International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, July 23, 2008

گمشدہ حکمراں ،گمشدہ افراد کو بازیاب کیسے کروائیں .... تحریر : چودھری احسن پریمی، اے پی ایس اسلام آباد

جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ اقتدار کی تقسیم ہونی چاہیے یہ ریاست کے کسی ایک ادارے میں مجتمع نہیں نہیں ہونا چاہیے۔ وہ عدالتیں مقننہ سے علیحدہ اور آزاد ہونی چا ہیے اور وہ حکومت کے غیر قانونی احکام کے خلاف فیصلہ دینے کی مجاز ہوں وہ اس بات کی اہل ہوں کہ حکومت ( انتظامیہ ) کے خلاف فیصلہ دے سکیں۔ قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں وہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔ انہیں طاقت کے استعمال سے پہلے جذبہ خدمت کو بروئے کار لانا چاہیے۔ جب وہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے اپنے عہدے کا نا جائز استعمال کرتے ہیں یا بعض صورتوں میں ریاست کے مقاصد کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو وہ قابل قبول اور طے شدہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔وہ بین ا لاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔جن کی حفاظت کی انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہوتی ہے۔ جبری گمشد گیوں کو روکنے ، ختم کرنے، اور جبری گمشدگیوں کار وائیوں پر سزا دینے کیلئے موثر قانونی،انتطامی،عدالتی، یا دوسرے اقدامات کرے عالمی کانفرنس برائے انسانی حقوق اس بات کی تجدید نو کرتی ہے کہ تمام ریاستوں کا فرض ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں اس بات کی تفتیش کریں،جب کبھی اس بات پر یقین کرنے کا سبب موجود ہو کہ ایسے علاقے میں جبری گمشدگی کا واقعہ پیش آیا ہے جو ان کی حدود میں واقع ہے اور اگر الزامات کی تصدیق ہوجائے تو اس کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کی جائے۔ حکومت اگر اپنے کار ندوں اور ایجنسیوں کے اندر قانون کا نفاذ نہ کرسکے تو عام شہریوں پر قانون کے نفاذ کی ان سے کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی نئی حکومت سے کہا ہے کہ ان سینکڑوں افراد کے بارے معلومات فراہم کی جائیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ایمنسٹی نے کہا ہے کہ یا تو ان کو رہا کیا جائے ورنہ ان کو باضابطہ سرکاری قید خانوں میں منتقل کیا جائے۔ جن کو ز بردستی لے جایا گیا ہے اور اس کے بعد سے ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ ایمنسٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں معزول ججوں کو بحال کیا جائے اس ادارے کی ایشیاء پیسیفک شاخ کے ڈائریکٹر سلیم ظریفی نے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا اصرار ہے کہ ان کی مخلوظ حکومت حقوق انسانی کا پاس کرے گی اس لیے ہمارا اصرار ہے کہ ان زبردستی کی گمشدگیوں کا معاملہ جلد از جلد حل کریں۔ ایمنسٹی انٹرنشینل نے لاپتہ افراد کے بارے میں اس رپورٹ کے اجر کے موقع پر ان افراد کے لواحقین کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومین آف رائٹس گروپ کی ایک رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ کو پاکستان کے لیے اپنا اعزازی نمائندہ مقرر کیا ہے۔ ایمنسٹی رپورٹ کا آغاز ہی آمنہ مسعود کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ہمارلے لیے آزاد ججوں کی بحالی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے مجھے یقین ہے کہ میرے شوہر مسعود کو میرے گھر سے صرف تین کلو میٹر دور رکھا گیا ہے لیکن میں، میرے بچے اوران بچوں کے دادا، دادی نہ تو مسعود کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کے بہیمانہ حالات سے گزر رہے ہوں گے ۔ نئی حکومت کو فوری طور پر ایسے تمام لوگوںکو بازیاب کرنا چاہیے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومین رائٹس اس وقت پانچ سو تریسٹہ غائب افراد کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ میں کوئی سماعت نہیں ہوئی اور یوں یہ مسئلہ بھی ججوں کی بحالی کے معاملے کے ساتھ خود بخود نتھی ہو گیا۔ ڈیفنس آف ہیومین رائٹس کے مطابق تین نومبر کو ججوں کی برطرفی کے بعد سے اب تک لاپتہ افراد کے ساٹھ نئے کیس سامنے آئے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ تعداد صوبہ بلوچستان سے ہے۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق بلوچستان میں چھ سو کے لگ بھگ لوگ لاپتہ ہیں۔ بلوچ تنظیمیں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتی ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے موجودہ وزیرِ اعلی نواب اسلم رئیسانی ان افراد کی تعداد نو سو سے زائد کہتے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2006ء میں شہریوں کو جبری طور پر غائب کرنے کے خلاف جو کنونشن منظور کیا اس پر بہتر ممالک دستخط کر چکے ہیں اور چار ممالک نے توثیق کر دی ہے۔ پاکستان نے تاحال اس کنونشن کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکہ بھی شریک دھشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اتحادی ممالک بالخصوص امریکہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی کو نظرانداز کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ کئی لاپتہ پاکستانی شہریوں نے بازیابی کے بعد بتایا کہ دورانِ حراست ان سے کئی غیرملکی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے بھی پوچھ گچھ کی۔ لہذا ان ممالک کی حکومتیں یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انہیں لاپتہ افراد کے حالات کا علم نہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق دھشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اتحادی ممالک بالخصوص امریکہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی کو نظرانداز کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔ کئی لاپتہ پاکستانی شہریوں نے بازیابی کے بعد بتایا کہ دورانِ حراست ان سے کئی غیرملکی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے بھی پوچھ گچھ کی۔ لہذا ان ممالک کی حکومتیں یہ دعویٰ نہیں کرسکتیں کہ انہیں لاپتہ افراد کے حالات کا علم نہیں ہے۔ اس کے باوجود صدر پرویز مشرف متعدد مرتبہ ایمنسٹی کی رپورٹوں کو پوری طرح مسترد کرچکے ہیں۔گزشتہ برس مارچ میں پاکستانی صدر نے اس بات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا کہ سینکڑوں لاپتہ افراد انٹیلی جینس ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں۔ بقول صدر مشرف انہیں یقین ہے کہ یہ افراد شدت پسند تنظیموں کے کنٹرول میں ہیں۔ جہاں تک لاپتہ افراد کے معاملے میں نئی حکومت کی دلچسپی کا سوال ہے تو ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشیرِ داخلہ رحمان ملک نے حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد کہا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔وزیرِ قانون فاروق نائیک نے بھی اسی طرح کی یقین دہانی کراتے ہوئے وعدہ کیا کہ لاپتہ افراد جلد رہا ہوجائیں گے۔جبکہ بلوچستان کے نو منتخب وزیرِ اعلی اسلم رئیسانی نے بھی یقین دلایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔اس سال مئی میں نئی حکومت نے بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ تاہم آج تک اس کمیشن کے ارکان، اختیارات اور تحقیقاتی دائرہ کار کا اعلان نہیں کیا گیا۔اسی دوران وزارتِ داخلہ نے لاپتہ افراد کے لواحقین اور ارکانِ پارلیمان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ۔ تاحال اس کمیٹی کے بھی صرف دو اجلاس ہوئے ہیں اور یہ بھی واضح نہیں کہ اس کمیٹی کا دائرہ کار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چشم دیدگواہوں اور بازیاب افراد کے بیانات کی روشنی میں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد میں بچے بھی شامل ہیں اور ایجنسیاں ان بچوں کو اپنے عزیزوں کے خلاف گواہی دینے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ رپورٹ میں ایک دس سالہ بچے عبداللہ کا تذکرہ ہے جسے سولہ مئی دو ہزار چھ کو اس کے والد مفتی منیر شاکر کے ہمراہ کراچی ایرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ عبداللہ نے رہائی کے بعد بتایا کہ اس کے ساتھ دورانِ حراست بدسلوکی کی گئی تاکہ وہ یہ اعتراف کرے کہ اس کے باپ کا تعلق القاعدہ سے ہے۔انکار کے بعد اسے پندرہ دن تک ایک علیحدہ سیل میں رکھا گیا۔عبداللہ کو رہائی کی پیش کش کی گئی لیکن اس نے باپ کے بغیر رہا ہونے سے انکار کردیا۔ بالاخر عبداللہ کو اٹھاون روز کی قید کے بعد پشاور میں یہ کہہ کر ایک جگہ چھوڑ دیا گیا کہ اس کے باپ کو بھی پندرہ دن میں رہا کردیا جائے گا۔ عبداللہ کے والد مفتی شاکر کو کئی ماہ بعد اگست دو ہزار سات میں رہا کیا گیا۔ اسی طرح ایک نو سالہ لڑکے اسد عثمان کو گزشتہ سال اپریل میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر رہا کیا گیا۔اسے فرنٹئیر کانسٹیبلری نے پکڑ کر تربت میں ایک جگہ رکھا تھا۔اور اس وقت کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اسد کو اسوقت رہا کردیا جائے گا جب اس کا مطلوب بڑا بھائی خود کو پیش کر دے گا۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں دسمبر2006 میں سپریم کورٹ کے روبرو بازیاب ہونے والے دس لاپتہ افراد کے بیاناتِ حلفی کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جینس اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ نے پشاور ، لاہور نوشہرہ ، اٹک فورٹ کے علاوہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن کے سیل نمبر بیس اور قاسم مارکیٹ کے قریب ایف آئی اے کے مرکز، راولپنڈی کے علاقے فیض آباد ، چکلالہ سکیم تھری، ائیرپورٹ کے نزدیک پانچ سو ایک نامی ورکشاپ ، آئی ایس آئی کے حمزہ کیمپ ، گیریڑن ، اور پنڈی کینٹ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں رکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق ایجنسیاں ان افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہیں اور حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ان ایجنسیوں کے کتنے خفیہ یا اعلانیہ نظربندی اور پوچھ گچھ مراکز پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انٹیلی جینس ایجنسیاں اکثر و بیشتر لاپتہ افراد کے لواحقین پر عدالت سے رجوع نہ کرنے اور اخباری بیانات سے پرھیز کرنے کے لئے دباو¿ ڈالتی ہیں۔ کبھی انہیں یقین دھانی کرائی جاتی ہے کہ چپ رہنے کی صورت میں ان کے عزیز جلد سامنے آ جائیں گے۔اور کبھی سنگین نتائج اور لاپتہ فرد کے دیگر عزیزوں کو اٹھانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کئی لاپتہ افراد پر غائب ہونے کے کافی عرصے بعد مقدمے بھی قائم کئیگئے تاکہ ان کی گمشدگی کو قانونی جواز دیا جا سکے۔اس بارے میں ایک افغان شہری عبدالرحیم مسلم دوست کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔جسے سن دو ہزار ایک میں گوانتانامو بھیج دیا گیا۔بعد ازاں اسے رہا کردیا گیا لیکن ستمبر2006 میں اسے دوبارہ پشاور کی ایک مسجد سے اس کے بچوں اور بھائی کے سامنے گرفتار کیا گیا۔کیونکہ اس نے گوانتانامو میں اپنے تجربات کو کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ کے روبرو پولیس اور ایجنسیوں نے مسلم دوست کی گمشدگی سے لاعلمی ظاہر کی۔ مسلم دوست کو ایجنسیوں نے غائب کرنے کے آٹھ ماہ بعد خیبر ایجنسی کی پولٹیکل انتظامیہ کے حوالے کردیا جس نے مسلم دوست پر ایف سی آر کے تحت مقدمہ قائم کردیا۔مسلم دوست آج بھی پشاور جیل میں ہے اور مقدمے کی سماعت کا منتظر ہے۔ انٹیلجنس ایجنسیوں کے مشورے اور دھمکیاںانٹیلی جینس ایجنسیاں اکثر و بیشتر لاپتہ افراد کے لواحقین پر عدالت سے رجوع نہ کرنے اور اخباری بیانات سے پرھیز کرنے کے لئے دباو¿ ڈالتی ہیں۔ کبھی انہیں یقین دھانی کرائی جاتی ہے کہ چپ رہنے کی صورت میں ان کے عزیز جلد سامنے آ جائیں گے۔اور کبھی سنگین نتائج اور لاپتہ فرد کے دیگر عزیزوں کو اٹھانے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کی جوابدھی اور ان پر کنٹرول کا نظام غیر واضح اور مبہم رکھا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں جولائی دو ہزار چھ میں حبسِ بے جا کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس پر وزارتِ دفاع کا انتظامی کنٹرول تو ہے لیکن آپریشنل کنٹرول نہیں ہے ۔لہذا ان ایجنسیوں سے عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کروائی جا سکتی۔ اییمنسٹی کی رپورٹ میں عدالتی طریقِ کار پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹس ریاستی وکلائ[L:4 R:4] کی جانب سے کسی شخص کی نظربندی سے لاعلمی یا انکار کی صورت میں مزید جرح کے بغیر اکثر حبسِ بے جا کی درخواستیں خارج کردیتی ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ لاپتہ افراد کی بازیابی کے بعد یہ جاننے کے لئے بہت کم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے کہ مذکورہ شخص کس ادارے کی تحویل میں تھا اور اس ادارے کی جوابدھی کیسے ہو۔اس کے علاوہ گمشدگی کے مقدمات کی سماعت طویل عرصے کے لئے ملتوی کردی جاتی ہے۔اور یوں گمشدہ فرد اور اسکے عزیزوں کی تکالیف کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ لاپتہ افراد کو یا تو فوری طور پر منظرِ عام پر لایا جائے یا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کر کے تسلیم شدہ عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ غلط بیانی کرنے والے یا غیر قانونی حراست اور گمشدگی میں ملوث تمام افراد کو بلاامتیازِ عہدہ و مرتبہ کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس کے علاوہ تمام خفیہ نظربندی مراکز کو ختم کرکے ان کی موجودگی اور قیام کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔انٹیلیجینس ایجنسیوں کو ان کے اقدامات کی جوابدہی کے لئے قانوناً پابند کیا جائیاور لاپتہ افراد سمیت انسانی حقوق کے تمام عالمی معاہدوں اور کنونشنز کو جلد از جلد تسلیم کیا جائے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس، اے پی ایس

No comments: