ہنگو ۔ ہنگو میں امن جرگہ اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ختم ہو گیا جبکہ طالبان نے شناوڑی قلعہ خالی کر دیا۔ ہنگو میں علماء کے پندرہ رکنی جرگہ اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ختم ہو گیا ہے۔ جسے دونوں فریقین نے مثبت قرار دیا ہے۔ مذاکرات کا دوسرا دور بھی آج ہو گا۔ طالبان نے علما کو مذاکرات کے دوسرے دور کے لئے ان کی طرف سے فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ جبکہ سرحد حکومت نے عوامی نیشنل پارٹی کے وفاقی وزیر پیر حیدر شاہ کو طالبان سے مذاکرات کی اجازت دے دی ہے۔اس سے پہلے جرگہ ارکان نے بتایا تھا کہ طالبان نے اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی، دوآبہ سے کرفیو کے خاتمے اور متوقع فوجی آپریشن ختم کرنے کے مطالبات کئے ہیں۔ دوسری جانب شناوڑی میں مقامی طالبان نے امن جرگہ کی درخواست پر ایف سی کا قلعہ خالی کر دیا ہے۔ دوآبہ میں چھٹے روز بھی کرفیو بدستور نافذ ہے اور سیکورٹی فورسز علاقے میں گشت کر رہی ہیں۔ادھر جے یو آئی کے رہنما اور ثالثی جرگہ کے سربراہ شجاع الملک نے کہا ہے کہ 17 جولائی کے گرینڈ جرگہ میں وادی تیراہ کے فریقین سے معافی نامے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مردان میں ایک نجی ٹی وی چینل سے خصوصی بات چیت میں مولانا شجاع الملک نے کہا کہ فریقین نے وادی تیراہ میں فائر بندی کے لئے جرگہ کو مکمل اختیار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 17جولائی کو گرینڈ جرگے میں دونوں فریقین سے معافی نامہ حاصل کرنے کے لئے بات کی جائے گی۔ شجاع الملک کا کہنا تھا کہ بعض عناصر قبائلی علاقوں میں قیام امن کے خلاف ہیں جس کے باعث جرگہ کوششوں کے باوجود فائر بندی نہیں کرا سکا۔ انہوں نے کہا کہ ثالثی جرگہ کو مالانا فضل الرحمان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, July 15, 2008
پشاور ، کیبل آپریٹرز نے تمام افغان چینلز بند کردیئے
پشاور ۔ پشاور میں کیبل آپریٹرز نے حکومت کی ہدایت پر تمام افغان چینلز بند کر دیئے۔ کیبل سے افغان چینلز بند کرنے کا فیصلہ کیبل آپریٹرز کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ جس میں تمام عہدیداران اور ممبرز نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد ایسوسی ایشن کے سیکریٹری اطلاعات رحیم خان نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ افغان حکومت پاکستان کے خلاف سخت زبان استعمال کر رہی ہے اور غلط بیان جاری کئے جا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں افغان چینلز کی نشریات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ جب تک افغانستان حکومت پاکستان سے معافی نہیں مانگتی پشاور میں افغان چینلز کی نشریات بحال نہیں کی جائیں گی۔
نامعلوم افراد کا ایف آر کوہاٹ خاصہ دار پوسٹ پر راکٹ حملہ ، پنجاب سے کوہاٹ جانے والے دو پولیس اہلکار اغواء
تیمرہ گرہ ۔ نامعلوم تخریب کاروں کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوراٹر تیمرہ گرہ پر میزائیلوں کا حملہ 5سیکورٹی اہلکار معمولی زخمی ، گولہ لگنے سے سرکاری ڈاکٹر کے نجی رہائش گاہ کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ۔ ایک گولہ دیر سکاؤٹس چھاؤنی گیٹ کے ساتھ ،دو پریڈ گراؤنڈ ایک ڈی سی او رہائش گاہ اور ایک میزائل گولہ نیشنل بینک اور ٹیلی فون ایکس چینج کے قریب گرا ۔ میزائل گولے مختلف مقامات کے خالی جگہوں پر گرنے سے زیادہ جانی اور مالی نقصان نہ ہو سکا ۔ سیکورٹی فورسز نے بھی بھاری ہتھیاروں سے جوابی فائرنگ کی رات 3بجے سے نماز فجر تک دونوں اطراف سے بھاری ہتھیاروں کی گھن گر چ آوازوں اور سیکورٹی فورسز کی روشنی کے گولے پھینکنے سے لوگ گہری نیند سے بیدار ہو کر صبح تک جاگتے رہے ۔ واقعات کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب نا معلوم تخریب کاروں نے ملا کنڈ پائین دن کے پہاڑوں سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر تیمر گرہ (بلا مبٹ ) کو نشانہ بنا کر دس میزائل کے گولے داغے جو مختلف مقامات کے خالی جگہوں پر گرے جس سے زیادہ مالی یا جانی نقصان نہ ہو سکا تاہم گولوں کے ٹکڑوں سے 5سیکورٹی اہلکاروں کو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ ایک گولہ لگنے سے تیمرہ گرہ ہسپتال کے سرکاری ڈاکٹر کے نجی رہائش گاہ کو جزوی طور پر نقصان پہنچا اور دیگر میزائل پرڈی گراؤنڈ ڈی سی او اور رہائش گاہ کے قریب اور ٹیلی فون ایکس چینج کے ساتھ دریائے پنجکوڑہ کے کنارے درختوں میں لگے ۔ تخریب کاروی کی طر ف سے وقفے وقفے کے بعد میزائل داغنے جبکہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے بھی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں بھاری ہتھیاروں کی گھن گر چ آوازیں دور دور تک سنی گئیں
لاڑکانہ ، جسٹس عبدالحمید ڈوگر کیخلاف وکلا ء کی احتجاجی ریلی
لاڑکانہ ۔ لاڑکانہ میں وکلاء نے جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلاف ریلی نکالی۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگرہائی کورٹ کی ایڈیشنل عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے لاڑکانہ آئے تھے ۔ لاڑکانہ میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر احتجاجی ریلی نکالی گئی اور یوم سیاہ منایا گیا۔ وکلاء جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی لاڑکانہ آمد اور پیپلز فورم کی جانب سے ان کے استقبال کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ریلی میں مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، خاکسار تحریک اور سندھ نیشنل فرنٹ کے کارکنوں نے شرکت کی۔ ریلی ڈسٹرکٹ بار سے نکالی گئی اور ڈسٹرکٹ بار کے احاطے میں ختم ہوئی۔ وکلاء نے احتجاجاً دفاتر پر سیاہ پرچم لہرائے۔ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احمد علی شیخ نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی سی او ججز کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ جسٹس عبدالحمید ڈوگر آج ہائی کورٹ کی ایڈیشنل عمارت کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے یہ تقریب صبح گیارہ بجے ہونا تھی تاہم احتجاج کے بعد اس کا وقت تبدیل کر دیا گیا۔ دادو میں بھی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ وکلاء نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
جنوبی افریقہ اور سوئٹزرلینڈ میں ڈاکٹر قدیر خان کے نیٹ ورک کے خلاف قانونی کاروائی شروع ہو چکی ہے۔حکومتی وکیل احمر بلال
اسلام آباد ۔ وفاق کے وکیل احمر بلال نے کہا ہے کہ ایٹمی سائنسدان ایک فوجی ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے اس لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حفاظتی اقدامات سخت کیے گئے ہیں۔وفاق کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بے جا میں رکھنے کی درخواستوں پر عدالت میں جواب داخل کروایا گیا اس جواب کے حق میں دلائل دیتے ہوئے احمر بلال صوفی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2004ء میں جب ڈاکٹر عبدالقدیر کا نیٹ ورک سامنے آیا تو اْس وقت سے حکومت پر بہت زیادہ بین الاقوامی دباؤ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نیٹ ورک دبئی، سوئٹزرلینڈ اور جنوبی افریقہ میں تھا اور جنوبی افریقہ اور سوئٹزرلینڈ میں اس نیٹ ورک کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ احمر بلال نے کہا کہ اگر جج صاحب کہیں تو وہ یہ قانونی کارروائی انہیں چیمبر میں دکھا سکتے ہیں۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد ایران، لیبیا اور شمالی کوریا گئے تھے اور انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔ وفاق کے وکیل نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جو صورتحال چل رہی ہے اْس کی وجہ سے ملک انتہائی نازک دور سے گْزر رہا ہے اور اس پر ڈاکٹر قدیر کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر ایک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سب سے پہلے ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ملک کے عوام دوبارہ محکوم نہ بن جائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے تجویز دی ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک میں گھومنے پھرنے کے اجازت دی جائے اور اْن کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ پر کوئی بات نہ کی جائے۔ یہ تجویز انہوں نے منگل کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حبس بیجا میں رکھنے کے حوالے سے دائر پانچ درخواستوں کی سماعت کے دوران دی۔ انہوں نے درخواست گزاروں کے وکیل جاوید اقبال جعفری اور وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل احمر بلال صوفی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمن سے کہا کہ وہ مل کر بیٹھ جائیں اور اس سلسلے میں کوئی اقدام تجویز کریں۔ درخواست گْزاروں کے وکیل جاوید اقبال جعفری نے حکومت کی طرف سے داخل کروائے گئے جواب کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں لگایا گیا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ جواب کس نے دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت میں زیر سماعت پانچ مختلف درخواستوں میں صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف، داخلہ امور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر رحمان ملک اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ انہوں نے فیڈریشن کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے اس جواب کو اپنے موکل کے خلاف توہین آمیز تحریر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اْن کے مؤکل کے خلاف صرف الزام تراشی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہو۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے ہیروز کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اْن کے موکل ڈاکٹر عبدالقدیر عدالت میں پیش ہوکر تمام حقائق عدالت کو بتانے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل کو بھی عدالت میں طلب کیا جائے اور ان درخواستوں کی سماعت چیمبر میں کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پیر کے روز ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ قومی راز صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’ ان دی لائن آف فائر’ میں افشا کیے ہیں۔ جاوید اقبال جعفری نے عدالت سے استدعا کی کہ ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ قومی راز افشا کرنے میں کون ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور شمالی کوریا پہلے ہی اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ انہوں نے پاکستان سے کوئی ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ ملک میں بہت سے ایسے وزیر اعظم پھر رہے ہیں جن کے پاس قومی راز ہیں لیکن اْن کے ساتھ تو ایسا سلوک نہیں کیا جاتا جیسا اْن کے موکل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے عدالت کو بتایا تھا کہ عبدالقیر خان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ہر کسی سے مل سکتے ہیں تاہم آج حکومت کی طرف داخل کرائے گئے جواب میں یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ ان پر لگائی گئیں پابندیاں مزید سخت کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ اْن کے رشتہ داروں کو بھی نہیں ملنے دیا جا رہا۔ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی
ذوالفقار علی بھٹواور بے نظیر بھٹو کی لاش پر سیاست کرنے والے ان میں سے کسی ایک کے بھی اصولی موقف کی ترجمانی نہیں کر رہے۔ جسٹس (ر) طارق محمود
چکوال ۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جسٹس(ر) طارق محمود نے کہاہے کہ ذوالفقار علی بھٹواور بے نظیر بھٹو کی لاش پر سیاست کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان دونوں لیڈران میں سے کسی ایک کے بھی اصولی موقف کی ترجمانی نہیں کر رہے اور اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان دو ناموں کے سہارے اس ملک پر پانچ سال حکومت کر جائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور معزول ججوں کی بحالی کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کا جو کردار سامنے آرہا ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نظریات کی مکمل نفی ہے وہ اسلام آباد سے چکوال پریس کلب میں ٹیلی فونک گفتگو کر رہے تھے انہوںنے کہاکہ اب جو کھیل شروع ہوا ہے اس میں میاں محمد نواز شریف کو کافی احتیاط سے کام لیناہوگا کیونکہ آصف علی زرداری نہ تو سیاستدان ہیں وہ ایک حادثاتی طورپر سامنے آئے ہیں اور ابھی تک اٹھارہ فروری کا جومینڈیٹ پاکستان پیپلز پارٹی کوملا ہے وہ اس کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں ایک اور سوال کے جواب میں جسٹس (ر) طارق محمود نے کہاکہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے جو موجودہ دورے ہیں ان کو پورے ملک میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی جس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے وکلاء کو جو تقسیم کرنے کی کوشش ہے وہ کامیاب نہیں ہوئی ہے اور عبدالحمید ڈوگر اپنی سروائیول کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں اور وکلاء برادری میں ان کو جتنی پذیرائی ملی ہے وہ سب نے دیکھ لیا ہے انہوں نے کہاکہ انیس جولائی کو لاہور میں کل پاکستان وکلاء کنونشن ہو گا جس میں مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان ہو گا انہوں نے کہاکہ وکلاء نے اپنے آپ کو ایک طویل جدوجہد کیلئے تیار کرلیاہے اوروکلاء کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے انہوں نے کہاکہ صدرضیاء الحق مرحوم نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے مگر اب پیپلز پارٹی کو ان کے اپنوں کے ذریعے ہی ختم کرنے کی جو کوشش شروع ہوئی ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں کامیاب دکھائی دیتی ہیں انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ کامیاب رہا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پوری قوم ایک آزاد عدلیہ اور معزول ججوں کی بحالی چاہتی ہے انہوں نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کا نام آج اس وجہ سے زندہ ہے کہ انہوں نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر موجودہ پیپلز پارٹی نے کوئی اصول اور دستور ابھی تک سامنے دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔
قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے حوالے سے وزیراعطم کا بیان اتحادی افواج کو ان علاقوں میں مداخلت کا جواز فراہم کرنا ہے ۔ترجمان طالبان مولوی ع
اگر کسی نے قبائلی علاقوں میں کارروائی کی کوشش کی تو قبائلی عوام جانوں کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گےتحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کی صحافیوں سے گفتگو
خارباجوڑ ایجنسی ۔ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان مولوی عمر نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی قبائلی علاقوں میں غیر ملکی افراد کی موجودگی کے بارے میں دئیے جانے والے بیان کے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی افراد کی موجودگی کا بیان دراصل امریکہ اور نیٹو ممالک کی لئے قبائلی علاقوںمیں مداخلت کیلئے جواز اور بہانہ بنانا ہے تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان مولوی عمر نے نا معلوم مقام سے صحافیوں کے سات بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی افراد کی موجودگی کے بارے بیان دے کر قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ دشمنی کا ثبت دیا ہے انہوں نے وزیراعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی اور کہاکہ قبائلی علاقوں میں کوئی غیر ملکی موجود نہیں ہے اور وزیراعظم صرف امریکہ اور نیٹو ممالک کیلئے قبائلی علاقوں میں کارروائی کیلئے جواز پیدا کر رہے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادی افواج نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملہ کیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے قبائلی علاقوں پر حملہ کیا تو اس کے تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی اففاد کی موجودگی کے حوالے سے حالیہ بیان کے نتیجے میں قبائلی عوام کے دلوں میں حکومت کیلئے نفرت میں اضافہ ہوا ہے مولوی عمر نے کہاکہ امریکہ اور حامد کرزئی کا قبائلی علاقوں میں کارروائی کرنے کا حالیہ بیان پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے منافی ہے انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام کسی ملک کو اپنے علاقے میں فوجی کارروائی کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے اور اگر کسی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت اور کارروائی کرنے کی کوشش کی تو قبائلی عوام بیرونی جارحیت کے خلاف جانوں کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے انہوں نے کہاکہ بیرونی جارحیت کی صورت میں غیور قبائلی عوام اور تحریک طالبان امریکی اوراتحادی افواج کے خلاف جذبہ جہاد سے سرشار ہے اور قبائلی عوام امریکی افواج کے خلاف جہاد کیلئے چوکس اور پوری طرح تیار ہے انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ قبائلی عوام نے ہمیشہ تمام بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے انہوں نے کہاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔
خارباجوڑ ایجنسی ۔ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان مولوی عمر نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی قبائلی علاقوں میں غیر ملکی افراد کی موجودگی کے بارے میں دئیے جانے والے بیان کے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی افراد کی موجودگی کا بیان دراصل امریکہ اور نیٹو ممالک کی لئے قبائلی علاقوںمیں مداخلت کیلئے جواز اور بہانہ بنانا ہے تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان مولوی عمر نے نا معلوم مقام سے صحافیوں کے سات بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی افراد کی موجودگی کے بارے بیان دے کر قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ دشمنی کا ثبت دیا ہے انہوں نے وزیراعظم کے اس بیان کی شدید مذمت کی اور کہاکہ قبائلی علاقوں میں کوئی غیر ملکی موجود نہیں ہے اور وزیراعظم صرف امریکہ اور نیٹو ممالک کیلئے قبائلی علاقوں میں کارروائی کیلئے جواز پیدا کر رہے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادی افواج نے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملہ کیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے قبائلی علاقوں پر حملہ کیا تو اس کے تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی اففاد کی موجودگی کے حوالے سے حالیہ بیان کے نتیجے میں قبائلی عوام کے دلوں میں حکومت کیلئے نفرت میں اضافہ ہوا ہے مولوی عمر نے کہاکہ امریکہ اور حامد کرزئی کا قبائلی علاقوں میں کارروائی کرنے کا حالیہ بیان پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے منافی ہے انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام کسی ملک کو اپنے علاقے میں فوجی کارروائی کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے اور اگر کسی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت اور کارروائی کرنے کی کوشش کی تو قبائلی عوام بیرونی جارحیت کے خلاف جانوں کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے انہوں نے کہاکہ بیرونی جارحیت کی صورت میں غیور قبائلی عوام اور تحریک طالبان امریکی اوراتحادی افواج کے خلاف جذبہ جہاد سے سرشار ہے اور قبائلی عوام امریکی افواج کے خلاف جہاد کیلئے چوکس اور پوری طرح تیار ہے انہوں نے کہاکہ قبائلی عوام اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ قبائلی عوام نے ہمیشہ تمام بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے انہوں نے کہاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد جاری رہے گا۔
شمالی وزیرستان سے ملحقہ پاک افغان سرحد پر اتحادی افواج کی نقل و حرکت میں اضافہ ، آئی ایس پی آر کی تردید
اسلام آباد+ وانا، میرانشاہ ۔ شمالی وزیرستان میں بیرل اور لوازہ منڈی کے قریب نقل و حرکت بڑھ گئی اور مزید سینکڑوں اتحادی فوجی علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔ ابتدائی اطلاع کے مطابق ٹینکوں اور جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح اتحادی فوج کی تعداد تین سو کے قریب ہے ۔ اتحادی فوج کی موجودگی سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیاہے۔ اس سے پہلے شمالی وزیرستان پر امریکی جاسوس طیاروں کی پروازیں مسلسل کئی ماہ سے جاری ہیں ۔دوسری طرف پاک فوج نے شمالی وزیرستان سے ملحق پاک افغان سرحد پر نیٹو افواج کے تازہ دم دستوں کی بھاری ہتھیاروں کے ساتھ پیش قدمی کی خبر کی تردید کر دی ہے ۔ادھر قبائلیوں نے خبردار کیا ہے کہ نیٹوافواج نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کے فوجی ذرائع کے مطابق اتحادی فوج کو پاکستان میں کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا موثر جواب دیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستانی حدود میں کارروائی کا اختیار صرف پاک فوج کے پاس ہے۔ ادھر اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان سے ملحق پاک افغان سرحدی علاقوں میں نیٹوافواج نے بھاری توپ خانے اور ٹینکوں کے ہمراہ پیش قدمی کی ہے۔ ڈورچھپر، ڑاوڑ اور سیدگی کے سرحدی علاقوں میں پانچ سو اتحادی فوجی پہنچا دیئے گئے ہیں جبکہ شوال، الواڑہ منڈی اور غلام خان کے سرحدی علاقوں میں اتحادی فوج گزشتہ دس ماہ سے موجود ہے۔نیٹوافواج کے تازہ دم دستوں کے پاس اپاچی اور کوبرا ہیلی کاپٹرز کے علاوہ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور بھاری توپ خانہ ہے۔ اتحادی فوج نے ڈیورنڈ لائن پار نہیں کی ہے تاہم فوجی دستے سرحد کے قریب تعینات کر کے سرحد پر گشت میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں سخت خوف پیدا ہو گیا ہے۔ دوسری جانب آئی ایس پی آر نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ افغان سرحد پر غیر معمولی فوجی نقل و حرکت نہیں ہوئی ۔
امریکی جریدے میں صدارتی امیدوار باراک اوبامہ کے کارٹون کی اشاعت ، باراک اوبامہ نے غیر شائستہ اور توہین آمیز قرار دے دیا
واشنگٹن ۔ موقر امریکی جریدے نیو یارکر نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار باراک اوبامہ کا ایک کارٹون شائع کیا ہے جس کے بعد اوبامہ اور ان کے روایتی حریف جان میکنن نے اس پر شدید تنقید کی ہے اور اسے توہین آمیز اور غیر شائستہ حرکت قرار دیا ہے اس کارٹون میںبارک اوبامہ کو روایتی اسلامی کپڑوں میں، اور ان کی اہلیہ کو ایک دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔دیوار پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایک تصویر بھی ٹنگی ہوئی ہے اور اس کے نیچے امریکی قومی پرچم جلتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگوں نے اوبامہ کو ’اوسامہ‘ کہہ کر، اور انہیں مسلمان قرار دیکر، یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ صدارتی انتخاب میں باراک اوبامہ کی کامیابی براہ راست دہشت گردوں کی کامیابی ہوگی۔ اوبامہ کے والد مسلمان تھے اور وہ اب بھی اپنا پورا نام باراک حسین اوبامہ لکھتے ہیں۔ لیکن وہ متعدد بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں عیسائی ہیں۔ اوبامہ اور ان کے رپبلکن حریف جان مکین، دونوں نے ہی نیو یارکر کی جانب سیاس کارٹون کی اشاعت پر سخت تنقید کی ہے۔ اوبامہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ کارٹون ’توہین آمیز اور غیر شائستہ‘ ہے۔لیکن میگزین کا کہنا ہے کہ یہ کارٹون دراصل بائیں بازو کی جانب سے سینیٹر اوبامہ پر کیے جانے والے حملوں پر ایک ’طنزیہ کمینٹ‘ ہے۔ ایک بیان میں نیو یارکر میگزین نے کہا کہ کارٹون میں، جو میگزین کے کور پر شائع کیا گیا ہے، اوبامہ اور ان کی اہلیہ کے بارے میں کہی جانے والی بے بنیاد باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ میگزین کا دعوی ہے کہ اس نے سینیٹر اوبامہ پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کی اس کارٹو کے ذریعہ تنقید کی ہے اور اسی لیے اسے ’خوف کی سیاست ‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ نیو یارکر کے مطابق اس جریدے میں مسٹر اوبامہ کے بارے میں دو انتہائی سنجیدہ مضامین شامل ہیں۔لیکن مسٹر اوبامہ کے ترجمان نے کہا کہ نیو یارکر کا یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اس نے مسٹر اوبامہ کی اس شبیہہ پر طنز کیا ہے جو ان کے دائیں بازو کے مخالفین پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن زیادہ تر قارئین اسے غیر شائستہ اور توہین آمیز تصور کریں گے اور ہم بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
Top 100 Public Intellectuals
They are some of the world’s most introspective philosophers and rabble-rousing clerics. A few write searing works of fiction and uncover the mysteries of the human mind. Others are at the forefront of modern finance, politics, and human rights. In the second Foreign Policy/Prospect list of top public intellectuals, we reveal the thinkers who are shaping the tenor of our time.
The Foreign Policy/Prospect 2008 World’s Top 100 Public Intellectuals poll is now closed.
To view the complete list of intellectuals, please click here.
Foreign Policy and Prospect will publish the results of the poll on June 23.
Aitzaz Ahsan, Pakistan
Lawyer and politician
As president of Pakistan’s Supreme Court Bar Association and a senior figure in the Pakistan People’s Party, Ahsan has played a leading role in opposing antidemocratic moves by Pakistani President Pervez Musharraf. He is author of The Indus Saga and the Making of Pakistan.
Kwame Anthony Appiah, Ghana/United States
Philosopher
Appiah is Laurance S. Rockefeller University professor of philosophy at Princeton University and author of numerous books and novels, including The Ethics of Identity.
Anne Applebaum, United States
Journalist, historian
A regular columnist for the Washington Post, Applebaum is a veteran journalist and author of Gulag: A History, a Pulitzer Prize-winning account of the Soviet prison system. She wrote “In Search of Pro-Americanism” for the July/August 2005 issue of FP.
Jacques Attali, France
Economist, writer
A past advisor to former French President François Mitterrand, Attali played a leading role in helping former Warsaw Pact countries make the transition to market economies. He is author of Noise: The Political Economy of Music. A contributing editor to Foreign Policy, Attali wrote “Here Today, Gone Tomorrow: Monogamy” for the September/October 2005 issue of FP.
George Ayittey, Ghana
Economist
Ayittey is a prominent Ghanaian scholar, activist, and author of Africa Unchained: The Blueprint for Africa’s Future. As president of the Washington-based Free Africa Foundation, he argues that “Africa is poor because she is not free.” He is an economist in residence at American University.
Daniel Barenboim, Israel
Conductor, pianist, peace activist
An outspoken critic of Israeli policies in the Palestinian territories, Barenboim is “conductor for life” at the Berlin State Opera and is widely seen as a successor to Lorin Maazel at the New York Philharmonic.
Anies Baswedan, Indonesia
University president, political analyst
Currently president of Paramadina University in Jakarta and a noted researcher, Baswedan played a leading role in the student movements that helped oust Indonesian dictator Suharto.
Pope Benedict XVI, Germany/Vatican
Religious leader, theologian
Born Joseph Alois Ratzinger, Pope Benedict is a leading theologian and a staunch defender of Catholic traditions and values. Prior to his election as pope in 2005, he was a prolific author and commentator and even cofounded a theological journal, the influential Communio. Before Ratzinger’s election, R. Scott Appleby wrote “Job Description for the Next Pope” in the January/February 2004 issue of FP.
Ian Buruma, Britain/Netherlands
Essayist
A former journalist who spent years working in Asia, Buruma is best known for Murder in Amsterdam: The Death of Theo van Gogh and the Limits of Tolerance and for his commentary on faith and moral relativism. He is a widely syndicated columnist and a popular lecturer.
Fernando Henrique Cardoso, Brazil
Politician, author
An internationally renowned sociologist and a two-term former president of Brazil, Cardoso is a professor at Brown University’s Watson Institute for International Studies. He has authored numerous books, including Dependency and Development in Latin America, and is a director of the Club of Madrid. He wrote “Here Today, Gone Tomorrow: Political Parties” for the September/October 2005 issue of FP.
Noam Chomsky, United States
Linguist, activist
A professor at the Massachusetts Institute of Technology since 1955, the prolific Chomsky is a groundbreaking linguist and a prominent critic of U.S. foreign policy. He wrote “What Is the International Community: The Crimes of 'Intcom'” for the September/October 2002 issue of FP.
J.M. Coetzee, South Africa
Novelist
The 2003 winner of the Nobel Prize in Literature, Coetzee wrote his most famous novels—Waiting for the Barbarians, Life & Times of Michael K , and Disgrace—while a university professor in South Africa and the United States.
Paul Collier, Britain
Development and conflict economist
Author most recently of The Bottom Billion: Why the Poorest Countries Are Failing and What Can Be Done About It, awarded the 2008 Gelber Prize, Collier is professor of economics at Oxford University and a leading expert on the governance and development challenges faced by the world’s poorest countries. He wrote “Africa’s Revolutionary Routine” in the May/June 2004 issue of FP.
Richard Dawkins, Britain
Biologist, author
Dawkins’s seminal 1976 work, The Selfish Gene, explores the role played by genes in the evolutionary process. He may be better known today for the criticisms of religion and “intelligent design” theories put forth in The God Delusion. He shares his “Epiphanies” in the May/June 2008 issue of FP.
Alex de Waal, Britain
Writer, Africa activist
A program director at the Social Science Research Council, de Waal is a frequently cited expert on the Darfur crisis and on African health issues.
Thérèse Delpech, France
Political scientist
One of France’s most respected analysts of international affairs, Delpech is director for strategic studies at the Atomic Energy Commission of France, senior research fellow at CERI (Center of International Relations Studies), and author most recently of Savage Century: Back to Barbarism.
Daniel Dennett, United States
Philosopher
Dennett is the Austin B. Fletcher professor of philosophy at Tufts University, where his life’s work is building a “philosophy of mind” to explain how human consciousness works. He is the author of Content and Consciousness, Consciousness Explained, Darwin's Dangerous Idea, and Breaking the Spell, among others.
Jared Diamond, United States
Biologist, historian
The preeminent scholar of the relationship between the environment and civilizational success, Diamond is the Pulitzer Prize-winning author of Guns, Germs, and Steel and Collapse. He is professor of geography and physiology at the University of California, Los Angeles.
Esther Duflo, France
Development economist
Duflo is the Abdul Latif Jameel professor of poverty alleviation and development economics at the Massachusetts Institute of Technology, where she studies health, poverty, and credit issues in the developing world. She wrote “21 Solutions to Save the World: Fund What Works” for the May/June 2007 issue of FP.
William Easterly, United States
Economist, aid skeptic
A scathing critic of “the ideology of development,” Easterly views much foreign aid as messianic, wasted, or even harmful to developing countries. He is professor of economics at New York University, author of The White Man’s Burden: Why the West’s Efforts to Aid the Rest Have Done So Much Ill and So Little Good, and a frequent contributor to Foreign Policy.
Shirin Ebadi, Iran
Lawyer, human rights activist
Awarded the Nobel Peace Prize in 2003 for her advocacy on behalf of Iranian dissidents and others, especially women and children, Ebadi is a human rights lawyer in Tehran and author of the memoir Iran Awakening: A Memoir of Revolution and Hope.
Umberto Eco, Italy
Medievalist, novelist
Eco’s dense novels, such as The Name of the Rose and Foucault’s Pendulum, are a dizzying blend of philosophy, biblical analysis, and arcane literary references. An expert in the burgeoning field of semiotics, he is president of the Advanced School of Humanist Studies at the University of Bologna.
Fan Gang, China
Economist
Foreign analysts watch closely the remarks of Fan, the influential director of the government-affiliated National Economic Research Institute in Beijing and a leading reform advocate, for clues about what Chinese leaders are thinking about the global economy.
Drew Gilpin Faust, United States
University president, historian
Harvard University’s first female president, Faust is a respected historian of the American Civil War and the author of six books, including most recently This Republic of Suffering: Death and the American Civil War.
Niall Ferguson, Britain
Historian
The Laurence A. Tisch professor of history at Harvard University and a senior fellow at the Hoover Institution at Stanford University, Ferguson is a prolific author best known for The Pity of War, his counterintuitive take on the British role in World War I. He wrote “Empires with Expiration Dates” in the September/October 2006 issue of FP and “A World Without Power” in the July/August 2004 issue.
Alain Finkielkraut, France
Essayist, philosopher
One of France’s most prominent columnists, the controversial Finkielkraut teaches about the “history of ideas” at the École Polytechnique in Paris and is a polemical critic of modern French society.
Thomas Friedman, United States
Journalist, columnist
Friedman—New York Times foreign affairs commentator, three-time Pulitzer Prize-winning journalist, and author of The World Is Flat and From Beirut to Jerusalem—is one of the world’s most popular and influential syndicated columnists. He wrote “The First Law of Petropolitics” for the May/June 2006 issue of FP.
Francis Fukuyama, United States
Political scientist
Renowned for declaring The End of History after the fall of the Soviet Union, Fukuyama is professor of international political economy at the School of Advanced International Studies at Johns Hopkins University and author most recently of America at the Crossroads: Democracy, Power, and the Neoconservative Legacy. He wrote “The World’s Most Dangerous Ideas: Transhumanism” for the September/October 2004 issue of FP.
Yegor Gaidar, Russia
Economist, politician
Gaidar was Boris Yeltsin’s acting prime minister from June 15 to December 14, 1992 and a proponent of “shock therapy” for the Russian economy. He is a contributing editor to FP.
Howard Gardner, United States
Psychologist, author
The John H. and Elisabeth A. Hobbs professor of cognition and education at the Harvard Graduate School of Education, Gardner is the recipient of a MacArthur “genius grant” and the author of more than 20 books, most recently Responsibility at Work and Five Minds for the Future. He wrote “21 Solutions to Save the World: An Embarrassment of Riches” for the May/June 2007 issue of FP.
Neil Gershenfeld, United States
Physicist, computer scientist
Gershenfeld heads the Center for Bits and Atoms at the Massachusetts Institute of Technology, where he takes an interdisciplinary approach to quantum computing, nanotechnology, and personal fabrication. He is author most recently of Fab: The Coming Revolution on Your Desktop—From Personal Computers to Personal Fabrication.
Malcolm Gladwell, Canada/United States
Pop sociologist, journalist
Author of Blink and The Tipping Point, Gladwell is a National Magazine Award-winning staff writer at The New Yorker.
Al Gore, United States
Climate change activist, politician
Since serving two terms as Bill Clinton’s vice president in the 1990s, Gore has become a leading advocate on climate change and a winner of the Nobel Peace Prize. He starred in the Oscar-winning documentary An Inconvenient Truth.
Ramachandra Guha, India
Historian
An Indian historian, columnist and MacArthur fellow, Guha has taught in the United States, Norway, and now in Bangalore. He is author of India After Gandhi.
Alma Guillermoprieto, Mexico
Journalist, author
A Mexican journalist and a MacArthur fellow, Guillermoprieto has written extensively in such publications as The New Yorker, The New York Review of Books, and the Washington Post. A veteran war correspondent, she is a former South America bureau chief for Newsweek and author of Dancing with Cuba. Her chronicles of Latin America’s “lost decade” were published as The Heart That Bleeds in 1994.
Fethullah Gülen, Turkey
Religious leader
A modernist Islamic scholar and leader of the movement named after him, Gülen is widely considered one of the most important Muslim thinkers alive today. He has authored more than 60 books.
Jürgen Habermas, Germany
Philosopher
Habermas’s diverse interests range from epistemology to the rule of law, but his most influential work is on the “public sphere”—the arena in which arguments about political matters take place. He is author of The Theory of Communicative Action and, most recently, The Dialectics of Secularization, a dialogue with Joseph Ratzinger.
Vaclav Havel, Czech Republic
Statesman, playwright
A leading dissident and repeated political prisoner during the Soviet era, Havel became president of Czechoslovakia after the Velvet Revolution of 1989, saw his country through a transition to a democratic market economy, and managed the split with Slovakia.
Ayaan Hirsi Ali, Somalia/Netherlands
Activist, politician
A former member of the Dutch parliament and a fierce critic of the role of women in Islam, Ali has feared for her life since writing the screenplay for Submission, the provocative short film that led to Theo van Gogh’s murder.
Christopher Hitchens, Britain/United States
Journalist, author
One of the English language’s most sought-after polemicists, Hitchens is a columnist for Vanity Fair and the author of God Is Not Great: How Religion Poisons Everything. He wrote “The Plight of the Public Intellectual” in the May/June 2008 issue of FP.
Hu Shuli, China
Journalist
Managing editor of Caijing, a top Chinese business magazine, Hu is a veteran journalist, author, and panelist for the Washington Post's PostGlobal.
Samuel Huntington, United States
Political scientist
Through such works as Political Order in Changing Societies, Huntington’s influence on his field is profound, but his most famous book is certainly The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order. Currently the Albert J. Weatherhead III professor at Harvard University, Huntington cofounded Foreign Policy in 1970. He wrote his provocative article “The Hispanic Challenge” for the March/April 2004 issue of FP.
Michael Ignatieff, Canada
Human rights theorist, politician
A past winner of the Gelber Prize for his book Blood and Belonging: Journeys into the New Nationalism, Ignatieff is a leading thinker on human rights issues. He is deputy leader of Canada’s Liberal Party and former head of Harvard University’s Carr Center for Human Rights Policy.
Tony Judt, Britain
Historian
Judt is the Erich Maria Remarque professor in European studies at New York University, author of Postwar: A History of Europe Since 1945, and a frequent contributor to the New York Review of Books.
Robert Kagan, United States
Author, political commentator
An influential columnist for the Washington Post and elsewhere, Kagan is senior associate at the Carnegie Endowment for International Peace and author most recently of The Return of History and the End of Dreams. He wrote “From Victory to Success: Looking for Legitimacy in All the Wrong Places” in the July/August 2003 issue of FP.
Daniel Kahneman, Israel/United States
Psychologist
A Nobel laureate for his work on “prospect theory,” Kahneman is senior scholar at Princeton University’s Woodrow Wilson School of Public and International Affairs and the Eugene Higgins professor of psychology emeritus at Princeton. He cowrote “Why Hawks Win” in the January/February 2007 issue of FP, which was selected for publication in The Best American Political Writing 2007.
Garry Kasparov, Russia
Democracy activist, chess grandmaster
Since his days as a world chess champion, Kasparov has become an outspoken critic of outgoing Russian President Vladimir Putin. Chairman of the United Civil Front, a democratic activist group, he wrote “21 Solutions to Save the World: A Global Magna Carta” for the May/June 2007 issue of FP.
Amr Khaled, Egypt
Muslim televangelist
An entrepreneurial preacher and broadcaster, Khaled is an accountant by training but a born evangelical leader. The moderate Khaled, who preaches a message of tolerance and personal redemption through Islam, is wildly popular among younger Muslims in the Arab world.
Rem Koolhaas, Netherlands
Architect
Koolhaas is Pritzker Prize-winning principal at the Office for Metropolitan Architecture, but his influence extends to urban theory, journalism, and beyond. The cofounder of Volume magazine, his most famous works include Maison à Bordeaux, the Seattle Public Library, and the Casa da Musica hall in Porto, Portugal. He is professor in practice at Harvard University’s architecture department and author of Delirious New York and S,M,L,XL.
Ivan Krastev, Bulgaria
Political scientist
Chairman of the Centre for Liberal Strategies in Sofia, Krastev is editor of FP’s Bulgarian edition and author of “What Russia Wants” in the May/June 2008 issue of FP.
Enrique Krauze, Mexico
Historian
Krauze is publisher of Editorial Clío and editor of Letras Libres, a Mexican cultural magazine. He is author of Mexico: Biography of Power.
Paul Krugman, United States
Economist, columnist
A fiery political commentator for the New York Times and a respected trade theorist, Krugman is a John Bates Clark Medal-winning economist at Princeton University. His most recent book is The Conscience of a Liberal. He wrote “Europe Jobless, America Penniless?” in the Summer 1994 issue of FP.
Lee Kuan Yew, Singapore
Politician, national patriarch
Lee stepped down as prime minister in 1990, but he remains a towering figure in Singaporean politics. His current post is “minister mentor,” a job created just for him. He wrote “Here Today, Gone Tomorrow: Laissez-Faire Procreation” for the September/October 2005 issue of FP.
Lawrence Lessig, United States
Legal scholar, activist
The darling of cyberspace for his efforts to reduce restrictions on intellectual property, Lessig is professor of law at Stanford University and author of The Future of Ideas. He wrote “The Internet Under Siege” for the November/December 2001 issue of FP.
Steven Levitt, United States
Economist, author
Best known for coauthoring Freakonomics with Stephen J. Dubner, Levitt is the Alvin Baum professor of economics at the University of Chicago. A 2003 winner of the John Bates Clark Medal for economists under 40, his most famous work links the rise in abortions to the drop in crime rates in the United States.
Bernard Lewis, Britain/United States
Historian
Eminent scholar of the Ottoman Empire, the Middle East, and Islam, Lewis is the Cleveland E. Dodge professor emeritus of Near Eastern studies at Princeton University. His most recent book is From Babel to Dragomans: Interpreting the Middle East.
Bjørn Lomborg, Denmark
Environmentalist, statistician
Controversial for his view, as expounded upon in The Skeptical Environmentalist, that combating global crises such as HIV/AIDS ought to take precedence over fighting climate change, Lomborg wrote “21 Solutions to Save the World: Take Your Vitamins” for the May/June 2007 issue of FP.
James Lovelock, Britain
Environmental scientist
Lovelock’s great contribution to science is the famous Gaia hypothesis, the idea that Earth can be thought of as a giant organism. A developer of numerous scientific instruments used by NASA, Lovelock is author most recently of The Revenge of Gaia: Why the Earth Is Fighting Back—and How We Can Still Save Humanity.
Mahmood Mamdani, Uganda
Cultural anthropologist
Mamdani is the Herbert Lehman professor of government in the anthropology, political science, and international affairs departments at Columbia University and was director of the Institute of African Studies there until 2004. He is the author most recently of Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War and the Roots of Terror.
Minxin Pei, China
Political scientist
A senior associate and director of the China Program at the Carnegie Endowment for International Peace, he is author of China’s Trapped Transition: The Limits of Developmental Autocracy and wrote “The Dark Side of China’s Rise” for the March/April 2006 issue of FP.
Ashis Nandy, India
Political psychologist
A scholar at the Centre for the Study of Developing Societies in New Delhi, Nandy studies “political psychology, mass violence, cultures and politics of knowledge, utopias and visions.”
Sunita Narain, India
Environmentalist
Director of India’s Centre for Science and Environment, Narain is a leading advocate of sustainable development and a strong supporter of fairness in environmental negotiations. She won the 2005 Stockholm Water Prize for the center’s work on water management.
Martha Nussbaum, United States
Philosopher
Nussbaum, currently the Ernst Freund distinguished service professor of law and ethics at the University of Chicago, is a classicist with a special interest in female equality. She is author most recently of Liberty of Conscience: In Defense of America's Tradition of Religious Equality and wrote “The World's Most Dangerous Ideas: Religious Intolerance” for the September/October 2004 issue of FP.
Sari Nusseibeh, Palestine
Diplomat, philosopher
Nusseibeh is professor of philosophy and president of Al-Quds University in Jerusalem. A leading Palestinian moderate, Nusseibeh worked with former Israeli Shin Bet chief Ami Ayalon in 2002 and 2003 to develop “The People’s Voice” peace initiative.
Amos Oz, Israel
Novelist, journalist
A professor of literature at Ben-Gurion University, the influential Oz was among the first to advocate a two-state solution to the Israeli-Palestinian conflict. He cofounded Peace Now in 1978. His most recent nonfiction book is How to Cure a Fanatic.
Orhan Pamuk, Turkey
Novelist
Pamuk won the Nobel Prize in Literature in 2006 after a year in which he faced criminal charges in Turkey for his frank comments about the Armenian genocide. His most famous books are My Name Is Red, Snow, and Istanbul: Memories and the City.
David Petraeus, United States
Military strategist
The commanding general of U.S. forces in Iraq, Petraeus is the architect of the U.S. military’s revised field manual on counterinsurgency.
Steven Pinker, Canada/United States
Linguist, psychologist
Steven Pinker is the Johnstone family professor at Harvard University and author of seven books, including The Stuff of Thought: Language as a Window into Human Nature. A frequent essayist for such publications as the New York Times, Time magazine, and Slate, Pinker focuses on language and cognition in his research.
Richard Posner, United States
Judge, author
Richard Posner is a judge on the U.S. Court of Appeals for the Seventh Circuit and the author of dozens of influential works on everything from legal philosophy and jurisprudence to catastrophic climate change. His most recent book is How Judges Think.
Samantha Power, United States
Journalist
A former foreign-policy advisor to Barack Obama’s presidential campaign, Power is best known for her Pulitzer Prize-winning book, A Problem from Hell: America and the Age of Genocide. She is the Anna Lindh professor of practice of global leadership and public policy at Harvard University’s Carr Center for Human Rights Policy.
Robert Putnam, United States
Political scientist
Putnam, a Harvard University professor of political science, is best known for Bowling Alone, his study of the decline in civic participation in the United States.
Yusuf al-Qaradawi, Egypt/Qatar
Cleric
Perhaps the most influential preacher in Sunni Islam, Qaradawi hosts the weekly show Sharia and Life on the Al Jazeera satellite channel.
V.S. Ramachandran, India
Neuroscientist
Ramachandran directs the Center for Brain and Cognition and at the University of California, San Diego. Richard Dawkins calls him the “Marco Polo of neuroscience” for his work on behavioral neurology. His best-known book is Phantoms in the Brain.
Tariq Ramadan, Switzerland
Philosopher, scholar of Islam
Born in Switzerland, Ramadan is a prominent advocate for a “European” version of Islam. A grandson of Muslim Brotherhood founder Hassan al-Banna, he was interviewed in the November/December 2004 issue of FP. His most recent book is In the Footsteps of the Prophet: Lessons from the Life of Muhammad.
Gianni Riotta, Italy
Journalist, political commentator
A columnist for the Corriere Della Sera newspaper and one of Italy’s foremost pundits, Riotta is a contributing editor to FP. He is author of the novel Prince of the Clouds and wrote “Who Wins in Iraq? Old Europe” for the March/April 2007 issue of FP.
Nouriel Roubini, Italy/United States
Economist
A widely cited expert on international macroeconomics and finance, Roubini is chairman of RGE Monitor and professor of economics at New York University’s Stern School of Business. He wrote “The Coming Financial Pandemic” in the March/April 2008 issue of FP.
Olivier Roy, France
Political scientist
One of the world’s top scholars of political Islam and terrorist movements, Roy is research director at the French National Center for Scientific Research. His 1992 book The Failure of Political Islam remains essential reading for anyone who wishes to understand contemporary Islamism.
Salman Rushdie, Britain
Novelist
His second novel, Midnight’s Children, won a prestigious Booker Prize in 1981. But Rushdie wasn’t catapulted to international fame until Iranian Ayatollah Ruhollah Khomenei condemned him to death in 1989 for writing The Satanic Verses. Rushdie was knighted in 2007.
Jeffrey Sachs, United States
Development economist
A former special advisor to U.N. Secretary-General Kofi Annan for the Millennium Development Goals, Sachs directs the Earth Institute at Columbia University. He is author of The End of Poverty and wrote “21 Solutions to Save the World: How to Stop a Serial Killer” for the May/June 2007 issue of FP.
Fernando Savater, Spain
Essayist, philosopher
Best known for his insights on ethics, religion, and terrorism, Savater is philosophy professor at the Complutense University of Madrid.
Amartya Sen, India
Development economist
Sen is an Indian-born economist whose influence spans the globe and ranges far beyond his field. He won the 1998 Nobel Prize in economics for his work on poverty, development, and democracy. Presently, he is the Lamont university professor at Harvard University.
Lilia Shevtsova, Russia
Political scientist
A senior associate at the Moscow Center of the Carnegie Endowment for International Peace, Shevtsova is author of Putin’s Russia and Russia—Lost in Transition. She wrote “Think Again: Vladimir Putin” for the January/February 2008 issue of FP.
Peter Singer, Australia
Philosopher
Singer is the Ira W. DeCamp professor of bioethics at Princeton University and a controversial advocate of “animal liberation.” His many books include Practical Ethics and Rethinking Life and Death: The Collapse of Our Traditional Ethics. Singer wrote “Here Today, Gone Tomorrow: The Sanctity of Life” for the September/October 2005 issue of FP.
Lee Smolin, United States/Canada
Physicist
Smolin is a theoretical physicist whose work on quantum gravity and “fecund universes” has established him as a leading thinker on some of the biggest questions in physics. Since, 2001, he has been a founding and senior researcher at the Perimeter Institute for Theoretical Physics in Waterloo, Ontario. Smolin is author of The Life of the Cosmos and The Trouble With Physics: The Rise of String Theory, the Fall of a Science, and What Comes Next.
Abdolkarim Soroush, Iran
Religious theorist
A leading figure on the Iranian left, Soroush is currently a visiting scholar at Georgetown University’s Berkley Center for Religion, Peace, and World Affairs. His most important works are collected in Reason, Freedom, and Democracy in Islam: Essential Writings of Abdolkarim Soroush.
Wole Soyinka, Nigeria
Playwright, activist
Winner of the 1986 Nobel Prize in Literature, Soyinka is one of Africa’s most distinguished playwrights. Soyinka was imprisoned during the Nigerian civil war and became a fierce critic of subsequent Nigerian regimes. He is formerly the Elias Ghanem professor of creative writing at the University of Nevada, Las Vegas.
Michael Spence, United States
Economist
Winner of the 2001 Nobel Prize in economics, Spence is known for his work on signaling in the job market. He is a Hoover Institution fellow, Philip H. Knight professor emeritus, and former dean of Stanford University’s Graduate School of Business.
Lawrence Summers, United States
Economist
A U.S. Treasury secretary under the Clinton administration and a former president of Harvard University, Summers is a columnist for the Financial Times and a member of the editorial board of Foreign Policy. He shared his “Epiphanies” in the March/April 2008 issue of FP.
Charles Taylor, Canada
Philosopher
Author most recently of A Secular Age, Taylor is known for his communitarian political philosophy.
Mario Vargas Llosa, Peru
Novelist, politician
An astonishingly prolific author and essayist, Vargas Llosa is one of the giants of contemporary Latin American literature. His most acclaimed work is The Green House. He is the 1994 recipient of the prestigious Miguel de Cervantes Prize.
Harold Varmus, United States
Medical scientist
A former director of the National Institutes of Health, Varmus won the Nobel Prize in Medicine (along with J. Michael Bishop) for his cancer research. He now heads the Memorial Sloan-Kettering Cancer Center in Manhattan.
J. Craig Venter, United States
Biologist, entrepreneur
Famous for trying to compete with the Human Genome Project, Venter currently heads Synthetic Genomics, a company that aims to produce alternative fuels using microorganisms.
Michael Walzer, United States
Political theorist
A leading U.S. political theorist who has written extensively about the concept of “just war,” Walzer is coeditor of the leftist quarterly Dissent. He is professor emeritus at the Institute for Advanced Study and author most recently of Politics and Passion: Toward A More Egalitarian Liberalism.
Wang Hui, China
Political theorist
Wang is professor of Chinese language and literature at Tsinghua University. Sent to the hinterlands for his role in the Tiananmen Square protests of 1989, Wang is a leading member of China’s “New Left” movement and a past editor of Dushu, one of China’s most influential literary journals.
E.O. Wilson, United States
Biologist
A two-time Pulitzer Prize-winner (for On Human Nature and The Ants) and naturalist, Wilson argues that human behavior can largely be explained by biology. He is Pellegrino university professor emeritus of entomology at Harvard University.
Martin Wolf, Britain
Journalist, columnist
Perhaps the world’s most influential economics commentator, Wolf is associate editor and a columnist for the Financial Times. He is author of Why Globalization Works and wrote “Who Wins in Iraq?: The United Nations” for the March/April 2007 issue of FP.
Yan Xuetong, China
Political scientist
Yan, a forceful advocate of China’s national strength, is director of the Institute of International Studies at Tsinghua University. Yuan Ming reviewed his 1996 book, On Analysis of China's National Interests, for the Summer 1997 issue of FP.
Muhammad Yunus, Bangladesh
Microfinancier, activist
Recipient of the 2006 Nobel Peace Prize, Yunus is the founder of the Grameen Bank and a pioneer in the field of microfinance. He shared his “Epiphanies” in the January/February 2008 issue of FP.
Fareed Zakaria, United States
Journalist, author
Zakaria is editor of Newsweek International and author of The Future of Freedom: Illiberal Democracy at Home and Abroad. He wrote “The World’s Most Dangerous Ideas: Hating America” for the September/October 2004 issue of FP.
Slavoj Zizek, Slovenia
Sociologist, philosopher
A self-described Marxist philosopher, sociologist, and cultural critic, Zizek is senior researcher at the Institute of Sociology at the University of Ljubljana.
The Foreign Policy/Prospect 2008 World’s Top 100 Public Intellectuals poll is now closed.
To view the complete list of intellectuals, please click here.
Foreign Policy and Prospect will publish the results of the poll on June 23.
Aitzaz Ahsan, Pakistan
Lawyer and politician
As president of Pakistan’s Supreme Court Bar Association and a senior figure in the Pakistan People’s Party, Ahsan has played a leading role in opposing antidemocratic moves by Pakistani President Pervez Musharraf. He is author of The Indus Saga and the Making of Pakistan.
Kwame Anthony Appiah, Ghana/United States
Philosopher
Appiah is Laurance S. Rockefeller University professor of philosophy at Princeton University and author of numerous books and novels, including The Ethics of Identity.
Anne Applebaum, United States
Journalist, historian
A regular columnist for the Washington Post, Applebaum is a veteran journalist and author of Gulag: A History, a Pulitzer Prize-winning account of the Soviet prison system. She wrote “In Search of Pro-Americanism” for the July/August 2005 issue of FP.
Jacques Attali, France
Economist, writer
A past advisor to former French President François Mitterrand, Attali played a leading role in helping former Warsaw Pact countries make the transition to market economies. He is author of Noise: The Political Economy of Music. A contributing editor to Foreign Policy, Attali wrote “Here Today, Gone Tomorrow: Monogamy” for the September/October 2005 issue of FP.
George Ayittey, Ghana
Economist
Ayittey is a prominent Ghanaian scholar, activist, and author of Africa Unchained: The Blueprint for Africa’s Future. As president of the Washington-based Free Africa Foundation, he argues that “Africa is poor because she is not free.” He is an economist in residence at American University.
Daniel Barenboim, Israel
Conductor, pianist, peace activist
An outspoken critic of Israeli policies in the Palestinian territories, Barenboim is “conductor for life” at the Berlin State Opera and is widely seen as a successor to Lorin Maazel at the New York Philharmonic.
Anies Baswedan, Indonesia
University president, political analyst
Currently president of Paramadina University in Jakarta and a noted researcher, Baswedan played a leading role in the student movements that helped oust Indonesian dictator Suharto.
Pope Benedict XVI, Germany/Vatican
Religious leader, theologian
Born Joseph Alois Ratzinger, Pope Benedict is a leading theologian and a staunch defender of Catholic traditions and values. Prior to his election as pope in 2005, he was a prolific author and commentator and even cofounded a theological journal, the influential Communio. Before Ratzinger’s election, R. Scott Appleby wrote “Job Description for the Next Pope” in the January/February 2004 issue of FP.
Ian Buruma, Britain/Netherlands
Essayist
A former journalist who spent years working in Asia, Buruma is best known for Murder in Amsterdam: The Death of Theo van Gogh and the Limits of Tolerance and for his commentary on faith and moral relativism. He is a widely syndicated columnist and a popular lecturer.
Fernando Henrique Cardoso, Brazil
Politician, author
An internationally renowned sociologist and a two-term former president of Brazil, Cardoso is a professor at Brown University’s Watson Institute for International Studies. He has authored numerous books, including Dependency and Development in Latin America, and is a director of the Club of Madrid. He wrote “Here Today, Gone Tomorrow: Political Parties” for the September/October 2005 issue of FP.
Noam Chomsky, United States
Linguist, activist
A professor at the Massachusetts Institute of Technology since 1955, the prolific Chomsky is a groundbreaking linguist and a prominent critic of U.S. foreign policy. He wrote “What Is the International Community: The Crimes of 'Intcom'” for the September/October 2002 issue of FP.
J.M. Coetzee, South Africa
Novelist
The 2003 winner of the Nobel Prize in Literature, Coetzee wrote his most famous novels—Waiting for the Barbarians, Life & Times of Michael K , and Disgrace—while a university professor in South Africa and the United States.
Paul Collier, Britain
Development and conflict economist
Author most recently of The Bottom Billion: Why the Poorest Countries Are Failing and What Can Be Done About It, awarded the 2008 Gelber Prize, Collier is professor of economics at Oxford University and a leading expert on the governance and development challenges faced by the world’s poorest countries. He wrote “Africa’s Revolutionary Routine” in the May/June 2004 issue of FP.
Richard Dawkins, Britain
Biologist, author
Dawkins’s seminal 1976 work, The Selfish Gene, explores the role played by genes in the evolutionary process. He may be better known today for the criticisms of religion and “intelligent design” theories put forth in The God Delusion. He shares his “Epiphanies” in the May/June 2008 issue of FP.
Alex de Waal, Britain
Writer, Africa activist
A program director at the Social Science Research Council, de Waal is a frequently cited expert on the Darfur crisis and on African health issues.
Thérèse Delpech, France
Political scientist
One of France’s most respected analysts of international affairs, Delpech is director for strategic studies at the Atomic Energy Commission of France, senior research fellow at CERI (Center of International Relations Studies), and author most recently of Savage Century: Back to Barbarism.
Daniel Dennett, United States
Philosopher
Dennett is the Austin B. Fletcher professor of philosophy at Tufts University, where his life’s work is building a “philosophy of mind” to explain how human consciousness works. He is the author of Content and Consciousness, Consciousness Explained, Darwin's Dangerous Idea, and Breaking the Spell, among others.
Jared Diamond, United States
Biologist, historian
The preeminent scholar of the relationship between the environment and civilizational success, Diamond is the Pulitzer Prize-winning author of Guns, Germs, and Steel and Collapse. He is professor of geography and physiology at the University of California, Los Angeles.
Esther Duflo, France
Development economist
Duflo is the Abdul Latif Jameel professor of poverty alleviation and development economics at the Massachusetts Institute of Technology, where she studies health, poverty, and credit issues in the developing world. She wrote “21 Solutions to Save the World: Fund What Works” for the May/June 2007 issue of FP.
William Easterly, United States
Economist, aid skeptic
A scathing critic of “the ideology of development,” Easterly views much foreign aid as messianic, wasted, or even harmful to developing countries. He is professor of economics at New York University, author of The White Man’s Burden: Why the West’s Efforts to Aid the Rest Have Done So Much Ill and So Little Good, and a frequent contributor to Foreign Policy.
Shirin Ebadi, Iran
Lawyer, human rights activist
Awarded the Nobel Peace Prize in 2003 for her advocacy on behalf of Iranian dissidents and others, especially women and children, Ebadi is a human rights lawyer in Tehran and author of the memoir Iran Awakening: A Memoir of Revolution and Hope.
Umberto Eco, Italy
Medievalist, novelist
Eco’s dense novels, such as The Name of the Rose and Foucault’s Pendulum, are a dizzying blend of philosophy, biblical analysis, and arcane literary references. An expert in the burgeoning field of semiotics, he is president of the Advanced School of Humanist Studies at the University of Bologna.
Fan Gang, China
Economist
Foreign analysts watch closely the remarks of Fan, the influential director of the government-affiliated National Economic Research Institute in Beijing and a leading reform advocate, for clues about what Chinese leaders are thinking about the global economy.
Drew Gilpin Faust, United States
University president, historian
Harvard University’s first female president, Faust is a respected historian of the American Civil War and the author of six books, including most recently This Republic of Suffering: Death and the American Civil War.
Niall Ferguson, Britain
Historian
The Laurence A. Tisch professor of history at Harvard University and a senior fellow at the Hoover Institution at Stanford University, Ferguson is a prolific author best known for The Pity of War, his counterintuitive take on the British role in World War I. He wrote “Empires with Expiration Dates” in the September/October 2006 issue of FP and “A World Without Power” in the July/August 2004 issue.
Alain Finkielkraut, France
Essayist, philosopher
One of France’s most prominent columnists, the controversial Finkielkraut teaches about the “history of ideas” at the École Polytechnique in Paris and is a polemical critic of modern French society.
Thomas Friedman, United States
Journalist, columnist
Friedman—New York Times foreign affairs commentator, three-time Pulitzer Prize-winning journalist, and author of The World Is Flat and From Beirut to Jerusalem—is one of the world’s most popular and influential syndicated columnists. He wrote “The First Law of Petropolitics” for the May/June 2006 issue of FP.
Francis Fukuyama, United States
Political scientist
Renowned for declaring The End of History after the fall of the Soviet Union, Fukuyama is professor of international political economy at the School of Advanced International Studies at Johns Hopkins University and author most recently of America at the Crossroads: Democracy, Power, and the Neoconservative Legacy. He wrote “The World’s Most Dangerous Ideas: Transhumanism” for the September/October 2004 issue of FP.
Yegor Gaidar, Russia
Economist, politician
Gaidar was Boris Yeltsin’s acting prime minister from June 15 to December 14, 1992 and a proponent of “shock therapy” for the Russian economy. He is a contributing editor to FP.
Howard Gardner, United States
Psychologist, author
The John H. and Elisabeth A. Hobbs professor of cognition and education at the Harvard Graduate School of Education, Gardner is the recipient of a MacArthur “genius grant” and the author of more than 20 books, most recently Responsibility at Work and Five Minds for the Future. He wrote “21 Solutions to Save the World: An Embarrassment of Riches” for the May/June 2007 issue of FP.
Neil Gershenfeld, United States
Physicist, computer scientist
Gershenfeld heads the Center for Bits and Atoms at the Massachusetts Institute of Technology, where he takes an interdisciplinary approach to quantum computing, nanotechnology, and personal fabrication. He is author most recently of Fab: The Coming Revolution on Your Desktop—From Personal Computers to Personal Fabrication.
Malcolm Gladwell, Canada/United States
Pop sociologist, journalist
Author of Blink and The Tipping Point, Gladwell is a National Magazine Award-winning staff writer at The New Yorker.
Al Gore, United States
Climate change activist, politician
Since serving two terms as Bill Clinton’s vice president in the 1990s, Gore has become a leading advocate on climate change and a winner of the Nobel Peace Prize. He starred in the Oscar-winning documentary An Inconvenient Truth.
Ramachandra Guha, India
Historian
An Indian historian, columnist and MacArthur fellow, Guha has taught in the United States, Norway, and now in Bangalore. He is author of India After Gandhi.
Alma Guillermoprieto, Mexico
Journalist, author
A Mexican journalist and a MacArthur fellow, Guillermoprieto has written extensively in such publications as The New Yorker, The New York Review of Books, and the Washington Post. A veteran war correspondent, she is a former South America bureau chief for Newsweek and author of Dancing with Cuba. Her chronicles of Latin America’s “lost decade” were published as The Heart That Bleeds in 1994.
Fethullah Gülen, Turkey
Religious leader
A modernist Islamic scholar and leader of the movement named after him, Gülen is widely considered one of the most important Muslim thinkers alive today. He has authored more than 60 books.
Jürgen Habermas, Germany
Philosopher
Habermas’s diverse interests range from epistemology to the rule of law, but his most influential work is on the “public sphere”—the arena in which arguments about political matters take place. He is author of The Theory of Communicative Action and, most recently, The Dialectics of Secularization, a dialogue with Joseph Ratzinger.
Vaclav Havel, Czech Republic
Statesman, playwright
A leading dissident and repeated political prisoner during the Soviet era, Havel became president of Czechoslovakia after the Velvet Revolution of 1989, saw his country through a transition to a democratic market economy, and managed the split with Slovakia.
Ayaan Hirsi Ali, Somalia/Netherlands
Activist, politician
A former member of the Dutch parliament and a fierce critic of the role of women in Islam, Ali has feared for her life since writing the screenplay for Submission, the provocative short film that led to Theo van Gogh’s murder.
Christopher Hitchens, Britain/United States
Journalist, author
One of the English language’s most sought-after polemicists, Hitchens is a columnist for Vanity Fair and the author of God Is Not Great: How Religion Poisons Everything. He wrote “The Plight of the Public Intellectual” in the May/June 2008 issue of FP.
Hu Shuli, China
Journalist
Managing editor of Caijing, a top Chinese business magazine, Hu is a veteran journalist, author, and panelist for the Washington Post's PostGlobal.
Samuel Huntington, United States
Political scientist
Through such works as Political Order in Changing Societies, Huntington’s influence on his field is profound, but his most famous book is certainly The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order. Currently the Albert J. Weatherhead III professor at Harvard University, Huntington cofounded Foreign Policy in 1970. He wrote his provocative article “The Hispanic Challenge” for the March/April 2004 issue of FP.
Michael Ignatieff, Canada
Human rights theorist, politician
A past winner of the Gelber Prize for his book Blood and Belonging: Journeys into the New Nationalism, Ignatieff is a leading thinker on human rights issues. He is deputy leader of Canada’s Liberal Party and former head of Harvard University’s Carr Center for Human Rights Policy.
Tony Judt, Britain
Historian
Judt is the Erich Maria Remarque professor in European studies at New York University, author of Postwar: A History of Europe Since 1945, and a frequent contributor to the New York Review of Books.
Robert Kagan, United States
Author, political commentator
An influential columnist for the Washington Post and elsewhere, Kagan is senior associate at the Carnegie Endowment for International Peace and author most recently of The Return of History and the End of Dreams. He wrote “From Victory to Success: Looking for Legitimacy in All the Wrong Places” in the July/August 2003 issue of FP.
Daniel Kahneman, Israel/United States
Psychologist
A Nobel laureate for his work on “prospect theory,” Kahneman is senior scholar at Princeton University’s Woodrow Wilson School of Public and International Affairs and the Eugene Higgins professor of psychology emeritus at Princeton. He cowrote “Why Hawks Win” in the January/February 2007 issue of FP, which was selected for publication in The Best American Political Writing 2007.
Garry Kasparov, Russia
Democracy activist, chess grandmaster
Since his days as a world chess champion, Kasparov has become an outspoken critic of outgoing Russian President Vladimir Putin. Chairman of the United Civil Front, a democratic activist group, he wrote “21 Solutions to Save the World: A Global Magna Carta” for the May/June 2007 issue of FP.
Amr Khaled, Egypt
Muslim televangelist
An entrepreneurial preacher and broadcaster, Khaled is an accountant by training but a born evangelical leader. The moderate Khaled, who preaches a message of tolerance and personal redemption through Islam, is wildly popular among younger Muslims in the Arab world.
Rem Koolhaas, Netherlands
Architect
Koolhaas is Pritzker Prize-winning principal at the Office for Metropolitan Architecture, but his influence extends to urban theory, journalism, and beyond. The cofounder of Volume magazine, his most famous works include Maison à Bordeaux, the Seattle Public Library, and the Casa da Musica hall in Porto, Portugal. He is professor in practice at Harvard University’s architecture department and author of Delirious New York and S,M,L,XL.
Ivan Krastev, Bulgaria
Political scientist
Chairman of the Centre for Liberal Strategies in Sofia, Krastev is editor of FP’s Bulgarian edition and author of “What Russia Wants” in the May/June 2008 issue of FP.
Enrique Krauze, Mexico
Historian
Krauze is publisher of Editorial Clío and editor of Letras Libres, a Mexican cultural magazine. He is author of Mexico: Biography of Power.
Paul Krugman, United States
Economist, columnist
A fiery political commentator for the New York Times and a respected trade theorist, Krugman is a John Bates Clark Medal-winning economist at Princeton University. His most recent book is The Conscience of a Liberal. He wrote “Europe Jobless, America Penniless?” in the Summer 1994 issue of FP.
Lee Kuan Yew, Singapore
Politician, national patriarch
Lee stepped down as prime minister in 1990, but he remains a towering figure in Singaporean politics. His current post is “minister mentor,” a job created just for him. He wrote “Here Today, Gone Tomorrow: Laissez-Faire Procreation” for the September/October 2005 issue of FP.
Lawrence Lessig, United States
Legal scholar, activist
The darling of cyberspace for his efforts to reduce restrictions on intellectual property, Lessig is professor of law at Stanford University and author of The Future of Ideas. He wrote “The Internet Under Siege” for the November/December 2001 issue of FP.
Steven Levitt, United States
Economist, author
Best known for coauthoring Freakonomics with Stephen J. Dubner, Levitt is the Alvin Baum professor of economics at the University of Chicago. A 2003 winner of the John Bates Clark Medal for economists under 40, his most famous work links the rise in abortions to the drop in crime rates in the United States.
Bernard Lewis, Britain/United States
Historian
Eminent scholar of the Ottoman Empire, the Middle East, and Islam, Lewis is the Cleveland E. Dodge professor emeritus of Near Eastern studies at Princeton University. His most recent book is From Babel to Dragomans: Interpreting the Middle East.
Bjørn Lomborg, Denmark
Environmentalist, statistician
Controversial for his view, as expounded upon in The Skeptical Environmentalist, that combating global crises such as HIV/AIDS ought to take precedence over fighting climate change, Lomborg wrote “21 Solutions to Save the World: Take Your Vitamins” for the May/June 2007 issue of FP.
James Lovelock, Britain
Environmental scientist
Lovelock’s great contribution to science is the famous Gaia hypothesis, the idea that Earth can be thought of as a giant organism. A developer of numerous scientific instruments used by NASA, Lovelock is author most recently of The Revenge of Gaia: Why the Earth Is Fighting Back—and How We Can Still Save Humanity.
Mahmood Mamdani, Uganda
Cultural anthropologist
Mamdani is the Herbert Lehman professor of government in the anthropology, political science, and international affairs departments at Columbia University and was director of the Institute of African Studies there until 2004. He is the author most recently of Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War and the Roots of Terror.
Minxin Pei, China
Political scientist
A senior associate and director of the China Program at the Carnegie Endowment for International Peace, he is author of China’s Trapped Transition: The Limits of Developmental Autocracy and wrote “The Dark Side of China’s Rise” for the March/April 2006 issue of FP.
Ashis Nandy, India
Political psychologist
A scholar at the Centre for the Study of Developing Societies in New Delhi, Nandy studies “political psychology, mass violence, cultures and politics of knowledge, utopias and visions.”
Sunita Narain, India
Environmentalist
Director of India’s Centre for Science and Environment, Narain is a leading advocate of sustainable development and a strong supporter of fairness in environmental negotiations. She won the 2005 Stockholm Water Prize for the center’s work on water management.
Martha Nussbaum, United States
Philosopher
Nussbaum, currently the Ernst Freund distinguished service professor of law and ethics at the University of Chicago, is a classicist with a special interest in female equality. She is author most recently of Liberty of Conscience: In Defense of America's Tradition of Religious Equality and wrote “The World's Most Dangerous Ideas: Religious Intolerance” for the September/October 2004 issue of FP.
Sari Nusseibeh, Palestine
Diplomat, philosopher
Nusseibeh is professor of philosophy and president of Al-Quds University in Jerusalem. A leading Palestinian moderate, Nusseibeh worked with former Israeli Shin Bet chief Ami Ayalon in 2002 and 2003 to develop “The People’s Voice” peace initiative.
Amos Oz, Israel
Novelist, journalist
A professor of literature at Ben-Gurion University, the influential Oz was among the first to advocate a two-state solution to the Israeli-Palestinian conflict. He cofounded Peace Now in 1978. His most recent nonfiction book is How to Cure a Fanatic.
Orhan Pamuk, Turkey
Novelist
Pamuk won the Nobel Prize in Literature in 2006 after a year in which he faced criminal charges in Turkey for his frank comments about the Armenian genocide. His most famous books are My Name Is Red, Snow, and Istanbul: Memories and the City.
David Petraeus, United States
Military strategist
The commanding general of U.S. forces in Iraq, Petraeus is the architect of the U.S. military’s revised field manual on counterinsurgency.
Steven Pinker, Canada/United States
Linguist, psychologist
Steven Pinker is the Johnstone family professor at Harvard University and author of seven books, including The Stuff of Thought: Language as a Window into Human Nature. A frequent essayist for such publications as the New York Times, Time magazine, and Slate, Pinker focuses on language and cognition in his research.
Richard Posner, United States
Judge, author
Richard Posner is a judge on the U.S. Court of Appeals for the Seventh Circuit and the author of dozens of influential works on everything from legal philosophy and jurisprudence to catastrophic climate change. His most recent book is How Judges Think.
Samantha Power, United States
Journalist
A former foreign-policy advisor to Barack Obama’s presidential campaign, Power is best known for her Pulitzer Prize-winning book, A Problem from Hell: America and the Age of Genocide. She is the Anna Lindh professor of practice of global leadership and public policy at Harvard University’s Carr Center for Human Rights Policy.
Robert Putnam, United States
Political scientist
Putnam, a Harvard University professor of political science, is best known for Bowling Alone, his study of the decline in civic participation in the United States.
Yusuf al-Qaradawi, Egypt/Qatar
Cleric
Perhaps the most influential preacher in Sunni Islam, Qaradawi hosts the weekly show Sharia and Life on the Al Jazeera satellite channel.
V.S. Ramachandran, India
Neuroscientist
Ramachandran directs the Center for Brain and Cognition and at the University of California, San Diego. Richard Dawkins calls him the “Marco Polo of neuroscience” for his work on behavioral neurology. His best-known book is Phantoms in the Brain.
Tariq Ramadan, Switzerland
Philosopher, scholar of Islam
Born in Switzerland, Ramadan is a prominent advocate for a “European” version of Islam. A grandson of Muslim Brotherhood founder Hassan al-Banna, he was interviewed in the November/December 2004 issue of FP. His most recent book is In the Footsteps of the Prophet: Lessons from the Life of Muhammad.
Gianni Riotta, Italy
Journalist, political commentator
A columnist for the Corriere Della Sera newspaper and one of Italy’s foremost pundits, Riotta is a contributing editor to FP. He is author of the novel Prince of the Clouds and wrote “Who Wins in Iraq? Old Europe” for the March/April 2007 issue of FP.
Nouriel Roubini, Italy/United States
Economist
A widely cited expert on international macroeconomics and finance, Roubini is chairman of RGE Monitor and professor of economics at New York University’s Stern School of Business. He wrote “The Coming Financial Pandemic” in the March/April 2008 issue of FP.
Olivier Roy, France
Political scientist
One of the world’s top scholars of political Islam and terrorist movements, Roy is research director at the French National Center for Scientific Research. His 1992 book The Failure of Political Islam remains essential reading for anyone who wishes to understand contemporary Islamism.
Salman Rushdie, Britain
Novelist
His second novel, Midnight’s Children, won a prestigious Booker Prize in 1981. But Rushdie wasn’t catapulted to international fame until Iranian Ayatollah Ruhollah Khomenei condemned him to death in 1989 for writing The Satanic Verses. Rushdie was knighted in 2007.
Jeffrey Sachs, United States
Development economist
A former special advisor to U.N. Secretary-General Kofi Annan for the Millennium Development Goals, Sachs directs the Earth Institute at Columbia University. He is author of The End of Poverty and wrote “21 Solutions to Save the World: How to Stop a Serial Killer” for the May/June 2007 issue of FP.
Fernando Savater, Spain
Essayist, philosopher
Best known for his insights on ethics, religion, and terrorism, Savater is philosophy professor at the Complutense University of Madrid.
Amartya Sen, India
Development economist
Sen is an Indian-born economist whose influence spans the globe and ranges far beyond his field. He won the 1998 Nobel Prize in economics for his work on poverty, development, and democracy. Presently, he is the Lamont university professor at Harvard University.
Lilia Shevtsova, Russia
Political scientist
A senior associate at the Moscow Center of the Carnegie Endowment for International Peace, Shevtsova is author of Putin’s Russia and Russia—Lost in Transition. She wrote “Think Again: Vladimir Putin” for the January/February 2008 issue of FP.
Peter Singer, Australia
Philosopher
Singer is the Ira W. DeCamp professor of bioethics at Princeton University and a controversial advocate of “animal liberation.” His many books include Practical Ethics and Rethinking Life and Death: The Collapse of Our Traditional Ethics. Singer wrote “Here Today, Gone Tomorrow: The Sanctity of Life” for the September/October 2005 issue of FP.
Lee Smolin, United States/Canada
Physicist
Smolin is a theoretical physicist whose work on quantum gravity and “fecund universes” has established him as a leading thinker on some of the biggest questions in physics. Since, 2001, he has been a founding and senior researcher at the Perimeter Institute for Theoretical Physics in Waterloo, Ontario. Smolin is author of The Life of the Cosmos and The Trouble With Physics: The Rise of String Theory, the Fall of a Science, and What Comes Next.
Abdolkarim Soroush, Iran
Religious theorist
A leading figure on the Iranian left, Soroush is currently a visiting scholar at Georgetown University’s Berkley Center for Religion, Peace, and World Affairs. His most important works are collected in Reason, Freedom, and Democracy in Islam: Essential Writings of Abdolkarim Soroush.
Wole Soyinka, Nigeria
Playwright, activist
Winner of the 1986 Nobel Prize in Literature, Soyinka is one of Africa’s most distinguished playwrights. Soyinka was imprisoned during the Nigerian civil war and became a fierce critic of subsequent Nigerian regimes. He is formerly the Elias Ghanem professor of creative writing at the University of Nevada, Las Vegas.
Michael Spence, United States
Economist
Winner of the 2001 Nobel Prize in economics, Spence is known for his work on signaling in the job market. He is a Hoover Institution fellow, Philip H. Knight professor emeritus, and former dean of Stanford University’s Graduate School of Business.
Lawrence Summers, United States
Economist
A U.S. Treasury secretary under the Clinton administration and a former president of Harvard University, Summers is a columnist for the Financial Times and a member of the editorial board of Foreign Policy. He shared his “Epiphanies” in the March/April 2008 issue of FP.
Charles Taylor, Canada
Philosopher
Author most recently of A Secular Age, Taylor is known for his communitarian political philosophy.
Mario Vargas Llosa, Peru
Novelist, politician
An astonishingly prolific author and essayist, Vargas Llosa is one of the giants of contemporary Latin American literature. His most acclaimed work is The Green House. He is the 1994 recipient of the prestigious Miguel de Cervantes Prize.
Harold Varmus, United States
Medical scientist
A former director of the National Institutes of Health, Varmus won the Nobel Prize in Medicine (along with J. Michael Bishop) for his cancer research. He now heads the Memorial Sloan-Kettering Cancer Center in Manhattan.
J. Craig Venter, United States
Biologist, entrepreneur
Famous for trying to compete with the Human Genome Project, Venter currently heads Synthetic Genomics, a company that aims to produce alternative fuels using microorganisms.
Michael Walzer, United States
Political theorist
A leading U.S. political theorist who has written extensively about the concept of “just war,” Walzer is coeditor of the leftist quarterly Dissent. He is professor emeritus at the Institute for Advanced Study and author most recently of Politics and Passion: Toward A More Egalitarian Liberalism.
Wang Hui, China
Political theorist
Wang is professor of Chinese language and literature at Tsinghua University. Sent to the hinterlands for his role in the Tiananmen Square protests of 1989, Wang is a leading member of China’s “New Left” movement and a past editor of Dushu, one of China’s most influential literary journals.
E.O. Wilson, United States
Biologist
A two-time Pulitzer Prize-winner (for On Human Nature and The Ants) and naturalist, Wilson argues that human behavior can largely be explained by biology. He is Pellegrino university professor emeritus of entomology at Harvard University.
Martin Wolf, Britain
Journalist, columnist
Perhaps the world’s most influential economics commentator, Wolf is associate editor and a columnist for the Financial Times. He is author of Why Globalization Works and wrote “Who Wins in Iraq?: The United Nations” for the March/April 2007 issue of FP.
Yan Xuetong, China
Political scientist
Yan, a forceful advocate of China’s national strength, is director of the Institute of International Studies at Tsinghua University. Yuan Ming reviewed his 1996 book, On Analysis of China's National Interests, for the Summer 1997 issue of FP.
Muhammad Yunus, Bangladesh
Microfinancier, activist
Recipient of the 2006 Nobel Peace Prize, Yunus is the founder of the Grameen Bank and a pioneer in the field of microfinance. He shared his “Epiphanies” in the January/February 2008 issue of FP.
Fareed Zakaria, United States
Journalist, author
Zakaria is editor of Newsweek International and author of The Future of Freedom: Illiberal Democracy at Home and Abroad. He wrote “The World’s Most Dangerous Ideas: Hating America” for the September/October 2004 issue of FP.
Slavoj Zizek, Slovenia
Sociologist, philosopher
A self-described Marxist philosopher, sociologist, and cultural critic, Zizek is senior researcher at the Institute of Sociology at the University of Ljubljana.
یوسف رضا گیلانی ’’ایک اور نائن الیون ہونے والا ہے ‘‘کا بیان واپس لیں، وہ امریکہ کو قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی ترغیب دے رہے ہیں
لاہور ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بش کی زبان بول رہے ہیں ۔ ایک اور نائن الیون کا بیان واپس لیں۔ عوام کی 18فروری کے بعد حکومت سے توقعات پوری نہیں ہوسکیں ۔حکومتی اتحاد ججوں کی بحالی اور صدر کے مواخذہ میں ناکام رہا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف ایک بار پھر مضبوط ہوگئے ہیں۔ مطالبات منظور کروائے بغیر مسلم لیگ (ن) وزارتوں میں واپس آئی تو عوام کو شدید مایوسی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان کے خلاف اتحادی فوجوں کی جارحیت کے خلاف ملتان چونگی چوک میں منعقدہ احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ مظاہرین سے چماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن، ڈپٹی سیکرٹری جنرل فرید احمد پراچہ، جماعت اسلامی لاہور کے قائم مقام امیر امیر العظیم اور جماعت اسلامی شعبہ خارجہ امور کے سربراہ عبدالغفار عزیز نے خطاب کیا۔ مظاہرین نے جماعت اسلامی کے پرچم، بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر امریکی دہشت گردی اور حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین ’’ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ اور ’’ امریکہ کی بربادی تک جنگ رہے گی‘‘ اور ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ سید منور حسن نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی وفاقی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں کو براہ راست امریکہ چلا رہا ہے۔ ملک میں آج بھی 18فروری کے الیکشن سے پہلے کی پالیسیاں جاری ہیں۔ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کے ’’ ایک اور نائن الیون‘‘ ہونے والا ہے بیان سے عوام کوسخت مایوسی ہوئی ہے ۔ وزیراعظم کو اپنا یہ بیان فوری واپس لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر اتحادی فوجوں کی آئے دن مداخلت انتہائی قابل مذمت ہے۔ حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ 18فروری کے الیکشن کے بعد عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن حکمرانوں نے انتہائی مایوس کیا ہے نہ جنرل (ر)پرویز مشرف کا مواخذہ ہوسکا اور نہ ہی جج بحال ہوسکے جبکہ مہنگائی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ سب کچھ آئینی تقاضوں کے برعکس کیا جارہا ہے۔ پرویز مشرف جو الیکشن کے بعد آرمی ہاؤس میں چھپ گئے تھے آج کراچی سٹیڈیم میں جاکر عوام میں بیٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم کا انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا ہے کیونکہ انتخابات میں عوامی توقعات کے مطابق نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں۔ ہماری سرحدیں بھی مزید غیر محفوط ہوگئی ہیں۔ امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں کو صرف جذبہ جہاد کے ذریعے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ فرید احمد پراچہ نے کہاکہ وزیراعظم کو ایک اور نائن الیون ہونے والا ہے جیسا بیان دیتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ وہ خود امریکہ کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نائن الیون جیسے اقدامات کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو امریکہ کے حوالے نہیں کرنے دیا جائے گا بلکہ ان سے پاکستان کے ایک ایک شہری کے خون کا حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ صرف مشرف ہی نہیں ان کے درباری بھی ان کے ساتھ جائیں گے۔ ان کا مقدر اڈیالہ جیل ہے۔ امیر العظیم نے کہاکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد بش ہے جس کے دونوں ادوار میں کوئی دن ایسا نہیں گذرا جب مسلم دنیا کو کوئی نیا زخم نہ ملا ہو۔ افغانستان اور عراق میں دہشت گردی کے بعد اب وہ ایران اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا پروگرام بنا رہا ہے۔ انہوں نے سوڈان کے صدر کو عالمی عدالت میں طلب کرنے کی بھی شدید مذمت کی اور کہا کہ اقوام متحدہ ایسے اقدامات میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے بش کی ساتھی بنی ہوئی ہے۔ عبدالغفار عزیز نے کہا کہ عالمی عدالت میں سوڈان کے صدر کو نہیں بلکہ مشرف کو کٹہرے میں لانا چاہئے وہ عالمی مجرم بش کا ایجنٹ ہے۔
شوہر کی فرمانبرداری ‘ ایک مسلم خاتون ‘ فرانسیسی شہریت کے حصول میں ناکام ہو گئی ، عدالت کی عجیب و غریب رولنگ ‘ کئی مقامی دانشوروں کی تنقید
پیرس ۔ فرانس کی ایک عدالت نے ایک برقعہ ( حجاب ) پوش مراقشی نثراد مسلم خاتون فیضہ مبشر ( 32 سالہ ) کو محض اس بنیاد پر فرانسیسی قومیت سے انکار کر دیا ہے کہ وہ ( خاتون ) اپنے شوہر کی ’’ حد درجہ ‘‘ فرمانبردار ہیں ۔ عدالت ( کونسل آف سٹیٹ ) نے اپنی رولنگ میں کہا ہے کہ مذکورہ خاتون کے مذہبی رسومات‘ فرانسیسی اقدار سے ’’ ہم آہنگ ‘‘ نہیں ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ یہ خاتون اپنے مرد رشتہ داروں کی بالکل ہی مطیع ہیں ۔ ایسی اطاعت کو وہ اپنے معمول سمجھتی ہیں ۔ ان رشتہ داروں کو چیلنج کرنے کا کوئی خیال بھی ان کے گوشتہ ذہن میں نہیں آیا ۔ فیضہ مبشر ‘ 2000 سے فرانس میں مقیم ہیں ۔ انہوں نے ایک فرانسیسی شہری سے شادی کی ہے اور فرانسیسی زبان میں روانی سے بات چیت کر سکتی ہیں وہ تین بچوں کی ماں ہیں ۔ انہوں نے فرانسیسی قومیت کے لئے درخواست دی تھی لیکن 2005 ء میں اس بنیاد پر ان کی درخواست مسترد کر دی گئی کہ وہ ( فرانسیسی اقدار سے ) پوری طرح ’’ ہم آہنگ نہیں ہیں ۔ فیضہ مبشر نے اس فیصلہ کے خلاف کونسل آف سٹیٹ میں اپیل دائر کی اوراس کونسل میں بھی ان کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔ فرانس میں تقریباً 70 لاکھ مسلمان رہتے ہیں یورپ کے کسی ملک میں یہ سب سے بڑی مسلم اکثریت ہے فرانسیسی معاشرہ کے دانشور طبقہ نے عدالت بالا ( کونسل آف سٹیٹ ) کی رولنگ کو افسوسناک قرار دیا ہے پروفیسر قانون دانیال لوچک اور ہیومن رائٹس لیگ ( فرانس کے صدر ) جین پیری دیوبوائز نے کہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی رولنگ ہے کہ جس کے تحت کسی شخص کے مذہبی عمل کی بنیاد پر اس کو فرانسیسی شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے ۔
کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی کالم نگار ممتاز احمد خاکسار پر میر پور میں ہونے والے قاتلانہ حملے کی پرزور مذمت
میر پور ۔( پ ر ) کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کالم نگار ممتاز احمد خاکسار پر میر پور میں ہونے والے قاتلانہ حملے کی پرزور مذمت کی ہے۔تنظیم کے عہدیداران منو بھائی ،اوریا مقبول جان،ممتاز احمد بھٹی،رشید ملک،رضوانہ سید،محمد اکرم خان فریدی،خلیل الرحمٰن قادری،نذیر حق،رشید ملک،رضوانہ سید،عامر رضا،احسن پریمی و دیگرکالم نگاروں نے حکومتِ آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا ہے کہ ممتاز احمد خاکسار پر ہونے والے حملے کے زمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
امریکہ نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کی تو تیل کی عالمی قیمت ٣٠٠ ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے ‘ ایران ‘ ونیز ویلا
تہران ، کارکاس ۔ ایران کے صدر محمود احمدی نثراد اور ونیز ویلا کے صدر ہوگو شاویز کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو تیل کی عالمی قیمت 300 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے ۔ احمدی نثراد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت مختلف وجوہات کی بناء پر بڑھ سکتی ہے ان میں سے ایک وجہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لئے حملے کی دھمکیاں ہیں صدر ہوگوشاویز نے بھی تیل کی عالمی قیمت میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنی ایکسن موبل کارپوریشن کی جانب سے ونیز ویلا کے اثاثے منجمد کرنے کی کوشش کامیاب ہوئی تو امریکہ کو تیل کی فراہمی بند کر دی جائے گی ۔ جس کے نتیجے میں تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
دبئی میں ساحل سمندر پر غیر اخلاقی حرکات کے الزام میں ٧٩ افراد گرفتار
ابو ظہبی ۔ دبئی پولیس نے ساحل سمندر پر غیر اخلاقی حرکات و سکنات کرنے والے 79 افراد کو حراست میں لے لیا ۔ جن میں زیادہ تر تعداد مغربی سیاحوں کی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق دبئی کی پولیس حکام نے ساحل سمندر پر نصب واچ ٹاور کے ذریعے ان مردوں اور عورتوں پر نظر رکھتے ہیں جو برہنہ انداز میں ساحل پر گھومتے پھرتے ہیں ۔ حکام کے مطابق یہ مہم اس وقت تیز کر دی گئی جب ایک برطانوی جوڑے کو ایک ساحل پر غیر اخلاقی حرکات کا سر عام مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا ۔ دبئی میں قائم جرائم کی تحقیقات کرنے والے ایک ادارے کے ترجمان زوئر ہارون نے کہاہے کہ ہم نے ایسے 79 افراد کو بھی گرفتار کر لیا ہے ۔ جو کہ ساحل سمندر پر تفریح کیلئے آنے والی فیملیز کے ساتھ بد تمیزی کر رہے تھے ۔ حکام کے مطابق ایسے افرادکو پہلے وارننگ دی جاتی ہے اور اگر دوبارہ وہی شکایات سنی یا دیکھی جائیں تو ایسے افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت پبلک مقامات پر اسے بورڈ بھی آویزاں شروع کر دئیے ہیں جن پر غیر ملکی سیاحوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ پبلک مقامات پر مغربی اور غیر اخلاقی رویہ اختیار نہ کریں کیونکہ دبئی ایک اسلامی ملک ہے۔
خیبر ایجنسی ‘ لشکر اسلام اور انصار اسلام میں جھڑپ ‘ مزید ٥ افراد ہلاک ‘ ٨ زخمی
خیبر ایجنسی ۔خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں متحارب دو مذہبی گروہوں لشکر اسلام اور انصار اسلام کے مابین تازہ جھڑپ کے نتیجے میں 5افراد ہلاک اور 8افراد زخمی ہوگئے ہیں،دوسری جانب قبائلی علاقوں پر جاسوسی طیاروں کی پروازیں جاری ہیں۔ذرائع کے مطابق خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں علاقہ شلوبرمیں لشکر اسلام اور انصارالسلام کے مابین تازہ جھڑپ میں مزید 5افراد ہلاک اور 8افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ جھڑپ میں فریقین ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں ۔تین ہفتوں سے جاری جھڑپ کے نتیجے میں اب تک 133افرادہلاک اور 200سے ذائد زخمی ہوچکے ہیں ،دوسری جانب باجوڑ ایجنسی ،مہمند ایجنسی ،کرم ایجنسی ،شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت مختلف قبائلی علاقوں میں جاسوس طیاروں کی پروازوں کا سلسلہ جاری ہے ،جس سے قبائل میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے ،قبائل نے حکومت سے جاسوس طیاروں کی پرواز کا سلسلہ روکنے اور غیر ملکی مداخلت روکنے کی اپیل کی ہے۔
دیر بازار اور اسکاوٹس قلعہ پر راکٹ حملے ‘ ٦ افراد زخمی
دیر ۔ ضلع لوئر دیر میں نامعلوم سمت سے دیر سکاوٹس کے قلعہ اور بازار پر راکٹ حملوں میں 6 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔لوئر دیر پولیس نے بتایا کہ نامعلوم سمت سے دیر سکاوٹس قلعہ کو راکٹ لانچر سے نشانہ بنایا گیا ہے پولیس کے مطابق نامعلوم سمت سے چھ راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن میں ایک راکٹ بازار میں بھی لگا ہے پولیس کے مطابق بازار میں راکٹ فائر ہونے سے چند ایک دکانوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے پولیس ذرائع کے مطابق دیر سکاوٹس کو نشانہ بنانے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ چند ایک جگہوں سے چھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے پولیس کے مطابق واقعہ کی مزید تفتیش جاری ہے اور جہاں راکٹ گرنے سے نقصان ہوا ہے جائزہ لیا جارہا ہے۔
عرب لیگ نے سوڈان کے بحران پر ١٩ جولائی کو ہنگامی اجلاس طلب کر لیا
قاہرہ ۔ عرب لیگ نے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کے پراسیکیوٹر کی جانب سے سوڈان کے صدر عمر الالبشیر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے مطالبہ سے متعلق بحران پر بات چیت کیلئے وزراء خارجہ سطح کا ہنگامی اجلاس 19 جولائی کو طلب کر لیا۔ عرب کے سیکرٹری جنرل امر موسیٰ کے چیف آف سٹاف ہاشم یوسف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عرب لیگ نے سوڈانی صدر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے سے متعلق صورتحال پر بات چیت کیلئے وزراء خارجہ سطح کا ہنگامی ا جلاس 19 جولائی بروز ہفتہ عرب لیگ کے ہیڈ کوارٹر قاہرہ میں طلب کیا ہے۔ ہاشم یوسف نے کہا کہ اس سلسلے میں بدھ کو عرب لیگ کے مستقل نمائندوں کے ہونے والے اجلاس کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ عرب لیگ کی جانب سے یہ اقدام سوموار کو عالمی جنگی عدالت کی جانب سے سوڈانی صدر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے پر اٹھایا گیا۔
بھارتی کانگریس ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کر رہی ہے: کمیونسٹ پارٹی
نئی دہلی ۔بھارت امریکہ جوہری تعاون معاہدے پر یو پی اے حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد بائیں بازو اب سڑکوں پر محاذ آرائی کر رہا ہے اور اس کے رہنما حکومت پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں۔محاذ نے دہلی میں معاہدے کے خلاف ملک گیر احتجاج کا آغاز کیا جس میں تقریر کرتے ہوئے کمیونسٹ رہنما اے بی بردھن نے الزام لگایا کہ حکومت پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے ممبران کی خرید و فروخت کر رہی ہے۔ انھوں نے اپنے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ایک ایک رکنِ اسمبلی کو 25 کروڑ روپے میں خریدا جا رہاہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ حکومت کو عام آدمی کی نہیں بلکہ امریکہ سے دوستی کی فکر ہے۔ پہلے کانگریس یہ نعرہ لگاتی تھی کہ’کانگریس کا ہاتھ، عام آدمی کے ساتھ’، مگر اب یہ نعرہ ہے کہ’ کانگریس کا ہاتھ، امریکہ کے ساتھ۔’ خیال رہے کہ ہاتھ کانگریس کا انتخابی نشان ہے۔پرکاش کرات نے حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک کی آزادانہ خارجہ پالیسی کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے اور یہ کہ ہم امریکہ کے جونیئر پارٹنر بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ادھر کانگریس بائیں بازو کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ایٹمی رتھ یاترا نکال رہی ہے جس پر معاہدے کی حمایت میں بینر لگے ہوئے ہیں۔اس رتھ یاترا کے ذریعے عوام کو بتایا جا رہاہے کہ یہ معاہدہ ملک اور عوام کے حق میں کس قدر مفید ہے۔
کیا امریکہ اپنے سمندروں میں تیل کی تلاش شروع کردے گا؟
امریکہ میں زیر سمندر تیل کی تلاش پر 1990 ء میں پابندی عائد کر دی گئی تھیبش نے یہ پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے ‘ کانگریس سے توانائی کے نئے ذخائر کی تلاش میں مدد کی درخواست کی ہے
واشنگٹن ۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث دنیا کو اس وقت جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے اس میں یہ سوال تواتر سے کیا جاتا رہا ہے کہ امریکہ اپنے ہاں تیل کے ذخائر کی تلاش کیوں نہیں کرتا۔ امریکہ میں زیرِ سمندر تیل کی تلاش پر1990 میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔ لیکن اب صدر بش نے یہ پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اور کانگریس سے کہا ہے کہ وہ توانائی کے نئے ذرائع کی تلاش میں ان کے اقدامات میں مدد کرے۔ لیکن بہت سے مبصرین کے مطابق اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کانگریس اس پابندی کو ختم کردے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ انتخابی مہم کے دوران ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار جان مکین امریکہ کے ساحلوں پر تیل کی تلاش کے منصوبے کی زبردست حمائت کررہے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت والی کانگریس کی جانب سے اس منصوبے کی توثیق کے امکانات بہت کم ہیں۔ وائٹ ہاوس کے مطابق صدر بش نے جن علاقوں میں تیل کی تلاش پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے وہاں سے تقریباً 18 ارب بیرل تیل حاصل کیا جاسکتا ہے جو کہ تیل کی کمی کو پورا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ناقدین کے مطابق صدر بش کا یہ اعلان تیل کی قیمتوں کے بحران اور توانائی کے نئے ذرائع کے حصول سے زیادہ ایک سیاسی حربہ ہے کیونکہ اس اعلان کے نتیجے میں مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ امریکہ میں تیل کے نئے ذرائع کی تلاش کی مخالفت کرنے والوں میں ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی نمایاں ہیں اور بعض مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں ان تنظیمیوں کی جانب سے صدر بش کے اعلان پر زیادہ منفی ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔
واشنگٹن ۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث دنیا کو اس وقت جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے اس میں یہ سوال تواتر سے کیا جاتا رہا ہے کہ امریکہ اپنے ہاں تیل کے ذخائر کی تلاش کیوں نہیں کرتا۔ امریکہ میں زیرِ سمندر تیل کی تلاش پر1990 میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔ لیکن اب صدر بش نے یہ پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اور کانگریس سے کہا ہے کہ وہ توانائی کے نئے ذرائع کی تلاش میں ان کے اقدامات میں مدد کرے۔ لیکن بہت سے مبصرین کے مطابق اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کانگریس اس پابندی کو ختم کردے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب کہ انتخابی مہم کے دوران ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار جان مکین امریکہ کے ساحلوں پر تیل کی تلاش کے منصوبے کی زبردست حمائت کررہے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت والی کانگریس کی جانب سے اس منصوبے کی توثیق کے امکانات بہت کم ہیں۔ وائٹ ہاوس کے مطابق صدر بش نے جن علاقوں میں تیل کی تلاش پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے وہاں سے تقریباً 18 ارب بیرل تیل حاصل کیا جاسکتا ہے جو کہ تیل کی کمی کو پورا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ناقدین کے مطابق صدر بش کا یہ اعلان تیل کی قیمتوں کے بحران اور توانائی کے نئے ذرائع کے حصول سے زیادہ ایک سیاسی حربہ ہے کیونکہ اس اعلان کے نتیجے میں مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ امریکہ میں تیل کے نئے ذرائع کی تلاش کی مخالفت کرنے والوں میں ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی نمایاں ہیں اور بعض مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں ان تنظیمیوں کی جانب سے صدر بش کے اعلان پر زیادہ منفی ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔
ترکی ، بغاوت میں ملوث ٨٦ افراد پر فردِ جرم ، فرد جرم عائد کئے جانے والوں میں ریٹائرڈ فوجی جنرل ، دانشور اور حکومت مخالف صحافی شامل ہیں
انقرہ ۔ ترکی میں سرکاری وکیلوں نے چھیاسی افراد پر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے پر فرد جرم عائد کی ہے۔جن افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے ان میں ریٹائرڈ فوجی جنرل، حکومت مخالف صحافی اور دانش ور بھی شامل ہیں۔ان افراد کو ایک خفیہ اور انتہائی قوم پرست گروپ ارگینیکون کے بارے میں تفتیش کے بعد لیا گیا ہے اور یہ تفتیش سال بھر پہلے استمبول کے ایک مکان سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہونے کے بعد شروع کی گئی تھی۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی حکومتی جماعت، اے کے پی کی جانب سے اپنے مخالفین کو دبانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس تفتیش کا دائرہ ترکی کی آئینی عدالت کی جانب سے اے کے پی کو تحلیل کردینے کے کیس کی منظوری کے بعد بڑھایا گیا ہے۔ ترکی میں حکمراں جماعت کے مبینہ سکیولر مخالف مشاغل کے سبب اسے ختم کیے جانے کی کوششوں پر کشیدگی میں کافی دنوں سے اضافہ ہوا ہے۔آئینی عدالت اے کے پارٹی کے خلاف ایک مقدمے پر غور کر رہی ہے جس میں حکمراں جماعت پر ترکی میں سکیولر آئین کے برخلاف شرعی قانون کے نفاذ کا الزام ہے۔ ترکی کے وزیرِ اعظم اور صدر جن کا تعلق اے کے پی جماعت سے ہے اس مقدمے میں نامزد ہیں اور انہیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں نے اور ان کی جماعت نے الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پارٹی کے خلاف ایک مہم کا حصہ ہے۔ پیر کو پراسیکیوٹر نے استمبول کی عدالت میں چھیاسی افراد کے خلاف الزامات درج کرائے تھے جن میں سے اڑتالیس افراد پہلے ہی حراست میں ہیں۔ ترک عدالت کو دو ہفتوں میں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا چھیاسی مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ترکی میں فوج نے کئی مرتبہ اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور فوج یہ سمجھتی ہے کہ وہ ملک کی سکیولر اقدار کی حتمی محافظ ہے۔ترکی میں کئی سکیولر مزاج لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اے کی پارٹی جس کے بہت سے ارکان سابق اسلام پسند ہیں، ترکی میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کی طرف سے جامعات میں حجاب پہنے پر پابندی کو ختم کرنے کی کوششیں ایک طرح کی گواہی ہیں کہ یہ پارٹی اسلامی نظام چاہتی ہے۔
ایران پر حملے کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے ، بین الاقوامی برادری صبر سے کام لے ، بھارت
نئی دہلی ۔ بھارت نے ایران کے خلاف کوئی فوجی طاقت کے لازمی طور پر استعمال کے خلاف خبردار کیا ہے کہ اس سے سارے علاقہ میں تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اس نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس بحران کی یکسوئی کے لیے بات چیت کا انعقاد عمل میں لایا جائے اس کی جانب سے بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں ۔ ایران کے خلاف فوجی طاقت کے ناگزیر استعمال سے متعلق اطلاعات کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نوتیج سرنا نے بتایا کہ جن وسائل پر ایران اور بین الاقوامی برادری کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے ۔ ان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ایران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دینے سے متعلق بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان نے کہاکہ بھارت ایسے کسی فوجی حملے کا مخالف ہے جو ناقابل قبول بین الاقوامی طرز عمل کے مترادف ہے۔ ترجمان نے کہا کہ جن مسائل پر ایران اور بین الاقوامی برادری کے درمیان بات چیت جاری ہے ان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ۔ بھارت ابھی بھی بات چیت اور ڈپلومیسی کا حامی ہے اور وہ دھمکیاں دینے یا طاقت کے استعمال کا مخالف ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایران پر فوجی حملے سے ساری علاقہ میں تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور خلیج میں رہنے والے پانچ ملین بھارتیوں کی زندگیوں اور گزر بسر و نیز عالمی معیشت پر نامواقف اثرات مرتب ہوں گے ۔ ترجمان نے وضاحت کی ۔ بھارت تمام متعلقہ حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں ۔ افہام و تفہیم اور گفت و شنید کے پر امن راستے کو اختیار کریں ۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر پیپلز پارٹی کی عہد شکنی پر حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کیلئے دباؤ میں اضافہ
لاہور۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے عہد وفا نہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر حکومتی اتحاد سے الگ ہونے سے متعلق دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اعلان مری کے تحت ججوں کی بحالی سے مکر جانے پر مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت پر شدید دباؤ ہے کہ اگر رواں ماہ کے آخر تک معزول جج بحال نہیں کئے جاتے تو مسلم لیگ (ن) کو حکومتی اتحاد سے باہر آجانا چاہئے۔ ذرائع کے مطابق جو مستعفی وزراء اور ارکان قومی اسمبلی قیادت سے دو ٹوک فیصلہ کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں ان میں خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور چودھری نثار علی خان شامل ہیں۔
ایران پر حملے کی امریکہ اور اسرائیل کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ‘ صدر شام بشارالاسد کا انتباہ
پیرس ۔ شام کے صدر بشارالاسد نے کہا کہ نیوکلیئر پروگرام کے لئے ایران پر فوجی حملہ کی امریکہ ‘ اسرائیل اور دنیا کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کی قیاس آرائیوں کو اس رپورٹ کے بعد تقویت حاصل ہوئی ہے کہ اسرائیل نے فضائیہ کی ایک مشق کی ہے جو دراصل اس طرح کے حملے کے لئے ایک ریہرسل تھی ۔ اسد نے فرانس کے انٹر ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ۔ ’’ اس کی قیمت امریکہ اور کرہ اراض کو چکانی پڑے گی ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حملہ کیا گیا تو اسرائیل کو اس جنگ کی براہ راست قیمت چکانی پڑے گی ‘ ایران نے یہ بات کہہ دی ہے کہ مسئلہ اقدام اور ردعمل کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جب مغربی ایشیاء میں اس طرح کا اقدام کیا جائے تو کوئی ردعمل کے تسلسل پر قابو نہیں پا سکے گا جو کئی برسوں یا کئی دہوں پر محیط ہو سکتا ہے ‘‘ اسد نے کہا کہ منطق یہ کہتی ہے کہ شدید نتائج و عواقب کے سبب ایران پر حملہ نہیں کیا جائے گا لیکن اس طرح کے اندازے موجودہ امریکی نظم و نسق کے مزاج سے میل نہیں کھاتے ۔ صدر شام نے کہا کہ یہ نظم و نسق ایک ایسا نظم و نسق ہے جو جنگ کا حیلہ تلاش کرنے والا ہے اس پر ہماری یا بیشتر یورپی ملکوں کی منطق کا اطلاق نہیں ہو گا ۔ ‘‘ ایران نے مغرب کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ سیویلین ایٹمی پروگرام کی آڑ میں خفیہ طور پر نیوکلیئر ہتھیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ تہران کا کہنا ہے کہ وہ صرف برقی پیدا کرنے کے لئے اعلیٰ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا خواہاں ہے ۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں وہ واحد نیوکلیئر طاقت ہے ۔ جس کے بارے میں صہیونی مملکت نے تاہم اس طرح کے ہتھیار رکھنے کی کبھی توثیق یا تردید نہیں کی ۔ بشارالاسد نے کہا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ پر پہنچنے کے لئے 6 مہینوں سے 2 سال تک عرصہ درکار ہو سکتا ہے اگر دونوں فریقین جنہوں نے بلواسطہ مذاکرات منعقد کئے دوبدو مذاکرات کے لئے تیار ہو جائیں ۔ اسد نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ پر دستخط ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے لئے 6 ماہ سے 2 سال کا عرصہ درکار ہو گا اگر دونوں فریقین راست مذاکرات میں سنجیدگی سے مصروف ہو جائیں ۔ صدر شام نے جو یورپی یونین اور بحر روم کے ساحلی ملکوں کی چوٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے ان دنوں فرانس میں ہیں اپنے اس سابقہ بیان کا اعادہ کیا کہ انہیں راست مذاکرات کے آغاز کا یقین نہیں ہے ۔ تا وقت کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش آئندہ جنوری میں عہدہ نہ چھوڑ دیں ۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایک امکانی معاہہ کے لئے وقت کے تعین کے لئے ان کی گھڑی صرف ایک مرتبہ دوبدو مذاکرات کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گی ۔ اس دوران اسرائیل نے شام پر زور دیا کہ وہ اپنے قدم پیچھے نہ ہٹائے ۔ وزیر اعظم اسرائیل ایہود المرٹ کے ترجمان نے اسد کے انٹرویو پر ردعمل جاننے کی خواہش پر کہا کہ امن کے لئے ہم سنجیدہ ہیں موجودہ موقع کو بیچ راستہ میں چھوڑ دینا ایک مذاق ہو گا ۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ نے وزیر اعظم ترکی طیب اردگان کے ذریعہ شام کے صدر کو ایک پیغام بھیجا ہے اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے ۔
بین العقائد عالمی کانفرنس کل میڈرڈ میں شروع ہو گی ، شاہ عبد اللہ افتتاح کریں گے
مسلم ورلڈ لیگ کی جانب سے تمام تیاریاں مکمل ، پہلے اجلاس کی صدارت قائد میلینیم ورلڈ پیس باوا جین کریں گے
میڈرڈ ۔ خادم حرمین شریفین و حکمران سعودی عرب شاہ عبد اللہ ( کل ) 16 جولائی کو بین الاقوامی بین العقائد کانفرنس کا افتتاح کریں گے ۔ اس کانفرنس کی میزبان مسلم ورلڈ ( ایم ڈبلیو ایل )نے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں ۔ اس سہ روزہ کانفرنس میں توقع ہے کہ مختلف مداہب بشمول عیسائیت ، یہودیت ، ہندو ازم اور بدھ ازم کے زائد از 200 رہنما شرکت کریں گے ۔ افتتاحی اجلاس سے اسپین کے شاہ جان کارلوس ، اس ملک کے وزیر اعظم جے ایل راڈیگس زپاٹیرو اور سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایل عبداللہ الترکی خطاب کریں گے ۔ پہلے اجلاس کا موضوع ’’ مذاکرات اور اس کی مذہبی و تہذیبی اساس ‘‘ ہو گا ۔ سیکرٹری جنرل میلینیم ورلڈ پیسچوٹی کانفرنس باوا جین اس پہلے اجلاس کی صدارت کریں گے ۔ اسلامک بینک ( دبئی ) کے ایگزیکٹو حسین حامد بموضوع ’’ اسلام میں مذاکرات ‘‘ پر اظہار خیال کریں گے ۔ لبنان کے وزیر تہذیبی امور طارق متری ( رکن ورلڈ کونسل آف چرچس ) ’’ عیسائیت میں مذاکرات ‘‘ کے موضوع پر تقریر کریں گے اپیل آف کنسائنس فاونڈیشن کے آتھر شینر اورانٹر فیتھ فاونڈیشن کے ڈائریکٹر ایم ایم ورما بھی خطاب کریں گے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت سعودی ، شوری کونسل کے صدر صالح بن حمید کریں گے ۔ اس اجلاس میں مختلف مقررین ’’ آج کے معاشرہ میں مذاکرات کی اہمیت ‘‘ پر روشی ڈالیں گے ۔ صدر کمیٹی آف ورلڈ پارلیمنٹ برائے امن و مذہب ( جاپان ) نچیکو لیوانو ایک مقالہ پیش کریں گے ۔ صدر کلچرل فاونڈیشن برائے امن ( اسپین ) پروفیسر ایف ایم ڈرا کوزا ، ’’پر امن بقائے باہم پر مذاکرات کے اثرات ‘‘پر خطاب کریں گے ۔مراکش اکیڈمی کے رکن عبد الہادی تازی ، بین الاقوامی تعلقات پر مذاکرات کے موضوع پر ایک مقابلہ پیش کریں گے۔ صدر نشین انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسلام( لبنان ) رضوان السید ، تہذیبوں کے تصادم کی اپیلوں کے پیش نظر مذاکرات کی اہمیت کے موضوع پر روشنی ڈالیں گے۔ تیسرے اجلاس کا موضوع ’’ بات چیت کے دائرہ میں مشترکہ انسانی اقدار‘‘رکھا گیاہے۔ عالمی کانفرنس برائے امن و مذاہب ( امریکا ) کے جنرل سیکرٹری ، ویلینیم ایف وینڈلی صدارت کریں گے ۔ کونسل برائے امریکا اسلامی تعلقات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عوض ، عالمی فورم برائے قربت اسلامی مسالک ( ایران ) کے سیکرٹری جنرل محمد علی تشکیل ، ہندوستان کے شنکر اچاریہ اوم کارسرسوتی اور پانٹیشل برائے بین المذاہب مذاکرات ( وٹیکا ) کے ایم اے گگجوٹ مقالہ پیش کریں گے ۔ چوتھا اجلاس بموضوع مذاکرات کے فروغ کی اہمیت منعقد ہو گا۔ یہودی کانگریس ( لا طینی امریکا و کریبین ) کے سیکرٹری جنرل ربی کارڈیو اپیل میں صدارت کریں گے ۔ مقررین میں متحدہ عرب امارات کے عزالدین مصطفیٰ ، بدھسٹ ایسوسی ایشن آف چائنا کے جیوچنگ اور اردن کے مرکز برائے مذہبی بقائے باہم کے حداد اور مصری شوری کونسل کے رکن نبیل ایل بیبادی شامل ہیں ۔ اختتامی اجلاس جمعہ 18 جولائی کو صبح دس بجے شروع ہو گا ۔ مسلم ورلڈ لیگ کے ایسوسی ایشن سیکرٹری عبد الرحمان ، قطعی اعلامیہ سنائیں گے۔
میڈرڈ ۔ خادم حرمین شریفین و حکمران سعودی عرب شاہ عبد اللہ ( کل ) 16 جولائی کو بین الاقوامی بین العقائد کانفرنس کا افتتاح کریں گے ۔ اس کانفرنس کی میزبان مسلم ورلڈ ( ایم ڈبلیو ایل )نے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں ۔ اس سہ روزہ کانفرنس میں توقع ہے کہ مختلف مداہب بشمول عیسائیت ، یہودیت ، ہندو ازم اور بدھ ازم کے زائد از 200 رہنما شرکت کریں گے ۔ افتتاحی اجلاس سے اسپین کے شاہ جان کارلوس ، اس ملک کے وزیر اعظم جے ایل راڈیگس زپاٹیرو اور سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایل عبداللہ الترکی خطاب کریں گے ۔ پہلے اجلاس کا موضوع ’’ مذاکرات اور اس کی مذہبی و تہذیبی اساس ‘‘ ہو گا ۔ سیکرٹری جنرل میلینیم ورلڈ پیسچوٹی کانفرنس باوا جین اس پہلے اجلاس کی صدارت کریں گے ۔ اسلامک بینک ( دبئی ) کے ایگزیکٹو حسین حامد بموضوع ’’ اسلام میں مذاکرات ‘‘ پر اظہار خیال کریں گے ۔ لبنان کے وزیر تہذیبی امور طارق متری ( رکن ورلڈ کونسل آف چرچس ) ’’ عیسائیت میں مذاکرات ‘‘ کے موضوع پر تقریر کریں گے اپیل آف کنسائنس فاونڈیشن کے آتھر شینر اورانٹر فیتھ فاونڈیشن کے ڈائریکٹر ایم ایم ورما بھی خطاب کریں گے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت سعودی ، شوری کونسل کے صدر صالح بن حمید کریں گے ۔ اس اجلاس میں مختلف مقررین ’’ آج کے معاشرہ میں مذاکرات کی اہمیت ‘‘ پر روشی ڈالیں گے ۔ صدر کمیٹی آف ورلڈ پارلیمنٹ برائے امن و مذہب ( جاپان ) نچیکو لیوانو ایک مقالہ پیش کریں گے ۔ صدر کلچرل فاونڈیشن برائے امن ( اسپین ) پروفیسر ایف ایم ڈرا کوزا ، ’’پر امن بقائے باہم پر مذاکرات کے اثرات ‘‘پر خطاب کریں گے ۔مراکش اکیڈمی کے رکن عبد الہادی تازی ، بین الاقوامی تعلقات پر مذاکرات کے موضوع پر ایک مقابلہ پیش کریں گے۔ صدر نشین انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسلام( لبنان ) رضوان السید ، تہذیبوں کے تصادم کی اپیلوں کے پیش نظر مذاکرات کی اہمیت کے موضوع پر روشنی ڈالیں گے۔ تیسرے اجلاس کا موضوع ’’ بات چیت کے دائرہ میں مشترکہ انسانی اقدار‘‘رکھا گیاہے۔ عالمی کانفرنس برائے امن و مذاہب ( امریکا ) کے جنرل سیکرٹری ، ویلینیم ایف وینڈلی صدارت کریں گے ۔ کونسل برائے امریکا اسلامی تعلقات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عوض ، عالمی فورم برائے قربت اسلامی مسالک ( ایران ) کے سیکرٹری جنرل محمد علی تشکیل ، ہندوستان کے شنکر اچاریہ اوم کارسرسوتی اور پانٹیشل برائے بین المذاہب مذاکرات ( وٹیکا ) کے ایم اے گگجوٹ مقالہ پیش کریں گے ۔ چوتھا اجلاس بموضوع مذاکرات کے فروغ کی اہمیت منعقد ہو گا۔ یہودی کانگریس ( لا طینی امریکا و کریبین ) کے سیکرٹری جنرل ربی کارڈیو اپیل میں صدارت کریں گے ۔ مقررین میں متحدہ عرب امارات کے عزالدین مصطفیٰ ، بدھسٹ ایسوسی ایشن آف چائنا کے جیوچنگ اور اردن کے مرکز برائے مذہبی بقائے باہم کے حداد اور مصری شوری کونسل کے رکن نبیل ایل بیبادی شامل ہیں ۔ اختتامی اجلاس جمعہ 18 جولائی کو صبح دس بجے شروع ہو گا ۔ مسلم ورلڈ لیگ کے ایسوسی ایشن سیکرٹری عبد الرحمان ، قطعی اعلامیہ سنائیں گے۔
عمر البشیر کی متوقع وارنٹ گرفتاری ‘ امریکہ کا سوڈان میں سیکیورٹی میں اضافے کا اعلان
واشنگٹن ۔امریکہ نے سوڈان کے صدر عمر البشیر پر جنگی جرائم کی عالمی عدالت سے فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد ان کی متوقع وارنٹ گرفتاری جاری کرنے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے سوڈان میں سیکیورٹی میں اضافے کا اعلان کیا ہے ۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سین میک کارمک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے نہ صرف سوڈان میں مناسب سیکیورٹی اقدامات اٹھائے ہیں بلکہ سوڈانی حکومت کو امریکی اور دیگر غیر ملکی باشندوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے یاد دہانی بھی کرائی ہے ۔
سرطان کا کھوج لگانے والا جدید آلہ تیار
آلہ اتنا طاقتور ہے کہ یہ خون کے لاکھوں طاقتور خلیوں میں اکیلے کینسر سیل کو بھی ڈھونڈ سکتا ہے
واشنگٹن ۔ طبی ماہرین نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جوکینسر کیان خلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے جو پھیپھڑوں کے ٹیومرز سے الگ ہوکر خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ آلہ کینسر کے خلیوں پر دواؤں کے اثرات کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ یہ آلہ بوسٹن کی میساچیوسٹس جنرل کی ایجاد ہے۔ آلے کے استعمال پر اسپتالوں میں تجربات ہوچکے ہیں اور اِس کی تفصیل نیو انگلینڈ کے ’جَرنل آف میڈیسن‘ میں چھپ چکی ہے۔ یہ آلہ اتنا طاقت ور ہے کہ یہ خون کے لاکھوں طاقتور خلیوں میں اکیلے کینسر سل کو بھی ڈھونڈھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر ڈینیل ہیربر جو بوسٹن کے میساچیوسٹس جنرل اسپتال کے کینسر سینٹر میں ڈائریکٹر ہیں کہتے ہیں کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہم مریض کے خون میں کینسر سیلز کانمونہ لے سکتے ہیں اور اسی وقت ان کو گن سکتے ہیں۔ ان کا موازنہ کر سکتے ہیں اور یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی مریض کے کینسر سیلز کسی دوا کے خلاف کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پھیپھڑوں کا کینسر سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہر سال دس لاکھ سے زیادہ افراد اس کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں اور صرف15% اس کی تشخیص کے بعد 5 سال یا اس سے زیادہ زندہ رہ پاتے ہیں ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئے ٹیسٹ سے لوگوں کو بچانے یا زیادہ عرصہ زندہ رکھنیمیں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر ڈینیل کہتے ہیں کہ اس ٹیسٹ کی بدولت مہینوں کے بدلے ہم دنوں میں یہ جان سکیں گے کہ مریض پر دوا کا کیا اثر ہو رہا ہے اور کیا یہی دوا جاری رکھی جائے یا تبدیل کی جائے اور اگر بدلی جائے تو کس قسم کی دوا زیادہ فائدہ مند ہو گی۔ کئی عشروں سے ڈاکٹروں نے کینسر کا پتہ چلانے کی لیے بائیوپسیز اور کیٹ سکینز پر انحصار کیا ہے مگر بائیوپسیز میں خون کے بہہ جانے یا انفکشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور یہ جاننے میں مہینے لگتے ہیں کہ کیا کینسر پھیل رہا ہے۔ سکینز سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کینسر سیلز کو کس حد تک ختم کیا گیا ہے تو اس سے علاج کو مریض کے مطابق نہیں ڈھالا جا سکتا۔ اس نئے ٹیسٹ میں بزنس کارڈ کے برابر سیلکون چپ استمال کی جاتی ہے۔ یہ چپ 80 ہزار انتہائی چھوٹے پلرز سے ڈھکی ہوئی ہے جس میں سے خون آسانی سے گزر جاتا ہے مگر کینسر سیلز اس کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ ماہرین نے پھپھڑوں کے مرض میں مبتلا 27ایسے مریضوں پر ٹیسٹ کیا جن کا مرض جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل چکا تھا۔ چپ نے ہر مریض کے جسم میں پھیلنے والے سیلز کی تعداد کی صحیح جانچ کی اور ہر مرتبہ ان سیلز کا تقریباً 90% درست موازنہ کیا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کاربون کا تعلق ناشویل میں واقع کینسر کے ایک سینٹر سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں مختلف قسم کے کینسر میں مبتلا مریضوں پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔ٹیسٹ ابھی تک تجرباتی مرحلوں میں ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ اگلے تین سال میں یہ آلہ کینسر کے مریضوں کے لیے دستیاب ہوگا۔
واشنگٹن ۔ طبی ماہرین نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جوکینسر کیان خلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے جو پھیپھڑوں کے ٹیومرز سے الگ ہوکر خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ آلہ کینسر کے خلیوں پر دواؤں کے اثرات کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ یہ آلہ بوسٹن کی میساچیوسٹس جنرل کی ایجاد ہے۔ آلے کے استعمال پر اسپتالوں میں تجربات ہوچکے ہیں اور اِس کی تفصیل نیو انگلینڈ کے ’جَرنل آف میڈیسن‘ میں چھپ چکی ہے۔ یہ آلہ اتنا طاقت ور ہے کہ یہ خون کے لاکھوں طاقتور خلیوں میں اکیلے کینسر سل کو بھی ڈھونڈھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر ڈینیل ہیربر جو بوسٹن کے میساچیوسٹس جنرل اسپتال کے کینسر سینٹر میں ڈائریکٹر ہیں کہتے ہیں کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہم مریض کے خون میں کینسر سیلز کانمونہ لے سکتے ہیں اور اسی وقت ان کو گن سکتے ہیں۔ ان کا موازنہ کر سکتے ہیں اور یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی مریض کے کینسر سیلز کسی دوا کے خلاف کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پھیپھڑوں کا کینسر سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہر سال دس لاکھ سے زیادہ افراد اس کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں اور صرف15% اس کی تشخیص کے بعد 5 سال یا اس سے زیادہ زندہ رہ پاتے ہیں ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئے ٹیسٹ سے لوگوں کو بچانے یا زیادہ عرصہ زندہ رکھنیمیں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر ڈینیل کہتے ہیں کہ اس ٹیسٹ کی بدولت مہینوں کے بدلے ہم دنوں میں یہ جان سکیں گے کہ مریض پر دوا کا کیا اثر ہو رہا ہے اور کیا یہی دوا جاری رکھی جائے یا تبدیل کی جائے اور اگر بدلی جائے تو کس قسم کی دوا زیادہ فائدہ مند ہو گی۔ کئی عشروں سے ڈاکٹروں نے کینسر کا پتہ چلانے کی لیے بائیوپسیز اور کیٹ سکینز پر انحصار کیا ہے مگر بائیوپسیز میں خون کے بہہ جانے یا انفکشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور یہ جاننے میں مہینے لگتے ہیں کہ کیا کینسر پھیل رہا ہے۔ سکینز سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کینسر سیلز کو کس حد تک ختم کیا گیا ہے تو اس سے علاج کو مریض کے مطابق نہیں ڈھالا جا سکتا۔ اس نئے ٹیسٹ میں بزنس کارڈ کے برابر سیلکون چپ استمال کی جاتی ہے۔ یہ چپ 80 ہزار انتہائی چھوٹے پلرز سے ڈھکی ہوئی ہے جس میں سے خون آسانی سے گزر جاتا ہے مگر کینسر سیلز اس کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ ماہرین نے پھپھڑوں کے مرض میں مبتلا 27ایسے مریضوں پر ٹیسٹ کیا جن کا مرض جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل چکا تھا۔ چپ نے ہر مریض کے جسم میں پھیلنے والے سیلز کی تعداد کی صحیح جانچ کی اور ہر مرتبہ ان سیلز کا تقریباً 90% درست موازنہ کیا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کاربون کا تعلق ناشویل میں واقع کینسر کے ایک سینٹر سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں مختلف قسم کے کینسر میں مبتلا مریضوں پر اس کا تجربہ کیا جائے گا۔ٹیسٹ ابھی تک تجرباتی مرحلوں میں ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ اگلے تین سال میں یہ آلہ کینسر کے مریضوں کے لیے دستیاب ہوگا۔
عوام کو مہنگائی میں ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تحریر : اے پی ایس،اسلام آباد
گزشتہ د نوں بلوچستان کے دورہ کے موقع پرمسلم لیگ (ن)کے صدر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے نواب اکبر بگٹی کو محفوظ راستہ نہیں دیا تھا انہیں کسی صورت محفوظ راستہ نہیں دیا جائے گا ملک کو ساٹھ سال میں ڈکٹیٹروں نے اس حال تک پہنچایا ہے اور گزشتہ آٹھ سال کے دوران ہونے والے واقعات پر سابق حکمرانوں کا محاسبہ ہوگا اورانہیں عوام کے سامنے جواب دینا پڑے گا مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان پارلیمنٹ اور رہنماوں نے ججوں کی بحالی کیلئے حلف اٹھایا ہے اور وہ اس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ہم نے پہلے د ن ہی وفاقی حکومت سے کہہ دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزراء کے استعفوں سے خالی ہونے والی سیٹوں پر نئے وزراء کا تقرر کردیا جائے تاہم ہم حکومت گرنے نہیں دیں گے ہم بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کریں گے اور اسے وفاق میں مساوی حیثیت دیکر قائداعظم کے پاکستان کو مضبوط بنائیں گے ہمارا عزم ہے کہ 1973ءکے آئین کے مطابق صوبائی خودمختاری کو یقینی بنایا جائے عدلیہ کی بحالی بہت بڑا مسئلہ ہے یہ صرف جسٹس افتخار کی بحالی نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کا مسئلہ ہے اگر آج تین نومبر کے اقدامات کو تسلیم کرکے اس کو اسی طرح جانے دیا گیا تو دو ،چار سال کے بعد کوئی اور ڈکٹیٹر آجائے گا اور وہ ججوں کے ساتھ ساتھ تمام پارلیمنٹ کو بھی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دے گااسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہم اس کو کریں گے نواز شریف نے پہلی مرتبہ 1991ءمیں قدرتی وسائل پر رائلٹی کا حق تسلیم کیا اور صوبوں کو رائلٹی دی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) وسائل کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے گزشتہ آٹھ سال سے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہیں کیا گیا یہ سب ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے ہوا ہے نواز شریف کے دور میں این ایف سی ایوارڈ دیا گیا اور اس میں وسائل کی درست تقسیم کا فارمولہ طے پایا تھا وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے انہوں نے تینوں وزراء اعلیٰ کی کوارڈی نیشن کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی ہے جس کا ہر ایک ڈیڑھ ماہ بعد اجلاس ہو اور تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کیا جائے وسائل کی تقسیم انصاف کی بنیاد پر ہونی چاہئے آبادی بھی فارمولے میں اہمیت رکھتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم چھوٹے صوبوں کی محرومیوںاورپسماندگی کو بھی بنیاد بنایا جائے ہم عوام کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں اور عوام کی مدد سے قائداعظم کے پاکستان کو بہتر بنائیں گے بلوچستان کے عوام کو پیشہ ور فوج اور ڈکٹیٹروں کے درمیان تفریق کرنی ہوگی پاکستان کی فوج انتہائی پیشہ وارانہ ادارہ ہے اس کے محض چند جرنیلوں نے اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈکٹیٹر شپ نافذ کی اور عوام کے اوپر مظالم ڈھائے جس سے نفرتیں پیدا ہوئیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ پنجاب کی فوج یا سول بیورو کریسی نا انصافیاں کر رہی ہے ملک میں آج تک جتنے بھی مارشل لائ لگے اور ڈکٹیٹر آئے ان میں سے کوئی بھی پنجابی نہیں تھا اگر ففٹی ،ففٹی کا فارمولا نہ ٹھونسا جاتا تو 1971ء میں قائد کا پاکستان نہ ٹوٹتا جس نے بھی یہ کیا اس نے پاکستان کے ساتھ غداری کی ہم محض لفاظی سے کام نہیں لے رہے بلکہ چھوٹے صوبوںکا احساس محرومی دور کرنے کیلئے عملی اقدامات کیلئے تیار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہمیں برداشت اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ہم اسے بڑے بھائی کی حیثیت سے نہیں بلکہ سگے بھائی کی حیثیت سے ڈیل کریں گے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ، پنجاب کے آٹھ کروڑ عوام اور حکومت پنجاب کی طرف سے خیر سگالی اور محبت کا پیغام لیکر آیا ہوں بلوچستان میں نواب بگٹی کے قتل سمیت جس قسم کی بھی کوئی زیادتی ہوئی ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ نواب اکبر بگٹی جس نے پاکستان کیلئے ووٹ دیا وفاقی وزیر ،گورنر اور وزیراعلیٰ رہے ان کو مار دیا جاتا ہے یہ سب ڈکٹیٹر شپ کے کمالات ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیںانہوں نے بلوچستان میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے قیام کیلئے عمارت بنانے کا اعلان کرتے ہو ئے کہا کہ حکومت پنجاب اس انسٹی ٹیوٹ میں این جی او گرافی کی مشین بھی بطور تحفہ دے گی جبکہ پنجاب کی فروٹ اورسبزی منڈیوں میں بلوچستان کے زمینداروں کو سبزیاں اور پھل فروخت کرنے کیلئے جگہیں مختص کی جائیں گی اور انہیں دکانیں دیں گے بین الصوبائی رابطوں کے فروغ کیلئے دانشوروں اور اہل قلم کے وفود بھی پنجاب کا دورہ کریں اور اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی سابق حکمرانوں نے آئین توڑا ،عدلیہ کو معطل کیا اور ججوں کو قید کیا انہوں نے بہت بڑے جرائم کا ارتکاب کیا انہیں کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا ہم نے پہلے ہی اتحادیوں سے کہہ دیا تھا کہ صدر کو فارغ کرنا چاہئے اورا ن کا محاسبہ ہونا چاہئے اگر مسلم لیگ (ن) کے پاس اکثریت ہوتی توہم پہلے دن ہی یہ کام کرتے البتہ ہمارے اتحادیوں کی مجبوریاں ہوسکتی ہیں وہ کچھ بھی ہوں لیکن ہم اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کو قائم رکھنے کا ایک ہی واحد راستہ ہے کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے تمام اکائیوں کے حقوق کا احترام کیا جائے اور تمام اکائیوں کو مساوی حیثیت دی جائے۔انہوں نے کوئٹہ میں شاندار استقبال پر وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں پنجاب کے دورے کی دعوت دی ۔انہوں نے بلوچستان کے عوام کیلئے پنجاب میں بعض مراعات کا بھی اعلان کیا ۔ انہوں نے بلوچستان کو درآمدی گندم آنے تک پچاس ہزار ٹن گندم فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا جبکہ پنجاب کے تمام میڈیکل کالجز اور دیگر پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلبہ کی سیٹیں 90سے بڑھا کر 220کرنے کا اعلان کیا اس کے علاوہ آبپاشی اور کاشتکاری کیلئے بلوچستان کو تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی پولیس کی تربیت کیلئے بھی ماسٹر ٹرینر دیئے جائیں گے ۔ جبکہ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہپارلیمنٹ اور عدلیہ ملکی نظام کے بازو ہیں، جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوتی پارلیمنٹ مستحکم نہیں ہوسکتی۔حکمرانوں کو وکلاءکی طاقت کا اندازہ نہیں،وکلاء ججز کی بحالی تک تحریک جاری رکھیں گے حکمران چاہتے تھے کہ وکلاء لانگ مارچ کے بعد دھرنادیں اور وہاں ہلڑبازی ہو ایسا ہوتا تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججز کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی جاتی۔اس امر کا اظہا ر انہوں نے جوڈیشل کرائسس منجمنٹ کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار سے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کمال، لاہور بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد شاہ ، شفقت چوہان اور پیر خورشید کلیم نے بھی خطاب کیا ۔بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عدا لتی بحران کے باعث پاکستانی سرمایہ کار بھی دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جس سے مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ ملکی نظام کے بازو ہیں۔بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ حکمران چاہتے تھے کہ وکلاء لانگ مارچ کے بعد دھرنادیں اور وہاں ہلڑبازی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو حکمرانوں کی جانب سے چیف جسٹس سمیت بے شمار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کردی جاتی ۔ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو وکلاءکی طاقت کا اندازہ نہیں ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججز کی بحالی تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تین نومبر کو پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے جج صاحبان میں سے کسی نے اب عدالتوں میں بیٹھنے کی کوشش کی تو اسے بھی پی سی او جج تصور کیا جائے گا۔تقریب سے ہائیکورٹ بار کے صدر انور کمال لاہور بار کے صدر منظور قادر اور جوڈیشل کرائسس منجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین شفقت محمود چوہان نے بھی خطاب کیا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے علاوہ کسی کو چیف جسٹس تسلیم نہیں کرتے اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو کسی سیمینار سے خطاب نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ انیس جولائی کو تحریک کے مستقبل کے حوالے سے سخت فیصلے کئے جائیں گے ۔جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت کی سو دن کی کارکردگی کے حوالے سے قوم کو اپنے خطاب میں بیان کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن ہماری اتحادی ہے نواز شریف ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ ججوں کو تنخواہیں اور آزادی فراہم کی جلد بحال کرنے کا راستہ بھی نکال لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے ، ہمارے اندرونی معاملات میں کسی کو بھی مداخلت کرنے کا نہ حق ہے اورنہ ہی یہ اجازت کسی کو دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کے آئندہ لائحہ عمل کے لئے 23 اور 24 جولائی کو اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی پاکستان کا ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے ، تیل اور خوردونوش کی اشیاء کی قیمتیں دنیا بھر میں بڑی ہیں جن کے خلاف ہرملک کی عوام سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سرحد حکومت امن و امان قائم رکھنے کے حوالے سے وفاقی حکومت سے جو بھی مدد مانگے گی انہیں فراہم کی جائے گی ۔ہنگو میں فوج سرحد حکومت کی خواہش پر بھیجی گئی ۔ میں نے سرحد حکومت سے قبائلی علاقوں بالخصوص ہنگو میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے ہدایت کی ہے ۔پارلیمنٹ نے صدر کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ اسے قبول کریں گے اور اقتدار چھوڑ کر الگ ہو جائیں گے امن و امان کا قیام اور عوام کو مناسب قیمتوں پر خورد و نوش کی اشیاء فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ہم اس کی ذمہ داری سابق حکومت پر نہیں ڈالیں گے ۔ پاکستان کے 16 کروڑ عوام کیا چاہتے ہیں مجھے علم ہے 99 فیصد عوام ملک میں امن اور ملک کی ترقی ، خوشحالی اور عزت کے خواہاں ہیں ۔ صوبہ سرحد و قبائلی علاقوں کے خراب حالات عوام کے لئے پریشانی اور تشویش کا باعث ہیں جس سے پاکستان کا امیج ملک بھر میں خراب ہو رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے یونین کونسل سے لیکر ایم این اے تک سیاست کی ہے اور تمام عہدے بھی دیکھے ہیں اس لئے عوام کی مشکلات سے پوری طرح آگاہ ہو ں۔انہوں نے کہا کہا کہ دنیا بھر میں تیل کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہو چکا ہے ، اشیائ خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کا اثر پاکستان پر بھی آرہا ہے اسی لئے دنیا بھر میں لوگ مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان ایشوز پر ہم غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے حکمت عملی بنا رہے ہیں جسے جلد قوم کو آگاہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر نواز لیگ کے وزراء کے کابینہ سے مستعفی ہو جانے کے باعث ہم اپنی کابینہ کو مکمل نہیں کر سکے جسے تین حصوں میں تشکیل دیا جانا تھا ابھی تک پارلیمانی سیکرٹری اور سٹینڈنگ کمیٹوں کے چیئرمین بھی نہیں بنائے جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورے کر رہے ہیں بہت جلد کابینہ مکمل کر لی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گورنر سرحد وزیر اعلی سرحد سے ملاقات میں صوبہ میں امن و امان کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی ہے اور انہیں جلد وہاں امن قائم کرنے کے لئے کہا ہے ۔ اس حوالے سے سرحد کی صوبائی حکومت سیکورٹی کے حوالے سے جو بھی مدد طلب کرے گی اسے فراہم کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اپنی حکومت کی سو دن کی کارکردگی اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے وضاحت میں اپنی نشری تقریر میں کروں گا جس کے لئے کابینہ سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کل ای سی سی سٹرٹیجک اور پرسوں کابینہ کے اجلاس میں ان معاملات پر غور کیا جائے گا اور میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ اسے ریلیف دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے ۔ہم پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور یقین دلاتا ہوں کہ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ہم ن لیگ ، اے این پی ، جے یو آئی ف اور حکومت سے باہر کی جماعتوں سے مل کر حکمت عملی بنا رہے ہیں ۔صدر پرویز کے مواخذہ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ صدر خود کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے گی اسے وہ قبول کریں گے اور وہ 14 فروری کے عوامی مینڈیٹ کو بھی تسلیم کر چکے ہیں ۔ اس لئے پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنے دیں جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اسے قبول کریں گے ۔ جبکہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وکیل بیرسٹر اقبال جعفری نے عدالت کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کے مقدمہ میں صد رپرویز مشرف اور مشیر داخلہ رحمن ملک کو فریق بنانے کی درخواست دے دی ہے ۔ بیرسٹر اقبال جعفری نے عدالت کو تجویز دی کہ اس معاملے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چیمبر میں باعزت طورپر خوش اسلوبی سے حل کرلیا جائے ورنہ پنڈورہ بکس کھلنے کا خدشہ ہے ۔ بیرسٹر اقبال جعفری نے کہاکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ میں ابھی جاسوسی کے آلات لگے ہوئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر ان آلات کی تصاویر میڈیا کو پیش کیں انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ان پر پابندی نہیں ہے تو انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کے بعد میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کیا گزشتہ روز سیکیورٹی اہلکاروں نے میڈیا نمائندوں کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ تکجانے کی اجازت نہیں دی تھی جبکہ بیرسٹر اقبال جعفری کو بھی حساس ادارے کی گاڑی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے گھر لے جایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے نمائندوں کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ تک جانے سے روکن آزادی صحافت اور آئین کی خلاف ورزی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صحت دن بدن خراب ہو رہی ہے انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مطالبہ کیا ہے کہ ساڑھے چار سل قبل کی طرح انہیں سیکیورٹی کے ہمراہ گھر سے باہر آنے جانے کی اجازت دی جائے ۔ بیرسٹر اقبال جعفری نے کہا کہ حکومت معاملے کو طول دینے کے بجائے باعزت طور پر اسے حل کرے ایسی کئی پردہ نشینوں کا فائدہ ہے انہوں نے کہاکہ حکومت پنڈورہ بکس نہ کھولے اہم معاملوں کے حوالے سے میں نے سٹرٹیجک پلاننگ ڈویڑن کے سربراہ قدوائی کو خط لکھا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ساڑھے چار سالوں سے حبس بیجا میں رکھا جارہا ہے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی کہاہے کہ قبائلی علاقوںمیں قیام امن تک کارروائی جاری رہے گی ۔ان علاقوں میں ازبک ، تاجک ، اور چیچن باشندے موجود ہیں ان غیرملکیوں کی موجودگی سے خدشہ ہے کہ نائن الیون طرح کاسانحہ پیش نہ آ جائے ۔یہ غیر ملکی باشندے ہماری زمین سے نکل جائیں ۔امریکی مداخلت کسی صورت قبول نہیں ہو گی۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کثیر الجہتی حکمت عملی کی حمایت کرتا ہے ۔کسی بھی ایسی بات کو جو ہماری خود مختاری کے خلاف ہو برداشت نہیں کریں گے ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے پیر کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں موٹر وے پولیس کی تقریب تقسیم ایوارڈ کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں توقع ہے دہشت گردی کے حوالے سے ہماری تین نکاتی حکمت عملی اور ہمارے معاملات میں امریکا مداخلت نہیں کرے گا نہ ہم اپنی خود مختاری پر کوئی آنچ آنے دیں گے ۔اپنے علاقوں پر کسی صورت امریکی حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اتحادیوں کو صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے ۔فاٹا میں جاری کارروائی امن کے لیے ہے اور اس وقت تک یہ کارروائی جاری رہی گی جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا ۔غیر ملکی ہمارے قبائلی علاقوں سے نکل جائیں تاکہ یہاں امن قائم ہو سکے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہاکہ کابینہ میں توسیع ، پارلیمانی سیکرٹریز ، کی تقرری ، قائمہ کمیٹیوں کے چےئرمینوں کی نامزدگی کے حوالے سے اتحادیوں سے بات ہوئی ہے ۔میاں محمد نواز شریف نے اس حوالے سے چوہدری نثار علی خان کو نامزد کیاہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ نواز شریف ہمیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے ۔ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔افہام و تفہیم سے تمام معاملات حل کریں گے۔ اپوزیشن کی قدر کرتے ہیں ۔بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے بارے میں مسلم لیگ ق کی مخالفت کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مشاہد حسین سید کو معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کی قرار داد پارلیمنٹ نے منظور کی تھی ۔ سو روزہ پروگرام کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لوں گا۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ کو تفصیل سے آگاہ کیاجائے گا۔ وزیر اعظم نے واضح کیاکہ اپنی سرزمین پر شر پسندوں کی کارروائیوں کو برداشت نہیں کروں گا۔ عوام بھی یہی چاہتے ہیں حکومت تعلیم ، صحت سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ ا یک سوال کے جواب میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ فیصلے زرداری ہاو¿س میں ہوتے ہیں ، وزیراعظم بننے کے بعد ایک بار بھی زرداری ہاو¿س نہیں گیا ۔موجودہ حکومت کو دنیا کا کمزور ترین حکمران دھمکیاں دے رہا ہے جس کی اپنی حکومت ایک محل تک قائم ہے ۔ قومی اسمبلی میں بھی اس بات کو اٹھا نا نا گزیر ہے۔پہلے تو یہ حکمران جلا وطن تھے اب لگ رہا ہے حکومت ہی جلا وطن ہے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ملائیشیا کا 53 افراد کے ساتھ دورہ کیا اور واپسی پر آصف علی زرداری کے کہنے پر دبئی میں حکومت کے خرچے پر رکے رہے ۔ اس بات کا حساب انہیں پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے دینا چاہیے تا کہ اس بارے جن لوگوں کے تحفظات ہیں ان کا منہ بند ہو۔ اے پی ایس
Subscribe to:
Posts (Atom)