International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, July 22, 2008

عوام کی جیبوں سے پیسہ کون نکال رہا ہے۔ مہنگائی سے عوام کا خود کشی میں ریکارڈ اضافہ تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد

ملک دشمن عالمی طاقتوں نے پاکستان کو عدم استحکام کرنے والی اپنی شاطر چالوں سے ایسے دوراہے پہ کھڑا کردیا ہے کہ پاکستان کے عوام کو دور دور تک کو ئی امید کی کرن نظر نہیں آتی البتہ قیام پاکستان سے قبل انگریز کے مخبروں کی اولاد جو اب بھی اپنے باپ دادا کی طرح انگریز کیلئے مخبری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے ۔ جو بھی حکومت آئے یہی چہرے نظر آئیں گے۔ عوام سخت پر یشان ہیں کہ یہ ملک 16کروڑ مسلمانوں کے لیے بنا تھا یا جاگیر داروں اور قانون شکن جرنیلوں کیلئے ؟ جبکہ دوسری پریشانی عوام کی یہ ہے کہ تما م بحرانوں کو اگر موجودہ حکمران حل نہ کرسکے یا کسی وجہ سے ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور نئے سیٹ اپ میں بھی ان کے ما مے چاچے ہوں گے بات وہیں کی وہیں رہے گی۔ کیونکہ سیاسی جماعتوں نے عوام میں نہ صرف اپنا وقار بلکہ اپنا اعتمادکھودیا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جب حکومت کا حصہ ہو کوئی ایسے عالمی معاہدے اور لوٹ مار پروگرام نہ کرے جس کا بعد میں خمیازہ عوام کو بگتنا پڑے۔ اور جاگیرداروں کے ایسے علاقے جہاں وہ سکول و کالج کا قیام عمل میں نہیں آنے دیتے وہاں بھی سیکورٹی فورسز کے دستے ب بھیجیں جا ئیں کیونکہ ایسے جاگیر داروں کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جو حکومتی رٹ کو چیلینج کرتے ہیں۔ آئے روز کی مہنگا ئی ، بے روزگاری ، نا انصافی اور ملک بھر میں پولیس گردی سے خود کشیوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔ مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ حکومت اپنے کسان سے 625روپے من کے حساب سے گندم لیتی ہے جبکہ باہر سے 1400روپے من کے حساب سے لیتی ہے یہ اپنے کسان کے ساتھ ظلم کیوں کرتے ہیں چلیں پٹرول تو باہر سے آتا ہے مگر سی این جی تو ہماری اپنی پیداوار ہے اس پر عوام کو ریلیف کیوں نہیں دیا جاتا اس کے خلاف بھی پٹیشن دائر ہونی چاہیے اور مکمل تحقیقات ہو اور پتہ چلے کہ کون کتنا منافع کھا رہا ہے کون عوام کی جیبوں سے پیسہ نکال رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں گزشتہ 9 ماہ کئی ہزار افرادنے خودسوزی کی ہے ۔اعداد وشمار کے مطابق خودکشیوں کی وجوہات میں گھریلو و معاشی مسائل، بے روزگاری، غربت اور تناو¿ کلیدی اسباب رہے۔تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کی قومی تنظیم مددگار اور اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسیف کی جانب سے پاکستان میں گزشتہ 9 ماہ کے دوران ہونے والی خودسوزیوں کے ریکارڈ مرتب کئے گئے جس کیلئے 26 قومی انگریزی، اردو اور سندھی روزناموں کی مانیٹرنگ کی گئی۔حکومت پاکستان کی جانب سے 2001ئ میں ذہنی صحت کی بہتری کیلئے مجریہ جاری کیا گیا تھا تاہم اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمام اقوام عالم کے لئے لازم ہے کہ اپنی عملداری کی حدود میں خودسوزیوں میں کمی کیلئے عملی اقدامات کریں۔اس سلسلے میں رہائشی علاقوں میں جراثیم کش ادویات اور اسلحہ کی فروخت کی بھی ممانعت ہے۔مددگار ٹرسٹ اور یونیسیف کی تحقیق کے مطابق 2007ء کے دوران بلوچستان میں خودسوزی کے140 ،سرحد میں 210، پنجاب میں 1529 اور سندھ میں خودسوزیوں کے1047 کیسز ریکارڈ ہوئے۔2ہزار8سو65 بچوں میں بھی خودسوزی کے کیسز ریکارڈ ہوئے جن کی عمریں 11 سے 17 برس کے درمیان تھیں۔تحقیقات کے مطابق ان بچوں کی خودکشی کی وجوہات میں جارحانہ رویے، مایوسی اور والدین و اساتذہ کی جانب سے مار پیٹ اور ڈانٹ شامل تھی۔خواتین میں 18سے 30 برس کی عمر اور مردوں میں 32سے 70 سال کے درمیان خودکشی کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔خواب آور گولیاں، پانی میں ڈوب کر جان دینا، پھانسی، بجلی کے جھٹکوں سے جان ہارنا، گاڑیوں کے آگے کودجانا اور اسلحہ کے استعمال سے خودسوزی کرنا بلحاظ تعداد معروف طریقے معلوم ہوئے۔خودکشیوں کے کیسز کے اعتبار سے لاہور سرفہرست رہا جہاں 987 کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد بالترتیب ملتان میں 786 ،گجرانوالہ میں 94، کراچی میں63، پشاور میں 60، فیصل آباد میں58، خیر پور میں 45 ، سکھر میں 38 ، حیدرآباد میں 36، اسلام آباد میں28 ، راولپنڈی میں 27، ٹنڈو آدم میں 22، لاڑکانہ میں 17 اور دادو میں 15 کیسز رپورٹ ہوئے۔مددگار ٹرسٹ کی رپورٹ کے حوالے سے صدر مددگار ٹرسٹ ضیائ احمد اعوان کا کہنا ہے کہ غربت، پولیس تشدد، بے روزگاری، گھریلو اور خاندانی تنازعات سمیت موجودہ تیز زندگی میں پیشہ ورانہ ماحول کا تناو¿ خودسوزی کی اہم وجوہات ہیں۔انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق سیکشن 325پی پی سی کی رو سے خودسوزی کا مرتکب قانون کا مجرم ہے تاہم عدم دلچسپی کے باعث پولیس کی جانب سے ان کیسز کی نہ تو ایف آئی آر کا اندراج کیا جاتا ہے اور نہ ہی تفتیش کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں خودسوزی کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان معاشرے کی بیماری کا عکاس ہے اور اسے اگر ابتدائی مراحل میں کنٹرول نہیں کیا گیا تو اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائیگا۔ جبکہ صدر پرویز مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور کے اندر مخالفین کو دبانے کے لیے پولیس کو کھلے عام استعمال کیا ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک پاکستانی پولیس کو جدید ہتھیاروں و تربیت کی فراہمی کے لیے فنڈز فراہم کریں پاکستان میں پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کر کے ہی پولیس کو عوام دوست بنایا جا سکتا ہے ۔ پولیس سے متعلقہ خفیہ اداروں کو جدید آلات سے لیس کر کے اندرونی سیکورٹی کے معاملات ان کے سپر د کیے جائیں پاکستان میں پولیس کے نظام کو عوام دوست بنانے کے لیے سیاسی بھرتیوں اور تبادلوں کا خاتمہ کرنا انتہائی ضروری ہے اگرچہ پولیس آرڈیننس 2002 جاری کیا گیا ہے کہ لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد ممکن نہیں بنایا جا سکا ہے ۔ ملک میں بہت کم تعداد میں پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیے گئے ہیں پولیس کو حکمران طبقہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور جو لوگ حکمرانوں کی بات مانتے رہے ہیں ان کی تقرریاں ، تبادلے اور ترقیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سزائیں صرف ان پولیس افسروں کو ملی ہیں جنہوں نے فوجی آقاو¿ں کی بات ماننے سے انکار کیا ہے گزشتہ آٹھ سالوں میں صدر پرویز مشرف نے پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کھلے عام استعمال کیا ہے نئی سیاسی حکومت کو بدعنوان اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی پولیس ورثے میں ملی ہے پولیس آٹھ سالوں سے فوج کی خدمت کرتی رہی ہے اور صدر پرویز مشرف کے مخالفوں کے خلاف استعمال ہوتی اور انہیں دبانے کے فرائض سرانجام دیتی رہی ہے۔ اس دورن پولیس نے ماروائے عدالت اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا اور انتخابات میں دھاندلی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے کیونکہ پولیس کو فوجی آمروں کی بھرپور آشیر باد حاصل تھی ۔ اس روئیے کی وجہ سے عوام میں پولیس کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا ہے پاکستانی پولیس عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی صلاحیت نہیں رکھتی جیسا کہ فوج میں بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے پولیس کے زیر انتظام خفیہ اداروں کو اندرونی خطرات اور جرائم کی روک تھام کے لیے مزید وسائل دینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی برادری خصوصا امریکی اور یورپی یونین کوچاہیے کہ وہ سویلین خفیہ ایجنسیوں کو جدید تربیت اور ٹیکنیکل مدد دیں تاکہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ پاکستانی حکومت کو صرف پولیس کے مالی بجٹ اورتعداد کو ہی نہیں بڑھانا چاہیے بلکہ پولیس میں انتظامی لحاظ سے بھی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جس کے تحت سیاسی بھرتیاں بند ہوں ‘ تقرریاں ‘تبادلے ‘ بھرتیاں اور ترقیاتی میرٹ پر ہونی چاہئیں ۔ پولیس کے انتظامی اداروں کی تجاویز کواہمیت دی جانی چاہیئے اور پولیس کو عوام د وست اور شہریوں کا محافظ بنانے پر توجہ دی جانی چاہیئے ۔ اور عوامی نمائندوں پریہ بات واضح کرنی چاہیئے کہ ایک اچھی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی مالک ‘تربیت یافتہ اور اچھی تنخواہ دار پولیس ہی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ جبکہ انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے حکومت کو دی گئی اپنی تجاویز اور جاری کردہ رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ملک کی اندرونی سیکورٹی کی زمہ داریاں پولیس اور اس کی متعلقہ خفیہ ایجنسیوں کو دی جائیں۔ پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ‘ جرائم کے خاتمے کے لیے ان کی تربیت کی جائے ۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں ایف آئی ایاور آئی بی کو مضبوط کیا جائے ۔ پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کے لیے تعینات رینجرز اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کو ہٹا کر پولیس کو لگایا جائے ۔ پولیس کے محکمے سے بدعنوانی ختم کرکے ان کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے بدعنوان اور سیاسی حمایت یافتہ پولیس افسران کو اعلی عہدوں سے ہٹایاجائے ۔ پولیس میں نچلی سطح کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ اسی طرح پولیس کے ملازمین کو مزید سہولتیںفراہم کرتے ہوئے ان کے ویلفیئر اور انکے اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ اسی طرح ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کے اہل خانہ کے لیے مراعات میں اضافہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر اس کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔ سینٹ کی سیٹینڈنگ کمیٹی کے تحت پولیسنگ کے حوالے سے ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ پبلک سیفٹی کمیشن کو مزید اختیارات دئیے جائین اور کمیشن کے ممبران کا انتخاب شفاف طریقے سے کیا جائے جس پر حکومت اور اپوزیشن کے دریان اتفاق رائے ہو ۔ اپنی سفارشات مین آئی سی جی نے کہا ہے کہ پولیس میںسیاسی مداخلت کو ختم کرتے ہوئے بھرتیوں ‘ تبادلوں کو خالصتا ادارے کی سطح پر کیا جائے اور ضلعی ناظم سے ڈی پی او کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے حوالے سے اختیار واپس لیا جائے ۔ سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی کمیشن ‘ نیشنل پولیس مینجمنٹ بورڈ اوروفاقی اورصوبائی کمپلینٹس بورڈز کو بااختیار بنایا جائے ۔ مقدمات کی تحقیقات کے لیے آزاد وخود مختار آفیسرز تعینات ہونے چاہئیںاور پولیس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد کو بڑھایاجائے اسی طرح سے پولیس کے معاملات میں فوج کی مداخلت ختم کی جائے آئی سی جی نے اپنی سفارشات مین بین الاقوامی برادری پرزور دیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان میں پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے امداد میں اضافہ کیا جائے اور ا مریکہ اور یورپی ممالک پولیس افسران کی تربیت کے لیے کام کریں ۔ جبکہ اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر شیری رحمن نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں طالبانائزیشن کو پروان نہیں چڑھنے دیں گے تاہم کسی بیرونی طاقت کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے موجودہ مشکل اور نازک ترین حالات میں ہم ملک کو عدم استحکام سے بچانا چاہتے ہیں ۔ بعض ملک دشمن عناصر اسلام کا نام استعمال کررہے ہیں لیکن ہم مفاہمت سے معاملات سلجھانا چاہتے ہیں ۔ 5 سالہ کرپشن اور لوٹ مار کی صفائی کے بعد ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے موجودہ حکومت کو کم از کم چودہ ماہ کا عرصہ درکار ہے عوام تحمل کا مظاہرہ کریں پیپلزپارٹی اپنے وعدوں ‘ منشور اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے ۔ صحافت اور صحافیوں کی آزادی و فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کیے جائیں گے حکومت میڈیا کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے وزارت اطلاعات نے ماضی میں میڈیا پر پابندیاں عائد کیں ہم ایسا تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں ہم نے بیشتر کالے قوانین ختم کیے ۔ پیمرا کو بذات خود ایک حد بندی میں رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈنینس کا مسودہ بھی نظر ثانی کے لیے کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے ۔ جو بعدازاں جلد اسمبلی میںپیش کردیا جائے گا۔ ویکٹم (VICTIM ) فنڈ کا آغاز کردیا جس کے شفاف استعمال کے لیے آئندہ ماہ ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی ۔ صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں حکومت ہر ممکن حد تک اپنا فرض سنبھالنے کے ساتھ مالکان کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے گی موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کی براہ رست کوریج کا نظام متعارف کروایا ۔ تاکہ عوام حکومتی کارکردگی سے پوری طرح آگاہ ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا وعدہ معلومات تک رسائی کا قانون ہے ۔ جس کے لیے انفارمیشن بل کا مسودہ تیاری کے مراحل میں ہے جس سے شفافیت کا نیا کلچر سامنے آئے گا ہم معلومات تک رسائی کو موثر اور فعال بنائیں گے انہوں نے کہا کہ میڈیا اور اس کے ادارے اپنے اندر بھی ضابطہ اخلاق کو فروغ دیں کیونکہ ایسے اقدامات ریاست پر مسلط نہیں کیے جاتے ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ایسی سنسنی خیز ی سے گریز کرے جس سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہو صحافی اپنے رویوں پر بھی دھیان دیں ۔ حکومت میڈیا پر کوئی ضابطہ اخلاق مسلط نہیں کرنا چاہتی تاہم اس حوالے سے میڈیا سے معاونت کرنے کو تیار ہے کیونکہ صحافیوں کی اپنی بدنظمی بعض تقریبات انتہائی بدمزگی کا سبب بنتی ہے اور ایسے کسی موقع پر اگرانہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتے ہیں انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ذمہ داریوںا وروعدوں اور منشور سے آگاہ ہے ۔ ورکنگ جرنلسٹوں کے لیے ویج بورد کے نفاذ پر جلد صحافی تنظیموں سے بات چیت کا آغاز کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وزیراعطم نے بھی یہ کہا کہ پاکستان اور حکومت کو فی الوقت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے پچاس ڈالر فی بیرل پر تیل کی قیمت گزشتہ دور حکومت میں تھی جبکہ تجارتی خسارے میں انتہائی اضافہ ہو چکا تھا اب بھی حکومت پچاس روپے فی لیٹر پٹرول پر سبسڈی دے رہی ہے ۔ ہم نے جب چارج لیا تو خزانہ خالی تھا سابقہ حکومت نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ۔ ہماری حکومت سے پہلے تو یوٹیلٹی سٹورز پر بھی آٹا نایاب تھا جس پر کابینہ کے ہنگامی اجلاسوں میں اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا سابقہ حکومت نے مستقبل سے بے خوف ہو کر اس طرح گندم کا بحران پیدا کیا کہ ان کا خیال تھا کہ انہیں فرشتے دوبارہ انتخابات میں کامیاب کروائیں گیانہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کم از کم چودہ ماہ کا عرصہ درکار ہے ۔ گزشتہ حکومت نے بجلی کے انفراسٹرکچر میں ایک پیسے کی سرمایہ کاری نہیں کی جس وجہ سے آج قوم کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 75 فیصد غذائی اشیاء امپورٹ کی جا رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں کو سہولیات دی جائیں زراعت کو ترقی دی جائے اس وقت سرحدی صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے ملک خود کش حملوں کی زدمیں ہے انہوںنے چیلنج کیا کہ کوئی بھی شہری انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری تین ماہ کی کارکردگی کو سابقہ حکومت کے پانچ سال سے موازنہ کرکے دیکھ لے ۔ ہمارا مسئلہ افغان جہاد کے دور سے چلاآرہا ہے ۔ موجودہ منتخب حکومت کو اتنی مہلت ملنی چاہیئے کہ یہاںطالبانائزیشن کو پروان چڑھنے سے روکا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض ملک دشمن عناصر صرف اسلام کا نام استعمال کررہے ہیںلیکن ہم مفاہمت کے زریعے تمام بحرانوں پر قابو پاناچاہتے ہین حکومت موجودہ مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مشکل حالات مین ملک کو عدم استحکام میں نہیں ڈالنا چاہتے ۔ نہ ہی کوئی غیر آئینی کام کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے 23 جولائی کوحکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے ۔اے پی ایس،اسلام آباد

No comments: