International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, July 9, 2008
بھارت ، لوک سبھا میں عدد کا کھیل شروع
نئی دہلی ۔ بھارت امریکہ نیوکلیئر معاہدہ پر 50 ماہ پرانی یو پی اے حکومت کی باہر سے تائید سے دستبرداری کے بائیں بازو جماعتوں کے فیصلے کے ساتھ ہی لوک سبھا میں عدد کا کھیل ہو گیا ہے ۔ ایوان میں یوپی اے حکومت کی تائید کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد آنے والے دنوں میں سیاسی طریقہ کار کا فیصلہ کرے گی ۔ بایاں بازو صدر جمہوریہ پرتبھاپاٹل کو تائید سے دستبرداری کے فیصلے سے رسمی طور پر واقف کرائے گا ۔ بائیں بازو کی جانب سے تائید سے دستبرداری کے فیصلے کے فوری بعد سماج وادی پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے نیوکلیئر معاہدہ پر کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کی تائید کی اور لوک سبھا میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ میٹنگ اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ سماج وادی پارٹی کی کٹرحریف بی ایس پی ارکان پارلیمنٹ کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تاکہ پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی صورت میں یو پی اے حکومت کے خلاف انہیں ووٹ دینے کی ترغیب دی جا سکے ۔ سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نیوکلیئر معاہدہ کے مخالف ہیں ۔ بائیں بازو کے فیصلے کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے ۔ بائیں بازو جماعتیں سی پی ایم ( 43 ) ‘ سی پی آئی ( 10 ) ‘ آل انڈیا فارورڈ بلاک ( 3 ) ‘ ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی ( 3 ) اس طرح جملہ 59 ارکان پارلیمنٹ ہیں بی جے پی کے 130 ارکان پارلیمنٹ اور بی ایس پی کے ( 17 ) ارکان حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے اگرچہ کہ شیوسینا این ڈی اے کا حصہ ہے ۔ اس نے نیوکلیئر معاہدہ کی تائید کی ہے اس کے ( 12 ) ارکان پارلیمنٹ ہیں لیکن اس نے واضح کیا ہے کہ نیوکلیئر معاہدہ پر وہ این ڈی اے کے ساتھ ہے ۔ جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کے مخلوط اتحاد سے باہر نکلنے کے باعث یو پی اے کی تائید پر اس کا موقف واضح نہیں ہے ۔ ملائم سنگھ یادو زیر قیادت سماج وادی پارٹیکے ( 39 ) ارکان پارلیمنٹ لوک سبھا میں حکومت کی تائید کے لئے تیار ہیں ۔ اس طرح یو پی اے حکومت سادہ اکثریت حاصل کرنے کے قریب پہنچ سکتی ہے ۔ ( 543 ) رکنی لوک سبھا میں اسے اپنی بقاء کے لئے کم از کم 272 ارکان پارلیمنٹ کی تائید کی ضرورت ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment