انتہاپسندی کی ایک وجہ لوگوں میں انتہا درجے کی مایوسی بھی ہے پاکستان کے جمہوری عمل میں امریکہ کی مداخلت کی پالیسی بھی غلط ہے پاکستان سولہ کروڑ عوام کا ملک اور ایک نیو کلیئر طاقت ہے امریکی صدارتی امید وار سینیٹر بارک اوبامہ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں انہیں اس قسم کے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مقامی طالبان کہلائے جانے والے گروپس کی سرگرمیاں ان دنوں نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی نمایاں طور پر جگہ پارہی ہیں اور یہاں امریکہ کے تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکس میں بھی پاکستانی طالبان کے اثرات اور ان سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں بحث جاری ہے۔ معروف پاکستانی اسکالر پرویز ہود بھائی نے اسی موضوع پر حال ہی میں واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایک پریذنٹیشن دی ہے کہ طالبان اب سے کچھ عرصے پہلے تک افغانستان کے حوالے سے جانے جاتے تھے لیکن ان کی نئی شناخت یعنی پاکستانی طالبان اب تیزی سے عام ہورہی ہے۔ پاکستانی طالبان کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں اور ان کے خلاف آپریشن کی خبریں روزانہ ملکی اور غیرملکی اخبارات کی سرخیاں بن ر ہی ہیں۔ واشنگٹن سمیت بیرونی دنیا میں ان کے بارے میں مزید جاننے اور ان کی سرگرمیوں سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں کے حوالے سے دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پرویز ہود بھائی نے اپنی پریذنٹشن کے آغاز میں مقامی طالبان کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا ہے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے۔ تاکہ سرکاری مشینری ناکارہ ہوجائے۔ اور انھیں اس مقصد میں کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ فاٹا اور اس سے ملحق کچھ علاقوں میں آپ کو سرکاری عملداری نظر نہیں آئے گی۔ ان علاقوں میں پولیس یا تو تھانوں تک محدود ہے یا تھانے چھوڑ کر ہی چلی گئی ہے۔ طالبان کی حکمتِ عملی کا اگلا حصہ ان علاقوں میں اپنی عمل داری قائم کرنا ہے۔ پرویز ہود بھائی نے کہا کہ ان علاقوں میں انتہاپسندی کے رجحانات یقینناً موجود ہیں لیکن انھیں پروان چڑھانے کی ذمہ داری امریکی پالیسیوں پر بھی عائد ہوتی ہے جب سرد جنگ کے زمانے میں اس وقت کی امریکی حکومت مجاہدین کو ہیرو کے طور پر پیش کرتی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ پرویز ہود بھائی نے اس خطے کی معاشی اور سماجی صورتحال کو بھی انتہا پسندی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس انتہاپسندی کی ایک وجہ لوگوں میں انتہادرجے کی ناامیدی بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس علاقے میں غربت اور محرومی کے اثرات کو بھی ہمیں سمجھنا ہوگا۔ معاشرے میں کچھ لوگوں کے پاس تو بے انتہا پیسہ ہے مگر کچھ ایسے ہیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے محرومی جنم لیتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انصاف تک رسائی نہ ہونا بھی انتہاپسندی میں اضافہ کرتا ہے۔ انتہاپسندی سے لڑنے کے لیے فوجی ذرائع کے استعمال کی یقیناً اہمیت ہے لیکن اس معرکے میں محض فوجی طاقت سے فتح حاصل نہیں ہوگی۔ وہاں پر ترقیاتی کام کرنے ہوں گے اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ جہاں تک فوجی کارروائی کا تعلق ہے تو وہ اسی وقت کی جانی چاہیے جب فورسز کو اس بات کو مکمل یقین ہو کہ جس جگہ وہ کارروائی کرنے جارہے ہیں وہاں دہشت گرد ہی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت بار ایسا ہوا ہے کہ بے گناہ لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے انتہا پسندی میں کمی نہیں اضافہ ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں امریکی حملوں کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ پرویز ہود بھائی کے مطابق پاکستان پر امریکی حملے کے بارے میں سوچنا بھی غلط ہے۔ اسکے علاوہ انہوں نے پاکستان کے جمہوری عمل میں امریکہ کی مبینہ مداخلت کو بھی غلط قرار دیا۔ پرویز ہودبھائی نے کہا کہ امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کے خطرے سے نمٹنے میں ہرگز کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحدوں پر نیٹو کی فوجوں میں اضافہ کیا جارہا ہے جس کہ وجہ سے قبائلی علاقوں اور پاکستان میں امریکی حملے کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہوسکتا ہے ان حملوں میں چند سو کے قریب طالبان مارے جائیں لیکن حملوں کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل ہو گا۔ اور اگر بے گناہ لوگ مارے گئے تو مسائل میں بے حد اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس قسم کے بیانات سینیٹر اوباما دے رہے ہیں ان سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان سولہ کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور یہ ایک نیوکلیر طاقت بھی۔ اسلیے غیر ذمہ دار اقدامات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں امریکی حکام سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ پاکستان کے سیاسی عمل میں مداخلت نہ کریں۔ اور پاکستانی عوام کو اپنے لیڈرز خود چننے دیں۔ مذاکرے میں موجود پاکستان اور افغان امور کے ماہر ڈاکٹر مارون وائن بام نے پرویز ہود بھائی کی پریذنٹیشن کے بعض نکات سے اتفاق کیا جبکہ بعض سے اختلاف یہ بات بالکل درست ہے کہ امریکی قیادت پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کا اندازہ نہیں لگا سکی۔ وہ یہ بات سمجھنے میں ناکام رہی کے پاکستان کی سول سوسائٹی عدلیہ کی بحالی کے لیے کتنی کمٹڈ ہے اور وہ ملک میں نئی قیادت دیکھنا چاہتی ہے۔ صدر مشرف سے امریکہ کی وابستگی غلط نہیں ہے لیکن یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ پاکستانی عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں طالبان کی جڑیں مضبوط ہونے میں امریکہ کی ماضی کی پالیسیوں کا تعلق ہے تو یہ بات کسی حد تک تو درست ہے کیونکہ اس وقت امریکہ سرد جنگ کی وجہ سے یقینناً اس خطے میں جہادی گروپس کی مدد کررہا تھا۔ لیکن اس کی تمام ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا غلط ہوگا کیونکہ طالبان کی جانب سے اب طاقت پکڑنے کے دیگر محرکات بھی ہیں۔ وائن بام سمیت بہت سے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی طالبان کی سرگرمیاں علاقے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں لیکن ان سے نمٹنے کے لیے مقامی آبادی اور نمائندوں کی مدد سے حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ جبکہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اس دورائیے پر آگیا ہے کہ اسے ہمیشہ کیلئے ایٹمی طاقت رہنا ہے یا پھر خدا نہ کرے کہ ہم ایٹمی طاقت گنوا کہ آزادی کھو بیٹھیں ۔ ہمارے پاس دونوں آپشن موجود اور فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے ۔ عوام کے مسائل حل نہ کئے تو خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا تعلیم کا زیور پہنے بغیر کوئی بھی قوم اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی ۔ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ہی ہم پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کا صحیح معنوں میں پاکستان بنا سکتے ہیں ۔ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں کئی بار ایجنسیاں نافذ کی گئیں اور آئین کو توڑا گیا لیکن تعلیمی شعبہ میں کبھی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جو ملک کی اصل ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کتنی شرمناک اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہم ایٹمی پاکستان ہونے کے باوجود دودو گلی گلی کشکول اٹھائے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں خود کوئی خود مختار قوم کبھی اغیار سے بھیک نہیں مانگتی بھیک مانگنے والی قوم بھی خوشحال نہیں ہو سکتی نہ ہی ترقی کر سکتی ہے ۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے راستہ سے ہٹ جانے کے باعث ہم آج تک منزل تلاش نہیں کر سکے اور اغیار پاکستان کو آزادی سے محروم کردینا چاہتے ہیں ۔ میں شرمندہ ہیںکہ ہم اپنے اپنے مقدمہ کو ٹھیک طور پر پیش نہیں کر سکے ۔ تعلیمی پسماندگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مجھے رحیم یارخان کے دور افتادہ ایک سکول میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں طلبہ کو پنجاب کے دورالحکومت کے بارے میں علم نہیں ہے جبکہ یہاں ایچی سن جیسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں اربوں روپے خرچ کئے جا تے ہیں ان دور افتادہ علاقہ میں سکولوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور بچ زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ بچیاں ہائی سکول دور وہنے کے باعث تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ انہو ں نے کہا کہ ماضی میں پڑھے لکھے پنجاب کے نام پر بڑے دعوے کئے گئے لیکن اربوں روپے کے فنڈز محض ذاتی تشہیر پر خرچ کردیئے گئے اگر یہ فنڈز تعلیم پر خرچ کئے جاتے تو آج ہماری بچیاں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل نہ کر رہی ہوتیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سابق حکمرانوں نے ہمیں بہت مشکلات میں چھوڑ دیا ہے جن میں تعلیمی پسماندگی کے علاوہ معزول ججوں کی بحالی اور دیگر مسائل شامل ہیں لیکن ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اندھیروں میں نہیں رہنے دیں گے اور ایسا کام کر جائیں گے کہ یہ نسلیں کہیں گی کے ہمارے بڑے ٹھوکریں کھا کر بالآخر راہ راست پر آگئے ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران ملک میں محلات تو بہت بنے لیکن غریب کی جھونپڑی پر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم نے غریب کے مسائل حل نہ کئے تو یہاں خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ انہوں نے بچوں کو یقین دلایا کہ پنجاب کے خزانے کو ان پر نچھاور کیا جائے گا ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب بھر میں دو ڈویڑن کی سطح پر بچوں میں ڈبیٹ کے مقابلے کروائیں گے جن میں وہ خود شرکت کریں گے ۔ انہوں نے پنجاب بھر کے سکولوں سے منتخب طلبہ کو مری کی سیر کروائے اور ان کی وزیر اعلی ہاو¿س میں مہمان نوازی کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ اس موقع پر مجید نظامی نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ میاں نواز شریف اور ان کے مرحوم والد کے سر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میاں شریف مرحوم اپنے سات بھائیوں میں واحد تعلیم یافتہ شخص تھے جنہوں نے اپنی محنت سے ایک بڑے صنعتکار کا درجہ حاصل کیا ۔ بچے بھی ان کی تقلید کر کے بڑے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافے کے باوجود حکومت آئندہ دنوں میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔ موجودہ بجٹ میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سسبڈی کو دسمبر تک ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد گزشتہ دو ماہ کے دوران حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر 34روپے اضافہ کر چکی ہے ۔ اس اضافے کے باوجود قیمتوں میں مزید اضافے کا ارادہ کیا جا رہا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے موقف کے مطابق 50روپے فی لیٹر سسبڈی کے خاتمے کے لیے پٹرول کی قیمت میں مزید 16روپے فی لیٹر اضافے کیا جا سکتا ہے اس طرح ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 103روپے فی لیٹر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ایران کے قائم مقام وزیر داخلہ سید مہدی ہاشمی نے ملاقات کی ہے۔ جس میں پاک ایران تعلقات علاقائی صورت حال ‘ دہشت گردی و انسانی سمگلنگ کے خاتمے سمیت باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا ۔ دونوں برادر اسلامی ممالک نے مضبوط اور مستحکم دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ ملاقات میں وزیر اعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دونوں اسلامی ممالک نہ صرف مشترکہ تہذیب ثقافت مذہب اقدار روایات کے حامل ہیں ۔ بلکہ کئی اہم بین الاقوامی ایشوز کے حوالے سے بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان علاقے میں استحکام امن اور پائیدار ترقی کا خواہاں ہے ان مقاصد کے حصول کے لئے کوئی پاکستان کے کردار سے انکار نہیں کر سکتا ۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات اور دوستی ہے ۔ ایران کے خلاف کسی جارحیت کی حمایت نہیں کی جائے گی اس طرح کے اقدامات سے خطے میں عد استحکام پیدا ہوگا ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مسائل کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے پر امن ذرائع سے معاملات کے حل میں خطے اور اس کے عوام کے بہتر مفاد میں ہے ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس) اسلام آباد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment