قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی پاکستان یتیم ہوگیا۔اور اس کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ آ گئی جو انگریز کی باقیات تھے انھوں نے ہر وہ اقدام کیا جس سے اس ملک کے عوام کی ہر اس خواہش کا خون ہوتا رہے۔جن خواہشات کو پایہ تکمیل کرنے کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا۔ساٹھ سال گزرنے کے باوجود ایک عام آدمی کو وہ بنیادی سہولتیں فراہم نہ ہو سکیں جن کی ضمانت ریاست دیتی ہے۔اور نہ ہی اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کیا گیا جس کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا۔ ملک میں موجود طاقتور مافیا نے ہر اس عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے کہ ہر وہ اقدام اٹھایا جائے جس سے عوام ذہنی،جسمانی،اور معاشی طور پر معذور رہیںملک قومیت سے بنتے ہیں ا نصاف اور ا کنا مکس پہ قائم رہتے ہیں بد قسمتی سے تینوں سے ہم محروم ہیں۔ قانون شکن مافیا نے قانون کی شکل کو بگاڑ دے کر گدھا بنا دیا ہے۔اور اس گدھے پر ظاقت ور قانون شکن مافیا سواری کر کے اپنی مرضی سے اس کے کان مروڑ کرسمت کا تعین کر رہے ہیں جبکہ غریب عوام اس گدھے کے قریب آتے ہیں تو انہیں وہ دولتیاں مار رہا ہے۔نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی کہا ہے کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور مہنگائی کا سدباب کرنے کی بجائے اس کا دفاع کرنا شروع کردیا ہے اور عوام کو کہانیاں سنانا شروع کردی ہیں کہ یہ تو چائنہ میں بھی ہے۔ اگر آپ نے عوام سے یہی بکواس کرنے تھے تو آپ لوگوں نے عوام کو کیوں بے وقوف بنایا اور ان سے جھوٹ بولا کہ اقتدار میں آکر ہر چیز کی قیمت آدھی کر دیں گے۔مشرف نے پہلے ق لیگ کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کر کے پھینکا۔اور اب نئے حکمراں اتحاد کو مفاہمتی آرڈیننس کا جھا نسہ دے کر ساتھ ملا لیا ہے۔ اور ججز کی بحالی کے حوالے سے گیند ان کی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ اگر ججز بحال ہوئے تو مفاہمتی آرڈیننس ختم ہونے سے آپ لوگ دوبارہ گرفت میں آسکتے ہیں۔اور اس ضمن میںبے دردی سے قومی خزانہ لوٹنے والے تما م سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ججز کو بھال نہ کیا جائے۔جبکہپاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک آئے گی اور نہ ہی جج بحال ہونگے، یہ سب دل کو بہلانے والی باتیں ہیں ان لوگوں نے انتخابات کے موقع پر عوام سے جو وعدے کئے تھے اور جن وعدوں کی بنا پر ووٹ لئے اب وہ سارے وعدے بھول چکے ہیں۔ آٹا، گیس اور بجلی کی قیمتیں کم تو نہیں ہوئیں البتہ مزید بڑھی ہیں اور یہ مزید بڑھیں گی۔ عدلیہ اور ججوں کی بحالی پر آئین اور قانون کے مطابق جو فیصلہ آئے گا اسے سب کو قبول کرنا ہوگا۔ البتہ 30 دن میں کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا ہے اور جو یہ کہتے ہیں وہ 30 دن گزرنے کے بعد بھی اسی تنخواہ پر کام کریں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ صدر مشرف سے حلف نہ لیں گے لیکن بعد میں انہوں نے لیا۔ بہترین انفرا اسٹرکچر اور مستحکم پالیسیاں بنائی جائیں اور صنعتکاری کے ذریعے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جائے بجلی کے بحران کی وجہ سے ملکی کارخانے بند پڑے ہیں۔بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام میں ہر طرف مایوسی کا عالم ہے اور وہ بے بس نظر آتے ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ ایک دفعہ پھر ہم سے دھوکہ ہو گیا ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیل کر اور ووٹ لیکر سیاسی لوگ پھر مشرف سے جا ملے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ بھی اسٹیبلشمنٹ کے مارشل پلان کا حصہ تھا۔ اور اس پلان میں یہ طے تھا کہ گذشتہ آٹھ سالہ دور میں اقتدار میں رہنے والے چہرے جن کے جھوٹ سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں ان کو منظرعام سے پس منظر میں کر دیا جائے۔اور حکمران اتحاد میں شامل برسر اقتدار آنے والی تمام پارٹیاں ایک ڈیل کا نتیجہ ہیں۔عوامی حلقوں میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ان کے مطابق ایک سال پہلے طے ہو گیا تھا کہ مرکز میں وزیراعظم پی پی کا ہوگا۔ پنجاب مسلم لیگ اورسندھ پی پی اور ایم کیو ایم کے حوالے کیا جائے گا۔اور یہ سب کچھ جو عوام دیکھ رہے ہیں۔موجودہ حکمران اتحاد کھل کر مشرف کی حمایت اس لئے نہیں کر رہے۔عوام کو بے وقوف بنائے اور ان سے انٹی مشرف پالیسی پر ووٹ لئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ لوگوں نے حکمران اتحاد سے بہت سی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ اور مری اعلامیہ سے انحراف کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مایوسی پیدا ہوگی لوگوں نے آصف علی زرداری کے حوالے سے غلط قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں اور انہیں یہ غلط ثابت کرنا ہونگی اگر نواز شریف نے اپنے آپ کو ججوں کی بحالی کے معاملے سے دور کرنے کے اشارے دیئے تو وہ بھی سیاسی طور پر مردہ ہوجائیں گے ۔ ُپاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ پاکستانی سرحدوں پر القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ پاکستان کیلئے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ کسی دوسرے کیلئے اہم ہوسکتی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ جنگجوو¿ں سے مذاکرات کے بھی خواہاں ہیں۔ آصف علی زرداری کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جنگجوو¿ں سے مذاکرات کے دہرے عمل پر امریکاہ کو تحفظات ہیں امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے یاد دلایا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے بھی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک غیر موثر معاہدہ کیا تھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ مائیکل ہیڈن نے بڑی بے دردی سے اس تباہ کن ڈیل کو دہشت پسندوں کو کھلی چھوٹی دینے کا پروانہ قرار دیا۔ کہا گیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں صدر پرویز مشرف کے حمایتیوں کی شکست نے صدر پرویز مشرف کے اقتدار کو دھچکا پہنچایا‘ ان کی امریکی حمایت پاکستان میں سخت نامقبول ہوئی مگر آصف زرداری کی جانب سے حکومت کے موقف میں تبدیلی اہم ہے۔ ایک غیر ملکی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سرحد کی نئی مخلوط حکومت نے ہیڈن کے بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ ان کے بعض طالبان سے رابطے ہیں اور وہ مقامی عسکریت پسندوں سے مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں‘ انہیں اس بات پر مسرت ہے کہ پاکستانی فوج نے متعدد دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بند کرائے تھے۔ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے 25 سالہ رکن اسمبلی کامران خان کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں امریکی فوجی موجود ہیں‘ جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے 750 ملین ڈالرز کی امداد کافی نہیں‘ ہمیں اربوں ڈالرز چاہئیں۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Sunday, April 6, 2008
طاقتور قانون شکن ما فیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی
قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی پاکستان یتیم ہوگیا۔اور اس کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ آ گئی جو انگریز کی باقیات تھے انھوں نے ہر وہ اقدام کیا جس سے اس ملک کے عوام کی ہر اس خواہش کا خون ہوتا رہے۔جن خواہشات کو پایہ تکمیل کرنے کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا۔ساٹھ سال گزرنے کے باوجود ایک عام آدمی کو وہ بنیادی سہولتیں فراہم نہ ہو سکیں جن کی ضمانت ریاست دیتی ہے۔اور نہ ہی اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کیا گیا جس کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا۔ ملک میں موجود طاقتور مافیا نے ہر اس عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے کہ ہر وہ اقدام اٹھایا جائے جس سے عوام ذہنی،جسمانی،اور معاشی طور پر معذور رہیںملک قومیت سے بنتے ہیں ا نصاف اور ا کنا مکس پہ قائم رہتے ہیں بد قسمتی سے تینوں سے ہم محروم ہیں۔ قانون شکن مافیا نے قانون کی شکل کو بگاڑ دے کر گدھا بنا دیا ہے۔اور اس گدھے پر ظاقت ور قانون شکن مافیا سواری کر کے اپنی مرضی سے اس کے کان مروڑ کرسمت کا تعین کر رہے ہیں جبکہ غریب عوام اس گدھے کے قریب آتے ہیں تو انہیں وہ دولتیاں مار رہا ہے۔نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی کہا ہے کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور مہنگائی کا سدباب کرنے کی بجائے اس کا دفاع کرنا شروع کردیا ہے اور عوام کو کہانیاں سنانا شروع کردی ہیں کہ یہ تو چائنہ میں بھی ہے۔ اگر آپ نے عوام سے یہی بکواس کرنے تھے تو آپ لوگوں نے عوام کو کیوں بے وقوف بنایا اور ان سے جھوٹ بولا کہ اقتدار میں آکر ہر چیز کی قیمت آدھی کر دیں گے۔مشرف نے پہلے ق لیگ کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کر کے پھینکا۔اور اب نئے حکمراں اتحاد کو مفاہمتی آرڈیننس کا جھا نسہ دے کر ساتھ ملا لیا ہے۔ اور ججز کی بحالی کے حوالے سے گیند ان کی کورٹ میں پھینک دی ہے کہ اگر ججز بحال ہوئے تو مفاہمتی آرڈیننس ختم ہونے سے آپ لوگ دوبارہ گرفت میں آسکتے ہیں۔اور اس ضمن میںبے دردی سے قومی خزانہ لوٹنے والے تما م سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ججز کو بھال نہ کیا جائے۔جبکہپاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک آئے گی اور نہ ہی جج بحال ہونگے، یہ سب دل کو بہلانے والی باتیں ہیں ان لوگوں نے انتخابات کے موقع پر عوام سے جو وعدے کئے تھے اور جن وعدوں کی بنا پر ووٹ لئے اب وہ سارے وعدے بھول چکے ہیں۔ آٹا، گیس اور بجلی کی قیمتیں کم تو نہیں ہوئیں البتہ مزید بڑھی ہیں اور یہ مزید بڑھیں گی۔ عدلیہ اور ججوں کی بحالی پر آئین اور قانون کے مطابق جو فیصلہ آئے گا اسے سب کو قبول کرنا ہوگا۔ البتہ 30 دن میں کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا ہے اور جو یہ کہتے ہیں وہ 30 دن گزرنے کے بعد بھی اسی تنخواہ پر کام کریں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ صدر مشرف سے حلف نہ لیں گے لیکن بعد میں انہوں نے لیا۔ بہترین انفرا اسٹرکچر اور مستحکم پالیسیاں بنائی جائیں اور صنعتکاری کے ذریعے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جائے بجلی کے بحران کی وجہ سے ملکی کارخانے بند پڑے ہیں۔بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام میں ہر طرف مایوسی کا عالم ہے اور وہ بے بس نظر آتے ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ ایک دفعہ پھر ہم سے دھوکہ ہو گیا ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیل کر اور ووٹ لیکر سیاسی لوگ پھر مشرف سے جا ملے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ بھی اسٹیبلشمنٹ کے مارشل پلان کا حصہ تھا۔ اور اس پلان میں یہ طے تھا کہ گذشتہ آٹھ سالہ دور میں اقتدار میں رہنے والے چہرے جن کے جھوٹ سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں ان کو منظرعام سے پس منظر میں کر دیا جائے۔اور حکمران اتحاد میں شامل برسر اقتدار آنے والی تمام پارٹیاں ایک ڈیل کا نتیجہ ہیں۔عوامی حلقوں میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ان کے مطابق ایک سال پہلے طے ہو گیا تھا کہ مرکز میں وزیراعظم پی پی کا ہوگا۔ پنجاب مسلم لیگ اورسندھ پی پی اور ایم کیو ایم کے حوالے کیا جائے گا۔اور یہ سب کچھ جو عوام دیکھ رہے ہیں۔موجودہ حکمران اتحاد کھل کر مشرف کی حمایت اس لئے نہیں کر رہے۔عوام کو بے وقوف بنائے اور ان سے انٹی مشرف پالیسی پر ووٹ لئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ لوگوں نے حکمران اتحاد سے بہت سی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ اور مری اعلامیہ سے انحراف کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مایوسی پیدا ہوگی لوگوں نے آصف علی زرداری کے حوالے سے غلط قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں اور انہیں یہ غلط ثابت کرنا ہونگی اگر نواز شریف نے اپنے آپ کو ججوں کی بحالی کے معاملے سے دور کرنے کے اشارے دیئے تو وہ بھی سیاسی طور پر مردہ ہوجائیں گے ۔ ُپاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ پاکستانی سرحدوں پر القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ پاکستان کیلئے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ کسی دوسرے کیلئے اہم ہوسکتی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ جنگجوو¿ں سے مذاکرات کے بھی خواہاں ہیں۔ آصف علی زرداری کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جنگجوو¿ں سے مذاکرات کے دہرے عمل پر امریکاہ کو تحفظات ہیں امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے یاد دلایا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے بھی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک غیر موثر معاہدہ کیا تھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ مائیکل ہیڈن نے بڑی بے دردی سے اس تباہ کن ڈیل کو دہشت پسندوں کو کھلی چھوٹی دینے کا پروانہ قرار دیا۔ کہا گیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں صدر پرویز مشرف کے حمایتیوں کی شکست نے صدر پرویز مشرف کے اقتدار کو دھچکا پہنچایا‘ ان کی امریکی حمایت پاکستان میں سخت نامقبول ہوئی مگر آصف زرداری کی جانب سے حکومت کے موقف میں تبدیلی اہم ہے۔ ایک غیر ملکی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سرحد کی نئی مخلوط حکومت نے ہیڈن کے بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ ان کے بعض طالبان سے رابطے ہیں اور وہ مقامی عسکریت پسندوں سے مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں‘ انہیں اس بات پر مسرت ہے کہ پاکستانی فوج نے متعدد دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بند کرائے تھے۔ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے 25 سالہ رکن اسمبلی کامران خان کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں امریکی فوجی موجود ہیں‘ جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے 750 ملین ڈالرز کی امداد کافی نہیں‘ ہمیں اربوں ڈالرز چاہئیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment