واشنگٹن ۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا آٹھ سالہ دور اقتدار رواں سال نومبرمیں اختتام پذیر ہونے والاہے ۔ان کی پالیسیوں کو حامیوں نے ملک کے لیے سود مند جبکہ ناقدین نے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور عراق پر جارحیت سے دنیا بھر میں امریکہ کی مقبولیت میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جوکہ پیسہ کا ضیاع ہے’’ وائس آف امریکا ‘‘ کے مطابق ہر لیڈر جسے اپنے ملک کی قیادت کا اعزاز حاصل ہو اسکی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تاریخ میں اسے سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے۔ امریکی صدر جارج بش کا دورِ صدارت اختتام کے قریب ہے۔وائس آف امریکا نے وائٹ ہاوس میں صدر بش آٹھ سال میں اہم ترین شعبوں میں ان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹس کی ایک سیریز تیار کی ہے۔ اس سیریز کی پہلی رپورٹ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی سے متعلق ہے جس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ اپنے دورِ صدارت میں اس شعبے میں صدر بش کی کارکردگی کو کیسے یاد رکھا جائے گا۔ صدر بش کی خارجہ پالیسی کا ذکر آتے ہی سب سے پہلے ذہن میں عراق آتا ہے کیونکہ عراق کی جنگ کے باعث دنیا میں یہ تاثر عام ہوا کہ صدر بش خارجہ پالیسی کے اہم ترین جزو یعنی سفارتکاری اور مزاکرات کے بجائے طاقت کے استعمال پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ صدر بش کی خارجہ پالیسی کا دفاع کرنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ انھوں نے عراق کی جنگ سے پہلے سفارتکاری کو موقع دیا اور نہ صرف اقوامِ متحدہ سے قرارداد یں منظور ہونے کا انتظار کیا بلکہ برطانیہ، آسٹریلیا، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک پر مشتمل عالمی اتحاد بھی تشکیل دیا۔ لیکن صدر بش کے ناقدین خارجہ پالیسی کے میدان میں ان کی کارکردگی کو ایک سے دس کے اسکیل پر صفر سے بھی نیچے گردان رہے ہیں۔ جیسے کہ واشنگٹن کے کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے بینجمن فریڈمین۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ صدر بش کی خارجہ پالیسی تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس دور میں صرف اچھی بات یہ ہوئی کہ مزید ممالک پر بمباری نہیں کی گئی جیسے کہ ایران اور مجھے امید ہے کہ ایران کے خلاف جارحیت نہیں کی جائے گی۔ لیکن صدر بش کی عراق پالیسی سمیت دیگر اقدامات میں طاقت کے استعمال کا عنصر بہت نمایاں رہا ہے۔ صدر بش کی خارجہ پالیسی کی بدولت دنیا بھر میں امریکہ کی مقبولیت میں زبردست کمی آئی ہے۔ اور امریکہ کے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جو کہ پیسے کا ضیاع ہے اور دیگر ممالک کے لیے خوف کا باعث۔ اگرچہ صدر بش کے بارے میں اس قسم کی رائے بہت سے حلقوں میں پائی جاتی ہے لیکن کچھ حلقوں میں بش انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے لیے حمائت بھی موجود ہے۔ برائن ڈارلنگ کا تعلق ہیرٹیج فاونڈیشن نامی ایک تھنک ٹینک سے ہے۔ انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ صدر بش کے دور کی خارجہ پالیسی میں سفارتکاری کو نہیں بلکہ طاقت کے استعمال کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ برائن کہتے ہیں کہ اگر آپ صدر بش کے آٹھ سالوں پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے بہت سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ شمالی کوریا کی مثال سامنے ہے۔ 6 پارٹی مزاکرات سفارتکاری ہی ہے۔ جہاں تک طاقت کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پوری دنیا میں طاقت کے استعمال کا امکان سفارتکاری کے ایک جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر امریکہ نے حالیہ برسوں میں اپنی فوجی طاقت کے استعمال کے مظاہرے نہیں کیے ہوتے تو شمالی کوریا مذاکرات کی میز پر نہیں آتا۔ صدر بش کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکہ یورپ تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ صد ر بش کے دورِ صدارت میں ہی امریکہ کے قریب ترین حلیف یعنی یورپ کے ساتھ اس کے تعلقات میں کچھ سرد مہری دیکھنے میں آئی۔ بینجمین فریڈمین کے مطابق اسکی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ فریڈ مین کا کہنا ہے کہ ہم نے یورپ کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھا تھا جیسے کہ وہ ہمارے ملازم ہوں۔ یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت اس لیے بھی کافی مختلف ہے کیونکہ ہمارا اور یورپ کا اتحاد سرد جنگ کے زمانے کی سوچ پر بنا تھا۔ لیکن اب امریکہ اور یورپ کے تعلقات تجارت اور ثقافت کی بنیاد پر ہونے چاہیں نہ کہ سیکورٹی کی بنیاد پر۔ ہمیں یورپ سے دوستی ضرور رکھنی چاہیے لیکن ان کی حفاظت کا ذمہ اب ہمارا نہیں ہے
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, July 16, 2008
صدر بش کی آٹھ سالہ خارجہ پالیسی ، ناقدین نے امریکا کے لیے تباہ کن قرار دیا
واشنگٹن ۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا آٹھ سالہ دور اقتدار رواں سال نومبرمیں اختتام پذیر ہونے والاہے ۔ان کی پالیسیوں کو حامیوں نے ملک کے لیے سود مند جبکہ ناقدین نے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور عراق پر جارحیت سے دنیا بھر میں امریکہ کی مقبولیت میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جوکہ پیسہ کا ضیاع ہے’’ وائس آف امریکا ‘‘ کے مطابق ہر لیڈر جسے اپنے ملک کی قیادت کا اعزاز حاصل ہو اسکی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تاریخ میں اسے سنہرے حروف میں یاد رکھا جائے۔ امریکی صدر جارج بش کا دورِ صدارت اختتام کے قریب ہے۔وائس آف امریکا نے وائٹ ہاوس میں صدر بش آٹھ سال میں اہم ترین شعبوں میں ان کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹس کی ایک سیریز تیار کی ہے۔ اس سیریز کی پہلی رپورٹ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی سے متعلق ہے جس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ اپنے دورِ صدارت میں اس شعبے میں صدر بش کی کارکردگی کو کیسے یاد رکھا جائے گا۔ صدر بش کی خارجہ پالیسی کا ذکر آتے ہی سب سے پہلے ذہن میں عراق آتا ہے کیونکہ عراق کی جنگ کے باعث دنیا میں یہ تاثر عام ہوا کہ صدر بش خارجہ پالیسی کے اہم ترین جزو یعنی سفارتکاری اور مزاکرات کے بجائے طاقت کے استعمال پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ صدر بش کی خارجہ پالیسی کا دفاع کرنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ انھوں نے عراق کی جنگ سے پہلے سفارتکاری کو موقع دیا اور نہ صرف اقوامِ متحدہ سے قرارداد یں منظور ہونے کا انتظار کیا بلکہ برطانیہ، آسٹریلیا، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک پر مشتمل عالمی اتحاد بھی تشکیل دیا۔ لیکن صدر بش کے ناقدین خارجہ پالیسی کے میدان میں ان کی کارکردگی کو ایک سے دس کے اسکیل پر صفر سے بھی نیچے گردان رہے ہیں۔ جیسے کہ واشنگٹن کے کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے بینجمن فریڈمین۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ صدر بش کی خارجہ پالیسی تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس دور میں صرف اچھی بات یہ ہوئی کہ مزید ممالک پر بمباری نہیں کی گئی جیسے کہ ایران اور مجھے امید ہے کہ ایران کے خلاف جارحیت نہیں کی جائے گی۔ لیکن صدر بش کی عراق پالیسی سمیت دیگر اقدامات میں طاقت کے استعمال کا عنصر بہت نمایاں رہا ہے۔ صدر بش کی خارجہ پالیسی کی بدولت دنیا بھر میں امریکہ کی مقبولیت میں زبردست کمی آئی ہے۔ اور امریکہ کے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جو کہ پیسے کا ضیاع ہے اور دیگر ممالک کے لیے خوف کا باعث۔ اگرچہ صدر بش کے بارے میں اس قسم کی رائے بہت سے حلقوں میں پائی جاتی ہے لیکن کچھ حلقوں میں بش انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے لیے حمائت بھی موجود ہے۔ برائن ڈارلنگ کا تعلق ہیرٹیج فاونڈیشن نامی ایک تھنک ٹینک سے ہے۔ انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ صدر بش کے دور کی خارجہ پالیسی میں سفارتکاری کو نہیں بلکہ طاقت کے استعمال کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ برائن کہتے ہیں کہ اگر آپ صدر بش کے آٹھ سالوں پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے بہت سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ شمالی کوریا کی مثال سامنے ہے۔ 6 پارٹی مزاکرات سفارتکاری ہی ہے۔ جہاں تک طاقت کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پوری دنیا میں طاقت کے استعمال کا امکان سفارتکاری کے ایک جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر امریکہ نے حالیہ برسوں میں اپنی فوجی طاقت کے استعمال کے مظاہرے نہیں کیے ہوتے تو شمالی کوریا مذاکرات کی میز پر نہیں آتا۔ صدر بش کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکہ یورپ تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ صد ر بش کے دورِ صدارت میں ہی امریکہ کے قریب ترین حلیف یعنی یورپ کے ساتھ اس کے تعلقات میں کچھ سرد مہری دیکھنے میں آئی۔ بینجمین فریڈمین کے مطابق اسکی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ فریڈ مین کا کہنا ہے کہ ہم نے یورپ کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھا تھا جیسے کہ وہ ہمارے ملازم ہوں۔ یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت اس لیے بھی کافی مختلف ہے کیونکہ ہمارا اور یورپ کا اتحاد سرد جنگ کے زمانے کی سوچ پر بنا تھا۔ لیکن اب امریکہ اور یورپ کے تعلقات تجارت اور ثقافت کی بنیاد پر ہونے چاہیں نہ کہ سیکورٹی کی بنیاد پر۔ ہمیں یورپ سے دوستی ضرور رکھنی چاہیے لیکن ان کی حفاظت کا ذمہ اب ہمارا نہیں ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment