International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, March 22, 2008

ایم کیو ایم کی وزیر اعظم کے لئے غیر مشروط حمایت تحریر چودھری احسن پریمی




مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی دستبرداری کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور متحدہ قومی موومنٹ اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی، اس حوالے سے مشاورت کی جائے کی۔ فاروق ستار صرف ایم کیو ایم کے نہیں بلکہ مشترکہ طور پر اپوزیشن کے وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں نے اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا تھا اور بتایا کہ ا ن کا اجلاس جاری ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ ہفتہ کو ہم سے مل کر مشاورت کرینگے۔ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ نے آصف زرداری کو وزارت عظمیٰ کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے فون پر رابطہ کیا، جس کے دوران ان سے حکومت سازی میں تعاون پر بات چیت کی گئی۔ اس بات چیت کے دوران ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حمایت کا غیر مشروط اعلان کیا ہے۔ الطاف حسین نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار اور ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کو دستبردار کروانے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم کیلئے ایم کیو ایم کے امیدوار ڈاکٹر فاروق ستار دستبردار ہوجائیں گے۔ ایم کیو ایم غیر مشروط طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کو ووٹ دے گی، جس کے بعد مرکز اور صوبہ سندھ میں بننے والی حکومتوں میں انہیں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے پر پیپلز پارٹی کی ایک بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے تحفظات کا اظہار کیا تھھا۔ ادھر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس جاری تھا، جس میں آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کی روشنی میں مشاورت کا عمل جاری تھا۔ باور رہے کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے ممکنہ حکمران اتحاد کیلئے میداد خالی کھلا نہ چھوڑنے کا اعلان کرنے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو اپوزیشن کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار مقرر کیا تھا۔ قومی اسمبلی میں سابقہ حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی شیرپاو¿ اور مسلم لیگ (ف) تاحال نومنتخب قومی اسمبلی میں بننے والے حکومتی اتحاد میں شامل نہیں تھے اور حزب مخالف کی نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر وزیراعظم اتفاق رائے سے منتخب ہو تو یہ بہت ہی اچھا ہوگا۔متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی درخواست پر ملک کے استحکام، جمہوریت کے فروغ، سندھ میں دیہی اورشہری آبادی کو قریب لانے اور ملک اور سندھ کے وسیع تر مفادمیں وزارت عظمیٰ کیلئے خیر سگالی کے جذبے کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کو غیرمشروط طور پر پیپلز پارٹی کے امیدوارکے حق میں دستبردارکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے درمیان گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بات چیت کے دو دورہوئے۔ بات چیت کا پہلا دورجمعرات کی شام ہوا، جس میں آصف علی زرداری نے الطاف حسین سے درخواست کی کہ وہ جمہوریت کے استحکام اورملک کے مفاد میں وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں اپنے امیدوار کو پیپلزپارٹی کے امیدوار کے حق میں دستبردار کرلیں تاکہ جمہوریت مستحکم ہو اور مفاہمت کی فضائ مزید پروان چڑھ سکے۔ الطاف حسین نے آصف زرداری سے کہا کہ وہ اس معاملے کو رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے، جو اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔ اسکے بعد ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی نے اپنا طویل اجلاس کر کے اس پرصلاح مشورہ کیا اور ملک اور سندھ کے وسیع تر مفاد میں پیپلز پارٹی کے امیدوارکے حق میں ایم کیو ایم کے امیدوارکو غیر مشروط طور پر دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم چونکہ ڈاکٹر فاروق ستار مشترکہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار ہیں، جن میں مسلم لیگ ق اور دیگرجماعتیں شامل ہیں، لہٰذا انہیں دستبردار کرانے کا اعلان مسلم لیگ ق اور ا س کی اتحادی جماعتوں سے صلاح مشورے کے بعدکیاجائے گا۔ اس سلسلے میں ہفتے کو اسلام آبادمیں اپوزیشن جماعتوں کی ہنگامی میٹنگ ہوگی۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے جمعہ کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے گفتگوکرتے ہوئے انہیں رابطہ کمیٹی کے اس فیصلہ سے آگاہ کیا۔ الطاف حسین نے آصف علی زرداری سے کہا کہ ہم نے انتخابات کے بعد ملک اور سندھ کے وسیع تر مفاد میں خیرسگالی کا بار بار مظاہرہ کیا ہے اور اب بھی ہم نے خیرسگالی کے جذبے کے تحت ہی اپنے امیدوارکو دستبردارکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کے وسیع تر مفادمیں خیرسگالی کے جس جذبہ کا اظہارکیا ہے اسکے جواب میں ہمیں امید ہے کہ آپ بھی ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔ آصف زرداری نے اس فیصلہ پر الطاف حسین کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا وعدہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو مایوس نہیں کریں گے اور مل کرچلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے اس فیصلے سے جمہوریت مضبوط ہوگی، ملک میں استحکام آئے گا اور مفاہمت کی فضائپروان چڑھے گی۔آصف زرداری نے کہا کہ اب ہمیں ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں اوراپنے عمل سے عوام کے دل جیتنا چاہئیں۔ الطاف حسین نے آصف زرداری سے کہا کہ ہم خلوص دل، نیک نیتی اور ایمانداری سے مضبوط اور دیرپا تعلقات چاہتے ہیں اورہم نے آج جو شروعات کی ہیں، انشائ اللہ اسے مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔ دونوں رہنماو?ں نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پربھی اتفاق کیا۔ ایم کیو ایم سے رابطہ شہید چیئرپرسن کی اس مفاہمانہ پالیسی کی روشنی میں کیا گیا ہے، جس کے مطابق سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگرچہ پی پی پی والے اس وقت کسی سے تصادم نہیں چاہتے، نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا، تاہم کاغذی اقدامات نہیں ہونے چاہیے اعلان مری میں جو بھی وعدے کئے گئے، وہ اس کی روح کے مطابق پورے کئے جائیں نگراں حکومت نے جو بھی غیر قانونی تقرریاں کی ہیں، اس کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ عدلیہ بحال ہونے کے بعد وہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے خاتمے کے لیے عدالت جائیں گے اور یہ کیس معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لیے بحالی کے بعد کڑا امتحان ثابت ہوگا۔ پارلیمنٹ ساتھ دے یا نہ دے عدلیہ بحال ہوکر رہے گی اور پرویز مشرف کو جانا ہی ہوگا کیونکہ وہ غیرآئینی صدر ہیں۔ امیرجماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ حکومت امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کی پالیسی تبدیل کرے اور گر ایسا نہ کیا گیا تو اسے عوام کی نفرت کا سامنا کرے گا، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی آج بھی اس بات پر قائم ہے کہ جب تک آئین اور عدلیہ بحال کرکے آزادانہ الیکشن کمیشن قائم نہیں کیا جاتا اور دوبارہ الیکشن نہیں کرائے جاتے یہ سسٹم نہیں چلے گا، قاضی حسین کا کہنا تھا کہ افغاستان اورقبائلی علاقوں میں جنگ ختم کی جائے۔ جبکہ وکلاءنے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ نئی حکومت کو مہنگائی، بجلی ، گیس ، بے روزگاری اور دہشت گردی سمیت بے شمار چیلنجز درپیش ہیں اور وکلاءبرادری ان مسائل سے نمٹنے کیلئے حکومت سے مکمل تعاون کیلئے تیار ہے لیکن شرط یہ ہو کہ حکومت پہلی ترجیح کے طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرے۔ جس روز وزیراعظم حلف اٹھائے ایوان صدر خالی ہوجائے مشرف کو فرار نہ ہونے د یا جائے کیونکہ ان کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔مشرف کا انجام اب بہت قریب آچکا ہے جس کے بعد ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔ جہاں آئین ، عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ کو بالادستی اور آزادی حاصل ہوگی۔ لیکن عوامی حلقوں میں یہ بھی تاثر ہے کہ ایک جرنیل کے تسلط سے آزاد ہوئے اور جاگیر داروں کے نر غے میں آگئے کیونکہ ان کے خیال میں جاگیردار بھی زہنی طور پر آمر ہوتا ہے جو انسانی ترقی کی راہ میں بہت بڑا راستے کا پتھر سمجھا جاتا ہے اس صورتحال میں خود مختار اور دیانتدار عدلیہ کا قیام نہت ضروری ہے دیانتداری کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ ماضی میں عدلیہ کا کوئی ایسا کردار نہیں رہا جس پر عوام فخر کر سکیں کیونکہ آئین توڑنے والے سابقہ فوجی حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی عدلیہ کا اہم کردار رہا ہے۔ ایوب خان نے مارشل لاءلگایا© اس کی وجہ سے ان کو پھانسی کی سزا ممکن تھی لہذا انہوں نے دستور بنایا اور 1962میں اپنی مرضی کی پارلیمنٹ بنائی اور اس سے اپنے اقدامات کی توثیق کرائی انہیں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت مل گئی ورنہ فیلڈ مارشل کو آئیں توڑنے پر پھانسی کی سزا ہوتی ایوب خان کے اقدامات کو بھی سپریم کورٹ نے تحفظ دیا تھا اس کے باوجود پارلیمنٹ سے توثیق کرانا پڑی اور یہی سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے افتخار چودھری اس لئے منفرد ہیں کہ وہ روا یت شکن نکلے حکومت کسی کی بھی آئے فوجی آمر ہو یا جمہوریت کا لبادہ پہنے کو ئی جاگیردار۔ پاکستان کے عوام کی حالت جوں کی توں رہے گی اس ضمن میں نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے اور یہ تب ممکن ہے جب دیانت دار لیڈر شپ معرض وجود میں نہیں آ جاتی اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت کو متعارف کرا نا ہوگا اور ملکی ترقی و استحکام اور خوشحالی کا جذبہ رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو بھی وہ مقام دینا ہوگا جس کے وہ اہل ہوں گے جاوید ہاشمی اور اعتزاز احسن کی مثال سب کے سامنے ہے دونوں ہر دلعزیز رہنماوئں کا تبدیلی کے عمل میں بھت اہم کردار ہے لیکن دونوں کی پارٹی کے اندرقربانی کے بکروں سے زیادہ حثیت نہیں۔




No comments: