پاکستان کو اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے دیانت دار لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ حکمرانوںکو ملک کو درپیش مشکلات پر پوری توجہ دینی چاہئے عوام کی جوحالت ہے اس سے لگ یہ رہا ہے کہ اس وقت کوئی انچارج نہیں ہے اگر کوئی انچارج ہوتا تو جو بجٹ پیش کیا گیا وہ کچھ دوسری قسم کا ہوتا اور اس میں موجودہ مسائل کو پیش نظر بھی رکھتا اور ماضی کی طرف بھی نظر رکھتا۔ قیمتیں صرف ان چیزوں کی بڑھی ہیں جو غریب زیادہ استعمال کرتے ہیں جس میں خوراک اور مٹی کا تیل شامل ہیں۔ ریاست نام کی چیز ناپید ہوتی جارہی ہے۔ اگرچہ بہت سے مسائل حکومت کو ورثے میں بھی ملے، لیکن اگر دونوں بڑی اتحادی جماعتیں مستقل رابطے میں رہتیں اور جو ایجنڈا انہوں نے اپنے ذہن میں بنایا تھا اس پر عمل درآمد کرتیں تو مسائل کو حل کرنا نسبتا آسان ہوجاتا۔ وزراءپر غیر ضروری دباو¿، ایک ایک وزیر کے پاس کئی کئی محکمے اور قیادت کی مختلف سوچ بھی اس صورتحال کو گمبھیر بنانے میں کردار ادا کر رہی ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف ملک سے باہر ہیں اور اہم فیصلے بیرون ملک ہورہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہماری قیادت یکجا ہوکر اتفاق رائے اور خلوص دل سے عوامی مسائل حل کرے۔ جبکہ پاکستان کی جمہوری حکومت کا مقصد ملک سے غربت کا خاتمہ ہے اور اس ضمن میں ملک کو امن کا گہوارہ اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ بنانا ہوگا۔لبرل مارکیٹ کے ذریعے خصوصی اکنامک زون ، غیر ملکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کیلئے خصوصی مراعات د ینا ہوگا۔ ویسے بھی خطے میں پاکستان سے زیادہ مراعات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کوئی ملک نہیں دے رہا، جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا ہے کہ ڈی ایٹ ممالک کیلئے پاکستان کی افرادی قوت حاضر ہے، ہم نے پاکستان سے دہشت گردی، انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کے لئے خصوصی پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے، ہم پوری انسانیت کی بقاءکیلئے کام کر رہے ہیں، عالمی برادری ہماری مدد کرے، جنوبی ایشیا میں پائیدر امن کے لئے تنازعات کے پرامن حل کے میکانزم کو فوری اپنانا ہو گا، پاکستان پورے خطے کے لئے توانائی و تجارت کی گزر گاہ اور محور بن سکتا ہے۔ ڈی ایٹ ممالک کے مابین اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دے کر ہمیں خوشی ہو گی ترجیحی تجارت کے معاہدے، کسٹم کے معاملات میں باہمی امداد اور ممبر ملکوں کے بزنس مینوں کے لئے ویزوں کے آسانی سے اجراء کے معاہدے درست سمت اقدام ہے، ڈی ایٹ سیکرٹریٹ کو ضروری وسائل افرادی قوت مہیا کرنا ہو گی ہم سیکرٹری جنرل اور سیکرٹریٹ کی کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ڈی ایٹ کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کا اشتراک عمل باعث اطمینان ہے۔ سربراہی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر بزنس فورم کے انعقاد سے تجارت، سرمایہ کاری میں تعاون بڑھے گا بائیو ٹیکنالوجی، حلال انڈسٹری، قابل تجدید توانائی قابل تعریف ہے، انہوں نے کہا کہ میری حکومت کی اولین ترجیح عوام کے مسائل حل کرنا اور اقتصادی اصلاحات لانا ہے، پاکستانی معیشت ہر قسم کے حالات میں آگے بڑھی ہے ہم شرح نمو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں تاجروں، بزنس مینوں کو کافی مواقع فراہم کریں گے۔ سماجی و معاشی ترقی کے لئے امن و استحکام ناگزیر ہے بھارت کے ساتھ ڈائیلاگ میں حالیہ برسوں میں مثبت ترقی ہوئی ہے ہم تمام متنازعہ امور کا پرامن حل چاہتے ہیں جس میں بنیادی تنازعہ کشمیر شامل ہے کشمری عوام کی امنگوں کے مطابق یہ مسئلہ حل کیا جائے گا۔ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا عزم رکھتا ہے ہمیں تنازعوں کی مینجمنٹ سے آگے بڑھ کر تنازعوں کو حل کر کے پائیدار امن سکیورٹی جنوبی ایشیا میں قائم کرنا ہو گی۔ کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے گزشتہ روز کابل میں ہونے والے خودکش حملہ میں پاکستان کی کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے ملوث ہونے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مضبوط اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان خود انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ افغانستان کے ساتھ طویل مشترکہ سرحد ہونے کے باعث پاکستان کو بے پناہ دباو کا سامنا ہے، پاکستان آخری آپشن کے طور پر طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اپنی رہنما بینظیر بھٹو بھی دہشت گردی کا شکار ہوئیں اس لئے ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت سے نمٹنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔انہوں نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ کابل اور اسلام آباد کے حالیہ حملے صوبہ سرحد میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ سرحد پار شدت پسندوں کی آمدورفت روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ دو ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر مکمل نظر رکھنا مشکل ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملہ کی تحقیقات کا حکم دیدیا گیا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا۔ ڈی ایٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تنظیم کی پہلی اور اولین ترجیح رکن ممالک کے درمیان تجارت کا فروغ ہونا چاہئے، تنظیم کا مستقبل امداد میں نہیں بلکہ تجارت میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام ممالک تینوں معاہدوں پر جلد عمل درآمد کریں گے جن کا مقصد تجارت کو فروغ دینا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں ضافہ روکنا تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن غذائی قیمتوں میں بین الاقوامی اضافہ روکنے کیلئے پاکستان نے ملک کے اندر غذائی اجناس وافر پیدا کرنے کا پلان تیار کیا ہے، حکومت نے دہشتگردی کے قلع قمع کیلئے سہ نکاتی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ہم پاکستان میں دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے جو قبائل ہتھیار ڈال دیں گے صرف ان سے امن معاہدے ہونگے۔ دوسرے ہم فاٹا میں اقتصادی سماجی ترقی کیلئے بھاری رقوم خرچ کریں گے تیسرے یہ کہ اگر یہ دو طریقہ کارگر ثابت نہ ہوئے دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہا تو پر اس صورت میں ملٹری ایکشن کیا جائے گا۔آٹھ ترقی پذیر ممالک (ڈی ایٹ) کی چھٹی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر باہمی تعاون کے ذریعے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے 25 نکاتی ”کوالا لمپور اعلامیہ“ جاری کیا گیا جس کے تحت افرادی قوت کے باہمی تبادلے کے ذریعے غربت کے خاتمے اور اسلامی بینکاری اور فنانس کو فروغ دینے اور حلال انڈسٹری کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ عالمی سطح پر حلال اشیائے خوردنی کی بڑی طلب ہے، ڈی ایٹ ممالک حلال انڈسٹری کو فروغ دیں گے۔ حلال ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے انٹرنیشنل حلال انٹیگریٹی الائنس، ملائیشیا ٹیکنیکل کارپوریشن پروگرام ،حلال ٹریننگ پروگرام کے ذریعے حلال انڈسٹری کو ڈی ایٹ ممالک فروغ دیں گے۔ حلال ٹریننگ پروگرام شروع کریں گے ڈی ایٹ ممالک کے مابین اسلامی بینکاری، اسلامی مالیات کو فروغ دیا جائیگا۔ اعلامیہ کے مطابق ڈی ایٹ گروپ کی ساتویں سربراہ کانفرنس جون 2010 میں نائیجریا میں ہوگی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش ، انڈیشیا، ایران، ملائیشیا، نایئجیریا ،پاکستان اور ترکی کے سربراہان اور وفود کے سربراہانے اعلامیہ استنبول (1997) اعلامیہ ڈھاکہ(1999) اعلامیہ قاہرہ(2001) اعلامیہ تہران(2004) اور اعلامیہ بالی2006 میں متفقہ مقاصد منازل حاصل کرنے کیلئے تمام کاوشیں کرنے کا عزم کیا تمام ممالک نے باہمی احترام یکجہتی ، امن وسماجی واقتصادی تعاون ضبط وتحمل کے فروغ کا عزم کیا۔ کوالالمپور سربراہ کانفرنس ڈی ایٹ میں تعاون کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ اس کی دس سالہ روڈ میپ اور دوسری بنیادی دستاویزات سے تعاون یکجہتی بڑھے گی ۔ عالمی فورم پر ڈی ایٹ ممالک مشترکہ موقف اختیارکریں گے، باہمی تعاون مشاورت بڑھائیں گے، ترقی پذیر ممالک کے مفادات کا تحفظ کریں گے، عالمی چیلنجوں سے متنوع تعاون کیساتھ نمٹنے کیلئے کوششیں دوچند کریں گے اور ترقی پذیر ممالک عالمی معیشت میں مربوط کردار ادا کریں گے۔ 8 ممالک کے سربراہوں نے انٹرنیشنل فنانشل اینڈ ٹریڈ سکیم کو بین الاقوامی تعاون کا اہم ایریا قرار دیا اور کہا کہ منصفانہ شفاف انداز میں ترقی پذیر ممالک کے اختلافات دور کرنے ہوں گے۔ ڈبلیو ٹی او جیسے بین الاقوامی اداروں اور عالمی معیشت سے ترقی پذیر ممالک مربوط انداز میں فائدہ اٹھائیں گے۔ خوراک کی اشیاءاور تیل کی قیمتوں میں تیزرفتار اضافے پر سربراہوں نے تشویش کااظہار کیا اور کہا کہ اس سے عالمی سطح پر سماجی معاشی استحکام کو خطرات لاحق ہوں گے۔ سربراہوں نے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ نجی شعبے میں مشترکہ وینچرز شروع کرنے کا عزم کیا زرعی ترقی کی اشیاءکی تجارت پر پابندیاں نرم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تاکہ مختصر میڈیم اور طویل المعیار عرصے کیلئے خوراک کی پیداوار بڑھائی جاسکے ۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش کی ڈی ایٹ فوڈ فنڈقائم کرنے کی تجویز کو نوٹ کیا گیا اور کمیشن کو اس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی سربراہوں نے توانائی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی عالم قیمتوں میں بے حد اضافے پر ڈی ایٹ ممالک کو ازحد تشویش ہے اس مسئلے کو عالمی سطح پر جلد سے جلد حل کرناہوگا ۔ توانائی کے شعبے میں جاری کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے سربراہوں نے کہاکہ انرجی کی پیداوار میں اضافے کیلئے کاوشیں تیز کردی جائیں گی۔ جبکہ جاپان کے صوبے ہکائیڈو کے پرفضا مقام تویا میں منعقد ہونے والی دنیا کے آٹھ امیر ترین ممالک کی تنظیم جی ایٹ کی سربراہ کانفرنس کے دوسرے روز رکن ممالک نے غریب افریقی ممالک کی امداد 2010ء تک دوگنی کرنے،تیل اور غذائی اشیاءکی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے اور 2050ء تک گرین ہاوس گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں پچاس فیصد کمی کرنے کے لئے مشترکہ اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے،گرین ہاوس گیسز پیدا کرنے والے اہم ممالک برازیل، بھارت، چین اور روس پر گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ میں جی ایٹ کا ساتھ دینے پر زور دیا گیا،دنیا سے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ اقدامات پر غورکیا گیا،اس موقع پر عالمی بینک کے صدر رابرٹ ڈوئنگ نے کہا کہ امریکا اور یورپی یونین میں بائیو فیول کی تیاری خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے،امیر ممالک کو چاہیے کہ وہ بھوک کے شکارافراد کے لئے زیادہ سے زیادہ خوراک مہیاکریں،اس دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے غیر سرکاری تنظیموں نے امیر ترین ممالک کے خلاف اپنے مظاہرے جاری رکھے اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔جاپان میں جاری جی ایٹ اجلاس میں شریک عالمی رہنما غریب افریقی ممالک کی امداد 2010ء تک دگنی کرنے،تیل اور غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے اور 2050ء تک گرین ہاوس گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں پچاس فیصد کمی کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں ۔ گزشتہ برس جی ایٹ اجلاس کے دوران گروپ میں شامل ممالک نے سن 2050ء تک کاربن اخراج میں پچاس فیصد کمی لانے اور سنجیدگی سے غور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کاربن اخراج میں کمی کرنے کا اعلان پہلے جاپان کے وزیراعظم پاسوو¿فکودا نے جاپانی جزیرے ہوکائدو میں جاری اجلاس کے دوسرے دن کیا۔اس مشترکہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ جی ایٹ ممالک اس حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کے کنونشن پردستخط کرنے والے اقوام متحدہ کے دیگر دوسو رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ 2050ء تک گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج کو نصف کیا جاسکے۔ جاپانی وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چین اور بھارت سے گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے تعاون کی اپیل کریں گے۔ کانفرنس میں شریک سربراہان نے حالیہ مہینوں میں تیل اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس میں شریک عالمی رہنما بایوفیول کے مسئلے پر بھی بحث کریں گے کیونکہ بایوفیول کے لئے فصلوں کی پیداوار کو عالمی پیمانے پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ جی ایٹ مما لک کو خوردونوش کی اشیاءکی قیمتوں پر کنٹرول اور ماحول کے تحفظ کیلئے مربوط کوششیں کرنا ہو نگی اور غریب ملکوں کے ساتھ امداد کے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ امیر ممالک میں بایوفیول کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی ضروری ہے۔ اور ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے وہ بھوک کا شکار افراد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ خوراک مہیاکریں۔ امریکا اور یورپی یونین میں مکئی اور بنولے سے تیار کئے جانے والے ایندھن کو خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اے پی ایس
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, July 9, 2008
جی ایٹ ،ڈی ایٹ اور بھوک کا شکار افراد ۔۔ تحریر : اے پی ایس
پاکستان کو اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے، جن سے نمٹنے کے لیے دیانت دار لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ حکمرانوںکو ملک کو درپیش مشکلات پر پوری توجہ دینی چاہئے عوام کی جوحالت ہے اس سے لگ یہ رہا ہے کہ اس وقت کوئی انچارج نہیں ہے اگر کوئی انچارج ہوتا تو جو بجٹ پیش کیا گیا وہ کچھ دوسری قسم کا ہوتا اور اس میں موجودہ مسائل کو پیش نظر بھی رکھتا اور ماضی کی طرف بھی نظر رکھتا۔ قیمتیں صرف ان چیزوں کی بڑھی ہیں جو غریب زیادہ استعمال کرتے ہیں جس میں خوراک اور مٹی کا تیل شامل ہیں۔ ریاست نام کی چیز ناپید ہوتی جارہی ہے۔ اگرچہ بہت سے مسائل حکومت کو ورثے میں بھی ملے، لیکن اگر دونوں بڑی اتحادی جماعتیں مستقل رابطے میں رہتیں اور جو ایجنڈا انہوں نے اپنے ذہن میں بنایا تھا اس پر عمل درآمد کرتیں تو مسائل کو حل کرنا نسبتا آسان ہوجاتا۔ وزراءپر غیر ضروری دباو¿، ایک ایک وزیر کے پاس کئی کئی محکمے اور قیادت کی مختلف سوچ بھی اس صورتحال کو گمبھیر بنانے میں کردار ادا کر رہی ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف ملک سے باہر ہیں اور اہم فیصلے بیرون ملک ہورہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہماری قیادت یکجا ہوکر اتفاق رائے اور خلوص دل سے عوامی مسائل حل کرے۔ جبکہ پاکستان کی جمہوری حکومت کا مقصد ملک سے غربت کا خاتمہ ہے اور اس ضمن میں ملک کو امن کا گہوارہ اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ بنانا ہوگا۔لبرل مارکیٹ کے ذریعے خصوصی اکنامک زون ، غیر ملکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کیلئے خصوصی مراعات د ینا ہوگا۔ ویسے بھی خطے میں پاکستان سے زیادہ مراعات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کوئی ملک نہیں دے رہا، جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا ہے کہ ڈی ایٹ ممالک کیلئے پاکستان کی افرادی قوت حاضر ہے، ہم نے پاکستان سے دہشت گردی، انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کے لئے خصوصی پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے، ہم پوری انسانیت کی بقاءکیلئے کام کر رہے ہیں، عالمی برادری ہماری مدد کرے، جنوبی ایشیا میں پائیدر امن کے لئے تنازعات کے پرامن حل کے میکانزم کو فوری اپنانا ہو گا، پاکستان پورے خطے کے لئے توانائی و تجارت کی گزر گاہ اور محور بن سکتا ہے۔ ڈی ایٹ ممالک کے مابین اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دے کر ہمیں خوشی ہو گی ترجیحی تجارت کے معاہدے، کسٹم کے معاملات میں باہمی امداد اور ممبر ملکوں کے بزنس مینوں کے لئے ویزوں کے آسانی سے اجراء کے معاہدے درست سمت اقدام ہے، ڈی ایٹ سیکرٹریٹ کو ضروری وسائل افرادی قوت مہیا کرنا ہو گی ہم سیکرٹری جنرل اور سیکرٹریٹ کی کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ڈی ایٹ کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کا اشتراک عمل باعث اطمینان ہے۔ سربراہی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر بزنس فورم کے انعقاد سے تجارت، سرمایہ کاری میں تعاون بڑھے گا بائیو ٹیکنالوجی، حلال انڈسٹری، قابل تجدید توانائی قابل تعریف ہے، انہوں نے کہا کہ میری حکومت کی اولین ترجیح عوام کے مسائل حل کرنا اور اقتصادی اصلاحات لانا ہے، پاکستانی معیشت ہر قسم کے حالات میں آگے بڑھی ہے ہم شرح نمو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں تاجروں، بزنس مینوں کو کافی مواقع فراہم کریں گے۔ سماجی و معاشی ترقی کے لئے امن و استحکام ناگزیر ہے بھارت کے ساتھ ڈائیلاگ میں حالیہ برسوں میں مثبت ترقی ہوئی ہے ہم تمام متنازعہ امور کا پرامن حل چاہتے ہیں جس میں بنیادی تنازعہ کشمیر شامل ہے کشمری عوام کی امنگوں کے مطابق یہ مسئلہ حل کیا جائے گا۔ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا عزم رکھتا ہے ہمیں تنازعوں کی مینجمنٹ سے آگے بڑھ کر تنازعوں کو حل کر کے پائیدار امن سکیورٹی جنوبی ایشیا میں قائم کرنا ہو گی۔ کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے گزشتہ روز کابل میں ہونے والے خودکش حملہ میں پاکستان کی کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے ملوث ہونے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مضبوط اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان خود انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ افغانستان کے ساتھ طویل مشترکہ سرحد ہونے کے باعث پاکستان کو بے پناہ دباو کا سامنا ہے، پاکستان آخری آپشن کے طور پر طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اپنی رہنما بینظیر بھٹو بھی دہشت گردی کا شکار ہوئیں اس لئے ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت سے نمٹنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔انہوں نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ کابل اور اسلام آباد کے حالیہ حملے صوبہ سرحد میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ سرحد پار شدت پسندوں کی آمدورفت روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ دو ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر مکمل نظر رکھنا مشکل ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملہ کی تحقیقات کا حکم دیدیا گیا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکے گا۔ ڈی ایٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تنظیم کی پہلی اور اولین ترجیح رکن ممالک کے درمیان تجارت کا فروغ ہونا چاہئے، تنظیم کا مستقبل امداد میں نہیں بلکہ تجارت میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام ممالک تینوں معاہدوں پر جلد عمل درآمد کریں گے جن کا مقصد تجارت کو فروغ دینا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں ضافہ روکنا تو ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن غذائی قیمتوں میں بین الاقوامی اضافہ روکنے کیلئے پاکستان نے ملک کے اندر غذائی اجناس وافر پیدا کرنے کا پلان تیار کیا ہے، حکومت نے دہشتگردی کے قلع قمع کیلئے سہ نکاتی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ ہم پاکستان میں دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے جو قبائل ہتھیار ڈال دیں گے صرف ان سے امن معاہدے ہونگے۔ دوسرے ہم فاٹا میں اقتصادی سماجی ترقی کیلئے بھاری رقوم خرچ کریں گے تیسرے یہ کہ اگر یہ دو طریقہ کارگر ثابت نہ ہوئے دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہا تو پر اس صورت میں ملٹری ایکشن کیا جائے گا۔آٹھ ترقی پذیر ممالک (ڈی ایٹ) کی چھٹی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر باہمی تعاون کے ذریعے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے 25 نکاتی ”کوالا لمپور اعلامیہ“ جاری کیا گیا جس کے تحت افرادی قوت کے باہمی تبادلے کے ذریعے غربت کے خاتمے اور اسلامی بینکاری اور فنانس کو فروغ دینے اور حلال انڈسٹری کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ عالمی سطح پر حلال اشیائے خوردنی کی بڑی طلب ہے، ڈی ایٹ ممالک حلال انڈسٹری کو فروغ دیں گے۔ حلال ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ذریعے انٹرنیشنل حلال انٹیگریٹی الائنس، ملائیشیا ٹیکنیکل کارپوریشن پروگرام ،حلال ٹریننگ پروگرام کے ذریعے حلال انڈسٹری کو ڈی ایٹ ممالک فروغ دیں گے۔ حلال ٹریننگ پروگرام شروع کریں گے ڈی ایٹ ممالک کے مابین اسلامی بینکاری، اسلامی مالیات کو فروغ دیا جائیگا۔ اعلامیہ کے مطابق ڈی ایٹ گروپ کی ساتویں سربراہ کانفرنس جون 2010 میں نائیجریا میں ہوگی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش ، انڈیشیا، ایران، ملائیشیا، نایئجیریا ،پاکستان اور ترکی کے سربراہان اور وفود کے سربراہانے اعلامیہ استنبول (1997) اعلامیہ ڈھاکہ(1999) اعلامیہ قاہرہ(2001) اعلامیہ تہران(2004) اور اعلامیہ بالی2006 میں متفقہ مقاصد منازل حاصل کرنے کیلئے تمام کاوشیں کرنے کا عزم کیا تمام ممالک نے باہمی احترام یکجہتی ، امن وسماجی واقتصادی تعاون ضبط وتحمل کے فروغ کا عزم کیا۔ کوالالمپور سربراہ کانفرنس ڈی ایٹ میں تعاون کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ اس کی دس سالہ روڈ میپ اور دوسری بنیادی دستاویزات سے تعاون یکجہتی بڑھے گی ۔ عالمی فورم پر ڈی ایٹ ممالک مشترکہ موقف اختیارکریں گے، باہمی تعاون مشاورت بڑھائیں گے، ترقی پذیر ممالک کے مفادات کا تحفظ کریں گے، عالمی چیلنجوں سے متنوع تعاون کیساتھ نمٹنے کیلئے کوششیں دوچند کریں گے اور ترقی پذیر ممالک عالمی معیشت میں مربوط کردار ادا کریں گے۔ 8 ممالک کے سربراہوں نے انٹرنیشنل فنانشل اینڈ ٹریڈ سکیم کو بین الاقوامی تعاون کا اہم ایریا قرار دیا اور کہا کہ منصفانہ شفاف انداز میں ترقی پذیر ممالک کے اختلافات دور کرنے ہوں گے۔ ڈبلیو ٹی او جیسے بین الاقوامی اداروں اور عالمی معیشت سے ترقی پذیر ممالک مربوط انداز میں فائدہ اٹھائیں گے۔ خوراک کی اشیاءاور تیل کی قیمتوں میں تیزرفتار اضافے پر سربراہوں نے تشویش کااظہار کیا اور کہا کہ اس سے عالمی سطح پر سماجی معاشی استحکام کو خطرات لاحق ہوں گے۔ سربراہوں نے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ نجی شعبے میں مشترکہ وینچرز شروع کرنے کا عزم کیا زرعی ترقی کی اشیاءکی تجارت پر پابندیاں نرم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تاکہ مختصر میڈیم اور طویل المعیار عرصے کیلئے خوراک کی پیداوار بڑھائی جاسکے ۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش کی ڈی ایٹ فوڈ فنڈقائم کرنے کی تجویز کو نوٹ کیا گیا اور کمیشن کو اس کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی سربراہوں نے توانائی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے کہا کہ تیل کی عالم قیمتوں میں بے حد اضافے پر ڈی ایٹ ممالک کو ازحد تشویش ہے اس مسئلے کو عالمی سطح پر جلد سے جلد حل کرناہوگا ۔ توانائی کے شعبے میں جاری کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے سربراہوں نے کہاکہ انرجی کی پیداوار میں اضافے کیلئے کاوشیں تیز کردی جائیں گی۔ جبکہ جاپان کے صوبے ہکائیڈو کے پرفضا مقام تویا میں منعقد ہونے والی دنیا کے آٹھ امیر ترین ممالک کی تنظیم جی ایٹ کی سربراہ کانفرنس کے دوسرے روز رکن ممالک نے غریب افریقی ممالک کی امداد 2010ء تک دوگنی کرنے،تیل اور غذائی اشیاءکی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے اور 2050ء تک گرین ہاوس گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں پچاس فیصد کمی کرنے کے لئے مشترکہ اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے،گرین ہاوس گیسز پیدا کرنے والے اہم ممالک برازیل، بھارت، چین اور روس پر گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ میں جی ایٹ کا ساتھ دینے پر زور دیا گیا،دنیا سے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ اقدامات پر غورکیا گیا،اس موقع پر عالمی بینک کے صدر رابرٹ ڈوئنگ نے کہا کہ امریکا اور یورپی یونین میں بائیو فیول کی تیاری خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے،امیر ممالک کو چاہیے کہ وہ بھوک کے شکارافراد کے لئے زیادہ سے زیادہ خوراک مہیاکریں،اس دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے غیر سرکاری تنظیموں نے امیر ترین ممالک کے خلاف اپنے مظاہرے جاری رکھے اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔جاپان میں جاری جی ایٹ اجلاس میں شریک عالمی رہنما غریب افریقی ممالک کی امداد 2010ء تک دگنی کرنے،تیل اور غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے اور 2050ء تک گرین ہاوس گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں پچاس فیصد کمی کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں ۔ گزشتہ برس جی ایٹ اجلاس کے دوران گروپ میں شامل ممالک نے سن 2050ء تک کاربن اخراج میں پچاس فیصد کمی لانے اور سنجیدگی سے غور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کاربن اخراج میں کمی کرنے کا اعلان پہلے جاپان کے وزیراعظم پاسوو¿فکودا نے جاپانی جزیرے ہوکائدو میں جاری اجلاس کے دوسرے دن کیا۔اس مشترکہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ جی ایٹ ممالک اس حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کے کنونشن پردستخط کرنے والے اقوام متحدہ کے دیگر دوسو رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ 2050ء تک گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج کو نصف کیا جاسکے۔ جاپانی وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چین اور بھارت سے گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے تعاون کی اپیل کریں گے۔ کانفرنس میں شریک سربراہان نے حالیہ مہینوں میں تیل اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس میں شریک عالمی رہنما بایوفیول کے مسئلے پر بھی بحث کریں گے کیونکہ بایوفیول کے لئے فصلوں کی پیداوار کو عالمی پیمانے پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ جی ایٹ مما لک کو خوردونوش کی اشیاءکی قیمتوں پر کنٹرول اور ماحول کے تحفظ کیلئے مربوط کوششیں کرنا ہو نگی اور غریب ملکوں کے ساتھ امداد کے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ امیر ممالک میں بایوفیول کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی ضروری ہے۔ اور ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے وہ بھوک کا شکار افراد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ خوراک مہیاکریں۔ امریکا اور یورپی یونین میں مکئی اور بنولے سے تیار کئے جانے والے ایندھن کو خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اے پی ایس
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment