پچھلے دنوں جنرل (ر) جمشےد گلزار کےانی کے انٹروےو کا بڑا چرچا رہا اگرچہ انہوں نے اور بھی بہت سی باتےں کےں مگر مےرا موضوع ٹرپل ون برےگےڈ ہے جس کے متعلق انہوں نے بتاےا کہ اسلام Èباد کے تمام حساس مقامات کی حفاظت پر اسی برےگےڈ کے فوجی تعےنات ہوتے ہےں اور جب حکومت کا تختہ الٹنا ہو تو اس مےں کوئی دےر نہےں لگتی۔ بس ان فوجےوں کو اپنی بندوقوں کا رخ تبدےل کرنا ہوتا ہے۔ Èپ تصور کر لےں کہ اس مےں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ کےانی صاحب کی اس بات نے ہمےں چونکا کر رکھ دیا کےونکہ Èج تک ہم ےہی سمجھتے رہے تھے کہ پاکستان مےں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کم از کم 20منٹ تو لگتے ہوں گے ہمارے خیال مےں ٹرپل ون برےگےڈ کے فوجیوں کو راولپنڈی سے چل کر اسلام Èباد کے وزےراعظم سےکرٹرےٹ، وزےراعظم ہائوس، پی ٹی وی، رےڈےو پاکستان وغےرہ تک پہنچنے اور ان پر قبضہ کرنے مےں اتنا وقت تو لگ جاتا ہو گا کےونکہ ہم بھی جب راولپنڈی سے اسلام Èباد Èتے ہےں تو 20منٹ لگ ہی جاتے ہےں۔ اس لئے ہمارا Èئےڈےا ےہی تھا کہ پاکستان مےں فوج کو Èنے مےں اتنا وقت تو ضرور لگتا ہو گا۔ وےسے تو ےہ وقت بھی کوئی وقت نہےں اےک مکمل نظام کی بساط لپےٹ دےنے کےلئے مگر پھر بھی اےک خوش فہمی تھی کہ چلو کچھ تو وقت لگتا ہے ےہاں حکومتوں کو برطرف کرنے مےں۔ ےہی غنےمت ہے مگر جنرل کےانی کے بقول تو ےہ کام چند سےکنڈ مےں ہو جاتا ہے۔ کےانی صاحب اس برےگےڈ کی کمان بھی کر چکے ہےں اور اس برےگےڈ کی کور کے بھی کمانڈر رہ چکے ہےں۔ لہٰذا اس مسئلے پر ان سے زےادہ کون درست بات کر سکتا ہے۔ جنرل صاحب نے بات بے شک سچ کی ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارا 20منٹ کا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ ےہ جو وزےراعظم بنے پھرتے ہےں، ےہ جو وزارتوں پر اتراتے پھرتے ہےں، ےہ جو گاڑےوں پر جھنڈے لہراتے پھرتے ہےں، ےہ جو کابےنہ والے بڑے بڑے فےصلے کرتے پھرتے ہےں، ےہ جو اسٹےبلشمنٹ کے کمانڈر بنے پھرتے ہےں، ےہ جو اےم اےن اے حضرات اسمبلی مےں عوام کے نمائندے بنے بےٹھے ہےں، ےہ سب چند سےکنڈ کی مار ہےں۔ بندوق کا رخ ادھر سے اُدھر ہوا اور سب ختم۔ پھر 10سال کےلئے کوئی اندر کوئی باہر۔ کتنا Èسان ہے ےہاں اس حکومت کو برطرف کرنا جو منتخب ہو کر Èتی ہے۔ انتخابات ہوتے ہےں، ڈےوٹےاں لگتی ہےں، بےلٹ بکس اور بےلٹ پےپر تےار ہوتے ہےں، امےدوار کھڑے ہوتے ہےں، دو دو ماہ انتخابی مہمےں چلتی ہےں، پوسٹر بےنر تےار کئے جاتے ہےں۔ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہو جاتے ہےں، سےاسی جماعتےں مےدان مےں Èتی ہےں، جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے ہےں۔ وعدے ہوتے ہےں، کوئی انصاف دےنے کا وعدہ کرتا ہے تو کوئی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتا ہے۔ عوام اےک امےد کےساتھ گھروں سے نکلتے ہےں کہ ان کا امےدوار منتخب ہو کر ان کے مسائل حل کرے گا، فلاں پارٹی کو ووٹ دےں گے تو وہ اقتدار مےں Èکر جان ، مال ، عزت کی حفاظت کرے گی۔ اس امےد کے ساتھ وہ گھروں سے نکلتے ہےں۔ گھنٹوں لائنوں مےں لگ کر ووٹ ڈالتے ہےں۔ اس طرح پورا ملک اور پوری قوم اےک لحاظ سے ” پاگل “ ہوئی ہوتی ہے اور مہےنوں کی دوڑ بھاگ اربوں کی لاگت کے بعد جو نظام سامنے لاتی ہے جن لوگوں کو مےنڈےٹ دےتی ہے وہ نظام اپنی بقاءکےلئے چند منٹ بھی مزاحمت کرنے کی پوزےشن مےں نہےں ہوتا۔ وہ منتخب لوگ اتنے بے حےثےت ہوتے ہےں کہ چند منٹ بھی نہےں لگتے ان کو گھر بھےجنے مےں، چند سےکنڈ کے اندر پوری جمہوری بساط لپےٹ دی جاتی ہے۔بورےا بستر گول کر دیا جاتا ہے صرف چند سےکنڈ۔ اےک، دو، تےن گننے کی نوبت بھی نہےں Èتی، کتنا ناپائےدار ہے ےہ سب۔ کتنا ناقابل اعتبار، کتنا کمزور۔ اور ستم ظرےفی ملاحظہ کےجئے ےہاں ہر چےز کی گارنٹی ہے مگر حکومت کی کوئی گارنٹی نہےں۔ جمہور کی کوئی ضمانت نہےں۔ اس ملک کے عوام کا مےنڈےٹ چند سےکنڈ کی مار ہے۔مغربی ممالک کی نیوز اےجنسےاں اور صحافی اکثر 12اکتوبر 99ءکے فوجی اقدام کو (Blood less coup)خون بہے بغےر Èنےوالا فوجی انقلاب لکھتے ہےں۔ ان کے نزدےک واقعی ےہ اہم بات ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور اس مےں کسی کا خون ہی نہ بہے۔ کم از کم ان کے ہاں تو اتنی Èسانی سے اور اتنی جلدی حکومت کو ہٹانا ممکن نہےں۔ اس لئے وہ اپنی جگہ ٹھےک سوچتے ہےں۔ مزےد ےہ کہ ان کے ہاں فوجی مداخلت کا تو سوال ہی پےدا نہےں ہوتا۔ لہٰذا وہ ےہ سمجھنے مےں حق بجانب ہےں کہ خون بہے بغےر اےک منتخب حکومت کے سربراہ کو حراست مےں لے لےنا اور حکومت پر قبضہ کرلےنا بہت خاص بات ہے۔ اب انہےں بھی تھوڑا بہت احساس ہو گیا ہو گا کہ پاکستان مےں ےہ کوئی بڑی بات نہےں کےونکہ اس مےں کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور صف بندی کی ضرورت پےش نہےں Èتی، بندوقوں کا رخ ذرا سا تبدےل کرنا ہوتا ہے اور بس۔پچھلے دنوں ٹرپل ون برےگےڈ کے کمانڈر کی تبدےلی کا بھی بڑا غلغلہ رہا کہ پروےز مشرف کے بندے کو ہٹا کر دوسرے بندے کو لگا دیا گیا ہے۔ اےوان صدر اور Èئی اےس پی Èر دونوں کے ترجمان باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ ےہ کوئی غےر معمولی تبدےلی نہےں مگر مےڈےا کا اےک حصہ اس کو ےوں پےش کرتا رہا کہ جےسے بہت بڑی بات ہو گئی ہے۔ ہماری نظر مےں دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھےک تھے۔ مےڈےا اس لئے درست تھا کہ حکومتوں کے تختے الٹنے والے برےگےڈ کی کمان سے صدر کے Èدمی کا ہٹنا نوخیز جمہوری حکومت کےلئے اچھا شگون تھا کےونکہ اس کی بقاءکو لاحق خطرات مےں کچھ تو کمی ہوئی اور دونوں ترجمان اس لئے ٹھےک تھے کہ اس تبدےلی سے واقعی کوئی فرق نہےں پڑتا۔ اےک برےگےڈئےر کی کےا مجال کہ چےف کے حکم کے بغےر اس طرح کی حرکت کا سوچ بھی سکے چاہے اس کو صدر ہی نے اپنے دور مےں کےوں نہ تعےنات کےا ہو۔ البتہ اس تبدےلی کو لوئر رےنکس کی طرف سے سےنئرز اور حکومت وقت کےخلاف سازش کے تناظر مےں دےکھا جا سکتا ہے مگر ےہ بھی اےک حقےقت ہے کہ اےسی سازشوں کے مقدر مےں تارےخ نے ہمےشہ ناکامی لکھی ہے۔ہمارے ہاں رواےت ہے کہ ہم اصل اےشو کی طرف نہےں جاتے اور ادھر ادھر کی باتوں مےں لگے رہتے ہےں ےا ہمےں قصداً لگا دیا جاتا ہے۔ عام زبان مےں ” پڑھنے ڈال دیا جاتا ہے“ زےر نظر معاملے مےں بھی دےکھنے کی بات ےہ ہے کہ ہماری منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کون استعمال ہوتا ہے؟ ہم ےہ بات سٹرٹےجک اور لاجسٹک نقطہ نظر سے کر رہے ہےں۔ جےسے ملک مےں امن و امان کےلئے حکومتےں ناجائز اسلحہ پکڑتی ہےں۔ اس پر روک لگائی جاتی ہے۔ ےہ اسلحہ جتنا کم ہو گا قتل و غارت کی وارداتےں اتنی کم ہوں گی۔ Èلہ قتل نہ ہو تو قتل کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہےں۔ اسی طرح ٹرپل ون برےگےڈ کا بھی اب تک جو کردار رہا ہے وہ Èلہ قتل جےسا رہا ہے جس سے عوامی حکومتوں کو قتل کےا گےا۔ جمہورےت کا گلا گھونٹا گیا۔ اگر اس ملک کی سےاسی جماعتےں عوامی مےنڈےٹ کے ساتھ اتنی ہی مخلص ہےں جےسا کہ ظاہر کر رہی ہےں۔ اگر اس ملک کا صدر جمہورےت کا اتنا ہی حامی ہے جےسا کہ باور کراتا ہے اور اگر ملک کی فوجی قیادت نے واقعی ٹھان لی ہے کہ اب سےاست مےں ملوث نہےں ہونا عوام کے مےنڈےٹ کا احترام کرنا ہے اور جمہورےت پر شب خون نہےں مارنا تو سب مل کر اےک فےصلہ کر لےں۔ جمہور کی لاش گرانے کےلئے استعمال ہونےوالے Èلہ قتل کو دفن کر دےں۔ جمہورےت پر شب خون مارنے والے جرنےلوں کو قبروں سے نکال کر نشان عبرت بے شک نہ بنائےں، گڑھے مردے بے شک نہ اکھاڑےں، وہ Èلہ ہی دفن کر دےں جس کی مدد سے ےہ کام ہوتا ہے۔ ٹرپل ون برےگےڈ کو ختم کر دےں، باقی دارالحکومت کا اللہ مالک ہے۔ کچھ نہےں ہوتا اسے۔ اب تک نہےں ہوا تو Èگے بھی اللہ کرم کرے گا۔ اس کی حساس تنصےبات کی حفاظت نےشنل گارڈز کے سپرد کر دی جائے ےا بے شک الگ فورس بنائی جائے مگر ٹرپل ون برےگےڈ کا وجود ختم کر دیا جائے۔ ےہ تو خیر پھر بھی وثوق سے نہےں کہا جا سکتا کہ Èئندہ فوج نہےں Èئے گی کےا پتہ جنرل کےانی کے بعد کون اور کس سوچ کا جرنےل Èتا ہے۔ ملک دو ٹکڑے ہونے سے بڑا المےہ تو کوئی نہےں ہو سکتا ۔ اس المےے کے بعد بھی سول حکومت کو صرف 5سال ملے تھے اور پھر فوج Èگئی تھی۔ لہٰذا موجودہ صورتحال کے بعد بھی کوئی ضمانت نہےں کہ فوج نہےں Èئے گی تاہم اتنا تو ضرور ہو گا کہ عوامی حکومت چند سےکنڈ کی مار نہےں ہو گی۔ کچھ تو وقت لگے گا اور دنےا مےں ہمارا بھی کچھ بھرم رہ جائے گا کہ ےہاں جمہورےت کا خون اتنا Èسان نہےں۔٭٭٭
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, June 14, 2008
ٹرپل ون بریگیڈ یا جمہوریت؟
پچھلے دنوں جنرل (ر) جمشےد گلزار کےانی کے انٹروےو کا بڑا چرچا رہا اگرچہ انہوں نے اور بھی بہت سی باتےں کےں مگر مےرا موضوع ٹرپل ون برےگےڈ ہے جس کے متعلق انہوں نے بتاےا کہ اسلام Èباد کے تمام حساس مقامات کی حفاظت پر اسی برےگےڈ کے فوجی تعےنات ہوتے ہےں اور جب حکومت کا تختہ الٹنا ہو تو اس مےں کوئی دےر نہےں لگتی۔ بس ان فوجےوں کو اپنی بندوقوں کا رخ تبدےل کرنا ہوتا ہے۔ Èپ تصور کر لےں کہ اس مےں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ کےانی صاحب کی اس بات نے ہمےں چونکا کر رکھ دیا کےونکہ Èج تک ہم ےہی سمجھتے رہے تھے کہ پاکستان مےں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کم از کم 20منٹ تو لگتے ہوں گے ہمارے خیال مےں ٹرپل ون برےگےڈ کے فوجیوں کو راولپنڈی سے چل کر اسلام Èباد کے وزےراعظم سےکرٹرےٹ، وزےراعظم ہائوس، پی ٹی وی، رےڈےو پاکستان وغےرہ تک پہنچنے اور ان پر قبضہ کرنے مےں اتنا وقت تو لگ جاتا ہو گا کےونکہ ہم بھی جب راولپنڈی سے اسلام Èباد Èتے ہےں تو 20منٹ لگ ہی جاتے ہےں۔ اس لئے ہمارا Èئےڈےا ےہی تھا کہ پاکستان مےں فوج کو Èنے مےں اتنا وقت تو ضرور لگتا ہو گا۔ وےسے تو ےہ وقت بھی کوئی وقت نہےں اےک مکمل نظام کی بساط لپےٹ دےنے کےلئے مگر پھر بھی اےک خوش فہمی تھی کہ چلو کچھ تو وقت لگتا ہے ےہاں حکومتوں کو برطرف کرنے مےں۔ ےہی غنےمت ہے مگر جنرل کےانی کے بقول تو ےہ کام چند سےکنڈ مےں ہو جاتا ہے۔ کےانی صاحب اس برےگےڈ کی کمان بھی کر چکے ہےں اور اس برےگےڈ کی کور کے بھی کمانڈر رہ چکے ہےں۔ لہٰذا اس مسئلے پر ان سے زےادہ کون درست بات کر سکتا ہے۔ جنرل صاحب نے بات بے شک سچ کی ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارا 20منٹ کا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ ےہ جو وزےراعظم بنے پھرتے ہےں، ےہ جو وزارتوں پر اتراتے پھرتے ہےں، ےہ جو گاڑےوں پر جھنڈے لہراتے پھرتے ہےں، ےہ جو کابےنہ والے بڑے بڑے فےصلے کرتے پھرتے ہےں، ےہ جو اسٹےبلشمنٹ کے کمانڈر بنے پھرتے ہےں، ےہ جو اےم اےن اے حضرات اسمبلی مےں عوام کے نمائندے بنے بےٹھے ہےں، ےہ سب چند سےکنڈ کی مار ہےں۔ بندوق کا رخ ادھر سے اُدھر ہوا اور سب ختم۔ پھر 10سال کےلئے کوئی اندر کوئی باہر۔ کتنا Èسان ہے ےہاں اس حکومت کو برطرف کرنا جو منتخب ہو کر Èتی ہے۔ انتخابات ہوتے ہےں، ڈےوٹےاں لگتی ہےں، بےلٹ بکس اور بےلٹ پےپر تےار ہوتے ہےں، امےدوار کھڑے ہوتے ہےں، دو دو ماہ انتخابی مہمےں چلتی ہےں، پوسٹر بےنر تےار کئے جاتے ہےں۔ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہو جاتے ہےں، سےاسی جماعتےں مےدان مےں Èتی ہےں، جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے ہےں۔ وعدے ہوتے ہےں، کوئی انصاف دےنے کا وعدہ کرتا ہے تو کوئی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتا ہے۔ عوام اےک امےد کےساتھ گھروں سے نکلتے ہےں کہ ان کا امےدوار منتخب ہو کر ان کے مسائل حل کرے گا، فلاں پارٹی کو ووٹ دےں گے تو وہ اقتدار مےں Èکر جان ، مال ، عزت کی حفاظت کرے گی۔ اس امےد کے ساتھ وہ گھروں سے نکلتے ہےں۔ گھنٹوں لائنوں مےں لگ کر ووٹ ڈالتے ہےں۔ اس طرح پورا ملک اور پوری قوم اےک لحاظ سے ” پاگل “ ہوئی ہوتی ہے اور مہےنوں کی دوڑ بھاگ اربوں کی لاگت کے بعد جو نظام سامنے لاتی ہے جن لوگوں کو مےنڈےٹ دےتی ہے وہ نظام اپنی بقاءکےلئے چند منٹ بھی مزاحمت کرنے کی پوزےشن مےں نہےں ہوتا۔ وہ منتخب لوگ اتنے بے حےثےت ہوتے ہےں کہ چند منٹ بھی نہےں لگتے ان کو گھر بھےجنے مےں، چند سےکنڈ کے اندر پوری جمہوری بساط لپےٹ دی جاتی ہے۔بورےا بستر گول کر دیا جاتا ہے صرف چند سےکنڈ۔ اےک، دو، تےن گننے کی نوبت بھی نہےں Èتی، کتنا ناپائےدار ہے ےہ سب۔ کتنا ناقابل اعتبار، کتنا کمزور۔ اور ستم ظرےفی ملاحظہ کےجئے ےہاں ہر چےز کی گارنٹی ہے مگر حکومت کی کوئی گارنٹی نہےں۔ جمہور کی کوئی ضمانت نہےں۔ اس ملک کے عوام کا مےنڈےٹ چند سےکنڈ کی مار ہے۔مغربی ممالک کی نیوز اےجنسےاں اور صحافی اکثر 12اکتوبر 99ءکے فوجی اقدام کو (Blood less coup)خون بہے بغےر Èنےوالا فوجی انقلاب لکھتے ہےں۔ ان کے نزدےک واقعی ےہ اہم بات ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور اس مےں کسی کا خون ہی نہ بہے۔ کم از کم ان کے ہاں تو اتنی Èسانی سے اور اتنی جلدی حکومت کو ہٹانا ممکن نہےں۔ اس لئے وہ اپنی جگہ ٹھےک سوچتے ہےں۔ مزےد ےہ کہ ان کے ہاں فوجی مداخلت کا تو سوال ہی پےدا نہےں ہوتا۔ لہٰذا وہ ےہ سمجھنے مےں حق بجانب ہےں کہ خون بہے بغےر اےک منتخب حکومت کے سربراہ کو حراست مےں لے لےنا اور حکومت پر قبضہ کرلےنا بہت خاص بات ہے۔ اب انہےں بھی تھوڑا بہت احساس ہو گیا ہو گا کہ پاکستان مےں ےہ کوئی بڑی بات نہےں کےونکہ اس مےں کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور صف بندی کی ضرورت پےش نہےں Èتی، بندوقوں کا رخ ذرا سا تبدےل کرنا ہوتا ہے اور بس۔پچھلے دنوں ٹرپل ون برےگےڈ کے کمانڈر کی تبدےلی کا بھی بڑا غلغلہ رہا کہ پروےز مشرف کے بندے کو ہٹا کر دوسرے بندے کو لگا دیا گیا ہے۔ اےوان صدر اور Èئی اےس پی Èر دونوں کے ترجمان باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ ےہ کوئی غےر معمولی تبدےلی نہےں مگر مےڈےا کا اےک حصہ اس کو ےوں پےش کرتا رہا کہ جےسے بہت بڑی بات ہو گئی ہے۔ ہماری نظر مےں دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھےک تھے۔ مےڈےا اس لئے درست تھا کہ حکومتوں کے تختے الٹنے والے برےگےڈ کی کمان سے صدر کے Èدمی کا ہٹنا نوخیز جمہوری حکومت کےلئے اچھا شگون تھا کےونکہ اس کی بقاءکو لاحق خطرات مےں کچھ تو کمی ہوئی اور دونوں ترجمان اس لئے ٹھےک تھے کہ اس تبدےلی سے واقعی کوئی فرق نہےں پڑتا۔ اےک برےگےڈئےر کی کےا مجال کہ چےف کے حکم کے بغےر اس طرح کی حرکت کا سوچ بھی سکے چاہے اس کو صدر ہی نے اپنے دور مےں کےوں نہ تعےنات کےا ہو۔ البتہ اس تبدےلی کو لوئر رےنکس کی طرف سے سےنئرز اور حکومت وقت کےخلاف سازش کے تناظر مےں دےکھا جا سکتا ہے مگر ےہ بھی اےک حقےقت ہے کہ اےسی سازشوں کے مقدر مےں تارےخ نے ہمےشہ ناکامی لکھی ہے۔ہمارے ہاں رواےت ہے کہ ہم اصل اےشو کی طرف نہےں جاتے اور ادھر ادھر کی باتوں مےں لگے رہتے ہےں ےا ہمےں قصداً لگا دیا جاتا ہے۔ عام زبان مےں ” پڑھنے ڈال دیا جاتا ہے“ زےر نظر معاملے مےں بھی دےکھنے کی بات ےہ ہے کہ ہماری منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کون استعمال ہوتا ہے؟ ہم ےہ بات سٹرٹےجک اور لاجسٹک نقطہ نظر سے کر رہے ہےں۔ جےسے ملک مےں امن و امان کےلئے حکومتےں ناجائز اسلحہ پکڑتی ہےں۔ اس پر روک لگائی جاتی ہے۔ ےہ اسلحہ جتنا کم ہو گا قتل و غارت کی وارداتےں اتنی کم ہوں گی۔ Èلہ قتل نہ ہو تو قتل کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہےں۔ اسی طرح ٹرپل ون برےگےڈ کا بھی اب تک جو کردار رہا ہے وہ Èلہ قتل جےسا رہا ہے جس سے عوامی حکومتوں کو قتل کےا گےا۔ جمہورےت کا گلا گھونٹا گیا۔ اگر اس ملک کی سےاسی جماعتےں عوامی مےنڈےٹ کے ساتھ اتنی ہی مخلص ہےں جےسا کہ ظاہر کر رہی ہےں۔ اگر اس ملک کا صدر جمہورےت کا اتنا ہی حامی ہے جےسا کہ باور کراتا ہے اور اگر ملک کی فوجی قیادت نے واقعی ٹھان لی ہے کہ اب سےاست مےں ملوث نہےں ہونا عوام کے مےنڈےٹ کا احترام کرنا ہے اور جمہورےت پر شب خون نہےں مارنا تو سب مل کر اےک فےصلہ کر لےں۔ جمہور کی لاش گرانے کےلئے استعمال ہونےوالے Èلہ قتل کو دفن کر دےں۔ جمہورےت پر شب خون مارنے والے جرنےلوں کو قبروں سے نکال کر نشان عبرت بے شک نہ بنائےں، گڑھے مردے بے شک نہ اکھاڑےں، وہ Èلہ ہی دفن کر دےں جس کی مدد سے ےہ کام ہوتا ہے۔ ٹرپل ون برےگےڈ کو ختم کر دےں، باقی دارالحکومت کا اللہ مالک ہے۔ کچھ نہےں ہوتا اسے۔ اب تک نہےں ہوا تو Èگے بھی اللہ کرم کرے گا۔ اس کی حساس تنصےبات کی حفاظت نےشنل گارڈز کے سپرد کر دی جائے ےا بے شک الگ فورس بنائی جائے مگر ٹرپل ون برےگےڈ کا وجود ختم کر دیا جائے۔ ےہ تو خیر پھر بھی وثوق سے نہےں کہا جا سکتا کہ Èئندہ فوج نہےں Èئے گی کےا پتہ جنرل کےانی کے بعد کون اور کس سوچ کا جرنےل Èتا ہے۔ ملک دو ٹکڑے ہونے سے بڑا المےہ تو کوئی نہےں ہو سکتا ۔ اس المےے کے بعد بھی سول حکومت کو صرف 5سال ملے تھے اور پھر فوج Èگئی تھی۔ لہٰذا موجودہ صورتحال کے بعد بھی کوئی ضمانت نہےں کہ فوج نہےں Èئے گی تاہم اتنا تو ضرور ہو گا کہ عوامی حکومت چند سےکنڈ کی مار نہےں ہو گی۔ کچھ تو وقت لگے گا اور دنےا مےں ہمارا بھی کچھ بھرم رہ جائے گا کہ ےہاں جمہورےت کا خون اتنا Èسان نہےں۔٭٭٭
قو می مجر موں کے خلاف عوام سرا پا احتجاج تحریر : چو د ھری احسن پر یمی
ایسو سی ایٹڈ پر یس سروس، اسلام آباد
لانگ ما ر چ نے تو فیصلہ دے دیا ہے کہ ججز کو بحال کیا جائے اور آئین تو ڑ نے وا لوں کو پھا نسی دی جا ئے۔ اب دیکھنا یہ ہے حکمران اور پا ر لیمنٹ اب عوام اور قا نون کا احترام کر تے ہیں یا ملک دشمن طا قتوں کے آ گے سر تسلیم خم کر تے ہیں۔ وکلاءتحریک نے عوام کو ایسا بیدار کیا ہے کہ عوام اب سمجھتے ہیں کہ اب مسئلہ ججز کی بحالی کا نہیں ر ہا بلکہ سا ٹھ سا لہ ظلم و نا ا نصا فی کے انتقام کا بھی ہے سا ٹھ سا لہ مدت میں چند مٹھی بھر بد معاش جا گیر دار وں، قا نون شکن جر نیلوں اور ملک بھر سے چند مو قع پر ست چوروں نے عوام کے حقوق پر ڈا کہ ڈال کر ملک بھر کے عوام کا بال با ل قر ضے میں ڈ بو دیا ہوا ہے اور ان بے غیرت اور بے شرموں کے کر توتوں کی و جہ سے وطن عزیز کئی ایک بحرا نوں میں پھنس چکا ہے ۔ عوام اب آزاد عد لیہ کی جنگ اس لئے لڑ رہے ہیں کہ وہ قو می مجر موں کو سر عا م پھا نسی کی سزا دیکھنا چا ہتے ہیں۔ چند مٹھی بھر بد معاش قا نون شکن اور بے غیرت قسم کے قو می مجرم اپنے پلے یہ بات با ندھ لیں اب عوام ججز کی بحا لی پر خا مو ش نہیں ہو نگے بلکہ قا نون شکنوں اور قو می خزانہ لو ٹنے وا لوں کو جب تک کتے کی موت کی طرح نشان عبرت نہیں بنا لیتے چین سے نہیں بیٹھے گے ۔ اس وقت عوام جو مشا ہدہ کر رہے ہیں وہ یہ کہ جب تک اس خطے میں امر یکن کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو تا حا لات نہیں سنبھلےں گے اور امریکن ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں ایسے حا لات رہیں کہ آخر کا ر ایک نئے ما رشل لاءکو دعوت دی جا ئے کیونکہ امریکن کا افغا نستان کے علا وہ شمالی علاقہ جات اور قراقرم کی چو ٹیوں پر بھی قبضہ کر نا ہے تا کہ اس خطے میں ایک تھا نیدار کا کر دار ادا کر تا رہے۔ اور اس ضمن میں اس نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسا مہ قرا قرم اور کے ٹو پہا ڑ کے گر دو نواح میں مو جو د ہے۔ پاک سر زمین پر امریکی حملے کے نتیجے کے رد عمل میں پا کستان کے عوام کا کہنا ہے کہ اب شاہین اور غوری مزائل کے مزیدتجربات کر کے عوام کے جذ بات سے نہ کھیلا جائے اور نہ ہی عوام کے خون پسینے کی کما ئی کو ضا ئع کیا جائے کیو نکہ جب تک ایک جر ا¾ت مند اور محب وطن قیادت ملک کی بھا گ دوڑ سنبھال نہیں لیتی ہماری عزت و وقار خاک میں ملتا رہے گا۔ پاکستان کے عوام نے امریکی حملے کے نتیجے میں کہا ہے کہ مزائل کا جواب مزائل سے دیا جائے ۔ تاکہ دشمن آئندہ ایسی غلطی سوچ سمجھ کر یں گے۔ سر حدوں کے محافظوں کی شہا دت پر ملک بھر کے عوام کو گہرا دکھ ہوا ہے اب ہماری قیادت کا فرض ہے کہ وہ ملک دشمنوں کے عزائم خا ک میں ملائے ورنہ اقتدار سے علیحدہ ہو جا ئے۔ اسلام آباد کے پریڈ گراو¿نڈ میں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما نواز شریف نے کہا ہے کہ پھانسیاں اور ملک بدری کیوں صرف سیاستدانوں کا ہی مقدر ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ بار کے صدر اعتزاز احسن سے جب لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے تو انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ مشاورت سے ہو گا اور ’ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم دھرنا دیں لیکن جو بیٹھنا چاہتا ہے وہ بیٹھ سکتا ہے۔‘ نواز شریف نے کہا کہ یہ ہے عوامی طاقت کا مظاہرہ نہ کہ وہ جو صدر مشرف نے پچھلے سال بارہ مئی کے سانحہ کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنے ہاتھ لہرا کر کہا تھا کہ یہ ہے عوامی طاقت۔ ’یہ عوام کسی ڈی سی یا ایس پی کے نہیں لائے ہوئے اور نہ ہی کرائے پر لائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک پر من، تن، دھن سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا ہم نے کہا تھا کہ اٹھارہ فروری کا فیصلہ سن لو اور عزت سے چلے جاو¿ اور اب اس عوام کا دوبارہ فیصلہ سن لو۔ ’یہ عوام اب تمہاری اقتدار سے علیحدگی نہیں چاہتے بلکہ عبرتناک محاسبہ چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کو کوئی محفوظ راستہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ’تم نے جامعہ حفصہ کی معصوم طلبہ کو محفوظ راستہ نہیں دیا تھا۔‘ انہوں نے مجمعے سے پوچھا کہ آیا صدر مشرف کو محفوظ راستہ ملنا چاہیے جس پر لوگوں نے نہیں کہا۔ انہوں نے جب کہا کہ کیا پھانسیاں صرف سیاستدانوں کے مقدر میں ہیں تو لوگوں نے ’پھانسی پھانسی‘ کے نعرے لگائے۔ انہوں نے کہا کہ آمروں نے جب بھی بندوق چلائی ہے اور جب بھی ظلم کیا ہے پاکستان پر کیا ہے۔ امریکی وکلاء نے بھی معزول چیف جسٹس کے حق میں ریلیاں نکالی ہیں اور امریکی عوام بھی ان کے حق میں ہیں۔ امریکی حکومت امریکی عوام کے صدر مشرف کے خلاف ہوتے ہوئے بھی صدر مشرف کی حمایت کرتی ہےانہوں نے کہا کہ پاکستان کے تینتیس سال آمر کھا گئے۔ انہوں کہا کہ ان آمروں نے پاکستان توڑ دیا اور اب بلوچستان کا حال دیکھیں اور جب بارہ مئی کا سانحہ ہوا تو کہا گیا کہ تحقیقات نہیں ہوں گی۔ اب ساری انکوائریاں ہوں گی۔‘ انہوں نے کہا کہ مسئلہ ججوں کی بحالی کا نہیں ہے بلکہ تین نومبر کے غیر قانونی اقدام کو مسترد کرنے کا ہے۔ ’جب مشرف خود اس اقدام کو غیر آئینی کہہ چکا ہے تو پھر ہمیں شرم کس چیز کی ہے۔‘ مری معاہدے کے باوجود جج بحال نہیں ہوئے جس پر لوگوں نے ’شیم شیم‘ کے نعرے لگائے۔ ’کل پارلیمنٹ کا اجلاس ہے اور یہ پارلیمنٹ عوام کا فیصلہ سنے اور ان کی آواز سنے اور وہی فیصلہ کرے جو قوم چاہتی ہے۔‘ نواز شریف نے کہا کہ ان کو افسوس ہے کہ جمہوری حکومت آنے کے باوجود ججوں کی بحالی کے لیے وکلاءاور سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہیں۔نواز شریف کی تقریر کے دوران مجمعے میں سے کچھ افراد نے اعتزاز کے خلاف نعرہ بازی کی جس کی اعتزاز نے دس منٹ وضاحت کی اور کہا کہ انہوں نے کوئی سودے بازی نہیں کی ہے۔ اگر سودے بازی کرنی ہوتی تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمے کے دوران کرتا۔ ’ہم میں سے کسی نے سودے بازی نہیں کی۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کو مشرف نے کون کون سی پیشکش نہیں کی لیکن انہوں نے انکار کیا۔ ’مجھے وزیر اعظم کی پیشکش کی گئی کہ شوکت عزیز پانچ منٹ میں استعفیٰ دے دے گا لیکن میں نے انکار کیا۔‘ تقریر کے دوران کئی بار وکلاء نے ان کو ٹوکتے ہوئے دھرنے پر بات کرنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ اس پر وہ آخر میں بات کریں گے۔ وکلاءکا کہنا تھا کہ وہ صدارتی کیمپ کا گھیراو¿ کریں تو اس پر اعتزاز نے کہا کہ صدر مشرف تو پر کٹے پرندے ہیں ان کا کیا گھیراو¿ کریں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر منیر اے ملک نے اپنی تقریر میں کیا کہ وہ آئندہ اس سے بھی بڑا اور منظم لانگ مارچ کریں گے۔ ’ہم بار بار مارچ کریں گے اور اسلام آباد آئیں گے لیکن ہم ایڈوینچرزم نہیں کریں گے۔‘ بعض طلبہ اور سیاسی کارکنوں نے خار دار تاروں کو پار کرکے پارلیمنٹ ہاو¿س جانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے انہیں روک لیا۔ مسلم لیگ کے رہنما سعد رفیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ججوں کو بحال نہ کیا گیا تو یہ پارلیمنٹ اپنی افادیت کھو بیٹھے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کا عبرتناک انجام ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ وکلاء کا قافلہ جب آبپارہ پر پہنچا تو لاپتہ افراد کے حوالے سے ڈیفنس فار ہیومن رائیٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ صدر مشرف نہ صرف لاپتہ افراد بلکہ لال مسجد میں ہونے والے خون خرابہ کے بھی ذمہ دار ہیں۔ لیاقت بلوچ نے تقریر میں آزاد عدلیہ پر زور دیا جبکہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ پاکستان مسلم لیگ قاف کے فارورڈ بلاک کی سینیٹر نیلوفر بختیار بھی پنڈال میں موجود ہیں۔ اس سے قبل اعتزاز احسن نے ایک مختصر خطاب میں کہا کہ عوام کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی عوام صدر مشرف کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وکلاء نے بھی معزول چیف جسٹس کے حق میں ریلیاں نکالی ہیں اور امریکی عوام بھی ان کے حق میں ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت سے شکوہ کیا کہ امریکی عوام صدر مشرف کے خلاف ہوتے ہوئے بھی حکومت صدر مشرف کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں امریکی سفیر کو یہ عوامی سمندر دیکھنا چاہیے اور اپنی حکومت سے کہنا چاہیے کہ صدر مشرف کی سرپرستی کرنا بند کی جائے۔ جبکہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن نے کہاہے کہ ججوں کو جلد بحال نہ کیا گیا تو بعید نہیں ہے کہ عوام ” گو مشرف گو “ کے بجائے ” گو زرداری گو “ کے نعرے لگانے شروع کر دیں ۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کے لیے اپنی قربانیاں گنواتی ہے لیکن عملاً آمر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر چکی ہے ۔ امریکہ پہلے کی طرح ہماری سرحدوں کو پامال کر رہاہے اور حملے بھی جاری ہیں ۔ منتخب حکومت نے بھی پرویز مشرف کی بزدلانہ پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ ججوں کی بحالی کے لیے صرف وکلا ہی نہیں نکلے ہیں اس جدوجہد میں اے پی ڈی ایم کی جماعتیں ، سول سوسائٹی کے لوگ اور پوری قوم شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ ججوں کی بحالی کو ٹالنے میں دونوں جماعتیں ذمہ دار ہیں ۔ اگر جج بحال ہو جاتے تو دونوں جماعتوں کو اس کا کریڈٹ جاناتھا ۔ انہوںنے کہاکہ میاں نواز شریف اس وقت دو کشتیوں پر سوار ہیں، انہیں ایک کا انتخاب کرنا چاہیے ۔وہ وزارتوں سے تو مستعفی ہو گئے ہیں لیکن حکومت میں شامل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آصف زرداری نے قوم کے اربوں ڈالر این آر او کے ذریعے معاف کرا لیے ہیں ۔ یہ قوم کے حقوق پر کھلا ڈاکہ ہے امریکہ ہماری چوکیوں پر حملے کر کے جارحیت کا مرتکب ہو رہاہے اور ان حملوں کو جائز بھی قرار دے رہاہے ۔ ہمارے کئی فوجی جاں بحق ہو گئے ہیں ۔ امریکہ کی طرف سے یہ 44 واں بڑا حملہ ہے ۔ وزیر دفاع کہتے ہیں کہ امریکہ ہم سے بڑا ہے، ہم چھوٹے ہیں ۔ ایسے آدمی کو وزارت دفاع سے فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے ۔ سید منور حسن نے کہاکہ پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی کپڑا ، مکان کا ہے ،لیکن اس نے جو بجٹ پیش کیاہے اس کے بعدیہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عوام کو روٹی مل سکے گی۔ بنیادی چیزوں پر ٹیکس لگانے اور سوئی گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید ا ضافہ کے اعلانات کے بعد پیپلز پارٹی کس منہ سے عوامی حکومت ہونے کا دعوٰی کرتی ہے؟ اس نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اس کی مشکلات او ر دکھوں میں اضافہ ہی کیاہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا منظم قافلہ سب سے پہلے پہنچا ۔ یہ قافلہ ہزارہ ڈویڑن سے سابق وزیراعلیٰ سرحد سردار مہتاب احمد خان ، پارٹی کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگرا ، صوبائی صدر پیر صاحب شاہ ، سرانجام خان کی قیادت میں ساڑھے چار بجے سہہ پہر آبپارہ کے مقام پر پہنچ گئے اسلام آباد سے ایم این اے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے قافلے کا استقبال کیا۔ ججز کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کے حوالے سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندرچاروں سمت سےراولپنڈی شہر میں داخل ہو گیا لانگ مارچ میں شریک عوام انتہائی پر جوش تھے شرکاء لانگ مارچ نے عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے جہاں مختلف بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے وہاں چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتراز حسین پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ قاضی حسین احمد، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تصاویر بھی اٹھا رکھی ہیں۔عوام گو مشرف گو اور عدلیہ کی بحالی کے نعرے لگا رہے تھے ۔لانگ مارچ میں آئینی پیکج کے خلاف بھی تواتر کے ساتھ نعرے لگ رہے تھے شرکاءآئینی پیکج نا منظور کے نعرے لگا رہے تھے لانگ مارچ میں ہم ملک بچانے نکلے ہیں ۔ عدل بچانے نکلے ہیں آئین بچانے نکلے ہیں آو¿ ہمارے ساتھ چلو کا نعرہ زبان زدعام و خاص تھا ۔ یہ نعرہ مقبول ترین نعرہ بن گیا ہے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن خود بھی یہ نعرہ لگوا رہے تھے۔ملک میں ججز کی بحالی کے لئے شروع کیا گیا لانگ مارچ پاکستان کی تاریخ کا واحد لانگ مارچ ہے جو چار دنوں کی مسافت کے بعد راولپنڈی میں داخل ہوا ۔ لانگ مارچ کا آغاز 10 جون کو کراچی اور کوئٹہ سے ہوا تھا ۔ سکھر سے ملتان کے بعد لانگ مارچ لاہور میں داخل ہوا جبکہ چار دنوں کی مسافت کے بعد لانگ مارچ جمعہ کو ڈھائی بجے دوپہر راولپنڈی کی حدود میں داخل ہوا ۔اس لانگ مارچ میں وکلاء ، سول سوسائٹی ، عام عوام ، ایکس سروس میں سوسائٹی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان مسلم لیگ نواز ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھرپور شرکت کی ہے ۔وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کے شرکاءکو ملک کی اہم ترین روڈ شاہراہ دستور سے دور رہنے کی ہدایت کی یہ شاہراہ گزشتہ ایک سال سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ یہ نام کی تو شاہراہ دستور ہے مگر ہر طالع آزما نے غیر دستوری مقاصد کی تکمیل کے لئے اسی راہ پر قدم رکھے ۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تو صرف شاہراہ دستور کی رکاوٹیں ہی نہیں توڑی گئیں بلکہ دستور کو بھی روند ڈالا گیا۔اکتوبر نناوے کی شام ہو یا تین نومبر کی شب کا سانحہ ،شاہرا ہ دستور پر بوٹوں کی دھمک آج بھی سنائی دیتی ہے ۔ انتیس ستمبر کو تو حد ہوگئی جب پرویز مشرف باوردی صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے بضد تھے تو ریاستی اداروں نے ہی سپریم کورٹ پر چڑھائی کردی ۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ بھی دستورکے نام پر قائم اسی راہ گزر پر ہے ۔آئینی طور پر یہ عمارت انتظامی اختیارات کا منبہ و محور ہے مگر عملا ایسا کبھی ہوا ہی نہیں ۔ کبھی تو یہاں امپورٹڈ وزرائے اعظم براجمان ہوئے تو کبھی خود ساختہ چیف ایگزیکٹوز مسند نشین ٹھہرے ۔ عوام نے جس کو آئینی مینڈیٹ دیا اسٹیبلشمینٹ نے اسے تسلیم ہی نہیں کیا ۔ ایوان صدر شاہراہ دستور سے ذرا ہٹ کر پارلیمنٹ ہاو¿س کی اوٹ میں ہے شاید اسی لئے یہ مملکت کا آئینی سربراہ ہوتے ہوئے بھی سازشوں کا گڑھ بنا رہا ۔ غیر آئینی اقدامات کی منصوبہ بندی جہاں بھی ہو ان اقدامات کوعملی جامہ اسی ایوان نے پہنایا ۔ پارلیمنٹ آئین اور قانون سازی کرتی ہے تو حکومت، انتظامیہ ان پر عمل درآمد کی پابند ہے اور اگر تشریح طلب مسائل ہوں تو عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے درمیان بنایا گیا مگر اس عمارت کے گوشہ نشین پارلیمنٹ ہاو¿س اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے بیچ دیوار بن گئے۔نظریہ ضرورت نے جنم لیا اور جبر کے قانون کو آئین کا لبادہ اوڑھا یا گیا ۔ الیکشن کمیشن بھی آئین کی راہ پر توکھڑا ہے مگر یہاں ووٹ کی بجائے حاکم وقت کی خواہش پر انتخابی نتائج مرتب کئے جاتے رہے ۔ دستور کا تمسخر اڑایا گیا اور پھر ایک بارودی سرکار کے ملازم کو الیکشن کے نام پر صدر مملکت بنانے کا اعلان کردیا ۔ شاہراہ دستور کا اپنا حال بھی دستور سے مختلف نہیں ۔ملکی دستور میں سترہویں ترمیم کی طرح زخم خوردہ اس سڑک کی کارپیٹنگ تو کی گئی مگر دستور پاکستان کی طرح آج بھی شاہراہ دستورخاردار تاروں اور مسلح جوانوں کی زد میں ہے۔ جبکہ پاک فوج کے 22 لاکھ سابق اعلیٰ و ادنی افسران اور جوانوں کی نمائندہ تنظیم ایکس سروس مین سوسائٹی نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر آئینی طور پر صدارتی منصب پر قابض جنرل ( ر ) پرویز مشرف کا کورٹ مارشل آرڈر فوری جاری کر یں ، دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد کا کردار ادا کرنے ‘ کا رگل اور لال مسجد سمیت تمام ایشوز پر پرویز مشرف کا ٹرائل کیا جائے ۔ وکلاء تحریک کے فیصلہ کن لانگ مارچ کے بعد اب پرویز مشرف کی رخصتی اور عدلیہ کی بحالی کا وقت آ گیا ہے موجودہ پارلیمنٹ اپنی مضبوطی کا احساس کر کے کسی اندرونی و بیرونی دباو¿ کے بغیر آزادانہ اور خود مختارانہ فیصلے کرے ‘ 18 فروری کے عوامی مینڈیٹ کا احترام یقینی بنانے کا وقت آ گیا ہے کہ قوم کی 9 سالہ تضحیک و تذلیل کا بدلہ لیا جائے ۔ ان خیالات کا اظہار ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر جنرل ( ر ) فیض علی چشتی نے کیا ۔ اس موقع پر سابق آرمی چیف جنرل ( ر ) اسلم بیگ ‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ( ر ) درانی ‘ جنرل ( ر ) حمید گل ‘ سابق کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) جمشید گلزار کیانی ‘ جنرل ( ر ) علی قلی خان ‘ جنرل ( ر ) سلیم صدر ‘ جنرل ( ر ) افتخار ‘ جنرل ( ر ) اسلام اور بریگیڈیئر ( ر ) محمود ‘ نیول چیف ایڈمرل (ر ) فصیح احمد بخاری سمیت دیگر اعلیٰ افسران اور دیگر اراکین کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی انہوں نے کہا کہ ایکس سروس مین ایک بار پھر اعلان کرتی ہے کہ جنرل ( ر ) پرویز مشرف اس ملک کے آئینی صدر نہیں ہیں لہذا وہ فی الفور صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔ ایکس سروس مین کے خلاف مراعات کا پروپگینڈہ کرنے والے جان لیں کہ مشرف کا مراعات یافتہ کوئی شخص ایکس سروس مین کا حصہ نہیں ہے ۔ اور اگر ایسا کوئی شائبہ بھی موجود ہے تو ہمارا ایسا کوئی بھی رکن وہ تمام مراعات واپس کر دے ۔ انہوں نے مہمند ایجنسی پر امریکی حملے کو قومی سانحہ اور لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کی باریکی میں جایا جائے اور اس کی تہہ تک پہنچایا جائے ۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے قوم کو دہشت گردی کی اس تعریف سے آگاہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین سوسائٹی ججوں ‘ وکلاء اور میڈیا کی تحریک کا اہم حصہ بن چکی ہے ۔ آج سے 15 ماہ پہلے جس تحریک کا آغاز ہوا بعض لوگ اسے عارضی تحریک سمجھے تھے لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ ایک قومی تحریک بن چکی ہے جو اس سیاسی و سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ہے جو ملک میں برپا ہو چکا ہے ۔ یہ چینی ‘ ایرانی یا کسی اور طرز کی پرتشدد تحریک نہیں بلکہ صحیح معنوں میں سبز انقلاب ہے ۔ 18 فروری کو قوم نے ملک کے حق میں جو مینڈیٹ دیا وہ اس سازش کا منہ توڑ جواب تھا جو امریکہ نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی صورت میں کی وکلاء تحریک نے عوام میں ایسی بیداری پیدا کی جس سے عوام نے درست فیصلہ کیا ۔ دوسرا احسن یہ اقدام تھا کہ 18 فروری کے انتخابات میں فوج اور اس کی ایجنسیوں نے مداخلت نہیں کی اگرچہ فوج ہمیشہ سازشوں کا ساتھ دیتی رہی لیکن اس موقع پر فوج کے قومی سوچ کا ساتھ دیا ۔ 28 مئی کو مشرف کی روانگی کا فیصلہ ہو چکا تھا وہ جانے والے تھے کہ امریکہ نے انہیں بچا لیا تاکہ مشرف کو واپسی کا محفوظ راستہ دیا جائے لیکن اب یہ فیصلہ حکومت کرے گی کہ ان کا احتساب ہو گا یا محفوظ راستہ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ دو بڑی حکومتی جماعتوں کے متفقہ فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 29 کرنا بھی اس تحریک کی تیسری بڑی کامیابی ہے اب معزول ججز بہت جلد بحال ہوں گے ۔ وکلاءتحریک نے عوام میں اپنا حق چھیننے کی امنگ اور جذبہ پیدا کیا اب ایک حکمت عملی کے تحت اپنا حق چھین لیا جائے گا ۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کے لئے ججوں کی بحالی کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ماضی میں احتساب عدالتوں کے ذریعے جانبدارانہ احتساب کر کے بڑے مگرمچھوں کو معاف کر کے چھوٹے لوگوں کو نچوڑا گیا اب نئے احتسابی عمل کے ذریعے ایسا نظام وضع کیا جائے کہ کوئی بھی اس سے بچ نہ سکے ۔ وکلاء تحریک ملک میں جمہوری نظام کو استحکام پیدا کرے گی ۔ وکلاءتحریک نے آج قوم کو متحد کر دیا اس اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کی بدولت ججوں کی بحالی اور مشرف کا جانا ٹھہر چکا ہے ۔ پنجاب کی حکومت توڑنے اور نواز شریف کو ہٹانے کے لیے واشنگٹن سے بھی حکم آیا لیکن مشرف کی ساتھی (ق) لیگ نے بھی اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا ۔ آج (ق) لیگ بھی سیاسی طور پر یہ نہیں چاہتی کہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت ٹوٹنے پائے اسی طرح اے پی ڈی ایم میں شامل قوم پرست جماعتیں بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی سالمیت جمہوریت کے استحکام کی جدوجہد میں شامل ہیں۔ موجودہ متحدہ سیاسی فضا کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں ہی ہماری بقاء اور فلاح ہے ۔ ججوں کی بحالی اور مشرف کی رخصتی کے بعد خود مختار پارلیمنٹ وجود میں آجائے گی آج ملک میں قیادت کا کوئی فقدان نہیں ہے ۔ صرف عوام کے اٹھارہ فروری کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی ضرورت ہے جب کسی حکومت کے آخری دن آتے ہیںتو میڈیا پر پابندی لگا دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج پھر نجی ٹی وی چینل پر پابندی لگائی جا رہی ہے ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت کی کمزوری قرار دے رہے ہیںالامارات کی حکومت وہ غلطی نہ کرے جو نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے کی ۔ یو اے ای کی حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہ کرے جس پر اسے ندامت ہو تحریر وتقریر اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ناگزیر ہے ۔ مشرف کے دور اقتدار میں ہماری سرحد پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 45 حملے کرکے 700 سے زائد قبائلیوں اور عوام کو شہید کیا ۔ حکومت کو شرم آنی چاہیئے کہ جو باغیرت قوم کو بے غیرت بنانے پر تلی ہے ۔ آج بھی 45 ہزار امریکی پاکستان میں موجود ہیں ۔ حکومت نے قومی غیرت اور خود مختاری کو داو¿ پر لگا دیا ہے ۔ حکومت امریکہ کے لیے یہاں عسکری سہولیات ختم کرے نئی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان پر تین حملے ہو چکے ہیں ۔ مہمند ایجنسی میں تازہ حملے میں شہریوں کے ساتھ فوجی جوان بھی شہید ہوئے لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ یہ ایسی دہشت گردی ہے جسے اب بند ہونا چاہیئے ۔ امریکہ اس دہشت گردی پر خون بہا ادا کرے ورنہ ہمارے قبائلی لشکر انتقام کے لیے تیار ہیں حکومت اگر قدم نہیں اٹھاتی اب عوام اور قبائلی خود فیصلہ کریں گے۔ اب ہماری تحریک کا یہ بھی حصہ ہے کہ گزشتہ نو سالہ قومی تزلیل وتضحیک کا بدلہ لیا جائے گا۔ اور 1947 ء سے لے کر آج تک تمام سول وفوجی بیورو کریسی کاکڑا احتساب کیا جائے ۔ ایکس سروس مین سوسائٹی کو سابق آرمی چیف کے احتساب کا اختیار دیا جائے ۔ مشرف کی آرمی چیف پر قبضے کے دوران 1999 ءمیں چیئرمین جوائنٹ چیفیس آف سٹاف کمیٹی سمیت دیگر اہم عہدوں پر تعینات افسران کا احتساب کیا جائے کارگل کے ذمہ داروں کا کڑا احتساب کیا جائے ۔ ایکس سروس مین پرویز مشرف کو محفوظ راستے سے بھاگنے نہیں دیں گے اگر کسی کی غلطی سے بھاگ بھی گیاتو ہم اٹھا کر واپس لائیں گے۔ صدارتی ترجمان راشد قریشی ایک کاغذی جرنیل ہے وہ اصلی جرنیل نہیں ۔ تین نومبر کی ایمرجنسی غیر آئینی تھی پرویز مشرف کا اس حوالے سے بھی احتساب کیا جائے ۔ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی پرویز مشرف کا کورٹ مارشل آرڈر جاری کریں ۔سپریم کورٹ بار کے صدر اور وکلاء کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ قوم کی دعاو¿ں سے عدلیہ آزاد ہو گی جج بحال ہوں گے اور صدر پرویز مشرف نشان عبرت بنیں گے ۔ یہاں لانگ مارچ کے شرکاء اور استقبال کے لیے آنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے قوم کا جذبہ قابل دیدنی ہے ۔ کیونکہ اس بلا کی گرمی اور آنکھوں میں رت جگے لیے عوام کی ایک بڑی تعداد نے جگہ جگہ لانگ مارچ کے شرکاءکا خیر مقدم کیا ہے جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء وکلاء تحریک کے بھرپور حامی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکاءگزشتہ چار دن سے طرح طرح کی تکالیف کے باوجود بلند حوصلے اور پامردی سے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اس لیے انشاء اللہ انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گی ۔ عدلیہ آزاد ہو گی جج بحال ہوں گے اور صدر پرویز مشرف بھی اپنی ” توقیر “ دیکھ لیںگے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ 9 مارچ 2007 ء سے وکلاء ایک نظرئیے اور ایک خواب کے پیچھے چل رہے ہیں اور انہوںنے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے ہیں ۔ اور یہ جفاکش اب اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے اور یہ مقصد عدلیہ کی آزادی ہے ۔ عدلیہ آزاد ہو گی تو امن وامان ہو گا جمہوریت مضبوط ہو گی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی ۔ لوگوں کو روز گار ملے گا اور لوگ خوشحال ہوں گے انہوں نے کہا کہ ساٹھ سالوں سے عدلیہ آزاد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک نے ترقی نہیں کی ۔ بار بار فوجی حکومتیں آئیں ا ور عوام کا استحصال کیا گیا۔ لیکن وکلاءایسا نہیں ہونے دیں گے اور پاکستانی عوام کو ان کے حقوق دلوا کر دم لیں گے ۔ گجرات میں وکلاء لانگ مارچ میںشامل وکلاء رہنماو¿ں نے کہا ہے کہ پرویز مشرف ان کی تحریک سے خوفزہ ہیں گجرات بار سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حساب بے باک ہونا چاہئے ۔ سپریم کورٹ بار کے صدر اور وکلاء تحریک کے سینئر راہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ زمینی فاصلے کا نام نہیں ہے یہ لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کرنے کا نام ہے ۔چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں پارٹی سے اختلاف ججوں کی بحالی کے طریقے پر ہے تاہم رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے ۔ انہوںنے کہا کہ وکلاء نے قوم کو ایسا پاکستان دینا ہے جہاں ریاست اور شہری کے درمیان ماں اور اولاد کا رشتہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف ججوں اور قانون کے لئے انصاف نہیں مانگتے بلکہ وہ پوری قوم کو سماجی انصاف دینے نکلے ہیں وکلاء راہنما نے کہا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک وکلاء نے شروع کی تھی لیکن اب پوری قوم بھی اس جدوجہد میں شریک ہے ۔ عوام اور وکلاء کی تحریک سے پرویز مشرف خوفزدہ ہیں علی احمد کرد نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودہدری چند گھنٹوں میں بحال ہو جائیں گے انہوں نے کہا کہ وکلاء 60 سال کی ناانصافی اور ظلم ختم کرنے اسلام آباد جا رہے ہیں جبکہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ جب تک ملک میں آئین کی مکمل بالا دستی قائم نہیں ہو جاتی ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔ انہوںنے کہاکہ صدر پرویز مشرف امریکی ایجنٹ ہے اس لیے انہیں برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو جج تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں سرحد سے آنے والے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اٹک پل پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم وکلائ اورججوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پیش نظر مقصد یہ ہے کہ 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے تحت صدر پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا ججوں کو برخاست کیا سپریم کورٹ کا حلیہ بگاڑ دیا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف کو عبرت ناک سزا دی جائے اور اسے عبرت کا نشان بنایا جائے ۔ قاضی حسین احمد نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے اور پی سی او کے ججوں کو ہم نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اصل ججوں کو بحال کیا جائے۔قاضی حسین احمد نے کہاکہ 29 ججوں کی بات خلاف دستور ہے اور یہ سپریم کورٹ کی کمزوری کا باعث بنے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ججوں کو بحال کر کے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کو منسوخ کر دیا جائے اور امریکا کی بالا دستی کو ختم کیا جائے۔ وزیرستان باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں امریکی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان امریکا سے اپنا ناطہ توڑ لے ۔ انہوں نے کہاکہ نیٹو کی افواج کو بھی افغانستان سے نکالا جائے ہم چاہتے ہیں کہ جب تک امریکی مداخلت ختم نہیں ہو گی ججوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو گی کیونکہ پرویز مشرف امریکی ایجنٹ ہیں اور جمہوریت کی بالادستی کے لے ضروری ہے کہ عدلیہ کو بحال کیا جائے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے کیونکہ صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹایا ہی اس خوف سے تھا کہ چیف جسٹس پرویز شرف کو غیر آئینی اور غیر قانونی صدر تسلیم کرتے تھے۔ ایک اور سوال کے جواب میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ لانگ مارچ ناکام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ کہ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک میں مکمل طور پر آئین کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی اور جب تک عدلیہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہوگی ۔انہوں نے کہاکہ افتخار محمد چوہدری کو اپنے تمام ججوں کے ساتھ بحال کیاجائے اور پی سی او ججوں کو برخاست کیا جائے ۔ معزول چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ترجمان اطہر من اللہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ پرویز مشرف جا چکے ہیں ۔ امریکا بھی ان کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہاہے ۔ پریڈ گراو¿نڈ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے لانگ مارچ کے شرکاءکی سیکیورٹی کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ہر شہری کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں بد قسمتی سے ساٹھ سالوں سے ملک میں شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف جا چکے ہیں کیونکہ گزشتہ روز امریکی سفیر نے پرویز مشرف کے لیے محفوظ راستہ کی بات کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہے ۔ پرویزمشرف کو اس کے مجرمانہ کاموں سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف اس ملک کی بدترین تاریخ بن چکے ہیں ۔ان سے آرمی ہاو¿س خالی ہو چکا ہے ۔ ہم پارلیمنٹ کو اس کی ذمہ داری سے آگاہ کر رہے ہیں کہ عدلیہ کو بحال کیا جائے وزیر اعظم نے جس طرح ججز کی رہائی کا حکم دیا اسی انگلی اٹھا کر ججز کی بحالی کے احکامات جاری کر دیں ۔ انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کو تسلیم نہیں کرتے۔ پرویز مشرف کے لیے با عزت محفوظ راستہ مانگنے والے پی سی او ججز کو محفوظ راستے سے لے جائیں ۔ وکلاء کے لانگ مارچ کے موقع پر شاہراہ دستور کو ” ریڈ زون“ قراردے دیاگیاشاہراہ دستور پر ایوان صدر ، پارلیمنٹ ہاو¿س ، سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ڈپلومیٹک انکلیوڑ کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیںتھی۔ضابطہ اخلاق دونوں فریقوں کی اتفاق رائے سے طے کیاگیاامن وامان کا قیام دونوں فریقوں کی ذمہ داری تھی۔حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاءکو پانی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے کھانا فراہم کیاگیا لانگ مارچ کو صرف پریڈ گراو¿نڈ تک جانے کی اجازت تھی لانگ مارچ فیض آباد کے مقام سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا اور کشمیر ہائی وے سے آبپارہ چوک پہنچا ، پھر سہروردی روڈ سے ایمبیسی روڈ سے ہوتا ہوا پریڈ ایونیو تک پہنچا پریڈ ایونیو میں اسٹیج بنا دیاگیا تھاوزیراعظم نے اسلام آباد کے شہریوں اور غیر ملکیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا معمول کی ٹریفک رواں دواں رہے گی لانگ مارچ کے شرکاء ٹریفک پلان پر مکمل عمل درآمد کریںگے جبکہجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکومت چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کو بحال کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد17سے بڑھا کر29کرنے کا جو اعلان کیاگیا ہے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ پی سی اوکے تحت غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پرحلف لینے والے ججوں کو نوازا جا رہا ہے قاضی حسین احمد نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ پرامن لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور تصادم کی فضا پیداکرنے سے گریز کرے، ہم پرامن جدوجہد پریقین رکھتے ہیں ہمارا ماضی اس پرگواہ ہے۔ کراچی سے لاہور تک لانگ مارچ کے شرکاء پرامن رہے ہیں اور اس کے بعد بھی پرامن ہی رہیں گے اپنے مطالبات کے لیے پرامن جدوجہد ہمارا حق ہے اور یہ حق پوری دنیا تسلیم کرتی ہے،ریاستی جبر کے ذریعے ہمیں ا س حق سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج ججوں کی بحالی کو ٹالنے کے لئے پیش کیاجارہا ہے۔ ورنہ وزیراعظم نے اعتماد کے ووٹ کے بعد ججوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیاتھا اگر وہ اسی وقت ججوں کی بحالی کا آرڈر جاری کردیتے تو سارا مسئلہ حل ہوجاتا اور پیچیدگیاں پیدا نہ ہوتیں، لیکن جان بوجھ کر عوامی حکومت کے دعویداروں نے کمزوری دکھائی جس سے مسائل پیدا ہوئے۔ قاضی حسین احمدنے مطالبہ کیا کہ مری ڈیکلریشن کے مطابق ججوں کی بحالی کی قرارداد پیش کی جائے اسے آئینی پیکج کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے کیونکہ سینٹ میں حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ آئینی پیکج کے ذریعے ججوں کی بحالی پر اصرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو تسلیم کرکے اسے تحفظ دیا جا رہا ہے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ ججوں کی بحالی تک جماعت اسلامی وکلا کی تحریک کا بھرپور ساتھ دے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ اتحادی فوجوں کا پاکستانی سرحد کے اندر حملہ پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری پر حملہ ہے کل تک پاکستان کے معصوم شہریوں کو شہید کیا جاتا تھا آج فوجی جوان بھی شہید ہونے لگے ہیں ہم اس حملہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ یہ سب مشرف کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 18 فروری سے قبل معزول ججوں کی بحالی کے لئے ایک آمر کے خلاف تحریک جاری تھی اور اٹھارہ فروری کے بعد جمہوری حکومت قائم ہونے کے باوجود ان ججوں کی بحالی کے لئے تحریک جاری ہے جو انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ اصلی جج باہر بیٹھے ہیں ۔ ہم بکنے والے اور پاکستان کی بجائے مشرف کی ذات کا حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ میں یہ لکھ کر دیتا ہوں کہ اصلی جج ہر صورت بحال ہو نگے اور جب تک یہ جج بحال نہیں ہوتے پاکستان مسلم لیگ ن وکلائ کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد جاری رکھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے 9 مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا تھا ایسا نہیں ہے کہ چیف جسٹس کو پہلے تین مزید باوردی جرنیلوں کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو استعفی دینے پر مجبور کیا جب انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر ان کے خلاف کیس پھر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا ۔ ان خیالات کا اظہار انہو ںنے گزشتہ شام وکلاء کے لانگ مارچ کی لاہور سے اسلام آباد کے لئے رخصتی کے موقع پر آزادی چوک میں وکلاء اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن ، پیپلز پارٹی کے رہنما اقبال حیدر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خاں، مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی ، علی احمد کرد، منیر اے ملک، محمود الحسن اور دیگر رہنما بھی موجود تھے ۔میاں نواز شریف نے کہا کہ میں اکثر یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ 9 مارچ کے بعد سے وکلاء اور عوام ایک ڈکٹیٹر کے خلاف معزول چیف جسٹس کی بحالی کے لئے تحریک چلا رہے تھے ۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ اٹھارہ فروری کو جب ملک میں جمہوری حکومت قائم ہو گئی آج بھی ہم معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک چلا رہے ہیں ۔ پہلے تو یہ تحریک ایک آمر کے خلاف چلائی جا رہی تھی اب یہ جج بحال کیوں نہیں کئے گئے میری سمجھ سے باہر ہے ۔ پوری قوم سراپا احتجاج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف جھوٹ بولتے ہیں کہ ان ججوں کو انہوں نے ان ساتھ ججوں کو معزول نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود حلف نہیں لیا ۔ انہو ںنے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں نے جنرل مشرف کی ذات کا حلف لینے سے انکار کیا جنہیں میں سیلوٹ کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے جوسوغات پاکستان کو دی ہے اور جن ججوں نے پاکستان کی بجائے مشرف کی ذات کا حلف اٹھایا یہ قو م کو کیا انصاف دیں گے کیا پاکستان کی قسمت میں یہی جج رہ گئے ہیں جو وردی جھک کر سیلوٹ کرتے ہیں۔ کیا ان ججوں کے سروں پر تاج رکھا جائے ، انہیں ہلال جرات دیا جائے اور پھر جب یہ جج مر جائیں تو پیسوں کے لئے بکنے والے ان ججوں کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جائے جس طرح مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے والے جرنیلو ںکو قومی پرچم میں لپیٹ کر پورے قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا تھا کیا پاکستان کی تقدیر میں یہی کچھ رہ گیا ہے ۔ آج قوم کو جھاگنا ہو گا اور طوفان بن کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ اصلی جج باہر رسوا ہو رہے ہیں اور نقلی جج عدالتوں میں بیٹھے ےیں ۔انہوں نے کہا کہ اصلی چہرے چھپے ہوئے ہیں اور نقلی چہرے سامنے ہیں جو پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی مشرف ہیں مجھے ہتھ کڑیاں لگائیں ، اسمبلی توڑی ، منتخب حکومت ختم کی اور آئین توڑا اور پھر مجھے ملک بدر بھی کیا لیکن اللہ تعالی مجھے واپس لے آیا اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جھوٹ اپنے انجام کو پہنچا ۔ جب سچ باطل کے سامنے رسوا نہیں ہو سکتا تو پھر ڈر کس بات کا ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے چند روز پہلے (میڈیاسے) اپنی مرضی کے چند بندے سامنے بٹھا کر سوال جواب کئے اس کے چہرے پرجعلی ہنسی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔ بلکہ مشرف ہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ آمریت کی باقیادت کو بھی جانا ہو گا ۔ ہمیں آمریت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنا ہے ۔ یہ کیا مذاق ہے کہ ہر دس سال بعد وردی والا آجاتا ہے اور پوری قوم کو یرغمال بنا لیتا ہے کیا ہم بھیڑ بکریاں یا مٹی کے بت ہیں یا ہم زندہ قوم نہیں ہیں کہ ہمیں اس طرح یرغمال بنایا جاتا رہے ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے کرتوتوں کی وجہ سے جو سرحد پر حملہ ہو ا پہلے تو معصوم شہریوں کی جان جاتی تھی اب اس میں فوجی جوان شہید ہوئے ہیں جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں یہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ تھا ۔ کیا ہم نے 1947 میں قربانیاں دے کر یہ دن دیکھنے کے لئے پاکستان بنایا تھا کہ جہاں فوجی حکمرانی ہو ، ڈکٹیٹر آئین توڑے ، عوام فاقو ںاور خو د کشیوں پر مجبور ہوں ، آٹا نایاب اور بے روز گاری ہو ۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا ہے ۔ آج ہر بندہ خودکشی پر مجبور ہے ، چاروں طرف بد امنی ہے ۔انہو ںنے پاکستان کا کیا حشر کردیا ہے ۔ آج قوم کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے ۔ میں چیف جسٹس اور ان ساٹھ معزول ججوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشرف کی ذات کا حلف نہیں اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر قوم کے پاس اعتزاز احسن ، علی احمد کرد، منیر اے ملک ، اقبال حیدر اور حامد خاں جیسے دس بیس رہنما اور ہوں تو پاکستان کو کبھی مشکلات کا سامنا نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کے حلقے جہاں دونوں حلقوں سے ان کی ضمانتیں ضبط ہوئیں میں نے آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ یہاں سے اعتزاز احسن کو الیکشن لڑوائیں وہ ہمارے مشترکہ امیدوار ہونگے لیکن معلوم نہیں ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے تمام امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھایا تھا آج میں یہاں موجود تمام لوگوں سے حلف لینا چاہتا ہوں کہ وہ بھی ججوں کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جس کے بعد اجتماع میں موجود تمام لوگوں نے میاں نواز شریف کے پیچھے حلف پڑھا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ جب جج بحال ہونگے تو ملک میں نا انصافی کادور ختم ہو گا ، مہنگائی اور بے روزگاری بھی ختم ہو گی اور گڈ گورننس بھی ہو گی ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ملک میں موجود بحران اور معاشی تباہی 60سالہ ہے یہ 60یومیہ حکومت کے گلے ڈالنا درست نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی افہام و تفہیم سے حکومتی نظم ونسق چلائیںگے اور اس سلسلے میں میری کراچی میں شہری حکومت کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے تحت کراچی میں ایسی ترقی ہوگی جو گزشتہ 60برسوں میں نہیں ہوئی۔جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان پیپلز پارٹی نے دی ہیں اور ہمارے پاس عدلیہ اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے روڈمیپ ہے ملک میں حالیہ معاشی و صنعتی بحران کا ذمہ دار 60یومیہ حکومت کو نہیں ٹھہرا یا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہروں میں موجود ڈاکو صرف60دنوں میں ہی پیدا نہیں ہوئے ہیں تاہم میں اسکے باوجود وزیر داخلہ کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ہر 3ماہ بعد وزارت داخلہ کی کارکردگی کی رپورٹ صحافیوں سے شئیر کریں اور اس کی بنیاد پر میڈیا انہیں تعریف یا تنقید کا نشانہ بنانے کا مکمل حق رکھتا ہے۔آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان موجود خلیج کے حوالے سے کہا کہ یہ وقتی امر ہے اور دونوں پارٹیوں میں مضبوط ورکنگ ریلیشن موجود ہے۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے کے آغاز پر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ وکیلوں کا ساتھ دیں کیونکہ ان کے بقول وکیل قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔وہ لاہور ہائی کورٹ میں وکیلوں کے ایک ایسے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے جن میں لاہورکے علاوہ ملتان سے آنے والی لانگ مارچ کے شرکائ بھی شریک ہوئے۔اس اجتماع میں چیف جسٹس سمیت سترہ معزول جج، سپریم کورٹ کے آٹھ ریٹائرڈ جج اور ملک بھر سے آئے وکلائ نمائندوں نے شرکت کی۔ افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وکلاء نے 9 مارچ سے جو انقلاب برپا کرنا شروع کیا ہے اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ان سے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ سے ہی جمہوریت آگے بڑھے گی۔ انہوں نے وکلائ کو کہا ہے کہ ان کی منزل بہت دور نہیں، بہت قریب ہے وہ ثابت قدم رہیں اور کسی رکاوٹ سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔انہوں نے وکلاء کو ہدایت کی وہ ڈسپلن برقرار رکھیں۔ معزول چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء سے قوم کی محبت دوگنی سے چوگنی ہوگئی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ نیا سبق سکھایا ہے کہ ان کی بقا آئین اور قانون میں ہے۔ انہوں نے کہا آئین کی بالادستی ہوگی تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔انہوں نے کہا وکلاء نے آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے اس تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔پندرہ ماہ سے انہوں نے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ رکھے ہیں اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا ہے۔’اگر وکلاء یہ قربانی نہ دیتے تو یہ دن دیکھنے کو نصیب نہیں ہوتا۔ وکلاء کی قربانی کی وجہ سے قوم میں بیداری آئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا کہ وکیلوں کی تحریک صرف ججوں کی بحالی پر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ہم ریاست کا مزاج اور سوچ بدلیں گے اور پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ہائی کورٹ کے معزول جسٹس خواجہ شریف خطاب کے لیے آئے تو فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ انہیں پارلیمان سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر نے کہا کہ وہ روات سے اسلام آباد مڑ جانے کے فیصلے کو نہیں مانتے۔انہوں نے کہا کہ اس کی بجائے وکلاء راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے ہوتے ہوئے فوجیوں کی رہائش گاہوں کو اپنے پاو¿ں تلے روندتے ہوئے اسلام آباد جائیں گے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمودالحسن نے کہا کہ صدر مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے اور جس جج نے ان کے اقدامات کی توثیق کی انہیں بھی یہی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے آئینی پیکج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پی سی او ججوں کو بحال رکھنا ہے جو وکلائ کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ اسی ایسوسی ایشن کے ایک دوسرے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اراکین پارلیمان کو ان کے حلف کی اہمیت یاد دلانے کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلائ برادری نے اس طرح کا انقلاب برپا کیا ہے کہ اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے اور مجھے امید ہیں کہ آپ اس میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے پاکستانی میڈیا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے وکلائ نے 16 کروڑ عوام کو بیدار کیا اور اس وکلائ کی تحریک میں میڈیا کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے بعض اداروں نے مالی مشکلات کے باوجود وکلائ تحریک کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ بار کے صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا وکلاءپاکستان کی تاریخ بدلنے نکلے ہیں اور صدر مشرف اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے فرانس کی ملکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اس نے کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاو¿ اسی طرح صدر مشرف بھی کہتے ہیں کہ اگر دال نہیں ملتی تو مرغی کھاو¿۔ لانگ مارچ اپنے دوسرے مرحلے میں ملتان سے لاہور تک کی مسافت آدھے دن اور پوری رات میں مکمل کی اور صبح پو پھٹنے پر وکلاءاور لانگ مارچ کے دیگر شرکاء لاہور میں داخل ہوئے۔ ملتان میں معزول چیف جسٹس کے خطاب کے بعد لانگ مارچ کا یہ قافلہ ساہیوال کی طرف چل پڑا۔ ساہیوال میں علی احمد کرد اور دیگر رہنماو¿ں نے وکلاء سے خطاب کیا۔ مسلم لیگ نون کے سرکردہ رہمنا مخدوم جاوید ہاشمی بھی ملتان سے قافلے کے کے ساتھ ساتھ رہے۔ لانگ مارچ اوکاڑہ پہنچا تو کچہری چوک اور شہر کے دیگر مقامات پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عام شہریوں نے آتشبازی، گل پاشی اور دھول کی تھاپ پر اس کا استقبال کیا۔ اوکاڑہ شہر کے اندر سے ہوتا ہوا جیسے ہی قافلہ جی ٹی روڈ پر آیا تو اس نے ایک دم شکل بدل دی۔ قافلے کی قیادت کرنے والے علی احمد کرد اپنی گاڑی قافلے سے الگ کر کے اس سے آگے نکل گئے، دیگر گاڑیاں بھی آگے پیچھے ہو گئیں۔ قافلے کو پتوکی میں وکلاء نے روک لیا تو ایک بار پھر وہ ترتیب میں آگیا لیکن وہاں سے چلتے ہی پھر اس میں بی ترتیبی آگئی۔ قافلہ جب صبح کے وقت جب لاہور میں داخل ہوا تو ملتان روڈ کے ایک استقبالی کیمپ کے علاوہ کہیں بھی بڑا استقبال نہیں ہوا۔ کئی مقامات پر استقبالی کیمپ تو موجود تھے لیکن وہاں کوئی سیاسی کارکن موجود نہیں تھا۔ جس کی وجہ قافلے کی تاخیر اور پوری رات گذر جانا بتایا گیاہے۔ اوکاڑہ اور دیگر مقامات پر وکلاء اور سیاسی کارکنان عد لیہ کی بحالی کیلئے اور مشرف کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے رہے۔ پتوکی تک لانگ مارچ کے ساتھ پولیس بھی چلتی رہی لیکن جیسے ہی لانگ مارچ پتوکی سے آگے بڑھا تو پولیس واپس چلی گئی اور قافلے نے لاہور تک کا سفر سیکیورٹی کے بغیر طے کیا۔ ادھر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بدھ کی شام ہی بذریعہ ہوائی جہاز ملتان سے لاہور پہنچ گئے تھے ۔لاہور ائر پورٹ پر وکلاءاور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور انہیں ایک جلوس کی شکل میں لاہور ہائی کورٹ لے جایا گیا۔ راستے میں جگہ جگہ سیاسی جماعتوں نے استقبالی کیمپ لگا رکھے تھے جن سے جلوس کے شرکاء پر گل پاشی کی جاتی رہی۔ سب سے زیادہ مسلم لیگ نون کے کیمپ اورکارکن تھے لیکن انکے علاوہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکن بھی متحرک نظر آئے۔ پوری مال روڈ ساری رات ترانوں اور سیاسی گانوں سے گونجتی رہی۔ جبکہ مال روڈ اور دیگر مقامات پر آویزان بینروں پر ’عدلیہ کی جنگ نواز شریف کے سنگ‘، ’عدل یا جدل‘، ’ہم ملک بچانے نکلے ہیں آو¿ ہمارے ساتھ چلو‘، جیسے نعرے درج تھے۔ لاہور ائر پورٹ ، ٹھوکر نیاز بیگ سے ہائی کورٹ کی طرف جانے والے تمام راستوں پر جسٹس افتخار محمد چوھدری، نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر آویزاں تھیں۔ پاکستان میں اعلٰی عدالتوں کے ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء کے مجوزہ لانگ مارچ میں شرکت کے لیے وکلاء کے قافلے کراچی اور کوئٹہ سے سکھر کے لیے روانہ ہوئے جہاں سے وہ بارہ جون کو پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے پہنچے کراچی سے قائد اعظم مزار سے شروع ہونے والے وکلاء کے قافلے کو الوادع کرنے والے والوں میں پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد اور سابق جج فخر الدین جی ابراہیم بھی شامل تھے۔ رات کو لاہور میں قیام کرنے کے بعد تیرہ جون جمعہ کو لانگ مارچ جی ٹی روڈ کے ذریعے راولپنڈی ضلعی بار پہنچا اور مری روڈ پر پشاور سمیت سرحد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والے وکلاء کے قافلے مری روڈ پر مرکزی قافلے میں شامل ہو گئے۔ راولپنڈی سے لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو کر پارلیمنٹ ہاو¿س پہنچا۔ جس طرح تین نومبر دو ہزار سات کو صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے ساٹھ ججوں کو معزول کر کے انہیں بچوں سمیت گرفتار کر لیا ایسا تو کسی غیر مہذب معاشرے میں بھی نہیں ہوتا صدر مشرف نے ججوں کو نجی جیلوں کے اندر محبوس کر دیا تھا اور ایسا کسی بادشاہ، کسی شہنشاہ، کسی سلطان یا کسی فرعون نے بھی نہیں کیا۔ اب مشرف یہ غلط بیانی کر رہے ہیں کہ انہیں ججوں کو برطرف اور گرفتار نہیں کیا۔اگر مشرف نے ججوں کو گرفتار نہیں کیا تھا تو وہ کون تھے جن کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حکم پر رہا کیا گیا ۔ صدر مشرف نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور کب تک ایسا شخص صدر کے منصب پر فائز رہے گا۔ وکلاءمشرف کو محفوظ راستہ نہیں دینا چاہتے، ان کے خلاف آزاد ماحول میں، آزاد عدلیہ کے پاس مقدمہ چلایا جائے گا اور ان کا اس کیس میں ٹرائل کیا جائے گا جو چیف جسٹس اور ان کے بچوں کو محبوس رکھنے سے متعلق ہے اور جس کی ایف آئی آر اسلام آباد کے ایک تھانے میں درج ہے۔ معزول ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے کراچی سے آنے والے وکلاء اور سیاسی کارکنان کا قافلہ جب بہاولپور پہنچا تو اس وقت سخت گرمی اور ایک لمبے سفر کے باوجود قافلے میں شریک وکلاء کے جوش میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ بہاولپور میں وکیل رہنما علی احمد کرد کے ضلعی بار سے خطاب کے بعد یہ قافلہ ملتان کے لیے روانہ ہو ا ۔اس سے قبل پنجاب میں داخل ہونے پر قافلے کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ چھوٹے بڑے شہروں سے گزرتے اس قافلے پر پھول نچھاور کیے گئے۔ قافلے کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں نے معزول چیف جسٹس کے حق میں اور صدر مشرف کے خلاف سخت نعرہ بازی کی۔ ادھر معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لئے جب ملتان پہنچے توملتان پہنچنے پر معزول چیف جسٹس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ جہاں انہیں پنجاب کی حکومت نے چیف جسٹس کا پروٹو کو ل دیا گیا ہے۔ درجنوں گاڑیوں، مسافر بسوں اور ویگنوں پر سوار سینکڑوں وکلاء اور سیاسی کارکنان کا یہ قافلہ جب منگل کی صبح سکھر سے روانہ ہوا تھا اور قومی شاہراہ پر سفر کرتا ہوا منگل کی شام کو رحیم یار خان پہنچا تھا۔ رحیم یار خان سے یہ قافلہ بہاولپور کی جانب روانہ ہوا تھا اور منگل اور بدھ کی درمیانی رات وکلاءکا قافلہ بہاولپور پہنچا۔ قافلے کے دوران رحیم یار خان میں وکلاء سے خطاب کرتے علی احمد کرد نے کہاکہ تین نومبر کو ایک شخص نے پاکستان کے پانچ ہزار وکلاء کو جیلوں میں بند کر دیا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہیں اور عوام بارہ جون کو صدر مشرف کو گھر بھیج دیں گے۔علی احمد کرد نے کہا کہ صدر مشرف کو گھر بھیجے تک وکلاءکی تحریک جاری رہے گی۔ صادق آباد اور ماچھی گوٹھ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے قافلے کا استقبال کیا۔ اس قافلے کے راستے میں جگہ جگہ پوسٹر اور بینرز لگائے گئے تھے۔پنوعاقل اور گھوٹکی میں قافلے کے شرکاء نے مختصر قیام کیا اور چلچلاتی دھوپ میں جمع ہونے والے سیاسی کارکنوں اور شہریوں سے خطاب کیا۔ کراچی سے شروع ہونے والے اس قافلے کی سربراہی علی احمد کرد کر رہے تھے۔ وکلاء کے ساتھ اس قافلے میں شریک پاکستان مسلم لیگ (نون) کے کارکنوں کی قیادت سابق گورنر سندھ ممننوں حسین جبکہ جماعت اسلامی کے کارکن صوبائی امیر اسد اللہ بھٹو کے ہمراہ اس قافلے میں موجود تھے۔جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے علاوہ سندھ قوم پرست جماعت سندھی عوامی تحریک کے کارکن بھی قافلے کے ساتھ چلتے رہے۔کراچی سے روانہ ہو کر گھوٹکی تک پہنچنے والا یہ قافلے میں شرکاءکی تعداد ہزاروں تک نہیں پہنچ سکی تھی اور توقع تھی ہے کہ پنجاب پہنچنے پر اس میں بڑی تعداد میں وکلاء، سیاسی کارکنوں اور عام شہری شامل ہوں گے۔ ادھر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لانگ مارچ کے پیش نظر انتہائی سخت سکیورٹی اقدامات کیے گئے ۔ حکام نے پیر کو شاہراہ دستور کو جس پر ایوان صدر سے لے کر پارلیمنٹ ہاو¿س اور سپریم کورٹ جیسی انتہائی اہم عمارتیں واقع ہیں خار دار تاروں کے ذریعے سیل کر دیا تھا جبکہ منگل کو پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے ڈی چوک پر کنٹینر کھڑے کر کے راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ۔ادھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے کہا کہ وہ وکلاءکا اسلام آباد آمد پر خیر مقدم کرے گی اور ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی کرے گی۔ وزیراعظم کے مشیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ ان کی حکومت مارچ کی مزاحمت نہیں کرے گی۔ سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے لیے وہ وکیل رہنما اطہر من اللہ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس سے قبل بہاولپور میں مختصر قیام کے دوران ضلعی بار سے خطاب کرتے ہوئے قافلے کے سالار اور وکیل رہنما علی احمد کرد نے کہا کہ’صدر پرویز مشرف کو تین نومبر کے احکامات جاری کرتے ہوئے بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ وکلاء، سول سوسائٹی اور میڈیا کو خاموش کر دیں گے لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ غلط تھے‘۔انہوں نے کہا کہ بارہ جون کا اسلام آباد میں دھرنا صدر مشرف کو مجبور کردے گا کہ وہ صدارتی محل چھوڑ کر گھر جائیں۔ ملتان میں وکلاء کے لانگ مارچ کے سلسلے میں کافی جوش و جذبے کے ساتھ تیاریاں کی گئی اور وکلاء، سیاسی جماعتوں، تاجر تنظیموں، ورکر یونینز اور طلباءتنظیموں کی جانب سے شہر کے تمام چوراہوں پر بینرز، جھنڈے اور ہورڈنگ لگائے گئے جن پر عدلیہ کی بحالی اور صدر مشرف کے مواخذے کے نعرے درج کیے گئے۔ پورے شہر میں لانگ مارچ کے بارے میں وال چاکنگ بھی کی گئی اور کئی مقامات پر استقبالیہ کیمپ بھی لگائے گئے ۔ اس کے علاوہ چھ کے قریب ٹرکوں پر لدے مزید کنٹینر بھی پارلیمنٹ لاجز کے سامنے کھڑے دیکھے گئے ہیں۔ جب ان میں سے ایک ٹرک کے ڈرائیور سے پوچھا گیا کہ کنٹینر کو کس جگہ پر رکھنا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اس انتہائی حساس سرکاری علاقے کی سکیورٹی کے لیئے تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ لاجز کے سامنے رینجرز نے نئی حفاظتی چوکیاں بھی قائم کر د یں۔پارلیمنٹ ہاو¿س، سپریم کورٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاو¿س کی طرف جانے والے تمام راستوں کو عام ٹریفک کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا گیا صرف سرکاری گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دی گئی ا ن مقامات پر اسلام آباد پولیس کی بکتر بند گاڑیاں بھی کھڑی کی گئیں ۔رحمان ملک کا کنٹینروں کے بارے میں کہنا تھا کہ اس کا مقصد سرکاری تنصیبات کو کسی بھی طرح کے نقصان سے بچانا ہے۔ 'وہاں اہم سرکاری دفاتر ہیں، عدالتیں ہیں، پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہوگا جبکہ سفارتی علاقہ بھی اسی جانب ہے۔ ان سے آگے کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔' مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وکلاءکو مارچ زیرو پوائنٹ یا شکرپڑیاں تک محدود ر کھنے کے لیئے کہا تھا لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔وکلاء کے مطابق ان کا لانگ مارچ راولپنڈی سے فیض آباد، زیرو پوائنٹ، آبپارہ کے راستے ڈی چوک پہنچے گا جہاں وہ دھرنا دیں گے۔ وکلا کی آمد پر اس علاقے میں واک تھرو گیٹس بھی نصب کیئے گئے جن پر وکلا نمائندے بھی موجود تھے جو ہر آنے والے کی شناخت پر انہیں اندر جانے دیتے رہے۔ اسلام آباد میں سکیورٹی کے لیئے کنٹینروں کا استعمال کم ہی دیکھا گیا گزشتہ برس تین نومبر کو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ہنگامی حالت کے نافذ کے بعد بھی قدرے اسی قسم کے حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ لیکن اس دفعہ بھی سڑکوں پر کنٹینر نہیں رکھے گئے تھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی میں اس وقت صدر پرویز مشرف نہیں بلکہ پارلیمان رکاوٹ ہے۔یہ بات انہوں نے ملتان روانگی سے پہلے لاہور ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا تھاکہ وکلاءکی لانگ مارچ کا ہدف کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ اسلام آباد پہنچ کر کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں رکاو ٹیں کھڑی کرنے کے حکومتی انتظامات پر تبصرہ کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ وکلاءکی کامیابی ہے کہ حکومت کانپ رہی ہے پارلیمان نے وعدہ کیا تھا کہ ججوں کو ایک قرارداد کے تحت بحال کیا جائے گا اور اب پارلیمان کو مقتدر بنانے کی ضرورت ہے اس لیے وکلاء پارلیمنٹ کا ہی گھیراو¿ کریں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ’صدر پرویز مشرف تو خود خارجی راستے پر کھڑے ہیں اور ہوا کا ایک جھونکا ہی انہیں باہر کردے گا،وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ جب وکیل اسلام آباد پہنچیں تو وہ پہلے ہی چھوڑ کر جا چکے ہوں‘۔ ادھر لاہور میں پیپلز لائرز فورم لاہور ہائی کورٹ کے کنوینر میاں جہانگیر اور پاکستان بار کونسل کے رکن کاظم خان نے پیپلز پارٹی کے دیگر وکلاء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے لانگ مارچ کی حمایت کی ہے۔ تاہم انہوں نے وکلائ تحریک کی قیادت پر زور دیا تھاکہ لانگ مارچ کا اختتام پارلیمنٹ ہاو¿س کی بجائے ایوان صدر یا آرمی ہاو¿س پر کیا جائے۔ سب سے بڑا ہدف مشرف ہے لیکن اس کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی یا آصف زرداری کی نیت پر شک کیا جا رہا ہے۔ کاظم خان نے کہا کہ وکلاء کو تقسیم کرنے کے لیے ایک مخصوص ٹولہ سازشیں کر رہا ہے۔ اس سے قبل لاہور کے بعد گجرات میں لانگ مارچ کے قافلے نے سب سے لمبے عرصے تک قیام کیا اور اعتزاز احسن سمیت علی احمد کرد، اقبال حیدر اور دیگر وکلاءرہنماو¿ں نے شرکاء سے خطاب کیا۔ وکلاءرہنماو¿ں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ گجرات میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کے جھنڈے اٹھائے لوگ مارچ میں شریک ہوئے ہیں۔ اس قافلے کے راستے میں جگہ جگہ استقبالی کیمپ موجود تھے جہاں پر لوگ اس قافلے کا خیر مقدم ، نعرہ بازی اور پھول نچھاورکرتے رہے ،اس قافلے کی قیادت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن، منیر اے ملک، حامد خان، علی احمد کرد اور دیگر وکلاء رہنما کر رہے تھے۔وکلاء برادری کے علاوہ اس قافلے میں سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شا مل تھے جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز نمایاں تھی ۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکن بھی شامل تھے اس کے علاوہ جی ٹی روڈ پر قائم استقبالیہ کیمپوں پر زیادہ تعداد پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی نظر آتی رہی۔پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء میاں نواز شریف نے وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو افسوس ہے کہ جمہوری حکومت آنے کے باوجود ججوں کی بحالی کے لیے وکلاءاور سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہیں۔ یہ بات انہوں نے وکلاء کے قافلے سے مینار پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ قافلہ اسلام آباد کے سفر پر لاہور ہائی کورٹ سے روانہ ہوا اور مینار پاکستان رکا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو دکھ، افسوس بھی ہے اور حیرانگی بھی ہے کہ پچھلے سال سے وکلاء اور سول سوسائٹی ججوں کی بحالی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد جمہوری حکومت کے آنے کے باوجود جج ابھی تک بحال نہیں ہوئے۔ ’یہ جو سوغات ہمیں ملی ہے مشرف کی طرف سے اور جو جج بنے بیٹھے ہیں اور جو پاکستان کا حلف لینے کی بجائے مشرف کا حلف اٹھانے کو تیار ہیں۔‘ انہوں نے سوال کیے کہ کیا پاکستان کی قسمت میں ایسے جج رہ گئے ہیں جو بک جاتے ہیں اور جو مشرف کو جھک کر سلام کرتے ہیں۔ اس پر مظاہرین نے اونچی آواز میں نہیں کہا۔ ’اگر پاکستان کو ایسے جج چاہیے تو ان ججوں کو پرائڈ آف پرفارمنس دو، ہلال جرات دو اور انعاموں سے نوازو۔ اور جب یہ مر جائیں تو ان کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرو جیسے کہ مشرقی پاکستان گنوانے والے جرنیلوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا تھا۔‘ انہوں نے کہا کہ ان افراد کے خلاف پوری قوم کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بکاو¿ جج عدلیہ میں بیٹھے ہیں جب کہ اصل جج رسووا ہو رہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا ’کتنا جھوٹا ہے کہ مشرف کہتا ہے کہ اس نے چیف جسٹس کا کیس سپریم جوڈیشل کاو¿نسل کو دے دیا تھا کہ فیصلہ کریں۔ لیکن اس سے پہلے جو تین وردی میں جرنیل بٹھا کر چیف جسٹس سے استعفیٰ مانگا وہ کیا تھا۔‘ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف نے پہلے پوری کوشش کی کہ چیف جسٹس استعفیٰ دے دیں اور جب انہوں نے انکار کیا تو پھر کیس سپریم جوڈیشل کاو¿نسل کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ وہی صدر مشرف ہیں جنہوں نے ان کی حکومت الٹی تھی اور آئین توڑا تھا۔ اور اب یہ جلد جا رہا ہے۔‘ انہوں نے حال ہی میں صدر مشرف کی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے کہا کہ اس بریفنگ میں اپنی مرضی کے صحافی بلائے ہوئے تھے۔ ’اس کے چہرے پر نقلی ہنسی تھی، اس کی باڈی لینگوج بتا رہی تھی کہ وہ دبا ہوا ہے۔ وہ جلد جا رہا ہے اور بہت جلد جا رہا ہے۔‘ مہمند ایجنسی کے واقع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کے یہ کرتوت ہیں کہ پہلے معصوم شہریوں کی جانیں جاتی تھیں اور اب فوجیوں کی جا رہی ہیں۔ ’کل جو حملہ ہوا ہے وہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہوا اور پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہوا ہے۔‘ انہوں نے وکلاءرہنماو¿ں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نواز لانگ مارچ میں ان کے ساتھ ہے اور ججوں کی بحالی تک ان کے ساتھ ہے اور یہ پاکستانی عوام کا فیصلہ ہے کہ جج بحال ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن کو انہوں نے منا لیا تھا کہ وہ راولپنڈی سے ضمنی انتخابات لڑیں اور وہ مان بھی گئے تھے۔ ’لیکن پھر معلوم نہیں کہ اعتزاز صاحب نے کیوں نہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔‘ اس سے قبل علی احمد کرد نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قافلہ اسلام آباد دو خوابوں کی تعبیروں کے ساتھ جا رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ صدر مشرف اقتدار میں نہیں رہے گا اور دوسرا ججوں کی دو نومبر والی پوزیشن پر بحالی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اس وقت تک گھیراو¿ جاری رہے گا جب تک کہ قرارداد منظور نہیں ہوتی اور جج بحال نہیں ہوتے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے نواز شریف کو ججوں کا ساتھ دینے پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاءتحریک نے تو بھوربن معاہدے پر اعتماد کیا تھا۔ ’ہم نے تو کسی کا ہاتھ نہیں روکا کہ وہ عوام کو آٹا فراہم نہ کرے، بجلی فراہم نہ کرے۔‘ اس سے قبل معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے کے آغاز پر عوام سے اپیل کی کہ وہ وکیلوں کا ساتھ دیں کیونکہ ان کے بقول وکیل قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ میں وکیلوں کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے جن میں لاہورکے علاوہ مارچ میں ملتان سے آنے والے شرکاءبھی تھے۔اس اجتماع میں چیف جسٹس سمیت سترہ معزول جج، سپریم کورٹ کے آٹھ ریٹائرڈ جج اور ملک بھر سے آئے وکلاء نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ معزول چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے کہ وکلاءنے نو مارچ سے جو انقلاب برپا کرنا شروع کیا ہے اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ان سے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ سے ہی جمہوریت آگے بڑھے گی۔ انہوں نے وکلاءکو کہا کہ ان کی منزل بہت دور نہیں، بہت قریب ہے وہ ثابت قدم رہیں اور کسی رکاوٹ سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ انہوں نے وکلاءکو ہدایت کی وہ ڈسپلن برقرار رکھیں۔ وکلاء سے قوم کی محبت دوگنی سے چوگنی ہوگئی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ نیا سبق سکھایا ہے کہ ان کی بقا آئین اور قانون میں ہے۔ آئین کی بالادستی ہوگی تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ وکلاء نے آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے اس تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پندرہ ماہ سے انہوں نے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ رکھے ہیں اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا ہے۔’اگر وکلاء یہ قربانی نہ دیتے تو یہ دن دیکھنے کو نصیب نہیں ہوتا۔ وکلاءکی قربانی کی وجہ سے قوم میں بیداری آئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا کہ وکیلوں کی تحریک صرف ججوں کی بحالی پر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ہم ریاست کا مزاج اور سوچ بدلیں گے اور پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ہائی کورٹ کے معزول جسٹس خواجہ شریف خطاب کے لیے آئے تو فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پارلیمان سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر نے کہا کہ وہ روات سے اسلام آباد مڑ جانے کے فیصلے کو نہیں مانتے۔انہوں نے کہا کہ اس کی بجائے وکلاءراولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے ہوتے ہوئے فوجیوں کی رہائش گاہوں کو اپنے پاو¿ں تلے روندتے ہوئے اسلام آباد جائیں گے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمودالحسن نے کہا صدر مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے اور جس جج نے ان کے اقدامات کی توثیق کی انہیں بھی یہی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے آئینی پیکج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پی سی او ججوں کو بحال رکھنا ہے جو وکلاءکسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ اسی ایسوسی ایشن کے ایک دوسرے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اراکین پارلیمان کو ان کے حلف کی اہمیت یاد دلانے کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ججوں کی بحالی چاہتی ہے، اس پر دوسری کوئی رائے نہیں ہے انہیں نواز شریف کی مکمل حمایت اور تائید حاصل ہے۔ قوم کو صدر مشرف کے حوالے سے خوشخبری ابھی نہیں بعد میں دیں گے۔ پیپلز پارٹی کا یہ تصور ہے کہ اس نے مشکلات کا زیادہ سامنا کیا ہے ہم قانون، نظام اور عدلیہ کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں مگر اس بارے میں ہمارے تجربات نے دوسروں کے مقابلے میں ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے ہمارے پاس عدلیہ کی مضبوطی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے روڈ میپ موجود ہے۔ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں مرکز میں نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب حکومت میں آئے تھے پہلے دن ان کی یہ پوزیشن تھی کہ ’ آصف بھائی اگر آپ یہ کام اس ڈیڈ لائن میں نہیں کرسکیں گے تو ہوسکتا ہے کہ مجھے آپ سے کچھ راہ دور کرنی پڑے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی مضبوطی اور جمہوریت کے فروغ کے دوران ہوسکتا ہے کہ کچھ ساتھی سفر میں ساتھ نہ ہوں مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ اسلام آباد میںپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ بش ‘ مش ‘ الطاف حسین ‘ زرداری اور کرپٹ مافیا پاکستان میں آزاد عدلیہ کے قیام کے خلاف ہیں ۔ سب سے دوغلا کردار آصف علی زرداری کا ہے جو وکٹ کی دونوں طرف کھیل رہا ہے ۔ زرداری کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ قلا بازیاں کھانا چھوڑ دے ورنہ گو مشرف گو کے بجائے گو زرداری گو کے نعرے لگیں گے ہم عدلیہ کی آزادی اور معزول ججوں کی بحالی کے لیے آخری دم تک وکلاء کے شانہ بشانہ ساتھ رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں وفاقی دارالحکومت کے علاقے کراچی کمپنی میں ملک بھر سے آئے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ بعدازاں عمران خان کی قیادت میں ہزاروں افراد کے قافلے نے زیرو پوائنٹ پر لانگ مارچ کے شرکاءکا استقبال کیا ۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ جس ملک کی عدلیہ غلام ہوتی ہے وہ قوم بھی غلام ہوتی ہے اسی لیے ہمارا ملک ابھی تک صحیح معنوں میں آزاد نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آمر کے سامنے نا کی ہم آخر دم تک چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے رہیں گے انہوں نے کہا کہ صرف عدلیہ کی آزادی نہیں بلکہ پاکستان کی آزادی کے خلاف سازش کی جا رہی ہے اور اس سازش میں سب سے پہلے بس حکومت ملوث ہے کیونکہ بش نہیں جانتا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہو ۔ وہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کررہا ہے ۔ دوسرے نمبر پر بش کے بعد ایک مش ہے جو عدلیہ کو آزاد نہیں ہونے دے رہا ۔ بش اور مش دونوں مل کر سازش کر رہے ہیں کہ عدلیہ آزاد نہ ہو انہوں نے کہا کہ تیسرے نمبر ایک گیدڑ اعظم ہے جو لندن میں بیٹھا ہے جبکہ کراچی کے لوگ بھوکے ہیں اور خودکشیاں کررہے ہیں ۔ الطاف حسین دہشت گرد ہے وہ ہزاروں لوگوں کا خونی ہے اور وہ بھی نہیں چاہتا کہ عدلیہ آزاد ہو۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے نمبر پر پاکستان میں مافیا ہے جو عدلیہ آزاد نہیں چاہتی ۔ یہ چینی ‘ آٹا اور سیمنٹ کا مافیا ہے اور پانچویں اور آخر میں سب سے دوغلا کردار آصف علی زرداری کا ہے جو وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زرداری ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش کررہا ہے لیکن پاکستان کے عوام پاگل نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ زرداری نے پوری قوم کے سامنے مری میں ججوں کو بحال کرنے کے معاہدے پردستخط کیے لیکن جج بحال نہیں کیے ۔ انہوں نے کہا کہ 29 ججوں کا پیکج اس لیے لایا جا رہا ہے کہ زرداری اپنا پیسہ بچانا چاہتا ہے اسے پاکستان بچانے کی فکر نہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ 29 جج لا کر عدلیہ کو برباد کیا جا رہا ہے زرداری کو ڈوگر کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ وہ این آر او کو تحفظ دے گا ۔ پی سی او ججز عدلیہ کے میر صادق اور میر جعفر ہیں ۔ میں نواز شریف کو مبارکباد دیتا ہوں جس نے عوامی موقف اپنایا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نواز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ججوں کی بحالی کے لیے قرار داد اسمبلی میںپیش کریں تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کون سے گدھے ہیں اور کون سے گھوڑے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام آباد میں رہیں گے۔ جب تک عدلیہ بحال نہیں ہو جاتی اورمشرف رخصت نہیں ہوجاتا۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی نائب صدر اور رکن قومی اسمبلی مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ عوام عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی کے لیے سر پر کفن باندھ کر سڑکوں پر آگئے ہیں ججز کو بحال کرکے دم لیںگے مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے اور ملک بھر سے ہزاروں کارکن لانگ مارچ میں وکلاء کے ساتھ ہیں ۔ یہ بات انہوں نے لانگ مارچ کے دوران رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کے استقبالیہ کیمپ میں سینکڑوں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔اراکین قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق اور محمد حنیف عباسی نے بھی اس موقع پر خطاب کیا ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ شیداٹلی نہیں رہے گا اب پھر کہتا ہوں کہ اب پرویز مشرف نہیں رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حنیف عباسی نے پرویز مشرف کے چمچوں کو دس ہزار ووٹ بھی نہیں لینے دئیے ۔ یہ عوامی انقلاب ہے ۔ آرمی چیف اور متقدر قوتیں سن لیں کہ راولپنڈی کے عوام سر پر کفن باندھ کر نکل آئیں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر نے جب سے بولنا شروع کیا ہے تو ان کی ( بولتی بند ) ہو گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کی آواز ہوتی ہے اگر وہ گونگی بہری ہو جائے تو عوام اسے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ لانگ مارچ میں وکلاء سیاسی دینی جماعتوں کے لوگوں کے ساتھ معصوم بچوں کی شمولیت سے یہ طے ہو چکا کہ اب عدلیہ کی آزادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ نواز شریف نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مشرف فوج اور قوم کے مجر م ہیں ۔ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مجرم کو چاہیئے کہ وہ قوم کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ مشرف کا محاسبہ اور ججز کی بحالی نہیں کرتی تو قوم کو نیا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت سے اپیل کی کہ وہ بے نظیر بھٹو شہید کے لہو کو سامنے رکھے اور پرویز مشرف سے جان چھڑا کر قوم کی توقعات پرپورا اترے ۔ حنیف عباسی نے کہاکہ نواز شریف کی کال پر ملک بھر سے ہزاروں کارکنوں کے قافلے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔ عدلیہ کی آزادی ا ور ججز کی بحالی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف نے کہا کہ وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے گوشے گوشے سے آئے وکلاء صاحبان اور سول سوسائٹی کے افراد کی دل و جان سے خدمت کریں۔ آج ہر گھر سے کھانے کی اشیاء ، پانی کے کولرز، چائے کے تھرموس لے کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام پریڈ ایونیو پر پہنچیں اور جہاں جہاں بھی یہ مہمان ٹھیرے ہوئے ہیں ان تک یہ اشیاء پہنچائیں ۔ محمد نوازشریف نے کہا کہ یہ تحریک پاکستان کے دنوں کی یاد تازہ کرنے والے قالفے ہیں جو اللہ کی راہ میں وطن عزیز کی سربلندی، آمریت کے خاتمے اور عدلیہ کی آزادی کا مقدس مشن لے کر اپنے گھروں سے ہزاروں سینکڑوں میل دور آپ کے پاس پہنچے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ انصار مدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے ان مہمانوں کی دیکھ بھال کریں کیونکہ یہ اس ڈکٹیٹر کے خلاف میدان میں نکلے ہیں جس نے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو خاک میں ملا دیا ، جس نے آئین اور قانون کو پاو¿ں تلے روندا، جس نے قرآن مجید پڑھتی معصوم بچیوں کو قتل کیا اور جو آج بھی پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے شہر ہیں ان شہروں کا ہر گھر ہمارا قلعہ ہے اور ہر گھر سے جو بھی گھر میں کھانا بنا ہے گھر کے افراد وہ کھانا لیکر گھروں سے نکلیں اور ان مہمانوں کی اس وقت تک دیکھ بھال کریں جب تک وہ یہاں موجود ہیں اور پاکستان پرڈکٹیٹر اقتدار نہیں چھوڑ دیتا ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس ڈاٹ کام
مسئلہ اب ججز کی بحا لی کا نہیں رہاعوام سے ساٹھ سالہ ظلم و نا انصا فی کے انتقام کا بھی ہےقو می مجر موں کے خلاف ملک بھر کے عوام سرا پا احتجاج تحریر : چو
مسئلہ اب ججز کی بحا لی کا نہیں رہاعوام سے ساٹھ سالہ ظلم و نا انصا فی کے انتقام کا بھی ہےقو می مجر موں کے خلاف ملک بھر کے عوام سرا پا احتجاج تحریر : چو د ھری احسن پر یمی ایسو سی ایٹڈ پر یس سروس، اسلام آباد
لانگ ما ر چ نے تو فیصلہ دے دیا ہے کہ ججز کو بحال کیا جائے اور آئین تو ڑ نے وا لوں کو پھا نسی دی جا ئے۔ اب دیکھنا یہ ہے حکمران اور پا ر لیمنٹ اب عوام اور قا نون کا احترام کر تے ہیں یا ملک دشمن طا قتوں کے آ گے سر تسلیم خم کر تے ہیں۔ وکلاءتحریک نے عوام کو ایسا بیدار کیا ہے کہ عوام اب سمجھتے ہیں کہ اب مسئلہ ججز کی بحالی کا نہیں ر ہا بلکہ سا ٹھ سا لہ ظلم و نا ا نصا فی کے انتقام کا بھی ہے سا ٹھ سا لہ مدت میں چند مٹھی بھر بد معاش جا گیر دار وں، قا نون شکن جر نیلوں اور ملک بھر سے چند مو قع پر ست چوروں نے عوام کے حقوق پر ڈا کہ ڈال کر ملک بھر کے عوام کا بال با ل قر ضے میں ڈ بو دیا ہوا ہے اور ان بے غیرت اور بے شرموں کے کر توتوں کی و جہ سے وطن عزیز کئی ایک بحرا نوں میں پھنس چکا ہے ۔ عوام اب آزاد عد لیہ کی جنگ اس لئے لڑ رہے ہیں کہ وہ قو می مجر موں کو سر عا م پھا نسی کی سزا دیکھنا چا ہتے ہیں۔ چند مٹھی بھر بد معاش قا نون شکن اور بے غیرت قسم کے قو می مجرم اپنے پلے یہ بات با ندھ لیں اب عوام ججز کی بحا لی پر خا مو ش نہیں ہو نگے بلکہ قا نون شکنوں اور قو می خزانہ لو ٹنے وا لوں کو جب تک کتے کی موت کی طرح نشان عبرت نہیں بنا لیتے چین سے نہیں بیٹھے گے ۔ اس وقت عوام جو مشا ہدہ کر رہے ہیں وہ یہ کہ جب تک اس خطے میں امر یکن کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو تا حا لات نہیں سنبھلےں گے اور امریکن ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں ایسے حا لات رہیں کہ آخر کا ر ایک نئے ما رشل لاءکو دعوت دی جا ئے کیونکہ امریکن کا افغا نستان کے علا وہ شمالی علاقہ جات اور قراقرم کی چو ٹیوں پر بھی قبضہ کر نا ہے تا کہ اس خطے میں ایک تھا نیدار کا کر دار ادا کر تا رہے۔ اور اس ضمن میں اس نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسا مہ قرا قرم اور کے ٹو پہا ڑ کے گر دو نواح میں مو جو د ہے۔ پاک سر زمین پر امریکی حملے کے نتیجے کے رد عمل میں پا کستان کے عوام کا کہنا ہے کہ اب شاہین اور غوری مزائل کے مزیدتجربات کر کے عوام کے جذ بات سے نہ کھیلا جائے اور نہ ہی عوام کے خون پسینے کی کما ئی کو ضا ئع کیا جائے کیو نکہ جب تک ایک جر ا¾ت مند اور محب وطن قیادت ملک کی بھا گ دوڑ سنبھال نہیں لیتی ہماری عزت و وقار خاک میں ملتا رہے گا۔ پاکستان کے عوام نے امریکی حملے کے نتیجے میں کہا ہے کہ مزائل کا جواب مزائل سے دیا جائے ۔ تاکہ دشمن آئندہ ایسی غلطی سوچ سمجھ کر یں گے۔ سر حدوں کے محافظوں کی شہا دت پر ملک بھر کے عوام کو گہرا دکھ ہوا ہے اب ہماری قیادت کا فرض ہے کہ وہ ملک دشمنوں کے عزائم خا ک میں ملائے ورنہ اقتدار سے علیحدہ ہو جا ئے۔ اسلام آباد میں لانگ ما رچ کے مو قع پر نواز شریف نے کہا کہ اب پا کستا نی عوام صدر مشرف کا مو ا خذہ نہیں محا سبہ چا ہتے ہیں ۔ مشرف نے اسی جگہ پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ عوا می طا قت کا مظا ہرہ ہے ۔ آج انھیں دیکھنا چا ہیے کہ یہ ہو تا ہے عوامی مظا ہرہ ۔ یہ لوگ سر کا ری گا ڑیوں میں بھر کر نہیں لا ئے گئے آج یہ سب لوگ اپنا تن، من ، دھن قربان کر نے کو تیار ہیں ۔ مشرف ان لو گوں کی آواز سنیں جو گو مشرف گو مشرف کے نعرے کگا رہے ہیں ۔ میں نے کہا تھا کہ 18فروری کے میڈیٹ کا احترام کر تے ہوئے گھر چلے جا نا چا ہیے اب عوام کا فیصلہ سن لیا جا نا چا ہیے اب یہ لو گ مشرف کا محا سبہ چا ہتے ہیں مشرف کو شہیدوں کے لہو کا حساب دینا ہو گا ۔ یاد کر یں وہ دن جب جا معہ حفصہ کی بچیوں کو بم مار کر شہید کر دیا گیا ۔ معشیت کو تبا ہ کر دیا گیا بار بار آئین تو ڑا ۔ ججوں کو گھر پر قید کیا ان سب کا اس وقت کے حکمران کو حساب دینا ہو گا جبکہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن نے کہاہے کہ ججوں کو جلد بحال نہ کیا گیا تو بعید نہیں ہے کہ عوام ” گو مشرف گو “ کے بجائے ” گو زرداری گو “ کے نعرے لگانے شروع کر دیں ۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کے لیے اپنی قربانیاں گنواتی ہے لیکن عملاً آمر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر چکی ہے ۔ امریکہ پہلے کی طرح ہماری سرحدوں کو پامال کر رہاہے اور حملے بھی جاری ہیں ۔ منتخب حکومت نے بھی پرویز مشرف کی بزدلانہ پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ ججوں کی بحالی کے لیے صرف وکلا ہی نہیں نکلے ہیں اس جدوجہد میں اے پی ڈی ایم کی جماعتیں ، سول سوسائٹی کے لوگ اور پوری قوم شامل ہے۔ انہوںنے کہاکہ ججوں کی بحالی کو ٹالنے میں دونوں جماعتیں ذمہ دار ہیں ۔ اگر جج بحال ہو جاتے تو دونوں جماعتوں کو اس کا کریڈٹ جاناتھا ۔ انہوںنے کہاکہ میاں نواز شریف اس وقت دو کشتیوں پر سوار ہیں، انہیں ایک کا انتخاب کرنا چاہیے ۔وہ وزارتوں سے تو مستعفی ہو گئے ہیں لیکن حکومت میں شامل ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آصف زرداری نے قوم کے اربوں ڈالر این آر او کے ذریعے معاف کرا لیے ہیں ۔ یہ قوم کے حقوق پر کھلا ڈاکہ ہے امریکہ ہماری چوکیوں پر حملے کر کے جارحیت کا مرتکب ہو رہاہے اور ان حملوں کو جائز بھی قرار دے رہاہے ۔ ہمارے کئی فوجی جاں بحق ہو گئے ہیں ۔ امریکہ کی طرف سے یہ 44 واں بڑا حملہ ہے ۔ وزیر دفاع کہتے ہیں کہ امریکہ ہم سے بڑا ہے، ہم چھوٹے ہیں ۔ ایسے آدمی کو وزارت دفاع سے فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے ۔ سید منور حسن نے کہاکہ پیپلز پارٹی کا نعرہ روٹی کپڑا ، مکان کا ہے ،لیکن اس نے جو بجٹ پیش کیاہے اس کے بعدیہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عوام کو روٹی مل سکے گی۔ بنیادی چیزوں پر ٹیکس لگانے اور سوئی گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید ا ضافہ کے اعلانات کے بعد پیپلز پارٹی کس منہ سے عوامی حکومت ہونے کا دعوٰی کرتی ہے؟ اس نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اس کی مشکلات او ر دکھوں میں اضافہ ہی کیاہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا منظم قافلہ سب سے پہلے پہنچا ۔ یہ قافلہ ہزارہ ڈویڑن سے سابق وزیراعلیٰ سرحد سردار مہتاب احمد خان ، پارٹی کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگرا ، صوبائی صدر پیر صاحب شاہ ، سرانجام خان کی قیادت میں ساڑھے چار بجے سہہ پہر آبپارہ کے مقام پر پہنچ گئے اسلام آباد سے ایم این اے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے قافلے کا استقبال کیا۔ ججز کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کے حوالے سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندرچاروں سمت سےراولپنڈی شہر میں داخل ہو گیا لانگ مارچ میں شریک عوام انتہائی پر جوش تھے شرکاء لانگ مارچ نے عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے جہاں مختلف بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے وہاں چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتراز حسین پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ قاضی حسین احمد، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تصاویر بھی اٹھا رکھی ہیں۔عوام گو مشرف گو اور عدلیہ کی بحالی کے نعرے لگا رہے تھے ۔لانگ مارچ میں آئینی پیکج کے خلاف بھی تواتر کے ساتھ نعرے لگ رہے تھے شرکاءآئینی پیکج نا منظور کے نعرے لگا رہے تھے لانگ مارچ میں ہم ملک بچانے نکلے ہیں ۔ عدل بچانے نکلے ہیں آئین بچانے نکلے ہیں آو¿ ہمارے ساتھ چلو کا نعرہ زبان زدعام و خاص تھا ۔ یہ نعرہ مقبول ترین نعرہ بن گیا ہے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن خود بھی یہ نعرہ لگوا رہے تھے۔ملک میں ججز کی بحالی کے لئے شروع کیا گیا لانگ مارچ پاکستان کی تاریخ کا واحد لانگ مارچ ہے جو چار دنوں کی مسافت کے بعد راولپنڈی میں داخل ہوا ۔ لانگ مارچ کا آغاز 10 جون کو کراچی اور کوئٹہ سے ہوا تھا ۔ سکھر سے ملتان کے بعد لانگ مارچ لاہور میں داخل ہوا جبکہ چار دنوں کی مسافت کے بعد لانگ مارچ جمعہ کو ڈھائی بجے دوپہر راولپنڈی کی حدود میں داخل ہوا ۔اس لانگ مارچ میں وکلاء ، سول سوسائٹی ، عام عوام ، ایکس سروس میں سوسائٹی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان مسلم لیگ نواز ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھرپور شرکت کی ہے ۔وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کے شرکاءکو ملک کی اہم ترین روڈ شاہراہ دستور سے دور رہنے کی ہدایت کی یہ شاہراہ گزشتہ ایک سال سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ یہ نام کی تو شاہراہ دستور ہے مگر ہر طالع آزما نے غیر دستوری مقاصد کی تکمیل کے لئے اسی راہ پر قدم رکھے ۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تو صرف شاہراہ دستور کی رکاوٹیں ہی نہیں توڑی گئیں بلکہ دستور کو بھی روند ڈالا گیا۔اکتوبر نناوے کی شام ہو یا تین نومبر کی شب کا سانحہ ،شاہرا ہ دستور پر بوٹوں کی دھمک آج بھی سنائی دیتی ہے ۔ انتیس ستمبر کو تو حد ہوگئی جب پرویز مشرف باوردی صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے بضد تھے تو ریاستی اداروں نے ہی سپریم کورٹ پر چڑھائی کردی ۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ بھی دستورکے نام پر قائم اسی راہ گزر پر ہے ۔آئینی طور پر یہ عمارت انتظامی اختیارات کا منبہ و محور ہے مگر عملا ایسا کبھی ہوا ہی نہیں ۔ کبھی تو یہاں امپورٹڈ وزرائے اعظم براجمان ہوئے تو کبھی خود ساختہ چیف ایگزیکٹوز مسند نشین ٹھہرے ۔ عوام نے جس کو آئینی مینڈیٹ دیا اسٹیبلشمینٹ نے اسے تسلیم ہی نہیں کیا ۔ ایوان صدر شاہراہ دستور سے ذرا ہٹ کر پارلیمنٹ ہاو¿س کی اوٹ میں ہے شاید اسی لئے یہ مملکت کا آئینی سربراہ ہوتے ہوئے بھی سازشوں کا گڑھ بنا رہا ۔ غیر آئینی اقدامات کی منصوبہ بندی جہاں بھی ہو ان اقدامات کوعملی جامہ اسی ایوان نے پہنایا ۔ پارلیمنٹ آئین اور قانون سازی کرتی ہے تو حکومت، انتظامیہ ان پر عمل درآمد کی پابند ہے اور اگر تشریح طلب مسائل ہوں تو عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے درمیان بنایا گیا مگر اس عمارت کے گوشہ نشین پارلیمنٹ ہاو¿س اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے بیچ دیوار بن گئے۔نظریہ ضرورت نے جنم لیا اور جبر کے قانون کو آئین کا لبادہ اوڑھا یا گیا ۔ الیکشن کمیشن بھی آئین کی راہ پر توکھڑا ہے مگر یہاں ووٹ کی بجائے حاکم وقت کی خواہش پر انتخابی نتائج مرتب کئے جاتے رہے ۔ دستور کا تمسخر اڑایا گیا اور پھر ایک بارودی سرکار کے ملازم کو الیکشن کے نام پر صدر مملکت بنانے کا اعلان کردیا ۔ شاہراہ دستور کا اپنا حال بھی دستور سے مختلف نہیں ۔ملکی دستور میں سترہویں ترمیم کی طرح زخم خوردہ اس سڑک کی کارپیٹنگ تو کی گئی مگر دستور پاکستان کی طرح آج بھی شاہراہ دستورخاردار تاروں اور مسلح جوانوں کی زد میں ہے۔ جبکہ پاک فوج کے 22 لاکھ سابق اعلیٰ و ادنی افسران اور جوانوں کی نمائندہ تنظیم ایکس سروس مین سوسائٹی نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر آئینی طور پر صدارتی منصب پر قابض جنرل ( ر ) پرویز مشرف کا کورٹ مارشل آرڈر فوری جاری کر یں ، دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد کا کردار ادا کرنے ‘ کا رگل اور لال مسجد سمیت تمام ایشوز پر پرویز مشرف کا ٹرائل کیا جائے ۔ وکلاء تحریک کے فیصلہ کن لانگ مارچ کے بعد اب پرویز مشرف کی رخصتی اور عدلیہ کی بحالی کا وقت آ گیا ہے موجودہ پارلیمنٹ اپنی مضبوطی کا احساس کر کے کسی اندرونی و بیرونی دباو¿ کے بغیر آزادانہ اور خود مختارانہ فیصلے کرے ‘ 18 فروری کے عوامی مینڈیٹ کا احترام یقینی بنانے کا وقت آ گیا ہے کہ قوم کی 9 سالہ تضحیک و تذلیل کا بدلہ لیا جائے ۔ ان خیالات کا اظہار ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر جنرل ( ر ) فیض علی چشتی نے کیا ۔ اس موقع پر سابق آرمی چیف جنرل ( ر ) اسلم بیگ ‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ( ر ) درانی ‘ جنرل ( ر ) حمید گل ‘ سابق کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) جمشید گلزار کیانی ‘ جنرل ( ر ) علی قلی خان ‘ جنرل ( ر ) سلیم صدر ‘ جنرل ( ر ) افتخار ‘ جنرل ( ر ) اسلام اور بریگیڈیئر ( ر ) محمود ‘ نیول چیف ایڈمرل (ر ) فصیح احمد بخاری سمیت دیگر اعلیٰ افسران اور دیگر اراکین کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی انہوں نے کہا کہ ایکس سروس مین ایک بار پھر اعلان کرتی ہے کہ جنرل ( ر ) پرویز مشرف اس ملک کے آئینی صدر نہیں ہیں لہذا وہ فی الفور صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔ ایکس سروس مین کے خلاف مراعات کا پروپگینڈہ کرنے والے جان لیں کہ مشرف کا مراعات یافتہ کوئی شخص ایکس سروس مین کا حصہ نہیں ہے ۔ اور اگر ایسا کوئی شائبہ بھی موجود ہے تو ہمارا ایسا کوئی بھی رکن وہ تمام مراعات واپس کر دے ۔ انہوں نے مہمند ایجنسی پر امریکی حملے کو قومی سانحہ اور لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کی باریکی میں جایا جائے اور اس کی تہہ تک پہنچایا جائے ۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے قوم کو دہشت گردی کی اس تعریف سے آگاہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین سوسائٹی ججوں ‘ وکلاء اور میڈیا کی تحریک کا اہم حصہ بن چکی ہے ۔ آج سے 15 ماہ پہلے جس تحریک کا آغاز ہوا بعض لوگ اسے عارضی تحریک سمجھے تھے لیکن دنیا نے دیکھا کہ یہ ایک قومی تحریک بن چکی ہے جو اس سیاسی و سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ہے جو ملک میں برپا ہو چکا ہے ۔ یہ چینی ‘ ایرانی یا کسی اور طرز کی پرتشدد تحریک نہیں بلکہ صحیح معنوں میں سبز انقلاب ہے ۔ 18 فروری کو قوم نے ملک کے حق میں جو مینڈیٹ دیا وہ اس سازش کا منہ توڑ جواب تھا جو امریکہ نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی صورت میں کی وکلاء تحریک نے عوام میں ایسی بیداری پیدا کی جس سے عوام نے درست فیصلہ کیا ۔ دوسرا احسن یہ اقدام تھا کہ 18 فروری کے انتخابات میں فوج اور اس کی ایجنسیوں نے مداخلت نہیں کی اگرچہ فوج ہمیشہ سازشوں کا ساتھ دیتی رہی لیکن اس موقع پر فوج کے قومی سوچ کا ساتھ دیا ۔ 28 مئی کو مشرف کی روانگی کا فیصلہ ہو چکا تھا وہ جانے والے تھے کہ امریکہ نے انہیں بچا لیا تاکہ مشرف کو واپسی کا محفوظ راستہ دیا جائے لیکن اب یہ فیصلہ حکومت کرے گی کہ ان کا احتساب ہو گا یا محفوظ راستہ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ دو بڑی حکومتی جماعتوں کے متفقہ فیصلے کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 29 کرنا بھی اس تحریک کی تیسری بڑی کامیابی ہے اب معزول ججز بہت جلد بحال ہوں گے ۔ وکلاءتحریک نے عوام میں اپنا حق چھیننے کی امنگ اور جذبہ پیدا کیا اب ایک حکمت عملی کے تحت اپنا حق چھین لیا جائے گا ۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کے لئے ججوں کی بحالی کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ماضی میں احتساب عدالتوں کے ذریعے جانبدارانہ احتساب کر کے بڑے مگرمچھوں کو معاف کر کے چھوٹے لوگوں کو نچوڑا گیا اب نئے احتسابی عمل کے ذریعے ایسا نظام وضع کیا جائے کہ کوئی بھی اس سے بچ نہ سکے ۔ وکلاء تحریک ملک میں جمہوری نظام کو استحکام پیدا کرے گی ۔ وکلاءتحریک نے آج قوم کو متحد کر دیا اس اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کی بدولت ججوں کی بحالی اور مشرف کا جانا ٹھہر چکا ہے ۔ پنجاب کی حکومت توڑنے اور نواز شریف کو ہٹانے کے لیے واشنگٹن سے بھی حکم آیا لیکن مشرف کی ساتھی (ق) لیگ نے بھی اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا ۔ آج (ق) لیگ بھی سیاسی طور پر یہ نہیں چاہتی کہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت ٹوٹنے پائے اسی طرح اے پی ڈی ایم میں شامل قوم پرست جماعتیں بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی سالمیت جمہوریت کے استحکام کی جدوجہد میں شامل ہیں۔ موجودہ متحدہ سیاسی فضا کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں ہی ہماری بقاء اور فلاح ہے ۔ ججوں کی بحالی اور مشرف کی رخصتی کے بعد خود مختار پارلیمنٹ وجود میں آجائے گی آج ملک میں قیادت کا کوئی فقدان نہیں ہے ۔ صرف عوام کے اٹھارہ فروری کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی ضرورت ہے جب کسی حکومت کے آخری دن آتے ہیںتو میڈیا پر پابندی لگا دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج پھر نجی ٹی وی چینل پر پابندی لگائی جا رہی ہے ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت کی کمزوری قرار دے رہے ہیںالامارات کی حکومت وہ غلطی نہ کرے جو نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے کی ۔ یو اے ای کی حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہ کرے جس پر اسے ندامت ہو تحریر وتقریر اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ناگزیر ہے ۔ مشرف کے دور اقتدار میں ہماری سرحد پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 45 حملے کرکے 700 سے زائد قبائلیوں اور عوام کو شہید کیا ۔ حکومت کو شرم آنی چاہیئے کہ جو باغیرت قوم کو بے غیرت بنانے پر تلی ہے ۔ آج بھی 45 ہزار امریکی پاکستان میں موجود ہیں ۔ حکومت نے قومی غیرت اور خود مختاری کو داو¿ پر لگا دیا ہے ۔ حکومت امریکہ کے لیے یہاں عسکری سہولیات ختم کرے نئی اتحادی حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان پر تین حملے ہو چکے ہیں ۔ مہمند ایجنسی میں تازہ حملے میں شہریوں کے ساتھ فوجی جوان بھی شہید ہوئے لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ یہ ایسی دہشت گردی ہے جسے اب بند ہونا چاہیئے ۔ امریکہ اس دہشت گردی پر خون بہا ادا کرے ورنہ ہمارے قبائلی لشکر انتقام کے لیے تیار ہیں حکومت اگر قدم نہیں اٹھاتی اب عوام اور قبائلی خود فیصلہ کریں گے۔ اب ہماری تحریک کا یہ بھی حصہ ہے کہ گزشتہ نو سالہ قومی تزلیل وتضحیک کا بدلہ لیا جائے گا۔ اور 1947 ء سے لے کر آج تک تمام سول وفوجی بیورو کریسی کاکڑا احتساب کیا جائے ۔ ایکس سروس مین سوسائٹی کو سابق آرمی چیف کے احتساب کا اختیار دیا جائے ۔ مشرف کی آرمی چیف پر قبضے کے دوران 1999 ءمیں چیئرمین جوائنٹ چیفیس آف سٹاف کمیٹی سمیت دیگر اہم عہدوں پر تعینات افسران کا احتساب کیا جائے کارگل کے ذمہ داروں کا کڑا احتساب کیا جائے ۔ ایکس سروس مین پرویز مشرف کو محفوظ راستے سے بھاگنے نہیں دیں گے اگر کسی کی غلطی سے بھاگ بھی گیاتو ہم اٹھا کر واپس لائیں گے۔ صدارتی ترجمان راشد قریشی ایک کاغذی جرنیل ہے وہ اصلی جرنیل نہیں ۔ تین نومبر کی ایمرجنسی غیر آئینی تھی پرویز مشرف کا اس حوالے سے بھی احتساب کیا جائے ۔ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی پرویز مشرف کا کورٹ مارشل آرڈر جاری کریں ۔سپریم کورٹ بار کے صدر اور وکلاء کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ قوم کی دعاو¿ں سے عدلیہ آزاد ہو گی جج بحال ہوں گے اور صدر پرویز مشرف نشان عبرت بنیں گے ۔ یہاں لانگ مارچ کے شرکاء اور استقبال کے لیے آنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے قوم کا جذبہ قابل دیدنی ہے ۔ کیونکہ اس بلا کی گرمی اور آنکھوں میں رت جگے لیے عوام کی ایک بڑی تعداد نے جگہ جگہ لانگ مارچ کے شرکاءکا خیر مقدم کیا ہے جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء وکلاء تحریک کے بھرپور حامی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکاءگزشتہ چار دن سے طرح طرح کی تکالیف کے باوجود بلند حوصلے اور پامردی سے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اس لیے انشاء اللہ انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گی ۔ عدلیہ آزاد ہو گی جج بحال ہوں گے اور صدر پرویز مشرف بھی اپنی ” توقیر “ دیکھ لیںگے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ 9 مارچ 2007 ء سے وکلاء ایک نظرئیے اور ایک خواب کے پیچھے چل رہے ہیں اور انہوںنے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھے ہیں ۔ اور یہ جفاکش اب اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے اور یہ مقصد عدلیہ کی آزادی ہے ۔ عدلیہ آزاد ہو گی تو امن وامان ہو گا جمہوریت مضبوط ہو گی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی ۔ لوگوں کو روز گار ملے گا اور لوگ خوشحال ہوں گے انہوں نے کہا کہ ساٹھ سالوں سے عدلیہ آزاد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک نے ترقی نہیں کی ۔ بار بار فوجی حکومتیں آئیں ا ور عوام کا استحصال کیا گیا۔ لیکن وکلاءایسا نہیں ہونے دیں گے اور پاکستانی عوام کو ان کے حقوق دلوا کر دم لیں گے ۔ گجرات میں وکلاء لانگ مارچ میںشامل وکلاء رہنماو¿ں نے کہا ہے کہ پرویز مشرف ان کی تحریک سے خوفزہ ہیں گجرات بار سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حساب بے باک ہونا چاہئے ۔ سپریم کورٹ بار کے صدر اور وکلاء تحریک کے سینئر راہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ زمینی فاصلے کا نام نہیں ہے یہ لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کرنے کا نام ہے ۔چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں پارٹی سے اختلاف ججوں کی بحالی کے طریقے پر ہے تاہم رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے ۔ انہوںنے کہا کہ وکلاء نے قوم کو ایسا پاکستان دینا ہے جہاں ریاست اور شہری کے درمیان ماں اور اولاد کا رشتہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف ججوں اور قانون کے لئے انصاف نہیں مانگتے بلکہ وہ پوری قوم کو سماجی انصاف دینے نکلے ہیں وکلاء راہنما نے کہا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک وکلاء نے شروع کی تھی لیکن اب پوری قوم بھی اس جدوجہد میں شریک ہے ۔ عوام اور وکلاء کی تحریک سے پرویز مشرف خوفزدہ ہیں علی احمد کرد نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودہدری چند گھنٹوں میں بحال ہو جائیں گے انہوں نے کہا کہ وکلاء 60 سال کی ناانصافی اور ظلم ختم کرنے اسلام آباد جا رہے ہیں جبکہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ جب تک ملک میں آئین کی مکمل بالا دستی قائم نہیں ہو جاتی ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔ انہوںنے کہاکہ صدر پرویز مشرف امریکی ایجنٹ ہے اس لیے انہیں برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو جج تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں سرحد سے آنے والے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اٹک پل پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم وکلائ اورججوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پیش نظر مقصد یہ ہے کہ 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے تحت صدر پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا ججوں کو برخاست کیا سپریم کورٹ کا حلیہ بگاڑ دیا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف کو عبرت ناک سزا دی جائے اور اسے عبرت کا نشان بنایا جائے ۔ قاضی حسین احمد نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے اور پی سی او کے ججوں کو ہم نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اصل ججوں کو بحال کیا جائے۔قاضی حسین احمد نے کہاکہ 29 ججوں کی بات خلاف دستور ہے اور یہ سپریم کورٹ کی کمزوری کا باعث بنے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ججوں کو بحال کر کے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کو منسوخ کر دیا جائے اور امریکا کی بالا دستی کو ختم کیا جائے۔ وزیرستان باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں امریکی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان امریکا سے اپنا ناطہ توڑ لے ۔ انہوں نے کہاکہ نیٹو کی افواج کو بھی افغانستان سے نکالا جائے ہم چاہتے ہیں کہ جب تک امریکی مداخلت ختم نہیں ہو گی ججوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو گی کیونکہ پرویز مشرف امریکی ایجنٹ ہیں اور جمہوریت کی بالادستی کے لے ضروری ہے کہ عدلیہ کو بحال کیا جائے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے کیونکہ صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹایا ہی اس خوف سے تھا کہ چیف جسٹس پرویز شرف کو غیر آئینی اور غیر قانونی صدر تسلیم کرتے تھے۔ ایک اور سوال کے جواب میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ لانگ مارچ ناکام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ کہ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک میں مکمل طور پر آئین کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی اور جب تک عدلیہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہوگی ۔انہوں نے کہاکہ افتخار محمد چوہدری کو اپنے تمام ججوں کے ساتھ بحال کیاجائے اور پی سی او ججوں کو برخاست کیا جائے ۔ معزول چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ترجمان اطہر من اللہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ پرویز مشرف جا چکے ہیں ۔ امریکا بھی ان کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہاہے ۔ پریڈ گراو¿نڈ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے لانگ مارچ کے شرکاءکی سیکیورٹی کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ہر شہری کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں بد قسمتی سے ساٹھ سالوں سے ملک میں شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف جا چکے ہیں کیونکہ گزشتہ روز امریکی سفیر نے پرویز مشرف کے لیے محفوظ راستہ کی بات کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہے ۔ پرویزمشرف کو اس کے مجرمانہ کاموں سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف اس ملک کی بدترین تاریخ بن چکے ہیں ۔ان سے آرمی ہاو¿س خالی ہو چکا ہے ۔ ہم پارلیمنٹ کو اس کی ذمہ داری سے آگاہ کر رہے ہیں کہ عدلیہ کو بحال کیا جائے وزیر اعظم نے جس طرح ججز کی رہائی کا حکم دیا اسی انگلی اٹھا کر ججز کی بحالی کے احکامات جاری کر دیں ۔ انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کو تسلیم نہیں کرتے۔ پرویز مشرف کے لیے با عزت محفوظ راستہ مانگنے والے پی سی او ججز کو محفوظ راستے سے لے جائیں ۔ وکلاء کے لانگ مارچ کے موقع پر شاہراہ دستور کو ” ریڈ زون“ قراردے دیاگیاشاہراہ دستور پر ایوان صدر ، پارلیمنٹ ہاو¿س ، سپریم کورٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ڈپلومیٹک انکلیوڑ کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہیںتھی۔ضابطہ اخلاق دونوں فریقوں کی اتفاق رائے سے طے کیاگیاامن وامان کا قیام دونوں فریقوں کی ذمہ داری تھی۔حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاءکو پانی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے کھانا فراہم کیاگیا لانگ مارچ کو صرف پریڈ گراو¿نڈ تک جانے کی اجازت تھی لانگ مارچ فیض آباد کے مقام سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا اور کشمیر ہائی وے سے آبپارہ چوک پہنچا ، پھر سہروردی روڈ سے ایمبیسی روڈ سے ہوتا ہوا پریڈ ایونیو تک پہنچا پریڈ ایونیو میں اسٹیج بنا دیاگیا تھاوزیراعظم نے اسلام آباد کے شہریوں اور غیر ملکیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کیاجائے گا معمول کی ٹریفک رواں دواں رہے گی لانگ مارچ کے شرکاء ٹریفک پلان پر مکمل عمل درآمد کریںگے جبکہجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکومت چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کو بحال کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد17سے بڑھا کر29کرنے کا جو اعلان کیاگیا ہے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ پی سی اوکے تحت غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پرحلف لینے والے ججوں کو نوازا جا رہا ہے قاضی حسین احمد نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ پرامن لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور تصادم کی فضا پیداکرنے سے گریز کرے، ہم پرامن جدوجہد پریقین رکھتے ہیں ہمارا ماضی اس پرگواہ ہے۔ کراچی سے لاہور تک لانگ مارچ کے شرکاء پرامن رہے ہیں اور اس کے بعد بھی پرامن ہی رہیں گے اپنے مطالبات کے لیے پرامن جدوجہد ہمارا حق ہے اور یہ حق پوری دنیا تسلیم کرتی ہے،ریاستی جبر کے ذریعے ہمیں ا س حق سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج ججوں کی بحالی کو ٹالنے کے لئے پیش کیاجارہا ہے۔ ورنہ وزیراعظم نے اعتماد کے ووٹ کے بعد ججوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیاتھا اگر وہ اسی وقت ججوں کی بحالی کا آرڈر جاری کردیتے تو سارا مسئلہ حل ہوجاتا اور پیچیدگیاں پیدا نہ ہوتیں، لیکن جان بوجھ کر عوامی حکومت کے دعویداروں نے کمزوری دکھائی جس سے مسائل پیدا ہوئے۔ قاضی حسین احمدنے مطالبہ کیا کہ مری ڈیکلریشن کے مطابق ججوں کی بحالی کی قرارداد پیش کی جائے اسے آئینی پیکج کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے کیونکہ سینٹ میں حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ آئینی پیکج کے ذریعے ججوں کی بحالی پر اصرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو تسلیم کرکے اسے تحفظ دیا جا رہا ہے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ ججوں کی بحالی تک جماعت اسلامی وکلا کی تحریک کا بھرپور ساتھ دے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ اتحادی فوجوں کا پاکستانی سرحد کے اندر حملہ پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری پر حملہ ہے کل تک پاکستان کے معصوم شہریوں کو شہید کیا جاتا تھا آج فوجی جوان بھی شہید ہونے لگے ہیں ہم اس حملہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ یہ سب مشرف کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 18 فروری سے قبل معزول ججوں کی بحالی کے لئے ایک آمر کے خلاف تحریک جاری تھی اور اٹھارہ فروری کے بعد جمہوری حکومت قائم ہونے کے باوجود ان ججوں کی بحالی کے لئے تحریک جاری ہے جو انتہائی افسوسناک بات ہے ۔ اصلی جج باہر بیٹھے ہیں ۔ ہم بکنے والے اور پاکستان کی بجائے مشرف کی ذات کا حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ میں یہ لکھ کر دیتا ہوں کہ اصلی جج ہر صورت بحال ہو نگے اور جب تک یہ جج بحال نہیں ہوتے پاکستان مسلم لیگ ن وکلائ کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد جاری رکھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے 9 مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا تھا ایسا نہیں ہے کہ چیف جسٹس کو پہلے تین مزید باوردی جرنیلوں کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو استعفی دینے پر مجبور کیا جب انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر ان کے خلاف کیس پھر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا ۔ ان خیالات کا اظہار انہو ںنے گزشتہ شام وکلاء کے لانگ مارچ کی لاہور سے اسلام آباد کے لئے رخصتی کے موقع پر آزادی چوک میں وکلاء اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن ، پیپلز پارٹی کے رہنما اقبال حیدر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خاں، مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی ، علی احمد کرد، منیر اے ملک، محمود الحسن اور دیگر رہنما بھی موجود تھے ۔میاں نواز شریف نے کہا کہ میں اکثر یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ 9 مارچ کے بعد سے وکلاء اور عوام ایک ڈکٹیٹر کے خلاف معزول چیف جسٹس کی بحالی کے لئے تحریک چلا رہے تھے ۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ اٹھارہ فروری کو جب ملک میں جمہوری حکومت قائم ہو گئی آج بھی ہم معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک چلا رہے ہیں ۔ پہلے تو یہ تحریک ایک آمر کے خلاف چلائی جا رہی تھی اب یہ جج بحال کیوں نہیں کئے گئے میری سمجھ سے باہر ہے ۔ پوری قوم سراپا احتجاج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف جھوٹ بولتے ہیں کہ ان ججوں کو انہوں نے ان ساتھ ججوں کو معزول نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود حلف نہیں لیا ۔ انہو ںنے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان ججوں نے جنرل مشرف کی ذات کا حلف لینے سے انکار کیا جنہیں میں سیلوٹ کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے جوسوغات پاکستان کو دی ہے اور جن ججوں نے پاکستان کی بجائے مشرف کی ذات کا حلف اٹھایا یہ قو م کو کیا انصاف دیں گے کیا پاکستان کی قسمت میں یہی جج رہ گئے ہیں جو وردی جھک کر سیلوٹ کرتے ہیں۔ کیا ان ججوں کے سروں پر تاج رکھا جائے ، انہیں ہلال جرات دیا جائے اور پھر جب یہ جج مر جائیں تو پیسوں کے لئے بکنے والے ان ججوں کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جائے جس طرح مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے والے جرنیلو ںکو قومی پرچم میں لپیٹ کر پورے قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا تھا کیا پاکستان کی تقدیر میں یہی کچھ رہ گیا ہے ۔ آج قوم کو جھاگنا ہو گا اور طوفان بن کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ اصلی جج باہر رسوا ہو رہے ہیں اور نقلی جج عدالتوں میں بیٹھے ےیں ۔انہوں نے کہا کہ اصلی چہرے چھپے ہوئے ہیں اور نقلی چہرے سامنے ہیں جو پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی مشرف ہیں مجھے ہتھ کڑیاں لگائیں ، اسمبلی توڑی ، منتخب حکومت ختم کی اور آئین توڑا اور پھر مجھے ملک بدر بھی کیا لیکن اللہ تعالی مجھے واپس لے آیا اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جھوٹ اپنے انجام کو پہنچا ۔ جب سچ باطل کے سامنے رسوا نہیں ہو سکتا تو پھر ڈر کس بات کا ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے چند روز پہلے (میڈیاسے) اپنی مرضی کے چند بندے سامنے بٹھا کر سوال جواب کئے اس کے چہرے پرجعلی ہنسی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔ بلکہ مشرف ہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ آمریت کی باقیادت کو بھی جانا ہو گا ۔ ہمیں آمریت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنا ہے ۔ یہ کیا مذاق ہے کہ ہر دس سال بعد وردی والا آجاتا ہے اور پوری قوم کو یرغمال بنا لیتا ہے کیا ہم بھیڑ بکریاں یا مٹی کے بت ہیں یا ہم زندہ قوم نہیں ہیں کہ ہمیں اس طرح یرغمال بنایا جاتا رہے ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے کرتوتوں کی وجہ سے جو سرحد پر حملہ ہو ا پہلے تو معصوم شہریوں کی جان جاتی تھی اب اس میں فوجی جوان شہید ہوئے ہیں جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں یہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ تھا ۔ کیا ہم نے 1947 میں قربانیاں دے کر یہ دن دیکھنے کے لئے پاکستان بنایا تھا کہ جہاں فوجی حکمرانی ہو ، ڈکٹیٹر آئین توڑے ، عوام فاقو ںاور خو د کشیوں پر مجبور ہوں ، آٹا نایاب اور بے روز گاری ہو ۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا ہے ۔ آج ہر بندہ خودکشی پر مجبور ہے ، چاروں طرف بد امنی ہے ۔انہو ںنے پاکستان کا کیا حشر کردیا ہے ۔ آج قوم کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے ۔ میں چیف جسٹس اور ان ساٹھ معزول ججوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشرف کی ذات کا حلف نہیں اٹھایا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر قوم کے پاس اعتزاز احسن ، علی احمد کرد، منیر اے ملک ، اقبال حیدر اور حامد خاں جیسے دس بیس رہنما اور ہوں تو پاکستان کو کبھی مشکلات کا سامنا نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کے حلقے جہاں دونوں حلقوں سے ان کی ضمانتیں ضبط ہوئیں میں نے آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ یہاں سے اعتزاز احسن کو الیکشن لڑوائیں وہ ہمارے مشترکہ امیدوار ہونگے لیکن معلوم نہیں ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے تمام امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھایا تھا آج میں یہاں موجود تمام لوگوں سے حلف لینا چاہتا ہوں کہ وہ بھی ججوں کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جس کے بعد اجتماع میں موجود تمام لوگوں نے میاں نواز شریف کے پیچھے حلف پڑھا۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ جب جج بحال ہونگے تو ملک میں نا انصافی کادور ختم ہو گا ، مہنگائی اور بے روزگاری بھی ختم ہو گی اور گڈ گورننس بھی ہو گی ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ملک میں موجود بحران اور معاشی تباہی 60سالہ ہے یہ 60یومیہ حکومت کے گلے ڈالنا درست نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی افہام و تفہیم سے حکومتی نظم ونسق چلائیںگے اور اس سلسلے میں میری کراچی میں شہری حکومت کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے تحت کراچی میں ایسی ترقی ہوگی جو گزشتہ 60برسوں میں نہیں ہوئی۔جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان پیپلز پارٹی نے دی ہیں اور ہمارے پاس عدلیہ اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے روڈمیپ ہے ملک میں حالیہ معاشی و صنعتی بحران کا ذمہ دار 60یومیہ حکومت کو نہیں ٹھہرا یا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہروں میں موجود ڈاکو صرف60دنوں میں ہی پیدا نہیں ہوئے ہیں تاہم میں اسکے باوجود وزیر داخلہ کو ہدایت دیتا ہوں کہ وہ ہر 3ماہ بعد وزارت داخلہ کی کارکردگی کی رپورٹ صحافیوں سے شئیر کریں اور اس کی بنیاد پر میڈیا انہیں تعریف یا تنقید کا نشانہ بنانے کا مکمل حق رکھتا ہے۔آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان موجود خلیج کے حوالے سے کہا کہ یہ وقتی امر ہے اور دونوں پارٹیوں میں مضبوط ورکنگ ریلیشن موجود ہے۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے کے آغاز پر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ وکیلوں کا ساتھ دیں کیونکہ ان کے بقول وکیل قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔وہ لاہور ہائی کورٹ میں وکیلوں کے ایک ایسے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے جن میں لاہورکے علاوہ ملتان سے آنے والی لانگ مارچ کے شرکائ بھی شریک ہوئے۔اس اجتماع میں چیف جسٹس سمیت سترہ معزول جج، سپریم کورٹ کے آٹھ ریٹائرڈ جج اور ملک بھر سے آئے وکلائ نمائندوں نے شرکت کی۔ افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وکلاء نے 9 مارچ سے جو انقلاب برپا کرنا شروع کیا ہے اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ان سے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ سے ہی جمہوریت آگے بڑھے گی۔ انہوں نے وکلائ کو کہا ہے کہ ان کی منزل بہت دور نہیں، بہت قریب ہے وہ ثابت قدم رہیں اور کسی رکاوٹ سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔انہوں نے وکلاء کو ہدایت کی وہ ڈسپلن برقرار رکھیں۔ معزول چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء سے قوم کی محبت دوگنی سے چوگنی ہوگئی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ نیا سبق سکھایا ہے کہ ان کی بقا آئین اور قانون میں ہے۔ انہوں نے کہا آئین کی بالادستی ہوگی تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔انہوں نے کہا وکلاء نے آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے اس تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔پندرہ ماہ سے انہوں نے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ رکھے ہیں اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا ہے۔’اگر وکلاء یہ قربانی نہ دیتے تو یہ دن دیکھنے کو نصیب نہیں ہوتا۔ وکلاء کی قربانی کی وجہ سے قوم میں بیداری آئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا کہ وکیلوں کی تحریک صرف ججوں کی بحالی پر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ہم ریاست کا مزاج اور سوچ بدلیں گے اور پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ہائی کورٹ کے معزول جسٹس خواجہ شریف خطاب کے لیے آئے تو فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ انہیں پارلیمان سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر نے کہا کہ وہ روات سے اسلام آباد مڑ جانے کے فیصلے کو نہیں مانتے۔انہوں نے کہا کہ اس کی بجائے وکلاء راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے ہوتے ہوئے فوجیوں کی رہائش گاہوں کو اپنے پاو¿ں تلے روندتے ہوئے اسلام آباد جائیں گے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمودالحسن نے کہا کہ صدر مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے اور جس جج نے ان کے اقدامات کی توثیق کی انہیں بھی یہی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے آئینی پیکج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پی سی او ججوں کو بحال رکھنا ہے جو وکلائ کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ اسی ایسوسی ایشن کے ایک دوسرے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اراکین پارلیمان کو ان کے حلف کی اہمیت یاد دلانے کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلائ برادری نے اس طرح کا انقلاب برپا کیا ہے کہ اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے اور مجھے امید ہیں کہ آپ اس میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے پاکستانی میڈیا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے وکلائ نے 16 کروڑ عوام کو بیدار کیا اور اس وکلائ کی تحریک میں میڈیا کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے بعض اداروں نے مالی مشکلات کے باوجود وکلائ تحریک کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ بار کے صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا وکلاءپاکستان کی تاریخ بدلنے نکلے ہیں اور صدر مشرف اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے فرانس کی ملکہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح اس نے کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاو¿ اسی طرح صدر مشرف بھی کہتے ہیں کہ اگر دال نہیں ملتی تو مرغی کھاو¿۔ لانگ مارچ اپنے دوسرے مرحلے میں ملتان سے لاہور تک کی مسافت آدھے دن اور پوری رات میں مکمل کی اور صبح پو پھٹنے پر وکلاءاور لانگ مارچ کے دیگر شرکاء لاہور میں داخل ہوئے۔ ملتان میں معزول چیف جسٹس کے خطاب کے بعد لانگ مارچ کا یہ قافلہ ساہیوال کی طرف چل پڑا۔ ساہیوال میں علی احمد کرد اور دیگر رہنماو¿ں نے وکلاء سے خطاب کیا۔ مسلم لیگ نون کے سرکردہ رہمنا مخدوم جاوید ہاشمی بھی ملتان سے قافلے کے کے ساتھ ساتھ رہے۔ لانگ مارچ اوکاڑہ پہنچا تو کچہری چوک اور شہر کے دیگر مقامات پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عام شہریوں نے آتشبازی، گل پاشی اور دھول کی تھاپ پر اس کا استقبال کیا۔ اوکاڑہ شہر کے اندر سے ہوتا ہوا جیسے ہی قافلہ جی ٹی روڈ پر آیا تو اس نے ایک دم شکل بدل دی۔ قافلے کی قیادت کرنے والے علی احمد کرد اپنی گاڑی قافلے سے الگ کر کے اس سے آگے نکل گئے، دیگر گاڑیاں بھی آگے پیچھے ہو گئیں۔ قافلے کو پتوکی میں وکلاء نے روک لیا تو ایک بار پھر وہ ترتیب میں آگیا لیکن وہاں سے چلتے ہی پھر اس میں بی ترتیبی آگئی۔ قافلہ جب صبح کے وقت جب لاہور میں داخل ہوا تو ملتان روڈ کے ایک استقبالی کیمپ کے علاوہ کہیں بھی بڑا استقبال نہیں ہوا۔ کئی مقامات پر استقبالی کیمپ تو موجود تھے لیکن وہاں کوئی سیاسی کارکن موجود نہیں تھا۔ جس کی وجہ قافلے کی تاخیر اور پوری رات گذر جانا بتایا گیاہے۔ اوکاڑہ اور دیگر مقامات پر وکلاء اور سیاسی کارکنان عد لیہ کی بحالی کیلئے اور مشرف کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے رہے۔ پتوکی تک لانگ مارچ کے ساتھ پولیس بھی چلتی رہی لیکن جیسے ہی لانگ مارچ پتوکی سے آگے بڑھا تو پولیس واپس چلی گئی اور قافلے نے لاہور تک کا سفر سیکیورٹی کے بغیر طے کیا۔ ادھر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بدھ کی شام ہی بذریعہ ہوائی جہاز ملتان سے لاہور پہنچ گئے تھے ۔لاہور ائر پورٹ پر وکلاءاور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور انہیں ایک جلوس کی شکل میں لاہور ہائی کورٹ لے جایا گیا۔ راستے میں جگہ جگہ سیاسی جماعتوں نے استقبالی کیمپ لگا رکھے تھے جن سے جلوس کے شرکاء پر گل پاشی کی جاتی رہی۔ سب سے زیادہ مسلم لیگ نون کے کیمپ اورکارکن تھے لیکن انکے علاوہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکن بھی متحرک نظر آئے۔ پوری مال روڈ ساری رات ترانوں اور سیاسی گانوں سے گونجتی رہی۔ جبکہ مال روڈ اور دیگر مقامات پر آویزان بینروں پر ’عدلیہ کی جنگ نواز شریف کے سنگ‘، ’عدل یا جدل‘، ’ہم ملک بچانے نکلے ہیں آو¿ ہمارے ساتھ چلو‘، جیسے نعرے درج تھے۔ لاہور ائر پورٹ ، ٹھوکر نیاز بیگ سے ہائی کورٹ کی طرف جانے والے تمام راستوں پر جسٹس افتخار محمد چوھدری، نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر آویزاں تھیں۔ پاکستان میں اعلٰی عدالتوں کے ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء کے مجوزہ لانگ مارچ میں شرکت کے لیے وکلاء کے قافلے کراچی اور کوئٹہ سے سکھر کے لیے روانہ ہوئے جہاں سے وہ بارہ جون کو پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے پہنچے کراچی سے قائد اعظم مزار سے شروع ہونے والے وکلاء کے قافلے کو الوادع کرنے والے والوں میں پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد اور سابق جج فخر الدین جی ابراہیم بھی شامل تھے۔ رات کو لاہور میں قیام کرنے کے بعد تیرہ جون جمعہ کو لانگ مارچ جی ٹی روڈ کے ذریعے راولپنڈی ضلعی بار پہنچا اور مری روڈ پر پشاور سمیت سرحد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والے وکلاء کے قافلے مری روڈ پر مرکزی قافلے میں شامل ہو گئے۔ راولپنڈی سے لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو کر پارلیمنٹ ہاو¿س پہنچا۔ جس طرح تین نومبر دو ہزار سات کو صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے ساٹھ ججوں کو معزول کر کے انہیں بچوں سمیت گرفتار کر لیا ایسا تو کسی غیر مہذب معاشرے میں بھی نہیں ہوتا صدر مشرف نے ججوں کو نجی جیلوں کے اندر محبوس کر دیا تھا اور ایسا کسی بادشاہ، کسی شہنشاہ، کسی سلطان یا کسی فرعون نے بھی نہیں کیا۔ اب مشرف یہ غلط بیانی کر رہے ہیں کہ انہیں ججوں کو برطرف اور گرفتار نہیں کیا۔اگر مشرف نے ججوں کو گرفتار نہیں کیا تھا تو وہ کون تھے جن کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حکم پر رہا کیا گیا ۔ صدر مشرف نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور کب تک ایسا شخص صدر کے منصب پر فائز رہے گا۔ وکلاءمشرف کو محفوظ راستہ نہیں دینا چاہتے، ان کے خلاف آزاد ماحول میں، آزاد عدلیہ کے پاس مقدمہ چلایا جائے گا اور ان کا اس کیس میں ٹرائل کیا جائے گا جو چیف جسٹس اور ان کے بچوں کو محبوس رکھنے سے متعلق ہے اور جس کی ایف آئی آر اسلام آباد کے ایک تھانے میں درج ہے۔ معزول ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے کراچی سے آنے والے وکلاء اور سیاسی کارکنان کا قافلہ جب بہاولپور پہنچا تو اس وقت سخت گرمی اور ایک لمبے سفر کے باوجود قافلے میں شریک وکلاء کے جوش میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ بہاولپور میں وکیل رہنما علی احمد کرد کے ضلعی بار سے خطاب کے بعد یہ قافلہ ملتان کے لیے روانہ ہو ا ۔اس سے قبل پنجاب میں داخل ہونے پر قافلے کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ چھوٹے بڑے شہروں سے گزرتے اس قافلے پر پھول نچھاور کیے گئے۔ قافلے کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں نے معزول چیف جسٹس کے حق میں اور صدر مشرف کے خلاف سخت نعرہ بازی کی۔ ادھر معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لئے جب ملتان پہنچے توملتان پہنچنے پر معزول چیف جسٹس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ جہاں انہیں پنجاب کی حکومت نے چیف جسٹس کا پروٹو کو ل دیا گیا ہے۔ درجنوں گاڑیوں، مسافر بسوں اور ویگنوں پر سوار سینکڑوں وکلاء اور سیاسی کارکنان کا یہ قافلہ جب منگل کی صبح سکھر سے روانہ ہوا تھا اور قومی شاہراہ پر سفر کرتا ہوا منگل کی شام کو رحیم یار خان پہنچا تھا۔ رحیم یار خان سے یہ قافلہ بہاولپور کی جانب روانہ ہوا تھا اور منگل اور بدھ کی درمیانی رات وکلاءکا قافلہ بہاولپور پہنچا۔ قافلے کے دوران رحیم یار خان میں وکلاء سے خطاب کرتے علی احمد کرد نے کہاکہ تین نومبر کو ایک شخص نے پاکستان کے پانچ ہزار وکلاء کو جیلوں میں بند کر دیا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہیں اور عوام بارہ جون کو صدر مشرف کو گھر بھیج دیں گے۔علی احمد کرد نے کہا کہ صدر مشرف کو گھر بھیجے تک وکلاءکی تحریک جاری رہے گی۔ صادق آباد اور ماچھی گوٹھ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے قافلے کا استقبال کیا۔ اس قافلے کے راستے میں جگہ جگہ پوسٹر اور بینرز لگائے گئے تھے۔پنوعاقل اور گھوٹکی میں قافلے کے شرکاء نے مختصر قیام کیا اور چلچلاتی دھوپ میں جمع ہونے والے سیاسی کارکنوں اور شہریوں سے خطاب کیا۔ کراچی سے شروع ہونے والے اس قافلے کی سربراہی علی احمد کرد کر رہے تھے۔ وکلاء کے ساتھ اس قافلے میں شریک پاکستان مسلم لیگ (نون) کے کارکنوں کی قیادت سابق گورنر سندھ ممننوں حسین جبکہ جماعت اسلامی کے کارکن صوبائی امیر اسد اللہ بھٹو کے ہمراہ اس قافلے میں موجود تھے۔جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے علاوہ سندھ قوم پرست جماعت سندھی عوامی تحریک کے کارکن بھی قافلے کے ساتھ چلتے رہے۔کراچی سے روانہ ہو کر گھوٹکی تک پہنچنے والا یہ قافلے میں شرکاءکی تعداد ہزاروں تک نہیں پہنچ سکی تھی اور توقع تھی ہے کہ پنجاب پہنچنے پر اس میں بڑی تعداد میں وکلاء، سیاسی کارکنوں اور عام شہری شامل ہوں گے۔ ادھر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لانگ مارچ کے پیش نظر انتہائی سخت سکیورٹی اقدامات کیے گئے ۔ حکام نے پیر کو شاہراہ دستور کو جس پر ایوان صدر سے لے کر پارلیمنٹ ہاو¿س اور سپریم کورٹ جیسی انتہائی اہم عمارتیں واقع ہیں خار دار تاروں کے ذریعے سیل کر دیا تھا جبکہ منگل کو پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے ڈی چوک پر کنٹینر کھڑے کر کے راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ۔ادھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے کہا کہ وہ وکلاءکا اسلام آباد آمد پر خیر مقدم کرے گی اور ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی کرے گی۔ وزیراعظم کے مشیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ ان کی حکومت مارچ کی مزاحمت نہیں کرے گی۔ سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے لیے وہ وکیل رہنما اطہر من اللہ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس سے قبل بہاولپور میں مختصر قیام کے دوران ضلعی بار سے خطاب کرتے ہوئے قافلے کے سالار اور وکیل رہنما علی احمد کرد نے کہا کہ’صدر پرویز مشرف کو تین نومبر کے احکامات جاری کرتے ہوئے بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ وکلاء، سول سوسائٹی اور میڈیا کو خاموش کر دیں گے لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ غلط تھے‘۔انہوں نے کہا کہ بارہ جون کا اسلام آباد میں دھرنا صدر مشرف کو مجبور کردے گا کہ وہ صدارتی محل چھوڑ کر گھر جائیں۔ ملتان میں وکلاء کے لانگ مارچ کے سلسلے میں کافی جوش و جذبے کے ساتھ تیاریاں کی گئی اور وکلاء، سیاسی جماعتوں، تاجر تنظیموں، ورکر یونینز اور طلباءتنظیموں کی جانب سے شہر کے تمام چوراہوں پر بینرز، جھنڈے اور ہورڈنگ لگائے گئے جن پر عدلیہ کی بحالی اور صدر مشرف کے مواخذے کے نعرے درج کیے گئے۔ پورے شہر میں لانگ مارچ کے بارے میں وال چاکنگ بھی کی گئی اور کئی مقامات پر استقبالیہ کیمپ بھی لگائے گئے ۔ اس کے علاوہ چھ کے قریب ٹرکوں پر لدے مزید کنٹینر بھی پارلیمنٹ لاجز کے سامنے کھڑے دیکھے گئے ہیں۔ جب ان میں سے ایک ٹرک کے ڈرائیور سے پوچھا گیا کہ کنٹینر کو کس جگہ پر رکھنا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اس انتہائی حساس سرکاری علاقے کی سکیورٹی کے لیئے تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ لاجز کے سامنے رینجرز نے نئی حفاظتی چوکیاں بھی قائم کر د یں۔پارلیمنٹ ہاو¿س، سپریم کورٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاو¿س کی طرف جانے والے تمام راستوں کو عام ٹریفک کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا گیا صرف سرکاری گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دی گئی ا ن مقامات پر اسلام آباد پولیس کی بکتر بند گاڑیاں بھی کھڑی کی گئیں ۔رحمان ملک کا کنٹینروں کے بارے میں کہنا تھا کہ اس کا مقصد سرکاری تنصیبات کو کسی بھی طرح کے نقصان سے بچانا ہے۔ 'وہاں اہم سرکاری دفاتر ہیں، عدالتیں ہیں، پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہوگا جبکہ سفارتی علاقہ بھی اسی جانب ہے۔ ان سے آگے کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔' مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وکلاءکو مارچ زیرو پوائنٹ یا شکرپڑیاں تک محدود ر کھنے کے لیئے کہا تھا لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔وکلاء کے مطابق ان کا لانگ مارچ راولپنڈی سے فیض آباد، زیرو پوائنٹ، آبپارہ کے راستے ڈی چوک پہنچے گا جہاں وہ دھرنا دیں گے۔ وکلا کی آمد پر اس علاقے میں واک تھرو گیٹس بھی نصب کیئے گئے جن پر وکلا نمائندے بھی موجود تھے جو ہر آنے والے کی شناخت پر انہیں اندر جانے دیتے رہے۔ اسلام آباد میں سکیورٹی کے لیئے کنٹینروں کا استعمال کم ہی دیکھا گیا گزشتہ برس تین نومبر کو جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ہنگامی حالت کے نافذ کے بعد بھی قدرے اسی قسم کے حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ لیکن اس دفعہ بھی سڑکوں پر کنٹینر نہیں رکھے گئے تھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی میں اس وقت صدر پرویز مشرف نہیں بلکہ پارلیمان رکاوٹ ہے۔یہ بات انہوں نے ملتان روانگی سے پہلے لاہور ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا تھاکہ وکلاءکی لانگ مارچ کا ہدف کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ اسلام آباد پہنچ کر کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں رکاو ٹیں کھڑی کرنے کے حکومتی انتظامات پر تبصرہ کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ وکلاءکی کامیابی ہے کہ حکومت کانپ رہی ہے پارلیمان نے وعدہ کیا تھا کہ ججوں کو ایک قرارداد کے تحت بحال کیا جائے گا اور اب پارلیمان کو مقتدر بنانے کی ضرورت ہے اس لیے وکلاء پارلیمنٹ کا ہی گھیراو¿ کریں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ’صدر پرویز مشرف تو خود خارجی راستے پر کھڑے ہیں اور ہوا کا ایک جھونکا ہی انہیں باہر کردے گا،وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ جب وکیل اسلام آباد پہنچیں تو وہ پہلے ہی چھوڑ کر جا چکے ہوں‘۔ ادھر لاہور میں پیپلز لائرز فورم لاہور ہائی کورٹ کے کنوینر میاں جہانگیر اور پاکستان بار کونسل کے رکن کاظم خان نے پیپلز پارٹی کے دیگر وکلاء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے لانگ مارچ کی حمایت کی ہے۔ تاہم انہوں نے وکلائ تحریک کی قیادت پر زور دیا تھاکہ لانگ مارچ کا اختتام پارلیمنٹ ہاو¿س کی بجائے ایوان صدر یا آرمی ہاو¿س پر کیا جائے۔ سب سے بڑا ہدف مشرف ہے لیکن اس کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی یا آصف زرداری کی نیت پر شک کیا جا رہا ہے۔ کاظم خان نے کہا کہ وکلاء کو تقسیم کرنے کے لیے ایک مخصوص ٹولہ سازشیں کر رہا ہے۔ اس سے قبل لاہور کے بعد گجرات میں لانگ مارچ کے قافلے نے سب سے لمبے عرصے تک قیام کیا اور اعتزاز احسن سمیت علی احمد کرد، اقبال حیدر اور دیگر وکلاءرہنماو¿ں نے شرکاء سے خطاب کیا۔ وکلاءرہنماو¿ں نے اپنے خطاب کے دوران اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ گجرات میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کے جھنڈے اٹھائے لوگ مارچ میں شریک ہوئے ہیں۔ اس قافلے کے راستے میں جگہ جگہ استقبالی کیمپ موجود تھے جہاں پر لوگ اس قافلے کا خیر مقدم ، نعرہ بازی اور پھول نچھاورکرتے رہے ،اس قافلے کی قیادت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن، منیر اے ملک، حامد خان، علی احمد کرد اور دیگر وکلاء رہنما کر رہے تھے۔وکلاء برادری کے علاوہ اس قافلے میں سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی شا مل تھے جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز نمایاں تھی ۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکن بھی شامل تھے اس کے علاوہ جی ٹی روڈ پر قائم استقبالیہ کیمپوں پر زیادہ تعداد پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی نظر آتی رہی۔پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء میاں نواز شریف نے وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو افسوس ہے کہ جمہوری حکومت آنے کے باوجود ججوں کی بحالی کے لیے وکلاءاور سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہیں۔ یہ بات انہوں نے وکلاء کے قافلے سے مینار پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ قافلہ اسلام آباد کے سفر پر لاہور ہائی کورٹ سے روانہ ہوا اور مینار پاکستان رکا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو دکھ، افسوس بھی ہے اور حیرانگی بھی ہے کہ پچھلے سال سے وکلاء اور سول سوسائٹی ججوں کی بحالی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد جمہوری حکومت کے آنے کے باوجود جج ابھی تک بحال نہیں ہوئے۔ ’یہ جو سوغات ہمیں ملی ہے مشرف کی طرف سے اور جو جج بنے بیٹھے ہیں اور جو پاکستان کا حلف لینے کی بجائے مشرف کا حلف اٹھانے کو تیار ہیں۔‘ انہوں نے سوال کیے کہ کیا پاکستان کی قسمت میں ایسے جج رہ گئے ہیں جو بک جاتے ہیں اور جو مشرف کو جھک کر سلام کرتے ہیں۔ اس پر مظاہرین نے اونچی آواز میں نہیں کہا۔ ’اگر پاکستان کو ایسے جج چاہیے تو ان ججوں کو پرائڈ آف پرفارمنس دو، ہلال جرات دو اور انعاموں سے نوازو۔ اور جب یہ مر جائیں تو ان کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرو جیسے کہ مشرقی پاکستان گنوانے والے جرنیلوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا تھا۔‘ انہوں نے کہا کہ ان افراد کے خلاف پوری قوم کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بکاو¿ جج عدلیہ میں بیٹھے ہیں جب کہ اصل جج رسووا ہو رہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا ’کتنا جھوٹا ہے کہ مشرف کہتا ہے کہ اس نے چیف جسٹس کا کیس سپریم جوڈیشل کاو¿نسل کو دے دیا تھا کہ فیصلہ کریں۔ لیکن اس سے پہلے جو تین وردی میں جرنیل بٹھا کر چیف جسٹس سے استعفیٰ مانگا وہ کیا تھا۔‘ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف نے پہلے پوری کوشش کی کہ چیف جسٹس استعفیٰ دے دیں اور جب انہوں نے انکار کیا تو پھر کیس سپریم جوڈیشل کاو¿نسل کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ وہی صدر مشرف ہیں جنہوں نے ان کی حکومت الٹی تھی اور آئین توڑا تھا۔ اور اب یہ جلد جا رہا ہے۔‘ انہوں نے حال ہی میں صدر مشرف کی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے کہا کہ اس بریفنگ میں اپنی مرضی کے صحافی بلائے ہوئے تھے۔ ’اس کے چہرے پر نقلی ہنسی تھی، اس کی باڈی لینگوج بتا رہی تھی کہ وہ دبا ہوا ہے۔ وہ جلد جا رہا ہے اور بہت جلد جا رہا ہے۔‘ مہمند ایجنسی کے واقع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کے یہ کرتوت ہیں کہ پہلے معصوم شہریوں کی جانیں جاتی تھیں اور اب فوجیوں کی جا رہی ہیں۔ ’کل جو حملہ ہوا ہے وہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہوا اور پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہوا ہے۔‘ انہوں نے وکلاءرہنماو¿ں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نواز لانگ مارچ میں ان کے ساتھ ہے اور ججوں کی بحالی تک ان کے ساتھ ہے اور یہ پاکستانی عوام کا فیصلہ ہے کہ جج بحال ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن کو انہوں نے منا لیا تھا کہ وہ راولپنڈی سے ضمنی انتخابات لڑیں اور وہ مان بھی گئے تھے۔ ’لیکن پھر معلوم نہیں کہ اعتزاز صاحب نے کیوں نہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔‘ اس سے قبل علی احمد کرد نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قافلہ اسلام آباد دو خوابوں کی تعبیروں کے ساتھ جا رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ صدر مشرف اقتدار میں نہیں رہے گا اور دوسرا ججوں کی دو نومبر والی پوزیشن پر بحالی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اس وقت تک گھیراو¿ جاری رہے گا جب تک کہ قرارداد منظور نہیں ہوتی اور جج بحال نہیں ہوتے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے نواز شریف کو ججوں کا ساتھ دینے پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاءتحریک نے تو بھوربن معاہدے پر اعتماد کیا تھا۔ ’ہم نے تو کسی کا ہاتھ نہیں روکا کہ وہ عوام کو آٹا فراہم نہ کرے، بجلی فراہم نہ کرے۔‘ اس سے قبل معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لانگ مارچ کے آخری مرحلے کے آغاز پر عوام سے اپیل کی کہ وہ وکیلوں کا ساتھ دیں کیونکہ ان کے بقول وکیل قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ میں وکیلوں کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے جن میں لاہورکے علاوہ مارچ میں ملتان سے آنے والے شرکاءبھی تھے۔اس اجتماع میں چیف جسٹس سمیت سترہ معزول جج، سپریم کورٹ کے آٹھ ریٹائرڈ جج اور ملک بھر سے آئے وکلاء نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ معزول چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے کہ وکلاءنے نو مارچ سے جو انقلاب برپا کرنا شروع کیا ہے اس کا کسی منطقی انجام تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ان سے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ سے ہی جمہوریت آگے بڑھے گی۔ انہوں نے وکلاءکو کہا کہ ان کی منزل بہت دور نہیں، بہت قریب ہے وہ ثابت قدم رہیں اور کسی رکاوٹ سے گھبرا کر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ انہوں نے وکلاءکو ہدایت کی وہ ڈسپلن برقرار رکھیں۔ وکلاء سے قوم کی محبت دوگنی سے چوگنی ہوگئی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ نیا سبق سکھایا ہے کہ ان کی بقا آئین اور قانون میں ہے۔ آئین کی بالادستی ہوگی تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ وکلاء نے آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے اس تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پندرہ ماہ سے انہوں نے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ رکھے ہیں اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا ہے۔’اگر وکلاء یہ قربانی نہ دیتے تو یہ دن دیکھنے کو نصیب نہیں ہوتا۔ وکلاءکی قربانی کی وجہ سے قوم میں بیداری آئی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا کہ وکیلوں کی تحریک صرف ججوں کی بحالی پر ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ہم ریاست کا مزاج اور سوچ بدلیں گے اور پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست کی بجائے ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ہائی کورٹ کے معزول جسٹس خواجہ شریف خطاب کے لیے آئے تو فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے آئینی پیکج عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب حکمران اتحاد کے پاس دوتہائی اکثریت ہی نہیں ہے تو آئینی ترمیم کیسے کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پارلیمان سے کوئی خاص امید نہیں ہے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر نے کہا کہ وہ روات سے اسلام آباد مڑ جانے کے فیصلے کو نہیں مانتے۔انہوں نے کہا کہ اس کی بجائے وکلاءراولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے ہوتے ہوئے فوجیوں کی رہائش گاہوں کو اپنے پاو¿ں تلے روندتے ہوئے اسلام آباد جائیں گے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر محمودالحسن نے کہا صدر مشرف کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جائے اور جس جج نے ان کے اقدامات کی توثیق کی انہیں بھی یہی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے آئینی پیکج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پی سی او ججوں کو بحال رکھنا ہے جو وکلاءکسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ اسی ایسوسی ایشن کے ایک دوسرے سابق صدر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اراکین پارلیمان کو ان کے حلف کی اہمیت یاد دلانے کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ججوں کی بحالی چاہتی ہے، اس پر دوسری کوئی رائے نہیں ہے انہیں نواز شریف کی مکمل حمایت اور تائید حاصل ہے۔ قوم کو صدر مشرف کے حوالے سے خوشخبری ابھی نہیں بعد میں دیں گے۔ پیپلز پارٹی کا یہ تصور ہے کہ اس نے مشکلات کا زیادہ سامنا کیا ہے ہم قانون، نظام اور عدلیہ کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں مگر اس بارے میں ہمارے تجربات نے دوسروں کے مقابلے میں ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے ہمارے پاس عدلیہ کی مضبوطی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے روڈ میپ موجود ہے۔ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب میں نواز شریف کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں مرکز میں نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب حکومت میں آئے تھے پہلے دن ان کی یہ پوزیشن تھی کہ ’ آصف بھائی اگر آپ یہ کام اس ڈیڈ لائن میں نہیں کرسکیں گے تو ہوسکتا ہے کہ مجھے آپ سے کچھ راہ دور کرنی پڑے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی مضبوطی اور جمہوریت کے فروغ کے دوران ہوسکتا ہے کہ کچھ ساتھی سفر میں ساتھ نہ ہوں مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ اسلام آباد میںپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ بش ‘ مش ‘ الطاف حسین ‘ زرداری اور کرپٹ مافیا پاکستان میں آزاد عدلیہ کے قیام کے خلاف ہیں ۔ سب سے دوغلا کردار آصف علی زرداری کا ہے جو وکٹ کی دونوں طرف کھیل رہا ہے ۔ زرداری کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ قلا بازیاں کھانا چھوڑ دے ورنہ گو مشرف گو کے بجائے گو زرداری گو کے نعرے لگیں گے ہم عدلیہ کی آزادی اور معزول ججوں کی بحالی کے لیے آخری دم تک وکلاء کے شانہ بشانہ ساتھ رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں وفاقی دارالحکومت کے علاقے کراچی کمپنی میں ملک بھر سے آئے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ بعدازاں عمران خان کی قیادت میں ہزاروں افراد کے قافلے نے زیرو پوائنٹ پر لانگ مارچ کے شرکاءکا استقبال کیا ۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ جس ملک کی عدلیہ غلام ہوتی ہے وہ قوم بھی غلام ہوتی ہے اسی لیے ہمارا ملک ابھی تک صحیح معنوں میں آزاد نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آمر کے سامنے نا کی ہم آخر دم تک چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے رہیں گے انہوں نے کہا کہ صرف عدلیہ کی آزادی نہیں بلکہ پاکستان کی آزادی کے خلاف سازش کی جا رہی ہے اور اس سازش میں سب سے پہلے بس حکومت ملوث ہے کیونکہ بش نہیں جانتا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہو ۔ وہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کررہا ہے ۔ دوسرے نمبر پر بش کے بعد ایک مش ہے جو عدلیہ کو آزاد نہیں ہونے دے رہا ۔ بش اور مش دونوں مل کر سازش کر رہے ہیں کہ عدلیہ آزاد نہ ہو انہوں نے کہا کہ تیسرے نمبر ایک گیدڑ اعظم ہے جو لندن میں بیٹھا ہے جبکہ کراچی کے لوگ بھوکے ہیں اور خودکشیاں کررہے ہیں ۔ الطاف حسین دہشت گرد ہے وہ ہزاروں لوگوں کا خونی ہے اور وہ بھی نہیں چاہتا کہ عدلیہ آزاد ہو۔ انہوں نے کہا کہ چوتھے نمبر پر پاکستان میں مافیا ہے جو عدلیہ آزاد نہیں چاہتی ۔ یہ چینی ‘ آٹا اور سیمنٹ کا مافیا ہے اور پانچویں اور آخر میں سب سے دوغلا کردار آصف علی زرداری کا ہے جو وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زرداری ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش کررہا ہے لیکن پاکستان کے عوام پاگل نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ زرداری نے پوری قوم کے سامنے مری میں ججوں کو بحال کرنے کے معاہدے پردستخط کیے لیکن جج بحال نہیں کیے ۔ انہوں نے کہا کہ 29 ججوں کا پیکج اس لیے لایا جا رہا ہے کہ زرداری اپنا پیسہ بچانا چاہتا ہے اسے پاکستان بچانے کی فکر نہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ 29 جج لا کر عدلیہ کو برباد کیا جا رہا ہے زرداری کو ڈوگر کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ وہ این آر او کو تحفظ دے گا ۔ پی سی او ججز عدلیہ کے میر صادق اور میر جعفر ہیں ۔ میں نواز شریف کو مبارکباد دیتا ہوں جس نے عوامی موقف اپنایا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نواز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ججوں کی بحالی کے لیے قرار داد اسمبلی میںپیش کریں تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کون سے گدھے ہیں اور کون سے گھوڑے ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام آباد میں رہیں گے۔ جب تک عدلیہ بحال نہیں ہو جاتی اورمشرف رخصت نہیں ہوجاتا۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی نائب صدر اور رکن قومی اسمبلی مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ عوام عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی کے لیے سر پر کفن باندھ کر سڑکوں پر آگئے ہیں ججز کو بحال کرکے دم لیںگے مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے اور ملک بھر سے ہزاروں کارکن لانگ مارچ میں وکلاء کے ساتھ ہیں ۔ یہ بات انہوں نے لانگ مارچ کے دوران رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کے استقبالیہ کیمپ میں سینکڑوں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔اراکین قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق اور محمد حنیف عباسی نے بھی اس موقع پر خطاب کیا ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ شیداٹلی نہیں رہے گا اب پھر کہتا ہوں کہ اب پرویز مشرف نہیں رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حنیف عباسی نے پرویز مشرف کے چمچوں کو دس ہزار ووٹ بھی نہیں لینے دئیے ۔ یہ عوامی انقلاب ہے ۔ آرمی چیف اور متقدر قوتیں سن لیں کہ راولپنڈی کے عوام سر پر کفن باندھ کر نکل آئیں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر نے جب سے بولنا شروع کیا ہے تو ان کی ( بولتی بند ) ہو گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کی آواز ہوتی ہے اگر وہ گونگی بہری ہو جائے تو عوام اسے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ لانگ مارچ میں وکلاء سیاسی دینی جماعتوں کے لوگوں کے ساتھ معصوم بچوں کی شمولیت سے یہ طے ہو چکا کہ اب عدلیہ کی آزادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ نواز شریف نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مشرف فوج اور قوم کے مجر م ہیں ۔ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے مجرم کو چاہیئے کہ وہ قوم کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ مشرف کا محاسبہ اور ججز کی بحالی نہیں کرتی تو قوم کو نیا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت سے اپیل کی کہ وہ بے نظیر بھٹو شہید کے لہو کو سامنے رکھے اور پرویز مشرف سے جان چھڑا کر قوم کی توقعات پرپورا اترے ۔ حنیف عباسی نے کہاکہ نواز شریف کی کال پر ملک بھر سے ہزاروں کارکنوں کے قافلے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔ عدلیہ کی آزادی ا ور ججز کی بحالی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف نے کہا کہ وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے گوشے گوشے سے آئے وکلاء صاحبان اور سول سوسائٹی کے افراد کی دل و جان سے خدمت کریں۔ آج ہر گھر سے کھانے کی اشیاء ، پانی کے کولرز، چائے کے تھرموس لے کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام پریڈ ایونیو پر پہنچیں اور جہاں جہاں بھی یہ مہمان ٹھیرے ہوئے ہیں ان تک یہ اشیاء پہنچائیں ۔ محمد نوازشریف نے کہا کہ یہ تحریک پاکستان کے دنوں کی یاد تازہ کرنے والے قالفے ہیں جو اللہ کی راہ میں وطن عزیز کی سربلندی، آمریت کے خاتمے اور عدلیہ کی آزادی کا مقدس مشن لے کر اپنے گھروں سے ہزاروں سینکڑوں میل دور آپ کے پاس پہنچے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ انصار مدینہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے ان مہمانوں کی دیکھ بھال کریں کیونکہ یہ اس ڈکٹیٹر کے خلاف میدان میں نکلے ہیں جس نے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو خاک میں ملا دیا ، جس نے آئین اور قانون کو پاو¿ں تلے روندا، جس نے قرآن مجید پڑھتی معصوم بچیوں کو قتل کیا اور جو آج بھی پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے شہر ہیں ان شہروں کا ہر گھر ہمارا قلعہ ہے اور ہر گھر سے جو بھی گھر میں کھانا بنا ہے گھر کے افراد وہ کھانا لیکر گھروں سے نکلیں اور ان مہمانوں کی اس وقت تک دیکھ بھال کریں جب تک وہ یہاں موجود ہیں اور پاکستان پرڈکٹیٹر اقتدار نہیں چھوڑ دیتا ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)