واشنگٹن ۔ اب سائنس کی ترقی نے چاند کے تعلق سے حقائق کا پتہ چلا لیا ہے اس طرح چاند کے متعلق کہانیاں رومانوی اور شب خوابی کی داستانیں نہیں رہی ہیں۔ سائنسدانوں نے اب زمین کی اطراف گردش کرنے والے سٹلائیٹ چاند پر پانی کی موجودگی کا ثبوت حاصل کر لیا ہے۔ 1970ء میں چاند سے حاصل کیے گئے آتش فشانی شیشہ کے چٹان کے نمونے کے تجزیہ سے پانی کی موجودگی کا پتہ چلا ہے۔ اس طرح اس مفروضہ کو خاتمہ ہو گیا کہ چاند مکمل طور پر خشک ہے۔ سائنسدانوں کی دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ چاند کی گہرائی میں پانی موجود تھا چنانچہ3.3تا3.6بلین سال قبل جب چاند کے آتش فشان پھٹ پڑے تو ان سے کنکریاں وجود میں آئیں۔ البرٹوسال نے جزیزہ روہڈے میں قائم براؤن یونیورسٹی میں کہا کہ زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ چاند مکمل طورپر خشک تھا۔ البرٹو سال تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ چالیس سالوں تک تجربات کرتے رہے لیکن چاند پر پانی کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔وہ اس بات پر بھی مطمئن نہیں تھے کہ ہم کوئی قابل قدر کام انجام دے رہے ہیں۔ چاند کے تعلق سے کی گئی اس تحقیق کی اشاعت آج جریدہ ’نیچر‘ میں عمل میں آئی ہے۔ اس جدید تحقیق نے ان سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے جن کا یہ ایقان تھا کہ چاند اس وقت وجود میں آیا تھا جب مریخ کی جسامت والا ایک سیارہ نومولود زمین سے ٹکرا یا تھا سال اور ان کے ساتھیوں نے 1971ء میں اپولو15مشن اور 1972ء میں اپولو 17کے دوران چاند سے اکٹھا کیئے گئے چٹانی نمونوں کی جانچ اور تجزیہ کے لیے انتہائی حساس ٹکنیک کا استعمال کیا۔ ان لوگوں نے کنکریوں کی اوپری آلودہ سطح کی جانچ کے بجائے کنکریوں کی اندرونی ساخت کا تجزیہ کیا۔ جس نے انہیں پانی کی موجودگی کے ساتھ کلورین اور فلورین کی موجودگی کا بھی پتہ چلا۔ جو کاربن اور سلفر جیسے ہیں جس سے چاند میں واقع آتش فشاں سے لاوا پھٹ پڑنے کا یقین ہوتا ہے۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment