International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, July 23, 2008

حکمراں اتحاد کو گھربھیجنے کا خدشہ ۔۔۔ اے پی ایس ، اسلام آباد

پاکستان میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو درپیش شدت پسندی اور امن و امان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پارلیمان قومی پالیسی تیار کرے گی۔ اور مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی کا حل تلاش کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ وزیر اعظم ہاوس میں تقریبا آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی صدارت وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کی۔ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان جن میں پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی اور جمعیت علماءاسلام کے مولانا فضل الرحمان شامل تھے البتہ نواز شریف کی نمائندگی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کی۔ ان کے علاوہ گورنر و وزیر اعلیٰ سرحد، وفاقی وزراء اور مشیر بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس کے ابتدا میں قبائلی علاقوں اور سرحد کے حکام نے شرکاءکو صورتحال سے آگاہ کیا جس کے بعد فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس میں شریک ہوئے۔ اتحادی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ شدت پسندی کے مقابلہ کے لیے کثیرالجہتی پالیسی کا اہم حصہ عوام کی سیاسی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ ’اتحادی جماعتوں نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ سرزمین پاکستان کو کسی کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی غیرملکی فورسز کا پاکستانی سرزمین پر حملہ برداشت کیا جائے گا۔‘ ملک میں اندرونی معاملات، امن و امان ہو یا خارجہ پالیسی، ان کو پارلیمان میں زیر بحث لایا جائے ۔’پارلیمان کے فیصلوں کے پیش نظر ہمیں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔ ضروری قرار دیا گیا کہ مذاکرات جو ہو رہے ہیں یہ بہتر عمل ہے۔ یہ ملک کی داخلی ضرورت ہے اسے آگے بڑھایا جائے۔ معاہدات پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔‘ بین الاقوامی طاقتوں کو یہ ماننا ہوگا کہ اگر ان کے مفادات ہیں تو پاکستان کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ اجلاس خصوصی طور پر امن و امان سے متعلق تھا جس کو طلب کیے جانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس کا بنیادی مقصد ملک میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال اور ایک مشترکہ پالیسی طے کرنا بتایا تھا۔ وزیر اعظم کے چھبیس جولائی سے شروع ہونے والے دورہ امریکہ سے پہلے حزب اختلاف کی تجویز پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس تو طلب نہیں کیا گیا تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق کم از کم اتحادیوں کی سطح پر قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادھر چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید نے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے ایک ملاقات میں امن و امان کی صورتحال پر بات کی ہے۔ جنرل طارق نے صدر کو علاقائی صورتحال سے آگاہ کیا ہے جس کا ملک پر اثر پڑ سکتا ہے۔ حکمران اتحاد کے سربراہی اجلاس سے قبل اس بارے میں حکمت عملی طے کرنے کے لیے حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماو¿ں کا اجلاس پارٹی کے صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی صدارت میںاسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس میں پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق ، مخدوم جاوید ہاشمی ، پیر صابر شاہ، سر انجام خان اور احسن اقبال کے شرکت کی صوبہ سرحد ، فاٹا اور بلوچستان کی صورتحال اور اہم سیاسی ایشوز پر غور کیا گیا اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا اتحادی جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں اس بات کا مطالبہ کیا جائے کہ صوبہ سرحد فاٹا بلوچستان کے کسی بھی معاملے میں فوجی ایڈیشن سے گریڈ کیا جائے اور مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے گا اور اس ایشو کے حوالے سے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب، قومی موقف اختیار کیا جائے اتحادی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس کے حوالے سے میاں محمد شہباز شریف کے پارٹی کے قائداور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی رابطہ کیا اور ان سے سربراہی اجلاس سے متعلق تفصیلی بات چیت کی اور اہم سیاسی ایشوز پر مشاورت کی ہے۔جبکہ وفاقی حکومت نے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں تعینات ہونے والے ٹیکس اکھٹا کرنے والے وفاقی ادارے ایف بی آر کے سربراہ عبداللہ یوسف کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ عبداللہ یوسف اپنی سرکاری ملازمت کی تکمیل پر گزشتہ دو برس سے کانٹریکٹ کے تحت گریڈ اکیس میں یہ فرائص انجام دے رہے تھے۔ ان کی جگہ ریونیو ڈویڑن کے سیکرٹری احمد وقار کو ایف بی آر کا اضافی چارج دے دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین سابق حکومت کی اقتصادی ٹیم کے دوسرے اہم رکن تھے جنہیں موجودہ حکومت نے تبدیل کیا ہے۔ ان سے پہلے سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کو مستعفی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے تبدیل کر کے فرخ قیوم کو ان کی جگہ تعینات کیا تھا۔ سابق حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر شدید تنقید کے باوجود اسی ٹیم کے ساتھ اقتصادی معاملات چلانے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی حکومت کو بعض حلقوں، بلخصوص سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور عبدللہ یوسف کا اس ضمن میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اپنی مرضی کے بیوروکریٹ کلیدی عہدوں، خاص طور پر وزارت خزانہ اور اس سے متعلقہ محکموں میں تعینات کرتی ہے لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے ابھی تک بیوروکریسی میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ عبدللہ یوسف پرویز مشرف کے نو سالہ دور میں مختلف اہم وزارتوں کے انچارج رہے ہیں۔ تاہم انہیں اپنے آخری عہدے، چیئرمین ایف بی آر کی حیثیت سے پہلی بار کارکردگی کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس برس ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے کہاہے کہ پرویز مشرف کو فوری طور پر گھر نہ بھیجا گیا تو وہ ہمیں گھر بھیج دیں گے ۔ ملک میں اس لیے بار بار آئین ٹوٹتا اور فوجی مداخلت ہوتی ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والے آمر کا محاسبہ نہیں کیا جاتا ۔ جب تک ایک آمر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجاجائے گاملک میں آئین ٹوٹتا رہے گا اور جمہوریت پر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری رہے گا حکمران اتحاد وعدے کے مطابق اتبدائی 30 دنوں میں ججز کو بحال کرتے ہوئے پرویزمشرف کا مواخذہ کر کے گھر بھیج دیتا تو ملک کے بیشتر مسائل حل ہو چکے ہوتے کسی بھی ادارے کو ملک و قوم کے مفاد کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے فوج محب وطن قومی ادارہ ہے مگر پرویز مشرف نے اس ادارے کی ساکھ کو بھی زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس(اے پی ایس) اسلام آباد

No comments: