پچھلے دنوں جنرل (ر) جمشےد گلزار کےانی کے انٹروےو کا بڑا چرچا رہا اگرچہ انہوں نے اور بھی بہت سی باتےں کےں مگر مےرا موضوع ٹرپل ون برےگےڈ ہے جس کے متعلق انہوں نے بتاےا کہ اسلام Èباد کے تمام حساس مقامات کی حفاظت پر اسی برےگےڈ کے فوجی تعےنات ہوتے ہےں اور جب حکومت کا تختہ الٹنا ہو تو اس مےں کوئی دےر نہےں لگتی۔ بس ان فوجےوں کو اپنی بندوقوں کا رخ تبدےل کرنا ہوتا ہے۔ Èپ تصور کر لےں کہ اس مےں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ کےانی صاحب کی اس بات نے ہمےں چونکا کر رکھ دیا کےونکہ Èج تک ہم ےہی سمجھتے رہے تھے کہ پاکستان مےں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کم از کم 20منٹ تو لگتے ہوں گے ہمارے خیال مےں ٹرپل ون برےگےڈ کے فوجیوں کو راولپنڈی سے چل کر اسلام Èباد کے وزےراعظم سےکرٹرےٹ، وزےراعظم ہائوس، پی ٹی وی، رےڈےو پاکستان وغےرہ تک پہنچنے اور ان پر قبضہ کرنے مےں اتنا وقت تو لگ جاتا ہو گا کےونکہ ہم بھی جب راولپنڈی سے اسلام Èباد Èتے ہےں تو 20منٹ لگ ہی جاتے ہےں۔ اس لئے ہمارا Èئےڈےا ےہی تھا کہ پاکستان مےں فوج کو Èنے مےں اتنا وقت تو ضرور لگتا ہو گا۔ وےسے تو ےہ وقت بھی کوئی وقت نہےں اےک مکمل نظام کی بساط لپےٹ دےنے کےلئے مگر پھر بھی اےک خوش فہمی تھی کہ چلو کچھ تو وقت لگتا ہے ےہاں حکومتوں کو برطرف کرنے مےں۔ ےہی غنےمت ہے مگر جنرل کےانی کے بقول تو ےہ کام چند سےکنڈ مےں ہو جاتا ہے۔ کےانی صاحب اس برےگےڈ کی کمان بھی کر چکے ہےں اور اس برےگےڈ کی کور کے بھی کمانڈر رہ چکے ہےں۔ لہٰذا اس مسئلے پر ان سے زےادہ کون درست بات کر سکتا ہے۔ جنرل صاحب نے بات بے شک سچ کی ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارا 20منٹ کا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ ےہ جو وزےراعظم بنے پھرتے ہےں، ےہ جو وزارتوں پر اتراتے پھرتے ہےں، ےہ جو گاڑےوں پر جھنڈے لہراتے پھرتے ہےں، ےہ جو کابےنہ والے بڑے بڑے فےصلے کرتے پھرتے ہےں، ےہ جو اسٹےبلشمنٹ کے کمانڈر بنے پھرتے ہےں، ےہ جو اےم اےن اے حضرات اسمبلی مےں عوام کے نمائندے بنے بےٹھے ہےں، ےہ سب چند سےکنڈ کی مار ہےں۔ بندوق کا رخ ادھر سے اُدھر ہوا اور سب ختم۔ پھر 10سال کےلئے کوئی اندر کوئی باہر۔ کتنا Èسان ہے ےہاں اس حکومت کو برطرف کرنا جو منتخب ہو کر Èتی ہے۔ انتخابات ہوتے ہےں، ڈےوٹےاں لگتی ہےں، بےلٹ بکس اور بےلٹ پےپر تےار ہوتے ہےں، امےدوار کھڑے ہوتے ہےں، دو دو ماہ انتخابی مہمےں چلتی ہےں، پوسٹر بےنر تےار کئے جاتے ہےں۔ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہو جاتے ہےں، سےاسی جماعتےں مےدان مےں Èتی ہےں، جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے ہےں۔ وعدے ہوتے ہےں، کوئی انصاف دےنے کا وعدہ کرتا ہے تو کوئی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتا ہے۔ عوام اےک امےد کےساتھ گھروں سے نکلتے ہےں کہ ان کا امےدوار منتخب ہو کر ان کے مسائل حل کرے گا، فلاں پارٹی کو ووٹ دےں گے تو وہ اقتدار مےں Èکر جان ، مال ، عزت کی حفاظت کرے گی۔ اس امےد کے ساتھ وہ گھروں سے نکلتے ہےں۔ گھنٹوں لائنوں مےں لگ کر ووٹ ڈالتے ہےں۔ اس طرح پورا ملک اور پوری قوم اےک لحاظ سے ” پاگل “ ہوئی ہوتی ہے اور مہےنوں کی دوڑ بھاگ اربوں کی لاگت کے بعد جو نظام سامنے لاتی ہے جن لوگوں کو مےنڈےٹ دےتی ہے وہ نظام اپنی بقاءکےلئے چند منٹ بھی مزاحمت کرنے کی پوزےشن مےں نہےں ہوتا۔ وہ منتخب لوگ اتنے بے حےثےت ہوتے ہےں کہ چند منٹ بھی نہےں لگتے ان کو گھر بھےجنے مےں، چند سےکنڈ کے اندر پوری جمہوری بساط لپےٹ دی جاتی ہے۔بورےا بستر گول کر دیا جاتا ہے صرف چند سےکنڈ۔ اےک، دو، تےن گننے کی نوبت بھی نہےں Èتی، کتنا ناپائےدار ہے ےہ سب۔ کتنا ناقابل اعتبار، کتنا کمزور۔ اور ستم ظرےفی ملاحظہ کےجئے ےہاں ہر چےز کی گارنٹی ہے مگر حکومت کی کوئی گارنٹی نہےں۔ جمہور کی کوئی ضمانت نہےں۔ اس ملک کے عوام کا مےنڈےٹ چند سےکنڈ کی مار ہے۔مغربی ممالک کی نیوز اےجنسےاں اور صحافی اکثر 12اکتوبر 99ءکے فوجی اقدام کو (Blood less coup)خون بہے بغےر Èنےوالا فوجی انقلاب لکھتے ہےں۔ ان کے نزدےک واقعی ےہ اہم بات ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور اس مےں کسی کا خون ہی نہ بہے۔ کم از کم ان کے ہاں تو اتنی Èسانی سے اور اتنی جلدی حکومت کو ہٹانا ممکن نہےں۔ اس لئے وہ اپنی جگہ ٹھےک سوچتے ہےں۔ مزےد ےہ کہ ان کے ہاں فوجی مداخلت کا تو سوال ہی پےدا نہےں ہوتا۔ لہٰذا وہ ےہ سمجھنے مےں حق بجانب ہےں کہ خون بہے بغےر اےک منتخب حکومت کے سربراہ کو حراست مےں لے لےنا اور حکومت پر قبضہ کرلےنا بہت خاص بات ہے۔ اب انہےں بھی تھوڑا بہت احساس ہو گیا ہو گا کہ پاکستان مےں ےہ کوئی بڑی بات نہےں کےونکہ اس مےں کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور صف بندی کی ضرورت پےش نہےں Èتی، بندوقوں کا رخ ذرا سا تبدےل کرنا ہوتا ہے اور بس۔پچھلے دنوں ٹرپل ون برےگےڈ کے کمانڈر کی تبدےلی کا بھی بڑا غلغلہ رہا کہ پروےز مشرف کے بندے کو ہٹا کر دوسرے بندے کو لگا دیا گیا ہے۔ اےوان صدر اور Èئی اےس پی Èر دونوں کے ترجمان باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ ےہ کوئی غےر معمولی تبدےلی نہےں مگر مےڈےا کا اےک حصہ اس کو ےوں پےش کرتا رہا کہ جےسے بہت بڑی بات ہو گئی ہے۔ ہماری نظر مےں دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھےک تھے۔ مےڈےا اس لئے درست تھا کہ حکومتوں کے تختے الٹنے والے برےگےڈ کی کمان سے صدر کے Èدمی کا ہٹنا نوخیز جمہوری حکومت کےلئے اچھا شگون تھا کےونکہ اس کی بقاءکو لاحق خطرات مےں کچھ تو کمی ہوئی اور دونوں ترجمان اس لئے ٹھےک تھے کہ اس تبدےلی سے واقعی کوئی فرق نہےں پڑتا۔ اےک برےگےڈئےر کی کےا مجال کہ چےف کے حکم کے بغےر اس طرح کی حرکت کا سوچ بھی سکے چاہے اس کو صدر ہی نے اپنے دور مےں کےوں نہ تعےنات کےا ہو۔ البتہ اس تبدےلی کو لوئر رےنکس کی طرف سے سےنئرز اور حکومت وقت کےخلاف سازش کے تناظر مےں دےکھا جا سکتا ہے مگر ےہ بھی اےک حقےقت ہے کہ اےسی سازشوں کے مقدر مےں تارےخ نے ہمےشہ ناکامی لکھی ہے۔ہمارے ہاں رواےت ہے کہ ہم اصل اےشو کی طرف نہےں جاتے اور ادھر ادھر کی باتوں مےں لگے رہتے ہےں ےا ہمےں قصداً لگا دیا جاتا ہے۔ عام زبان مےں ” پڑھنے ڈال دیا جاتا ہے“ زےر نظر معاملے مےں بھی دےکھنے کی بات ےہ ہے کہ ہماری منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کون استعمال ہوتا ہے؟ ہم ےہ بات سٹرٹےجک اور لاجسٹک نقطہ نظر سے کر رہے ہےں۔ جےسے ملک مےں امن و امان کےلئے حکومتےں ناجائز اسلحہ پکڑتی ہےں۔ اس پر روک لگائی جاتی ہے۔ ےہ اسلحہ جتنا کم ہو گا قتل و غارت کی وارداتےں اتنی کم ہوں گی۔ Èلہ قتل نہ ہو تو قتل کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہےں۔ اسی طرح ٹرپل ون برےگےڈ کا بھی اب تک جو کردار رہا ہے وہ Èلہ قتل جےسا رہا ہے جس سے عوامی حکومتوں کو قتل کےا گےا۔ جمہورےت کا گلا گھونٹا گیا۔ اگر اس ملک کی سےاسی جماعتےں عوامی مےنڈےٹ کے ساتھ اتنی ہی مخلص ہےں جےسا کہ ظاہر کر رہی ہےں۔ اگر اس ملک کا صدر جمہورےت کا اتنا ہی حامی ہے جےسا کہ باور کراتا ہے اور اگر ملک کی فوجی قیادت نے واقعی ٹھان لی ہے کہ اب سےاست مےں ملوث نہےں ہونا عوام کے مےنڈےٹ کا احترام کرنا ہے اور جمہورےت پر شب خون نہےں مارنا تو سب مل کر اےک فےصلہ کر لےں۔ جمہور کی لاش گرانے کےلئے استعمال ہونےوالے Èلہ قتل کو دفن کر دےں۔ جمہورےت پر شب خون مارنے والے جرنےلوں کو قبروں سے نکال کر نشان عبرت بے شک نہ بنائےں، گڑھے مردے بے شک نہ اکھاڑےں، وہ Èلہ ہی دفن کر دےں جس کی مدد سے ےہ کام ہوتا ہے۔ ٹرپل ون برےگےڈ کو ختم کر دےں، باقی دارالحکومت کا اللہ مالک ہے۔ کچھ نہےں ہوتا اسے۔ اب تک نہےں ہوا تو Èگے بھی اللہ کرم کرے گا۔ اس کی حساس تنصےبات کی حفاظت نےشنل گارڈز کے سپرد کر دی جائے ےا بے شک الگ فورس بنائی جائے مگر ٹرپل ون برےگےڈ کا وجود ختم کر دیا جائے۔ ےہ تو خیر پھر بھی وثوق سے نہےں کہا جا سکتا کہ Èئندہ فوج نہےں Èئے گی کےا پتہ جنرل کےانی کے بعد کون اور کس سوچ کا جرنےل Èتا ہے۔ ملک دو ٹکڑے ہونے سے بڑا المےہ تو کوئی نہےں ہو سکتا ۔ اس المےے کے بعد بھی سول حکومت کو صرف 5سال ملے تھے اور پھر فوج Èگئی تھی۔ لہٰذا موجودہ صورتحال کے بعد بھی کوئی ضمانت نہےں کہ فوج نہےں Èئے گی تاہم اتنا تو ضرور ہو گا کہ عوامی حکومت چند سےکنڈ کی مار نہےں ہو گی۔ کچھ تو وقت لگے گا اور دنےا مےں ہمارا بھی کچھ بھرم رہ جائے گا کہ ےہاں جمہورےت کا خون اتنا Èسان نہےں۔٭٭٭
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, June 14, 2008
ٹرپل ون بریگیڈ یا جمہوریت؟
پچھلے دنوں جنرل (ر) جمشےد گلزار کےانی کے انٹروےو کا بڑا چرچا رہا اگرچہ انہوں نے اور بھی بہت سی باتےں کےں مگر مےرا موضوع ٹرپل ون برےگےڈ ہے جس کے متعلق انہوں نے بتاےا کہ اسلام Èباد کے تمام حساس مقامات کی حفاظت پر اسی برےگےڈ کے فوجی تعےنات ہوتے ہےں اور جب حکومت کا تختہ الٹنا ہو تو اس مےں کوئی دےر نہےں لگتی۔ بس ان فوجےوں کو اپنی بندوقوں کا رخ تبدےل کرنا ہوتا ہے۔ Èپ تصور کر لےں کہ اس مےں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ کےانی صاحب کی اس بات نے ہمےں چونکا کر رکھ دیا کےونکہ Èج تک ہم ےہی سمجھتے رہے تھے کہ پاکستان مےں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کم از کم 20منٹ تو لگتے ہوں گے ہمارے خیال مےں ٹرپل ون برےگےڈ کے فوجیوں کو راولپنڈی سے چل کر اسلام Èباد کے وزےراعظم سےکرٹرےٹ، وزےراعظم ہائوس، پی ٹی وی، رےڈےو پاکستان وغےرہ تک پہنچنے اور ان پر قبضہ کرنے مےں اتنا وقت تو لگ جاتا ہو گا کےونکہ ہم بھی جب راولپنڈی سے اسلام Èباد Èتے ہےں تو 20منٹ لگ ہی جاتے ہےں۔ اس لئے ہمارا Èئےڈےا ےہی تھا کہ پاکستان مےں فوج کو Èنے مےں اتنا وقت تو ضرور لگتا ہو گا۔ وےسے تو ےہ وقت بھی کوئی وقت نہےں اےک مکمل نظام کی بساط لپےٹ دےنے کےلئے مگر پھر بھی اےک خوش فہمی تھی کہ چلو کچھ تو وقت لگتا ہے ےہاں حکومتوں کو برطرف کرنے مےں۔ ےہی غنےمت ہے مگر جنرل کےانی کے بقول تو ےہ کام چند سےکنڈ مےں ہو جاتا ہے۔ کےانی صاحب اس برےگےڈ کی کمان بھی کر چکے ہےں اور اس برےگےڈ کی کور کے بھی کمانڈر رہ چکے ہےں۔ لہٰذا اس مسئلے پر ان سے زےادہ کون درست بات کر سکتا ہے۔ جنرل صاحب نے بات بے شک سچ کی ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارا 20منٹ کا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ ےہ جو وزےراعظم بنے پھرتے ہےں، ےہ جو وزارتوں پر اتراتے پھرتے ہےں، ےہ جو گاڑےوں پر جھنڈے لہراتے پھرتے ہےں، ےہ جو کابےنہ والے بڑے بڑے فےصلے کرتے پھرتے ہےں، ےہ جو اسٹےبلشمنٹ کے کمانڈر بنے پھرتے ہےں، ےہ جو اےم اےن اے حضرات اسمبلی مےں عوام کے نمائندے بنے بےٹھے ہےں، ےہ سب چند سےکنڈ کی مار ہےں۔ بندوق کا رخ ادھر سے اُدھر ہوا اور سب ختم۔ پھر 10سال کےلئے کوئی اندر کوئی باہر۔ کتنا Èسان ہے ےہاں اس حکومت کو برطرف کرنا جو منتخب ہو کر Èتی ہے۔ انتخابات ہوتے ہےں، ڈےوٹےاں لگتی ہےں، بےلٹ بکس اور بےلٹ پےپر تےار ہوتے ہےں، امےدوار کھڑے ہوتے ہےں، دو دو ماہ انتخابی مہمےں چلتی ہےں، پوسٹر بےنر تےار کئے جاتے ہےں۔ اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہو جاتے ہےں، سےاسی جماعتےں مےدان مےں Èتی ہےں، جلسے ہوتے اور جلوس نکلتے ہےں۔ وعدے ہوتے ہےں، کوئی انصاف دےنے کا وعدہ کرتا ہے تو کوئی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتا ہے۔ عوام اےک امےد کےساتھ گھروں سے نکلتے ہےں کہ ان کا امےدوار منتخب ہو کر ان کے مسائل حل کرے گا، فلاں پارٹی کو ووٹ دےں گے تو وہ اقتدار مےں Èکر جان ، مال ، عزت کی حفاظت کرے گی۔ اس امےد کے ساتھ وہ گھروں سے نکلتے ہےں۔ گھنٹوں لائنوں مےں لگ کر ووٹ ڈالتے ہےں۔ اس طرح پورا ملک اور پوری قوم اےک لحاظ سے ” پاگل “ ہوئی ہوتی ہے اور مہےنوں کی دوڑ بھاگ اربوں کی لاگت کے بعد جو نظام سامنے لاتی ہے جن لوگوں کو مےنڈےٹ دےتی ہے وہ نظام اپنی بقاءکےلئے چند منٹ بھی مزاحمت کرنے کی پوزےشن مےں نہےں ہوتا۔ وہ منتخب لوگ اتنے بے حےثےت ہوتے ہےں کہ چند منٹ بھی نہےں لگتے ان کو گھر بھےجنے مےں، چند سےکنڈ کے اندر پوری جمہوری بساط لپےٹ دی جاتی ہے۔بورےا بستر گول کر دیا جاتا ہے صرف چند سےکنڈ۔ اےک، دو، تےن گننے کی نوبت بھی نہےں Èتی، کتنا ناپائےدار ہے ےہ سب۔ کتنا ناقابل اعتبار، کتنا کمزور۔ اور ستم ظرےفی ملاحظہ کےجئے ےہاں ہر چےز کی گارنٹی ہے مگر حکومت کی کوئی گارنٹی نہےں۔ جمہور کی کوئی ضمانت نہےں۔ اس ملک کے عوام کا مےنڈےٹ چند سےکنڈ کی مار ہے۔مغربی ممالک کی نیوز اےجنسےاں اور صحافی اکثر 12اکتوبر 99ءکے فوجی اقدام کو (Blood less coup)خون بہے بغےر Èنےوالا فوجی انقلاب لکھتے ہےں۔ ان کے نزدےک واقعی ےہ اہم بات ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور اس مےں کسی کا خون ہی نہ بہے۔ کم از کم ان کے ہاں تو اتنی Èسانی سے اور اتنی جلدی حکومت کو ہٹانا ممکن نہےں۔ اس لئے وہ اپنی جگہ ٹھےک سوچتے ہےں۔ مزےد ےہ کہ ان کے ہاں فوجی مداخلت کا تو سوال ہی پےدا نہےں ہوتا۔ لہٰذا وہ ےہ سمجھنے مےں حق بجانب ہےں کہ خون بہے بغےر اےک منتخب حکومت کے سربراہ کو حراست مےں لے لےنا اور حکومت پر قبضہ کرلےنا بہت خاص بات ہے۔ اب انہےں بھی تھوڑا بہت احساس ہو گیا ہو گا کہ پاکستان مےں ےہ کوئی بڑی بات نہےں کےونکہ اس مےں کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی اور صف بندی کی ضرورت پےش نہےں Èتی، بندوقوں کا رخ ذرا سا تبدےل کرنا ہوتا ہے اور بس۔پچھلے دنوں ٹرپل ون برےگےڈ کے کمانڈر کی تبدےلی کا بھی بڑا غلغلہ رہا کہ پروےز مشرف کے بندے کو ہٹا کر دوسرے بندے کو لگا دیا گیا ہے۔ اےوان صدر اور Èئی اےس پی Èر دونوں کے ترجمان باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ ےہ کوئی غےر معمولی تبدےلی نہےں مگر مےڈےا کا اےک حصہ اس کو ےوں پےش کرتا رہا کہ جےسے بہت بڑی بات ہو گئی ہے۔ ہماری نظر مےں دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھےک تھے۔ مےڈےا اس لئے درست تھا کہ حکومتوں کے تختے الٹنے والے برےگےڈ کی کمان سے صدر کے Èدمی کا ہٹنا نوخیز جمہوری حکومت کےلئے اچھا شگون تھا کےونکہ اس کی بقاءکو لاحق خطرات مےں کچھ تو کمی ہوئی اور دونوں ترجمان اس لئے ٹھےک تھے کہ اس تبدےلی سے واقعی کوئی فرق نہےں پڑتا۔ اےک برےگےڈئےر کی کےا مجال کہ چےف کے حکم کے بغےر اس طرح کی حرکت کا سوچ بھی سکے چاہے اس کو صدر ہی نے اپنے دور مےں کےوں نہ تعےنات کےا ہو۔ البتہ اس تبدےلی کو لوئر رےنکس کی طرف سے سےنئرز اور حکومت وقت کےخلاف سازش کے تناظر مےں دےکھا جا سکتا ہے مگر ےہ بھی اےک حقےقت ہے کہ اےسی سازشوں کے مقدر مےں تارےخ نے ہمےشہ ناکامی لکھی ہے۔ہمارے ہاں رواےت ہے کہ ہم اصل اےشو کی طرف نہےں جاتے اور ادھر ادھر کی باتوں مےں لگے رہتے ہےں ےا ہمےں قصداً لگا دیا جاتا ہے۔ عام زبان مےں ” پڑھنے ڈال دیا جاتا ہے“ زےر نظر معاملے مےں بھی دےکھنے کی بات ےہ ہے کہ ہماری منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کےلئے کون استعمال ہوتا ہے؟ ہم ےہ بات سٹرٹےجک اور لاجسٹک نقطہ نظر سے کر رہے ہےں۔ جےسے ملک مےں امن و امان کےلئے حکومتےں ناجائز اسلحہ پکڑتی ہےں۔ اس پر روک لگائی جاتی ہے۔ ےہ اسلحہ جتنا کم ہو گا قتل و غارت کی وارداتےں اتنی کم ہوں گی۔ Èلہ قتل نہ ہو تو قتل کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہےں۔ اسی طرح ٹرپل ون برےگےڈ کا بھی اب تک جو کردار رہا ہے وہ Èلہ قتل جےسا رہا ہے جس سے عوامی حکومتوں کو قتل کےا گےا۔ جمہورےت کا گلا گھونٹا گیا۔ اگر اس ملک کی سےاسی جماعتےں عوامی مےنڈےٹ کے ساتھ اتنی ہی مخلص ہےں جےسا کہ ظاہر کر رہی ہےں۔ اگر اس ملک کا صدر جمہورےت کا اتنا ہی حامی ہے جےسا کہ باور کراتا ہے اور اگر ملک کی فوجی قیادت نے واقعی ٹھان لی ہے کہ اب سےاست مےں ملوث نہےں ہونا عوام کے مےنڈےٹ کا احترام کرنا ہے اور جمہورےت پر شب خون نہےں مارنا تو سب مل کر اےک فےصلہ کر لےں۔ جمہور کی لاش گرانے کےلئے استعمال ہونےوالے Èلہ قتل کو دفن کر دےں۔ جمہورےت پر شب خون مارنے والے جرنےلوں کو قبروں سے نکال کر نشان عبرت بے شک نہ بنائےں، گڑھے مردے بے شک نہ اکھاڑےں، وہ Èلہ ہی دفن کر دےں جس کی مدد سے ےہ کام ہوتا ہے۔ ٹرپل ون برےگےڈ کو ختم کر دےں، باقی دارالحکومت کا اللہ مالک ہے۔ کچھ نہےں ہوتا اسے۔ اب تک نہےں ہوا تو Èگے بھی اللہ کرم کرے گا۔ اس کی حساس تنصےبات کی حفاظت نےشنل گارڈز کے سپرد کر دی جائے ےا بے شک الگ فورس بنائی جائے مگر ٹرپل ون برےگےڈ کا وجود ختم کر دیا جائے۔ ےہ تو خیر پھر بھی وثوق سے نہےں کہا جا سکتا کہ Èئندہ فوج نہےں Èئے گی کےا پتہ جنرل کےانی کے بعد کون اور کس سوچ کا جرنےل Èتا ہے۔ ملک دو ٹکڑے ہونے سے بڑا المےہ تو کوئی نہےں ہو سکتا ۔ اس المےے کے بعد بھی سول حکومت کو صرف 5سال ملے تھے اور پھر فوج Èگئی تھی۔ لہٰذا موجودہ صورتحال کے بعد بھی کوئی ضمانت نہےں کہ فوج نہےں Èئے گی تاہم اتنا تو ضرور ہو گا کہ عوامی حکومت چند سےکنڈ کی مار نہےں ہو گی۔ کچھ تو وقت لگے گا اور دنےا مےں ہمارا بھی کچھ بھرم رہ جائے گا کہ ےہاں جمہورےت کا خون اتنا Èسان نہےں۔٭٭٭
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment