International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 25, 2008

مستعفی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی آصف علی زرداری سے ملاقات ، پی پی چیف جسٹس کی مدت ٥ سال کرنے پررضامند


اسلام آباد ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحق ڈار نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے چیف جسٹس کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحق ڈار نے زرداری ہاؤس میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی جو دو گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات کے دوران مجوزہ آئینی پیکیج پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے بعد اسحق ڈار نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کی ملاقات آصف علی زرداری کی خواہش پر ہوئی۔ اسحق ڈار نے بتایاکہ آصف علی زرداری آئینی پیکیج میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال کے بجائے پانچ سال کرنے پر رضامندہیں۔اسحق ڈارنے بتایا کہ آئینی پیکیج کی کاپی ابھی مسلم لیگ ن کو نہیں ملی تاہم آئینی پیکیج پر تحفظات برقرار ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ آصف زرداری نے یقین دلایا کہ آئینی پیکیج میں متنازعہ امور پر مشاورت اور بات چیت جاری رہے گی۔ اسحق ڈار نے کہا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات کا وقت ابھی طے نہیں ہوا تاہم دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات مناسب وقت پر ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری سے ملاقات کے دوران آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔

صدر کا ٥٨ ٹو بی کا استعمال کرنا اب ممکن نہیں ۔ آصف علی زرداری



آئینی پیکج حتمی نہیں اس میں تبدیلیا ںہو سکتی ہیںتاہم اسے جولائی میں منظور ہو جانا چاہیے
مسلم لیگ (ن) جلد اپنی وزارتوںمیں واپس آ جائے گی ، معزول ججوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی شبہات نہیں ہونے چاہیں
اعتزاز احسن سیکہا ہے وہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے ہم سے بات چیت کریں نا ممکن کو ممکن بنانا سیاستدان کا کام ہے
مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بیٹھنا مشکل ہے عوام اس پر سوالات پوچھیں گے،صدر پرویز مشرف سمیت سب سے مذاکرات کریں گے
دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے دہشت گردی سے ہمارا گھر بھی اُجڑا
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

اسلام آباد ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہاہے کہ صدر کا 58ٹو بی استعمال کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ اس کیلئے کوئی جواز موجود نہیں۔مسلم لیگ (ن) جلد اپنی وزارتوںمیں واپس آ جائے گی ۔ اعلان مری موجود ہے معزول ججوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی شبہات نہیں ہونے چاہیں ۔ ایک بار پھر واضح کرتا ہوں کہ افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججز واپس آئیں گے اس کا ذکر اعلان مری میں بھی ہے ۔ آئینی پیکج حتمی نہیں اس میں تبدیلیا ںہو سکتی ہیں۔اعتزاز احسن سے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے ہم سے بات چیت کریں نا ممکن کو ممکن بنانا سیاستدان کا کام ہے غذاتی قلت کی ذمہ دار سابق حکومت ہے تاہم اس کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں بھارت کے ساتھ مشترکہ صنعتی زون بنائیں گے۔ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بیٹھنا مشکل ہے عوام اس پر سوالات پوچھیں گے۔ صدر پرویز مشرف سمیت سب سے مذاکرات کریں گے اگر عوام چاہیں تو صدر پرویز مشرف سے ضرور بات چیت کروںگا ۔ صدر کے مواخذے کیلئے مطلوبہ ممبران کی تعداد پوری ہو سکتی ہے۔ صدر کے اختیارات کی وزیراعظم کو واپسی چاہتے ہیں ۔صدر کا 58ٹو بی استعمال کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ اس کیلئے کوئی جواز موجود نہیں۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے دہشت گردی سے ہمارا گھر بھی اُجڑا ۔پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں ایم کیو ایم کے بغیر حکومت بنا سکتے تھے لیکن مفاہمت کی پالیسی کے تحت انہیں اپنے ساتھ ملایا ۔نیگرو پونٹے کا پہلا دورہ طے شدہ تھا اب وہ پاکستان نہیں آرہے ۔ بلوچستان کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا تاہم اس کو حل کریں گے۔ ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں آصف زرداری نے کہا کہ آئینی پیکج بہت جلد تمام پارٹیوں کو پیش کردیا جائے گا اور تمام پارٹیوں سے مشاورت کے بعد ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی پوزیشن اس آئینی پیکج میں ہے مگر ججز کی معیاد 3سال سے کم کر نے کی کوئی بات نہیں ہے آئینی پیکج بجٹ سے پہلے پارلیمنٹ میں آسکتا ہے تاہم ممکن ہے بحث بعد میں ہو۔ آئینی پیکج چار ٹر آف ڈیمو کریسی ( میثاق جمہوریت )پر مبنی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فرنٹیئر پوسٹ کے چیف رحمت شاہ آفریدی کا فی عرصے سے جیل میں تھے مگر افسوس کسی نے ان کی رہائی کے لئے آواز نہیں اٹھائی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئینی پیکج جولائی کے مہینے میں منظور ہو جانا چاہیے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس پیکج پر اعتراضات نہیں ہوں گے تاہم تجاویز آ سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مسئلہ بلوچستان حل ہو گیا ہے ،ہم بلوچستان کے مسائل ضرور حل کریں گے ۔ صدر مشرف سمیت سب سے مذاکرات کریں گے ۔ اعتزاز احسن سے کہا ہے کہ ججز کی بحالی پر آکر ہم سے بات کریں ۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے اختیارات کی وزیر اعظم کو واپسی چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف سے رابطہ برقرار ہے ہم صدر مشرف سمیت ہر ایک سے بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں انہوں نے کہاکہ میری صدر مشرف سے ملاقات نہیں ہوئی اور ملاقات کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے اگر عوام چاہیں تو ہو سکتی ہے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج حتمی نہیں اس میں تبدیلیا ںہو سکتی ہیں انہوں نے کہاکہ ہم محاذ آرائی کی سیاست نہیں چاہتے ہر مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں ۔ ناممکن کو ممکن کرنا سیاستدانوں کا کام ہے انہو ںنے کہاکہ ہم ملک میں جمہوریت اور معیشت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں اس مقصد کیلئے ہم کوشاں ہیں ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ صدر کے مواخذے کیلئے ممبران کی مطلوبہ تعداد پوری ہو سکتی ہے انہوں نے کہاکہ ہم محاذ آرائی نہیں مذاکرات کی سیاست چاہتے ہیں اور اسی کو ہم ترجیح دیتے ہیں انہو ںنے کہاکہ نیگرو پونٹے کا دورہ طے شدہ تھا وہ دوبارہ پاکستان نہیں آرہے کوئی پریشر گروہ سرگرم ہوا تو مذاکرات کی راہ اپنائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ میں ایک بار پھر واضح کرتا ہوں کہ افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججز واپس آئیں گے اس کا ذکر اعلان مری میں بھی ہے ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ(ن) جلد کابینہ میں واپس آئے گی ، آٹا ، بجلی اور دیگر بحرانوں کے بارے میں انہوں نے کہاکہ ان کو ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ گندم کی قیمتیں کم کرنے کے بارے میں انہوں نے کہاکہ نئی فصل آنے پر گندم کی قیمت کم ہو سکتی ہے انہوں نے کہاکہ ہم معاشی زون بنائیں گے ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ میاں نواز شریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے رحمت شاہ آفریدی کو رہا کرایا ۔ انہوں نے کہاکہ صدر کا 58ٹو بی استعمال کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ اس کیلئے کوئی جواز موجود نہیں۔ انہوں نے کہاکہ بہت سی جماعتیں ہمارے ساتھ ہیں جس پر ہمیں فخر ہے (ق) لیگ کے ساتھ بیٹھنے کے بارے میں سوال پر آصف زرداری نے کہاکہ (ق) لیگ کے ساتھ بیٹھنا فی الحال ممکن ہی نہیں مشکل بھی ہے کیونکہ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب عوام مانگتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بڑی بات ہے ۔انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ بجٹ اجلاس کے بعد جولائی تک آئینی پیکج منظور ہوجانا چاہیے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے کبھی نورا کشتی کی ہے اور نہ ہی آئندہ ارادہ ہے انہوں نے کہاکہ پاکستان بھارت تعلقات معاشی بنیادوں پر مستحکم ہونے چاہیں بھارت کے ساتھ مشترکہ کمرشل زون بنائیں گے انہوں نے کہاکہ بحران بہت ہیں تاہم عوام سے مل کر ان پر قابو پا لیا جائے گا انہوں نے کہاکہ ہم زراعت کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کیونکہ اس شعبے میں بہت گنجائش ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بے نظیر کے نام پر مستحق مستحق افراد کیلئے قومی کارڈ کا اجراء کیاجارہا ہے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے دہشت گردی سے ہمارا گھر بھی اُجڑا ۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے میں ایسے مسائل ہیں جن کے اثرات باقی دنیا پر ہو سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ تمام مسائل کے حل کی ابتداء جلد شروع ہو جائے گی تاہم ان کا مکمل خاتمہ ایک وقت طلب بات ہے انہو ںنے کہاکہ غربت بے روزگاری ملک کے بڑے مسائل ہیں ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ پنجاب میں (ن) لیگ اور سندھ میں ایم کیو ایم کے بغیر حکومت بنا سکتے تھے لیکن ہم نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی بنارکھی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عالمی مسئلہ ہے اس پر پانچ سالوں میں کوئی توجہ نہیں دی گئی

آرمی چیف کو تبدیل کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں

صدر مملکت کے ترجمان میجر جنرل (ر) راشد قریشی نے چیف آف آرمی سٹاف کی تبدیلی کے حوالہ سے ذرائع ابلاغ کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کا انتخاب میرٹ پر ہوا تھا اور ان کی تبدیلی کے حوالہ سے کوئی غور نہیں ہو رہا۔ اتوار کو بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آرمی چیف کی تبدیلی کے متعلق جاری خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ایسی خبریں قطعی بے بنیاد اور من گھڑت ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے، ایسی خبروں کا مقصد فوج اور صدر کے درمیان تعلقات خراب کرنا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ آرمی چیف کا انتخاب میرٹ پر کیا گیا تھا اور صدر مملکت کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تین سالہ مدت کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ راشد قریشی نے کہا کہ اس طرح کی خبریں بعض عناصر مذموم مقاصد کیلئے پھیلاتے ہیں جو بدنیتی پر مبنی ہوتی ہیں۔

امریکی اراکین کانگریس کی مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات



اسلام آباد ۔ امریکی اراکین کانگریس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی ۔ وزارت خارجہ کے ترجمان محمد صادق نے ایک نجی ٹی وی کو بتایا کہ امریکی اراکین کانگریس جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں نے اتوار کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی تاہم ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیاگیا ۔یہ وفد وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کرے گا جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو مزید موثر بنانا اور امریکہ کا موقف موجودہ پاکستانی حکومت کے سامنے واضح طور پر پیش کرنا ہے۔ملاقات کے بعد چوہدری نثار علی خان نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سینیٹرز سے ملاقات کے دوران میں نے یہ واضح کیاہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے ان پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات موجود ہیں

صدر کا بہت احترام کرتا ہوں ، یوسف رضا گیلانی



آئینی پیکج کا مقصد اداروں کے درمیان توازن لانا ہے ، وزیراعظم کی سینئر صحافیوں سے گفتگو
لاہور۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ وہ تصادم کی پالیسی پریقین نہیں رکھتے اور صدر کابہت احترام کرتے ہیں ۔ آئینی پیکج کا مقصد اداروں کے درمیان توازن لانا ہے ۔ یہاں اتوار کو سینےئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جب عسکریت پسند نہیں ہوں گے انتہا پسند نہیں ہوں گے اور جو ہتھیار ڈال دیں گے ان کے ساتھ ہم بات کریں گے اور انہیں مین اسٹریم میں لے آئیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی پروگرام کے ذریعے اس علاقے میں ترقیاتی کام کریں گے تعلیم کا نظام بہتر بنائیں گے صحت کی سہولتیں فراہم کریں گے اور ایک انقلاب لائیں گے اور لوگوں کو روزگار فراہم کریں گے ۔ تاہم انہو ںنے کہاکہ ان علاقوں میں سیکیورٹی فورسز موجود رہیں گی تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کیا جا سکے وزیر اعظم نے کہا کہ پوری دنیا ہماری اس پالیسی کو سراہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینی پیکج کا مسودہ اتحادیوں کی مشاورت سے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا۔ یوسف رضا گیلانی
ترامیم کرکے 73ء کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اسے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اصل روح کے ساتھ بحال کریں گے
ہم ایوان صدر سے تصادم نہیں چاہتے صرف پارٹی منشور کی بات کرتے ہیں
انتہا پسندوں سے نہیں صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے بات کریں گے،قبائلی علاقوں میں سیکورٹی فورسز تعینات رہیں گی۔
وزیراعظم کی ایڈیٹروں اور کالم نگاروں سے گفتگو
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ آئینی پیکج کا مسودہ جلد اتحادیوں کو دے دیا جائے گا تاکہ مشاورت کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکے۔ اس امر کا اظہار انہوں نے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس لاہور میں اخبارات کے ایڈیٹروں اور کالم نگاروں سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ 73ء کے آئین میں ترامیم کرکر کے اس کی حالت بگاڑ دی گئی ہے۔ اس وقت ملک میں نہ پارلیمانی نظام حکومت ہے نہ صدارتی۔ ہم اس کو زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کی اصل روح کے ساتھ بحال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایوان صدر سے تصادم نہیں چاہتے، ہم صرف پارٹی منشور کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں تعلیم اور صحت اور دیگر ترقیاتی کام شروع کریں گے اور سیاسی اصلاحات کے ذریعے تبدیلی لائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت انتہا پسندوں سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ قبائلی علاقوں میں سیکورٹی فورسز تعینات ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے کام لیا جاسکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بے نظیر بھٹو شہید قتل کیس کی تحقیقات اقوام متحدہ سے اس لئے کرائی جارہی ہیں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی کی حکومت خدمت کے ذریعے امن وامان قائم کرنا چاہتی ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ مذکرات کے ذریعہ حل کیا جائے گا۔

آئینی پیکج پر تحفظات ہیں، ججوں کا معاملہ پس پشت ڈالا جا رہا ہے، قاضی حسین احمد



پشاور۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد نے آئینی پیکج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کے بغیر آئینی پیکج نا مکمل ہے پیکج میں پی سی او کے ججوں کو بحال رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر معزول ججز بحال نہ ہوئے اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں کو بحال رکھا گیا تو ہم اس کو عدلیہ کی آزادی نہیں کہیں گے ۔وہ المرکز اسلامی پشاور میں سہ روزہ اجتماع ارکان کی اختتامی نشست سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ یقینا آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے ،آمریت کا راستہ روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ججوں کے معاملے کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے ۔صوبے کا نام پختونخواہ رکھنے اور دیگر آئینی پیکج پر سیاست چمکائی جا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت اصل مسئلہ معزول ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوںکو فارغ کرنے کا ہے ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے نام پر کرپٹ لوگوں کے اربوں روپے معاف کر دیئے گئے قومی دولت لوٹنے والوں کے کیس واپس لئے گئے ۔وہ کیس واپس لئے گئے جن پر قومی احتساب بیورو نے اربوں روپے خرچ کئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ حکمران افتخار محمد چوہدری سے ڈرتے ہیں اور ان سے خوفزدہ ہیں ۔ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا اور فوجی جرنیلوں کا حکم نہیں مانا اور ان کے سامنے سر جھکانے سے گریز کیا ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے کہنے پر پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے اور بعد ازاں انہیں گوانتا ناموبے منتقل کیا جا رہا ہے ۔لاپتہ افراد کا نوٹس لیکر ان کی بازیابی کے لئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اقدامات اٹھائے جس کی پاداش میں انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیاگیا ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکمران مشرف کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔پی سی او والے جج کہلانے کے قابل نہیں ۔معزول ججوں کا معاملہ کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔صدر مشرف نے آئین سے بغاوت کی ہے اور جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا ہے وہ بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں صدر مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے آئین کو معطل کیا اور پی سی او کا نفاذ کیا ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ تین نومبر کا اقدام غیر آئینی تھا اور ججوں کی برطرفی کا آرڈر صرف ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ختم کیا جا سکتا تھا مگر حکمرانوں نے ججوں کو بحال نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ۔انہوں نے کہا کہ بڑی جماعتیں کبھی دبئی کبھی لندن میں مذاکرات کرتی رہیں مگر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وہ لشکر اسلام اور دوسری مذہبی تنظیموں سے اختلافات نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ فروعی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو شیر و شکر کی دعوت دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دس جون سے معزول ججوں کی بحالی کے لئے ہونے والے لانگ مارچ میں بھر پور حصہ لیا جائے گا ۔صدر مشرف کے مواخذے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں ایسی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آئینی پیکج میں صدر کے مواخذے کو شامل کیاگیا ہے ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ امریکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے امریکہ دہشت گردی نہیں مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑیں اور انتشار پھیلے ۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو قبائلی علاقوں اور بند وبستی علاقوں میں اپنے لوگوں سے لڑوایا گیا ۔لال مسجد اور جامع حفصہ میں فوج کو مسلمانوں کے خلاف لاکھڑا کیاگیا ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ وزیرستان میں فوج کو عوام کے سامنے لایاگیا ۔سوات میں فوج کے ذریعے مسلمانوں کا خون بہایاگیا ۔یہ تمام پالیسیاں امریکہ کی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکمرانو ں نے مشرف کو مہلت دی اور اس کو فارغ نہیں کیا جس کے اچھے اثرا ت مرتب نہیں ہونگے ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بالادستی ہے اور امریکہ کے غلام قوم پر مسلط ہیں ۔جب تک امریکہ کے غلاموں سے آزادی نہیں ملتی تو اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا اس وقت ملک میں بہت بڑا خلاء ہے اور یہ خلاء جماعت اسلامی ہی پر کر سکتی ہے ۔انہو ں نے کہا کہ قومی دولت لوٹ کر کرپٹ عناصر نے پاکستان کے سرمائے کو بیرونی ممالک منتقل کیااور وہاں بینکوں میں رکھ کر اس پر سود لیا جا رہا ہے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سراج الحق نے کہا کہ مسائل کا حل آمریت اور جمہوریت میں نہیں جمہوریت بھی ناکام ہو چکی ہے اسلامی نظام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔

Lebanese parliament elects Suleiman as president

BEIRUT - Lebanon's parliament elected army chief Michel Suleiman as head of state on Sunday, reviving paralysed state institutions after an 18-month standoff between a U.S.-backed government and the Hezbollah-led opposition.
Celebratory gunfire erupted in Beirut after Parliament Speaker Nabih Berri declared that Suleiman, the sole candidate, had won by securing 118 votes in the 128-member assembly.
The election was part of an agreement brokered by Qatar last week to defuse a crisis that had pushed Lebanon to the brink of civil war, with Hezbollah briefly seizing parts of Beirut and routing government partisans. At least 81 people were killed.
The Doha deal was widely seen as a setback for Washington and its allies, which had pressed for Hezbollah to be disarmed.
However, US President George W. Bush, congratulating Suleiman on his election, said in a statement: ‘I am hopeful that the Doha Agreement ... will usher in an era of political reconciliation to the benefit of all Lebanese.’
Bush said he was confident that Lebanon had chosen a leader who would uphold the country's international obligations under UN resolutions that call for Hezbollah to be disarmed.
After the vote, Suleiman, 59, took his oath of office in the chamber before making a speech designed to set the tone for his six-year term. Lebanon has had no president since November.
Hezbollah's weapons
Suleiman urged a ‘calm dialogue’ on a national defence strategy that would draw on the ‘capacities of the resistance’ -- apparently suggesting the eventual integration of Hezbollah's guerrillas into Lebanese security forces.
Hezbollah has rejected any move to force it to lay down its weapons, which it says are needed to deter Israeli attack. But its Lebanese opponents revived calls for the Shia group to disarm after its military offensive in Beirut this month.
Tackling another of the challenges his presidency will face, Suleiman called for formal diplomatic links with Damascus.
Syria, Lebanon's main powerbroker for 29 years until 2005, has never agreed to exchange embassies with Beirut.
In New York, UN Secretary-General Ban Ki-moon said he hoped Suleiman's election presaged the revitalisation of all Lebanon's constitutional institutions and a return to dialogue.
Suleiman also urged dialogue, criticising a political discourse based on ‘accusations of treachery’ which had ‘paved the way to divergence and discord, especially among youth’.
Qatar's Emir Sheikh Hamad bin Khalifa Al Thani was the most prominent of many dignitaries in Beirut for the vote.
Foreign ministers attending included those of Iran and Syria, which support Hezbollah, and their regional rival Saudi Arabia, which backs the anti-Syrian majority bloc.
The majority and the opposition had long agreed that Suleiman should be president, but deadlock over the shape of a national unity government had forced the vote to be postponed 19 times.
The deal struck in Doha met the opposition's main demand for veto power in a unity government and secured the choice of a president on good terms with Syria and Hezbollah.
The agreement, which also stipulates a new law for 2009 parliamentary polls, has calmed a conflict that had stoked sectarian tensions, paralysed government and hurt the economy.
Parliament had not met for over 18 months, crippling Prime Minister Fouad Siniora's government. Bouts of violence killed scores and revived memories of the 1975-90 civil war.
Siniora will stay on as caretaker prime minister until a new government is formed.
Under Lebanon's complex power-sharing system, the president is always a Maronite Christian, the prime minister a Sunni Muslim and the speaker of parliament a Shia Muslim.
Suleiman succeeds Emile Lahoud, an ally of Syria. Appointed army chief in 1998 when Damascus controlled Lebanon, Suleiman is inescapably linked to that era. He coordinated with Syrian troops before they withdrew from Lebanon in 2005 after an outcry sparked by the killing of former Prime Minister Rafik Al Hariri.
His first task as president is to appoint a new prime minister and consult with him on forming a cabinet.
Parliamentary majority leader Saad Al Hariri is frontrunner for the job, but his ally Siniora could stay on, officials said. Suleiman must nominate whoever is backed by a majority of MPs.

Pakistan band enthrals war-weary Indian Kashmiris

SRINAGAR - Thousands of violence-weary Kashmiris in the Indian-administered region danced and cheered during a rare concert by a top Pakistani rock band on Sunday, the biggest musical event here in decades.
The five-member Sufi band ‘Junoon,’ which claims a huge South Asian fan base, enthralled concert-goers on the banks of Dal Lake, where Indian musician Ravi Shankar is rumoured to have taught Beatle George Harrison how to play the sitar in the 1960s.
Young women danced and clapped as the band's lead singer Salman Ahmed sang Sufi songs in the Urdu language.
The venue in Kashmir's summer capital Srinagar was closely guarded by Indian security forces to thwart any attacks by Islamic militants, who had opposed the event.
Ahmed recalled how he had tried to visit Indian Kashmir many times in the past decade, only to be told ‘next time’ by sponsors.
‘This is the 10-year-long tryst with destiny that today Junoon is with you,’ he said during the show as he stood on a specially-designed stage.
The performance was a rare cultural programme in Indian Kashmir, where such shows have been shelved since since the outbreak of an Islamic insurgency in 1989.
The revolt hit the entertainment industry in Kashmir, with the rebels targeting cinemas, liquor shops, video parlours and other sites deemed threatening to Islamic culture.
Syed Ali Geelani, who heads the hardline faction of Indian Kashmir's main separatist alliance, last week called for a boycott of the show since ‘Kashmir was a disputed area.’
Violence in Kashmir has claimed more than 43,000 lives in the past two decades. But it has fallen since peace talks were launched in 2004 between rivals India and Pakistan, who administer the region in part but claim it in full.
A few Pakistani singers and musicians visited Kashmir last year, but Sunday's event was the first one on a large scale.
‘It is great to see music healing wounds in Kashmir and propagating friendship between India and Pakistan,’ said Mehnaz Ali, a 21-year-old female student.
Prasad Rao, whose non-governmental South Asia Foundation (SAF) organised the event, said the concert was aimed at encouraging regional co-operation and peace.
Chandrika Kumaratunga, a former president of Sri Lanka who heads her country's SAF chapter, added: ‘This is the best way to promote peace.’

Pak agreements must not put our soldiers at risk

KABUL - NATO on Sunday asked Pakistan to avoid agreements that ‘put our troops and our mission under threat’ with peace talks on that side of the border linked to an increase in attacks in Afghanistan.
Adding to concern voiced by Afghan officials about Islamabad's talks with Taleban militants on its side of the frontier, NATO spokesman Mark Laity said Pakistan must take the alliance into account.
Top Pakistani militant leader Baitullah Mehsud said at the weekend that he will continue ‘jihad’, or holy war, in Afghanistan -- where there are 70,000 international troops fighting extremists -- while pursuing peace talks with Islamabad.
The new Pakistan government has meanwhile signed a peace deal with pro- Taleban militants in its Swat Valley, about 99 kilometres (55 miles) from Afghanistan.
‘They have a sovereign right to make agreements,’ Laity said, adding however, ‘We have a right to answer if those agreements put our troops and our mission under threat.
‘It is no real solution if trouble on one side of the Durand Line (the border) is merely transferred to the other side.’
Forty-four of the nearly 50,000 NATO troops in Afghanistan to help the government fight a Taleban-led insurgency have been killed in action this year, Laity said.
‘We have noticed an increase in activity in the eastern part of the country especially, which we believed can only be attributed to a reduction of Pakistan military activities,’ Laity said.
‘We are making clear to Pakistan that in the legitimate desire to reach a peaceful settlement in their areas, they got to take us into account,’ he said.
Afghan defence ministry spokesman General Mohammad Zahir Azimi told the same media briefing that Pakistan territory ‘should not be used to kill innocent people in Afghanistan.’
‘Previous peace accords between Pakistan's government and insurgents have shown that it was a golden time for insurgents -- they got equipped, they got ready and they launched operations against both governments,’ he said.
Azimi appeared to be referring to a now-defunct 2006 peace agreement in Pakistan's North Waziristan area, which led to an increase in suicide and other attacks just across the border in Afghanistan.

Pakistan talks lead to more Afghan attacks: NATO

KABUL - Peace talks between the Pakistani government and Taleban militants have already led to an increase in insurgent attacks in Afghanistan, NATO said on Sunday.
Faced with a wave of suicide attacks, Pakistan has begun negotiations with Taleban militants who control much of the mountainous region on its side of the border with Afghanistan and thinned out the number of its troops in the largely lawless area.
But the draft peace accords make no explicit mention of militants stopping attacks in Afghanistan and Pakistani Taleban leader Baitullah Mehsud on Saturday vowed to carry on fighting Afghan and foreign forces in Afghanistan regardless of the talks.
‘We have seen increased activity in the eastern part of the country especially which we believe can only be attributed to the de facto ceasefires and a reduction of Pakistani military activity,’ NATO's civilian spokesman in Afghanistan Mark Laity told a news conference.
‘We respect the sovereignty of Pakistan absolutely but it's important they take into account the need to ensure that any agreements they make do not lead to an increase in violence in Afghanistan,’ he said.
Afghanistan concerned
Afghanistan was sending a high-level delegation to Pakistan in the coming days to voice their concerns over peace deals, said Afghan Defence Ministry spokesman General Mohammad Zaher Azimi.
‘The people of Afghanistan and the government of Afghanistan are concerned regarding the announcement of Baitullah Mehsud and we hope Pakistan territory is not used against the people of Afghanistan, isn't used to kill our innocent people,’ Azimi said.
Previous peace deals between the Pakistan government and the Taleban all broke down in violence and merely gave the militants time to regroup, he said.
‘The previous peace accords between the Pakistan government with insurgents were a golden age for the insurgents; they re-equipped, prepared and launched operations against both the government of Afghanistan and the government of Pakistan.’
Afghan forces, backed by more than 60,000 foreign troops, are engaged in daily battles with Taleban militants, mostly in the south and east, the areas closest to the border with Pakistan.
Afghan officials have often accused Pakistan of allowing the Taleban to use Pakistani territory as a safe haven from which to direct and launch attacks and also rest and regroup.
Forty-four troops from the NATO-led International Security Assistance Force (ISAF) have been killed in Afghanistan so far this year, a spokesman said, compared to 42 in the first five months of last year.
The number of ISAF troops in Afghanistan has risen from 33,400 in January 2007 to 50,838 now, the spokesman said.
More than 12,000 people have been killed in Afghanistan since the Taleban relaunched their insurgency two years ago.

Rain-related incidents claim 10 lives in Pakistan

ISLAMABAD - At least 10 people died in heavy thunderstorms that wreaked havoc in Pakistan's north-western district of Swat at the weekend, news reports said on Sunday.
Six children of a family were killed and two more were injured when their mud house collapsed during overnight downpour in Madyan area of Swat, the DawnNews television channel reported.
The news channel said two people died in Matta sub-district after being struck by lightning, while two more were killed in Ghalai area.
Heavy showers have also disrupted communication links in Swat, a scenic valley located some 250 kilometres from the capital Islamabad.

US Senators call on PM Gilani




ISLAMABAD : Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani on Sunday said Pakistan accords high priority to its close, cooperative and strategic relationship with the United States that covers, diplomatic, political, economic, defence, security and social fields. This relationship would be further strengthened with the induction of the popularly elected civilian government in the country, he said.
The Prime Minister was talking to Senator Carl Levin, Chairman, Senate Armed Services Committee and Senator Robert P. Casey who called on him here this evening. US Ambassador in Pakistan, Ms. Anne Patterson also attended the meeting.
Welcoming the US Senators, the Prime Minister thanked them for their support in restoring democracy in Pakistan.
Pakistan, he said would be keen to have more congressional delegations to visit Pakistan in order to impart more depth to the relationship between the two countries.
He said there is a need to establish more people to people contacts between the two countries to promote better understanding and dispel misperception about each other.
The Prime Minister said that moderate and mainstream political forces emerged victorious in the February 18 elections all over the country including the NWFP and tribal areas.
He said that the elected government is committed to providing a democracy dividend to the people in terms of poverty alleviation and socio-economic development.
The Prime Minister said that international community especially the US should help us in providing greater market access for our products in the US in the development of our human resource and cooperation in science and technology, technical skills and social sectors.
He said after the restoration of democracy in Pakistan the conditionalities on assistance to Pakistan by the US should also be removed.
The Prime Minister said that terrorism and extremism are a major threat to world peace and Pakistan is fully committed to combating the scourge of extremism and terrorism.
“We are pursuing a holistic counter-terrorism strategy combining political, socio-economic and security track”, he said and added this will enable Pakistan to engage those elements who desire peace, lay down arms and join the mainstream political activities and isolate militants and terrorist.
He said that Pakistan will never compromise and negotiate with terrorists.
The Prime Minister said it is not correct that Pakistan has withdrawn its troops from the bordering areas. He said that security forces will remain deployed to meet any threat posed by terrorists.
The Prime Minister emphasized the need to address the root causes of terrorism which is often caused by a sense of deprivation, injustice and hopelessness.
He said that Reconstruction Opportunities Zones (ROZs) can be of great help in creating economic opportunities in the border areas and weaning people away from extremism. He urged early approval of the draft ROZs legislation.
The Prime Minister said that Pakistan is keen to prevent cross border movement on our borders on Afghanistan and has offered to fence the border and is awaiting Afghanistan’s response to fence the border and install biometric system.
He said Pakistan has deployed over 100,000 troops along the borders and Afghanistan needs to increase troops on its side of the border to prevent cross border movement.
The Prime Minister said a stable, peaceful and prosperous Afghanistan is clearly in Pakistan’s interest as without peace in the region the vast potential for economic cooperation between South Asia, Central Asia and West Asia will stay untapped.
He said Pakistan is of the view that the international community needs to do more to expedite the process of socio-economic development in Afghanistan in order to win the hearts and minds of the Afghan people.

Constitutional package aimed at restoring 1973 Constitution: PM







LAHORE : Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani on Sunday said the PPP does not want any confrontation with anyone and the proposed constitutional package was aimed at restoring the 1973 Constitution in its original shape and resorting the supremacy of parliament. “The 1973 Constitution at present is neither in a parliamentary nor in a presidential form due to amendments made in it”, the Prime Minister said while talking to senior journalists and columnists here.
He said the PPP believes in the parliamentary system of government and wants to restore the 1973 Constitution in its original shape while ensuring the supremacy of parliament.
To a question, the Prime Minister said PPP has its own policies and does not want to adopt the path of any confrontation with anyone.
The Prime Minister told a questioner that he is following the guidelines and policy of his party to have good working relationship with the President, the Governors and Chief Ministers of all the four provinces and the President and Prime Minister of Azad Jammu and Kashmir.
“We do not want to make any issue as problem of ego to create bitterness and humiliate anyone because this is not policy of our party”, he said.
Responding to another question, the Prime Minister said he has lot of respects for the President, as he (the President) is part of the parliament.
He said the copies of constitutional package for restoration of deposed judges and further empowering the parliament would be provided to coalition partners for developing consensus on it.
The Prime Minister added that the time and modalities for implementing the package will be decided in consultation with the coalition partners.
To another question, he said that PPP is advancing its manifesto to serve the people without initiating any type of confrontation with anyone.
He said that the restoration of parliamentary system of government under the constitution of 1973 is part of the commitment of the party with the nation which it would fulfil without indulging in any clash with anyone.
About the restoration of judges the Prime Minister said the PPP is fully sincere to the cause of restoration of judges as it has rendered much more sacrifices than any other political party.
He said that he himself along with other workers and lawyers of PPP remained in prison for the cause of judiciary, therefore, “no one has the right to make doubts in our sincerity and commitment in this regard”.
The Prime Minister said there was no difference among the coalition partners on the restoration of judiciary but they have their own views on adopting the mode to get the task done.
PPP wants to solve all the issues through the parliament as the parliament is backed by people of the country and it has its own power to counter challenges to the democracy, he added.
To a question, the Prime Minister said the people have rejected the manifesto of PML-Q and supported PPP’s manifesto in the elections, adding, the party would implement its manifesto in letter and spirit to restore true form of parliamentary democracy in the country.
Independent media, stable institutions and accountable government are the main features of manifesto of PPP, he added.
About the situation in Balochistan he said the government wants to resolve problems through parleys with peace-loving forces. For this purpose he said an All Pakistan Conference on Balochistan will be convened. He said there should be no use of forces rather the Balochistan issue should be solved politically and democratically.
Similarly, the Prime Minister said government wants political reforms in tribal areas for which a peace initiative will be launched with those who lay down arms.
He said education and health facilities will be provided and revolutionary changes will be made in these areas. He said the PPP sincerely wants to make country a cradle of peace and hub of development for which all out efforts will be made.
To a question on terrorism, he said “We will address the root causes of the issue by holding dialogue as the strategy adopted by previous government on the issue has failed to get results”.
“Even USA, Britain and other countries also agree with the stance of the present government that the previously adopted strategy to redress the issue has failed”, he said.
Narrating three-point programme of his government to deal with the issue of terrorism and extremism, he said “We would hold dialogue with the people who would disarm themselves to bring them in mainstream politics, start development programme and create job opportunities on revolutionary basis”.

PPP fully sincere to the cause of restoration of judges: PM




LAHORE: Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani has said that Pakistan People’s Party (PPP) is fully sincere to the cause of restoration of judges as it has rendered much more sacrifices than any other political party in this regard. He was responding to a question at a meeting with newspapers editors at State Guest House here on Sunday.
He said that he himself along with other workers and lawyers of PPP remained in prison for the cause of judiciary, therefore, no one have the right to make doubts in our sincerity and commitment in this regard.
He said that there is no difference among the coalition partners on the restoration of judiciary but they have their own views on adopting the mode to get the task done.
PPP wants to solve all the issues through the parliament as the parliament is backed by people of the country and it has its own power to counter challenges to the democracy,he said.
To a question, he said the people have rejected the manifesto of PML-Q and supported PPP’s manifesto in the elections, adding, the party would implement its manifesto in letter and spirit to restore the true form of parliamentary democracy in the country.
The Prime Minister told a questioner that he is following the guideline and policy of his party to have good working relationship with the President, the Governors and Chief Ministers of all the four provinces and President and Prime Minister of Azad Jammu and Kashmir.
“ We do not want to make any issue as problem of ego to create bitterness and humiliate any one because this is not policy of our party”, he said.
Independent media,stable institutions and accountable government are the main features of manifesto of his party, he said.
Earlier the Prime Minister also held a meeting with the members of Peoples Youth Organization (PYO) at the State Guest House.

New Power, agriculture policies to be announced soon: Gilani




LAHORE : Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani has said that the government would soon announce new power and agriculture policies to overcome the electricity shortfall and food crises. He was talking to newspapers editors at State Guest House here on Sunday.
Under the power policy, steps for energy conservation, construction of small dams, installation of power plants and other such measures would be taken, he added.
“ We are making effort to resolve the energy crises at the minimum possible time”, he said adding, one or two years would be required to completely get rid of the electricity problem.
The Prime Minister recalled that PPP government faced worst criticism on Independent Power Producers (IPPs) issue in 1994-95 despite the fact the IPPs have helped the country a lot to meet its power demand.
He said that small power generation units would be installed at suitable sites in the hilly areas including Kashmir. The provinces would also be allowed to tap the power generation potential with them, he added.
The Prime Minister said that under the new agriculture policy steps would be taken for the promotion of livestock in the country on revolutionary basis and to overcome the shortage of food items.
He said, the government has allowed import of 2.5 million tonnes of wheat against the demand of shortfall of just one million, therefore, there would be no wheat crises in the country.
He praised the efforts of Punjab government to control the wheat movement through administrative steps.
“Increase in POL prices and shortage of food items are the two major challenges which the whole world is facing at present but Pakistan being an agriculture country would be in an advantageous position and focus on increasing its agriculture production”, he said.
To a question, he admitted that PASSCO could not achieve its wheat procurement target so far adding that other procurement departments have achieved 80% of their target in the whole.

Zardari terms proposed constitutional package ‘important turn’ in country’s history




ISLAMABAD : Co-Chairman Pakistan People’s Party (PPP), Asif Ali Zardari on Sunday termed the proposed constitutional package ‘important turn’ in history of the country. He said, therefore, he wanted to hold a thorough debate to evolve consensus on the issue. The package was almost based on charter of democracy, which has support of majority of political parties, he told a private television (Express News) in an interview.
He said, all political parties wanted to see democratic norms flourishing in the country.
Zardari said that the proposed package could be improved through a healthy debate and in consultation with all stakeholders.
He said that there was possibility of presenting the package in the National Assembly before the upcoming annual budget, and holding debate on it after the budget session.
The PPP Co-Chairman said that in his opinion the proposed constitutional package would be approved in July with consensus by taking all political parties along.
Asif Ali Zardari said, he has asked Supreme Court Bar Association President Chaudhry Aitzaz Ahsan for holding discussion on the package as PPP wanted to improve judicial system in the country.
He said, PPP does not believe in politics of confrontation. It wanted reconciliation and to resolve the judicial issue on the negotiating table.
Zardari said, PPP believed in supremacy of the Parliament “with comfort, not with confrontation. And making impossible, as possible is the work of politician.”
To a question, the PPP Co-Chairman said there was working relationship between PPP and the presidency.
To another question, he vowed to address grievances of the people of Balochistan province and added that concrete efforts in this regard were underway.

Presidential Spokesman contradicts reports of replacing COAS




ISLAMABAD : A Presidential Spokesman on Sunday termed as totally fabricated and baseless reports appearing in a section of the press speculating that there was any move afoot to replace the Chief of Army Staff. The Spokesman termed the reports as malicious and designed to vitiate the excellent relations between the Presidency and the Pakistan Armed Forces.
He stated that selection of the Chief of Army Staff was made on merit. The Spokesman said that President Pervez Musharraf firmly believes that the three-year tenure of the office of the Chief of Army Staff should never be violated.
The Spokesman regretted that such baseless rumours were being spread by vested interests.

US Senators call on President Musharraf




ISLAMABAD : Highlighting the significance of a broad-based and long term Pakistan-US relationship, President Pervez Musharraf on Sunday emphasized the importance of enhanced market access for Pakistan in US to help build the relationship on sound economic footing and sustainable basis. The President was talking to US Senators Carl Levin and Robert Casey who called on him in Rawalpindi today. Pakistan-US relations and matters related to counter-terrorism were discussed in the meeting.
The President also underscored the need for accelerated progress on initiatives like Reconstruction Opportunity Zones (ROZs), Frontier Corps (FC) and the FATA Development Plan.
The US Senators expressed their support for close cooperative relations between Pakistan and the United States and exchanged views on building the relationship on a forward-looking and long-term basis.
The US Senators also exchanged views on counter-terrorism issues. President Musharraf underlined the importance of a multi-pronged counter-terrorism strategy combining political, socio-economic development, and security tracks.
Senator Carl Levin (Democrat-Michigan) chairs the Senate Armed Services Committee. Senator Casey is a member of the Senate Foreign Relations Committee.

PM felicitates Faryal Talpur on her unopposed election as MNA




ISLAMABAD : Prime Minister Syed Yousuf Raza Gilani on Sunday warmly felicitated Ms. Faryal Talpur on her unopposed election as Member of National Assembly from Larkana-IV on the ancestral seat of Mohtarma Benazir Bhutto Shaheed. The Prime Minister in his message said that “your unopposed victory is reflective of the deep respect and reverence in which people hold Shaheed Benazir Bhutto and the confidence they reposed in her leadership”.
He expressed the confidence that Ms. Talpur would actively participate in the legislative process as an MNA and also make her contributions in safeguarding the rights of women in the country.

عوام کو قانون شکن اور قومی مجرموں سے نجات دہندہ کب آئے گا ؟ ۔۔ تحریر: اے پی ایس ،اسلا م آباد

پاکستان کے عوام کا قانون کی حکمرانی کا مطالبہ ہے اس ضمن میں وہ چاہتے ہیں کہ نہ صرف آئین توڑنے والوں کو بلکہ قو می خزانے سے کھربوں روپے لوٹنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جا ئے خواہ ان کا کسی بھی سیا سی جما عت سے تعلق ہو ۔ آئینی کی حکمرانی کی تعریف بھی یہی ہے کہ چور، ڈاکو، بدمعاش اور قرضہ چور حکمرانوں سے لیکر قانون شکن طا قتوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور ضمن میں ضروری ہے کہ احتسا بی عمل کو فعال کیا جا ئے۔ ان کرپٹ عناصر کے پیدا کردہ بحران کی وجہ سے عوام کا زندگی گزارنامشکل ہوگیا ہوا ہے۔ اور اب بھی یہ سب اپنے چکروں میں دن گزار رہے ہیں۔ عوام آسماں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرنے اور کرپٹ اور قانون شکنوں سے نجات دہندہ کب آئے گا۔ معزول ججوں کی بحالی کے بغیر آئینی پیکج نا مکمل ہے پیکج میں پی سی او کے ججوں کو بحال رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر معزول ججز بحال نہ ہوئے اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں کو بحال رکھا گیا توعوام اس کو عدلیہ کی آزادی نہیں کہیں گے ا ور دیگر آئینی پیکج پر سیاست چمکائی جا رہی ہے ۔ اس وقت اصل مسئلہ معزول ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوںکو فارغ کرنے کا ہے ۔ جبکہ قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے نام پر کرپٹ لوگوں کے اربوں روپے معاف کر دیئے گئے قومی دولت لوٹنے والوں کے کیس واپس لئے گئے ۔وہ کیس واپس لئے گئے جن پر قومی احتساب بیورو نے اربوں روپے خرچ کئے تھے ۔ حکمران افتخار محمد چوہدری سے ڈرتے ہیں اور ان سے خوفزدہ ہیں ۔ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا اور فوجی جرنیلوں کا حکم نہیں مانا اور ان کے سامنے سر جھکانے سے گریز کیا ۔ ا مریکہ کے کہنے پر پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے اور بعد ازاں انہیں گوانتا ناموبے منتقل کیا جا رہا ہے ۔لاپتہ افراد کا نوٹس لیکر ان کی بازیابی کے لئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اقدامات اٹھائے جس کی پاداش میں انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیاگیا ۔ حکمران مشرف کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔پی سی او والے جج کہلانے کے قابل نہیں ۔معزول ججوں کا معاملہ کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔صدر مشرف نے آئین سے بغاوت کی ہے اور جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا ہے وہ بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں صدر مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے آئین کو معطل کیا اور پی سی او کا نفاذ کیا ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا ۔ تین نومبر کا اقدام غیر آئینی تھا اور ججوں کی برطرفی کا آرڈر صرف ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ختم کیا جا سکتا تھا مگر حکمرانوں نے ججوں کو بحال نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ۔ بڑی جماعتیں کبھی دبئی کبھی لندن میں مذاکرات کرتی رہیں مگر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وہ لشکر اسلام اور دوسری مذہبی تنظیموں سے اختلافات نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ فروعی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو شیر و شکر کی دعوت دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دس جون سے معزول ججوں کی بحالی کے لئے ہونے والے لانگ مارچ میں بھر پور حصہ لیا جائے گا ۔صدر مشرف کے مواخذے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں ایسی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آئینی پیکج میں صدر کے مواخذے کو شامل کیاگیا ہے ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ امریکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے امریکہ دہشت گردی نہیں مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑیں اور انتشار پھیلے ۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو قبائلی علاقوں اور بند وبستی علاقوں میں اپنے لوگوں سے لڑوایا گیا ۔لال مسجد اور جامع حفصہ میں فوج کو مسلمانوں کے خلاف لاکھڑا کیاگیا ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ وزیرستان میں فوج کو عوام کے سامنے لایاگیا ۔سوات میں فوج کے ذریعے مسلمانوں کا خون بہایاگیا ۔یہ تمام پالیسیاں امریکہ کی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکمرانو ں نے مشرف کو مہلت دی اور اس کو فارغ نہیں کیا جس کے اچھے اثرا ت مرتب نہیں ہونگے ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بالادستی ہے اور امریکہ کے غلام قوم پر مسلط ہیں ۔جب تک امریکہ کے غلاموں سے آزادی نہیں ملتی تو اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا اس وقت ملک میں بہت بڑا خلاء ہے اور یہ خلاء جماعت اسلامی ہی پر کر سکتی ہے ۔انہو ں نے کہا کہ قومی دولت لوٹ کر کرپٹ عناصر نے پاکستان کے سرمائے کو بیرونی ممالک منتقل کیااور وہاں بینکوں میں رکھ کر اس پر سود لیا جا رہا ہے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سراج الحق نے کہا کہ مسائل کا حل آمریت اور جمہوریت میں نہیں جمہوریت بھی ناکام ہو چکی ہے اسلامی نظام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیراور اے پی ڈی ایم کے مرکزی رہنمالیاقت بلوچ نے کہاہے کہ ملک کے تمام تربحرانوں کے ذمہ دار پرویز مشرف ہیں اور وہ اپنے غیر آئینی ، غیر قانونی غیرا خلاقی اقدامات کی بدولت ملک کے عوام میں نفرت کی علامت بن چکے ہیں۔ وہ متنازعہ اور غیر آئینی صدر ہیں اور ان کی پالیسیوں سے ملک کی آزادی ، خود مختاری، قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ وہ اقتدار چھوڑ دیں اور مستعفی ہوجائیں۔ ایوان صدر سازشوں کا مرکزی گڑھ بن چکا ہے۔ جس سے ملک میں عدم استحکام اور غیر یقینی فضا بنی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا فقید المثال استقبال سے آئینی پیکیج پیش کرنے والے نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ 2نومبر کی پوزیشن پر ججز کی بحالی کے علاوہ کوئی آپشن قوم قبول نہیں کرے گی اور چیف جسٹس کی میعاد مدت میں کمی کرنے ، پی سی او والے ججز کو تحفظ دینے کا عمل بھی ناقابل قبول ہے۔ اے پی ڈی ایم پوری طرح موجودہ حالات سے آگاہ ہے اور اے پی ڈی ایم کی اپنی قومی کانفرنس 19,18جون کو ہورہی ہے اس کے سامنے اس آئینی پیکیج کی تجاویز کو رکھا جائے گا۔ ہم عدلیہ کی آزادی ، ججز کی بحالی، آئین و قانون کی بالادستی کے لیے وکلاء کی تحریک کے دست و بازوپشتیبان ہیں اور ہم اس تحریک کو سبوتاڑ کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ وکلاء کے لانگ مارچ کے استقبال کرنے کے حوالے سے ہماری تیاریاں مکمل ہیں۔ ہمارے کارکنان پوری طرح متحرک ہیں۔ لانگ مارچ کا ہر شہر میں فقید المثال استقبال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان قومی محسن ہیں۔ انہیں مکمل طور پر رہا کیا جائے۔ اسی طرح لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ڈی ایم ملک کے عوام کا نمائندہ اتحاد ہے۔ اس نے اپنے اصولی او ر دو ٹوک موقف اپنا کر ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی ، عدلیہ کی آزادی ججز کی بحالی کی داغ بیل ڈالی ہے۔ انشاء ا للہ ہماری جدوجہد قومی مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ جبکہ یوسف گیلانی نے کہا کہ ایوانِ صدر اور پارلیمنٹ کے اختیار میں توازن لایا جائے گا وہ صدر کا بے حد احترام کرتے ہیں اور کسی تصادم کی بات نہیں کرتے۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ اپنی پارٹی کی پالیسی، بے نظیر بھٹو کے منشوراور ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی بات کرتےہیں جو ان کے لیے اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ سابق پالیسی کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے اور اب ان کی حکومت ہتھیار پھینک دینے والوں سے گفت و شنید کرے گی اور انہیں مرکزی سیاسی دھارے میں لے آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مذاکرات ان لوگوں سے کیے جائیں گے جو انتہاپسند اور عسکریت پسند نہیں ہونگے۔ ان کی پالیسی ہے کہ بنیادی وجوہات کو دیکھنا ہے آیا کہ جو دہشت گردی یا انتہا پسندی ہے اس کی زمینی حقائق کیا ہیں۔ امریکہ، برطانیہ سمیت سب یہ جانتے ہیں کہ سابق پالیسیوں کو کچھ زیادہ نتائج نہیں مل سکے۔پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ ساتھ ساتھ ان علاقوں میں صحت و تعلیم کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے،علاقے کے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوگا اور ترقی کے ذریعے ان علاقوں میں انقلاب لایا جائے گا۔ فورسز ان علاقوں میں بدستور موجود رہیں گی اور جب ان کی ضرورت محسوس ہو تو انہیں استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر بش سے ملاقات کی تھی جس کے بعد دونوں رہنماو¿ں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ ان کی حکومت کی پالیسی کو پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری نیت ہے کہ ملک میں امن وامان ہو۔‘ وزیر اعظم نے پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اسی سلسلے میں مجوزہ آئینی ترامیمی پیکج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک ایوان صدر کا تعلق ہے ہم صدر صاحب کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ہم اپنی پارٹی کی پالیسی، بے نظیر بھٹو کے منشوراور ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی بات کرتےہیں۔ہم کسی تصادم کی بات نہیں کرتے۔‘ انیس سو تہترکے آئین پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی تھا لیکن جب اس میں ترامیم کی گئیں تو وہ نہ پارلیمانی رہا نہ صدارتی رہا۔اب اس میں توازن لایا جائے گا۔ ’ان کا عوام سے وعدہ ہے کہ انیس سو تہتر کا آئین بحال کیا جائے گا اور اس کا مقصد(آئینی پیکیج کا) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے وہ کسی سے تصادم نہیں چاہتے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس آئینی پیکج کے حوالے سے پارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے اورتمام اتحادی جماعتوں سے رائے لی جائے گی۔ ان ترامیم کے نفاذ کے لیے قرارداد لائی جائے گی یا کوئی دوسرا طریقہ استعمال ہوگا اس کا فیصلہ وزارت قانون کرے گی اور پارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ آئینی پیکج بجٹ سے پہلے آنا چاہیے یا اس کے بعد پارلیمان میں پیش کیا جائے۔ بلوچستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہاں طاقت کا استعمال نہ کیا جائے اور مذاکرات کیے جائیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جارہی ہے۔ جبکہ تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ جب چودہ اگست انیس سو تہتر کو آئین کا نفاذ ہوا تو اس کے تحت صدر پابند تھا کہ وہ اپنے اختیارات وزیرِ اعظم کے لازمی یا غیر لازمی مشورے کے ساتھ ہی استعمال کرسکتا ہے۔چوبیس مئی کو پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے جس مجوزہ آئینی پیکیج کا خلاصہ بیان کیا ہے اس میں موجودہ صدر کو حاصل جو جو اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کم و بیش یہ سب اختیارات انیس سو تہتر کے آئین کے تحت بننے والے پہلے وزیرِ اعظم زوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھے۔ مجوزہ آئینی پیکیج میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے دائرے میں ان ججوں کو بھی لایا جائے جو مستقبل میں کسی بھی فوجی آمر کے احکامات کو جائز قرار دیں یا عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اٹھائیں۔ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ زرداری نائک لیگل ایسوسی ایٹس آرٹیکل چھ کے دائرے میں جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ ساتھ ان ارکانِ پارلیمان کو بھی شامل کرلیں جو مستقبل کے آمروں کو انڈیمنٹی یا استثنی فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ یوں جہاں جرنیل اور جج آئین کی پامالی میں حصہ دار بنتے ہوئے دس بار سوچیں گے وہیں ارکانِ پارلیمان بھی غیر آئینی اقدامات کو قانونی چوغہ پہنانے سے پہلے گلے میں پڑنے والے ممکنہ پھندے کو تصور میں لا سکیں گےاگر آصف علی زرداری اور ان کے وزیرِ قانون فاروق نائیک آرٹیکل چھ کو بغور پڑھ لیں تو شاید انہیں اندازہ ہوجائے کہ پینتیس برس پہلے ہی اس آرٹیکل میں یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ پارلیمنٹ ایک بالاتر قانون ساز ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کو جو شخص بھی جبراً یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے تحلیل، تبدیل یا پامال کرنے کی کوشش یا سازش کا حصہ یا مددگار بنے گا وہ شخص انتہائی غداری کا مرتکب ہوگا اور ایسے شخص کو پارلیمنٹ سزا دینے کی مجاز ہوگی۔ گویا آرٹیکل چھ کے دائرہ کار میں جرنیل اور ججوں سمیت وہ تمام عناصر خود بخود آجاتے ہیں جو اسے توڑنے یا اس کی پامالی یا سازش یا کوشش میں شامل ہوں۔ اس آرٹیکل کے ہوتے ہوئے جسٹس انوار الحق نے پھانسی جنرل ضیا الحق کے لیے نہیں بلکہ آئین کے خالق کے لیے تجویز کی۔ اور اسی سے حوصلہ پا کر بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو یہ آئین دوسری دفعہ پامال ہوا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ جب جب بھی آئین کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونے کا موقع آیا مملکت کے بالا ترین قانون ساز ادارے کے ارکان کی ریڑھ کی ھڈی کا گودا خشک ہوگیا اور اس ایوان نےآرٹیکل چھ کے تحت سزا تجویز کرنے کے اپنے ہی اختیار کو آئین اور اس کی روح سمیت آمروں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انیس سو پچاسی کی غیر جماعتی پارلیمان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اور سن دوہزار دو کی جماعتی پارلیمان نے سترہویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل چھ کے پتھر کو پھول میں بدل دیا۔ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ زرداری نائیک لیگل ایسوسی ایٹس آرٹیکل چھ کے دائرے میں جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ ساتھ ان ارکانِ پارلیمان کو بھی شامل کرلیں جو مستقبل کے آمروں کو انڈیمنٹی یا استثنیٰ فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ یوں جہاں جرنیل اور جج آئین کی پامالی میں حصہ دار بنتے ہوئے دس بار سوچیں گے وہیں ارکانِ پارلیمان بھی غیر آئینی اقدامات کو قانونی چوغہ پہنانے سے پہلے گلے میں پڑنے والے ممکنہ پھندے کو تصور میں لا سکیں گے۔ اگر پیپلز پارٹی واقعی یہ سمجھتی ہے کہ مستقبل کے آمروں کو کہیں پناہ نہ ملے تو آغاز اس سے کیوں نہیں ہوسکتا کہ موجودہ پارلیمان ایسے تمام ججوں اور سابقہ پارلیمانوں کے خلاف قرارِ دادِ مذمت منظور کرے جنہوں نے پچھلے ساٹھ برس میں بلواسطہ یا بلاواسطہ آمرانہ اقدامات کو آئینی طور پر حلال قرار دیا۔ جبکہ ممتاز تجزیہ کا ر نے اپنی آراءکے آخر میں یہ بھی کہا ہے کہ جب تک بلی اپنے گلے میں خود گھنٹی نہ باندھے وہ ملک کترنے والے چوہوں کو کیسے دور رکھ سکتی ہے۔ وکلاءاور جج صاحبان کسی صورت میں سمجھوتے کی پوزیشن میں نہیں رہے اور عوام نے مینڈیٹ دے کر انہیں اس جگہ پر کھڑا کر دیا ہے کہ اب صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنا پڑے گی۔اس کے علاوہ کسی نے دیگر کوئی بات سوچی تو یہ قوم معاف نہیں کرے گی‘۔ اس ملک میں کبھی بھی قانون کا بول بالا نہیں ہوا اور کسی نہ کسی طریقے سے عدلیہ اور آئینی کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے بہانے تلاش کیے جاتے رہے ہیں۔ جب بھی اس ملک پر کسی آمر نے طالع آزمائی کی، اس نے آئین کو معطل کیا اور آٹھ سے دس سال حکمرانی کی اور آخر میں عدالت سے اس کی توثیق حاصل کی، چند دنوں کے لیے حکومت کا اختیار سیاستدانوں کو دیا گیا بعد میں دوبارہ یہ مشق شروع ہوگئی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری ’بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان میں وہ اس تمام صورتحال سے عدلیہ کو مبرا نہیں سمجھتا اور ان کے نزدیک اگر عدلیہ انیس سو چون سے لیکر انیس سو اٹھاون، اور انیس سو اٹھہتر میں مختلف اہم مقدمات میں ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتی تو شاید آج کا دن ساٹھ سال کے بعد دیکھنے کو نہیں ملتا‘۔ ساٹھ سالوں میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں نے اصولوں کی سیاست شروع کر دی ہے۔ تاریخ دیکھیں تو کسی سیاسی جماعت نے کبھی اتنی بڑی قربانی نہیں دی جس طرح ایک سیاسی جماعت نے اپنی پندرہ وزارتیں چھوڑ کر دی ہے عوام اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان فیصلوں نے اس ملک میں آئین کی بالادستی یا قانون کی حکمرانی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا بلکہ ملک پیچھے سے پیچھے جاتا رہا۔ ’ساٹھ سال کے بعد ہم نے ایک طویل سفر طے کیا اور ایک دن ایسا آیا جو وکلاء، جج صاحبان ، سول سوسائٹی اور سولہ کروڑ عوام نے پہلی مرتبہ یہ سوچنا شروع کیا کہ اب بہت ہو چکا اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ جن جج صاحبان نے حلف اٹھانے سے انکار کیا عوام کو ان پر فخر ہے اور وہ پی سی او کے تحت حلف لینے والوں کو جج تسلیم نہیں کرتے۔’چند حضرات نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ کسی کا شخصی حلف اٹھائیں قوم نے ان کی جو عزت کی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ماروائے آئین اقدامات کی نہ صرف تائید کی ایسے حلف کی پاسداری کی جس کا کوئی جواز نہیں ملتا انہیں نہ صرف اپنے بچوں بلکہ قوم کے سامنے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا‘۔ عوام نے اٹھائیس فروری کو بتادیا کہ پاکستانی قوم باضمیر اور باغیرت قوم ہے اور اپنی غیرت کا دفاع کرنا ہر صورت میں جانتی ہے اور اسی غیرت سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کراچی میں عوام کے ہاتھوں ڈاکوو¿ں کی تشدد میں ہلاکت کے واقعے کا ذکر کے حوالے سے عوام نے تنگ آ کر وہ راستہ اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں جس کو ہم ہجوم کا انصاف کہتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ چند حضرات نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ کسی کا شخصی حلف اٹھائیں، قوم نے ان کی جو عزت کی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ماروائے آئین اقدامات کی نہ صرف تائید کی ایسے حلف کی پاسداری کی جس کا کوئی جواز نہیں ملتا انہیں نہ صرف اپنے بچوں بلکہ قوم کے سامنے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ’ اس سے پیشتر کہ لوگوں کا غم وغصہ اور زیادہ بڑ ھے ہم پر یہ فرض ہوتا ہے ہم ایسے ہجوم کے انصاف کی نہ صرف مذمت کریں جتنا جلد ممکن ہو سکے اپنے اداروں کو دوبارہ بحال کریں اور کروائیں اور کوشش کریں کہ لوگوں میں عدلیہ کے لیے دوبارہ اعتماد بحال ہو‘۔ تمام وکلاء جج، سول سوسائٹی اور ایلیٹ کلاس یہ سمجھ چکی ہے کہ بغیر آئین کی بالادستی اور بغیر قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے اس ملک کے حالات صحیح نہیں ہوں گے اور وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے توقع کریں گے کہ وہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور خاص طور پر وہ سمجھوتہ جس میں ذاتی مفاد کا عمل دخل ہو۔ پاکستان بار کونسل نے پی سی او کے تحت حلف ا±ٹھانے والے ججوں کی قانونی حثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہوا ہے اور فیصلہ کیا تھا کہ اگر بارہ مئی تک پی سی او کے تحت حلف نہ ا±ٹھانے والے جج بحال نہ ہوئے تو سولہ مئی کو لاہور میں وکلاء کی تنطیموں کا اجلاس ہوگا جس میں وکلاء کا آئندہ کا لائحہ عمل وضح کیا جائے گا۔پاکستان کی نئی اتحادی حکومت کے معزول ججز کی بحالی کے فیصلے پر جہاں ایک طرف گرمجوشی کی فضا ہے وہیں دوسری جانب خدشات بھی ہیں۔گرمجوشی اس لیے کہ یہ امید حقیقت بنتی نظر آرہی ہے کہ معزول ججز اپنے عہدے سنبھال لیں گے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ حکمراں اتحاد اور صدر مشرف کے درمیان تصادم شروع ہوسکتا ہے جن کے پاس حکومت کو برخاست کرنے کا حق ہے۔ جہاں تک ججز کی بحالی کا سوال ہے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شرف کو یقین ہے کہ ایسا ہوجائے گا۔نواز شریف نے ایک روز اخبارنویسوں کو بتایا: ’پارلیمان میں ایک قرارداد لائی جائے گی جس کی بنیاد پر اسی روز ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیا جائے گا، اور انشاء اللہ، مشرف کے ہاتھوں معزول ہونے والے ججز بحال ہوجائیں گے۔‘ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ سابق وزیر اطلاعات اور صدر مشرف کے حامی شیخ رشید احمد نے کہا ہے: ’عوام ججز کی صرف بحالی نہیں، فعالی چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’یہہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ایسے اقدام پر اس لیے روک لگاسکتے ہیں کیونکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی سے نقصان ان ہی کو ہوگا۔شیخ رشید احمد کے خیالات معنی خیز اس لیے ہیں کہ بعض لوگوں کی رائے میں عدالت ایسے اقدام پر روک لگا سکتی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ایسے اقدام پر اس لیے روک لگاسکتے ہیں کیونکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی سے نقصان ان ہی کو ہوگا۔ مبصرین کے خیال میں معزول ججز کی بحالی سے متاثر ہونے والے ججز کا موقف بھی یہی ہوگا۔اس سے ان سارے معاملات پر عدالتی کارروائیوں کا ایک سیلاب شروع ہوجائے گا جو تین نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ سے اب تک طے پائے ہیں۔لیکن اگر موجود ججز حکمراں اتحاد کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شکست تسلیم کرلیں تب بھی کئی قانونی پیچیدگیاں جواب طلب ہیں۔نواز شرف نے اعتراف کیا ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دباو¿ میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ معزول ججز کی جگہ لینے والے موجودہ ججز کو نہیں ہٹایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت میں ججز کی تعداد بڑھ جائے گی جس کی بعض ماہرین کی نظر میں آئین میں اجازت نہیں۔نواز شریف نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر قانون اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق نائک کی سربراہی میں قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی قانونی پیچیدگیوں کے حل پر غور کرے گی۔ اس پر فاروق نائک نے ٹی وی چینلز کو بتایا تھا کہ اس عمل میں وقت لگے گا۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم کوشش کریں گے کہ یہ کام جتنا جلد ممکن ہو مکمل ہوجائے۔ لیکن اس میں کوئی برائی نہیں کہ ججز کی (حقیقی) بحالی بارہ مئی کے بعد ہو پائے۔‘ مبصرین اور سیاست دانوں نے کہا ہے کہ صدر مشرف معزول ججز کی بحالی کے اقدام کے خلاف کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر مشرف نے پیپلز پارٹی کو ڈھکی چھپی وارننگ دی ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو وہ پارلیمان کو برخواست کرسکتے ہیں۔ صدر پرویز مشرف نے عوامی سطح پر اپنا ردعمل نہیں ظاہر کیا ہے۔ تاہم ایوان صدر میں وہ حالات پر غور کرنے کے لیے مسلم لیگ (ق) اور دیگر سیاسی اتحادیوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ صدر مشرف کو خدشہ ہے کہ ججز کی بحالی کا سیاسی عمل پارلیمان میں ان کے مواخذے تک جاسکتا ہے۔لیکن اب جب کہ حکمراں اتحاد نے ججز کی بحالی کی کا اعلان کردیا ہوا ہے، کیا صدر مشرف اپنے پتے کھیلیں گے؟ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید وہ ڈگمگا جائیں۔ ماضی قریب میں صدر کی اختلافی سیاست سے ملک عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور اس سے گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی اقتصادی ترقی بھی متاثر ہوئی ہے۔ اس وجہ سے آج وہ پاکستان میں سب سے غیرمقبول رہنما بن گئے ہیں۔ بعض مبصرین کی نظر میں فوج صدر مشرف کی وقت پر مدد کرسکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج نے حال میں خود کو سیاست سے الگ رکھا ہے۔ اور سیاسی سطح پر نئی حکومت، ججز اور سِول سوسائٹی سب ہی صدر مشرف کے خلاف صف آراء ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ معطل شدہ ججوں کی بحالی عدلیہ میں اصلاحات کے ایک پیکج کے تحت عمل میں لائی جائے گی۔ اور معطل شدہ ججوں کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے موجودہ جج بھی کام کرتے رہیں گے۔ آصف علی زرداری نے ان خدشات کو رد کر دیا تھاکہ ججوں کو تیس دن کے اندر بحال نہ کیئے جانے کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت سے علیحدگی اختیار کر لے گی۔ آئینی پیکج کی تیاری اور اس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بارے میں آصف علی زرداری نے وقت کا تعین کرنے سے انکار کر دیا تھاتاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس سارے عمل میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ دریں اثناءپاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر دبئی میں مذاکرات کے دو دور ہوئے جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے تھے۔ ان مذاکرات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت آصف علی زرداری نے کی تھی جبکہ مسلم لیگ نون کے وفد کی سربراہی میاں شہباز شریف نے کی تھی ۔ان مذاکرات کے اختتام پر بھی کوئی اعلان سامنے نہیں آ سکا۔آصف علی زرداری نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس آئینی پیکج کی تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ پیکج وزیر قانون فاروق ایچ نائیک بنا رہے ہیں اور اس میں متبادل تجاویز رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ بھی کہا تھا کہ وزیر اعظم اور صدر کے عہدوں کی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد بھی مقرر ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس مدت کا تعین کرنے سے انکار کر دیا تھا البتہ انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا تھاکہ اس پیکج میں ججوں کی مدتِ ملازمت بڑھائی جا رہی ہے۔ اور اس آئینی پیکج میں آئین کی شق اٹھاون ٹو بی کو بھی ختم کرنے کی ترمیم شامل ہو سکتی ہے۔ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء کی طرف سے تیس دن کی مہلت کے بارے میں انہوں نے کہا تھاکہ وہ کسی ایسی مہلت کو نہیں مانتے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرحوم چیئر پرسن بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے بارے میں اپنا عزم دھراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قتل ایک سازش کا حصہ ہے اور جس کا مقصد پاکستان کی ’بالکانزیشن‘ کرنا یا پاکستان کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ انہوں نے ان خدشات کو رد کردیا تھاکہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں ملوث کرنے سے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ججوں کی بحالی پر معاہدے پر حکمران اتحاد کی دو چھوٹی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کی تائید آنکھیں بند کر کے نہیں کریں گی۔ ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ہی مشاورت ہوئی اور اس معاملے پر دو دیگر چھوٹی جماعتوں سے بظاہر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے کہ چونکہ مری معاہدہ ان دو جماعتوں کے درمیان ہوا ہے لہٰذا یہ مذاکرات ان کی حد تک محدود ہی بہتر ہیں۔ اے این پی کے تر جمان کا کہنا تھا کہ’ہماری اپنی ایک سوچ و فکر ہے کیونکہ ہم آزاد عدلیہ کی بات کرتے ہیں، اداروں کی آزادی کی بات کرتے ہیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اس وقت اس نظریے کے نزدیک ہیں ظاہر ہے کہ ہماری سوچ وہی ہوگی۔ ہماری سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘ 'ہم اس ملک کی عدلیہ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بھی آئے تو وہ عدلیہ کی آزادی کے اوپر شب خون نہ مارے، پارلیمنٹ پر شب خون نہ مارے کیونکہ ساٹھ سال سے اس قوم کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے، اب ہم اسی بات پر قائم ہیں کہ آئین کے ذریعے پارلیمنٹ کے بالا دستی ضروری ہے اور اس کے ساتھ عدلیہ اور سارے اداروں کے آزادی ضروری ہے جس میں میڈیا بھی ہے۔‘ چھوٹی موٹی شکایتیں اپنی جگہ لیکن ججوں کے معاملے پر اب تک اعتماد میں نہ لینا کتنا بڑا مسئلہ ہے اس پر جمیعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام اتحادیوں کو شامل مشاورت کیا جاتا۔ ’لیکن اگر یہ فیصلہ ہماری سوچ کے مطابق نہ ہوا تو اسے ہماری تائید بھی حاصل نہیں ہوگی۔‘ بڑی جماعتیں وسعت نظر کے ساتھ اگر دبئی مذاکرات میں چھوٹی جماعتوں کو بھی شریک کر لیتی تو اس پر اتفاق رائے کی راہ میں ایک ساتھ تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی تھیں۔ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ایوان صدر، آرمی چیف اور امریکی اہلکاروں کے حالیہ بیانات کو بعض تجزیہ کار ملک میں ایک نئے سیاسی تنازعہ کھڑے ہونے سے تعبیر کرتے ہوئے ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔آصف علی زرداری کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ مصالحت کے نام پر صدر پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں اور ججوں کی بحالی کے معاملے پر آئینی پیکیج لانے کی بات کر کے صدر مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ لیکن آصف علی زرداری کےپی ٹی آئی‘ کو دیے گئے انٹرویو کے بعد یہ تاثر الٹا ہوتا دکھائی دیاہے۔ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف ’ریلک آف دی پاسٹ‘ یا ماضی کی باقیات بن چکے ہیں اور انہیں ہٹانے کے لیےحکومت پر عوام کا دباو¿ ہے اور حکومت عوامی خواہشات سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ان کے مطابق عوام کو آٹے اور بجلی سے بھی زیادہ فکر صدر مشرف سے نجات حاصل کرنے کی ہے۔ آصف علی زرداری کے اس انٹرویو سے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھاکہ فوج عوام کی مدد سے بیرونی اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ ایوان صدر میں مسلم لیگ (ق) کی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد یہ بیان کیا گیا کہ صدر نے کہا ہے کہ انہیں آصف علی زرداری پر بھروسہ نہیں ہے۔ مقامی میڈیا میں ایوان صدر سے منسوب اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر آئینی پیکیج کے ذریعے صدر کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی تو صدر ا±سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ اس کے اگلے روز یعنی جمعرات کو پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اس طرح کی خبروں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری عوام کے اعتماد پر یقین اور ا±سے برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں کسی فرد کے اعتماد کی ضرورت نہیں۔‘ ’ہماری جماعت ایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان اختیارات کے عدم توازن کو میثاق جمہوریت اور دنیا کے جمہوری اصولوں کے مطابق ٹھیک کرنا چاہتی ہے اور ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون اس سے خوش ہوتا ہے اور کون نا خوش۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ جب بھی کسی آمر نے دھوکہ دہی، چال بازی اور طاقت کی بنا پر اختیارات حاصل کیے ہیں تو جمہوری قوتوں کے آنے کے بعد انہیں ختم کیا گیا ہے۔ ’بھٹو خاندان کی شہید ہونے والی دو نسلوں نے اپنی جماعت کو یہی سکھایا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ غریب عوام ہیں نہ کہ کوئی بندوق بردار آمر۔‘ جب تک پیپلز پارٹی کو عوام کا اعتماد حاصل ہے جیسا کہ اٹھارہ فروری کے انتخابات سے بھی عیاں ہے ایسے میں مشرف پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری پر بھروسہ کریں یا نہ، یہ بیکار بات ہے۔‘ پاکستان کے اندر فی الوقت اقتدار کے منبعوں کے اس طرح کے بیانات کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جنوبی ایشیا کے بارے میں نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے نے ایک بیان میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کا بیان دیا ہے۔ باوجود اس کے کہ امریکی اہلکار کا یہ بیان پاکستان حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ساتھ معاہدوں کے تناظر میں ہے لیکن امریکہ کی اس طرح کی سوچ کو پاکستان کے اندرونی معاملات سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ صدر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے حامی رہے ہیں۔ تاحال صدر پرویز مشرف کا براہ راست کوئی تبصرہ نہیں آیا لیکن ان کے ترجمان راشد قریشی نے چند روز قبل واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ جب صدر کو سویلین استحکام کا یقین ہوجائے گا تو وہ کسی مناسب وقت پر خدا حافظ کہہ سکتے ہیں۔ راشد قریشی کے خیالات اپنی جگہ لیکن آصف علی زرداری کے بیان اور ایوان صدر سے منسوب بیانات (جن کی تردید نہیں کی گئی) ان سے ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت کے سربراہ اور صدر پرویز مشرف کے درمیاں جہاں اعتماد کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے وہاں تعلقات بھی حد سے زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں۔ ایسے میں صدر مشرف کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں کہ وہ اسمبلی توڑ دیں یا پھر مستعفی ہوجائیں۔شاید یہی وجہ ہے انٹرویو میں آصف علی زرداری نے ایک سوال پر کہا ہے کہ ’کسے معلوم کہ کون جاتا ہے، صدر پرویز مشرف، میں یا پھر ہماری حکومت۔‘ پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ماضی میں کچھ جج آمروں کے کہنے پر فیصلے کرتے رہے ہیں لیکن اب وہ وقت گزر گیا ہے۔معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے فیصل آباد بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کچھ ججوں نے آمروں کا ساتھ دیا لیکن اب وہ وقت گذر گیا اور ان تمام لوگوں کو سزا ملے گی جنہوں نے عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ معزول چیف جسٹس نے آمروں کے ساتھ ججوں کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس محمد منیر اور جسٹس انوار الحق کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ جسٹس محمد منیر نے پاکستان میں نظریہ ضرورت کی بنیاد ڈالی جبکہ جسٹس انوار الحق نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے بینچ کی سربراہی کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جب فیصل آباد پہنچے تو وکلاءعام شہریوں، سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ چیف جسٹس کا قافلہ گیارہ گھنٹے کی مسافت کے بعد فیصل آباد پہنچا۔ فیصل آباد بار ایسوسی ایشن کی تقریب ساری رات جاری رہی اور بارش کے باوجود لوگوں کی ایک کثیر تعداد چیف جسٹس کی تقریر سننے کے لیے بار ایسوسی ایشن کے دفتر کے باہر جمع رہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ تین نومبر کو سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی نہ لگائی جائے اور اس حکم کی تعمیل تمام متعلقہ محکموں سے کروائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔ ملک کی بقا اسی میں ہے کہ تمام فیصلے آئین کے مطابق ہوں اور ’ملک کے اندر ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ عوام فیصلہ کریں کہ ان کو کیسی عدلیہ چاہیے۔ ’ایسی عدلیہ جو آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرے یا ایسی عدالیہ جو آمر کے کہنے پر فیصلہ کرے۔‘ انہوں نے کہا ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ انہوں نے از خود نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت کی۔ جسٹس افتخار نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کیا لیکن وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے ججوں نے تو از خود نوٹس نہیں لیے تھے ان کو کیوں ہٹایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے مجوزہ آئینی پیکج کے بارے کوئی بات نہیں کی لیکن ان کی وکلاء نے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے آئینی پیکیج پر کھل کرتقاریر کیں۔ جس آئینی پیکیج کو پارلیمنٹ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اس کا مقصد عدلیہ کے وقار میں اضافہ نہیں بلکہ ان ججوں کو سزا دینا ہے جنہوں نے عدلیہ کے وقار کو بلند کیا۔ انہیں خدشہ ہے کہ جج دس جون سے پہلے بحال نہیں ہوں گے اور وکلاء کو لانگ مارچ کی تیاری کرنی چاہیے۔ حکومت پنجاب نے جسٹس افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس آف پاکستان کا مکمل پروٹوکول دیا اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس کا استقبال کیا۔ اگر چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد مقرر کیگئی تو وکلاء اسے ’مائنس ون فارمولہ‘ سمجھیں گے جسے وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ مجوزہ آئینی پیکیج سے عدلیہ کے وقار کو بڑھایا نہیں جا رہا بلکہ عدلیہ کے وقار کو بڑھانے والوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ وکلاء پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو بھی اپنے آپکو مضبوط کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ عدلیہ کے ملبے پر قائم نہیں رہ سکتی۔ چیف جسٹس کے وکیل حامد خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور انہیں 1996 میں عدلیہ سے لڑائی کو یاد کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ حامد خان نے کہا کہ جس طرح کا آئینی پیکیج حکومت لانا چاہا رہی ہے اس طرح کا پیکیج کسی آمر کو ہی زیب دیتا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک ایسے شخص کو نوازنا چاہتی ہے جن نے تین نومبر 2007 کو اپنے حلف سے غداری کی اور ایک آمر سے وفاداری کا حلف لیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کسی ایسے آئینی پیکیج کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی جا سکے۔ آئینی پیکیج کے ذریعے حکومت ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھانا چاہا رہی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھانے کے بعد وکلاء کے دباو¿ میں واپس لے چکے ہیں۔ حامد خان نے کہا جو شخص کمزور ہوگیا تھا پیپلز پارٹی اس کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔ جبکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ انہوں نے صدر پرویز مشرف کو کبھی آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اور ہم چاہتے ہیں وہ چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو۔ فوجی سربراہان، گورنرز اور ججوں سمیت آئینی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار صدر کے بجائے وزیر اعظم کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھنے کی تجویز ہے، سینٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیت کا نمائندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی شق ختم کرنے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے کی بھی شقیں شامل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کی دفعہ 62 ‘ 63 اور 90 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ دفعہ 62 اور 63 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے بارے میں ہیں اور دفعہ 90 صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور ترمیم کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم اور کابینہ کو بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ چاروں صوبوں کے گورنرز اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کے مشورے سے مشروط کرنے کی تجویز پیکج میں دی گئی ہے ۔مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق آئین میں کنکرنٹ لسٹ کو 80 فیصد ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے مشورے سے ہو گا ۔ اور اگر یہ نہیں ہوں گے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے مشورے سے یہ تقرر کیا جائے گا۔ نیشنل فنانس کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کو شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹ کے قائد ایوان کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ آئینی پیکج میں ایک شق شامل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں ۔ ایک دوسری شق کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے تاہم اس کے لیے مزید صلاح و مشورے ہوں گے۔ آئینی پیکج کے مطابق کوئی بھی شخص دو سے زائد مرتبہ صدر نہیں بن سکے گا اور صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے کی تجویز بھی آئینی پیکج میں شامل ہے ۔آئینی پیکج کے مطابق آرٹیکل 104کے تحت نگران حکومت سپیکر کی مشاورت سے قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں گورنر کی مشاورت سے کی جائے گی ۔سی سی آئی کا اجلاس ہر سال میں دو دفعہ ہو گا ۔ قومی اقتصادی کونسل کو فعال بنایاجائے گااور فنانشل کونسل کا اجلاس تین سال بعد ہو گا اجلاس میں پیش کی گئی قرار داد کے مطابق بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیا اور دوسری سیاسی جماعتوں سے آئینی پیکج کے بارے میں مشاور ت کی تائید کی ۔ آصف علی زرداری کے سیاسی اقدامات جمہوریت کی طرف سفر و عوام کو بحران سے نکالنے کیلئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اجلاس نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آصف علی زرداری جو پالیسی بھی اختیار کریں گے پارٹی اس پر عملدرآمد کرے گی یہ مجوزہ آئینی پیکج مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اور اس پر نواز شریف کی جانب سے آنے والی آو¿ٹ پٹ کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہاکہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے آئینی پیکج کی منظوری کے بعداس کو نواز شریف ، ایم کیو ایم ، اسفند یار ولی اور دوسری جماعتوں کو بھیج دیا گیاہے۔ آئینی پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سب جماعتوں سے لیں گے انہوںنے کہاکہ ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں گے جس کے تحت 90ہزار فوجیوں کو شملہ میں مذاکرات کے ذریعے رہاکروایا گیا اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین کو واپس لیاگیااور بے نظیر کی اسی پالیسی کے تحت صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ۔ انہوں نے کہاکہ ہم آئینی پیکج پر صدر پرویز مشرف سے بھی ڈائیلاگ کریں گے اور پارلیمنٹ سے اسے منظور کروائیں گے اور پوری دنیا کی جمہوری قوتوں کے سامنے رکھیں گے اور ان سے مشاورت کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر مشرف کوقرار دئیے جانے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ حق پیپلزپارٹی کا کیونکہ قوم نے ہمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو سبو تاڑ نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے آصف علی زرداری نے کہاکہ ججوں کی بحالی کیلئے ہم وکلاء سے بھی بات چیت کریں گے کیونکہ ہم ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔جمہوریت اور آمریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی لیکن ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس کو منظور کروا لیں انہوں نے کہاکہ وکیلوں کا اور ہمارا موقف مختلف نہیں ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب میں نے شدید مشکلات کے اندر آئی ایس آئی کی بات نہیں مانی تو اب ان حالات کے اندر کس طرح مانوں گا ۔ آئی ایس آئی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے خلاف لڑنے کا زیادہ تجربہ ہے ۔ عوام کاپریشر ہو گا ، میڈیا کاپریشر ہو گا ہمارا بل سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہوگا ۔ صوبوں میں اور قومی اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے بل کو وہاں سے پاس کروائیں گے اور پھر سینیٹر سے درخواست کروںگا۔ جبکہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمدنے کہاہے کہ پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 29مئی تک فارغ ہو جائیں گے ایک نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی خان نے کہاہے کہ آئینی پیکج کے بہت سے نکات جمہوری نظام کو مستحکم کریں گے جبکہ مسلم لیگ نواز کے رہنما راجہ ظفر الحق نے اپنے رد عمل میں کہاکہ آئینی پیکج پر غور کے بعد فیصلہ کیاجائے گا جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے اس آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں کہاہے کہ ایسا لگتاہے کہ یہ آئینی پیکج واشنگٹن میں تیار کیاگیا ہے جسے ایوان صدر کے ذریعے پیپلز پارٹی کے حوالے کیاگیا۔اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ یہ آئینی پیکج قوم کیلئے نا قابل قبول ہو گا جس میں پرویز مشرف کے ناجائز اقدامات کو بھی تحفظ دیا جارہا ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو بھی تحفظ فراہم کیاگیا ہے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) بھی اس آئینی پیکج کو مسترد کردے گی انہوں نے کہاکہ اے پی ڈی ایم کی جانب سے اٹھارہ اور انیس جون کو بلائی جانے والی کانفرنس میں آئینی پیکج کے مسودے کی تجاویز پر غور کیاجائے گا مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ابھی پورا آئینی پیکج ہمارے سامنے نہیں آیا میں نے اپنی پارٹی کا پارلیمانی اجلاس سموار کو طلب کیا ہے پیکج کی تفصیلات جاننے کے بعد ہی اس کی مختلف شقوں پر اپنی حتمی رائے دے سکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار بنایا جانا چاہیے ایگزیکٹو کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیاجانا چاہیے کیونکہ یہ پارلیمان طرز حکومت کی اصل روح ہے ۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی ترجمان محمد صدیق الفاروق نے کہاکہ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف بے نظیربھٹو کے مبینہ قاتل،2002ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے مجرم ،کارگل شکست کے ذمہ دار ،پاکستان میں گندم اور انرجی کا دانستہ بحران پیدا کرنے کے مبینہ مجرم،عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو غیر مستحکم کرنے ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کو فروغ اور تحفظ دینے ، صنعتی و تجارتی کارٹلز(Cartels)کوتحفظ فراہم کرنے ،غیر ملکی اورملکی قرضوں کو 6ہزار ارب روپے تک بڑھانے ،تجارتی خسارے کو 1.6ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک پہنچانے ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کرنے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پہنچانے اور پاکستان کو Ungoverable بناکر سول وار کی طرف دھکیلنے کے مجرم ہیں۔ان جرائم کی روشنی میں وہ Misconduct اور ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے مجرم ہیں ۔ وہ اس وقت جبراً صدر کے عہدے اور ایوان صدر پرقابض ہیں اور موجودہ منتخب مخلوط حکومت کے خلاف مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ ملکرسازشیں کرنے میںبھی مصروف ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ اِن جرائم کے ارتکاب کی بنیاداور وفاق کو بچانے کیلئے ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو “عہدے” سے برخواست (Impeach) کرنے کیلئے بلاتاخیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایاجائے ۔اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ملک اور قوم کو مزید نقصان پہنچنے کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔مسلم لیگ(ن) کے مرکزی ترجمان نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ،بلال مشرف،ترکی میں پاکستان کے سفیر اور سابق گورنر سرحدریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل افتخارکوبیرون ملک سے طلب کرکے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی ،سابق آئی بی چیف ریٹائرڈ اعجاز شاہ،سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم یعنی پرویزمشرف سمیت8کے ٹولے سے تفتیش کی جائے جس کے نتیجے میں اِن تمام جرائم اور پرویزمشرف کی ذاتی کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے بیرون ملک اثاثے بے نقاب ہو سکیں۔صدیق الفاروق نے کہاکہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش پرویزمشرف نے ق لیگ کے رہنماو¿ں اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے مشورے سے تیار کی اور انہی کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرایا۔اس حوالے سے مارک سیگل کے نام بے نظیر بھٹو شہید کی ای میل اور 16اکتوبر 2007ء کو مشرف کو لکھاگیا خط ناقابل تردیدثبوت ہیں۔ اپنی ای میل جسے نزعی بیان سمجھا جا رہا ہے بے نظیر بھٹو نے کہا،”اگر مجھے کچھ ہوگیا(قتل کردی گئی) تو میر ے نزدیک اس کے ذمہ دار پرویزمشرف ہونگے”۔ سی آئی اے لاس انیجلس ٹائمز (CIA Times Los Angeles) نے 18 جنوری 2008ء کو اپنی اشاعت میں سی آئی اے کے حوالے سے پرویزمشرف کو ہی بے نظیر بھٹو کو قاتل بتایا ہے۔ صدیق الفاروق نے کہاکہ پرویز مشرف نے ہر ممکن کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو اپنی پارٹی میں ان کی (مشرف) کی پسند کے آدمی کو وزیراعظم بنوادیں او رخود پاکستان نہ آئیں لیکن بے نظیر بھٹو نے ان کی یہ بات نہ مانی۔ جب صدر بش کے دباو¿ پر انہوںنے نہ چاہتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دی تو18اکتوبر2007ء کو ان پر قاتلانہ حملہ کروادیا۔ اس حملے میں بھی وہی طریقہ کاراختیار کیاگیا جو 27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اختیار کیاگیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں مشرف حکومت کا تین بار موقف تبدیل کرنا،حملے سے پہلے محافظ پولیس کی گاڑیاں واپس بلالینا،جیمرزکوناکام بنانا،اوپر سے ملنے والی ہدایت پر سعودعزیز کا فوراً”جائے وقوعہ کو دھونے اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے احکامات جاری کرنابھی بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویزمشرف،وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی بی چیف وغیرہ کا ملوث ہوناثابت کرتا ہے۔کارگل شکست کی منصوبہ بندی کے ذریعے انہوںنے پاکستان اور بھارت کو نہ صرف ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچادیاتھا بلکہ وہ 3000سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بھی مجرم ہیں۔پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فاو¿ل کھیل کھیلا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور خود پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے فوجی سپاہی سے لے کر لیفٹننٹ جنرل اور خفیہ اداروں کے اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اب تک 2ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی اور ہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستانی فوج میں تقسیم کرنے کیلئے دیئے گئے 4.58 ارب ڈالر(270ارب روپے) کا کوئی حساب نہیں دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں آئی ایس آئی کے ذریعے انہوںنے دھاندلی کی اور ق لیگ کے علاوہ کچھ دیگر لوگوں کو بھی پارلیمنٹ کا ناجائز ممبر بنوایا۔ اس کی تصدیق اس وقت آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر کر چکے ہیں ۔ پرویزمشرف نے دھاندلی کے ذریعے اسمبلی میں پہنچائے جانے والے اپنے آدمیوں کے ذریعے اپنے 12اکتوبر99ئ کے غیر آئینی اقدام کو 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دلوایا۔آئین اور قانون کی نظر میں دھاندلی کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں جانے والے لوگ غیر ممبر تھے۔ لہذا انہوں نے آئین میں جوترمیم کی وہ بھی آرٹیکل6کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پرویزمشرف مس کنڈکٹ (Misconduct) کے بھی مجرم ہیں ۔ جبکہ اعلی ترین سابق عسکری قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا محفوظ اور پر امن راستہ اب بند ہو چکاہے ۔انہیں کارگل سے لے کر قبائلی علاقوں میں فوج کشی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کاحساب دینا ہو گا ۔ نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے۔ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد پرویز مشرف کو آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں وہ آرمی ہاو¿س کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کر رہے ہیں اور فوج کی حمایت کاتاثر دے رہے ہیں فوج اور حکومت ان سے فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ ایکس سروس مین مسلح افواج پر جمہوری کنٹرول کی حامی ہے کو منتخب حکومت بھی جرات مندانہ اور آزادانہ فیصلے کریں ۔ پرویز مشرف نے اگر اٹھاون ٹو بی سے تحفظ لینے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گی۔لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) اسد درانی نے کہا کہ 18 فروری سے قبل اور 3 نومبر کے بعد ہماری کوشش تھی کہ ایکس سروس مین کو اکٹھا کر کے ملک کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کی جائے اور قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 18 فروری کے انتخابات ، وکلاء سول سوسائٹی کی جدوجہد اور میڈیا کے کردار نے ملک میں ایک شعور اجاگر کیا۔ انتخابات میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کیاگیایہ ایک ریفرنڈم تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خدشات میں وقت کے ساتھ پھر اضافہ ہو رہاتھا ۔انہوں نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام کا اصل مطالبہ اور فیصلہ یہ تھاکہ پرویزمشرف صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری اور آئینی عدم استحکام پیدا کیا ۔انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت کے منصب سے الگ ہونا چاہیے ۔ پرویزمشرف نے عدلیہ کے بھی تانے بانے ادھیڑ دئیے۔ عدلیہ کے خلاف اقدام کے بعد اگر اب بھی 2 نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہوئی تو پھرکبھی یہ ادارہ آزاد نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس کو آرمی ہاو¿س ، ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاو¿س میںبلوانا عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی نئے شکوک و شبہات پیداہو رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے باہم اتحاد کا مظاہرہ کر کے احسن اقدام کیا۔ انہوں نے حکمران اتحاد سے اپیل کی کہ 18 فروری کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی پاسداری کریں۔ ایکس سروس مین حکومت کی طرف سے فاٹا ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ہمیں ہر طرح کے بیرونی دباو¿ کو مسترد کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ ہم نے جب بھی اپنے فیصلے آزاد ہو کر کئے ان میں کامیابی ملی ۔ ہمیں نیگرو پونٹے اور امریکی سفیر کے اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا راستہ اب بندہو چکا ہے۔ انہیں کارگل سے آج تک فوجی اور قومی امور پر کڑے ٹرائل سے گزرنا ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جو پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ قبائلی علاقوں میں لشکر کشی ، لال مسجد آپریشن سمیت تمام سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی فورسز پر جمہوری کنٹرول کے حامی ہیں تاکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی کی راہ متعین کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے جو فوج کے لیے بذات خود انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا پاک فوج فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فی الفور پاکستان واپس بلوا کر احتساب اور انکوائری کے عمل سے گزارا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اگرچہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن وہ آئینی صدر نہیں ہیں جو اٹھاون ٹو بی کو اپنا محافظ خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے دوبارہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گے ۔ آج ملک میں مہنگائی بد امنی بے روزگاری زوروں پر ہے ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چار سال سے جاری یہ سنگین ایشوز جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کا بھی ذریعہ بنا یہ نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے ۔ نومنتخب حکومت لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے پیشن گوئی کہ پاکستان میں آئندہ بہت جلد بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئین کی خلاف ورزی پر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی نہیں بلکہ نو منتخب حکومت کو اچھے اقدامات پر خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں بعض چیزوںکی نشاندہی کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں ذاتی حیثیت میں ہمارے بھی بع لوگوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر ایسے کام ہوئے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے ہی ہم وسیع تر قومی مفاد میں نئی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا اقدام بذات خود غیر آئینی و غیر قانونی تھا لہذا اس کے تحت جاری ہونے والے اقدامات اور تقرریاں و تعیناتیاں بھی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین نے وکلاءکی ملک گیر تحریک میں بھرپور شمولیت کرے گی اور تحریک کے دوران وکلاء کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے گی ۔ ایکس سروس مین کے پچیس لاکھ اراکین قومی مفاد کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاںمحمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسا نظام لائیں گے جس سے مستقبل میں جمہوری حقوق کے لئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ریاست کی جانب سے جارحانہ کاروائیوںکاسلسلہ ترک ہوجائیگا۔ پارٹی کی اصل طاقت اس کے کارکن ہیں اورپارٹی کے وزراء ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات انہی کارکنوں کی وجہ سے آج ان عہدوں پرسرفراز ہیں ۔ درخت کی جڑیں نہ ہوں تو وہ زمین پرآرہتا ہے اوراگر سیاسی کارکن نہ ہوں تو قیادتیں لنگڑی اور اندھی ہوجاتی ہیں ،افسران غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات ماننے کی روش اور عادت بدل لیں ،چادر اور چاردیواری کا تقدس مجروح کرنے والوں کو نظروں سے دور رکھا جائے گا عدلیہ اور ججز کی بحالی کی جنگ جاری رہے گی ۔ پارٹی قیادت گزشتہ 8سالہ دور آمریت میںجمہوریت کے لئے جد وجہد کرنے والے پارٹی کارکنوں کو سلام پیش کرتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مشرف حکومت کے ظالمانہ او رجابرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قیدو بند کی صعبوتیں برداشت کیں ، جیلیں کاٹیں ، بدترین ریاستی جبرو تشد د کا مردانہ وا رمقابلہ کیا، لاٹھیاں او رگولیاں کھائیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بھگتے لیکن ہمارے ان عظیم کارکنوں نے سخت ترین حالات میںبھی پارٹی او رلیڈر شپ کو زندہ رکھا۔جس کی قائد مسلم لیگ(ن) محمدنوازشریف او روہ دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ کارکنوں کی 8سالہ سیاسی جد وجہد پارٹی کے لئے گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے ہمارے ان کارکنوں نے آمروں کی گود میںپلنے والوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔کسی قسم کا لالچ او ردباو¿ ان کے پایہ استقلال میں لغزش پید ا نہ کرسکا مسلم لیگ(ن) اپنے ان کارکنوں کی جمہوریت کے لئے دی گئی لازوال قربانیوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ کارکنوں کی جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ 18فروی کو ایک آندھی چلی اور عوام کی اکثریت نے آمریت اور اس کی گو د میںپرورش پانے والوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیا ۔محمد شہبازشریف نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ و ہ اطمینان رکھیںکیونکہ اب زیادتیوں کا دور ختم ہوچکا ہے اور کارکنوں کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں۔آپ کے حقوق دلوانے میں میں آپ کا وکیل بن کر لڑوں گا اور عوام کو حکومت سے سہولت دلوانا آپ کے فرائض میں شامل ہے ۔یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ حکومت کی آنکھیں بن کر اسے اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگا ہ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں آٹے کی فراہمی ، صحت و علاج کی خدمات اور تھانے کچہری میں انصاف کے حصول کے لئے سرگرم رہیں ۔ آپ کو آپ کا حق ملے گااور میں اس بات کو یقینی بناو¿ں گا کہ کسی کارکن کی حق تلفی نہ ہوہم آ پ کو عوامی خدمت اور منصوبوں کی مختلف کمٹیوں میں نمائندگی دیں گے کارکن تجاویز دیں ان کی تجاویز پ رعمل کیا جائے گا اور انہیںساتھ لے کر چلیں گے جس کسی افسر نے بھی ماضی میںسیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ زیادتیاں کی انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا ہمیں پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری ، آٹے کے بحران اور بجلی کے بحران سے نجات دلانی ہے عدلیہ کو آزاد،ججوں کو بحال کرانا ہے او رپاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے ۔ ہم انشاء اللہ اپنے کارکنوں کے ساتھ عدلیہ مل کر شبانہ روز محنت کریں گے اورا س ملک سے مہنگائی بے روزگار،غربت کا خاتمہ کرکے عوام کو انصاف مہیا کریں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے آج قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کا یہی خواب ہے کہ پاکستان میں جج بحال ہوںآزاد ہو مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران کا خاتمہ ہو عوام کا معیار زندگی بلندہو انہیں روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوں ملک سے بھوک افلاس کا خاتمہ ہو اور ہم انشاءاللہ عوام کے تعاون اور آپ کی تجاویز سے یہ تمام کام کریں گے۔ انہوں نے کہا نوکر شاہی کو اس بات کا پابندبنایا جائے گا کہ وہ کارکنوں کی عزت کریں اور انہیں ان کا جائز مقام دے ۔ ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج میں تبدیلی کی ضرورت ہے اگر اس پر غورو خوض اور اس میں تبدیلیاں نہ کی گئیں تو معاملہ جوں کا توں رہے گا۔ وکلاء کی تحریک ایک ہی نقطے پر مرتکز ہے اور وہ نقطہ معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کو دو نومبر 2007ء والی پوزیشن پر بحال کرنا ہے ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج کے اندر ججوں کی بحالی کے حوالے سے جو نکات ڈالے گئے ہیں ان میں تبدیلی ، غور وخوض اور بحث کی ضرورت ہے اگر ان کو تبدیل نہ کیاگیا تو معاملہ جوں کا توں رہے گا اور صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ملک کے عوام اس امید سے ہیں کہ انشاء اللہ افتخار چوہدری اور دیگر جج ضرور بحال ہوں گے اور افتخار چوہدری اس ملک کے چیف جسٹس بنیں گے۔ آزاد عدلیہ کی بحالی تک ملک میں جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اے پی ایس اسلام آباد