پاکستان مسلم لیگ (ن ) نے صدر پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک کے لئے 10نکات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کردی ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ن ) نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو استعفے کے لئے دس جون کا الٹی میٹم دیا ہے ۔توقع ہے کہ 10جون کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی تحریک مواخذہ کے لئے قومی اسمبلی میں ہمارا ساتھ دے گی چارج شیٹ کے حوالے سے ان پاس مکمل شواہد اور ثبوت موجود ہیں ۔ قومی اسمبلی میں پرویز مشرف کے حوالے سے ایسے حقائق پیش کیے جائیں گے کہ قوم دھنگ رہ جائے گی ۔ ایسے حقائق ملے ہیں پرویز مشرف کا مواخذہ لازم ہو گیا ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی جانب سے جاری چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے دو بار ملک پر ما رشل لاء مسلط کیا آئین کو پامال کیا ، حلف توڑا ، منتخب وزیر اعظم کو ہتھکڑی لگائی ۔ اور بندوق کے زور پر اپنی آمریت قائم کی ۔ دوسرے نکات میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 1999ء میں منتخب حکومت سے پوشیدہ رکھ کر معرکہ کارگل کے حوالے سے مہم جوئی کی جس میں بڑی تعداد میں بے گناہ اور معصوم لوگ جاں بحق ہوئے ۔ فوج کے آٹھ سے زائد جوان اور آفسروں کی قربانیاں دی گئیں ۔ یہ خون پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے ہاتھوں پر ہے ۔ فضائیہ اور بحریہ کے سابق سربراہوں کا بیان آچکا ہے کہ انہیں کارگل آپریشن سے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ۔ 10فیصد کور کمانڈر بھی کارگل آپریشن سے لا علم تھے ۔ بجٹ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کارگل آپریشن کے بارے میں کمیشن بنایا جائے یہ قومی راز نہیں ہیں بلکہ قومی سانحہ ہے اور تحقیقاتی کمیشن قوم کو حقائق سے آگاہ کرنے کا منصوبہ ہو گا اور ذمہ داران انصاف کے کٹہرے میں آسکے گیں۔ چارج شیٹ کے تیسرے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے پاکستانی فوج جو کہ قومی ادارہ ہے اسے ذاتی فوج کے طور پر استعمال کیا اور اسے کرپٹ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ راشد قریشی جیسے من پسند اور منظور نظر افراد کو ترقیاں دی گئیں اور اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے فوج کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے اس ادارے کا امیج متاثر ہوا ۔ فوج کو قومی مفادات کے بجائے غیر ملکی مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ بنایا گیا اور وزیر اعظم ، کابینہ ، پارلیمنٹ کی منظوری اور اجازت کے بغیر فوج کو اس جنگ کا حصہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد فوجی جاں بحق ہو چکے ہیں اس جنگ کے ردعمل میں خود کش حملوں میں ہزاروں پاکستانی شہید ہو چکے ہیں ۔ چارج شیٹ کے پانچوں نکتہ میں کہا گیا ہے کہ نیب کے ذریعے سیاستدانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ، اذیت اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا نیب کے ذریعے سیاسی جماعت بنائی گئی اور نیب کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل کر کے اس سیاسی جماعت میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا ۔ چھٹے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی کا سفاکانہ قتل کیا گیا اور قومی لیڈر کے اس بیمانہ قتل میں ملوث لوگوں کو پرویز مشرف کو مبارکباد اور شاباش دی ۔ہزاروں بلوچوں کو گھروں سے غائب کیا گیا اختر مینگل اور دیگر پر جھوٹے الزامات عائد کر کے پابند سلاسل کردیا گیا جس کی وجہ سے بلوچستان میں ملک کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ۔چارج شیٹ کے آٹھویں اہم نکتہ میں کہا گیا ہے کہ غیر کے دباو¿ پر لال مسجد لشکر کشی کی گئی بے گناہ بچوں اور بچیوں پر گولیوں اور بمبوں کی بوچھاڑ کردی گئی ۔اللہ کے گھر میں سینکڑوں لوگوں کو شہید کردیا گیا اور پرویز مشرف نے اس اجتماعی قتل عام کے افراد کو شاباش دی ۔چارج شیٹ کے نویں نکتہ میں کہا گیا کہ ملک کے طول عرض میں معصوم محب وطن افراد کو گھروں سے اٹھا لیا گیا عقوبت خانوں میں لے جا کر نت نیا تشدد کیا گیا ۔ چھ سو زائد پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا جس کا ذکر پرویز مشرف نے اپنی کتاب لائن آف فائر میں بھی کیا ہے ۔ چارج شیٹ کے دسویں نکتہ میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں اقربا پروری ، بے راہ روی ، کرپشن ،فیورٹ ازم کی مثالیں قائم کیں ۔اسٹیل میل ، حبیب بینک ، پی ٹی سی ایل کے نجکاری کے معاملات سامنے ہیں ۔ پرویز مشرف کے ذاتی اثاثہ جات میں اضافہ ہوا ۔ 33کروڑ کا فارم ہاو¿س ، غیر ملکی اثاثہ جات یہ سب کچھ زبان زد عام خاص ہے ۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ قوم کو حساب دینا ہو گا ۔ پرویز مشرف کے پاس ذاتی گاڑی نہیں تھی اربوں کروڑوں روپے کے اثاثے کہا ں سے آگئے ۔ اپنے حواریوں اور رشتہ داروں کو این ایچ اے ، او جی ڈی سی ایل ، پی آئی اے اور ڈیفنس میں ٹھیکے دئیے گئے ۔آٹھ سالوں کے دوران انڈر ٹیبل ڈیل کے ذریعے لوگ کروڑ پتی بننے ۔ شواہد اور ثبوت موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کے پاس مواخذے کی تحریک کے حوالے سے اکثریت نہیں ہے ۔ آصف علی زرداری نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ پرویز مشرف 10جون تک مستعفی ہو جائیں ورنہ مواخذے کے لئے تیار ہوں ۔ مواخذہ ضروری ہے تاکہ قوم کے سامنے علی بابا اور چالیس چوروں کی داستان سامنے آسکے ۔ دو ماہ سے پیپلز پارٹی کو مواخذے کی تحریک کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی بھی مواخذے کی حامی ہے تاکہ ملک اس گندگی کو دور کیا جاسکے ۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ملک میں آرمی چیف کی تقرری میں ہمیشہ ایک لابی ملوث ہوتی ہے ۔ جرنیل لابنگ کرتے ہیں ۔چوہدری نثار علی خا ن نے پرویز مشرف کی پریس کانفرنس کے حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا کہ ایک نیا پرویز مشرف دیکھا جو پریشان ، گھبرایا ہوا لگ رہا تھا ۔ پرویز مشرف کھیل ہار چکے ہیں انہیں کافی دنوں پہلے کھیل ہارنے کا اعتراف کرنا چاہیے تھا ۔ رحم دلی اور قومی مفاہمت کی بات کی ہے ۔ نواز شریف کو ہتھکڑی لگائی گئی ۔ جلا وطن کیا گیا اور بے نظیر بھٹو کو کک مارنے کی بات کی گئی اس وقت قومی مفاہمت یاد کیوں نہ آئی ۔ہاں یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ نواز شریف کو پریس کانفرنس میں صاحب اور بے نظیر بھٹو کو صاحبہ کہہ کر ضرور پکارا ۔ یہ اصل مشرف نہیں تھے گھبرائے ،ہارے ، سہمے پرویز مشرف ہیں ۔ اگر انہیں تھوڑا وقت مل گیا تو وہ آٹھ سالہ تاریخ دوبارہ دھرا سکتے ہیں ۔ پرویز مشرف کو اس وقت رحم دلی اور مفاہمت کیوں نہ یاد آئی جب لال مسجد پر آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی چیخ و پکار اب بھی ہمارے کانوں میں گونچ رہی ہے ۔ جنوبی وزیر ستان میں فوج کشی کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف آمریت کا نشان ، جمہوریت کے دشمن ، آزاد عدلیہ میڈیا ، خود مختار پارلیمنٹ کے سب سے بڑے مخالف اور امریکہ کے پٹھوں ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ قتل عام اور ملک کو تہہ و بالا کرنے والے کو قومی مفاہمت کی یاد اب کیوں آرہی ہے ۔ پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف قومی اسمبلی میں مواخذے کے ذریعے ہو سکتا ہے ۔ مواخذے کی تحریک کے نتیجے میں آمریت کا دروزاہ ہمیشہ کے بند ہو گا ۔ آئین کے آرٹیکل 6کا موثر انداز میں مشرف پر لاگو ہوتا ہے ۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کے حوالے سے جاری ٹیپ میں دوسری آواز پرویز مشرف کی ہے اور پرویز مشرف نے اس میں میڈیا کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ ریکارڈ ہے جبکہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ کولیشن گورنمنٹ میں شامل ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو تسلیم کر لیں ۔ ججوں کے معاملہ کو حل کرنے کیلئے آصف علی زرداری سے آج رابطہ کر وں گا تاکہ اس مسئلہ کے حل کے بعد قوم اپنی منزل کی طرف بڑھ سکے ۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے کی جانی چاہیئے ۔ اگر فیلڈ مارشل ایوب خان کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی سزا مل جاتی تو نہ ملک ٹوٹتا اور نہ مشرف کو آئین توڑنے اور ملک میں آمریت قائم کرنے کی جرات نہ ہوتی گذشتہ 8 سال کے دوران ہمارے خاندان کو انتہای اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہمارے خاندان کو عکوبت خانوں میں ڈالا گیا آٹھ سال تک جلا وطن کیا گیا اور میرے والد وفات پا گئے تو ان کی میت کے ساتھ خاندان کے کسی فرد کو پاکستان نہ آنے دیا گیا لیکن ہم نے انتقام کی سیاست نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ماضی میں جو کرپشن کی گئی، غنڈہ گردی کی گئی اور یہاں قبضہ گروپ قائم ہوئے ان کا قانون کے مطابق بے لاگ احتساب کریں اور ان تمام حقائق کو عوام کے سامنے لائیں پاکستانی قوم کا بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہے لیکن یہاں نائن الیون کے بعد فنڈز کے نام پر اور قرض کے نام پر جو کچھ بھی آیا انہیں درست سمت میں استعمال نہ کیا گیا اگر جنرل پرویز مشرف صرف بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کردیتے تو وہ 6 سال میں مکمل ہو جاتی اور ملک کو 25 سو میگا واٹ بجلی میسر آنے کے علاوہ آبپاشی کیلئے پانی بھی مل جاتا ۔ صدر، وزیر اعظم اور اتحادی جماعتوں سے تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم کولیشن کی آڑ میں ایسے اقدامات کا حصہ ہر گز نہیں بن سکتے جو آئین اور قانون کے منافی ہوں کسی بھی طور آئین کی دھجیاں نہیں بکھیریں گے ۔ عدلیہ کی آزادی کے معاملہ پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں متفق ہیں ۔ صرف ججوں کی بحالی کے طریقہ کار پر اختلاف ہے ۔ اختلافات جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ان سے حکومتی اتحاد کو نقصان نہیں پہنچے گا ۔ انہوں نے کہا کہ میری یا میاں نواز شریف کی مشرف سے کوئی ذاتی مخالفت نہیں ہے، ماضی میں جو کچھ ہوا وہ پوری قوم کے سامنے ہے اس ڈکٹیٹر نے آئین کی دھجیاں بکھیریں اور ملک کو تباہی کے کنارے لا کھڑے کیا ۔ کل تک مشرف ہمیں ٹھڈے مارنے کی باتیں کر رہے تھے آج وہ مفاہمت کیلئے راضی کیسے ہو گئے ہیں ۔ وزیرستان، بلوچستان میں جو کچھ ہوا اور جس طرح جنرل پرویز مشرف نے قوم کا معاشی و سیاسی جنازہ نکالا ان کے ساتھ مفاہمت کیسے کی جا سکتی ہے اور کس طرح انہیں محفوظ راستہ دیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام کو ریلیف دینے کیلئے مہنگائی پر قابو پانے سے متعلق اقدامات کر رہے ہیں ۔ مانیٹرنگ سسٹم کو فعال کیا جائے گا اور گرین فوڈ سکیم بھی دی جائے گی اس وقت بھی آٹے کی قیمت کے حوالہ سے صورتحال دیگر صوبوں کے مقابلہ میں پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہے ۔ آزاد عدلیہ کے بغیر معاشی، سیاسی اور سماجی انصاف کا قیام ممکن نہیں ہے اسی لئے ہم ججوں کی بحالی کیلئے وکلاء کی لانگ مارچ میں شرکت سمیت ہر طرح کے اقدامات لے رہے ہیں ۔ صحافی کالونی کو قبضہ گروپ سے واگزار کروانے کے سوال پر میاں شہبازشریف نے کہا کہ گذشتہ 8 سال کے دوران ملک بھر میں ہر شعبے میں قبضہ گروپ پیدا ہوئے لیکن اب ان کا دور ختم ہو چکا ۔ قبضہ گروپ جہاں پر بھی ہیں اس کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ وزیراعلی پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف نے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں تاکہ حکومت کو اپنا کام کرنے کا موقع مل سکے۔ انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی مطالبہ کیا کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران جن میجر اور کرنل صاحبان نے سیاسی ورکروں پر مظالم کئے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تاہم سیاسی ورکروں پر مظالم کرنے والوں سے قانون کے تحت حساب لیا جائے گا۔جنرل پرویز مشرف کا سب سے بڑا جرم پاکستان کی زرعی زمین کو بنجر بنانا تھا۔ ہماری اولین ترجیح عوام کو انصاف کی فراہمی ، تعلیم کا فروغ اور زرعی اصلاحات ہوں گی۔ اس مقصد کیلئے ان شعبوں میں انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی منتخب ہونے کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے 347کے ایوان میں 265ووٹ لئے جبکہ صوبائی اسمبلی کی 16نشستوں پر ابھی ضمنی الیکشن ہونا باقی ہے۔ ایوان سے خطاب کرتے ہوئے میاں شہبازشریف نے کہا کہ صوبہ پنجاب کے آٹھ کروڑ عوام اور ایوان کے ارکان نے ان پر جو اعتماد کیا ہے وہ ایمانداری کے ساتھ اس پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران پاکستان کے ہر گلی کوچے میں ظلم وزیادتی کا بازار گرم رہا۔ سیاسی کارکنوں سے دہشت گردوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا۔ میں ایوان کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے بے انصافی کی ، ورکروں اور سیاسی رہنماو¿ں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا ان سے قانون کے مطابق حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف سے بھی مطالبہ کیا کہ جن فوجی افسران نے گذشتہ آٹھ سال کے دوران سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں وکارکنوں پر مظالم کئے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے انتخابات سے 48گھنٹے پہلے اپنے اس وعدے کو دوہرایا تھا کہ اگر ان کے حامیوں کو شکست ہوئی تو وہ گھر چلے جائیں گے۔18فروری کے انتخابات میں قوم نے انہیں مسترد کردیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ خلافی کی اور استعفیٰ نہیں دیا۔ میں ان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہوجائیں تاکہ حکومت کو قوم کو بحران سے نکالنے اور مسائل کا حل کرنے کیلئے کام کرنے کا موقع ملے۔ اگر وہ نہیں بھی جاتے تو مشرف آمریت آج آخری سانس لے رہی ہے۔ اس ملک سے مشرف اور اس کی باقیات کا مکمل طور پر خاتمہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر جنرل (ر) پرویز مشرف آٹھ سال کے دوران محض سیاسی انتقام کی بجائے تعمیری کام کرتے ، آتے ہی بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرواتے تو آج پاکستان کو پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا نہ ہوتا اور نہ ہی کسانوں کو پانی کا بحران درپیش آتا۔ پاکستان کی زرعی زمین بنجر ہونے سے بھی بچ جاتی۔ انہوں نے کہاکہ مشرف کے حامیوں نے ایوان میں بیٹھنے کی بجائے اسمبلی کے باہر کیمپ لگایا جو کیمپ چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں اور اب اسی طرح مشرف بھی بھاگنے والے ہیں۔ وہ ڈھٹائی کے ساتھ زیادہ عرصہ تک ایوان صدر میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ ساٹھ سال کے دوران پاکستان میں رشوت اور دھونس ودھاندلی کا بازار گرم رکھا گیا۔ دھونس اور دھاندلی سر بازار ناچ رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس ناچ کو بند کریں۔ تھانے عقوبت خانوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ شریف آدمی تھانے جانے سے ڈرتا ہے کیونکہ وہاں مظلوم کو مزید ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چور وچودھری اپنے پیسے کے زور پر وہاں مظلوم بن جاتے ہیں۔ اب قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ کچہریوں میں ناانصافی ہے، اس ناانصافی کو دور کرنے کیلئے ہمیں ماتحت عدلیہ میں اصلاحات لانا ہوں گی اور اس کے ججوں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا لیکن ابھی بھی ہمارے پاس بہت مواقع موجود ہیں۔ جنوبی کوریا اور چین جو ہم سے بہت پیچھے تھے اگر اپنی محنت سے آج مضبوط معیشت قائم کرچکے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ ساٹھ سال کے دوران احتساب کا مضبوط نظام قائم نہیں کیا جاسکا۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو برباد کیا جاتا رہا۔ سابق دور حکومت میں مشرف نے اربوں روپے اپنے غیر ملکی دوروں پر خرچ کئے۔ (ق) لیگ کے سابق وزیراعلی نے گذشتہ سال صرف جولائی سے نومبر تک اپنی ذاتی تشہیر پر ڈھائی ارب روپے خرچ کردیئے لیکن ہم قوم کی دولت کو اس طرح ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے کمیٹی تشکیل دیدی ہے مزید کمیٹیاں بھی بنائی جائیں گی جو ایسے منصوبے تیار کریں گی جس سے صوبہ میں ترقی اور خوشحالی آسکے۔ اپنی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سب سے زیادہ زور انصاف کی فراہمی پر دیا جائے گا کیونکہ کوئی بھی قوم انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ تعلیم کی پرموشن دوسرا ہدف ہوگا، ملک میں آئینی ایمرجنسی نہیں بلکہ تعلیم کے میدان میں ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ سال کے آخر تک پنجاب کے تمام ہائی سکولوں میں جن کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے کمپیوٹر تعلیم کا آغاز کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب بھر میں کسی بھی ذہین طالب علم کا تعلق خواہ گجرات سے ہو، لیہ سے ہو یا کسی دوسرے علاقہ سے اگر وہ میرٹ پر تعلیمی ادارے میں داخلہ لیتا ہے اور اس کے والدین اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو اس طالب علم کی کفیل خود پنجاب حکومت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تیسری ترجیح زرعی اصلاحات ہوں گی اور میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ تین ماہ کے اندر پنجاب بھر میں انسانی اور زرعی جعلی ادویات کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تاہم ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، انقلابی اقدامات کے ذریعے ملک کو پھر سے زرعی ملک بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کو اس وقت 2500میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے جس کے وجہ سے ہسپتالوں میں لوڈ شیڈنگ کے باعث مریض دم توڑ جاتے ہیں کیونکہ سرکاری تو کجا پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ہسپتالوں کے پاس جنریٹر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وسائل سے 350میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں راتوں رات تبدیلی نہیں آسکتی لیکن ہمیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر سخت محنت کرنا ہوگی تاکہ عوام کو غربت ، مہنگائی، خودکشیوں اور خراب امن وامان کی صورتحال سے نجات دلائی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور کیلئے چھ ہزار روپے تنخواہ ناکافی ہے۔ اساتذہ ہمارے سروں کے تاج ہیں، ہم ان سب کیلئے بجٹ میں انقلابی اعلانات کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نوازشریف کی جمہوریت کی بحالی اس کیلئے صعوبتیں برداشت کرنے اور قوم کی بہترین قیادت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم پرویز مشر ف کو آئینی صدر تسلیم نہیں کرتے ان کے ساتھ صرف ورکنگ ریلشن شپ ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اب صدر مشرف سے پوچھا جائے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں عدلیہ کا مسئلہ بھی ضرور حل ہو گا اور ملک میں سیاسی استحکام بھی آئے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور ہم نے کبھی کسی ڈکٹیٹر کا سہارا نہیں دیا ۔ جدہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سنیٹر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ اور صدر کے درمیان تصادم کے بجائے اداروں کے اختیارات میں توازن چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم جو توقعات لے کر سعودی عرب آئے تھے وہ پوری ہو گئی ہیں ہم نے جب بھی سعودی عرب سے تعاون طلب کیا سعودی قیادت نے ہمیشہ فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ سنیٹر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہوں نے سعودی قیادت کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو آگے بڑھانا کے لیے سعودی عرب میں اپنے قیام میںتوسیع کر دی ہے انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ملک میں امن و امان کا قیام اقتصادی استحکام اورجمہوریت کا فروغ ہے انہوں نے کہا کہ ہم مشکلات کو مواقع میں بدلنے کے لیے مربوط حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں ایک سوال پر سنیٹر آصف علی زردای نے کہا کہ بجٹ میں معاشرے کے غریب طبقے کے خصوصی ریلیف دیں گے انہوں نے کہا کہ بجٹ میں خصوصی کارڈ کا اجرائ کر رہے ہیں جس پر غریب خواتین کو 1500پندرہ سو رپے تک کی امداد مل سکے گی اور اس امداد کو اس سال بڑھا کہ 3000 ہزار روپے کریں گے آصف علی زرداری نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے مشن کے مطابق ملک میں خواتین کو بااختیار بنائیں گے ۔ جبکہ ملک کے 30سابق سفیروں نے صدر پرویز مشرف کے استعفیٰ اور مواخذے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے ججز کی بحالی کیلئے وکلائ کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کردیا۔سابق سفیروں نے پی پی پی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ملکی مفاد کے منافی قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیاہے کہ اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی جانب سے پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی چیکنگ ہو سکتی ہے۔ان سابق سفیروں میں شمشاد احمد خان،ریاض کھوکھر ، اکرم ذکی ،ڈاکٹر ایس ایم قریشی، ڈاکٹر مقبول بھٹی ، نجم الثاقب خان، گل حنیف ، عظمت حسین ،توقیر حسین ،سلیم نوازخان گنڈا پور، اقبال احمد خان،اسلم رضوی ، کامران نیاز، جاوید حفیظ ، نذر عباس ، راشدسلیم خان، ایاز وزیر ،وزارت خارجہ کے سابق اسپیشل سیکرٹری شیر افگن خان شامل ہیں ۔سابق سفیروں نے اعلان کیا ہے کہ لانگ مارچ کے ساتھ بھرپور تعاون کیاجائے گا ۔ صدر پرویزمشرف غیر آئینی صدر ہیں پوری قوم کا مطالبہ ہے وہ مستعفیٰ ہوں انتخابی مینڈیٹ کے مطابق ان کا مواخذہ کیاجائے ۔ اتوار کواسلام آباد پریس کلب میں سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے سابق سفیروں کے اس تیس رکنی گروپ کی جانب سے وکلاء تحریک کی حمایت میں بیان پڑھا۔ ریاض کھوکھر اور دیگر سابق سفیر بھی اس موقع پر موجود تھے سابق سفیروںکے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وکلائ برادری اور سول سوسائٹی کی ججز کی بحالی آئین کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی ، آزاد عدلیہ، فریڈم آف پریس ، حقیقی جمہوریت کے حوالے سے جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ آئین میں واضح طورپر کہا گیا ہے عوام کی مرضی اور رائے کے مطابق حکومت قائم ہو گی ۔10جون سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں سابق سفیر بھرپور طور پر شرکت کریں گے ۔ حکومت ججز کی بحالی میں ناکام ہوئی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججز کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے برطرف کیاگیا۔ تین نومبر 2007ء کو ایمر جنسی اور پی سی او غیر آئینی تھا تین نومبر 2007ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے جاری ان غیر آئینی ، غیر قانونی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں ملک پر غیر اعلانیہ مارشل لاء مسلط کیاگیا۔آئین کی خلاف ورزی کی گئی ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی سلب کی گئی ، بنیادی حقوق پامال کئے گئے ۔پی سی او اور ایمر جنسی کا جواز نہیں تھا۔انہوںنے کہاکہ تین نومبر 2007ء کو سپریم کورٹ کے پی سی او اور ایمر جنسی کے خلاف فیصلے پر عملدر آمد ہونا چاہیے ۔اٹھارہ فروری کو عوام نے پرویزمشرف اور آمریت کے خلاف فیصلہ دیا9مارچ 2008ء کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اعلان مری کے ذریعے ججز کی بحالی کا وعدہ کیا ۔ وفاقی حکومت عوامی مینڈیٹ کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔سابق سفیروں نے واضح کیاہے کہ آئینی پیکج اور عدلیہ کے بارے میں اصلاحات ججز کی بحالی کے خلاف ہے آئین کی حکمرانی ، آزاد عدلیہ کے خلاف دباو¿ کو مسترد کرتے ہیں۔آئین ، جمہوریت ، قانون کی حکمرانی ، شہری آزادیوں ، سیاسی استحکام ، سماجی انصاف ، معاشی ترقی ، قومی سلامتی کیلئے ، آزاد عدلیہ ضروری ہے ۔ مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہاکہ با ضمیر سرکاری افسران اپنی مدت ملازمت کے دوران جس معاملے کے بارے میں اختلاف رائے ہو حکومت کو اس سے آگاہ کر دیتے ہیں ۔سابق سیکرٹری خارجہ نے بھی ایسے ہی ایشو کے حوالے سے حکومت کو اپنی رائے سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والے سرکاری افسران آمریت کے دور میں اگر اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں تو اس سے تو آمریت کو تقویت ملتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ فرض شناس افسران ہمیشہ قومی مفاد کے مطابق اپنی رائے سے حکومت کو آگاہ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنا ، ریاست کی جانب سے ناکامی کا اعتراف ہے۔حریری کمیشن والا معاملہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ناں اقوام متحدہ کا منشور اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی ملک میں ہونے والے جرم کی تحقیقات کی جائے ۔ لبنان میں سیاسی بحران تھا وہاں کے صدر رفیق الحریری کے مخالف تھے لبنان کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر بھی تھا اس لئے اس معاملے کی تحقیقات اقوام متحدہ نے کی انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اس حوالے سے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنا ملکی مفاد کے منافی ہے ریاض کھوکھر نے کہاکہ خارجہ امور ایک مشکل کام ہے ملکی صورتحال میں خارجہ امور کا اہم کردار ہوتا ہے خارجہ پالیسی کے حوالے سے دفتر خارجہ اپنے آپشن سے حکومت کو آگاہ کرتا ہے دفتر خارجہ میں لوگ چوڑیاں پہن کر نہیں بیٹھے ہوتے اپنے کام سے آگاہ ہوتے ہیں ملکی مفاد کے مطابق رائے کا اظہار کیاجاتا ہے اور اپنے تجزیے کے مطابق خارجہ پالیسی کے بارے میں تجاویز دی جاتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ امریکہ سے ڈکٹیشن لینا یا اس کے مفادات کا تحفظ کرنا ملکی مفاد کے خلاف ہے لیکن کیا بھی کیا جا سکتا ہے ۔جب ہماری سیاسی قیادت دن رات امریکہ سے رابطے میں رہے دفتر خارجہ کیاکر سکتا ہے۔اکرم ذکی نے کہا کہ آپ خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں مجھے ملک میں کوئی حکومت ہی نظر نہیں آرہی ہے ۔ وزیراعظم نے حلف لینے سے پہلے ججز کی رہائی کا حکم جاری کیا مگر حلف اٹھانے کے بعد کوئی اعلانات نہیں کئے۔ایک سوال کے جواب میں شمشاد احمد خان نے بتایا کہ اقوام متحدہ اپنے منشور کے چپٹر سیون کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تحت بے نظیر بھٹو کی تحقیقات کی درخواست کا جائزہ لے سکتی ہے لیکن اس سے سلامتی کونسل کی جانب سے پاکستان کی اہم تنصیبات کے جائزہ کا خدشہ ہے کیونکہ سلامتی کونسل میں ہمارے ہمدرد ، دوست اور مخلص نہیں بیٹھے ہیں ۔ انہوںنے بتایاکہ سابق سفیر لاہو رسے لانگ مارچ میں شامل ہوں گے ہر طرح کا تعاون کیاجائے گا ایک سوال کے جواب میں شمشاد احمد خان نے کہاکہ پرویز مشرف کا استعفیٰ پوری قوم کا مطالبہ ان کامواخذہ ہونا چاہیے یہی عوامی مینڈیٹ کا تقاضا ہے ۔نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے حکومت سے کہا ہے کہ مجھے فوری طور پر آزاد کردیا جائے ۔ میں اپنی زندگی کے بقہ دن آزادی سے گزارنا چاہتا ہوں ۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا میری پہلی خواہش تھی اور اب دوسری اور آخری خواہش زندگی کے بقیہ دن آزادی سے گزارنا ہے ۔ اللہ سب سے بڑا نگہبان ہے مجھے کسی شخص کی سیکورٹی کی ضرورت نہیں 16 کروڑ عوام مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ان سے مجھے کوئی ڈر نہیں بلکہ اللہ تعالی کے بعد عوام ہی میرے محافظ ہیں ۔ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے مجھے بکتر بند گاڑیوں کی ضرورت نہیں ۔ بے نظیر بھٹو بھی بلٹ پروف گاڑی میں ہی شہید ہوئیں ۔ قاضی حسین احمد محب وطن ہیں وہ ہمیشہ ملکی مفاد کی بات کرتے ہیں جبکہ دیگر لوگ امریکہ کی بات کرتے ہیں ۔ مجھے پاکستان میں آئے ہوئے 32سال ہوئے اور میں نے 25سال ایٹمی منصوبے کی سربراہی کی اس دوران کئی آرمی چیف آئے مگر مجھے مرزا اسلم بیگ کی دوستی اور فرض شناسی پر فخر ہے ۔ مرزا اسلم بیگ ہی صرف ایسے آرمی چیف تھے جن پر نہ صرف پاکستانی فوج بلکہ پوری قوم کو فخر ہے مرزا اسلم بیگ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے اقتدار کو ٹھکرایا اور ملک میں جمہوریت لے کر آئے ۔ اگر وہ چاہتے تو 17اگست کو اقتدار پر قبضہ کر لیتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور غلام اسحاق خان کو بل کر اقتدار ان کے حوالے کردیا اور فوج کو اس چکر سے نکال لیا مرزا اسلم بیگ انتہائی ذہین اور سمجھدار شخص ہیں دنیا کے معاملات پر ان کی گہری نظر ہے اور انتہائی بہادر انسان تھے ۔ امریکی دھمکیاں انہیں مرغوب نہ کر سکیں ۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں مرزا اسلم بیگ اور جنرل وحید کاکڑ نے میری بہت مدد کی اور کام میں ہاتھا بٹایا ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ جو شخص پاکستان کے مفاد کو عزیز رکھتا ہے وہ کبھی کسی کے دباو¿ سے مرغوب نہیں ہوتا ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ہمیشہ ملک کے مفاد کی بات کرتے ہیں مگر دوسرے امریکہ کو خوش کرنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ جنرل چشتی بھی بہادر شخص ہیں جب ہم نے ایٹمی منصوبہ شروع کیا یہ اس وقت راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے ۔ انہوں نے اس منصوبے کی تکمیل میں ہماری بہت مدد کی اور ہر قسم کا تعاون فراہم کیا ۔ اس پروگرام کے لئے ہر قسم کی سہولیات فراہم کیں ۔ کرنل عبد الرحمان نے بھی اچھے انسان ہیں یہ تمام لوگ بڑے محب وطن ہیں ان کے میرے متعلق جو بیانات اور ہمدردیاں ہیں میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ دھیر ے دھیرے حالات ٹھیک ہوتے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو اصل حقائق کا پتہ چلتا جارہا ہے ۔ جنرل (ر ) مرزا اسلم لیگ اور جنرل (ر ) جمشید کیانی ، جنرل (ر ) حمید گل نے تمام باتیں بتا دی ہیں ۔ واقعات کبھی چھپتے نہیں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ ہمیشہ ایمانداری اور سچی بات ہی کرنی چاہیے ۔ سٹیل ملز کے سابق چیئر مین جنرل (ر ) عبدالقیوم نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ سٹیل ملز کی نجکاری میں کیسے بے ایمانی ہوئی اور اسے کتنا نقصان پہنچایا جارہا تھا ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ۔ حق و سچ کی بات کرنے والے بہت سے موجود ہیں ۔ دوسرے کئی قومی اثاثوں کو اونے پونے بیچا جارہا تھا مگر انہیں روک لیا گیا ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ جن لوگوں کی ملک کیلئے خدمات ہیں وہ لوگوں کو پتہ چلنا چاہیں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ میں نے بہت صبر کرلیا ہے اب مزید صبر کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بات میں نے حکومت کو بھی بتا دی ہے ۔ جنرل چشتی اور دیگر کے دوست اگر مجھے ملنے کے لئے آنا چاہتے ہیں میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں وہ ضرور آئیں میں انہیں اپنے ہاتھوں سے چائے کافی پلاو¿ں گا اور پکوڑے اور سموسے کھلاو¿ں گا ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ مجھے 1971ء کی اپنی فوجیوں کی شکست دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور اس کے بعد میں نے ایٹم بم بنانے کا تہیہ کیا اور اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا اور انہوں نے مجھے فوراً ہی بلا لیا ۔ یہ کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے وہ بہت دور اندیش تھے کہ انہوں نے میرا خط ملتے ہیں مجھے فوراً بلا لیا اور اس پروگرام کے لئے مجھے دنیا بھر کی سہولتیں فراہم کیں ۔ پروگرام کی تکمیل کا کریڈیٹ بھٹو اور میرے ساتھیوں کو جاتا ہے جنہوں نے بڑی محنت اور لگن سے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میری معاونت کی ۔ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ پیپلز پارٹی جس کے کہنے پر میں نے لبیک کی ان میں سے کسی نے بھی میرے متعلق ہمدردی کا کوئی ایک لفظ نہیں بولا اور اب مجھے امید ہے کہ وہ ضرور بولیں گے ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ مجھے پذیرائی نہیں ملی ۔ لوگوں کو میری آزادی کے بارے میں خواہ مخواہ غلط فہمی میں ڈال دیا گیا ہے ۔ میں آزاد نہیں ہوں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ امید کرتا ہوں مجھے آزادی ملے اور میں آزادی نے ادھر ادھر آجا سکوں اور اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب سے مل سکوں ۔ موجود ہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ مجھے مکمل طور پر آزاد کردے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے سیکورٹی رسک کے لئے حفاظت میں رکھا گیا ہے ۔یہ بالکل بکواس ہے ۔ لوگ میرے ساتھ محبت کرتے ہیں مجھے اپنے ملک میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ سب سے بڑا محافظ اللہ کی ذات ہے اور اس کی بعد 16کروڑ عوام میرے محافظ ہیں ۔ مجھے اس ملک میں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ میرا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے ۔بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو بچانا ایمان کی کمزور ی اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے میں نے اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو اللہ رب العزت کے سپرد کیا ہوا ہے مجھے پاکستانی قوم سے قطعی کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ خود میری محافظ ہے میں آزادی چاہتا ہوں میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ بہادری کا قدم دکھائے اور میرے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے ۔ ایک ڈکٹیٹر نے پچھلے 8سالوں میں چیف جسٹس اور مجھ سمیت جسے چاہا اٹھا کر اندر بند کردیا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی معزول ججوں کی بحالی اور آزاد عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں اور اس مقصد کے حصول تک عوام اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ججز ضرور بحال ہوں گے اور ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا ہمیشہ حق اور سچ کی بات کرو اور مظلوم کا ساتھ دو ۔ اے پی ایس ا سلام آ باد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment