میاں نواز شریف درست فرمارہے ہیں کہ انہیں اقتدار نہیں بلکہ مسائل منتقل ہورہے ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو چیلنجز کا ایک انبار ، آنے والی حکومت کے سامنے پڑا ہے ۔ سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کا ہے ۔ یہ مسئلہ جس قدر سنگین سمجھا جارہا ہے ، اس سے کئی گنا زیادہ سنگین ہے ۔ کہنے کی حد تک تویہ بات آسان ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ بات چیت کیسے اور کن کے مابین ہو؟۔تنازعے کا اہم ترین فریق امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری طرف قیادت القاعدہ کے ہاتھ میں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اور القاعدہ کو مذاکرات کی میز پر کون بٹھائے گا اور پھر جو فیصلہ ہوجائے ، اس پر ان سے عمل درآمد کون کروائے گا؟ ۔ افغانستان کے طالبان ہوں یا پاکستان کے طالبان ، گلبدین حکمت یار ہوں یا پھر باجوڑ کے مولانا فقیر محمد ، ہر ایک کا کہنا یہ ہے کہ جب تک امریکی افغانستان سے نہیں نکل جاتے ، وہ بندوق زمین پر نہیں رکھیں گے ۔دہشت گردی کا مسئلہ بظاہر ہمارا اندرونی مسئلہ ہے لیکن درحقیقت یہ عالمی مسئلہ ہے ، جس کے کئی پہلو ہیں ۔ جو تہہ درتہہ الجھا ہوا ہے اورجس میں خطے کے کئی ممالک کا رول ہے ۔ یہ مسئلہ مذہبی بھی ہے ، اقتصادی بھی ہے ، سماجی بھی ہے اور سیاسی بھی ہے ۔ یوں اس سے نمٹنا اور اس کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔نئی حکومت کو دوسرا چیلنج مہنگائی کا درپیش ہے ۔ تیل کی قیمتیں پہلے سے آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور مستقبل قریب میں ان میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ سابقہ حکمرانوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خزانہ بھر دیا ہے لیکن معاملہ الٹ ہے ۔ حکومت نے موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں اسٹیٹ بینک سے 126 ارب روپے کے قرضے لئے ہیں ۔ نگران حکومت نے بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گذشتہ چار ماہ میں مزید 233 ارب روپے کے قرضے لئے ۔ مرکز اور صوبوں میں پورے سال کے لئے مختص ترقیاتی فنڈ زمالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں خرچ کی جاچکی ہے یوں ترقیاتی کاموں کے لئے بچ جانے والی رقم نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اسی طرح بے روزگاری نے بھی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔پاکستان کو ایک اور سنگین مسئلہ توانائی کی کمی کا درپیش ہے ۔دعوؤں کے باوجود گذشتہ آٹھ سالوں میں نہ کوئی ڈیم بنا اور نہ دیگر ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ۔ ماہرین اندازہ لگار ہے ہیں کہ 2010ء تک پاکستان کو چھ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ چند روز قبل توانائی کے ایک عالمی ماہر کا ایک مضمون پڑھنے کو ملا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ پاکستان پتھر کے نئے دور (New Stone age) کی طرف جارہا ہے ۔ بجلی کی اس قلت سے نہ صرف لوڈشیڈنگ کے نتیجے میں عوام کا جینا دوبھر ہوگا بلکہ صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا ۔ اسی طرح زراعت کے میدان میں بھی ہمیں شدید مشکلا ت کا سامنا ہے ۔ آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے ، اس رفتار سے ہماری زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔نئی حکومت کو ایک نیا اور سنگین چینلج صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کی احساس محرومی کی صورت میں درپیش ہے ۔ پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو سات نکاتی ایجنڈا دیا تھا ، اس میں صوبائی خودمختاری کا نکتہ بھی شامل تھا لیکن بدقسمتی سے گذشتہ آٹھ سالوں میں صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اس دوران صوبوں اور بالخصوص چھوٹے صوبوں کی محرومیاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے صوبوں سے مزید اختیارات مرکز کو منتقل کئے گئے جبکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں چھوٹی قومیتوں کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ جاگیرداری نظام تو ایک دیرینہ چیلنج ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر آنے والی حکومت کو درپیش ہے یوں نئی آنے والی حکومت کو بھی اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح کرپشن ، بدعنوانی اور بے ایمانی کاکلچر بھی ہماری سوسائٹی کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے ۔ امیر اور غریب کے مابین فاصلہ روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ لسانی بنیادوں پر تقسیم کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر بھی معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے ۔ پاکستانی معاشرے کو انتشار اور افتراق سے نکال کر اتحاد اور مفاہمت کی جانب گامزن کرنے کا چیلنج بھی نئی حکومت کو درپیش ہے ۔ایک اور سنگین چیلنج نئی حکومت کو عالمی سطح پر پاکستان کے خراب امیج کے حوالے سے درپیش ہوگا ۔ عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گردوں کا مسکن سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی سے متفق نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکومت شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مرتکب ہورہی ہے اور اپنے قومی مفادات کو امریکہ کی خاطر قربان کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف مغرب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے نہ صرف پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں بلکہ گذشتہ آٹھ سال میں پاکستان کے اندر فوج کی حکمرانی سے عالمی سطح پر یہ امیج مزید متاثر ہوا ہے اور دولت مشترکہ جیسے اداروں نے پاکستان کی رکنیت معطل کردی ہے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار اور امیج کو بہتر بنانے کا یہ سنگین چیلنج بھی نئی حکومت کو درپیش ہوگا ۔یہ اور اسی طرح کے دیگر کئی سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا آنے والی حکومت کو لیکن افسوس یہ ہے کہ آنے والی حکومت پہلی فرصت میں مذکورہ چیلنجز میں سے کسی ایک چیلنج پر بھی اپنی توجہ مرکوز نہیں کرسکے گی کیونکہ اسے کئی مزید آئینی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ کرچکی ہے اور اب ان کی نئی حکومت کو پہلی فرصت میں ان کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے ۔ اسے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا چیلنج درپیش ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے ایوان صدر سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہے ۔ پرویز مشرف صاحب رضاکارانہ استعفیٰ کی صورت میں نہ صرف اپنی عزت بچاسکتے تھے بلکہ ایک ایسے ماحول کا راستہ ہموار کرسکتے تھے جس میں نئی حکومت ملک کو درپیش مذکورہ چیلنجز کی طرف متوجہ ہوتی لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہیں کررہے ۔ یوں یہ بات یقینی ہے کہ نئی حکومت پاکستان کو درپیش بڑے اور سنگین چیلنجز کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوسکے گی اور یہ بات یقینی ہے کہ حکومت کے ابتدائی کئی ماہ ایوان صدر کے ساتھ آئینی جھگڑوں میں گزریں گے لیکن یہ صرف اس دور کا حادثہ نہیں ۔ آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہماری ماضی کی تمام منتخب اور غیرمنتخب حکومتوں کا بیشتر وقت ان آئینی جھگڑوں میں گزرا ہے ۔ فوجی حکمران قبضہ کرلیتے ہیں تو ان کی ساری توجہ اپنے اقتدار کو قانونی اور آئینی جواز فراہم کرنے پر مرکوز رہتی ہے اور پھر جب منتخب حکومتیں سامنے آتی ہیں تو صدر سے اپنے اختیارات کو واپس لینے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہے ۔عوام کے اصل مسائل یعنی غربت ، بے روزگاری ، جہالت اور بدامنی جیسے مسائل کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں ٹھہرتے ۔ فوجی حکمران آتے ہیں تو پاکستان کو مصر سمجھنے لگتے ہیں اور وہ تمام اختیارات اپنی طرف منتقل کرنے میں مگن رہتے ہیں اور پھر جب سیاستدانوں کی باری آتی ہے تو وہ راتوں رات پاکستان کو برطانیہ بنانے کے متمنی ہوتے ہیں حالانکہ پاکستان نہ مصر ہے اور نہ برطانیہ ۔ پاکستان کے اصل ، حقیقی اور دائمی مسائل کی طرف متوجہ ہونے کے لئے کیا یہ ضروری نہیں کہ فوج اور سیاستدانوں کے مابین اقتدار کی اس لڑائی کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے اور کوئی ایسا فارمولا وضع کرلیا جائے کہ جس کے ذریعے دونوں فریق مطمئن ہوسکیں ۔ اقتدار اور اختیار کی یہ لڑائی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور ہماری حکومتیں پاکستان کے حقیقی اور دائمی مسائل کی طرف متوجہ ہوجائیں
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, March 20, 2008
نئی حکومت کو درپیش چیلنجز
میاں نواز شریف درست فرمارہے ہیں کہ انہیں اقتدار نہیں بلکہ مسائل منتقل ہورہے ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو چیلنجز کا ایک انبار ، آنے والی حکومت کے سامنے پڑا ہے ۔ سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کا ہے ۔ یہ مسئلہ جس قدر سنگین سمجھا جارہا ہے ، اس سے کئی گنا زیادہ سنگین ہے ۔ کہنے کی حد تک تویہ بات آسان ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ بات چیت کیسے اور کن کے مابین ہو؟۔تنازعے کا اہم ترین فریق امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں جبکہ دوسری طرف قیادت القاعدہ کے ہاتھ میں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اور القاعدہ کو مذاکرات کی میز پر کون بٹھائے گا اور پھر جو فیصلہ ہوجائے ، اس پر ان سے عمل درآمد کون کروائے گا؟ ۔ افغانستان کے طالبان ہوں یا پاکستان کے طالبان ، گلبدین حکمت یار ہوں یا پھر باجوڑ کے مولانا فقیر محمد ، ہر ایک کا کہنا یہ ہے کہ جب تک امریکی افغانستان سے نہیں نکل جاتے ، وہ بندوق زمین پر نہیں رکھیں گے ۔دہشت گردی کا مسئلہ بظاہر ہمارا اندرونی مسئلہ ہے لیکن درحقیقت یہ عالمی مسئلہ ہے ، جس کے کئی پہلو ہیں ۔ جو تہہ درتہہ الجھا ہوا ہے اورجس میں خطے کے کئی ممالک کا رول ہے ۔ یہ مسئلہ مذہبی بھی ہے ، اقتصادی بھی ہے ، سماجی بھی ہے اور سیاسی بھی ہے ۔ یوں اس سے نمٹنا اور اس کا حل نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔نئی حکومت کو دوسرا چیلنج مہنگائی کا درپیش ہے ۔ تیل کی قیمتیں پہلے سے آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور مستقبل قریب میں ان میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ سابقہ حکمرانوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خزانہ بھر دیا ہے لیکن معاملہ الٹ ہے ۔ حکومت نے موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں اسٹیٹ بینک سے 126 ارب روپے کے قرضے لئے ہیں ۔ نگران حکومت نے بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گذشتہ چار ماہ میں مزید 233 ارب روپے کے قرضے لئے ۔ مرکز اور صوبوں میں پورے سال کے لئے مختص ترقیاتی فنڈ زمالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں خرچ کی جاچکی ہے یوں ترقیاتی کاموں کے لئے بچ جانے والی رقم نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اسی طرح بے روزگاری نے بھی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔پاکستان کو ایک اور سنگین مسئلہ توانائی کی کمی کا درپیش ہے ۔دعوؤں کے باوجود گذشتہ آٹھ سالوں میں نہ کوئی ڈیم بنا اور نہ دیگر ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ۔ ماہرین اندازہ لگار ہے ہیں کہ 2010ء تک پاکستان کو چھ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ چند روز قبل توانائی کے ایک عالمی ماہر کا ایک مضمون پڑھنے کو ملا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ پاکستان پتھر کے نئے دور (New Stone age) کی طرف جارہا ہے ۔ بجلی کی اس قلت سے نہ صرف لوڈشیڈنگ کے نتیجے میں عوام کا جینا دوبھر ہوگا بلکہ صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا ۔ اسی طرح زراعت کے میدان میں بھی ہمیں شدید مشکلا ت کا سامنا ہے ۔ آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے ، اس رفتار سے ہماری زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔نئی حکومت کو ایک نیا اور سنگین چینلج صوبوں اور چھوٹی قومیتوں کی احساس محرومی کی صورت میں درپیش ہے ۔ پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو سات نکاتی ایجنڈا دیا تھا ، اس میں صوبائی خودمختاری کا نکتہ بھی شامل تھا لیکن بدقسمتی سے گذشتہ آٹھ سالوں میں صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اس دوران صوبوں اور بالخصوص چھوٹے صوبوں کی محرومیاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ بلدیاتی نظام کے ذریعے صوبوں سے مزید اختیارات مرکز کو منتقل کئے گئے جبکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں چھوٹی قومیتوں کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ جاگیرداری نظام تو ایک دیرینہ چیلنج ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر آنے والی حکومت کو درپیش ہے یوں نئی آنے والی حکومت کو بھی اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح کرپشن ، بدعنوانی اور بے ایمانی کاکلچر بھی ہماری سوسائٹی کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے ۔ امیر اور غریب کے مابین فاصلہ روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ لسانی بنیادوں پر تقسیم کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر بھی معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے ۔ پاکستانی معاشرے کو انتشار اور افتراق سے نکال کر اتحاد اور مفاہمت کی جانب گامزن کرنے کا چیلنج بھی نئی حکومت کو درپیش ہے ۔ایک اور سنگین چیلنج نئی حکومت کو عالمی سطح پر پاکستان کے خراب امیج کے حوالے سے درپیش ہوگا ۔ عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گردوں کا مسکن سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی سے متفق نہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حکومت شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مرتکب ہورہی ہے اور اپنے قومی مفادات کو امریکہ کی خاطر قربان کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف مغرب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے نہ صرف پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں بلکہ گذشتہ آٹھ سال میں پاکستان کے اندر فوج کی حکمرانی سے عالمی سطح پر یہ امیج مزید متاثر ہوا ہے اور دولت مشترکہ جیسے اداروں نے پاکستان کی رکنیت معطل کردی ہے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار اور امیج کو بہتر بنانے کا یہ سنگین چیلنج بھی نئی حکومت کو درپیش ہوگا ۔یہ اور اسی طرح کے دیگر کئی سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا آنے والی حکومت کو لیکن افسوس یہ ہے کہ آنے والی حکومت پہلی فرصت میں مذکورہ چیلنجز میں سے کسی ایک چیلنج پر بھی اپنی توجہ مرکوز نہیں کرسکے گی کیونکہ اسے کئی مزید آئینی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ کرچکی ہے اور اب ان کی نئی حکومت کو پہلی فرصت میں ان کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے ۔ اسے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا چیلنج درپیش ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے ایوان صدر سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہے ۔ پرویز مشرف صاحب رضاکارانہ استعفیٰ کی صورت میں نہ صرف اپنی عزت بچاسکتے تھے بلکہ ایک ایسے ماحول کا راستہ ہموار کرسکتے تھے جس میں نئی حکومت ملک کو درپیش مذکورہ چیلنجز کی طرف متوجہ ہوتی لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہیں کررہے ۔ یوں یہ بات یقینی ہے کہ نئی حکومت پاکستان کو درپیش بڑے اور سنگین چیلنجز کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوسکے گی اور یہ بات یقینی ہے کہ حکومت کے ابتدائی کئی ماہ ایوان صدر کے ساتھ آئینی جھگڑوں میں گزریں گے لیکن یہ صرف اس دور کا حادثہ نہیں ۔ آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہماری ماضی کی تمام منتخب اور غیرمنتخب حکومتوں کا بیشتر وقت ان آئینی جھگڑوں میں گزرا ہے ۔ فوجی حکمران قبضہ کرلیتے ہیں تو ان کی ساری توجہ اپنے اقتدار کو قانونی اور آئینی جواز فراہم کرنے پر مرکوز رہتی ہے اور پھر جب منتخب حکومتیں سامنے آتی ہیں تو صدر سے اپنے اختیارات کو واپس لینے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہے ۔عوام کے اصل مسائل یعنی غربت ، بے روزگاری ، جہالت اور بدامنی جیسے مسائل کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں ٹھہرتے ۔ فوجی حکمران آتے ہیں تو پاکستان کو مصر سمجھنے لگتے ہیں اور وہ تمام اختیارات اپنی طرف منتقل کرنے میں مگن رہتے ہیں اور پھر جب سیاستدانوں کی باری آتی ہے تو وہ راتوں رات پاکستان کو برطانیہ بنانے کے متمنی ہوتے ہیں حالانکہ پاکستان نہ مصر ہے اور نہ برطانیہ ۔ پاکستان کے اصل ، حقیقی اور دائمی مسائل کی طرف متوجہ ہونے کے لئے کیا یہ ضروری نہیں کہ فوج اور سیاستدانوں کے مابین اقتدار کی اس لڑائی کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے اور کوئی ایسا فارمولا وضع کرلیا جائے کہ جس کے ذریعے دونوں فریق مطمئن ہوسکیں ۔ اقتدار اور اختیار کی یہ لڑائی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور ہماری حکومتیں پاکستان کے حقیقی اور دائمی مسائل کی طرف متوجہ ہوجائیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment