International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, March 22, 2008

Bhutto party names Gilani as Pakistan PM candidate





ISLAMABAD - Slain former Pakistani premier Benazir Bhutto’s party Saturday named ex-parliamentary speaker Yousuf Raza Gilani as its candidate to be the troubled country’s new prime minister.
Bhutto loyalist Gilani was chosen more than a month after the Pakistan People’s Party (PPP) emerged as the biggest party from general elections and agreed to form a coalition government with ex-premier Nawaz Sharif.
The 58-year-old Gilani is now a virtual shoo-in to be elected as prime minister when Pakistan’s new parliament meets on Monday, ahead of a looming showdown with key US ally President Pervez Musharraf.
‘I have great pleasure in calling upon Yousuf Raza Gilani in the name of Shaheed (martyr) Benazir Bhutto to accept the heavy responsibility to lead the coalition government and the nation,’ said a statement by Bhutto’s widower Asif Ali Zardari that was read out to reporters by a party spokesman.
The statement said that Gilani was the ‘consensus’ candidate of the coalition.
Musharraf, whose political backers lost heavily in the elections after five years in power of the nuclear-armed nation, is set to swear in the new premier on Tuesday.
Gilani is a stalwart figure in the PPP and friend of Zardari who spent five years in jail under Musharraf’s regime on corruption charges that were later overturned.
He was speaker during her second term in power from 1993 to 1996 and a minister during her first term from 1988 to 1990.
Party spokesman Farhatullah Babar would not comment on reports that Gilani would be a stop-gap premier until Zardari, who is not an MP, becomes eligible to stand for the post by contesting a by-election in May.
The party struggled to settle on a candidate amid a power vacuum left by the charismatic Bhutto’s assassination in December, with Gilani emerging only in the last week.
The other contenders were ex-trade minister Ahmed Mukhtar, party president Makhdoom Amin Fahim and Punjab province party chief Shah Mahmood Qureshi.
Sharif said in Lahore that his Pakistan Muslim League-N party ‘will raise no objection on the PPP nominee,’ adding: ‘Musharraf should understand that the days of dictatorship are numbered.’
A nominee of Musharraf’s allies meanwhile quit the race for the premiership, but the main party that supports the US-backed president said it would field another candidate so the PPP’s nominee would not be uncontested.
The president’s political ally, the Muttahida Qaumi Movement (MQM), said it had decided to withdraw its candidate as a ‘gesture of goodwill.’
‘We have decided to extend unconditional support to the PPP nominee,’ Farooq Sattar, the candidate of the Karachi-based MQM, told AFP by telephone.
The decision to withdraw was taken after Zardari held talks with MQM leader Altaf Hussain, who lives in exile in London, Sattar said.
Sattar, who met leaders of the Pakistan Muslim League-Q (PML-Q), which backs Musharraf, later confirmed that he was quitting the race at a news conference.
PPP spokesman Babar hailed the MQM support as ‘a positive development.’
But PML-Q chief Chaudhry Shujaat Hussain said his party would nominate Sattar’s replacement on Sunday.
‘We have decided to contest the election for prime minister and not to withdraw from the political process,’ Hussain told reporters here.
Western governments are keenly observing the political scene in Pakistan, with a showdown looming between the new parliament and Musharraf, a frontline ally in the US-led ‘war on terror.’
The coalition government appears set for a confrontation with Musharraf-who seized power in a military coup in 1999 -- after vowing to reinstate judges whom the president sacked during a state of emergency in November.
If restored, the judges could overturn Musharraf’s re-election as president in a parliamentary vote in October and effectively rule his grip on power illegal.

وزیراعظم کے نام کا اعلان آج





پارٹی کی مقتول سربراہ کی وصیت کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کو نیا چیئرمین مقرر کیا گیا
اٹھارہ فروری کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی ملک کے نئے وزیراعظم کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان سنیچر کو کر رہی ہے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق نے کہا ہے کہ وہ وزارت عظمی کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار میدان میں اتارے گی۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم کے نام کا اعلان سنیچر کی رات تک کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امیدوار کے نام کا اعلان کریں گے۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے اس عہدے کے لیے سابق سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی اور پنجاب میں پارٹی کے سربراہ شاہ محمود قریشی کے نام لیے جا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم امین فہیم نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اس عہدے کے امیدوار ہیں۔
پی پی پی مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور دوسری اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملک کر حکومت بنائے گی۔
ادھر حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ پی ایم ایل کیو کے امیدوار کے نام کا اعلان پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد ممکنہ طور پر اتوار کو کیا جائے گا۔ خیال ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی طرف سے چودھری پرویز الہی وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔
اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے راہنماؤں سے ملاقات کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کی جانب سے وزارت عظمی کے لیے اپنے امیدورار ڈاکٹر فاروق ستار کی دستبرداری کی حمایت کرتے ہیں۔
فاروق ستار ایم کیو ایم اور پی ایم ایل کیو کے مشترکہ امیدوار تھے۔ تاہم گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے درمیان رابطے کے بعد ان کا نام واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فاروق ستار کی جگہ اب پرویز الہی


پرویز الہی قائد حزب اختلاف ہوں گے متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے ڈاکٹر فاروق ستار کو پاکستان پیپلپز پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار کے حق میں دسبتردار کرنے کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ق) کی طرف سے چودھری پرویز الہی وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ مسلم لیگ (ق) کےصدر چودھری شجاعت حسین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ چودھری پرویز الہی کو اکاون اراکین کی حمایت حاصل ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ وزیر اعظم کے انتخاب میں مسلم لیگ ق کے امیدوار کے طور پر حصہ لیں۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم میں مفاہمت انہوں نے کہا کہ نو منتخب اسمبلی میں چودھری پرویز الہی ہی قائد حزب اختلاف ہوں گے اور مسلم لیگ ق حزب اختلاف کا کردار ادا کرے گی۔ عدلیہ کے مسئلہ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے وہ بھی حامی ہیں اور ججوں کی بحالی کا کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معذول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس قدر سیاست میں ملوث ہو گئے ہیں کہ انہیں اب چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کیا جانا مناسب نہیں ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے مفاہمت کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے ڈاکٹر فاروق ستار کو وزیر اعظم کے انتخاب سے دستبردار کرنے کو چودھری شجاعت حسین نے مسلم لیگ (ق) کے لیے کوئی بڑا دھچکہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم نے کوئی حتمی اعلان نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے رہنماوں کی ایک ملاقات سنیچر کو ہو رہی ہے جس کے بعد ہی کوئی حتمی اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے اس فیصلے کو مسلم لیگ ق کے لیے اس صورت میں بڑا دھچکا قرار دیا جا سکتا تھا اگر ایم کیو ایم یہ فیصلہ انہیں اعمتاد میں لیئے بغیر کرتی۔ ادھر ایم کیو ایم کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی حیدر عباس رضوی نے بتایا کہ ایم کیو ایم کا ایک اعلی سطحی وفد کراچی سے اسلام آباد پہنچ رہا ہے جہاں وہ مسلم لیگ ق کے رہنماوں سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی دستبرداری کا باقاعدہ اعلان کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے گزشتہ دو دونوں میں دو مرتبہ لندن میں الطاف حسین سے ٹیلی فون پر رابط کیا اور پی پی پی کے وزیر اعظم کے امیدوار کی حمایت کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ جس کے بعد الطاف حسین نے غیر مشروط پر پی پی پی کے وزیر اعظم کے امیدوار کی حمایت کرنے اور ڈاکٹر فاروق ستار کو وزیر اعظم کے انتخاب سے دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر حیدر عباس رضوی نے کہا کہ اگر ایم کیوایم کو کہا گیا تو وفاقی حکومت میں ضرور شامل ہو گی۔ مسلم لیگ نواز کے ساتھ حکومت میں شریک ہونے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایم کیو ایم سے زیادہ مسلم لیگ ن کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ہونے والے آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے فیصلہ کیا تھا کوئی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ کسی سیاسی اتحاد میں شریک نہیں ہو گی۔


ایم کیو ایم کی وزیر اعظم کے لئے غیر مشروط حمایت تحریر چودھری احسن پریمی




مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی دستبرداری کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور متحدہ قومی موومنٹ اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی، اس حوالے سے مشاورت کی جائے کی۔ فاروق ستار صرف ایم کیو ایم کے نہیں بلکہ مشترکہ طور پر اپوزیشن کے وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں نے اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا تھا اور بتایا کہ ا ن کا اجلاس جاری ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ ہفتہ کو ہم سے مل کر مشاورت کرینگے۔ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ نے آصف زرداری کو وزارت عظمیٰ کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے فون پر رابطہ کیا، جس کے دوران ان سے حکومت سازی میں تعاون پر بات چیت کی گئی۔ اس بات چیت کے دوران ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حمایت کا غیر مشروط اعلان کیا ہے۔ الطاف حسین نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کو دستبردار کروانے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم کیلئے ایم کیو ایم کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستار دستبردار ہوجائیں گے۔ ایم کیو ایم غیر مشروط طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کو ووٹ دے گی، جس کے بعد مرکز اور صوبہ سندھ میں بننے والی حکومتوں میں انہیں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے پر پیپلز پارٹی کی ایک بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے تحفظات کا اظہار کیا تھھا۔ ادھر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس جاری تھا، جس میں آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کی روشنی میں مشاورت کا عمل جاری تھا۔ باور رہے کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے ممکنہ حکمران اتحاد کیلئے میداد خالی کھلا نہ چھوڑنے کا اعلان کرنے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو اپوزیشن کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار مقرر کیا تھا۔ قومی اسمبلی میں سابقہ حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی شیرپاو¿ اور مسلم لیگ (ف) تاحال نومنتخب قومی اسمبلی میں بننے والے حکومتی اتحاد میں شامل نہیں تھے اور حزب مخالف کی نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر وزیراعظم اتفاق رائے سے منتخب ہو تو یہ بہت ہی اچھا ہوگا۔متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی درخواست پر ملک کے استحکام، جمہوریت کے فروغ، سندھ میں دیہی اورشہری آبادی کو قریب لانے اور ملک اور سندھ کے وسیع تر مفادمیں وزارت عظمیٰ کیلئے خیر سگالی کے جذبے کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کو غیرمشروط طور پر پیپلز پارٹی کے امیدوارکے حق میں دستبردارکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے درمیان گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بات چیت کے دو دورہوئے۔ بات چیت کا پہلا دورجمعرات کی شام ہوا، جس میں آصف علی زرداری نے الطاف حسین سے درخواست کی کہ وہ جمہوریت کے استحکام اورملک کے مفاد میں وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں اپنے امیدوار کو پیپلزپارٹی کے امیدوار کے حق میں دستبردار کرلیں تاکہ جمہوریت مستحکم ہو اور مفاہمت کی فضائ مزید پروان چڑھ سکے۔ الطاف حسین نے آصف زرداری سے کہا کہ وہ اس معاملے کو رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے، جو اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔ اسکے بعد ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی نے اپنا طویل اجلاس کر کے اس پرصلاح مشورہ کیا اور ملک اور سندھ کے وسیع تر مفاد میں پیپلز پارٹی کے امیدوارکے حق میں ایم کیو ایم کے امیدوارکو غیر مشروط طور پر دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم چونکہ ڈاکٹر فاروق ستار مشترکہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار ہیں، جن میں مسلم لیگ ق اور دیگرجماعتیں شامل ہیں، لہٰذا انہیں دستبردار کرانے کا اعلان مسلم لیگ ق اور ا س کی اتحادی جماعتوں سے صلاح مشورے کے بعدکیاجائے گا۔ اس سلسلے میں ہفتے کو اسلام آبادمیں اپوزیشن جماعتوں کی ہنگامی میٹنگ ہوگی۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے جمعہ کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے گفتگوکرتے ہوئے انہیں رابطہ کمیٹی کے اس فیصلہ سے آگاہ کیا۔ الطاف حسین نے آصف علی زرداری سے کہا کہ ہم نے انتخابات کے بعد ملک اور سندھ کے وسیع تر مفاد میں خیرسگالی کا بار بار مظاہرہ کیا ہے اور اب بھی ہم نے خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہی اپنے امیدوارکو دستبردارکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کے وسیع تر مفادمیں خیرسگالی کے جس جذبہ کا اظہارکیا ہے اسکے جواب میں ہمیں امید ہے کہ آپ بھی ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔ آصف زرداری نے اس فیصلہ پر الطاف حسین کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا وعدہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو مایوس نہیں کریں گے اور مل کرچلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے اس فیصلے سے جمہوریت مضبوط ہوگی، ملک میں استحکام آئے گا اور مفاہمت کی فضائپروان چڑھے گی۔آصف زرداری نے کہا کہ اب ہمیں ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں اوراپنے عمل سے عوام کے دل جیتنا چاہئیں۔ الطاف حسین نے آصف زرداری سے کہا کہ ہم خلوص دل، نیک نیتی اور ایمانداری سے مضبوط اور دیرپا تعلقات چاہتے ہیں اورہم نے آج جو شروعات کی ہیں، انشائ اللہ اسے مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔ دونوں رہنماو?ں نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پربھی اتفاق کیا۔ ایم کیو ایم سے رابطہ شہید چیئرپرسن کی اس مفاہمانہ پالیسی کی روشنی میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگرچہ پی پی پی والے اس وقت کسی سے تصادم نہیں چاہتے، نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا، تاہم کاغذی اقدامات نہیں ہونے چاہیے اعلان مری میں جو بھی وعدے کئے گئے، وہ اس کی روح کے مطابق پورے کئے جائیں نگراں حکومت نے جو بھی غیر قانونی تقرریاں کی ہیں، اس کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ عدلیہ بحال ہونے کے بعد وہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے خاتمے کے لیے عدالت جائیں گے اور یہ کیس معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لیے بحالی کے بعد کڑا امتحان ثابت ہوگا۔ پارلیمنٹ ساتھ دے یا نہ دے عدلیہ بحال ہوکر رہے گی اور پرویز مشرف کو جانا ہی ہوگا کیونکہ وہ غیرآئینی صدر ہیں۔ امیرجماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ حکومت امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کی پالیسی تبدیل کرے اور گر ایسا نہ کیا گیا تو اسے عوام کی نفرت کا سامنا کرے گا، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی آج بھی اس بات پر قائم ہے کہ جب تک آئین اور عدلیہ بحال کرکے آزادانہ الیکشن کمیشن قائم نہیں کیا جاتا اور دوبارہ الیکشن نہیں کرائے جاتے یہ سسٹم نہیں چلے گا، قاضی حسین کا کہنا تھا کہ افغاستان اورقبائلی علاقوں میں جنگ ختم کی جائے۔ جبکہ وکلاءنے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ نئی حکومت کو مہنگائی، بجلی ، گیس ، بے روزگاری اور دہشت گردی سمیت بے شمار چیلنجز درپیش ہیں اور وکلاءبرادری ان مسائل سے نمٹنے کیلئے حکومت سے مکمل تعاون کیلئے تیار ہے لیکن شرط یہ ہو کہ حکومت پہلی ترجیح کے طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرے۔ جس روز وزیراعظم حلف اٹھائے ایوان صدر خالی ہوجائے مشرف کو فرار نہ ہونے د یا جائے کیونکہ ان کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔مشرف کا انجام اب بہت قریب آچکا ہے جس کے بعد ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ جہاں آئین ، عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ کو بالادستی اور آزادی حاصل ہوگی۔ لیکن عوامی حلقوں میں یہ بھی تاثر ہے کہ ایک جرنیل کے تسلط سے آزاد ہوئے اور جاگیر داروں کے نر غے میں آگئے کیونکہ ان کے خیال میں جاگیردار بھی زہنی طور پر آمر ہوتا ہے جو انسانی ترقی کی راہ میں بہت بڑا راستے کا پتھر سمجھا جاتا ہے اس صورتحال میں خود مختار اور دیانتدار عدلیہ کا قیام نہت ضروری ہے دیانتداری کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ ماضی میں عدلیہ کا کوئی ایسا کردار نہیں رہا جس پر عوام فخر کر سکیں کیونکہ آئین توڑنے والے سابقہ فوجی حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی عدلیہ کا اہم کردار رہا ہے۔ ایوب خان نے مارشل لاءلگایا© اس کی وجہ سے ان کو پھانسی کی سزا ممکن تھی لہذا انہوں نے دستور بنایا اور 1962میں اپنی مرضی کی پارلیمنٹ بنائی اور اس سے اپنے اقدامات کی توثیق کرائی انہیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت مل گئی ورنہ فیلڈ مارشل کو آئیں توڑنے پر پھانسی کی سزا ہوتی ایوب خان کے اقدامات کو بھی سپریم کورٹ نے تحفظ دیا تھا اس کے باوجود پارلیمنٹ سے توثیق کرانا پڑی اور یہی سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے افتخار چودھری اس لئے منفرد ہیں کہ وہ روا یت شکن نکلے حکومت کسی کی بھی آئے فوجی آمر ہو یا جمہوریت کا لبادہ پہنے کو ئی جاگیردار۔ پاکستان کے عوام کی حالت جوں کی توں رہے گی اس ضمن میں نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے اور یہ تب ممکن ہے جب دیانت دار لیڈر شپ معرض وجود میں نہیں آ جاتی اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت کو متعارف کرا نا ہوگا اور ملکی ترقی و استحکام اور خوشحالی کا جذبہ رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو بھی وہ مقام دینا ہوگا جس کے وہ اہل ہوں گے جاوید ہاشمی اور اعتزاز احسن کی مثال سب کے سامنے ہے دونوں ہر دلعزیز رہنماوئں کا تبدیلی کے عمل میں بھت اہم کردار ہے لیکن دونوں کی پارٹی کے اندرقربانی کے بکروں سے زیادہ حثیت نہیں۔