International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, July 23, 2008

حکمراں اتحاد کو گھربھیجنے کا خدشہ ۔۔۔ اے پی ایس ، اسلام آباد

پاکستان میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو درپیش شدت پسندی اور امن و امان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پارلیمان قومی پالیسی تیار کرے گی۔ اور مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی کا حل تلاش کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ وزیر اعظم ہاوس میں تقریبا آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی صدارت وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کی۔ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان جن میں پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی اور جمعیت علماءاسلام کے مولانا فضل الرحمان شامل تھے البتہ نواز شریف کی نمائندگی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کی۔ ان کے علاوہ گورنر و وزیر اعلیٰ سرحد، وفاقی وزراء اور مشیر بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس کے ابتدا میں قبائلی علاقوں اور سرحد کے حکام نے شرکاءکو صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس میں شریک ہوئے۔ اتحادی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ شدت پسندی کے مقابلہ کے لیے کثیرالجہتی پالیسی کا اہم حصہ عوام کی سیاسی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ ’اتحادی جماعتوں نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ سرزمین پاکستان کو کسی کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی غیرملکی فورسز کا پاکستانی سرزمین پر حملہ برداشت کیا جائے گا۔‘ ملک میں اندرونی معاملات، امن و امان ہو یا خارجہ پالیسی، ان کو پارلیمان میں زیر بحث لایا جائے ۔’پارلیمان کے فیصلوں کے پیش نظر ہمیں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔ ضروری قرار دیا گیا کہ مذاکرات جو ہو رہے ہیں یہ بہتر عمل ہے۔ یہ ملک کی داخلی ضرورت ہے اسے آگے بڑھایا جائے۔ معاہدات پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔‘ بین الاقوامی طاقتوں کو یہ ماننا ہوگا کہ اگر ان کے مفادات ہیں تو پاکستان کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ اجلاس خصوصی طور پر امن و امان سے متعلق تھا جس کو طلب کیے جانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس کا بنیادی مقصد ملک میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال اور ایک مشترکہ پالیسی طے کرنا بتایا تھا۔ وزیر اعظم کے چھبیس جولائی سے شروع ہونے والے دورہ امریکہ سے پہلے حزب اختلاف کی تجویز پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس تو طلب نہیں کیا گیا تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق کم از کم اتحادیوں کی سطح پر قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادھر چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید نے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے ایک ملاقات میں امن و امان کی صورتحال پر بات کی ہے۔ جنرل طارق نے صدر کو علاقائی صورتحال سے آگاہ کیا ہے جس کا ملک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ حکمران اتحاد کے سربراہی اجلاس سے قبل اس بارے میں حکمت عملی طے کرنے کے لیے حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماو¿ں کا اجلاس پارٹی کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی صدارت میںاسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس میں پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق ، مخدوم جاوید ہاشمی ، پیر صابر شاہ، سر انجام خان اور احسن اقبال کے شرکت کی صوبہ سرحد ، فاٹا اور بلوچستان کی صورتحال اور اہم سیاسی ایشوز پر غور کیا گیا اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا اتحادی جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں اس بات کا مطالبہ کیا جائے کہ صوبہ سرحد فاٹا بلوچستان کے کسی بھی معاملے میں فوجی ایڈیشن سے گریڈ کیا جائے اور مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے گا اور اس ایشو کے حوالے سے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب، قومی موقف اختیار کیا جائے اتحادی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس کے حوالے سے میاں محمد شہباز شریف کے پارٹی کے قائداور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی رابطہ کیا اور ان سے سربراہی اجلاس سے متعلق تفصیلی بات چیت کی اور اہم سیاسی ایشوز پر مشاورت کی ہے۔جبکہ وفاقی حکومت نے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں تعینات ہونے والے ٹیکس اکھٹا کرنے والے وفاقی ادارے ایف بی آر کے سربراہ عبداللہ یوسف کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ عبداللہ یوسف اپنی سرکاری ملازمت کی تکمیل پر گزشتہ دو برس سے کانٹریکٹ کے تحت گریڈ اکیس میں یہ فرائص انجام دے رہے تھے۔ ان کی جگہ ریونیو ڈویڑن کے سیکرٹری احمد وقار کو ایف بی آر کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین سابق حکومت کی اقتصادی ٹیم کے دوسرے اہم رکن تھے جنہیں موجودہ حکومت نے تبدیل کیا ہے۔ ان سے پہلے سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کو مستعفی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے تبدیل کر کے فرخ قیوم کو ان کی جگہ تعینات کیا تھا۔ سابق حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید تنقید کے باوجود اسی ٹیم کے ساتھ اقتصادی معاملات چلانے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی حکومت کو بعض حلقوں، بلخصوص سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور عبدللہ یوسف کا اس ضمن میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنی مرضی کے بیوروکریٹ کلیدی عہدوں، خاص طور پر وزارت خزانہ اور اس سے متعلقہ محکموں میں تعینات کرتی ہے لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے ابھی تک بیوروکریسی میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عبدللہ یوسف پرویز مشرف کے نو سالہ دور میں مختلف اہم وزارتوں کے انچارج رہے ہیں۔ تاہم انہیں اپنے آخری عہدے، چیئرمین ایف بی آر کی حیثیت سے پہلی بار کارکردگی کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس برس ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے کہاہے کہ پرویز مشرف کو فوری طور پر گھر نہ بھیجا گیا تو وہ ہمیں گھر بھیج دیں گے ۔ ملک میں اس لیے بار بار آئین ٹوٹتا اور فوجی مداخلت ہوتی ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والے آمر کا محاسبہ نہیں کیا جاتا ۔ جب تک ایک آمر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجاجائے گاملک میں آئین ٹوٹتا رہے گا اور جمہوریت پر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری رہے گا حکمران اتحاد وعدے کے مطابق اتبدائی 30 دنوں میں ججز کو بحال کرتے ہوئے پرویزمشرف کا مواخذہ کر کے گھر بھیج دیتا تو ملک کے بیشتر مسائل حل ہو چکے ہوتے کسی بھی ادارے کو ملک و قوم کے مفاد کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے فوج محب وطن قومی ادارہ ہے مگر پرویز مشرف نے اس ادارے کی ساکھ کو بھی زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس(اے پی ایس) اسلام آباد

گمشدہ حکمراں ،گمشدہ افراد کو بازیاب کیسے کروائیں .... تحریر : چودھری احسن پریمی، اے پی ایس اسلام آباد

جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ اقتدار کی تقسیم ہونی چاہیے یہ ریاست کے کسی ایک ادارے میں مجتمع نہیں نہیں ہونا چاہیے۔ وہ عدالتیں مقننہ سے علیحدہ اور آزاد ہونی چا ہیے اور وہ حکومت کے غیر قانونی احکام کے خلاف فیصلہ دینے کی مجاز ہوں وہ اس بات کی اہل ہوں کہ حکومت ( انتظامیہ ) کے خلاف فیصلہ دے سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں وہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔ انہیں طاقت کے استعمال سے پہلے جذبہ خدمت کو بروئے کار لانا چاہیے۔ جب وہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے اپنے عہدے کا نا جائز استعمال کرتے ہیں یا بعض صورتوں میں ریاست کے مقاصد کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو وہ قابل قبول اور طے شدہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔وہ بین ا لاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔جن کی حفاظت کی انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہوتی ہے۔ جبری گمشد گیوں کو روکنے ، ختم کرنے، اور جبری گمشدگیوں کار وائیوں پر سزا دینے کیلئے موثر قانونی،انتطامی،عدالتی، یا دوسرے اقدامات کرے عالمی کانفرنس برائے انسانی حقوق اس بات کی تجدید نو کرتی ہے کہ تمام ریاستوں کا فرض ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں اس بات کی تفتیش کریں،جب کبھی اس بات پر یقین کرنے کا سبب موجود ہو کہ ایسے علاقے میں جبری گمشدگی کا واقعہ پیش آیا ہے جو ان کی حدود میں واقع ہے اور اگر الزامات کی تصدیق ہوجائے تو اس کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کی جائے۔ حکومت اگر اپنے کار ندوں اور ایجنسیوں کے اندر قانون کا نفاذ نہ کرسکے تو عام شہریوں پر قانون کے نفاذ کی ان سے کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی نئی حکومت سے کہا ہے کہ ان سینکڑوں افراد کے بارے معلومات فراہم کی جائیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ایمنسٹی نے کہا ہے کہ یا تو ان کو رہا کیا جائے ورنہ ان کو باضابطہ سرکاری قید خانوں میں منتقل کیا جائے۔ جن کو ز بردستی لے جایا گیا ہے اور اس کے بعد سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ ایمنسٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں معزول ججوں کو بحال کیا جائے اس ادارے کی ایشیاء پیسیفک شاخ کے ڈائریکٹر سلیم ظریفی نے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا اصرار ہے کہ ان کی مخلوظ حکومت حقوق انسانی کا پاس کرے گی اس لیے ہمارا اصرار ہے کہ ان زبردستی کی گمشدگیوں کا معاملہ جلد از جلد حل کریں۔ ایمنسٹی انٹرنشینل نے لاپتہ افراد کے بارے میں اس رپورٹ کے اجر کے موقع پر ان افراد کے لواحقین کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومین آف رائٹس گروپ کی ایک رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ کو پاکستان کے لیے اپنا اعزازی نمائندہ مقرر کیا ہے۔ ایمنسٹی رپورٹ کا آغاز ہی آمنہ مسعود کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ہمارلے لیے آزاد ججوں کی بحالی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے مجھے یقین ہے کہ میرے شوہر مسعود کو میرے گھر سے صرف تین کلو میٹر دور رکھا گیا ہے لیکن میں، میرے بچے اوران بچوں کے دادا، دادی نہ تو مسعود کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کے بہیمانہ حالات سے گزر رہے ہوں گے ۔ نئی حکومت کو فوری طور پر ایسے تمام لوگوںکو بازیاب کرنا چاہیے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومین رائٹس اس وقت پانچ سو تریسٹہ غائب افراد کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ میں کوئی سماعت نہیں ہوئی اور یوں یہ مسئلہ بھی ججوں کی بحالی کے معاملے کے ساتھ خود بخود نتھی ہو گیا۔ ڈیفنس آف ہیومین رائٹس کے مطابق تین نومبر کو ججوں کی برطرفی کے بعد سے اب تک لاپتہ افراد کے ساٹھ نئے کیس سامنے آئے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ تعداد صوبہ بلوچستان سے ہے۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق بلوچستان میں چھ سو کے لگ بھگ لوگ لاپتہ ہیں۔ بلوچ تنظیمیں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتی ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے موجودہ وزیرِ اعلی نواب اسلم رئیسانی ان افراد کی تعداد نو سو سے زائد کہتے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2006ء میں شہریوں کو جبری طور پر غائب کرنے کے خلاف جو کنونشن منظور کیا اس پر بہتر ممالک دستخط کر چکے ہیں اور چار ممالک نے توثیق کر دی ہے۔ پاکستان نے تاحال اس کنونشن کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکہ بھی شریک دھشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اتحادی ممالک بالخصوص امریکہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی کو نظرانداز کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ کئی لاپتہ پاکستانی شہریوں نے بازیابی کے بعد بتایا کہ دورانِ حراست ان سے کئی غیرملکی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے بھی پوچھ گچھ کی۔ لہذا ان ممالک کی حکومتیں یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انہیں لاپتہ افراد کے حالات کا علم نہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق دھشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اتحادی ممالک بالخصوص امریکہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی کو نظرانداز کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ کئی لاپتہ پاکستانی شہریوں نے بازیابی کے بعد بتایا کہ دورانِ حراست ان سے کئی غیرملکی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے بھی پوچھ گچھ کی۔ لہذا ان ممالک کی حکومتیں یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انہیں لاپتہ افراد کے حالات کا علم نہیں ہے۔ اس کے باوجود صدر پرویز مشرف متعدد مرتبہ ایمنسٹی کی رپورٹوں کو پوری طرح مسترد کرچکے ہیں۔گزشتہ برس مارچ میں پاکستانی صدر نے اس بات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا کہ سینکڑوں لاپتہ افراد انٹیلی جینس ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں۔ بقول صدر مشرف انہیں یقین ہے کہ یہ افراد شدت پسند تنظیموں کے کنٹرول میں ہیں۔ جہاں تک لاپتہ افراد کے معاملے میں نئی حکومت کی دلچسپی کا سوال ہے تو ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشیرِ داخلہ رحمان ملک نے حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔وزیرِ قانون فاروق نائیک نے بھی اسی طرح کی یقین دہانی کراتے ہوئے وعدہ کیا کہ لاپتہ افراد جلد رہا ہوجائیں گے۔جبکہ بلوچستان کے نو منتخب وزیرِ اعلی اسلم رئیسانی نے بھی یقین دلایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔اس سال مئی میں نئی حکومت نے بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ تاہم آج تک اس کمیشن کے ارکان، اختیارات اور تحقیقاتی دائرہ کار کا اعلان نہیں کیا گیا۔اسی دوران وزارتِ داخلہ نے لاپتہ افراد کے لواحقین اور ارکانِ پارلیمان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ۔ تاحال اس کمیٹی کے بھی صرف دو اجلاس ہوئے ہیں اور یہ بھی واضح نہیں کہ اس کمیٹی کا دائرہ کار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چشم دیدگواہوں اور بازیاب افراد کے بیانات کی روشنی میں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد میں بچے بھی شامل ہیں اور ایجنسیاں ان بچوں کو اپنے عزیزوں کے خلاف گواہی دینے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ رپورٹ میں ایک دس سالہ بچے عبداللہ کا تذکرہ ہے جسے سولہ مئی دو ہزار چھ کو اس کے والد مفتی منیر شاکر کے ہمراہ کراچی ایرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ عبداللہ نے رہائی کے بعد بتایا کہ اس کے ساتھ دورانِ حراست بدسلوکی کی گئی تاکہ وہ یہ اعتراف کرے کہ اس کے باپ کا تعلق القاعدہ سے ہے۔انکار کے بعد اسے پندرہ دن تک ایک علیحدہ سیل میں رکھا گیا۔عبداللہ کو رہائی کی پیش کش کی گئی لیکن اس نے باپ کے بغیر رہا ہونے سے انکار کردیا۔ بالاخر عبداللہ کو اٹھاون روز کی قید کے بعد پشاور میں یہ کہہ کر ایک جگہ چھوڑ دیا گیا کہ اس کے باپ کو بھی پندرہ دن میں رہا کردیا جائے گا۔ عبداللہ کے والد مفتی شاکر کو کئی ماہ بعد اگست دو ہزار سات میں رہا کیا گیا۔ اسی طرح ایک نو سالہ لڑکے اسد عثمان کو گزشتہ سال اپریل میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر رہا کیا گیا۔اسے فرنٹئیر کانسٹیبلری نے پکڑ کر تربت میں ایک جگہ رکھا تھا۔اور اس وقت کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اسد کو اسوقت رہا کردیا جائے گا جب اس کا مطلوب بڑا بھائی خود کو پیش کر دے گا۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں دسمبر2006 میں سپریم کورٹ کے روبرو بازیاب ہونے والے دس لاپتہ افراد کے بیاناتِ حلفی کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جینس اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ نے پشاور ، لاہور نوشہرہ ، اٹک فورٹ کے علاوہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن کے سیل نمبر بیس اور قاسم مارکیٹ کے قریب ایف آئی اے کے مرکز، راولپنڈی کے علاقے فیض آباد ، چکلالہ سکیم تھری، ائیرپورٹ کے نزدیک پانچ سو ایک نامی ورکشاپ ، آئی ایس آئی کے حمزہ کیمپ ، گیریڑن ، اور پنڈی کینٹ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں رکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق ایجنسیاں ان افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہیں اور حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ان ایجنسیوں کے کتنے خفیہ یا اعلانیہ نظربندی اور پوچھ گچھ مراکز پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انٹیلی جینس ایجنسیاں اکثر و بیشتر لاپتہ افراد کے لواحقین پر عدالت سے رجوع نہ کرنے اور اخباری بیانات سے پرھیز کرنے کے لئے دباو¿ ڈالتی ہیں۔ کبھی انہیں یقین دھانی کرائی جاتی ہے کہ چپ رہنے کی صورت میں ان کے عزیز جلد سامنے آ جائیں گے۔اور کبھی سنگین نتائج اور لاپتہ فرد کے دیگر عزیزوں کو اٹھانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کئی لاپتہ افراد پر غائب ہونے کے کافی عرصے بعد مقدمے بھی قائم کئیگئے تاکہ ان کی گمشدگی کو قانونی جواز دیا جا سکے۔اس بارے میں ایک افغان شہری عبدالرحیم مسلم دوست کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔جسے سن دو ہزار ایک میں گوانتانامو بھیج دیا گیا۔بعد ازاں اسے رہا کردیا گیا لیکن ستمبر2006 میں اسے دوبارہ پشاور کی ایک مسجد سے اس کے بچوں اور بھائی کے سامنے گرفتار کیا گیا۔کیونکہ اس نے گوانتانامو میں اپنے تجربات کو کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ کے روبرو پولیس اور ایجنسیوں نے مسلم دوست کی گمشدگی سے لاعلمی ظاہر کی۔ مسلم دوست کو ایجنسیوں نے غائب کرنے کے آٹھ ماہ بعد خیبر ایجنسی کی پولٹیکل انتظامیہ کے حوالے کردیا جس نے مسلم دوست پر ایف سی آر کے تحت مقدمہ قائم کردیا۔مسلم دوست آج بھی پشاور جیل میں ہے اور مقدمے کی سماعت کا منتظر ہے۔ انٹیلجنس ایجنسیوں کے مشورے اور دھمکیاںانٹیلی جینس ایجنسیاں اکثر و بیشتر لاپتہ افراد کے لواحقین پر عدالت سے رجوع نہ کرنے اور اخباری بیانات سے پرھیز کرنے کے لئے دباو¿ ڈالتی ہیں۔ کبھی انہیں یقین دھانی کرائی جاتی ہے کہ چپ رہنے کی صورت میں ان کے عزیز جلد سامنے آ جائیں گے۔اور کبھی سنگین نتائج اور لاپتہ فرد کے دیگر عزیزوں کو اٹھانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کی جوابدھی اور ان پر کنٹرول کا نظام غیر واضح اور مبہم رکھا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں جولائی دو ہزار چھ میں حبسِ بے جا کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس پر وزارتِ دفاع کا انتظامی کنٹرول تو ہے لیکن آپریشنل کنٹرول نہیں ہے ۔لہذا ان ایجنسیوں سے عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کروائی جا سکتی۔ اییمنسٹی کی رپورٹ میں عدالتی طریقِ کار پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹس ریاستی وکلائ[L:4 R:4] کی جانب سے کسی شخص کی نظربندی سے لاعلمی یا انکار کی صورت میں مزید جرح کے بغیر اکثر حبسِ بے جا کی درخواستیں خارج کردیتی ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ لاپتہ افراد کی بازیابی کے بعد یہ جاننے کے لئے بہت کم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ مذکورہ شخص کس ادارے کی تحویل میں تھا اور اس ادارے کی جوابدھی کیسے ہو۔اس کے علاوہ گمشدگی کے مقدمات کی سماعت طویل عرصے کے لئے ملتوی کردی جاتی ہے۔اور یوں گمشدہ فرد اور اسکے عزیزوں کی تکالیف کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ لاپتہ افراد کو یا تو فوری طور پر منظرِ عام پر لایا جائے یا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کر کے تسلیم شدہ عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ غلط بیانی کرنے والے یا غیر قانونی حراست اور گمشدگی میں ملوث تمام افراد کو بلاامتیازِ عہدہ و مرتبہ کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس کے علاوہ تمام خفیہ نظربندی مراکز کو ختم کرکے ان کی موجودگی اور قیام کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔انٹیلیجینس ایجنسیوں کو ان کے اقدامات کی جوابدہی کے لئے قانوناً پابند کیا جائیاور لاپتہ افراد سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی معاہدوں اور کنونشنز کو جلد از جلد تسلیم کیا جائے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس، اے پی ایس

امریکہ پاکستانی عوام کو اپنے لیڈرز خود چننے دے تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد

انتہاپسندی کی ایک وجہ لوگوں میں انتہا درجے کی مایوسی بھی ہے پاکستان کے جمہوری عمل میں امریکہ کی مداخلت کی پالیسی بھی غلط ہے پاکستان سولہ کروڑ عوام کا ملک اور ایک نیو کلیئر طاقت ہے امریکی صدارتی امید وار سینیٹر بارک اوبامہ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں انہیں اس قسم کے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مقامی طالبان کہلائے جانے والے گروپس کی سرگرمیاں ان دنوں نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی نمایاں طور پر جگہ پارہی ہیں اور یہاں امریکہ کے تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکس میں بھی پاکستانی طالبان کے اثرات اور ان سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں بحث جاری ہے۔ معروف پاکستانی اسکالر پرویز ہود بھائی نے اسی موضوع پر حال ہی میں واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایک پریذنٹیشن دی ہے کہ طالبان اب سے کچھ عرصے پہلے تک افغانستان کے حوالے سے جانے جاتے تھے لیکن ان کی نئی شناخت یعنی پاکستانی طالبان اب تیزی سے عام ہورہی ہے۔ پاکستانی طالبان کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں اور ان کے خلاف آپریشن کی خبریں روزانہ ملکی اور غیرملکی اخبارات کی سرخیاں بن ر ہی ہیں۔ واشنگٹن سمیت بیرونی دنیا میں ان کے بارے میں مزید جاننے اور ان کی سرگرمیوں سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں کے حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پرویز ہود بھائی نے اپنی پریذنٹشن کے آغاز میں مقامی طالبان کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا ہے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ تاکہ سرکاری مشینری ناکارہ ہوجائے۔ اور انھیں اس مقصد میں کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ فاٹا اور اس سے ملحق کچھ علاقوں میں آپ کو سرکاری عملداری نظر نہیں آئے گی۔ ان علاقوں میں پولیس یا تو تھانوں تک محدود ہے یا تھانے چھوڑ کر ہی چلی گئی ہے۔ طالبان کی حکمتِ عملی کا اگلا حصہ ان علاقوں میں اپنی عمل داری قائم کرنا ہے۔ پرویز ہود بھائی نے کہا کہ ان علاقوں میں انتہاپسندی کے رجحانات یقینناً موجود ہیں لیکن انھیں پروان چڑھانے کی ذمہ داری امریکی پالیسیوں پر بھی عائد ہوتی ہے جب سرد جنگ کے زمانے میں اس وقت کی امریکی حکومت مجاہدین کو ہیرو کے طور پر پیش کرتی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ پرویز ہود بھائی نے اس خطے کی معاشی اور سماجی صورتحال کو بھی انتہا پسندی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس انتہاپسندی کی ایک وجہ لوگوں میں انتہادرجے کی ناامیدی بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس علاقے میں غربت اور محرومی کے اثرات کو بھی ہمیں سمجھنا ہوگا۔ معاشرے میں کچھ لوگوں کے پاس تو بے انتہا پیسہ ہے مگر کچھ ایسے ہیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے محرومی جنم لیتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انصاف تک رسائی نہ ہونا بھی انتہاپسندی میں اضافہ کرتا ہے۔ انتہاپسندی سے لڑنے کے لیے فوجی ذرائع کے استعمال کی یقیناً اہمیت ہے لیکن اس معرکے میں محض فوجی طاقت سے فتح حاصل نہیں ہوگی۔ وہاں پر ترقیاتی کام کرنے ہوں گے اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ جہاں تک فوجی کارروائی کا تعلق ہے تو وہ اسی وقت کی جانی چاہیے جب فورسز کو اس بات کو مکمل یقین ہو کہ جس جگہ وہ کارروائی کرنے جارہے ہیں وہاں دہشت گرد ہی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت بار ایسا ہوا ہے کہ بے گناہ لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے انتہا پسندی میں کمی نہیں اضافہ ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں امریکی حملوں کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ پرویز ہود بھائی کے مطابق پاکستان پر امریکی حملے کے بارے میں سوچنا بھی غلط ہے۔ اسکے علاوہ انہوں نے پاکستان کے جمہوری عمل میں امریکہ کی مبینہ مداخلت کو بھی غلط قرار دیا۔ پرویز ہودبھائی نے کہا کہ امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کے خطرے سے نمٹنے میں ہرگز کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحدوں پر نیٹو کی فوجوں میں اضافہ کیا جارہا ہے جس کہ وجہ سے قبائلی علاقوں اور پاکستان میں امریکی حملے کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے ان حملوں میں چند سو کے قریب طالبان مارے جائیں لیکن حملوں کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل ہو گا۔ اور اگر بے گناہ لوگ مارے گئے تو مسائل میں بے حد اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس قسم کے بیانات سینیٹر اوباما دے رہے ہیں ان سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان سولہ کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور یہ ایک نیوکلیر طاقت بھی۔ اسلیے غیر ذمہ دار اقدامات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں امریکی حکام سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ پاکستان کے سیاسی عمل میں مداخلت نہ کریں۔ اور پاکستانی عوام کو اپنے لیڈرز خود چننے دیں۔ مذاکرے میں موجود پاکستان اور افغان امور کے ماہر ڈاکٹر مارون وائن بام نے پرویز ہود بھائی کی پریذنٹیشن کے بعض نکات سے اتفاق کیا جبکہ بعض سے اختلاف یہ بات بالکل درست ہے کہ امریکی قیادت پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ نہیں لگا سکی۔ وہ یہ بات سمجھنے میں ناکام رہی کے پاکستان کی سول سوسائٹی عدلیہ کی بحالی کے لیے کتنی کمٹڈ ہے اور وہ ملک میں نئی قیادت دیکھنا چاہتی ہے۔ صدر مشرف سے امریکہ کی وابستگی غلط نہیں ہے لیکن یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ پاکستانی عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں طالبان کی جڑیں مضبوط ہونے میں امریکہ کی ماضی کی پالیسیوں کا تعلق ہے تو یہ بات کسی حد تک تو درست ہے کیونکہ اس وقت امریکہ سرد جنگ کی وجہ سے یقینناً اس خطے میں جہادی گروپس کی مدد کررہا تھا۔ لیکن اس کی تمام ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا غلط ہوگا کیونکہ طالبان کی جانب سے اب طاقت پکڑنے کے دیگر محرکات بھی ہیں۔ وائن بام سمیت بہت سے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی طالبان کی سرگرمیاں علاقے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں لیکن ان سے نمٹنے کے لیے مقامی آبادی اور نمائندوں کی مدد سے حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ جبکہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اس دورائیے پر آگیا ہے کہ اسے ہمیشہ کیلئے ایٹمی طاقت رہنا ہے یا پھر خدا نہ کرے کہ ہم ایٹمی طاقت گنوا کہ آزادی کھو بیٹھیں ۔ ہمارے پاس دونوں آپشن موجود اور فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے ۔ عوام کے مسائل حل نہ کئے تو خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا تعلیم کا زیور پہنے بغیر کوئی بھی قوم اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی ۔ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ہی ہم پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کا صحیح معنوں میں پاکستان بنا سکتے ہیں ۔ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں کئی بار ایجنسیاں نافذ کی گئیں اور آئین کو توڑا گیا لیکن تعلیمی شعبہ میں کبھی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جو ملک کی اصل ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کتنی شرمناک اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہم ایٹمی پاکستان ہونے کے باوجود دودو گلی گلی کشکول اٹھائے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں خود کوئی خود مختار قوم کبھی اغیار سے بھیک نہیں مانگتی بھیک مانگنے والی قوم بھی خوشحال نہیں ہو سکتی نہ ہی ترقی کر سکتی ہے ۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے راستہ سے ہٹ جانے کے باعث ہم آج تک منزل تلاش نہیں کر سکے اور اغیار پاکستان کو آزادی سے محروم کردینا چاہتے ہیں ۔ میں شرمندہ ہیںکہ ہم اپنے اپنے مقدمہ کو ٹھیک طور پر پیش نہیں کر سکے ۔ تعلیمی پسماندگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مجھے رحیم یارخان کے دور افتادہ ایک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں طلبہ کو پنجاب کے دورالحکومت کے بارے میں علم نہیں ہے جبکہ یہاں ایچی سن جیسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں اربوں روپے خرچ کئے جا تے ہیں ان دور افتادہ علاقہ میں سکولوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور بچ زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ بچیاں ہائی سکول دور وہنے کے باعث تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ انہو ں نے کہا کہ ماضی میں پڑھے لکھے پنجاب کے نام پر بڑے دعوے کئے گئے لیکن اربوں روپے کے فنڈز محض ذاتی تشہیر پر خرچ کردیئے گئے اگر یہ فنڈز تعلیم پر خرچ کئے جاتے تو آج ہماری بچیاں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل نہ کر رہی ہوتیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سابق حکمرانوں نے ہمیں بہت مشکلات میں چھوڑ دیا ہے جن میں تعلیمی پسماندگی کے علاوہ معزول ججوں کی بحالی اور دیگر مسائل شامل ہیں لیکن ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اندھیروں میں نہیں رہنے دیں گے اور ایسا کام کر جائیں گے کہ یہ نسلیں کہیں گی کے ہمارے بڑے ٹھوکریں کھا کر بالآخر راہ راست پر آگئے ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران ملک میں محلات تو بہت بنے لیکن غریب کی جھونپڑی پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم نے غریب کے مسائل حل نہ کئے تو یہاں خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ انہوں نے بچوں کو یقین دلایا کہ پنجاب کے خزانے کو ان پر نچھاور کیا جائے گا ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب بھر میں دو ڈویڑن کی سطح پر بچوں میں ڈبیٹ کے مقابلے کروائیں گے جن میں وہ خود شرکت کریں گے ۔ انہوں نے پنجاب بھر کے سکولوں سے منتخب طلبہ کو مری کی سیر کروائے اور ان کی وزیر اعلی ہاو¿س میں مہمان نوازی کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ اس موقع پر مجید نظامی نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ میاں نواز شریف اور ان کے مرحوم والد کے سر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میاں شریف مرحوم اپنے سات بھائیوں میں واحد تعلیم یافتہ شخص تھے جنہوں نے اپنی محنت سے ایک بڑے صنعتکار کا درجہ حاصل کیا ۔ بچے بھی ان کی تقلید کر کے بڑے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافے کے باوجود حکومت آئندہ دنوں میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ بجٹ میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سسبڈی کو دسمبر تک ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد گزشتہ دو ماہ کے دوران حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر 34روپے اضافہ کر چکی ہے ۔ اس اضافے کے باوجود قیمتوں میں مزید اضافے کا ارادہ کیا جا رہا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے موقف کے مطابق 50روپے فی لیٹر سسبڈی کے خاتمے کے لیے پٹرول کی قیمت میں مزید 16روپے فی لیٹر اضافے کیا جا سکتا ہے اس طرح ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 103روپے فی لیٹر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ایران کے قائم مقام وزیر داخلہ سید مہدی ہاشمی نے ملاقات کی ہے۔ جس میں پاک ایران تعلقات علاقائی صورت حال ‘ دہشت گردی و انسانی سمگلنگ کے خاتمے سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا ۔ دونوں برادر اسلامی ممالک نے مضبوط اور مستحکم دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ ملاقات میں وزیر اعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دونوں اسلامی ممالک نہ صرف مشترکہ تہذیب ثقافت مذہب اقدار روایات کے حامل ہیں ۔ بلکہ کئی اہم بین الاقوامی ایشوز کے حوالے سے بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان علاقے میں استحکام امن اور پائیدار ترقی کا خواہاں ہے ان مقاصد کے حصول کے لئے کوئی پاکستان کے کردار سے انکار نہیں کر سکتا ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات اور دوستی ہے ۔ ایران کے خلاف کسی جارحیت کی حمایت نہیں کی جائے گی اس طرح کے اقدامات سے خطے میں عد استحکام پیدا ہوگا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مسائل کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے پر امن ذرائع سے معاملات کے حل میں خطے اور اس کے عوام کے بہتر مفاد میں ہے ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس) اسلام آباد