International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, April 21, 2008

پاکستان کا المیہ اور سیاستدانوں کا کردار تحریر سلطان محمود شاہین



حالیہ انتخابات کے بعد پاکستان میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر نئی حکومتیں وجود میں آچکی ہیں ۔ اور انہوں نے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اپنا کام شروع کر دیا ہے ۔ آئیے ذرا ہم اپنے آغازِ جمہوریت پر ایک نظر دوڑاتے ہیں ۔ جناب لیاقت بلوچ نے فرمایا کہ مشرف کے خلاف لوگوں کی نفرت ، شدت اور انتہا پسندی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ وکلاءکی قیادت بھی لوگوں کے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پا رہی کسی بڑے حادثے سے بچنے کے لئے افتخار چوہدری سمیت دیگر ججز کو بحال کر کے مشرف اقتدار چھوڑ دیں ۔ جناب عمران خان نے فرمایا کہ معزول ججز کی بحالی میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ججز کی عدم بحالی پر حکومت چند مہینے بھی نہ چل سکے گی ۔ اقتدار بچانے کے لئے پرویز مشرف کے ساتھ چلنے والی جماعت سیاسی خود کشی اور عوام سے غداری کرے گی ۔ جناب اعتزاز احسن نے فرمایا کہ شیر افگن پر تشدد کی سازش ایوانِ صدر میں تیار کی گئی ۔ جناب جاوید ہاشمی نے فرما یا کہ ایوانِ صدر میں وکلاءتحریک کو بدنام اور تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر شیر افگن سے بد سلوکی اس سازش کا حصہ ہے ۔ ان پر تشدد لال مسجد سے بڑا واقعہ نہیں ۔ مائنس ون کا فارمولا اب پرویز مشرف پر لاگو ہونا چاہیے ۔ ملک کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک صدر پرویز مشرف صدارت کے عہدے سے الگ نہیں ہو جاتے ۔ ملک میں ایسی طاقت موجود ہے جو جمہوریت کے سارے عمل کو سبو تاژ کر نا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شیر افگن کو گورنر اپنے ساتھ لیکر کیوں گئے ۔ میاں شہباز شریف نے رائے ونڈ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیرافگن پر تشدد کی سازش ایوانِ صدر میں تیار کی گئی۔ کراچی میں ہنگامے بھی اسی سازش کا حصہ ہیں ۔ جناب سعد رفیق اور صدیق الفاروق نے کہا کہ متحدہ نے اصل چہرہ دکھا دیا واقعات کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں ۔انہوں نے حکومت میں شمولیت کے لئے سخت پیغام دیا ۔ ہمیں پہلے ہی ان سے تحفظات تھے ۔متحدہ مجلس عمل کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ابھی انتخاب ہوا ہے انتقالِ اقتدار نہیں۔ کیوں کہ کبھی کسی آمر نے اپنے انتقالِ پُرملال سے پہلے انتقالِ اقتدار نہیں کیا ۔ اس لئے خدشہ ہے کہ ڈاکٹر ارباب رحیم اور ڈاکٹر شیر افگن کے مارپیٹ کے شارٹ کورسز کے بعد نئی نویلی جمہوریت کے راستے مسدُود ہو سکتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ منتخب لوگوں کی بجائے غیر منتخب کرداروں رحمن ملک، حسین حقانی اور سلمان فاروقی جیسے افراد کو مُسلط کیا جارہا ہے یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر اسمبلی پانچ سال پورے کرتی نظر نہیں آتی ۔ راجہ پرویز اشرف کا بیا ن ہے کہ کالا باغ ڈیم یا وفاق میں سے کسی ایک کو چُننا پڑا تو وفاق کو ترجیح دیں گے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب دوست محمد کھوسہ نے اپنے حلف کے بعد فرمایا کہ وزیر اعلیٰ ہائوس کو خواتین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کا اعلان شہباز شریف نے 8کلب روڈ پرکیا تھا میں باقاعدہ اعلان کرتا ہوں کہ وزیر اعلیٰ ہائوس کو خواتین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ کی بُلّٹ پروف گاڑیاں نیلام کر کے رقم پبلک ٹرانسپورٹ پر خرچ کریں گے ۔ عوام پر ظلم کرنے والے جمہوریت دشمن سابق حکمران جلد انجام کو پہنچنے والے ہیں ۔آمریت کے مکمل خاتمہ تک احتجاج جاری رکھیں گے ۔ ان بیانات کی روشنی میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو بھی نئی حکومت آتی ہے اسے موجودہ تمام بحران ورثے میں ملتے ہیں ۔ لیکن وہ انھیں حل کرنے کی بجائے اس کا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر خود کو ایڈہاک ازم پر چلانا شروع کر دیتی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کہاں تک جا کر رکے گا ۔ خواتین یونیورسٹی کا قیام ایک مستحسن فیصلہ ہے لیکن اس کے لئے مخصوص کردہ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ بلڈنگ بہت ہی ناکافی ہے ۔ اس کے لئے ایک وسیع و عریض رقبے کی ضرورت ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس فیصلہ کے ذریعے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پر غیر ضروری اخراجات کے الزامات عائد کر کے سابقہ حکمرانوں کو سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھانا مقصود ہو ۔ بہر حال ایسے اقدامات کے لئے اس کے دور رس مضمرات کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے سانحہ کراچی کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔درج بالا امو ر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا یہ پاکستان اور اس کے غریب عوام کے لئے المیہ نہیں ہے کہ انہیں کے نام پر مُلک میں سیاست کھیلی جاتی ہے جب کہ عوام کا اس میں ذرا برابر ہاتھ نہیں ہوتا ۔ اور اس سے بڑا ظلمِ عظیم یہ ہے کہ قوم ، ملک ، فوج اور سیاستدانوں کی تقدیر کے فیصلے بھی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جو فی الحال پارلیمنٹ سے باہر ہوتے ہیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم ججز کی بحالی کے سلسلے میں ابھی تک عوام الناس اور سیاستدانوں کو بھی قائل نہیں کر سکے اور یہ تحریک تا حال وکلاءتک ہی پوری جانفشانی سے چل رہی ہے ورنہ کیا مجا ل تھی کہ ابھی تک معزول ججز بحال نہ ہوتے ۔ آخر اس رکاوٹ کی وجوہات تلاش کر کے اُنہیں دور کیوں نہیں کیا جاتا ۔ جناب جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا بیان ہے کہ پیپلز پارٹی کو بے نظیر بھٹو کی شہادت اور نواز شریف کو ججز کی بحالی کے نعرے پر ووٹ ملے انہیں ہر صورت عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے ۔ جناب علی احمد کرد کا بیا ن ہے کہ وکلاءسے ٹکرانے کی صور ت میں دما دم مست قلندر ہو گا ۔ عوامی انقلاب کی قوت ایٹم بم سے بھی زیادہ ہے ۔ ایم کیو ایم سمیت کسی سیاسی جماعت سے نہیں ڈرتے ۔ معزول ججز کی بحالی کا کائونٹ ڈائون 31مارچ سے شروع ہو چکا ہے ۔ ان بیانا ت کی روشنی میں یہی عرض ہے کہ عوام کو تو فی الحال اپنے روٹی ،دال اور بجلی کی آنکھ مچولی سے جان چھڑانے کی پڑی ہوئی ہے ۔ ملتان کے حالیہ واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ججز کے معاملات کی سطح تک ان کے پہنچ ہی نہیں ہے ۔، ہماری وکلاءبرادری میں بھی صرف چند قانون دان ایسے ہیں جو دھونس ، دھمکیوں اور بلیک میلنگ کی سیاست کے ذریعے حکومت سے عدلیہ کا بحران حل کرانا چاہتے ہیں ۔اور ایسے لگتا ہے جیسے یہ لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر ہر صورت میں مرنے مارنے پر تیار ہو گئے ہیں ۔یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیا ہمارے ضمیر مردہ ہوگئے ہیں کیا ہم صرف نام نہاد مسلمان رہ گئےہیں جو صرف اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں لیکن فکرو سوچ کے میدان میں کوئی تخلیقی کوئی تعمیری کام نہیں کرنا چاہتے ۔ اور سابقہ زیر تعمیر ڈھانچے کو بھی گرا کر اس کے ملبے پر اپنی سیاست کی نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ افسوس ہے ایسی زندگی پر جسے ہم نے خود غرضی کی بھینٹ چڑھا کر دُنیا کی دُھول میں گم کر دیا اور آخرت کی ہمیشہ کی ناکامی خود پر مسلط کر لی ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "کل فی فلک "جس کا ترجمہ ہے ہر شے اپنے محور پر تیرتی ہے محور ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غور کیا جائے تو مذکورہ آیت مبارک اپنے معنی و مفہوم کے ساتھ ساتھ حروف کے اعتبار سے بھی اپنے محور پر تیر رہی ہے یا گردش کر رہی ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دُنیا کا ہر شخص اور ہر شے اپنے محور کے گرد عمل و کردار کا سرکل مکمل کر کے واپس اُسی نکتے پر آن ٹھہرتا ہے ۔قرآن حکیم ایک ایسی محکم کتا ب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے دنیا کے بیشتر کلام جھوٹ ہو سکتے ہیں بڑے سے بڑے سربراہ یا دانشور کا قول بھی جھوٹ ہو سکتا ہے لیکن فرمانِ باری تعالیٰ میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ ہمارا اجتماعی قومی المیہ ہے کہ ہم اپنے سابقہ کردارو عمل سے سبق حاصل کرنے کی بجائے پھر سے وہی غلطیاں دہرانی شروع کر دیتے ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رسی کھنچ کر ہمیں کچھ وقت کے لئے پسِ منظر میں دھکیل دیا تھا ۔ جب ہمیں دوبارہ وہی غلطیاں دہرانے کی پاداش میں سخت سزا ملتی ہے تو پھر ہم ضبط و تحمل اور قرارو اطیمنان کے تمام دائروں سے باہر نکل جاتے ہیں ۔ جبکہ بنظر خلوص و محبت دیکھا جا ے تو ملک کے تمام ادارے پارلیمنٹ، فوج، عدلیہ ، سول سرونٹس ، صحافت ،ایوان صدر۔ ایوان وزیر آعظم اور اہم شخصیات نہایت ہی محترم و مکرم ہوتے ہیں صرف ان اداروں اور انہیں چلانے والوں کی آبرومندانہ اصلاح کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے ۔ قدرت جب ہمیں موقع دے تو کیا ہم خود اپنا احتساب نہیں کر سکتے کہ ماضی میں کن وجوہات کی بنا پر ہم اللہ تعالیٰ کی بے آوازلا ٹھی کی زد میں آگئے ۔ کیا ہم نہیں سوچ سکتے کہ جب ہم بے بسی کی حالت میں ہوتے ہیں تو ہمارا تمام غرور و تکبر اور شان و شوکت خاک میں مِل جاتے ہیں اور ہم دوبارہ سے بر سر اقتدار آنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں عوام کو بے وقوف بناتے ہیں ۔ دوسرے ممالک کے بڑے بڑوں سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں ۔ اور دوبارہ بر سر اقتدار آکر اپنا پُرانا کھیل دوبارہ شروع کر دیتے ہیں ہم اپنے اللہ اور رسول کا نام رسماً یا مجبوراً لیتے ہیں لیکن حقیقتاً ہم اُن کو بھول چکے ہوتے ہیں ۔ اور پھر اپنے مُردہ ضمیروں کے ساتھ اپنے عمل و کردار کے ذریعہ اپنے ملک اور اس کی عوام کو صدیوں کی پستی میں دھکیل دیتے ہیں اور اس طرح اپنے مکافاتِ عمل کا پھل چکھنا پڑتا ہے ۔ صدیوں سے کائنات کا نظام ایک خاص حکمت کے تحت اپنے محور پر روں دواں ہے ۔ آخر ہم کیوں غور و فکر سے کام نہیں لیتے ۔ کیا یہ ایک حقیققت نہیں ہے کہ ہم نے ساٹھ سال میں ملک و قوم کو ترقی کے بام عروج پر لے جانے کی بجائے اسے آمریت اور مارشل لاءکے تحفے دیئے ہیں ۔ کون فیصلہ کرے گا کہ فو ج کو خود آنے یا لانے میں کس کا قصور ہے ۔ کیا ہمارے سیاست دانوں نے اپنی غلطیوں کی بنا پر اس کے لئے راستہ فراہم نہیں کیا ۔ کیا اس میں ہماری اپنی خود غرضیاں ، اقربا پروری ، لاقانونیت ، عدم برداشت اور مخالفین کو اوچھے ہتھکنڈوں سے کچلنے کا عنصر شامل نہیں تھا ۔ آخر کیا وجہ ہے ہر نئی آنے والی حکومت اپنے پیش رو کے تمام اچھے منصوبوں اور کاموں میں بھی سو طرح کے کیڑے نکا ل کر اُنہیں بہ یک جنبش قلم لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیتی ہے ۔ اور سابقہ حکومت پر خزانے کے ضیاع کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتی ہے ۔ پھر نئے پانچ سالہ ، دس سالہ اور بیس سالہ کاغذی منصوبے بنائے جاتے ہیں اور ان پر اپنے ناموں کی تختیاں لگا کر نئے سرے سے خزانے کو خرچ کر نا شروع کر دیتے ہیں ۔ آخرقوم و ملک کے ساتھ یہ آنکھ مچولی کب ختم ہو گی ۔ جب ہم برسراقتدار آکر اپنے پیش رو کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کرتے ہیں اور جانے والی حکومت کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہیں ہر فورم پر ذلیل و رسوا کرتے ہیں تو کیا ہم دنیا میں اپنے ملک اور قوم کانام روشن کر رہے ہوتے ہیں ۔ جب ہم اپنے ہر سابقہ حکمران سے بُرا سلوک کرتے ہیں تو دنیا والے ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں ۔ کیا ہم نے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ابھی بھی سبق نہیں سیکھا ۔ کیا ہم ابھی بھی جمہوریت کو توانا کرنے کی بجائے آمریت کے راستے ہموار کریں گے کیا ہمارے اندر جوشِ انتقام ٹھنڈا نہیں ہو سکتا کیا ہم برسر اقتدار آکر دوبارہ سے پھر خدا بن گئے ہیں کیا ہمارے اندر برداشت اور معاف کر دینے کا عنصر مفقود ہو چکا ہے یاد رکھو حکمرانو ، سیاست دانو اور قانون دانو عوام کے مینڈیٹ کا صحیح استعمال کرو۔ اگر ابھی بھی آپس میں لڑتے رہے اور ملک و قوم کا کچھ نہ سوچا اور اسی طرح اپنی انا ،غروراورتکبر میں سب کچھ تہس نہس کر دیا تودوبارہ تمہیں موقع نہیں دیا جائیگا اور تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانو ں میں ۔ (sms786bs@gmail.com)

No comments: