علاج معالجہ کی سہولت، دودھ اکٹھا کرنے، اسے محفوظ کرنے اور دیگر ڈیری مصنوعات کی پیداوار کو ترقی دینا، جانوروں اور پودوں کی صحت کا معائنہ کرنے کے لیے سہولتوں کے مربوط قومی ادارے کا قیام اور پولٹری کے امراض کے لیے این اے آر سی کی مویشیوں کی صحت کی لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کرنا شامل ہے۔

قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔تیسرا حصہ

وزیر خزانہ نے کہا کہ ماہی پروری کے شعبہ میں ایکوا کلچر اور جھینگے پالنا ‘ پاکستان کے مخصوص اقتصادی زونز کے سٹاک اسسمنٹ سروے پروگرام اور گوادر میں ماہی پروری کے تربیت کے منصوبہ جیسے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جن کے لیے بجٹ میں 1.1 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کاشتکاروں کو معیاری بیج کی فراہمی کے لیے نیشنل کمرشل سیڈ پروگرام تیار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بی ٹی کاٹن کی مختلف اقسام متعارف کروانے کے لیے مذاکرات کا تیزی سے آغاز کر دیا گیا ہے۔اِس سے کپاس کی پیداوار میں ہمارے کسانوں کی پیداوار کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ پیداوار اور زیرِکاشت رقبے میں اضافہ کیا جا سکے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو وسیع رقبے فراہم کیے جائیں گے۔ تاکہ زراعت کے مقامی شعبے کو سرمایہ اورٹیکنالوجی فراہم ہو سکے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری صنعت مقابلے کی صلاحیت کھو رہی ہے۔ جس کی عکاسی ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات میں کمی سے ہو رہی ہے۔طریقۂ کار میں رکاوٹیں پاکستان میں تجارت کی لاگت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اِسی طرح بجلی اور دیگر انفراسٹرکچر کی سہولتوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے ہماری مقابلے کی صلاحیت پر بُرا اثر پڑا ہے۔ مقامی مینوفیکچرنگ کو مراعات دینے کے لیے متعدد مالیاتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سی کے ڈی‘ ایس کے ڈی سلائی مشین کی درآمد پرڈیوٹی 5%سے 20% کرنے کی تجویز ہے تاکہ مقامی صنعت کو جو سلائی مشین کے پرزہ جات تیار کرتی ہے، تحفظ ملے اور یہ صنعت ترقی کرے۔انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے خام مال اور پرزہ جات پر ڈیوٹی کی شرح ان کے استعمال کے مطابق زیرو فیصد‘ پانچ فیصد اوردس فیصد کرنے کی تجویز ہے۔جس کا انحصار اُن کی نوعیت اور ضروریات پر ہے۔انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی صنعت کے ٹیرف پر مبنی نظام کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔ اِس مقصد کے لیے پاکستان کسٹمز ٹیرف کی متعلقہ ٹیرف مدات میں مناسب ردوبدل کرنے کی تجویز ہے۔ کچھ ٹیرف لائنز کو ختم اور کچھ کو ایک دوسرے میں مدغم اور کچھ نئی ٹیرف لائنز بھی بنانے کی تجویز ہے۔ ان تمام ٹیرف لائنز پر پندرہ فیصد اضافی ڈیوٹی کی شرح بھی لاگو رہے گی کیونکہ یہ تمام اشیاء مقامی طورپر تیار کی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی اے پالیسٹر سٹیپل فائبر بنانے کا بہت اہم کیمیائی جز ہے۔تجویز یہ ہے کہ پی ٹی اے پر شرح کسٹمز ڈیوٹی پندرہ فیصد سے کم کرکے 7.5فیصد کردی جائے اور پالیسٹر سٹیپل فائبر پر شرح ڈیوٹی 4.5 فیصد کردی جائے۔ اس تجویز سے امید ہے کہ ہماری پارچہ جات کی صنعت کو بہت فائدہ ہوگا۔ اور اس سے متعلقہ ملبوسات کی صنعت بھی فروغ پائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے اور مقامی صنعت کو مراعات دینے کے لیے تجویز ہے کہ ادویات سازی میں کام آنے والے کیمیائی اجزاء اور اِن کی پیکنگ میں کام آنے والے اجزاء پر ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کردی جائے۔ اسی طرح 18زندگی بچانے والی ادویات جوکینسر یا اسی طرح کے مُوذی امراض میں استعمال ہوتی ہیں، ان پر ڈیوٹی بالکل ختم کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کیلشیم کاربائٹ پر ڈیوٹی کی شرح پندرہ فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاسٹک سوڈا پر ڈیوٹی کی موجودہ شرح جو 5,000/- روپے فی ٹن ہے کو 4,000/- روپے فی ٹن کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرنٹنگ سکرینز پر ڈیوٹی کی شرح پندرہ فیصد سے کم کر کے دس فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ اس کے خام مال پر ڈیوٹی معاف کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے مقامی صنعت کی ترقی ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بکُرم پر درآمدی ڈیوٹی کی شرح فی الوقت 25 فیصد ہے۔ لہذا یہ تجویز ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی قدروقیمت میں اضافے کے لیے کسٹمز ڈیوٹی کی شرح بکُرم پر 25 فیصد سے کم کرکے دس فیصد کردی جائے۔انہوں نے کہا کہ مال کے تیارکنندہ اور مال برآمد کرنے والوں کیلئے مال کے ایسے نمونے جس کو ویسے فروخت نہ کیا جاسکے، اُس کو درآمد کرنے کیلئے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ جس کے تحت ان نموناجات کی مشروط درآمد کی اجازت ہے۔ یہ تجویز ہے کہ ایسے نمونوں کی درآمد ہرقسم کے کارخانہ داروں کو دی جائے چاہے وہ براہ راست برآمدکنندگان ہوں یا باالواسطہ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تارکول سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس پر موجودہ شرح ڈیوٹی پانچ فیصد ختم کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیس آئل پر موجودہ ڈیوٹی کی شرح 20 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹیرف کے مطابق کال سنٹرز میں استعمال ہونے والے آلات پر ڈیوٹی کی شرح پانچ فیصد ہے جبکہ ان پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ کال سینٹروں کے شعبے میں ترقی کی بہت گنجائش موجود ہے لہذا اس کو پرکشش بنانے کے لئے مزید مراعات کی ضرورت ہے۔ کال سنٹروں کے دو اہم اجزاء میں وائس کارڈز اور واسٹ ٹرمینلز پر دس فیصد ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے جبکہ ڈیجیٹل کال ریکارڈرز پر ڈیوٹی بیس فیصد ہے۔ تجویز ہے کہ کال سنٹروں کے ان اجزاء پرڈیوٹی کی شرح کم کر کے پانچ فیصد کر دی جائے اور سیلز ٹیکس کی بھی چھوٹ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر طرح کی پولیسٹر فلم پر اِس نوعیت کی دیگر اشیاء کی طرح بیس فیصد کی یکساں شرح کے حساب سے ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سی این جی بسوں پر موجودہ ڈیوٹی کی شرح پندرہ فیصد ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتربنانے اور ماحول کی بہتری کے لئے تجویز یہ کہ سی این جی بسوں پر ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بندرگاہ کے اخراجات میں کمی کے لیے تجویز ہے کہ کھدائی کی مشینوں ڈریجرز کی درآمد کو کسٹمز ڈیوٹی سے مستثنیٰ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ضروری ہے کہ بجلی کے موجودہ وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ بچت ہو سکے اس مقصد کے لئے انرجی سیور بلب کی درآمد پر ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ کی تجویز ہے۔ اس طرح سولر انرجی کے نظام میں استعمال ہونے والے جنریٹرز اور ڈیپ سائیکل بیٹریوں پر بھی ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ واپڈا کے زیر انتظام بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں فی الوقت بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ پانچ فیصد ڈیوٹی پر درآمد کرسکتی ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ ایسی کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ ڈیوٹی کے بغیر منگوانے کی اجازت دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے انرجی سیور بلب پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز ہے۔ جس سے نہ صرف ان کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے بلکہ ان کا استعمال بڑھے گا اور ان کی فراہمی بھی یقینی ہو گی۔ اندازہ ہے کہ اس اقدام سے تقریباً 1000 میگا واٹ بجلی کی بچت ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مقامی صنعت میں سرمایہ کاری کے لئے گورنمنٹ کچھ مراعات دیتی ہے۔ ان مراعات میں کچھ اشیاء خام مال، پرزہ جات اور اجزاء پر ڈیوٹی نہیں لی جاتی بشرطیکہ یہ مقامی طور پر نہ بنتے ہوں۔ تاہم مقامی طورپر نہ بننے کی شرط جو پہلے عائد کی گئی تھی اسے ختم کر نے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تجویز ہے کہ ایسے مکمل پلانٹ جن کی سی اینڈ ایف قیمت پچاس ملین ڈالر یا اس سے زیادہ ہو، اور ان کو کوئی نیا صنعتی پراجیکٹ قائم کرنے کے لئے منگوایا جا رہا ہو توان پر مقامی تیاری کی شرط لاگو نہ کی جائے۔ اس تجویز سے افسروں کی صوابدید کم ہو گی اور سرمایہ کاری کے لئے اچھا ماحول میسر ہو گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ دیہی اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے تجویز ہے کہ وہاں قائم ہونے والی صنعتوں پر پہلے سال دس فیصد فرسودگی الاؤنس کے علاوہ نوے فیصد اضافی الاؤنس بھی دیا جائے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز ہے کہ سٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ کمپنیوں کے حصص کی فروخت پر “کیپٹل گین” کی موجودہ چھوٹ کو مزید دو سال کے لئے جاری رکھا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ تجویز ہے کہ کاسٹک سوڈا پر بھی سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹ کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تجویز ہے کہ غیر ممالک میں مقیم کاروباری افراد کے پاکستان کے مختلف تجارتی میلوں کے دوروں کے موقع پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ کے لئے سیلز ٹیکس کے قانون میں موزوں ترمیم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو صحت کی سہولیات سستے داموں مہیا کرنے کے لئے تجویز ہے کہ مقامی تیار شدہ طبی آلات، اوزار، پرزہ جات، ریجنٹس اور ڈسپوزیبلز کی سرکاری ہسپتالوں اور 50 بستروں تک کے خیراتی ہسپتال کو مقامی فراہمی سیلز ٹیکس سے مستثنی کر دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت آزاد جموں و کشمیر فنڈز کی کمی کی وجہ سے اپنے ٹیکس گزاروں کو اس سیلز ٹیکس کے ریفنڈ کی اجازت نہیں دیتی اس لئے تجویز ہے کہآزاد جموں و کشمیر کے ٹیکس گزاروں کو پاکستان سے اشیاء کی فراہمی پر سیلز ٹیکس کا ریفنڈ ادا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ترقیاتی بجٹ کے لیے منظور شدہ منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد 3 سو ارب روپے کی مالیت کے منصوبے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ اِن منصوبوں سے معیشت کو برائے نام فائدہ پہنچا ہے۔ اِس جائزے کی تفصیلات الگ فراہم کی جائیں گی۔تاہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جو ترقیاتی منصوبہ ہم قوم کو پیش کر رہے ہیں وہ ہماری ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے جو اقتصادی حقائق کے ساتھ ساتھ عوام کی اُمنگوں پر مبنی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نجی اور سرکاری شعبہ کی شراکت کو فروغ دینے کے لیے آپریشنل فریم ورک اور پالیسی بتدریج تشکیل دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بلوچستان میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زونزکے قیام کے لیے 1 ارب روپے مختص کرے گی حطار میںچائنا پاک اکنامک زون ‘ خوشحال گڑھ صوبہ سرحد میں تعمیر نو مواقع زونزکے لیے صنعتی اسٹیٹ اور صوبہ سرحد میں صنعتوں کی بحالی اور اُن کو جدید بنانے کے اقدامات بھی شامل ہیں جبکہ صنعتی ترقی کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ نجی و سرکاری شعبہ کی شراکت کے ذریعے، صوبہ سرحد میں ٹیکسٹائل سٹی، گارمنٹس سٹی اور ماربل اینڈ گرینائٹ سٹی جیسے خصوصی زونز کے قیام پر بھی غور جاری ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کے شعبے کو حکومت اولین ترجیح دے رہی ہے اور اس شعبے کے متعدد منصوبوں کے لئے 66 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اور اندازہ ہے کہ آئندہ سال کے آغاز تک بجلی کی پیداوار میں 2200 میگا واٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں سڑکوں کے نیٹ ورک میں تیر رفتار توسیع کے لیے بجٹ میں 37 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ ان میں قابلِ ذکر مکران کوسٹل ہائی وے، اسلام آباد پشاور موٹر وے (M-1) کراچی ناردرن بائی پاس، انڈس ہائی وے فیز تھریIII، نوشکی دالبندین روڈ، مانسہرہ-ناران- جھل کھڈ- چلاس روڈ، لواری ٹنل ایکسس روڈز، قراقرم ہائی وے کی توسیع، بہتری اور بحالی، حسن ابدال، مانسہرہ- ایبٹ آباد ایکسپریس وے اور فیصل آباد-خانیوال ایکسپریس وے، سمیت 60منصوبے شامل ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آزاد کشمیر شمالی علاقہ جات اور فاٹا جیسے مخصوص علاقوں کے ترقیاتی پروگراموں کے لیے مختص رقم 21.2 ارب روپے سے بڑھا کر 26.2 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کم آمدنی والے افراد کیلئے کثیر الجہتی حکمتِ عملی تیار کر رہے ہے جس کے ذریعے غربت میں کمی کے لئے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جائے گا اور کم آمدنی والے طبقوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں گے اور علاقائی سطح پر کم لاگت کے مکانات کا ایک وسیع پروگرام شروع کیا جائے گا جس کا مقصد کم آمدنی والے طبقے کے لیے مکانات کی دستیابی میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تعلیم کے لیے ترقیاتی منصوبہ میں 24.6 ارب روپے مختص کرنا تجویز کیا ہے۔شعبۂ صحت کے پروگراموں کے لیے 19 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں جو ناکافی ہیں انہیں بڑھا کر دو لاکھ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیماریوں سے بچاؤ کے متعدد پروگراموں ای پی آئی ، ایچ آئی وی-ایڈز کنٹرول پروگرام، نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام، نابینا پن کے کنٹرول کا قومی پروگرام،ہیپاٹائٹس پر کنٹرول، زچہ و بچہ اور بچوں کی صحت کے پروگرام کو بہتر بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے 2.2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جس کے تحت ملک بھر میں گاؤں کی سطح پر فلٹریشن پلانٹس لگائے جائیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ غریب آدمی کے لئے ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ شروع کیا جائے گا ۔ اِس پروگرام کے تحت ہم انتہائی غریب افراد کے لیے 34 ارب روپے کی بجائے پچاس ارب روپے فراہم کریں گے ۔ غریبوں کے لئے بیت المال جیسے جاری پروگراموں کے ذریعے مدد جاری رکھی جائے گی اِس کے علاوہ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے غذائی اشیاء کی رعائتی نرخوں پر فراہمی بھی جاری رہے گی اور یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد بڑھا کر 6,000 کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ماضی کے چھوٹی ترقیاتی سکیموں کے پیپلز ورکس پروگرام کو بحال کر رہے ہیں اور اس کے لئے 28.4 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایک کمیشن قائم کر رہی ہے جو بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے اپنی تجاویز دے گا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل انٹرشپ پروگرام جاری رہے گا اور توقع ہے کہ 2008-09ء کے دوران کم سے کم 30ہزار پوسٹ گریجویٹ طلباء اِس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔ اِنٹرن شپ پروگرام کے لیے بجٹ میں 1.6 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پیپلز روزگار پروگرام بھی خودروزگاری کے مواقع پیدا کرنے کے لئے روزگار پیدا کرنے کے کسی بھی پروگرام کا حصہ ہو گا اور اس کے تحت نیشنل بنک کے زیرِ اہتمام جاری خود روزگار سکیم کو تقویت دی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقی نسواں کیلئے حکومت نے تمام سرکاری محکموں میں مجموعی طور پر خواتین کا 10 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔ اِس سے فیصلہ سازی کے عمل میں اُن کاکردار بڑھے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مائیکرو فنانس کے ذریعے حکومت 2010ء تک مزید 30 لاکھ افراد کو چھوٹے قرضوں تک رسائی فراہم کرنے کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے 100 روزہ پروگرام میں 10 لاکھ نئے گھروں اعلا ن کیا تھا۔ اِن منصوبوں کو رواں سال کے دوران شروع کرنے کے لیے 2 ارب روپے کا فنڈ مختص کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کے استحکام کے لیے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنا اولین ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے غیر ترقیاتی اور تنخواہوں کے علاوہ اخراجات کو گذشتہ سال کی نظر ثانی شدہ سطح پر منجمد کرنے کی تجویز ہے۔

قومی اسمبلی میں مالی سال ٢٠٠٨-٠٩ء کے لئے ٢٠ کھرب١٠ ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔چوتھا حصہ

انہوں نے کہا کہ کاروں، ائرکنڈیشنرز اور دیگر دفتری سامان کی خریداری پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں سب سے پہلے وزیراعظم نے اپنے دفتر کا بجٹ کم کرنے کی قربانی دی۔ اُن کے آفس کا بجٹ 329.8 ملین روپے سے کم کر کے 230.9 ملین روپے کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی اورسینٹ نے بھی اپنے غیر ترقیاتی اور تنخواہوں کے علاوہ اخراجات گذشتہ سال کی سطح پر رکھنے سے اتفاق کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں قومی احتساب بیورو کے کردار کو محدود کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ قومی احتساب بیورو کے بجٹ میں 30 فیصد کٹوتی کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کے طور پر حکومت نے یک سطری دفاعی بجٹ پیش کرنے کا ماضی کا طریقہ کار ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دفاعی اخراجات کی تمام متعلقہ تفصیلات پارلیمنٹ میں بحث اور نظرثانی کے لیے دستیاب ہوں گی۔ دستیاب وسائل کے باکفایت استعمال کے ذریعہ زیادہ مالیاتی نظم و ضبط کے حوالہ سے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اسوقت بجٹ سے مجموعی طور پر 400 ارب روپے کی سبسڈیز دی جا رہی ہیں۔ ملکی مالیات کو تحفظ دینے کے لیے سبسڈیز میں تفصیلی کٹوتی ضروری اور ناگزیر ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مرکزی بنک سے قرضوں کا حصول ناقابلِ قبول سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ہم مسئلہ کے حل کے لئے ’’گورنمنٹ کمرشل پیپر‘‘کے نام سے ایک نیا طریقہ تشکیل دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی سے سب سے زیادہ تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے۔ چنانچہ حکومت نے ان کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سہولت فراہم کرنے کے لئے یہ اقدامات تجویز کئے ہیں کہ وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ‘ یہ اضافہ مسلح افواج کے لیے بھی ہو گا‘ تمام سویلین اور فوجی پنشنرر کی پنشن میں 20 فیصد ‘ کم سے کم پنشن 300 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے ‘ گریڈ ایک تا 19 کے سرکاری ملازمین کے کنوئنس الاؤنس میں 100 فیصد اضافہ‘ گریڈ ایک تا 16 کے سرکاری ملازمین کے لیے میڈیکل الاؤنس 425 روپے سے بڑھا کر 500 روپے ماہوار جبکہ کم سے کم اجرت 4600 سے بڑھا کر 6000 روپے ماہانہ کر دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی بچت سکیموں کے منافع کی شرح میں 2 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے اور بیماری، حادثہ، زلزلہ یا دہشت گردی کے نتیجہ میں معذور ہونیوالے سرکاری ملازمین کو پنشن کی پوری مراعات ملیں گی۔ اس سلسلہ میں 10 سال سروس کی شرط ختم کی جاتی ہے جبکہ گریڈ ایک تا 15 کے کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی تجویز ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن پر نظرثانی کے لیے پے اینڈ پنشن کمیشن قائم کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی اسامیاں 16سے بڑھا کر 29 کی جا رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات کی جائیں گی اور اس کا مقصد ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو ایک جدید، ترقی پسند، موثراور قابل اعتماد ادارہ بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اس سال کے دوران محصولات کی سطح ایک ٹریلین روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا بھاری بوجھ براہ راست ٹیکسوں کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔ جو 39 فیصدتک پہنچ چکے ہیں۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہاس امر کی بے حدضرورت ہے کہ سامان تعیشّ اور غیرضروری اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان تجارتی خسارے کو ممکنہ حدتک کم کیا جاسکے۔چنانچہ یہ تجویز ہے کہ تقریباً 300غیرضروری اشیا جو سامان تعیشّ اور سامانِ آرائش کے زمرے میں آتی ہیں ان پر ڈیوٹی 15%، 20%اور 25%سے بڑھاکر علی الترتیب 30% اور 35% کردی جائے۔ ان اشیا ء میں خوشبویات، سامان آرائش و زیبائش، کراکری، ٹائلز، فرنیچر، شکار کا اسلحہ اور گھریلو سامان از قسم ائیرکنڈیشنر، ریفریجریٹر، ڈیپ فریزر، کوکنگ رینج، وغیرہ شامل ہیں۔ جن دیگر اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے ان میں بسکٹ، چاکلیٹ، کوکیز ، سگریٹ، سگار اور بنی بنائی غذائی اشیاء بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح وہ عمدہ شاندار اور موٹرکاریں اور جیپیں یعنی آرام دہ گاڑیاں جو 1800cc انجن یا اس سے زیادہ بڑے انجن والی ہوں ، ان پر ڈیوٹی کی شرح نوے فیصد سے بڑھاکر سو فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ ایسی پرُانی موٹر کاریں اور جیپیں جو 1800ccسے کم انجن پر مشتمل ہوں ، ان پر مروّجہ سکیم کے مطابق کسٹمز ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکسز پر مشتمل ایک مقررہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ مقررہ رقم یعنی فکسڈ ڈیوٹی کو دس فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔ موبائل فون کی درآمد پر 500روپے فی سیٹ کی لگانے کی تجویز ہے۔ پان پر امپورٹ ڈیوٹی کی موجودہ شرح 150روپے فی کلوگرام ہے، اسکو 200روپے فی کلوگرام کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کی شرح برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح پندرہ فیصد سے سولہ فیصد کر دی جائے۔ پی ڈی سی کے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ حکومت جب ضروری سمجھے تو سی این جی اور ایل پی جی جیسے ضروری ایندھن پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ ٹیکس عائد کر سکے۔انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ ٹیلی کام کے شعبے کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح 16% کی بجائے 21% کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ 850CC سے زیادہ کی گاڑیوں کی درآمد اور اندرون ملک فروخت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ فیصد عائد کی جائے جبکہ بینکنگ، انشورنس اور فرنچائز سروسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 5% سے بڑھا کر 10% کر دی جائے اور افراط زر کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز ہے کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی فکسڈ شرح 750 روپے فی میٹرک ٹن سے بڑھا کر 900 روپے فی میٹرک ٹن کر دی جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 16 کروڑ کی آبادی میں ٹیکس گزاروں کی تعداد کا صرف 22 لاکھ ہے اس لئے حکومت انکم ٹیکس نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لئے تجویز کرتی ہے کہ انکم ٹیکس کی 35 استثنات کو واپس لیا جائے اور دوسری تجویز “انوسٹمنٹ ٹیکس سکیم” کی ہے جس کے ذریعے کوئی بھی ٹیکس گزار اپنے گزشتہ کاروبار اور اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو پر صرف دو فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کر سکے گا ۔ یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسے ٹیکس گزاروں کے ماضی کے حسابات کی چھان بین نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں حکومت بڑے وسیع پیمانے پر ایک پروگرام چلانا چاہتی ہے تاکہ ٹیکس، جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکس گزاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے یہ ٹیکس سہولیات تجویز کی جاتی ہیں کہ 0.5 فیصد کی شرح سے کم سے کم ٹیکس ان کمپنیوں پر عائد کیا جاتا ہے جو یا تو خسارہ دکھاتی ہیں یا کسی چھوٹ کی وجہ سے ٹیکس ادا نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ تجویز ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لئے ٹیکس آمدنی کی بنیادی حد 1,50,000 سے بڑھاکر 1,80,000جبکہ خواتین ٹیکس گزاروں کیلئے بنیادی حد 2 لاکھ سے 2 لاکھ چالیس ہزارکردی جائے۔ وزیر خزانہ نے ایڈوانس انکم ٹیکس کے حوالے سے کہا کہ تجویز ہے کہ صنعتی اور تجارتی دونوں درآمدات پر دو فیصد کی یکساں شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ اس ٹیکس کو صنعتی کمپنیوں کے لئے ایڈجسٹ ایبل بنایا گیا ہے جبکہ صنعتی اور تجارتی صارفین جن کا بجلی کا بل 20,000 روپے ماہانہ سے زائد ہو ان پر 10 فیصد کی شرح سے پیشگی ٹیکس عائد کیا جائے جو ان کے حتمی ٹیکس سے منہا کیا جا سکے گا۔ اس اقدام سے ان ٹیکس گزاروں کو اپنا سالانہ جملہ ٹیکس بارہ اقساط میں ادا کرنے کی سہولت مل جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے تک صرف جائیداد سے آمدنی پر ایک فرد یا جماعتِ اشخاص کی آمدنی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہونے کی شکل میں 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس واجب الادا تھا۔ یہ اقدام نہایت واضح طور پر زیادہ آمدنی والوں کے حق میں تھا۔ اس تفریق کو ختم کرتے ہوئے “زیادہ کماؤ تو زیادہ ٹیکس دو” کے اصول پر تجویز کیا جاتا ہے کہ اس مد میں زیادہ آمدنی والوں پر بتدریج 5 فیصد سے 15 فیصد تک ٹیکس عائد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے عرصے میں سب سے زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ میں دیکھی گئی ہے جس سے صنعتی ترقی بھی متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری کا رخ صنعتوں کی طرف موڑنے اور پلاٹوں کی بے اندازہ قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ آباد کاروں اور بلڈرز کے لیے بالترتیب، پلاٹوں پر 100 روپے فی مربع گز اور تعمیر شدہ جائیداد پر 50روپے فی مربع فٹ کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ بجٹ اقتصادی استحکام، سماجی انصاف اورمعاشرے کے تمام طبقوں کی خوشحالی کے ایک نئے دور کا نقیب ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ پاکستان کے تمام لوگوں کے لیے ہے۔ یہ ان تمام طبقات سے قربانیاں چاہتا ہے جو قربانیاں دے سکتے ہیں۔ یہ غریبوں اور کمزوروں کو تحفظ دے گا۔ یہ ایک جامع پیغام اور شراکت کا احساس دیتا ہے۔جن بحرانوں کا ہمیں سامنا ہے وہ کٹھن ضرور ہیں تاہم ان پر ضرور قابو پا لیں گے

اہداف کے حصول تک لانگ مارچ جاری رہے گا، اپوزیشن میں جا سکتے ہیں ۔نواز شریف



مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم وکلاء کے لانگ مارچ کے حوالے سے پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس
اسلام آباد ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہاہے کہ ججز کی بحالی اور پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کی تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں گے ۔ ان اہداف کے حصول تک لانگ مارچ جاری رہے گا اپوزیشن میں جا سکتے ہیں حکمران اتحاد کے استحکام کا انحصار ججز کی بحالی پر ہے پوری قوم لانگ مارچ میں شامل ہو جائے اٹھارہ فروری کے عوامی مینڈیٹ کو مجروح نہیں ہونے دیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لانگ مارچ کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے حوالے سے پارٹی اجلاس کے بعد پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا پارٹی چیئرمین راجہ ظفر الحق ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال بھی اس موقع پر موجود تھے ۔نواز شریف نے کہاکہ وکلاء نے لانگ مارچ شروع کر دیا سول سوسائٹی کے ہر طبقات کے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قوم سے عہد کر رکھا ہے کہ ججز بحال ہوں گے اور پرویز مشرف سے نجات حاصل ہو گی پرویزمشرف کی رخصتی ججز کی بحالی اور میثاق جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ اٹھارہ فروری کے انتخابات میں بھی عوام نے یہی مینڈیٹ دیا تھا کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ کیا جائے قوم ججز کی بحالی میں تاخیر نہیں دیکھنا چاہتی آزاد عدلیہ کے بغیر آئین وقانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکتی ۔ مسلم لیگ (ن) اپنے عہد کی مکمل پاسداری کرے گی ۔ لانگ مارچ کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں پوری طرح اس میں شریک ہوں گے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لانگ مارچ میں شریک ہو کر قومی فریضہ ادا کرے ہر اس شحص پر یہ لازم ہے کہ کہ وہ آمریت کے جبر سے پاک کرنے ، آوین قانون کی بالادستی ، جمہوریت پھلنے پھولنے کیلئے تحریک میں شامل ہو جائے ۔ ایسی عدلیہ قائم ہونے دیں ۔ کسی کی ذات وفاداری کا حلف نہ لے رکھا ہو آئین میں وفاداری کا حلف لینے والی عدلیہ کی بحالی چاہتے ہیں بندوق سے زیادہ ووٹ کی طاقت ہے قانون کی طاقت ہے ملک کی سربلندی اور آبرومندی کیلئے آزاد عدلیہ ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے جس طرح پوری قوم سے سے انتخابات میں شرکت کی اپیل کی اور قوم باہر نکل آئی لانگ مارچ کیلئے قوم باہر آ جائے اور پر امن لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کرے اقتدار کیلئے نہیں بلکہ ملک کو قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر دینا چاہتے ہیں میں لندن میں اپنی اہلیہ کے علاج کیلئے مقیم تھا عظیم مقصد کیلئے وطن واپس آیا ہوں آنے والی نسلوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس میں فرد واحد کے فیصلے نہ چلیں آئین و قانون کو نہ توڑا جائے پارلیمنٹ کو نہ روندا جائے اور منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑی لگا کر ملک بدر نہ کیاجائے انہوں نے کہاکہ جمعرات کو (آج) لاہو رمیں لانگ مارچ میں شریک ہوں گے تمام تر توانائیاں اس میں شامل کریں گے انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ کو پر امن رہنا چاہیے بدامنی نہیں ہونی چاہیے امن ہی اصل طاقت ہے جمہوریت کی جنگ جمہوری طریقے سے کریں گے عوام کی فتح ہو گی اور آمریت بدترین شکست سے دو چار ہو گی ملک کی سلامتی اور بقاء کیلئے لانگ مارچ شروع ہوا ججز بحال ہوں گے تو پاکستان میں استحکام آئے گاججز کی بحالی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا ججز کی بحالی اس طرح ضروری ہے جس طرح انسان کو زندہ رہنے کیلئے کھانا ضروری ہے اٹھاون ٹو بی اور مارشل لاء جنگ ہارنے والی بات ہے اس طرح کے اقدام کی بات کرنے والے دل و دماغ سے شکست کا اعتراف کر رہے ہیں ہم کامیاب ہوں گے ایک ایک بچہ جدوجہد میں شریک ہو گا روز روز یہ موقع نہیں ملتا انہوںنے کہاکہ ججز کی بحالی میں کسی کا ذاتی فائدہ نہیں ہے پوری قوم کے مفاد میں ہے ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ضروری ہے ہمارا عزم ہے کہ ججز کی بحالی اور جنرل مشرف سے نجات تک لانگ مارچ جاری رہے گی اہداف ضرور حاصل ہوں گے انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ساٹھ ججز بحال ہو کر رہیں گے اس کے بغیر حالات آگے نہیں بڑھ سکتے پارلیمنٹ عوام کی امنگیں اور جذبات کا ترجمان ہوتا ہے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج بڑی بات نہیں ہے جمہوریح ملکوں میں ایسا ہوتا ہے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جدوجہد کریں گے دل چاہتاہے کہ ہم اپوزیشن میں ہوں وفاقی حکومت سے باہر آ گئے ہیں مری میں میں نے اور آصف علی زرداری نے پوری قوم کے سامنے ججز کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔

وکلاء کے لانگ مارچ نے اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اعتزاز احسن



ملتان ۔ سپریم کورٹ بار کے صدر چوہری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ نے اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ وکلاء کی تحریک کی ایک کامیابی ہے ۔ یہاں بدھ کی صبح میڈیا سے گفتتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کا ملتان میں شاندار استقبال ہوا اور ہوائی اڈے سے 10 منٹ کا راستہ 5 گھنٹوں میں طے ہوا اور لوگ والہانہ انداز میں گھروں سے نکل آئے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ طے تھا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو پارلیمنٹ ہاؤس تک آزادی سے جانے دیا جائے گا لیکن حکومت اس انڈر سٹیڈنگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹینرز کھڑے کر رہی ہے اور خار داروں کی باڑیں لگائی جا رہی ہیں ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ اسلام آباد میں جاری سرگرمیاں اس بات کی غماز ہیں کہ وکلاء تحریک کامیاب جا رہی ہے کیونکہ لانگ مارچ ملتان ہی پہنچا لیکن اسلام آباد ہل گیا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکاء نہتے ہیں اور کوئی خونی انقلاب کے لئے نہیں جا رہے اور احتجاج کرنے جا رہے ہیں اور پھر عوام لانگ مارچ کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کوئی چھوٹا سفر نہیں اور نہ ہی اس کا نصب العین چھوٹا ہے کیونکہ آزاد عدلیہ مستقبل کی نسل کے کام آئے گی ۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کے بغیر نہ تو سرمایہ کاری ہو سکتی ہے ۔ اور نہ ہی عوام کو انصاف مل سکتا ہے ۔ سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو روزگار نہیں ملے گا اور گرانی ہو گی جبکہ انصاف کے بغیر امن و امان کا قیام اور جرائم میں کمی آ سکتی ہے انہوں نے کہا کہ 60 سال میں محض دو سال ہی عدلیہ آزاد رہی اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں ترقی نہیں ہوئی ۔

زرداری ججوں کی بحالی کے بجائے مشرف کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں ‘ عمران خان



واشنگٹن ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری معزول ججوں کو بحال کرنے کے بجائے صدر پرویز مشرف کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں امریکی ٹیلی ویژن ’’ سی این این کے ساتھ انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ آصف علی زرداری نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ معزول ججوں کو ایک ماہ کے اندر بحال کیا جائے ۔ لیکن بے نظیر بھٹو کے قتل میں صدر پرویز مشرف کا بالواسطہ ہاتھ ہونے کے الزام کے باوجود آصف زرداری انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں ۔ وہ قومی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ کرپشن کیسز سے بچنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ججوں کو فوری بحال نہ کیا تو اسے ہٹا دیا جائے گا ۔ لانگ مارچ ججوں کی بحالی کی ابتدا ہے اور حکومت کے پاس ججوں کو بحال کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے حقیقی لیڈر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں اور عوام چاہتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف اپنے عہدے سے استعفی دے دیں ۔ عمران خان نے اپنے انٹرویو میں صدر جارج ڈبلیو بش کو صدر پرویز مشرف کی حمایت کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ امریکہ کا دوہرا معیار ہے پاکستان کے 16 کروڑ عوام مشرف ہٹانا چاہتے ہیں جبکہ بش ان کی حمایت کر رہے ہیں یہ جمہوریت کی نفی اور پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے

پنجاب حکومت کا میڈیکل کالجوں میں سیلف فنانس سکیم کے فوری خاتمہ کا اعلان



لاہور۔ وزیراعلی پنجاب میاں شہبازشریف نے پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں سیلف فنانس سکیم کے فوری طور پر خاتمہ کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ مری معاہدہ پر عملدرامد نہیں ہوسکااس لئے اب ہم نے پیپلز پارٹی سے کہہ دیا ہے کہ وہ معزول ججوں کو اپنے طریقہ سے بحال کرے اگر یہ طریقہ وکلاء اور سول سوسائٹی کو قبول ہوا تو اسے ہم بھی تسلیم کرلیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میاں شہبازشریف نے کہاکہ سیلف فنانس سکیم کے تحت کالجوں میں داخلے میرٹ پر ڈاکہ زنی کے مترادف ہیں اس لئے میں میڈیکل کالجوں میں سیلف فنا نس سکیم کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں آئندہ صرف میرٹ پر ہی داخلے ہوں گے تاکہ ذہین طلبہ ان کا تعلق خواہ غریب طبقہ سے ہو یا امیر انہیں میرٹ پر ان کا حق مل سکے۔ وزیراعلی نے کہا کہ جن طلبہ نے میڈیکل کالجوں میں پسماندہ اضلاع کے ڈومیسائل پر داخلہ لینے والے طلبہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ان پسماندہ اضلاع میں پڑھتے بھی رہے ہیں اور انہیں پانچ سال تک ان اضلاع میں کام بھی کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے کبھی نہیں ملا تاہم اصولی طور پر ان کی بحالی کے حق میںہوں۔ انہوں نے کہا کہ مری معاہدہ پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ہم اس معاہدہ کے تحت ججوں کی بحالی چاہتے تھے۔ ہم نے پیپلز پارٹی سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے طریقہ سے ججوں کو بحال کردے۔ اگر یہ طریقہ وکلاء اور سول سوسائٹی نے قبول کیا تو اسے ہم بھی قبول کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ میں حصہ لینا کسی بھی طور غیر قانونی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف کی ہدایت پرلانگ مارچ میں بھرپور حصہ لے گی اور میاں نوازشریف خود بھی لانگ مارچ سے خطاب کریں گے۔ بجلی کے بحران سے متعلق وزیراعلی نے کہاکہ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں ہوں جسے سیاسی بنا کر ناقابل تعمیر بنادیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران بھاشا ڈیم کی تعمیر کیوں شروع نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد جس طرح فنڈز آئے اور دیگر وسائل سے اس ڈیم کی تعمیر شروع کی جاتی تو یہ ڈیم چھ سال بعد مکمل ہوجاتا اور اس سے پاکستان کو2500میگاواٹ بجلی ملنے کے علاوہ بہت سی بنجر اراضی قابل کاشت بھی بن جاتی۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ اس عرصہ میں تھرمل پاور کے ذریعے بھی بجلی پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ہم کوشش کریں گے کہ اس پر جلد قابو پالیا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحاد سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان دونوں جماعتوں کا اتحاد الیکشن سے پہلے کا ہے جس کا ثبوت لندن دبئی اور جدہ میں میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں ہیں۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ انصاف کی فراہمی ،سرکاری سکولوں میں کمپیوٹر کی تعلیم اور عوام کو میڈیکل سہولتیں فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہوگی۔

شیخ حسینہ کی زبان بندی ، کسی بھی وقت امریکہ روانہ کئے جانے کا امکان

ڈھاکہ ۔ بنگلہ دیشی فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت نے سابق وزیر اعظم اور عوامی لیگ کی قائد شیخ حسینہ کی زبان بندی کا حکم دیا ہے جو ان کی امریکہ روانگی تک برقرار رہے گا ۔ حکومت نے شیخ حسینہ کو اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا ۔ ان کی پارٹی عوامی لیگ نے یہ دعویٰ کیا ۔ حکومت نے آج یہ اعلان کیا تھا کہ وہ شیخ حسینہ کو رہا کرے گی۔ تاکہ وہ بیرون ملک اپنا علاج کرا سکے ۔ 11 ماہ قبل انہیں رشوت ستانی کے خلاف ملک میں شروع کی گئی زبردست مہم کے تحت گرفتار کیا گیا تھا ۔ پارٹی کے ایک سینئر قائد نے کہا حکومت یہ نہیں چاہتی کہ شیخ حسینہ ملک چھوڑنے سے قبل عوام میں کسی سے بھی کوئی بات کریں ۔ حکام نے 60 سالہ شیخ حسینہ کو علاج کے لئے اگلے دو دن میں ملک سے روانہ کرنے کی رسمی کارروائیوں کو تقریباً قطعیت دے دی ہے ۔ عہدیداروں اور پارٹی کے ذرائع نے یہ بات کہی ۔ عوامی لیگ کے عہدیداروں نے کہا کہ انہیں کل شام ملک سے باہر روانہ کرنے کے لئے سنگاپور ایئرلائنز کی ایک خصوصی فلائٹ کا انتظام کیا گیا ہے تاہم اخبار ڈیلی سٹار نے عبوری حکام کے انتہائی اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ علیل سابق وزیر اعظم ہو سکتا ہے کہ 12 جون کو ملک سے روانہ ہوں ۔ عوامی لیگ کے اندرونی حلقوں نے کہا کہ شیخ حسینہ امریکہ روانہ ہونے سے قبل اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے اپنے آبائی گھر جانا چاہتی ہیں لیکن حکومت چاہتی ہے کہ شیخ حسینہ جیل سے سیدھا ایئرپورٹ جائیں اور طیارے میں سوار ہوں ۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل محابس میجر شمس الحیدر صدیقی نے کل پارلیمنٹ کامپلکس میں عارضی طور پر بنائی گئی جیل میں شیخ حسینہ سے ملاقات کی لیکن کہا کہ انہیں حسینہ کی رہائی کے سلسلے میں کوئی انتظامی حکمنامہ وصول نہیں ہوا ہے ۔ عدالت نے کل حسینہ کو رشوت ستانی کے 4 الزامات کی سماعت کے لئے ان کی اصلالتاً پیشی سے متثنی کیا جبکہ پولیس نے عدالت کی ہدایت پر گزشتہ سال 16 جولائی کو ان کی گرفتاری کے بعد ضبط کردہ ان کا پاسپورٹ بھی لوٹا دیا ہے ۔