International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 1, 2008

لانگ مارچ کی حمایت کرکے صدر مشرف کو عوامی دباؤ سے صدارت سے الگ کرنے پر آصف علی زرداری اور نواز شریف میں اتفاق




ڈاکٹر عبدالقدیر کے صدر کے خلاف بیانات بھی پرویز مشرف پر عوامی دباؤ بڑھانے کا حصہ ہیں
فوج نے صدر اور حکومت کے درمیان کسی بھی امکانی تصادم میں فریق نہ بننے کا اشارہ دیدیا ۔ خصوصی رپورٹ

اسلام آباد۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے صدر پرویز مشرف کی حمایت جاری رکھنے کے اشاروں کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے صدر مشرف کو عوام کے دباؤ کے نتیجے میں صدارت سے ہٹانے پر اتفاق کرلیا ہے اور اس سلسلے میں نواز شریف نے آصف علی زرداری سے یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ مرکزی حکومت دس جون سے وکلاء کے ہونے والے لانگ مارچ کو فری ہینڈ دے گا جس کا رخ حکومت کی بجائے صدر مشرف کی جانب موڑا جائے گا ۔ ذرائع کے مطابق حکمران اتحاد کے قائدین نے اس فیصلے پر بھی اتفاق کرلیا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ کی مسلم لیگ(ن) کھل کر جبکہ پیپلزپارٹی پس پردہ حمایت کرے گی جس کا مقصد صدر پرویز مشرف کی پشت پر کھڑے امریکہ کو باور کرانا ہو گا کہ صدر پرویز مشرف کے ہٹانے کے لیے حکمران اتحاد سخت عوامی دباؤ کا شکار ہے ۔اور ان کو ہٹانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر لاہور میں مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے ایک تقریب میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا صدر مشرف کے مواخذے کے لیے ان کے اور آصف علی زرداری کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے ۔ جس کا مقصد ایوان صدر کی توجہ دو سری طرف رکھنا تھا اگرچہ بعض اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری ایوان صدر کو یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک فوری طورپر نہیں لائی جائے گی ۔ آصف علی زرداری پر امریکہ سمیت ان بین الاقوامی حلقوں کا دباؤ ہے کہ وہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ مل کرکام کریں جبکہ دوسری طرف زرداری شدت سے محسوس بھی کررہے ہیںکہ صدر مشرف کو برقرار رکھنے پر ان کی عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور پارٹی کو بھی نقصان ہو رہا ہے ۔ ان حقائق کے تناظر میں آصف علی زرداری نے اپنے بڑی اتحاد نواز شریف کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کردیا ہے تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ حکومت وکلاء کے لانگ مارچ کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو طویل عرصے سے اپنے گھر پر نظر بند ہیں اور ان کی میڈیا تک رسائی بھی نہیں تھی کو ایک پالیسی کے تحت آزادانہ انٹرویوز دینے کی اجازت دی گئی ہے جو ہر انٹرویو میں صدر مشرف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے انٹرویوز صدر مشرف پر عہدہ صدارت چھوڑنے کے لیے دباؤ کا حصہ ہیں ۔ حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے معاملات کو سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن ڈیل کررہا ہے جو فوج کے ماتحت ادارہ ہے ۔ ذرائع کے مطابق فوج جس نے سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھا ہوا ہے نے صدر پرویز مشرف پر واضح کیا ہے کہ وہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے گی اور صدر اور حکومت کے درمیان ہونے والے کسی بھی امکانی تصادم میںفریق نہیں بنے گی۔ ذرائع کے مطابق فوج نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ اگر آرمی ہاؤس کی جانب کیا گیا تو یہ فوج کے لیے باعث شرمندگی ہو گا لہذا ایسی صور تحال سے گریز کیا جائے جس سے فوج کے امیج کو نقصان پہنچے جو عوام میں بتدریج اب بہتر ہو رہا ہے ۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ لانگ مارچ جو دراصل معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ کو صدر مشرف کوہٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا اور آصف علی زرداری صدر کو ہٹا کر باسانی اعلی عدلیہ کو اپنی شرائط پر بحال کرنے کے لیے نواز شریف کو رضا مند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سیاسی جماعتیں صدر کا مواخذہ کرسکتی ہیں ، میں مواخذے کے حق میں نہیں ۔غلام مصطفی جتوئی



کراچی ۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم پاکستان غلام مصطفی جتوئی نے کہا ہے کہ عوام کے دباؤ پر شریف برادران کے کاغذات نامزدگی منظور کرکے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ترمیم کے ذریعے ججز کو بحال کرنے کا مقصد وقت ضائع کرنا ہے۔ ایک قرارداد کے ذریعے ججز بحال ہوسکتے ہیں اس لئے وقت ضائع کئے بغیر ججز کو بحال کیا جائے۔ صدر پرویز مشرف کے مواخذے کے حق میں نہیں ہوں ۔اگر سیاسی جماعتوں کے پاس مواخذے کی اکثریت موجود ہے تو وہ صدر کا مواخذہ کرسکتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو کراچی میں اپنی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک قرارداد کے ذریعے ججز بحال ہوسکتے ہیں لہٰذا انہیں فوری بحال کیا جائے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم کے ذریعے ججز کو بحال کرنے کا مقصد وقت ضائع کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی تاہم حکومت کی مثبت پالیسیوں کی حمایت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کی تحقیقات اقدام متحدہ سے کرانے کی حمایت کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اعلان مری پر عملدرآمد کرے اور ججز کوفوری بحال کیا جائے۔ غلام مصطفی جتوئی نے کہا کے ملک کی بقا ء ہی میں سیاستدانوں اور بیورو کریسی اور ہم سب کا کردار ہے اور ملکی حالات خراب کرنے کے ذمہ دار سیاستدان اور بیورو کریسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے دباؤ پر شریف برادران کے کاغذات نامزدگی منظور کرکے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ غلام مصطفی جتوئی نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ذاتی انا کو ختم کرکے ملکی حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ غلام مصطفی جتوئی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے لیکن یہ سب حکمرانوں کے رویے اور اقدامات پر منحصر ہے تاہم میری دعا ہے کے حکومت اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت کیلئے کالا باغ ڈیم منصوبے کا خاتمہ خوش آئند ہے اور ہمارا بھی یہی مطالبہ تھا کہ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو ختم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کے حکومت ملک میں بڑھتی بے روزگار اور مہنگائی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کے نیشنل پیپلز پارٹی اسمبلیوں میں آزاد حیثیت سے حزب اختلاف میں بیٹھی ہے۔ حکمران ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر قربان کریں اسی میں ملکی بہتری ہے۔

امریکی انتظامیہ کی ایشیائی پالیسی ہمیشہ برقرار رہے گی ، رابرٹ گیٹس



سنگاپور ۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چاہے جو بھی پارٹی جیتے لیکن امریکہ ایشیاء کے لئے اپنا تعاون جاری رکھے گا ۔ یہ بات امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہی ہے ۔ یہ پیغام انہوں نے ایشیائی سیکیورٹی اور دفاع سے متعلق ایک کانفنرس میں افسروں کو دیا ہے ۔ اس پیغام کاایک مقصد اپنے اتحادیوں کو یقین دلانا اور چین کو وارننگ دینا ہے جو حالیہ برسوں کے دوران ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بن کر ابھرا ہے ۔ رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے 7 صدور کی خدمت کر چکے ہیں اس لئے میں اعتماد کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کی ایشیائی سلامتی کی پالیسی ہمیشہ برقرار رہے گی کیونکہ اس کے تمام مفادات اس علاقے سے وابستہ ہیں انہوں نے کہا کہ آئندہ برسوں میں امریکہ کی ایشیاء کے ساتھ وابستگیاں اور قریبی و مستحکم ہوں گی ۔ سنگاپور میں گیٹس نے چین پر تبصروں کو متوازن کرنے کی کوشش کی ۔ امریکی عہدیداروں نے کہا کہ وہ واشنگٹن کا نظریہ واضح کرنا چاہتے ہیں لیکن بیجنگ کے ساتھ کوئی کھلی دشمنی مول لینا نہیں چاہتے ۔ گیٹس نے بیجنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شمالی کوریا کی نیوکلیئر بات چیت میں زبردست تعاون کیا ہے انہوں نے چینی فوجی بجٹ مین شفافیت برتنے امریکہ کی اپیل کا اعادہ کیا ۔ جاپان کے وزیر دفاع شکیئر وا اشیبا نے بھی مفادات کے بارے میں وضاحت کرے لیکن چین کے لیفٹیننٹ جنرل مازیاؤ نیان نے کہا کہ ان کے ملک کے دفاعی اخراجات دیگر ممالک کے مقابلہ میں کم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چین کے دفاع بجٹ کا دوتہائی حصہ دیکھ بھال اور تربیت پر خرچ ہوتا ہے انہوں نے امریکی میزائل دفاعی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام حقیقتا صرف دفاع کے لئے نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چین ایک امن پسند ملک ہے اور اس کے عوام بھی امن پسندہیں ہماری فوج دوسرے ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے ۔ رابرٹ گیٹس نے کہا کہ میانمر میں سمندری طوفان سے متاثرہ ہزاروں لوگ اس وجہ سے مر گئے کیونکہ وہاں کی حکومت نے ان کے لئے غیر ملکی امداد ٹھکرا دی ۔ پینٹگان کے سربراہ نے میانمر کے فوجی حکمرانوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے غیر ملکی امداد بھیجنے کی اجازت دینے کی درخواست پر گونگے بہرے ہونے کارویہ اختیار کیا ۔ میانمر نے چار ہفتہ قبل طوفان نرگس کے آنے کے بعد امریکی فوج سے امداد قبول کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی جبکہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک حالیہ برسوں میں قدرتی آفات کے وقت اسے قبول کرتے رہے ۔

الیکشن کمیشن ‘ شریف برادران کے خلاف انتخابی عزار داریوں کے بارے میں کل اپنی پوزیشن واضح کرے گا



اسلام آباد ۔ الیکشن کمیشن سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے خلاف انتخابی عزر داریوں کے بارے میں فیصلہ کل ( پیر کو ) کرے گا ۔ انتخابی ٹریبونل میں ان انتخابی عزر داریوں کے حوالے سے منقسم رائے سامنے آنے پر ٹریبونل کی جانب سے یہ انتخابی عزر داری الیکشن کمیشن کو بجھوائی جا رہی ہے ۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد نے اتوار کوبتایا کہ انتخابی ٹریبونل نے ان کے انتخابی عزر داریوں کے حوالے سے ابھی تک الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا ۔ ٹریبونل سے جیسے ہی تحریری طور پر کوئی بات سامنے آئے گی الیکش کمیشن اپنا فیصلہ کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پیر کو ہی اس معاملے کو نمٹایا جا سکے گا ۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کیا لائحہ عمل ہو گا ۔ پیر کو فیصلہ کر لیں گے تاہم شیڈول کے مطابق پیر کو امیدواروں کی حتمی فہرست شائع ہو گی ۔

آزاد عدلیہ کی صو ر ت میں ہی جمہوریت مستحکم ہو گی: چیف جسٹس افتخار چودھری



ہما ر ی تحریک کا مقصد صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ سماجی اور معاشی آزادی ہے ‘اعتزاز احسن ‘ جسٹس طارق پرویز، منیر اے ملک ، حامد خان، علی احمد کرد، عبدالطیف آفریدی اور د یگر کا پشاور ہائی کورٹ میںکلاء مشتمل کنونشن سے خطاب
پشاور۔ پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ معزول ججز پر مشتمل’آزاد عدلیہ ہی مستقبل میں صدر کی جانب سے اٹھاون ٹو بی کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے متعلق بھیجی گئی ریفرنس پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتی ہے۔پشاور ہائی کورٹ میں تقریباً چھ ہزاروکلاء پرمشتمل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے افتخار محمد چودھری کا کہناتھا کہ اگر مستقبل میں صدر پاکستان اٹھاون ٹو بی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہیں تو جب وہ اپنے اس اِقدام کو چودہ روز کے اندر ریفرنس کی صورت میں عدالت بھیجتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے ایک آزاد عدلیہ کی عدم موجودگی میں اس ریفرنس پر کس قسم کا فیصلہ سامنے آئے گا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور اتحادیوں پر مشتمل حکومت کو اشارتاً پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ریفرنس معزول ججوں پر مشتمل’آزاد عدلیہ کے پاس بھیجی جائے گی تو اس کافیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوگا کیونکہ ہم سب نے ماوراء آئین اِقدام کی مخالفت کرتے ہوئے حلف لینے سے انکار کیا تھا اور اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی تو آپ صدارتی ریفرنسوں پر مثبت فیصلوں کی توقع نہ رکھیں۔معزول چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی یا حکومت کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی تو جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی بصورت دیگر’اب پچھتائے کیا جب چڑیا چک گئی کھیت۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ آزاد عدلیہ کی غیر موجودگی میں دہشت گردی، لوٹ مار اور تخریب کاری میں اضافہ ہوگا ۔ان کے مطابق کراچی میں ڈاکؤوں کی زندہ جلانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اداروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے اوروہ اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بعض عناصر وکلاء کی تحریک کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہے ہیں لہذا وکلا متحد ہوکر ان قوتوں کا راستہ روکیں کیونکہ بقول ان کے اب منزل بہت قریب ہے۔ اگرچہ انہوں نے ابتداء میں’پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے میں عدلیہ کے کردار‘ کے موضوع پر لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کا اعلان کیا تاہم انہوں نے فی البدیہہ تقریر کرتے ہوئے موضوع سے ہٹ کر گزشتہ مارچ سے شروع ہونے والی وکلاء کی تحریک پر تفصیلی روشنی ڈالی۔کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انکی تحریک کا مقصد صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ سماجی اور معاشی آزادی ہے تاکہ ملک کو قومی سلامتی کی ریاست سے فلاحی ریاست میں تبدیل کیا جائے جس میں ہر شہری کو انکی دہلیز پر انصاف مل سکے۔ انکا کہنا تھا کہ1958ء میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر قائداعظم کے فلاحی ریاست کے تصور کو غیر محسوس طریقے سے قومی سلامتی ریاست میں تبدیل کردیا۔ان کے مطابق سوویت یونین کے پاس چالیس ہزار ایٹم بم ، جدید میزائل سسٹم اور ٹینک تھے مگر قومی سلامتی کی ریاست ہونے کی وجہ سے آج صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔ تقریب سے پشاور ہائی کورٹ کے معزول چیف جسٹس جسٹس طارق پرویز، منیر اے ملک ، حامد خان، علی احمد کرد، عبدالطیف آفریدی اور پنجاب کے مختلف شہروں کے بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے بھی تقریر کی۔ اس سے قبل معزول چف جسٹس افتخار چودھری نے پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب عہدیداروں جبکہ جسٹس طارق پرویز نے مردان بار ایسوسی ایشن کی نومنتحب کابینہ سے حلف لیا۔ افتخار محمد چودھری سپریم کورٹ کے معزول ججوں جسٹس ناصرالملک، سردار رضا خان اور اپنے دیگر وکلاء ساتھیوں کے ہمراہ سنیچر کی صبح گیارہ بجے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے پشاور کے لیے روانہ ہوئے تھے اور تین گھنٹے کا فاصلہ گیارہ گھنٹے میں طے کرنے کے بعد رات کے دس بجے پشاور پہنچ گئے۔انہوں نے راستے میں اٹک میں وکلاء کی ایک تقریب سے خطاب بھی کیا۔ پشاور کے وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں نے پنجاب اور سرحد کو ملانے والے خیر آباد پل پر انکا استقبال کیا اور اس موقع پر انہوں نے جنرل مشرف کیخلا ف اور افتخار چودھری اور عدلیہ کی آزادی کے حق میں پرزور نعرے بازی کی۔ معزول چیف جسٹس کو صوبائی حکومت نے وی آئی پی سکیورٹی فراہم کی تھی اور انکی حفاظت پر 1500سے زائد پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ ہائی کورٹ کی عمارت کے ارد گرد تمام راستوں کو خار دار تار بچھاکر بند کردیا گیا تھا جبکہ تقریب میں شرکت کرنے والوں کی دو مقامات پر تلاشی لی گئی۔ پشاور میں منعقدہ وکلاء کے کنونشن میں صوبہ سرحد کے تمام اضلاع کے علاوہ بلوچستان، راولپنڈی، منڈی بہاوالدین، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے درجنوں وکلاء نے شرکت کی اور شرکاء رات کے چار بجے تک تقاریر سنتے رہے۔ معزولی کے بعدافتخار چودھری کا صوبہ سرحد کا یہ دوسرا دورہ ہے پچھلے سال اکیس اپریل کو بھی انہوں نے پشاور کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نومنتخب کابینہ سے حلف لیا تھا۔

تفریح کے نام پر کرکٹ کی اجتماعی آبروریزی ہو رہی ہے ، بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بشن سنگھ بیدی

نئی دہلی ۔ اپنی بے لاگ باتوں کے لیے مشہو ر سابق بھارتی کپتان بشن سنگھ بیدی نے کھلاڑیوں اور منتظمین پر کرکٹ کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کرتوت سے کھیل اب غار مذلت میں پہنچ گیا ہے ۔ بیدی نے نجی ٹیلی ویژن چینل ( سمے) کو دئیے گئے انٹرو میں انڈین پریمئر لیگ ک و ہدف بناتے ہوئے کہا کہ تفریح کے نام پر کرکٹ کی اجتماعی آبروریزی ہو رہی ہے انہوں نے کہاکہ کرکٹ کے اس سوال کے لیے کھیل انتظامیہ ‘ کھلاڑیا ور فرنائچزی کے علاوہ میڈیا اور ناظرین بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ یہ سبھی لوگ مل کر اور کرکٹ کنٹرول بورد ( بی سی سی آئی ) نے کرکٹ کو زیادہ دلچسپ اور مقبول بنانے کے مقصد سے آئی پی ایل شروع کی ہے اس عظیم اسپنر نے آئی پی ایل کی وجہ سے کرکٹ کی مقبولیت میں اضافہ کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ یہ کھیل تو اب غار مذلت میں پہنچ گیا ہے ہو سکتا ہے کہ یہ مقبول ہو رہا ہے کیونکہ لوگ ہجوم کی طرح برتاؤ کرتے ہیں ۔ وہ ہر نئی چیز کے پیچھے بھاگتے ہیں خواہ اس میں کوئی دم ہو یا نہ ہو ۔ بی سی سی آئی کے ساتھ تلخ رشتے رکھنے والے بیدی سے جب پوچھا گیا کہ وہ بی سی سی آئی کو کرکٹ کے معاملوں میں مشورے کیوں نہیں دیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو ان کے ساتھ وابستہ ہونے کا طریقہ ہی نہیں معلوم ہے ۔ یہاں پر تو اس کے آقاؤں کو پوجا کرنے والوں کو ہی ان کی دل کی مراد ملتی ہے ۔

جنرل مشرف نے لیاقت علی خان کی طرح بھارت کو کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک ختم کرنے کی تجویز دی تھی

اسلام آباد۔ صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے سابق زیراعظم لیاقت علی خان کی روایت کو دہراتے ہوئے بھارت کوکشمیری مجاہدین کی مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی۔ جموںو کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعطم لیاقت علی خان نے 24 اکتوبر 1947 ء کو برطانوی وزیراعظم کے نام خط میںکہا تھا کہ انہوںنے پاکستان کی طرف سے بھارت کوکشمیر میں مزاحمتی تحریک کے خلاف مشترکہ جنگ کی تجویز دی ہے ۔ پاکستان کے وزیراعظم نے برطانوی وزیراعظم کی یہ تجویز بھی مسترد کردی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کے صدر کشمیر کے واقعات کو نجی طور پر دیکھیں ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف ، جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد ،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، آزادکشمیر کے صدر راجہ ذوالقرنین ، سابق صدر سردار قیوم خان سمیت پاکستان و آزادکشمیر کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں کے نام ایک مراسلے میں یہ انکشاف کیا ہے ۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے کشمیریوںکے حق خودارادیت کو نظر انداز کرکے آؤٹ آف باکس حل 4 نکاتی فارمولے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایسا کرکے پاکستان نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو نظر اندا ز کردیا ہے ۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی قیادت پر زور دیا ہے کہ آؤٹ آف باکس حل اور دوسری تجاویز کی بجائے حق خودارادیت کو اہمیت دی جائے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 کے تحت پاکستان حق خودارادیت کو نظر انداز نہیںکر سکتا ہے ۔ پاکستان تحریک مزاحمت کے تمام گروپوں بالخصوص حریت کانفرنس کے تمام دھڑوں اور حریت کانفرنس سے باہر گروپوں سے یکساں سلوک کرے ۔ تحریک آزادی کشمیر کے نام پر قائم ہونے والوں اداروں اور تحریک آزادی کشمیر کے نا م پر خرچ ہونے والے فنڈز پر نظر رکھی جائے ایسے اداروں کو بھی احتساب کے دائرے میںلایا جائے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کشمیر کونسل کے چیئرمین بھی ہیں ۔ وہ کشمیر کے سلسلے میں آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے کشمیر کونسل میں وزراء اور اراکین اسمبلی میں سے 6 افراد کو نامزد کرتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم کشمیر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔ حکومت پاکستان جہاں اقوام متحدہ کی قراردادیں کو نہ چھوڑیں اور آئین کے تحت کشمیریوں کے حق خودارادیت کا تحفظ کرے وہی بھارت سے بھی کہا جائے کہ وہ طرفہ معاہدوں کا احترام کرے ۔ بدقسمتی سے گزشتہ عرصے میں صدر مشرف کے آؤٹ آف باکس کے حل کی تجاویز نے صورت حال خراب کردی ہے ۔ آزادکشمیر کی سول سوسائٹی اور عوام نے پاکستان میں حالیہ عوامی تحریک کا ساتھ دیا ۔ لیکن مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں صورت حال مختلف ہے ۔ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی کے علاوہ تمام گروپوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باعث صدر مشرف کے فارمولے کی حمایت کی ۔ انہوں نے کہا کہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت پاکستان اور حکومت آزادکشمیر نے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں چنانچہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج کردیا گیا ہے ۔ گزشتہ 38 سال کے دوران آزادکشمیر حکومت نے ایکٹ 1974 ء کے تحت کشمیر کے مسئلے پر کوئی کام نہیںکیا ۔ حکومت پاکستان گزشتہ 30 سال کے دوران اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے کام نہیں کر سکی ۔ پانچ نومبر 1965 ء سے 15 ستمبر 1996 ء تک کشمیر کا مسئلہ زیر بحث نہیں آیا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوںکے تحت ایجنڈے کا حصہ نہیںہے ۔ ڈاکٹرسید نذیر گیلانی نے لکھا ہے کہ 25 لاکھ کشمیری مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ۔ آزادکشمیر اسمبلی میں ان کی 12 نشستیں مختص ہیں ۔ اسلام آباد میں حکمران جماعت ہر موقع پر آزادکشمیر میں حکومت سازی

عالمی سطح پر صحافتی آزادیاں بری طرح پامال کی جا رہی ہیں ، صحافیوں کے حقوق غصب کنر ے میں آمر حکومتوں ‘ بدعنوان حکام اور منظم گینگز سر فہرست ہیں



ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پیپرز کی رپورٹسٹاک ہوم ۔ اخبارات کی عالمی تنظیم ( ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پیپرز) نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر صحافتی آزادیاں بری طرح پامال کی جا رہی ہیں جس میں آمر حکومتوں ‘ بدعنوان حکام اور منظم گروہوں کا ہاتھ ہے ۔ ڈبلیو اے این نے چھ ماہ کی رپورٹ جاری کی ہے یہ رپورٹ تنظیم نے ورلڈ نیوز پیپرز کانگرس اور ورلڈ ایڈیٹر فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سویڈن کے شہر گوئی برگ سے شائع کی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے اندر صحافتی آزادیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں لاطینی امریکہ میں مختلف گروہ گینگرز اور بدعنوان حکام سے انہیں خطرہ ہے جبکہ مشرق وسطی میں آمر ‘ افریقہ میں جنگ و جدل ‘ ایشیا میں حکومتیںا ور سنٹرل ایشیا اور یورپ موت اور عدالتی کارروائیاں صحافتی آزادیوں کو پامال کررہی ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اورافغانستان میں صحافی آزادی اظہار رائے کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لاطینی امریکہ میں صحافیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں جہان مختلف گینگز اور حکام اپنے آپ پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے صحافیوں پر قاتلانہ حملے کرتے ہیں جن میںگزشتہ چھ ماہ کے دوران چار صحافی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ لاتعداد صحافیوں پر حملہ اور انہیں ہراساں کیا گیا ہے ۔ یہ خطہ صحافیوں سے بدسلوکی کرنے میں سب سے آگے ہے ۔ مشرق وسطی اور جنوبی افریقہ مین گزشتہ چھ ماہ کے دوران آمر حکومتوں نے صحافیوں کو خاموش کرنے اور ان کی آزادی کو دبانے کے لیے کئی غیر قانونی اقدامات کیے ہیں پورے خطے میں حکومتی کنٹرول میں میڈیا کو رکھنے کی کوششیں جاری ہیں افریقہ میں بغاوت والے علاقوں میں صحافیوں مین حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت ‘ صدر اور فوج پر تنقید کرنے کے جرم میں کئی صحافیوں کو جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے ۔ یورپ کے کئی ممالک میں پریس کی آزادی کو بری طرح سے پامال کیا جا رہا ہے جبکہ ایشیائی ممالک میں صحافتی آزادیوں کو خطرات لاحق ہیں ۔ مختلف مقامات پر بات کرنے والے صحافیوں کو قتل کرنا اور انہیں عدالتوں میں گھیسٹنا معمول بن گیا ہے ۔ ایشیا میں صحافت کوکئی رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔ اورخصوصا یہ رکاوٹیں حکومت کی طرف سے کھڑی کی جا رہی ہیں پاکستان اورافغانستان میں صحافی اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ برما‘ جنوبی کوریا اور لاؤس میں آمریت صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیںد ے رہی ۔ نومبر 2007 ء سے 29 صحافی قتل ہو چکے ہیں عراق صحافیوں کے لیے سب سے خونی ملک رہا ہے جہاں 9 صحافی قتل ہوئے ہیں۔

امریکہ کو دندان شکن جواب دیں گے۔ ایران کا انتباہ



تہران ۔ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ واشنگٹن ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کی اپنی آرزو ہرگز ترک نہیں کرے گا لیکن اسے ایران کے دندان شکن جواب سے باخبر رہنا ہو گا۔ ایران کے اعلی فوجی کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے احمدی نژاد نے کہا کہ دوسرے سبھی امریکی صدر کی طرف جارج بش جب اپنے عہدہ سے سبکدوش ہو ں گے تب وہ ایران پر حملہ کرنے کے اپنے خواب اپنے ساتھ لے جائیں گے انہوں نے مزید کہا کہ بش نے جب کبھی اپنے ان خیالات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ان کے فوجی کمانڈروں نے انہیں ایران پر حملے کے نتائج کی ہولناک تصویر پیش کی ۔ احمدی نژاد نے کہا کہ امریکہ نے جو کوئی بھی جنگ چھیڑی ہے اس میں وہ کبھی فتح مند بن کر نہیں ابھرا ۔ صدر ایران نے بش نظم ونسق کو خبردار کیا کہ وہ یہ نہ بھولیں کہ ایرانی افواج نہ صرف کسی حملے کا جواب دیں گی بلکہ وہ ظالموں کے ہاتھ بھی کاٹ دیں گی انہوں نے کہاکہ چند ملکوں نے حال ہی میں اس بات کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک اہم علاقائی طاقت ہے لیکن سچائی تو یہ ہے کہ ایران ایک بااثر عالمی طاقت بن گیا ہے ۔

آئینی پیکج کا مسودہ حتمی نہیں اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ‘ فاروق ایچ نائیک



لاہور ۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ آئینی پیکج کا مسودہ حتمی نہیں اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ۔ اتوار کو یہاں ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ آئینی پیکج میں آرٹیکل 6 کو بدلا گیا ہے جو جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائے گا وہ جج نہیں رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی مسودے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے یہ حتمی نہیں ہے ۔ اس بارے میں اتحادی جماعتوں سے تجاویز لی جائیں گی ۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات میں توازن پیدا کیا جائے گا اور ایسی شقیں ختم کر دی جائیں گی جو 1973 ء کے آئین میں بعد میں شامل کی گئی ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی مسودہ ایک سوچ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا یہ ایک مثبت مسودہ ہو گا ۔ جس میں تمام طبقات کی رائے شامل کی جائے گی ۔ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آئینی پیکج کے مسودے کی کاپیاں اتحادی جماعتوں کو فراہم کرنا شروع کر دی گئی ہیں ۔ اے این پی کے سربراہ اسفندر یار ولی کی ہدایت پر پارٹی کی نائب صدر بشریٰ گوہر کو مسودے کی کاپی فراہم کر دی گئی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان کی درخواست پر مسودے کی کاپی جے یو آئی کے راہنما مفتی ابرار کو دے دی گئی ہے ۔ ایم کیو ایم کے ایک نمائندے کو بھی آئینی پیکج کا مسودہ فراہم کر دیا گیا ہے جو لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو بھیجا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلم لیگ ( ن ) کے قائد میاں نواز شریف کو آئینی پیکج کا مسودہ دینے کے لئے خود لاہور آئے ہیں ۔

میاں نواز شریف ملک کی مقبول ترین اورپرویز مشرف غیر مقبول ترین شخصیت ہیں ‘ گیلپ پاکستان کی سروے رپورٹ





اسلام آباد ۔ پاکستانی عوام کی اکثریت نے صدر پرویز مشرف کو آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر سزا دینے کا مطالبہ کر دیا۔ گیلپ پاکستان کی تازہ سروے رپورٹ کے مطابق 61فیصد عوام صدر پرویز مشرف کو آئین کی پامالی پر سزا دینے کے حق میں ہیں21فیصد ان کو معاف کرنے جبکہ 18فیصد نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔ 64فیصد عوام نے ایمرجنسی کے نفاذ پر مواخذے اور انہیں ہٹانے کے حق میں رائے دی 11فیصد اس کو غلطی نہیں سمجھے۔ 23فیصد نے درمیانی رائے جبکہ 2فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔ یہ سروے 15مئی کے بعد کیا گیا جس میں پاکستان کے مختلف شہروںاور دیہاتوں سے مختلف آمدنی والے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے لوگوں سے رائے لی گئی یہ سروے چاروں صوبوں کے عوام سے کیا گیا ہے 8سال قبل جب صدر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو 70فیصد عوام نے ان کی حمایت کی تھی جو گیلپ کے اس وقت کے سروے سے ثابت ہوتا ہے 2007ء کے شروع میں 60فیصد عوام انکے مخالف تھے حالیہ سروے میں نواز شریف ملک کے مقبول ترین رہنما اور صدرپرویز مشرف سب سے غیر مقبول شخصیت بن چکے ہیں سروے رپورٹ کے مطابق صدر پرویز مشرف 59فیصد عوام کی ناپسندیدہ شخصیت ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین 53فیصد کی ، آصف علی زرداری 26فیصد کی ، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی 17فیصد اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما میاں نواز شریف 13 فیصد عوام کی ناپسندیدہ شخصیت ہیں ‘ 47 فیصد عوام کا یہ خیال ہے کہ صدر پرویز مشرف کے اقتدار میں رہنے کی وجہ صرف امریکی حمایت اورپشت پناہی ہے ۔ 26 فیصد انکے اقتدار میں رہنے کی وجہ فوج کو 8فیصد پاکستانی عوام کو سمجھتے ہیں جبکہ 14فیصد انکے اقتدار میں رہنے کے حق میں اور 5فیصد نے کوئی رائے نہیں دی

مجوزہ آئینی پیکج کے مختصر نکات

مجوزہ آئینی پیکج میں آئین توڑنے اور انہیں تحفظ دینے والوں پر غداری کے مقدمات چلانے
ایک بار پھر چیف جسٹس کا عہدہ حاصل کرنے والا دوبارہ اس عہدے پر فائز نہ ہونے
اہم تقرریوں کے اختیارات وزیراعظم تفویض کرنے ، صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے
ججز کی بحالی کا طریقہ کار اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے طے کرنے ، 58-2-B کے خاتمے ، سپریم کورٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمائندگی دینے
وزیر اعظم موجود نہ ہونے پر کابینہ کے سینئر ترین وزیر کو یہ اختیارات دینے سمیت اہم نکات کو شامل
مقامی حکومتوں سے انتظامیہ کے اختیارات واپس لے کر صوبوں کو دینے اور قدرتی وسائل کی 50 فیصد آمدنی پر صوبوں کا حق تسلیم کرنے کی تجویز بھی شامل

ججز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے لئے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل فیڈرل جوڈیشل کونسل کے قیام کی تجویز ہے
پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے مجوزہ آئینی پیکج میں آئین توڑنے اور انہیں تحفظ دینے والوں پر غداری کے مقدمات چلانے ، ایک بار پھر چیف جسٹس کا عہدہ حاصل کرنے والا دوبارہ اس عہدے پر فائز نہ ہونے ، اہم تقرریوں کے اختیارات وزیراعظم تفویض کرنے ، صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے ، صدر کو وزیراعظم سے مشاورت کا پابند بنانے اور ججز کی بحالی کا طریقہ کار اتحادی جماعتوں سے طے کرنے58-2-B کے خاتمے ، سپریم کورٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمائندگی دینے ،وزیر اعظم موجود نہ ہونے پر کابینہ کے سینئر ترین وزیر کو یہ اختیارات دینے سمیت اہم نکات کو شامل کیا گیا مسودہ 80نکات پر مشتمل ہے ججز کی مدت ملازمت کے فیصلے کو مشاورت سے طے کرنا بھی آئینی پیکج کے نکات میں شامل ہے۔ مجوزہ آئینی پیکج حکمران جماعت میں شامل تمام جماعتوں کے سپرد کردیا گیا ہے آئینی پیکج پر غور کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) جمعیت علماء اسلام (ف) اور دیگر حکومتی جماعتوں نے خصوصی کمیٹیاں قائم کر دیں ہیں ججز کی بحالی کا طریقہ کار آئینی پیکج کا حصہ نہیں ہے اسی طرح ججز کی مدت ملازمت کا فیصلہ بھی حکمران اتحاد مشاورت سے کرے گا مجوزہ آئینی پیکج کے تحت ایک بار چیف جسٹس کا عہدہ حاصل کرنے والے دوبارہ اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکے گا آئینی پیکج کے حوالے سے حکومتی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کا اجلاس بھی آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے جس میں پی ڈی اے کے قائدین سمیت وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی شرکت کریں گے۔اتحادی جماعتوں نے تجویز دی ہے کہ اتحادیوںکا اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہونا چاہیے ۔ مجوزہ آئینی پیکج میں بیشتر نکات پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروںکے استحکام سے متعلق ہیں۔ ذرائع کے مطابق مجوزہ آئینی پیکج میں سپریم کورٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمائندگی ، قدرتی وسائل کی پچاس فیصد آمدنی صوبوں کو دینے ، بلوچستان میں لیویز کی بحالی مقامی حکومتوں سے انتظامیہ کے اختیارات واپس لے کر صوبائی حکومتوں کو دینے کی تجاویز بھی شامل ہیں ۔آئینی پیکج میں کہا کہ ججز کی مدت ملازمت آرٹیکل 179اور 195کے بارے میں اتحادیوں کے صلاح مشورے سے طے کی جائے گی ۔ آرٹیکل 243اے ججز کی بحالی کا معاملہ 270سی سی کے حوالے سے فیصلہ آئینی پیکج میں خالی چھوڑ ا گیا ہے ۔ آرٹیکل پیکج کے مطابق 270ٹرپل اے ججز کی بحالی کے طریقہ کار اور 3نومبر کے اقدامات سے متعلق ہے اس بارے میں بھی اتحادیوں کے ساتھ صلاح مشورے سے کیا جائے گا ۔آرٹیکل 1دن میں صوبہ سرحد کا نام پختون خواہ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آرٹیکل 6آئین توڑنے والوں سے متعلق ہے اس میں اب آئین توڑنے والوں اور ان کو تحفظ دینے والوں پر غداری کی سزا تجویز کی گئی ہے اور ان پر غداری کا مقدمہ درج کرایا جائے گا جبکہ آئینی پیکج میں جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے متعلق ہے اس میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف ہائی کورٹس کے عہدے کی معیاد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر 65سال سے 68سال اور ہائی کورٹ کے ججز کی عمر 62سے 65سال کرنے کی تجویز ہے ۔دوسری بار چیف جسٹس نہ بننے کے حوالے سے تجویز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے لئے یہ آپشن رکھا جائے گا کہ یا تو وہ ریٹائرڈ ہو جائیں ۔ اس پر انہیں تنخواہ اور مراعات ملی گئیں اور اگر وہ اپنی مدت ملازمت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس میں انہیں چیف جسٹس کی مراعات اور پیکج ملے گا اور وہ اپنی سروس کو 68اور 65سال تک جاری رکھ سکیں گے ۔ اس تجویز میں چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیار ات میں بینجوں کو تشکیل دینے کے معاملے میں بھی قداغن لگائی گئی ہے ۔آئین کے آرٹیکل 1843میں عوامی اہمیت کا شامل کیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی مفاد عامہ کا مسئلہ آئے گا اس میں کم از کم پانچ ججز پر مشتمل بینج سماعت کرے گا اور بینج کی تشکیل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز کریں گے ۔ آرٹیکل 209جو ججز کے احتساب سے متعلق ہے ۔ اس میں 209-Aجس میں ایک فیڈرل جودیشل کمیشن تشکیل دیا جائے گا ،کی تجویز دی گئی ہے ۔ جس میں ریٹائرڈ ججز کو شامل کرنے کی تجویز شامل ہے ۔کمیشن آکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا پہلے صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ریفرنس بھیجا جا سکتا تھا لیکن اب اس ترمیم میں عدالت عظمی اور عدالت عالیہ دونوں کے چیف جسٹس صاحبان کے ریفرنس بھیجنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ آئینی پیکج میں 58ٹو بی کے خاتمے کی تجویز بھی شامل ہے اسی طرح چیف الیکشن کمشنر سروس چیفس اور آرمی چیف کی تقرری کے تمام اختیارات صدر سے وزیر اعظم کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ اس حوالے سے نئے آرٹیکل کا اضافہ نکات میں شامل ہے ۔ آئینی پیکج میں شامل ہے کہ وزیر اعظم کسی بھی وجہ سے موجود نہ ہوں یہ نہ اہل ہو جائیں تو ایسی صورت میں وفاقی کابینہ کا سینئر ترین وزیر بطور وزیر اعظم کا چارج سنبھال لے گا اور اپنے فرائض ادا کرے گا ۔

مشرف کو معافی دینے والے اس کے جرائم میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ احسن اقبال



اسلام آباد ۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے کہا ہے کہ پارٹی کے قائد محمد نواز شریف اور صدر محمد شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی منظوری نے عام انتاخبات میں جنرل مشرف کے دھاندلی ک ے ایک اور منصوبے کا پول کھول دیا ۔ ان رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی کی منظوری نے جنرل پرویز مشرف ، پرویز الہی اور پی سی او ججوں کی اس سازش کو ناکام کردیا جس کے تحت وہ نواز شریف کو قومی اسمبلی اور شہباز شریف کو صوبائی اسمبلی میںپہنچنے سے روکنا چہاتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف اور شہباز شریف کی کامیابی جمہوریت کے لیے بہت بڑا تحفہ ہو گی اور ملک میں جمہوری قوتوں کی طاقت میں بے اپناہ اضافہ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے گزشتہ آٹھ سالوں میںپاکستان کو تباہ وبرباد کردیا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تمغہ دے کر رخصت کیا جائے انہوں نے کہاکہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانیوالے مجرم کا احتساب چاہتے ہیں ۔12 اکتوبر 99 ء کو جب جنرل مشرف نے مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے ملک چھینا تھا توپاکستان میں بجلی ، آٹا ، گیس اور عدلیہ نام کے کسی بحران کا وجود نہیں تھا لیکن آٹھ سالوں میں انہوں نے ہنستے بستے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے اندھیر نگری بنا کر اور آٹا و گندم ،بحران سے فاقہ زدہ بنا کر جمہوری قیادت کے حوالے کردیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے جرائم میں قدر گھناؤنے ہیں کہ جو بھی انہیں معافی دے گا وہ بھی ان کے جرائم میں برابرکا حصہ

ججز کی برطرفی کا اختیار سپریم جوڈیشنل کمیشن کو دینے کی تجویز دے دی گئی

اسلام آبا د ۔ وکلاء اور پاکستان مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کی جانب سے میاں نواز شریف کو پیش کئے گئے مجوزہ آئینی پیکیج کے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔آئینی پیکج میں ججز کی برطرفی کا اختیار سپریم جوڈیشنل کمیشن کو دینے کی تجویز دی گئی ہے ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان آئینی پیکیج کے مسودے کے بیشتر نکات پر اتفاق ہو گیا ہے تاہم کچھ نکات پر مسلم لیگ ن اور وکلاء اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وکلاء نے کہا ہے کہ یہ آئینی پیکج صرف دو افراد کے لیے بنایا گیا ہے اس میں معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت کم اور عبدالحمید ڈوگرکی مدت ملازمت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔وکلاء نے کہا ہے کہ ایسے کسی آئینی پیکج کو قبول نہیں کیا جائے گا جس میں عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر آنچ آئے ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی طرف سے آئینی پیکیج کو حتمی شکل دینے کے بعد مسودے کو اتحادیوں تک پہنچانے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ ابھی اس پر مشاورت جاری ہے جس کے بعداس آئینی پیکج میں تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں آئینی پیکیج میں ججوں کی برطرفی کا اختیار سپریم جوڈیشنل کونسل کے بجائے جوڈیشنل کمیشن کو دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ صدر کو اختیار ات کے استعمال کیلئے وزیر اعظم کے مشورے کا پابند بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ آئینی پیکیج کو پارلیمنٹ میں بحث کیلئے اتحادیوں کی مشاورت کے بعد پیش کیا جائے گا جبکہ میاں نواز شریف نے وزیر قانون سے ملاقات میں کہا ہے کہ مل کر چلیں گے تو بچیں گے۔

القاعدہ کے پاس کوئی ایٹم بم ہے نہ القاعدہ ایٹم بن بنا سکتی ہے سب جھوٹ کا پروپیگنڈہ ہے، ڈاکٹر عبدالقدیرخان



اسلام آباد۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہاہے کہ القاعدہ کے پاس کوئی ایٹم بم ہے نہ القاعدہ ایٹم بن بنا سکتی ہے سب جھوٹ کا پروپیگنڈہ ہے روس اقتصادی صورتحال سے ٹوٹا تھا جبکہ گوربا چوف نے امریکی صدر ریگن کے ہاتھوں خود کو بیچ دیا تھا پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو کارگل جنگ کے وقت بھارت لاہور پر قبضہ کر لیتا۔ اتوار کو ایک ایف ایم ریڈیو کو انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہاکہ اللہ کے فضل سے صحت بہتر ہو رہی ہے علاج جاری ہے قوم کی دعائیں ساتھ ہیں ڈاکٹرز اپنی دوا کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ میں نے جس ماحول میں بیان دیا تھا قوم اس سے آگاہ ہے جنرل اسلم اور جنرل حمید گل کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے انہوں نے ملکی مصلحت اور قومی مفاد کی وجہ سے اعترافی بیان دیا تھا کسی دباؤ کے تحت ایسا نہیں کیاتھا وقت گزر گیا ہے اس کے باوجود مجھے تختہ مشق بنایا جارہا ہے انہوں نے کہاکہ ایٹمی مواد کے سامان کی فروخت کے حوالے سے جس طاہر نامی شخص کا نام لیا جارہا ہے ان کے ساتھ ان کا کبھی کووی تعلق نہیں تھا یہ شخص مغربی ممالک میں لوگوں سے ملتا تھا بزمین ہے معربی ممالک اس کے ذریعے کاروبار کرتے تھے ظاہر یہ شخص کمیشن لیتا ہو گا تاہم میرا اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا کسی کا دباؤنہیں بلکہ بعض مخلص دوستوں کے مشورہ پر اعترافی بیان دیا تھا اس بیان کے معاملے کو ختم کر دیا انہوں نے کہاکہ ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے ملک کا دفاع ممکن ہوا ہے ایسا نہ ہوتا تو بھارت کب کا پاکستان پر ایک بڑی جنگ مسلط کر دیتا

شیخ رشید احمدنے عوامی مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت کا اعلان کر دیا



راولپنڈی ۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے مسلم لیگ (ق) سے مستعفی ہوتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے نام سے اپنی نئی جماعت کا اعلان کر دیا ہے ۔ انہوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ان کی جانب سے این اے 55کے ضمنی الیکشن کیلئے بیگم نسیم نامی خاتون امیدوار کو نامزد کیا گیا ہے اس امر کا اظہار انہوں نے اتوار کو لال حویلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شیخ رشید احمد نے کہاکہ یلو کارڈ دکھایا جاچکا ہے آصف علی زرداری اس کا اشارہ دے چکے ہیں انہوں نے کہاکہ وہ طویل انگز نہیں دیکھ رہے ہیں مختصر کھیل دیکھ رہے ہیں ضمنی انتخابات بھی زیادہ مدت کیلئے نہیں دیکھ رہا ہوں انہو ںنے کہاکہ حالات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں لوگ حوصلے سے کام لیں ملک میں خود کشی کا رحجان تشویش ناک ہے لوگ حوصلے نہ ہاریں انہوں نے کہاکہ سیاسی صنعتکاروں اور جاگیر داروں کو دو دو تین تین بار وقت دیا گیا لوگوں کے اعتماد پر پورا نہیں اترے بد اعتمادی کی فضا ہے حالات انہائی سنگین ہی ں۔ تاہم حکمران اتحاد کیلئے دعا گو ہوں انہوں نے کہاکہ انتخابات بنیادیں ہلا دیتے ہیں عوام انتخابات میں درست فیصلے کرتے ہیں مگر ملک کی بدقسمتی ہے انہوں نے کہاکہ دو تین ماہ میں ایک بڑا سیاسی گروپ ان کی جماعت میں شامل ہو جائے گا ورکروں اور محروم پسماندہ طبقات کی حمایت ہو گی ۔ ییلو کارڈ دکھا دیا گیا ان سے حکومت نہیں چل رہی جبکہ ملک کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جسے پارلیمنٹ میں کسی اپوزیشن اور چیلنج کا سامنا نہیں ہے بھاری کم مینڈیٹ کو زیادہ وقت نہیں دیکھ رہا ہوں صدر مملکت حکومت کے کسی فیصلے میں رکاوٹ نہیں ہیں سارے معاملات طے ہیں یہ عوام کی توجہ دوسری طرف سے ہٹا رہے ہیں انہو ںنے کہاکہ ابھی سابقہ سٹوریاں اور کلپ دکھا رہا ہوں ٹاپ ٹو باٹم سب اس میں شامل ہیں عوامی مسلم لیگ عوام کے گرد گھومے گی خواص کی جماعت نہ ہو گی عوام سیاستدانوں سے زیادہ سمجھدار ہیں انہوں نے کہاکہ اقتدار کی اپنی اور اپوزیشن کی اپنی باتیں ہوتی ہیں جس طرح یہ ہمیں لیتے ہیں تھے ہم بھی ان کو اس طرح لیں گے ہم نے پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے صدر کی حمایت کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہاکہ میں نے انہیں ووٹ دیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جو لوگ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اب اس میں کیڑے کیوں نکال رہے ہیں میں نے مسلم لیگ (ق) کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا ہے پنڈی میں جینا مرنا ہے موجودہ حکومت کی مدت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ انگز کو جلد سمیٹا جائے گا شاید کچھ اور منظر ہو انہو ںنے کہاکہ موجودہ حکمران اتحاد کے پاس ججز کی بحالی کیلئے مطلوبہ ارکان کی تعداد موجود ہے شروع دن سے مائنس ون کا فارمولا چل رہا ہے۔

سانحہ لال مسجد قتل عام تھا ، تحقیقات ہونی چائیں ، ججوں کی بحالی کی تحریک کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ اعجازالحق

اسلام آباد ۔ سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اعجاز الحق نے لال مسجد آپریشن کو قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرستان طرز پر اس آپریشن کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی تھی انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں انہوں نے ججز کی بحالی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں دعوت دی گئی تو وہ اس میں شامل ہوں گے ۔ ایک نجی ٹیلی ویژن پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعجاز الحق نے کہا کہ 28 فروری کے انتخابات میں ہارنے والے امیدواروں کی نسبت انہیں زیادہ ووٹ ملے ہیں انہوں نے کہا ایسا لگتا ہے کہ ٹارگٹ دھاندلی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے ایک پروگرام بنا تھا جس کا این آر او ایک حصہ تھا اور اس کے مطابق پیپلزپارٹی اور اعتدال پسندوں کو لے کر آنا ہی ہے ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ ق لیگ کے چند راہنماؤں نے این آر او کی مخالفت کی تھی اور اسی لئے این آر او کی مخالفت کے بعد انہیں میٹنگ میں نہیں بلایا گیا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ بے نظیر بھٹو امریکہ کے کہنے پر معاہدے کے تحت پاکستان آئیں تو سعودی عرب والوں نے نوٹس لیا ۔ صدر جنرل پرویز مشرف کو سعودی عرب کا دورہ کرنا پڑا ۔ طے پایا کہ نواز شریف بھی واپس آئیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ الیکشن سے ایک سال پہلے فیصلہ ہو گیا تھا کہ ایم ایم اے کو ختم کر دیا جائے گا ۔ لال مسجد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش تھی کہ معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرایا جائے ۔ اسی لئے کابینہ میں ان پر تنقید کی جاتی تھی اور صدر پرویز مشرف نے ذاتی طور پر بھی گلہ کیا کہ میرے کہنے پر انہوں نے مولانا عبدالرشید کو چھوڑا تھا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ انہیں آخری دن معلوم نہیں تھا کہ آپریشن ہونا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لال مسجد آپریشن میں فائرنگ صبح 4 بجے شروع ہوئی تھی ۔ انہوں نے کہا ک پہلے 19 اپریل کو آپریشن ہونا تھا جسے چوہدری شجاعت حسین کے کہنے پر ملتوی کیا گیا تھا اور متعدد اجلاسوں میں انہوں نے کہا کہ غیر متعلقہ افراد کے لال مسجد میں جانے کو روکا جائے اور مسجد کی مکمل نگرانی کی جائے تاکہ کوئی بھی اندر اور باہر نہ جا سکے ۔ اس طرح مسئلہ پرامن طریقے سے حل ہو جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سے پہلے رات پونے چار بجے ہمیں لال مسجد سے چلے جانے کو کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا ۔ اور اسے قتل عام بھی کہا جا سکتا ہے ۔ فریقین کی طرف سے ضد کی وجہ سے ہوا اور جس دن ایک کرنل شہید ہوئے اس دن کے بعد معاملات بگڑتے ہی چلے گئے کیونکہ کرنل کو گولی اندر سے ماری گئی تھی ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ ان کے خیال میں کابینہ سے اس آپریشن کی منظوری نہیں لی گئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس طرح کا آپریشن تھا جیسا وزیرستان میں ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ حقیقت تک پہنچا جا سکے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے تازہ بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اندرونی کہانی انہیں معلوم نہیں تاہم شنید ہے کہ خارجی دباؤ کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے صدر سے ملاقات میں اعتراف کر ایا تھا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ جو بھی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان کے ہیرو ہیں اور ان سے زبردستی قوم کے سامنے اعتراف نہیں کر اا جانا چاہئے تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ابھی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کو جو فیصلے کئے گئے تھے وہ مارشل ایڈمنسٹریٹر کے فیصلے تھے اور 12 اکتوبر کو بھی مارشل لاء لگا تھا اور آئین سے ماورا اقدامات کئے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ 9 مارچ کو وزیر اعظم کے ساتھ ازبکستان جا رہے تھے ۔ لیکن بعد میں ملتوی ہوا اور پھر چلے گئے اور جہاز میں انہوں نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے کہا تھا کہ یہ بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے اعجاز الحق نے کہا کہ افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس بحال ہونا چاہئے اور اگر دعوت دی گئی تو تحریک میں شامل ہوں گے اور ق لیگ کی اکثریت اس حق میں تھی کہ ان کی حکومت خو د ہی چیف جسٹس کو بحال کر دے اور چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ مل کر انہوں نے کوشش بھی کی لیکن صدر اور وزیر اعظم نہ مانے ۔ سابق وزیر اعجاز الحق نے کہا کہ صدر پرویز مشرف اپنی مرضی سے کرسی صدارت پر براجمان نہیں ہیں ۔ پس منظر میں کچھ ان کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور پیپلزپارٹی کی مرضی بھی اس میں شامل ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2002 ء کے انتخابات میں ان کے حلقے میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تھی انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز کو باہر سے لا کر وزیر اعظم بنانے والوں نے غلطی کی تھی اور اگر شوکت عزیز کے خلاف کوئی شواہد ہیں تو انہیں واپس بلانا چاہئے اور وہ خود بھی آ سکتے ہیں

کابل میں فوجی بس کو ریموٹ کنڑول بم سے اڑا دیا گیا ، ٣ اہلکار ہلاک ٦ زخمی

کابل ۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سڑک کے کنارے نصب ریموٹ کنڑول بم دھماکے میں فوجی بس میں سوار تین اہلکار ہلاک ہو گئے افغان وزارت دفاع کے مطابق دھماکے میں چھ زخمی بھی ہوئے۔ تاہم وزارت دفاع کے مزید تفصیلات نہیں بتائیں بس سے پہلے افغانستان سیکورٹی فورسز اور اتحای افواج نے ملک کے جنوب مغربی علاقے میں سو سے زائد طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ افغان وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز نے فراح صوبے کے ضلع بکوا میں دو روزہ آپریشن کے دوران سو سے زائد طالبان کو ہلاک کر دیا ہے

پرویز مشرف قومی مجرم ہیں، آرٹیکل ٦ کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے ۔۔ لیاقت بلوچ




٭۔ ۔ ۔ بجٹ میں ریلیف کی کوئی توقع نہیں، سٹیٹ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں نے ہماری معیشت کیلئے خطرات کی گھنٹی بجادی
لاہور ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اے پی ڈی ایم کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا معیشت مضبوط نہیں ہوگی۔ تاجر برادری کو مطمئن کئے بغیر اور ٹیکسز کے نظام میں اصلاح کے بغیر ملکی ترقی کا پہیہ ٹریک پر نہیں چڑھ سکتا۔ پرویز مشرف قومی مجرم ہیں ۔ آرٹیکل 6کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج منصورہ میں پاکستان بزنس فورم پنجاب کے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس سے سید وقاص جعفری اور بزنس فورم پنجاب کے صدر سمیع اللہ بٹ نے بھی خطاب کیا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکمران اتحاد کی جانب سے جو آئینی پیکج لایا جارہا ہے اس میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو بھی بحال رکھنا شامل ہے یہ وکلاء کی آزاد عدلیہ کی تحریک کی نفی ہے اسے نہ اے پی ڈی ایم اور نہ ہی وکلاء قبول کریں گے۔ ہمارا موقف ہے کہ 2نومبر کی پوزیشن پر ججو ںکی بحالی کے بغیر یہ بحران ختم نہیں ہوسکتا۔ دونوں ایوانوں میں حکمران اتحاد کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے اسے سنجیدگی کے ساتھ قومی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے قدم بڑھانے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کے مواخذے ، ججز کی بحالی کو آئینی پیکج اور بیرونی دباؤ کے تحت التواء کا شکار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ کا مرحلہ آرہا ہے۔ قومی اسمبلی وسینٹ کا اجلاس بلالیا گیا ہے۔ ملک معاشی بحران سے دوچار ہے۔ صنعت وزراعت تباہ حال ہے کوئی مکمل وزیر خزانہ نہیں ہے۔ بجٹ کی تیاری کے مراحل کو ضائع کردیا گیا ہے۔ اس لئے کوئی بڑی توقع نہیں کہ عوام کو اس بجٹ سے ریلیف ملے گا۔ انہوں نے کہاکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو قومی اقتصادی کونسل، عوام کو مطمئن کئے بغیر ختم کردینا ثابت کرتا ہے کہ جمہوریت، پارلیمنٹ اورعوام کی بات کرنے والے اس میدان میں مخلص نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سٹیٹ بینک، عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ نے ہماری معیشت کیلئے خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ ہماری معیشت پہلے سے زیادہ قرضوں میں دب گئی ہے۔ فنانشل مس مینجمنٹ پہلے سے زیادہ بدتر شکل اختیار کرچکی ہے۔ آٹھ سالوں میں گڈ گورننس دینے کی بجائے مراعات یافتہ کو نوازا گیا۔

کیا واشنگٹن ایک غیر مستحکم پاکستان میں دلچسپی رکھتا ہے,عوام کیخلاف ایک بہت بڑی سازش : تحریر اے پی ایس ،اسلام آباد

آئینی پیکج کی منظوری تک پارلیمنٹ خطرے میں رہے گی کیونکہ ماضی کی ترامیم نے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کیلئے ایسی تمام ترامیم کا خاتمہ ضروری ہے کا لا باغ ڈیم کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں بحث کرانا ضروری نہیں ہے یہ ایک سیاسی معاملہ تھا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے پارلیمنٹیرینز ، سیاستدانوں اور میڈیا کوکردار ادا کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔ پارلیمنٹ کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگااور ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو پارلیمانی جمہوری نظام کے راستے میں حائل ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ دنوں مسلم دنیا کی پہلی خاتون اول سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے صحافیوں کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیہ کے موقع پر کیا۔ انہوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کے انتظامات کئے جارہے ہیں لیکن میڈیا کارروائی کے حذف شدہ حصے ہرگز شائع اور نشر نہ کرے، 8سالہ آمریت کے بعد جمہوریت پنپنے لگی ہے اب مثبت پہلووں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے سیشنز کیلئے پارلیمنٹ کیلنڈر تیار کرلیاگیا ہے ۔ بچت مہم کے تحت قومی اسمبلی بجٹ کے 35کروڑ روپے حکومت کو واپس کردےئے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں میڈیا اور پارلیمان کے درمیان بہتر اور قریبی رابطے ضروری ہیں۔ میڈیا پارلیمنٹ کے فیصلوں کوعوام تک پہنچانے کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے ، اس کردار کو وسعت دینا ضروری ہے ۔ جس کیلئے قومی اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ عوام کی پارلیمنٹ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔ صحافیوں اور سیاسی ورکرز نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اسی لئے 8سالہ دور آمریت کے بعد جمہوریت کی بحالی کو ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے ۔ جس کا احساس مجھے آئی پی یو کی کانفرنس سے ہوا جو حال ہی میں جنوبی افریقہ میں منعقد ہوئی تھی ۔ آئی پی یو پارلیمنٹ کے اجلاس کی صدارت دراصل پاکستان کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ انہوں نے کہاکہ 8سالہ آمریت کے بعد ملک میں جمہوریت پنپنے لگی ہے ۔ ہمیں منفی کے بجائے مثبت پہلوو¿ں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ اسپیکر نے میڈیا سے کہاکہ قومی اسمبلی کی کارروائی کے حذف شدہ حصوں کو ہرگز شائع اور نشر نہ کیاجائے۔ اس بارے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔مسائل اجاگر کرنے اور پالیسی سازی میں میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو پارلیمان کے باہر فیصلے کرنے کے اختیارات حاصل ہیں کیو نکہ قوم نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے اور جب یہ معاملہ اسمبلی میں لایا جائے تو اس پر ارکان اسمبلی بحث کریں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ تجویز کردہ قانونی سازی کے معاملات پر اپنا ابتدائی کام مکمل کریں ،انہوں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک سیاسی معاملہ تھا اور تین صوبوں نے ویسے بھی اس کے خلاف قراردادیں پاس کردیں تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔اسیر ارکان پارلیمنٹ کو پیش کرنے کے اصول پر عملدرآمد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پر قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں نے ماضی سے سبق سیکھ لئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزراءکی پارلیمان میں موجودگی کو یقینی بنانا پارٹی قائدین کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ بھی اس معاملے پر نظر رکھیں گی تا کہ ارکان اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہوں۔ سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے گزارش ہے کہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران صحافیوں کو پریس کارڈ حاصل کرنے میں دشواری کو بھی ختم کیا جائے کیونکہ سابقہ اجلاسوں کے دوران کارڈ جاری کرے والے متعلقہ ا ہلکاروں کا رویہ دیکھنے میں یہ آیا ہے ایسے صحافی جن کی ایکریڈیشن کے علاوہ اپنے اخبار یا ایجنسی کے ڈیکلریشن بھی ہیں ان کو بھی پریس کارڈ حاصل کرنے میں ذلیل کیا جاتا ہے جبکہ ان کا یہ حق ہے اور متعلقہ اہلکاروں کا یہ فرض ہے کہ قومی اسمبلی کے پریس کارڈ کے اجراء اور اس کے حصول میں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ جبکہ سپیکر قو می اسمبلی سے گزارش ہے کہ وہ پی آئی ڈی سے نئی میڈیا لسٹ منگوائیں تاکہ اس کے مطابق بعد میں شامل ہونے والے ایکریڈٹ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔ کیونکہ ہر اجلاس کے دوران ان اداروں کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے جبکہ فٹ پاتھوں پر ملنے والے صحافی جن کی کسی اخبار یا کسی بھی صحافتی ادارے سے وابستگی نہیں وہ کارڈ پہلے حاصل کر لیتے ہیں۔ اور اس بات کا بھی سختی سے نوٹس لیا جائے کہ ایک ادارے کو بیس بیس کارڈ جاری کر دیے جاتے ہیں جبکہ کسی ادارے کو ایک کارڈ بھی جاری نہیں کیا جا تا اس ضمن میں سپیکر قو می اسبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن ، اور پی آئی او چودھری غلا م حضور باجوہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ تما م اداروں کے ساتھ اگرچہ یکساں سلوک نہیں کیا جا تا تو کم از کم کسی کو نظر انداز بھی نہ کیا جا ئے۔ اگرچہ بڑے اداروں کا پارلیمانی رپورٹنگ کہلئے سٹاف زیادہ ہے لیکن کسی کو یہ بھی حق نہیں پہنچتا کسی ادارے کے اٰ یڈ یٹر کو نظر انداز کر کے کسی دوسرے ادارے کے کیمرہ مین کو تر جیح دیں۔ مذکورہ بالا حکام سے آخری گزارش ہے کہ متعلقہ اہلکار جو اسمبلی کے پریس کارڈ کے اجراءکے فرائض پر مامور ہیں انھیں یہ بھی پتہ ہو کہ ڈائر یکٹر( پارلیمنٹ) پریس، پی آئی ڈی بڑا ہوتا ہے یا پی آئی او کیونکہ گذشتہ دنوں راقم الحروف کا پریس کارڈ کے حصول کیلئے پی آئی ڈی جانے کا اتفاق ہوا۔اس ضمن میں راقم الحروف نے ایک درخواست اور ایکریڈیشن کارڈ کی کا پی متعلقہ برانچ کے ایک اہلکار کو دی۔ یہ اہلکار جو کارڈ بنانے کے فرائض پر ما مور ہے وہ اس ادارے کا نائب قاصد تھا وہ تکرار کرنے لگا کہ آپ درخواست پر میڈم کے دستخط کروالیں میں نے اسے کہا کہ جب پی آئی او صاحب نے ایکریڈیشن کا رڈ پر دستخط کئے ہوئے ہیں تو میڈم کے دستخطوں کی کیا ضرورت ہے میں نے اسے مزید کہا کہ آپ یہ درخوست میڈم کو دے دینا وہ خود دیکھ لے گی کہ اس کا کا رڈ بنا نا ہے کہ نہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اہلکار جنہیں یہ معلوم نہیں کہ پی آئی او بڑا ہوتا ہے یا ڈائریکٹر یا اگر انھیں یہ ساری باتیں معلوم ہیں تو سمجھ لیں کہ وہ خواہ مخواہ دوسرں کو پریشان کر رہے ہیں۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ماضی میں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھی رہے تاہم دوستی کو نظر لگ گئی اور سازشوں کے ذریعے فاصلے پیدا ہوئے، وہ ہفتہ کو شاہی سید کی رہائش گاہ پر اے این پی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی سے ٹیلی فون پر گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں 12مئی کے واقعات پر افسوس ہے ، انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہم قریب آگئے اور دوستیاں مضبوط ہو رہی ہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی پشتو اور اردو بولنے والوں کے درمیان بھائی چارے کیلئے کام کرے گی، ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرکے آگے بڑھنا چاہئے ہم کل بھی بھائی تھے اور آج بھی بھائی ہیں انہوں نے کہا کہ آئینی پیکیج میں صوبے کا نام پختون خواہ نام رکھنا خوش آئند ہے، اسفند یار ولی نے کہا کہ آپ بھی بھائی چارہ اور امن کی کوشش کریں اسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، نیک نیتی سے کام کرکے لوگوں کے مسائل حل کرینگے، آئندہ کسی سازش کا شکار نہیں ہونگے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہے ۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور عوامی نیشنل پارٹی نے سانحہ 12مئی 2007ء کی تحقیقات عدالتی کمیشن کے ذریعے کرانے پر اتفاق کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ میں ملوث مجرموں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار ، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کے ہمراہ شاہی سید کی رہائش گاہ پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر محمد امین خٹک ، ایم کیو ایم کے رہنما بابر خان غوری، شعیب احمد بخاری ، وسیم آفتاب و دیگر بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں اے این پی کے رہنماو¿ں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ملاقات کا اہتمام کیا، یہ ملاقات ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی خواہش پر کی جارہی ہے اور اس سے دونوں جماعتوں کے درمیان محبت اور اخوت بڑھے گی، غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا اور دونوں جماعتیں ملکر شہر کراچی کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں گی ۔ انہوں نے کہا کہ 1980ء کی دہائی میں ایک سازش کرتے ہوئے کراچی میں قیام پزیر اکائیوں کو دست گریباں کرایا گیا اس موقع پر قائد تحریک الطاف حسین نے جیل سے ولی خان کے نام لکھے گئے خط میں باچا خان کے فلسفے سے اتفاق کرتے ہوئے یہ پیغام دیا تھا کہ سازشوں کا قلع قمع کیا جائے اور بھائیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے ، ہم آہنگی کا یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن اس کے ساتھ سازشیں بھی چلتی رہیں، انہوں نے کہا کہ اے این پی اور ایم کیو ایم ہمیشہ فطری اتحادی رہی ہیں اور دونوں نے کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے اس بات کا شدت سے احساس کیا جارہا تھا کہ غلط فہمیاں دور کی جائیں ، دل سے ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور کراچی میں موجود کثیر یکجہتی بحران سے مشترکہ طور پر نمٹا جائے انہوں نے کہا کہ آج ہماری دونوں کی کوششیں رنگ لائیں اور ہم اس موقع پر قوم کو خوشخبری دینا چاہتے ہیں، ہمارے درمیان بہت سے ایشوز پر بات ہوئی ہے اور دونوں جماعتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اگر صوبائی سطح پر کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی ملکر مسئلے کا حل نکالیں گے ہم یہاں خلوص دل سے آئے ہیں اور مل جل کر کام کریں گے ، اسی میں سب کی بھلائی ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجلی وپانی کے بحران سے ملکر نمٹنا ہو گا۔ ایک سوال پر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ حالیہ رابطے کے سبب دوریاں ختم ہوں گی‘ فاصلے مٹیں گے اور جو خوف کی فضا ہے اس کا یقینا خاتمہ ہو گا۔ اس موقع پر اسفند یار ولی نے کہا کہ ہمارے درمیان دو تین باتوں پر تبادلہ خیال ہوا ہے اور اس بات پر اتفاق ہے کہ اس شہر کو دونوں جماعتوں نے روشنیوں کا شہر بنانے میں کردار اد اکیا ہے‘ ہمارے دو تین اہم ایشو ہیں جس پر بات کرنا چاہتے ہیں اس میں کچی آبادی‘ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم قبائلی علاقوں میں امن قائم کر سکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں‘ ہم متحد ہو کر مسئلے حل کر سکتے ہیں تاہم اس کے لئے ایک ہی ملاقات میں سب کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں جو قومی مفاہمتی عمل شروع ہوا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے دونوں جماعتیں آگے بڑھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی انا کو چھوڑ کر آگے جانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملاقات میں سارے معاملات ختم نہیں ہو سکتے اس کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک سوال پر اسفند یار ولی نے کہا کہ ہم نواز شریف کو بھی اس بات کے لئے ضرورت پڑنے پر تیار کریں گے کہ وہ کراچی میں امن کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ صوبائی قیادتیں ملکر مسئلے کا حل نکال لیں گی اور الطاف حسین کو زحمت نہیں دینا پڑیگی۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ تو حکومتوں میں شامل ہیں تو پھر یہ مطالبہ کس سے کررہے ہیں تو اسفند یار ولی نے کہا کہ ہم حکومت میں شامل ضرور ہیں لیکن حکومت میں اہم شراکت دار کوئی اور جماعت ہے جس کی رضا مندی ضروری ہے۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بات پر بالکل متفق ہیں کہ سانحہ 12 مئی کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ جبکہ عوام نے کہا ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت میں کارروائی اور اعتماد کی کمی نے ملک کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا ہے جبکہ شکست خوردہ لیکن ضدی صدر اس سیاسی نظام کو تباہ کرکے اپنا بدلہ لینے کیلئے پرعزم ہیں جس کو وہ قابو نہیں کرپائے۔ ایک ایسے وقت میں جب مختلف اقسام سے بھرپور اتحادی مجمع کی نہ کوئی سمت متعین ہے اور نہ اسے کسی بات کا پتا ہے، سیاسی قیادت اپنی صلاحیتوں سے ہونے والے نقصانات اور معاملات پر قابو پانے میں افسوس اور نا امیدی کے ساتھ ناکام ہو رہی ہے۔ مینڈیٹ بالکل واضح طور پر صدر پرویز مشرف کے خلاف تھا لیکن انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور زبردستی خود کو منوا رہے ہیں، امید کر رہے ہیں کہ دوسرے غلطیاں کریں گے اور انہیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس مل جائے گی اور ساکھ بحال ہوجائے گی۔ یہ خطرناک سوچ ملکی مفاد کے خلاف ہے اور اس سے ملک کو المناک نقصان ہوسکتا ہے جو کہ ان کی سوچ او رسمجھ سے بالاتر ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ایک ایسا اتحاد تشکیل دیا ہے جو بے رنگ ہے اور اصولوں، خیالات اور کسی بھی طرح کے معیار سے عاری ہے اور ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک قو می تجزیہ نگارنے یہ بھی کہا ہے کہ ملک کو جن بڑے، تباہ کن اور خوفناک سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں سیاستدان پریشان ہیں اور نہ ہی فوجی جرنیل۔ دونوں خاموشی کے ساتھ الزام اور ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر عالمی بینک اور امداد دینے والے دیگر مغربی اداروں نے ایسے سخت اور مشکل مطالبات کرنا شروع کردیئے ہیں کہ قومی اتحاد کی ایک حکومت کو بھی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ان پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آئیں گی؛ جس سے پہلے سے کچلے ہوئے عوام دل شکستہ اور بے یارو مددگار ہوجائیں گے۔ ایک مثال یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے الٹی میٹم دیا ہے کہ چند ماہ میں بجلی کے نرخوں میں 110 فیصد اضافہ کیا جائے یعنی بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت ساڑھے پانچ روپے سے ساڑھے 12 روپے ہوجائے گی۔ یہ مشورہ نہیں بلکہ ایک حکم ہے۔ سیاسی طور پر اس طرح کے اضافے کا مطلب کیا ہوگا یہ بالکل واضح ہے۔ اسی طرح سے صدر پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جوکروں کو انتخابات میں جتوانے کیلئے جس طرح سے ہر سخت اور مشکل فیصلے کو ٹال دیا، اس سے نئی حکومت کے پاس پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کرنے، اسٹاک ایکسچینج پر اثر انداز ہونے یا کسی اور طرح کی چالاکی دکھانے کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ مغربی طاقتیں، خصوصاً امریکا، اب تک پریشان ہیں کہ آخر کس کی حمایت کی جائے۔ آسان آپشن یہ ہے کہ صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور صدر پرویز کی حمایت جاری رکھی جائے لیکن امریکا کو یہ احساس نہیں کہ جب تک مشرف کرسی پر موجود رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آئیگا۔ اس ہی پریشانی میں نئی حکومت کی مدد کرنے کی بجائے، واشنگٹن پھندے کو مزید کسنے میں مصروف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے اس نے پاکستان کی جانب سے خرچ کی گئی رقم کی نقد ادائیگی روک دی ہے۔ اس نے سعودی عرب کے بازو بھی مروڑ دیئے ہیں کہ پاکستان کو سستا یا مفت تیل فراہم نہ کیا جائے جس طرح وہ ماضی میں آمروں کو فراہم کرتا رہا ہے۔ اس نے پاکستان پر دباو¿ ڈالنے کیلئے آئی ایم ایف / عالمی بینک کو بھی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے اپنے اسٹیٹ بینک، جسے نظام کی ناکامیوں کیخلاف دفاع کرنا چاہئے تھا، نے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجانا اور بحران سے خبردار کرنا شروع کردیا ہے۔ اسلئے اگر واشنگٹن ایک غیر مستحکم پاکستان میں دلچسپی رکھتا ہے تو یہ بہتر حکمت عملی ہوسکتی ہے لیکن اگر وہ یہ سوچ رہا ہے کہ اسلام آباد پر دباو¿ ڈال کر جمہوری تجربہ جلد ناکام ہوجائے گا اور پاکستانی عوام مخالف دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کیلئے ایک اور جرنیل فوجی حکمرانی نافذ کردے گا تو وہ بہت دور کی سوچ رہا ہے۔ تیزی سے گزرتے ہوئے گھنٹے، دن اور ہفتے ایک ایسی مستحکم حکومت کا تقاضا کرتے ہیں جو حقیقی مسائل کو حل کرسکے لیکن وہ ترکیب جو استعمال کی جا رہی ہے وہ ساکھ سے محروم صدر، پارلیمنٹ میں سمجھوتہ کرچکی سیاسی قیادت اور ہر غلطی پر پردہ ڈالنے والی لچکدار عدلیہ کا ملیدہ ہے۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔ لیکن وہ لوگ جنہیں فیصلہ کرنا ہے، صدر پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، آصف علی زرداری اور چیف جسٹس افتخار چوہدری، ایک ہی صفحے پر موجود نہیں ہیں، ہر کوئی اپنی انا کا غلام ہے، اور یہ سب ایک ایسا ملیدہ بنا رہے ہیں جسے نام نہاد جمہوریت کہتے ہیں اور جس کیلئے ہر کوئی چلّا رہا تھا۔ یہ عوام کیخلاف ایک بہت بڑی سازش ہے۔ ہر ایک کی جانب سے چالبازیاں کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ صدر کو بالآخر جانا ہی ہے کیونکہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں، اسلئے انہیں مستعفی ہوجانا اور نظام کو اپنے استحکام کے راستے تلاش کرنے دینا چاہئے۔ زرداری صاحب کو وہی کہنا چاہئے جو وہ سمجھتے ہیں اور مزید امیج اور ساکھ کو گرنے نہ دیں۔ تین نومبر کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردینا چاہئے لیکن اس وقت انہیں کام جاری رکھنے کا اشارہ دینا چاہئے تاکہ وہ کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں۔ جنرل کیانی جلد فیصلہ کرلیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور قوم کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے۔ یہ وہ ہی ہیں جن کی وجہ سے نیا نظام سنبھل نہیں پا رہا ۔ اصولوں پر چلنے والوں کو کوئی نہیں جھکا سکتا منزل حاصل کرکے رہیں گے۔ وکلا کوتقسیم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں،دیکھنا ہے بازوئے قاتل میں ابھی کتنا دم باقی ہے۔ عدلیہ کا وقار اور خود مختاری بحال کرنے کیلئے وکلا کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے قابل قدر کردار ادا کیا ہے آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلئے مل کرجدوجہد کرنی ہے دیکھنا ہے کہ بازوئے قاتل میں ابھی کتنا دم باقی ہے۔ مشن اور کاز بڑا نوبل ہے۔ 9 مارچ کے بعد وکلا نے تحریک کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔ جب آپ اصولوں پرچل رہے ہوں تو کوئی آپ کو جھکا نہیں سکتا عوام اپنی جدوجہد کو حتمی منزل تک پہنچائیں گے۔مالیاتی خسارے میں ریکارڈ اضافہ ہو ا ہے اور مہنگائی بڑھے گی، حکومت مالیاتی خسارہ کنٹرول کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے معاشی خرابیوں کے باوجود یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ 15/ برسوں کے دوران ساختی اصلاحات اور آزادکاری کے اقدامات کے نتیجے میں معیشت میں بنیادی طور پر لچک پیدا ہوئی ہے اور اگر مزید اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کرنے پر توجہ دی جائے اور اصلاحی اقدامات کیے جائیں تو معیشت کی نمو کی رفتار پھر تیز ہوسکتی ہے۔ ملکی معیشت بڑھتے ہوئے دباو¿ کا شکار ہے کئی منفی ملکی و عالمی واقعات اہم معاشی اظہاریوں (Economic Indicators) میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں جس کے باعث توقع ہے کہ رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح 5.5سے 6/فیصد کے درمیان ہوگی جبکہ افراط زر کی شرح بھی 11/ سے 12/? فیصد کے درمیان رہے گی سالانہ جاری حسابات کا خسارہ بطور فیصد جی ڈی پی ریکارڈ سطح پر پہنچنے و الا ہے حکومت کو نہ صرف مالیاتی خسارے کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہونگے بلکہ اپنے اخر اجات پورے کرنے کے لیے مرکزی بینک کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی قرضے حاصل کر نے کے لیے انتظامات کرنے پڑیں گے۔ حکومت کی جانب سے بڑی مالیت میں لیے گئے قرض کا اثر خاص طور پر مالی سال 2008ء میں نمایاں رہا 10/ مئی 2008ئ تک یہ قرض بڑھ کر 551.0 ارب تک پہنچ گیا جو ایک ریکارڈ ہے مالی سال کے اسی مدت میں یہ قرضہ صرف 45.7 ارب روپے ہے اس طرح حکومت کی و اجب الادا مجموعی قرض 940.6 ارب روپے ہوگیا ہے اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ سال 2008ء کی صرف پہلی ششماہی کی معلومات دستیاب ہیں تاہم اندازہ ہے کہ جولائی تا مارچ کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے مالی سال 2007ء کے سالانہ خسارے سے زیادہ ہوگا۔ حد سے بڑھے ہوئے مالیاتی تحرک، توانائی کی متعینہ قیمتوں میں اضافہ، شرح مبادلہ میں حالیہ تبدیلیوں اور مسلسل سخت موقف سے بھی ملک کا تجارتی خسارہ کافی حد تک بہتر ہونے کی توقع ہے یہ خسارہ کافی عرصے سے بڑھتا چلا جارہا ہے اب اسے کم کرنا ضروری ہے، رواں مالی سال کے دوران بجٹ توازن منفی 6.5 سے منفی 7/ فیصد اور کرنٹ اکاو¿نٹ بیلنس منفی 7.3 فیصد سے منفی 7.8 فیصد ہوگا جبکہ ان دونوں کا ہدف بالترتیب منفی 4 اور منفی 5 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ ورکرز ریمٹس ہدف 5.8ارب ڈالر کے ہدف سے بڑھ کر 6.2 سے 6.7 ارب ڈالر تک ہوجائے گا جبکہ ملکی درآمدات 34/ ارب ڈالر اور برآمدات 19.9 ارب ڈالر ہوگی مالیاتی اثاثے 13.7 فیصد کے ہدف سے بڑھ کر 17/ سے 19/ فیصد کے درمیان ہونگے۔ جولائی سے اپریل کے دوران مالیاتی خسارہ 3.6 فیصد ہوگیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ جی ڈی پی کا 1.9 فیصد تھا اسی طرح تجارتی خسارہ 7.8سے بڑھ کر جی ڈی پی کا 10.7 فیصد اور روا ں حساب کا خسارہ 4.6فیصد سے بڑھ کر 7/ فیصد ہوگیا جولائی سے اپریل تک کے دوران خالص غیر ملکی سرمایہ کاری 5.9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 3.6 ارب ڈالر ہوگئی۔جولائی سے اپریل تک کے دوران افراط زر کی شرح 9.8 فیصد رہی جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران یہ شرح 7.8 فیصد تھی اس طرح بڑی صنعتوں کی شرح افزائش 9/ فیصد سے کم ہو کر 4.8 فیصد رہ گئی جبکہ ٹیکس وصولی کی شرح بھی 20/ فیصد سے کم ہو کر 16.3 فیصد ہوگئی۔ صدر پرویزمشرف کے خلاف سرگرم سابق فوجی افسران نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی وہ آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے ایک سخت پیغام میں سابق فوجی افسران نے کہا ہے کہ غلط کام کرنے پر مشرف کا احتساب ہونا چاہئے۔ بریگیڈیئر (ر) میاں محمد محمود کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں سابق فوجی افسران نے کہا کہ معاشرہ جسٹس افتخار چوہدری کی واپسی چاہتا ہے اور وہ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اجلاس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی موجودگی کو خاص طور پر نوٹ کیا گیا کیونکہ جنرل پرویز مشرف کی جگہ وہ آرمی چیف بننے والے تھے لیکن محلاتی سازشوں کا شکار بن گئے۔ نواز شریف نے ہمیشہ علی قلی خان کے خلاف دیئے گئے مشورے کو اہمیت دینے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اجلاس میں شریک دیگر نمایاں شخصیات میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جمشید گلزار کیانی، میجر جنرل (ر) شفیق احمد، میجر جنرل (ر) ایم ارشد ملک، میجر جنرل (ر) ہدایت نیازی، میجر جنرل (ر) ایم اے زبیری، بریگیڈیئر (ر) خادم حسین، بریگیڈیئر (ر) میاں محمود، بریگیڈیئر (ر) تاج، بریگیڈیئر (ر) عبدالسلام، بریگیڈیئر (ر) عربی خان، لیفٹیننٹ کرنل (ر) دالیل اور کیپٹن (ر) ظہیر الدین بابر شامل تھے۔ اجلاس کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) سلام اختر نے کہا کہ اجلاس میں 10 جون کو وکلاء برادری کی جانب سے ہونے والے لانگ مارچ میں شرکت کے منصوبے پر غور کیا گیا۔ سابق فوجی افسران نے اس موقع پر زیادہ سے زیادہ سابق فوجیوں کو شرکت کرنے پر راضی کرنے کیلئے ر ضامندی ظاہر کی ہے۔ سابق فوجی افسران کو بھیجی گئی ایک اپیل میں کہا گیا ہے کہ صورتحال اب یہ ہوچکی ہے کہ ہم تماشائی بن کر مزید نہیں بیٹھ سکتے او رہمیں اس مشکل گھڑی میں مطلوبہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ سابق فوجی افسران کے گروپ نے، تاہم، واضح کیا کہ سابق فوجی کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) سلام نے کہا، ”ہم قوم کے بہترین مفاد میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں پرویز مشرف کے تین نومبر کے غیر آئینی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس بحران پر شدید تشویش لاحق ہے جس کا سامنا پاکستان کر رہا ہے“۔سابق فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین سوسائٹی نے واضح کیا ہے کہ اگر صدر پرویز مشرف نے 10 جون سے قبل استعفیٰ نہیں دیا تو سابق فوجی وکلاء تحریک میں بھرپور طریقے سے شامل ہوجائیں گے، پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کو محفوظ راستہ دینے کی بجائے ان کا قانون کے مطابق ٹرائل کیا جانا چاہئے، ایکس سروس مین سوسائٹی وکلاء تحریک کی بھرپور حمایت کرے گی، اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ اجلاس میں اس بات کا اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کو 10 جون تک کا ٹائم دیا جائے گا تاکہ وہ صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دیدیں تاہم اگر انہوں نے اس دوران استعفیٰ نہیں دیا تو ان کی تنظیم وکلاء تحریک میں شامل ہو جائے گی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ان کی تنظیم معزول ججز کی بحالی کیلئے وکلاء کی جدوجہد میں برابر کی شریک ہو گی اور ان کی بھرپور حمایت کی جائے گی۔ پارلیمانی ریاست میں آذادعدلیہ کا کرداربہت اہم ہے ۔آزاد عدلیہ کے بغیر نظام حکومت مضبوط نہیں ہوسکتا عوام نے اس ملک میں 14مہینے پہلے فیصلہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں قانون اور عدلیہ آزاد ہوگی جب افتخار چودھری نے نو مارچ کو ایک آمر کے سامنے انکار کیا تھا تو انھیں یقین نہ تھا کہ سولہ کروڑ عوام ان کے ساتھ ساتھ آج کھڑ ے ہوں گے ساٹھ سال تک ملک میں آئین کو پامال کیا گیا ۔ چیف جسٹس کو اکاموڈیٹ کرنے کی بات کی گئی مگر انھوں نے انکار کر دیا افتخار چودھری نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ کسی کے سامنے نہیں جھکوں گااگر وہ نو مارچ کو جھک جا تے تو قوم سے غداری ہوتی۔تیرہ مارچ کووہ پہلی مرتبہ اپنے گھر سے تن تنہا نکلا اس وقت وکلارہنما اعتزاز احسن ،منیر اے ملک،علی احمد کرد،طارق محمود اور حامد خان نے ان کا ساتھ دیا جو آج تک ہم سب کے سامنے آج بھی مو جود ہیں ساری دنیا میں کبھی کسی نے اتنی بڑی تحریک نہیں چلائی جتنی پاکستان میں چلائی گئی ہے ۔ عوام نے اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے یہ اقدام کیا ہے اور اب لوگوں نے سوچ لیا کہ لوگوں کو گھروں پر انصاف ضرور ملے گا ۔ میڈیا وکلا کی تحریک کی آواز ہے جب آزاد عدلیہ نہیں ہوگی توپھر لوٹ مار اور دہشتگردی ہوگی اور کراچی کے واقعے سے ایسا لگتا ہے کہ لوگ خود گلی کو چوں میں فیصلہ کر رہے ہیں 72فیصدلوگ عدالتوں سے مطمئن نہیں ہیں اور اپنے فیصلے خود کرنے کے حق میں ہیں ایسے میں لوگ کہا ں جائیں کیونکہ اب عدالتوں میں انصاف نہیں مل رہا ہے لوگوں کو معلوم ہے کہ اب جسٹس صبیح الدین جیسے ججز عدالت میں موجود نہیں ہیں منتخب زیراعظم نے صرف ایک حکم دیا تو ججز کے گھر سے رکاوٹیں ہٹا دیں گئیں یہ جمہوریت کی طاقت ہے عوام کی کوشش ہے کہ عدلیہ کی آذادی کی تحریک کامیا ب ہو ۔ اگر عدلیہ آ ز اد ہوگی توجمہوری ڈھانچے کی مدد کرے گی اور عدلیہ آزاد نہ ہوئی تو وہ رکاوٹیں ڈالے گی حقیقت میں آزاد عدلیہ کا اہم کردار ہے اورجو جمہوری نظام کو تقویت بخشتی ہے یہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی ضمانت ہوتی ہے کچھ بھی ہوجائے عوام آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے کراچی میں وکلا نے جانوں کی قربانی دی اور نقصانات اٹھائے جس کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔ وکلا کو سازشوں کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر یا درکھیں تحریک ضرور کامیاب ہوگی آزاد عدلیہ جمہوریت کے لئے ڈھال کا کام کرے گی اور کسی آمرکی یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ اسمبلیوں کے خلا ف کو ئی کارروائی کر سکے پاکستان کے عوام کی منزل آزاد عدلیہ کی بحالی ہے ۔جو جلد کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ اے پی ایس ،اسلام آباد

آئینی پیکیج کی منظوری تک پارلیمنٹ خطر ے میں رہے گی ،فہمیدہ مرزا





اسلام آباد: قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ آئینی پیکج کی منظوری تک پارلیمنٹ خطرے میں رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ ماضی کی ترامیم نے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کیلئے ایسی تمام ترامیم کا خاتمہ ضروری ہے ۔ وہ بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں نیو ز کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ کا لا باغ ڈیم کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں بحث کرانا ضروری نہیں ہے،انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک سیاسی معاملہ تھا۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے پارلیمنٹیرینز ، سیاستدانوں اور میڈیا کوکردار ادا کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔ پارلیمنٹ کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگااور ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو پارلیمانی جمہوری نظام کے راستے میں حائل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کے انتظامات کئے جارہے ہیں لیکن میڈیا کارروائی کے حذف شدہ حصے ہرگز شائع اور نشر نہ کرے، 8سالہ آمریت کے بعد جمہوریت پنپنے لگی ہے اب مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے سیشنز کیلئے پارلیمنٹ کیلنڈر تیار کرلیاگیا ہے ۔ بچت مہم کے تحت قومی اسمبلی بجٹ کے 35کروڑ روپے حکومت کو واپس کردےئے ہیں۔اسپیکر نے کہاکہ عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں میڈیا اور پارلیمان کے درمیان بہتر اور قریبی رابطے ضروری ہیں۔ میڈیا پارلیمنٹ کے فیصلوں کوعوام تک پہنچانے کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے ، اس کردار کو وسعت دینا ضروری ہے ۔ جس کیلئے قومی اسمبلی کے اجلاس کی لائیو کوریج کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ عوام کی پارلیمنٹ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔ صحافیوں اور سیاسی ورکرز نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اسی لئے 8سالہ دور آمریت کے بعد جمہوریت کی بحالی کو ساری دنیا میں سراہا جارہا ہے ۔ جس کا احساس مجھے آئی پی یو کی کانفرنس سے ہوا جو حال ہی میں جنوبی افریقہ میں منعقد ہوئی تھی ۔ آئی پی یو پارلیمنٹ کے اجلاس کی صدارت دراصل پاکستان کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ انہوں نے کہاکہ 8سالہ آمریت کے بعد ملک میں جمہوریت پنپنے لگی ہے ۔ ہمیں منفی کے بجائے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہئے۔ اسپیکر نے میڈیا سے کہاکہ قومی اسمبلی کی کارروائی کے حذف شدہ حصوں کو ہرگز شائع اور نشر نہ کیاجائے۔ اس بارے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ مسائل اجاگر کرنے اور پالیسی سازی میں میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہئے۔اسلام آباد سے طارق بٹ کے مطابق ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو پارلیمان کے باہر فیصلے کرنے کے اختیارات حاصل ہیں کیو نکہ قوم نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے اور جب یہ معاملہ اسمبلی میں لایا جائے تو اس پر ارکان اسمبلی بحث کریں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ تجویز کردہ قانونی سازی کے معاملات پر اپنا ابتدائی کام مکمل کریں ،انہوں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک سیاسی معاملہ تھا اور تین صوبوں نے ویسے بھی اس کے خلاف قراردادیں پاس کردیں تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔اسیر ارکان پارلیمنٹ کو پیش کرنے کے اصول پر عملدرآمد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس پر قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں نے ماضی سے سبق سیکھ لئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزراء کی پارلیمان میں موجودگی کو یقینی بنانا پارٹی قائدین کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ بھی اس معاملے پر نظر رکھیں گی تا کہ ارکان اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہوں۔

NEW EDITION URDU MAGAZINE