اسلام آباد ۔ سابق کور کمانڈر راولپنڈی ایکس سروسز مین سوسائٹی کے رہنما جنرل(ر) جمشید گلزارکیانی نے کہا ہے کہ کور کمانڈرز نے امریکہ سے تعاون کر نے پر صدر پرویز مشرف کی مخالفت کی تھی اسی طرح صدارتی ریفرنڈم پر بھی صدر کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اگر آپ نے بھی ریفرنڈم کروایا تو آپ میں اور جنرل ضیاء الحق میں کیا فرق رہ جائے گا آج پلڈاٹ کے زیر اہتمام سول ملٹری تعلقات کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے انہو ںنے کہا کہ کور کمانڈر اپنی سروس کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کو مشورہ ضرور دیتے ہیں یہ تاثر درست نہیں کہ فوج کے افسران دوران سروس فوج کے سر براہ کے سامنے ایشوز کے حوالے سے بات نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے صدارت کا عہدہ حاصل کیا میں اس وقت کور کمانڈر نہیں بلکہ آئی ایس آئی کا سر براہ تھا ایک ماہ کے بعد میں نے ٹین کور کی کمانڈ سنبھالی تھی انہوں نے کہا کہ کور کمانڈرز ڈمی نہیں ہوتے کہ وہ ایشوز پر چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے بات نہ کریں انہوں نے کہا کہ ایکس سروس مین سوسائٹی ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جس کا ایجنڈا پرویز مشرف کو ہٹانا ہے ہم نے آزاد عدلیہ کی غیر مشروط حمایت کی ہے انہوں نے کہا کہ ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ دوران سروس ہم کیوں نہیں بولتے لیکن کیا آج چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تین نومبر کے غیر آئینی صدارتی اقدامات پر صدر پرویز مشرف سے پوچھا کہ انہوں نے یہ اقدام کیوں کیا کیا انہوں نے آئین کی خلاف ورزی پرصدر پرویز مشرف سے بات کی ہے کانفرنس میں سابق گورنر پنجاب شاہد حامد اور جنرل(ر) معین الدین حیدر نے بھی شرکت کی اور مختلف سوالات کے جوابات دئیے
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, June 17, 2008
کور کمانڈرز نے امریکہ سے تعاون کر نے اور ریفرنڈم پر صدر پرویز مشرف کی مخالفت کی تھی۔جمشید گلزار کیانی
اسلام آباد ۔ سابق کور کمانڈر راولپنڈی ایکس سروسز مین سوسائٹی کے رہنما جنرل(ر) جمشید گلزارکیانی نے کہا ہے کہ کور کمانڈرز نے امریکہ سے تعاون کر نے پر صدر پرویز مشرف کی مخالفت کی تھی اسی طرح صدارتی ریفرنڈم پر بھی صدر کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اگر آپ نے بھی ریفرنڈم کروایا تو آپ میں اور جنرل ضیاء الحق میں کیا فرق رہ جائے گا آج پلڈاٹ کے زیر اہتمام سول ملٹری تعلقات کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے انہو ںنے کہا کہ کور کمانڈر اپنی سروس کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کو مشورہ ضرور دیتے ہیں یہ تاثر درست نہیں کہ فوج کے افسران دوران سروس فوج کے سر براہ کے سامنے ایشوز کے حوالے سے بات نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے صدارت کا عہدہ حاصل کیا میں اس وقت کور کمانڈر نہیں بلکہ آئی ایس آئی کا سر براہ تھا ایک ماہ کے بعد میں نے ٹین کور کی کمانڈ سنبھالی تھی انہوں نے کہا کہ کور کمانڈرز ڈمی نہیں ہوتے کہ وہ ایشوز پر چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے بات نہ کریں انہوں نے کہا کہ ایکس سروس مین سوسائٹی ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جس کا ایجنڈا پرویز مشرف کو ہٹانا ہے ہم نے آزاد عدلیہ کی غیر مشروط حمایت کی ہے انہوں نے کہا کہ ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ دوران سروس ہم کیوں نہیں بولتے لیکن کیا آج چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تین نومبر کے غیر آئینی صدارتی اقدامات پر صدر پرویز مشرف سے پوچھا کہ انہوں نے یہ اقدام کیوں کیا کیا انہوں نے آئین کی خلاف ورزی پرصدر پرویز مشرف سے بات کی ہے کانفرنس میں سابق گورنر پنجاب شاہد حامد اور جنرل(ر) معین الدین حیدر نے بھی شرکت کی اور مختلف سوالات کے جوابات دئیے
زرداری کی شکل میں دوسرا مشرف پیدا ہو گیا ہے ، دونوں میں قدر مشترک ہے۔ عمران خان
اسلام آباد۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہے کہ افتخار چوہدری کو فوری واپس لایا جائے انیس ججوں کو نہیں مانتے لانگ مارچ کامیاب رہا وکلاء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کروڑوں روپے سے تعمیر کئے جانے والے جی ایچ کیو کے بجائے اس پیسے سے ملک بھر میں لنگر خانے کھولے جائیں تاکہ لوگ روٹی دال سے اپنا پیٹ بھر سکیں جمہوریت کو خراب کرنے کیلئے ڈبل پالیسی چلی جارہی ہے زرداری اور مشرف ایک ہیں ان کو جوڑنے والا سلیمان تاثیر ہے آمریت اور موجودہ جمہوری حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے اسلام آباد میں مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آصف علی زرداری کرپشن سے بچنے کیلئے مشرف کا دفاع کر رہے ہیں عمران خان نے کہاکہ حکومت ہمیں روڈ میپ دے تاکہ ہم روڈ مارچ کے بجائے اسلام آباد میں ایک بڑا اجتماع نیشنل کانفرنس کر سکیں جس میں وکلاء ، سول سوسائٹی ، سیاسی جماعتیں شامل ہوں گی انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ میں شرکت کیلئے وکلاء کی دعوت پر گئے تھے یہ ہمارا پروگرام نہیں تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ عمران اور قاضی حسین احمد دھرنے سے پہلے ہی چلے گئے میں واضح کر دینا چاہتے ہوں کہ ہم صرف شرکت کیلئے گئے تھے ہم اس کے لیڈر نہیں تھے۔ عمران خان نے کہاکہ ہمارا وکلاء اور اے پی ڈی ایم اور تمام پاکستانیوں کا ایک ہی نظریہ ہے یہ پاکستانی جو حقیقی جمہوریت، آزادی اور انصاف چاہتا ہے اس کا ایک ہی نظریہ ہے انہوں نے کہاکہ جب سب اسلام آباد میں آئندہ اکھٹے ہوں گے تو ہم چاہتے ہیں کہ اسے حقیقی آزادی کا دن قرار دیا جائے انہوں نے کہاکہ حقیقی آزادی تب آئے گی جب عدلیہ آزاد ہو گی عدلیہ کی آزادی سے ہی قوم کی آزادی ہے عدلیہ آزاد ہے تو الیکشن کمیشن، میڈیا اور دیگر ادارے آزاد ہیں انہوں نے کہاکہ اس حکومت کی دوغلی پالیسی عوام پر ظاہر ہو گئی ہے اس نے آتے ہی جیو ٹی وی کے پروگرام بند کر دئیے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں عمران خان نے کہاکہ حکومت کا جھوٹ اور دوغلی پالیسی دیکھیے کہتی ہے ہمیں پتہ ہی نہیں کہ جیو کے دوبئی میں دو پروگرام بند کر دئیے گئے ہیں عمران خان نے سوال کیاکہ کون پاکستان چلا رہاہے انہوں نے کہاکہ ہم اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک لیڈر شپ دینا چاہتے ہیں تاکہ پاکستانی قوم کو ایک واضح روڈ میپ نظر آئے ہمارے کیا کیا مقاصد ہیں کس دن ہم نے حقیقی آزادی کے دن کا اعلان کرنا ہے یہ سب کچھ پہلے سے طے ہو گا عمران خان نے کہاکہ یہ سب کچھ ہمارے اجلاس میں طے ہوا ہے ہم نے اپنی اسٹیئرنگ کمیٹی میں ملک کی سرحدوں پر ہونے والے خطر ناک کھیل کو بھی زیر بحث لایا ہے عمران خان نے کہاکہ حکومت کو یہ علم ہونا چاہیے کہ ملک کی آبادی کے بیج بوئے جارہے ہیں حکومت نے کہاتھا کہ ہم قبائلی عوام سے بات چیت سے مسئلہ حل کریں گے ہم اپنی فوج کو اپنے لوگوں سے نہیں لڑائیں گے۔ اس پر ہم نے حکومت کو مبارک باد دی تھی عمران خان نے کہا کہ مشرف نے پیسے لے کر کسی اور کی جنگ اپنے سر لے لی او راپنی فوج سے اپنے شہری اور اپنے شہریوں سے اپنی فوج مروائی جو ملک کے خلاف سب سے بڑی غداری ہے اب امریکہ پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو مار رہا ہے یہ صرف 70ملین ڈالر مہینے کی تنخواہ کے عوض ہو رہاہے امریکہ کے چونکہ نومبر میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اس لئے اس نے اسامہ کا ڈرامہ کرنا ہے اور خطرہ یہ ہے کہ انہوں نے پھر پاکستانی قبائلی علاقوں پر بمباری کرنی ہے او رپھر پاکستانی قوم اور حکومت پر حملہ کرنا ہے پچھلے سال کم سے کم پاکستان میں 65خود کش حملے ہوئے جس سے پورا ملک ہل کر رہ گیا جس طرح زرداری امریکی ایمبیسی کے چکر لگا رہا ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دوسرا مشرف پیدا ہو گیاہے عمران خان نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت واضح بیان دے کہ اگر مزید ایک بھی شہری امریکی بم سے مرا تو ہم اقوام متحدہ کے پاس جائیں گے اور بتائیں گے کہ یہ ہماری سرزمین کی خلاف ورزی ہے۔عمران خان نے کہاکہ ہمارا سب سے بڑے دہشت گرد الطاف حسین کو برطانیہ نے لندن میں پناہ دے رکھی ہے تو میرا سوال ہے کہ کیا ہم لندن جاکر بم برسائیں کہ ہمارا دہشت گرد وہاں چھپا ہوا ہے حکومت کو دو ٹوک الفاظ میں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی جائیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی امریکیوں کی ہیں ہمارے لوگوں اور فوجیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح مارا جارہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دوبارہ خود کش حملے شروع ہو جائیں گے ہم ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات ہوں تمام قیدی رہا کرائے جائیں قبائلی علاقوں سے فوجی آپریشن ختم ہو فوج اپنے شہریوں کو ہلاک کرنے کے بجائے ان کی حفاظت کرے اس وقت ہم نہ طالبان نہ القاعدہ کیلئے لڑ رہے ہیں ہماری فوج اپنے ہی قبائلی شہریوں سے لڑ رہی ہے جن کو مقامی طالبان کہاجارہاہے یہ ہماری کوئی جنگ نہیں یہ جو پھرسے ہونے جارہی ہے یہ پاکستان کیلئے انتہائی خطر ناک ہے بجٹ کے بارے میں عمران خان نے کہاکہ ہمارے اجلاس میں بجٹ پر بھی بات چیت ہوئی ہے مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ اس بجٹ سے شوکت عزیز کی بو آرہی ہے ایسا لگ رہا ہیکہ شوکت عزیز کا بنایاہوا بجٹ ہے جس میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو آگے پیچھے کر دیا گیا ہے عوام کی اکثریت مہنگائی کی دلدل میں پھنس گئی ہے کبھی ملک میں اتنے برُے حالات پیدا نہیں ہوئے جتنے آج ہیں تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں دو ہفتہ سے قبل ختم ہوجاتی ہیں لوگوں کا گزارہ مشکل ہو رہا ہے پستول پکڑ کر لوگوں نے ڈاکے مارنا شروع کردیے ہیں حتیٰ کہ سرکاری ملازمین بھی جرم کی طرف لگ گئے ہیں یہ بجٹ انقلابی ہونا چاہیے تھا اسٹیٹس کو کا بجٹ نہیں ہونا چاہیے تھا عمران خان نے کہا کہ 900ارب کا جی ایچ کیو بن رہا ہے اسمبلی میں اس بارے میں کوئی آواز ہی نہیں اٹھائی یہ کیسی جمہوری حکومت ہے کیا پاکستان کو 900ارب روپے کا نیا جی ایچ کیو چاہیے یا عوام کی زندگی چاہیے عمران خان نے کہاکہ حکومت کو نو سو ارب روپے کے ملک بھر میں لنگر خانے کھولنے چاہیے تاکہ لوگ دل روٹی کھاسکیں جس طرح یورپ میں ہوتا ہے عمران خان نے کہاکہ بینظیر کے کارڈ جاری کرنے سے زیادہ بہتر ہوتا اگر ملک بھر میں دال روٹی کے لنگر کھولے جاتے جس طرح میں نے شوکت خانم ہسپتال میں لنگر کھولا ہوا ہے یہ غریب تو وہاں روٹی کھا سکتے ہیں عمران خان نے کہاکہ عوام یہ جیڈی پی کا دو فیصد بھی خر چ نہیں ہو رہا جبکہ بھارت میں چار فیصد خرچ ہو رہا ہے جب عوام پر پیسہ خر چنہیں ہورہا تو جمہوری حکومت کس بات کی ہے انہوں نے کہاکہ آمریت اور موجودہ جمہوریت میں کوئی فرق نہیں یہ عوامی بجٹ نہیں ہے پاکستان نے پچھلے سال 5.1ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے گئے ہیں جبکہ بھارت جو بہت بڑا ملک ہے اس نے 3.2ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے تھے جبکہ پاکستان میں تعلیم کا بیڑا غرق ہو گیا ہے پڑھے لکھے نعرے کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ملا
ملکی تاریخ میں پہلی بار دفاعی بجٹ کی تفصیلات سینٹ میں پیش کردی گئیں
اسلام آباد ۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینٹ میں بجٹ کے لئے دفاعی بجٹ کی تفصیلات پیش کر دی گئی ہیں ۔ منگل کے روز سینٹ اجلاس میں قائد ایوان سینیٹر رضا ربانی نے دفاعی بجٹ مالی سال 2008-09 ء کی تفصیلات کی کاپی ایوان میں پیش کی ۔ جس کے مطابق آئندہ مالی سال کے لئے دفاعی بجٹ کا حجم 2 کھرب 95 ارب 30 کروڑ 69 لاکھ 8 ہزار روپے ہے ۔ جو گزشتہ مالی سال کی نسبت تقریباً 19 ارب روپے زیادہ ہے ۔ جس میں ڈیفنس سروسز ایمپلائز سے متعلقہ اخراجات کا حجم 99 ارب 9 کروڑ 15 لاکھ 62 ہزار روپے آپریٹنگ سے متعلقہ اخراجات کا حجم 82 ارب 84 کروڑ 8 لاکھ 84 ہزار روپے ‘ ٹریول اینڈ ٹرانسپورٹیشن کی مد کے لئے 12 ارب 8 کروڑ 59 لاکھ 53 ہزار روپے ۔ جنرل اخراجات کے لئے 70 ارب 75 کروڑ 49 لاکھ 31 ہزار روپے فزیکل ایسٹس کی مالیت 87 ارب 63 کروڑ 82 لاکھ 16 ہزار روپے ، دوسرے سٹور ز اور سٹاکس کے لیے 87 ارب 63 کروڑ 82 لاکھ 16 ہزار ،سول ورکس کے لیے 25 ارب 73 کروڑ 62 لاکھ 46 ہزار روپے رکھے گئے ہیں ۔ اس طرح پاکستان فضائیہ کے لیے 71 ارب 66 لاکھ 62 ہزار روپے مختص کیے گئے ہین جن میں ملازمین کی تنخواہوں کے لیے 10 ارب70 کروڑ 63 لاکھ 58 ہزار روپے ، اپریٹنگ اخراجات کی مد کے لیے 16 ارب46 کروڑ 32 لاکھ77 ہزار ، ٹریول اینڈ ٹرانسپورٹیشن کے لیے 2 ارب 18 کروڑ 36 لاکھ 78 ہزار روپے ، جنرل اخراجات کے لیے 14 ارب 27 کروڑ 95 لاکھ 99 ہزار روپے ، فزیکل ایسسٹس کے لیے 39 ارب 59 کروڑ 74 لاکھ روپے ، سول ورکس کے لیے کے لیے 4 ارب 23 کروڑ 96 لاکھ 27 ہزار روپے،اس طرح بحری افواج کے لیے 29 ارب 13 کروڑ 33 لاکھ 11 ہزار روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ جن میں ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق اخراجات کے لیے 6 ارب 75 کروڑ 5 لاکھ 17 ہزار روپے، آپریٹنگ اخراجات کے لیے 3 ارب 91 کروڑ 3 لاکھ 87 ہزار روپے ، ٹریول اینڈ ٹرانسپورٹیشن کے لیے ایک ارب 43 کروڑ 24 لاکھ روپے ، جنرل اخراجات کے لیے 2 ارب 47 کروڑ 79 لاکھ روپے ، فیزیکل ایسڈز کے لیے 15 ارب 71 کروڑ 28 لاکھ78 ہزار روپے( اس طرح پاک فوج کا مجموعی بجٹ ایک کھرب 28 ارب 69 کروڑ 97 لاکھ 57 ہزار روپے رکھے گئے ہیں جن میں ملازمین کی تنخواہوں سے متعلقہ امور کے لیے 71 ارب 27 کروڑ 47 لاکھ 22 ہزار روپے ، آپریٹنگ اخراجات کے لیے 22 ارب 33 کروڑ 74 لاکھ 51 ہزار روپے ، ٹریول اینڈ ٹرانسپورٹیشن اخراجات کے لیے 4 ارب 68 کروڑ29 لاکھ 40 ہزار روپے ، جنرل اخراجات کے لیے 17 ارب 65 کروڑ 45 لاکھ 11 ہزار روپے ، فیزیکل ایسٹس کے لیے 21 ارب 52 کروڑ 73لاکھ 23 ہزار روپے اور سول ورکس کے لیے 13 ارب 56 کروڑ 2 لاکھ 61 ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ قائد ایوان میاں رضا ربانی نے کہا کہ پہلے دفاعی بجٹ پیش نہیں ہوا تھا لیکن اتحادی حکومت کے تمام پارٹیوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ دفاعی بجٹ کی تفصیلات ایوان میں زیر بحث لائیں گے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ پورا بجٹ ہے لیکن آئندہ سال تفصیلی بجٹ پیش کیا جائے گا ۔ قائد ایوان میاں رضا ربانی نے مسلح افواج کے بجٹ 2008-09 ء کے لئے مرحلہ وار تحقیقات ایوان میں پیش کرنے کی اجازت مانگی تو چیئرمین سینٹ نے اجازت دی جس کے بعد دفاعی بجٹ کی تفصیلات ایوان میں پیش کر دی گئی
ججز کی بحالی کے حوالے سے جس دن محسوس کریں گے بے نظیر بھٹو شہید کے مشن سے غداری کر رہے ہیں اقتدار چھوڑ دیں گے۔ سید یوسف رضا گیلانی
اسلام آباد ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ ججز کی بحالی کے حوالے سے جس دن محسوس کریں گے بے نظیر بھٹو شہید کے مشن سے غداری کر رہے ہیں اقتدار چھوڑ دیں گے۔اداروں کے درمیان تصادم نہیں چاہتے ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آئین کے مطابق اپنا کرداراداکریں۔آئین اور قانون کی حکمرانی پارلیمنٹ کی خود مختاری وبالادستی ، اداروں کا استحکام،اور میڈیاکی آزادی کے عزم پر قائم ہیں بلوچستان اور فاٹاکے مسائل کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کریں گے ۔انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے بات چیت نہیں ہو گی۔ فاٹا کے حوالے سے نئی جمہوری حکومت کی پالیسی کی امریکی صدر بش نے حمایت کی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو اسلام آباد میں پلڈاٹ کے تحت ’’قانون کی حاکمیت اور جمہوریت ، مستقبل کاسفر ‘‘ کے موضوع پر کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس میں بلوچستان کے مسائل ، فاٹا کی صورتحال اور ملٹری سول تعلقات پر مختلف سیشنز منعقد ہوئے سابق گورنر پنجاب شاہد حامد ، پلڈاٹ کے چیف ایگزیکٹو بلال احمد محبوب نے وزیراعظم کو کانفرنس کی سفارشات پیش کیں ۔ بلوچستان کے حوالے سے وزیراعظم نے کہاکہ بلوچستان کی قیادت سے ملاقات ہوئی ہے سیاسی ،مالی مسائل کاجائزہ لیاگیابلوچستان میں مذاکرات اور اعتمادکی فضاء کی بحالی پر یقین رکھتے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان کو نذر انداز کیاگیا حقوق نہیں دئیے گئے بلوچستان کے عوام قانون شکنی پر یقین نہیں رکھتے پاکستان کے ساتھ محب وطن اور مخلص ہیں اعتماد کی فضا برقرار کرنے کی ضرورت ہے ۔ نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے بلوچستان شدید مالی مشکلات سے دو چار ہے وفاق اور تین صوبے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کر چکے ہیں جبکہ بلوچستان ابھی تک بجٹ پیش نہیں کر سکاہے بلوچستان کو آئینی حقوق دیں گے انہوںنے کہاکہ کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کیلئے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے عوام حکمرانوں کے رویے سے شاکی نظر آتے ہیں ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ ترقی سے محروم ہیں انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیاہے سیاسی عمل معاشی استحکام ، صوبائی خود مختاری دیں گے اور بلوچستان میں خوشحالی لائیں گے بدقسمی سے بلوچستان کی ملازمتوں میں چھ فیصد کوٹے پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا ساڑھے تین ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ رولز میں نرمی کر کے بلوچستان کے عوام کو نوکریاں دیں فاٹا کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ فوج کے سربراہ نے بھی اس بارے میں بریفنگ دی انہوں نے کہاکہ فاٹا کی اکثریت امن پسند اور پاکستان کی وفادار ہے ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے تیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل وحرکت کو روکنے کیلئے بائیومیٹر سسٹم لگایا گیا مگر دوسری طرف سے تعاون نہیں کیاجارہاہے ۔ بمباری کے ایشو پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیاگیا کیا پہلے ایسے ہوا تھا وزیر خارجہ نے کونڈا لیزا رائس سے بھی احتجاج کیا ہم امریکہ کے ساتھ دفاعی ، معاشی ، سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون چاہتے ہیں اپنی خود مختاری سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے فاٹا کے مسائل کے حل کے حوالے سے سیاسی عمل ، معاشی ، سماجی ترقی اور مذاکرات کو حکمت عملی میں ترجیح حاصل ہے فاٹا میں جمہوریت کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں امریکی صدر نے ہماری پالیسی کی حمایت کرتے ہیں آئین پر یقین رکھتے ہیں ہم چاہتے ہیں فوج اور عدلیہ سمیت تمام ادارے آئین کے مطابق کام کریں اداروں کے درمیان تصادم سے کچھ نہیں بچے گا سب کو آئین پر عمل کرنا ہو گا ۔ہم نے لانگ مارچ بھی کئے ہیں اور جیلیں بھی دیکھیں ہیں بے نظیر بھٹو کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ججز کی تعداد میں اضافہ اتفاق رائے سے کیا گیاہے۔میثاق جمہوریت کا اس کی روح کے مطابق نفاذ چاہتے ہیں آئینی پیکج کے حوالے سے تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے رہے ہیں ججز بحال ہوں گے آزاد عدلیہ چاہتے ہیں آئین کے مطابق پارلیمنٹ اس کا فیصلہ کرے گی انہوں نے کہاکہ پہلی مرتبہ حکومت نے وکلاء کے لانگ مارچ کا خیر مقدم کیا اسٹیج ، بجلی ، پانی ،ڈنر اور دیگر سہولتیں فراہم کی گئیں اورکسی جگہ پولیس نے وکلاء کو نہیں روکا نہ فوج بلائی گئی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ۔ ہم چہرے نہیں نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں بعد ازاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے صحافیوں نے کہاکہ جس دن محسوس کریں گے کہ بے نظیر بھٹو کے مشن سے غداری کر رہے ہیں سب کچھ چھوڑ دیںگے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج کے حوالے سے تنہا پرواز نہیں کریں گے ساٹھ ارب روپے کے قرضوں کی وصولی کے بارے میں پارلیمنٹ جو فیصلے کرے گی وہ قبول کیاجائے گا
ملک کی صدارت کا امیدوار نہیں ہوں ۔۔ آصف علی زرداری
۔ بے نظیر بھٹو نے افتخار محمد چودھری کی بحالی کیلئے نہیں جمہوریت کی بحالی کیلئے جان کا نذرانہ دیا، معزول ججوں کی بحالی کے وقت کا تعین پیپلز پارٹی کرے گی
لاہور۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میں ملک کی صدارت کا امیدوار نہیں ہوں۔ ہم صدر پرویز مشرف کو غیر آئینی سمجھتے ہیں اور پیپلز پارٹی نے کبھی بھی انہیں آئینی صدر تسلیم نہیں کیا۔ آئندہ صدر کا فیصلہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشورہ کے بعد کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج گورنر ہاوس میں ایڈیٹروں اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کیلئے شہادت نوش نہیں کی بلکہ انہوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ معزول ججوں کو ضرور بحال کیا جائے گا لیکن ان کی بحالی کیلئے وقت کا تعین پیپلز پارٹی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں اختلافات معمول کی بات ہے اس سے اتحاد کو کوئی خطرہ نہیں اور یہ اتحاد قائم رہے گا۔ ہم صوبوں کے درمیان ہم اہنگی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جمہوری عمل آگے بڑھے۔ اسی لئے ہم نے جمہوری سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکز اور صوبوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومتیں بنائیں حالانکہ اگر ہم چاہتے توجوڑ توڑ کرکے وہاں پیپلزپارٹی کی حکومتیں قائم کی جاسکتی تھیں۔ ہم پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں اسی لئے ہم نے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی اور وہاں فوجی آپریشن بند کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے اس سے ہمیں نہیں تو آئندہ نسلوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ملک میں جمہوریت کو تقویت دی۔ پیپلز پارٹی کی کوششوں کے باعث ہی جنرل پرویز مشرف نے وردی اتاری جس کیلئے ہم نے ہر چیز کو قبول کیا۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ یہ پراپیگنڈا غلط ہے کہ این آر او صرف میرے لئے آیا اس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ جہاں تک میری ذات کا سوال ہے حکومت نے میرے خلاف کیس واپس لے کر تسلیم کیا کہ یہ کیس سیاسی انتقام کے نتیجہ میں بنائے گئے تھے۔ میں جمہوری انتقام پر یقین رکھتا ہوں مجھے اس گورنر ہاوس سے گرفتار کیا گیا جہاں میں نے کارکنوں سے خطاب کرکے اپنا جمہوری انتقام لے لیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے مذاکرات کے نتیجہ میں ہی زمین اور 90ہزار فوجی واپس لئے۔انہوں نے کہا کہ وکلائ اور کچھ سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کیا جن سے میاں نوازشریف نے بھی خطاب کیا۔ ہم نے خود انہیں روٹی اور پانی فراہم کیا لیکن جب پیپلز پارٹی لانگ مارچ کرے گی تو اسے دنیا دیکھے گی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی میں میاں نوازشریف سے اتحاد قائم رکھنا چاہتا ہوں یہی وجہ ہے کہ ہم نے کسی سے سیاسی انتقام لینے کی بجائے میاں صاحب سے دوستی کی ۔ اگر ہم متحد نہ رہے تو اس سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہاکہ قوم ابھی تک محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے صدمہ سے باہر نہیں نکل سکی۔ یہ الزام غلط ہے کہ سیاستدان قوم کو مایوس کررہے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے بھی اپیل کی کہ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے ہماری رہنمائی کریں اور ریسرچ کے بعد عوام کو حقائق سے آگاہ کریں۔
کیلی فورنیا میں ہم جنس شادیاں
کیلیفورنیا ۔ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں سپریم کورٹ کی طرف سے ہم جنس شادیوں کی اجازت کے بعد درجنوں ہم جنس جوڑوں نے اپنی شادیاں رجسٹر کروائی ہیں۔پیر کی رات بارہ بجے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق عمل میں آتے ہی بیس سے زیادہ کاؤنٹیز میں یہ شادیاں رجسٹر کی گئی ہیں۔ کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں سب سے پہلے شادی کرنے والا جوڑا ہم جنسوں کے حقوق کے لئے کئی دہائیوں سے جد وجہد کرنے والی ستاسی سالہ ڈیل ماٹن اور تراسی سالہ فیلیس لیون کا تھا۔ ریاست میں نومبر کے مہینے میں ایک ریفرنڈم میں لوگوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ آیا ہم جنسوں کی شادی پر پابندی بحال کی جائے یا نہیں۔امریکہ میں میسا چیوسٹ کے بعد کیلی فورنیا وہ دوسری ریاست ہے جہاں ایسی شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔لاس اینجیلس میں ایک ایسی ہی شادی کی تقریب کے موقع پر بیس کے لگ بھگ مظاہرین نے احتجاج بھی کیاآ مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے جس پر درج تھا کہ ’ہم جنس شادی ایک گناہ ہے۔‘ ریاست کیلی فورنیا میں 2000 ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس قانون کی منظوری دی گئی تھی جس کے مطابق شادی صرف مرد اور عورت کے درمیان ہوسکتی ہے۔ لیکن ریاست کے سپریم کورٹ نے اس قانون کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ تاہم ریاست میں ہم جنس شادی کے مخالفین نے اس قانون کے خلاف اتنی حمایت اکھٹی کر لی ہے کہ اس حتمی فیصلہ نومبر میں ایک ریفرنڈم کے دریعے کیا جائے گا۔
برطانیہ میں آرائشی سرجری کا رحجان عروج پر
لندن ۔ عالمی اقتصادی بحران پر اپنی جگہ ہے لیکن برطانیہ میں کاسمیٹک سرجری کے دیوانے آج بھی ہزاروں پاؤنڈ خرچ کرنے کو تیار ہیں یہ بات ایک جائزے میں کہی گئی ہے ۔ برطانیہ میں کاسمیٹک سرجری کی خدمات فراہم کرنے والے ایک بڑے گروپ ہارلے میڈیکل کے مطابق گزشتہ دس ماہ کے دوران جراحی کے عمل سے گزرنے والوں کی مانگ میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ توند گھٹانے کے آپریشن پر تقریباً دس ہزار ڈالر کا خرچ آتا ہے اس آپریشن کی مانگ جہاں 59 فیصد بڑھی ہے وہیں پستان کو نمایاں اور خوشنما بنانے کی سرجری میں 40 فیصد اضافہ ہوا ۔ گروپ نے بتایا کہ گزشتہ دس ماہ میں توند گھٹانے کے لئے اس نے تین سو سے زائد آپریشن کئے ہیں جبکہ دس ماہ قبل گزرنے والے اس مہینوں میں ایسے صرف 160 آپریشن کئے گئے تھے ۔ تحقیق کرنے سے پتہ چلا ہے کہ آپریشن کرانے والوں نے دیگر اخراجات تو کم کر دیئے ہیں لیکن اپنے آپ کو سنوارنے پر اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی ۔
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا نیا الزام
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی پھیل رہی ہےوزیراعظم گورڈن براؤن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے
واشنگٹن ۔ امریکی صدر بش نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے منظم ہونے کا الزام عائد کیا ہے لندن میں برطانوی وزیراعظم گولڈن براؤن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ قبائلی علاقے طالبان اور انتہا پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اس موقع پر انہوں نے کہاکہ افغان صدر حامد کرزئی کا گزشتہ روز دیاگیا بیان بلا جواز نہیں تھا انہوں نے افغانستان اورپاکستان پر زور دیا کہ دونوں ممالک اپنی سرحد پر عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے بات چیت کے دائرہ کار کو وسیع کریں اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے کہاکہ ایران نے یورینیم کی افزودگی روکنے کے عوض عالمی طاقتوں کی جانب سے پیش کئے گئے مراعاتی پیکج کا مثبت جواب نہ دیا تو تہران پر مزید پابندیاں عائد کر دی جائیں گی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران برطانوی وزیراعظم نے کہاکہ برطانیہ افغانستان کے لئے مزید فوجی بھیجے گا
” لانگ مارچ کا رستہ ....آزادی کا رستہ “
اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے لانگ مارچ کامشکل ترین مرحلہ بخیر وخوبی گزر گیا۔ جمعہ13جون کی رات لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا ۔ اسی روز میں نے خبر دے دی تھی کہ ”حکومت اوروکلاءرہنمائوں میں یہ انڈرسٹینڈنگ ہوچکی ہے کہ ہمیں امن وامان برقرار رکھنا ہے جس کی وجہ سے ملک اورقوم پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکی ہے اورمزید کی شاید متحمل نہ ہوسکے۔ لانگ مارچ آرمی ہائوس ،چیئرمین جوائنٹ چیفس کی رہائش، پارلیمنٹ اور ایوان صدر کی طرف نہیں جائے گا تاہم پریڈ ایونیو میںجلسہ کیاجاسکے گا جہاں ایوان صدر بھی بالکل سامنے ہے اورپارلیمنٹ ہائوس بھی۔ اس طرح لانگ مارچ کے مقاصد بھی حاصل ہوجائیںگے اورحکومت امن وامان کے قیام کی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہوسکے گی۔ چونکہ بجٹ کے فنانس بل میں سپریم کورٹ ججوں کی تعداد29کرنے کااعلان ہوچکا ہے اس لیے بھی لانگ مارچ کی طرف سے کسی سخت اقدام کاامکان کم ہے“۔ شباب ملی اور اے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے حوالے سے حکومت کے خدشات ضرور تھے کیونکہ لانگ مارچ پرامن رکھنے کیلئے بات چیت مسلم لیگ(ن) کے مرکزی اوروکلاءکی جڑواںشہروں کی قیادت سے ہورہی تھی مگر اس میں اکثریت اوراہمیت چونکہ انہی دو کی تھی جن سے بات ہورہی تھی اس لیے کڑا وقت کسی آزمائش کے بغیر گزر گیا۔ یار لوگ بے شک شور مچاتے رہیں کہ دونوں طرف اپنے ہی لوگ تھے۔ حکومت میں بھی اورلانگ مارچ میں بھی بہرحال یہ بہت بڑی بات ہے کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد کے اتنے لمبے مارچ کے باوجود کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا اورپریڈ ایونیو سے چند گز کے فاصلے پرموجود عالمی برادری کے نمائندہ غیرملکی سفیروں کے شہر ڈپلومیٹک انکلیو میں یہ پیغام پہنچنا کہ پاکستانی شدت پسندی ،توڑپھوڑ اورجلائو گھیرائو کے بغیر بھی احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ میری رائے میں بلاشبہ قابل تعریف ،لائق اعتراف ہے ورنہ غیرملکی سفیروں نے ڈنمارک ایمبیسی دھماکے کے بعد انتہائی سخت اورواضح الفاظ میں حکومت کوبتادیا تھا کہ یہی حالات رہے تو وہ یہاں نہیں رہ سکیںگے۔ علاوہ ازیں فرانس اورچین کے سفارتخانوں کودھمکی بھی مل چکی ہے اورفرانس ایمبیسی تو ہے بھی شاہراہ دستور کے بالکل اوپر۔باقی سفارتخانے تو پھر بھی ڈپلومیٹک انکلیو کی بائونڈری کے اندر ہیں۔مشیرداخلہ رحمان ملک ایک ملاقات میں بتا رہے تھے کہ کس لہجے میں سفیروں نے ان سے بات کی مگر انہوں نے یہ یقین دلا کرمطمئن کرنے کی کوشش کی کہ انشاءاللہ ان کی طرف کوئی نہیںجائے گا۔ ظاہر ہے میاں نوازشریف بطور سابق وزیراعظم اوراعتزاز احسن بطور صدر سپریم کورٹ بار ملک اورقوم کی طرف اپنی ذمہ داریوں سے بہت اچھی طرح واقف ہیںاس لیے 4روز تک ملک بھرسے عوام کے طوفان کے ساتھ گزرنے کے باوجود کہیں کوئی گڑ بڑ نہیںہوئی اور نہ غیرملکی نمائندوں ہی کوخوف وہراس کاسامنا کرنا پڑا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ جب لانگ مارچ اسلام آباد پریڈ ایونیو پہنچ جائے گا تو پھر کیاہوگا؟ جلسہ تو ہوگا مگر کیاکچھ اوربھی ہوگا۔ لانگ مارچ کالفظی مطلب لمبی پیش قدمی ہے۔ کیا ایک ہزار میل پیش قدمی کے بعد عوام کا”لشکر“ پسپا ہوجائے گا؟ کیاپارلیمنٹ ہائوس اورایوان صدر کے سامنے پڑائو ڈال دے گا جب تک جج بحال اور صدر فارغ نہ ہوجائیں؟ یاپھر مارچ کرتے کرتے پارلیمنٹ ہائوس اور ایوان صدر پرحملہ کردیاجائے گا؟ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں تھے اورسب سے بڑا سوال ہی یہ تھا کہ ایساہوگیا تو پھر کیاہوگا ؟ پیر پگاڑا کافرمان لوگ پڑھ چکے تھے کہ جج بحال نہیںہوںگے اورملکی تاریخ کابدترین مارشل لاءلگنے والا ہے۔ گویہ امر باعث اطمینان ہے کہ مکمل تصادم سے دونوں فریقوں نے گریز بھی کیا اوراپنا اپنا کام بھی کرلیاجج تو تقریباً بحال ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ بجٹ فنانس بل کے ذریعے تعداد 29کردی گئی ہے اوراس پر نواز لیگ بھی راضی ہے۔ مشیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق ان کی تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی ظاہر ہے کہ وہ حاضر سروس ہیں۔ اوربدترین مارشل لاءاب اس لیے نہیں لگ سکتا کہ جنرل مشرف کے مارشل لاءسے بدترین اورکیاہوگا؟ علاوہ ازیں خود وکلاءتحریک ،نوازلیگ کوبھی علم اورشعور ہے کہ ان کی طرف سے کسی بھی قسم کاسخت اقدام ایوان صدر کومضبوط اورپارلیمنٹ کوکمزور کرسکتاہے اوریہ دونوں کبھی نہیں چاہیںگے۔ جہاں تک ایوان صدر کی بات ہے یہ لوگ ایسی دیوار کودھکا مار کراپنی توانائیاں ضائع نہیں کریںگے جو پہلے ہی شکستہ ہوکرگرنے والی ہے اور پارلیمنٹ جو اب ان کی امیدوں کامرکز ہے اسے مجبور تو کرسکتے ہیں اپنے مطالبات ماننے کیلئے مگر اس پرحملہ آور نہیں ہوسکتے ورنہ ان میںاور آمروں میں کیافرق رہ جائے گا۔ 13جون جمعة المبارک کے روز پریڈ ایونیو پرجب لانگ مارچ کے قافلوں کی آمد ہورہی تھی اورسٹیج سے قومی وملی نغمے نشر ہورہے تھے ۔ اللہ اکبر اللہ اکبراے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیاہم زندہ قوم ہیں،پائندہ قوم ہیں۔یہ ترانے شرکاءکے جذبات کوگرما رہے تھے۔ جب قافلے نعرے لگاتے آرہے تھے اور سٹیج سے ان کوخوش آمدید کہا جارہا تھا۔ چاروں طرف چیف جسٹس افتخار کے حق اور صدر مشرف کے خلاف نعروں والے بینر لگے ہوئے تھے سٹیج کے ایک طرف وکلاءنے کیمپ لگا رکھا تھا جبکہ دوسری طرف ٹی وی چینلز کے کیمرے نصب تھے۔ ایمبیسی روڈ سے ہرلمحے کوئی نہ کوئی قافلہ،کوئی نہ کوئی جلوس آتا جارہاتھا۔ کوئی سرحد سے آرہا تھا تو کوئی بلوچستان سے، کوئی سندھ سے پہنچ رہاتھا اورکوئی پنجاب کے مختلف شہروں سے۔ لوگ آتے جارہے تھے اور پریڈ ایونیو کادامن تنگ پڑتا جارہاتھا۔ لوگوں کاجوش وخروش ہرگزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جارہاتھا ۔ سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا اور جون کی گرمی اچھے بھلے آدمی کے کس بل نکالنے کیلئے کافی تھی مگر ایک عجیب کیفیت ہرشخص پرطاری نظر آرہی تھی۔ کسی کوگرمی کی پروا تھی نہ بھوک اورپیاس کی۔ ان میں مرد بھی تھے اورعورتیں بھی۔ بڑے بھی تھے اوربچے بھی۔ ہرکسی کے لب پرایک ہی نعرہ تھا۔ ”ہم ملک بچانے نکلے ہیں۔ آئو ہمارے ساتھ چلو“۔ اوراس ماحول کے درمیان میںایک طرف کھڑا ایوان صدر کی طرف دیکھ رہاتھا جوسٹیج کے عین پیچھے نظر آرہاتھا اورجس کی چھت پرقومی پرچم لہراتھا میرے ذہن میں اس وقت ایک ہی سوال گردش کررہاتھا۔ صدرمشرف اس وقت کہاں ہیں؟ یہاں ہیں یاآرمی ہائوس میں ہیں؟12مئی کو جب کراچی مےں لاشےں گرائی جا رہی تھیں تو اسلام اÈباد مےں اسی مقام پر صدر نے جلسہ کیا جس میں کہا گیا کہ” دےکھی عوام کی طاقت “،اور اب وقت نے عوام کی اصل طاقت اسی جگہ لا کر دکھا دی ہے۔اب بھی کسی کو سمجھ آتی ہے ےا نہیں ،اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا،تاہم عوام کی اکثریت نے اےک بار پھر فےصلہ سنا دےا ہے اور خوب سناےا ہے۔اب جبکہ لانگ مارچ مکمل ہوچکا۔ کراچی سے اسلام آباد تک جوڈیشل بس چل چکی۔ سوال یہ ہے کہ اس سے حاصل کیاہوا؟ ججوں کی بحالی اور صدر کی رخصتی کااعلان کب ہوگا؟ اس پر تاریخ کامثالی لانگ مارچ کرنے والے عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماوزے تنگ کاقول سامنے رکھناہوگا۔ مائو کے مطابق ”لانگ مارچ ایک منشور ہے۔ایک پراپیگنڈہ فورس ہے۔ یہ ظاہر کرتاہے کہ جس راستے پرچل کرلانگ مارچ اپنی منزل پرپہنچا وہی راستہ ہماری آزادی اورخوشحالی کاراستہ ہے“10 جون سے14جون تک پاکستان میں جولانگ مارچ ہوا اورجس میں ہرطبقہ فکر نے بھرپور شرکت کی دراصل ایک منشور تھا کہ آئین اورقانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور جمہور کی حکمرانی ہی اس ملک کے 16کروڑ عوام کے مسائل کاحل ہے اوریہی وہ راستہ ہے جس پرچل کرہم بھی آزادی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ملکی تاریخ کی سب سے ”بڑی پیش قدمی “کس کس کو پچھاڑے گی ، ہم دیکھیں گے
Subscribe to:
Posts (Atom)