ججز کی بحالی کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے وہ یہ کہ صدر پر ویز مشرف ضد کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نہیں کوئی اور ہوگا کوئی مائنس ون اور کوئی مائنس ٹو کا فا ر مولا پیش کر رہا ہے آصف زرداری بھی این آر او پر آکر اپنی رفتار آہستہ کر لیتے ہیں حا لانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جناب آصف زرداری سے گزارش ہے کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ پر جو مقدمات بنائے گئے تھے وہ سرا سر سیا سی انتقام کا نتیجہ تھے اگرچہ آپ کی مسکراہٹ معنی خیز ہوتی ہے اس کے با وجود آپ ایک سادہ انسان ہیں۔ کیونکہ این آر او آپ کیلئے نہیں بلکہ سابقہ حکومت میں لوٹ ما ر کرنے والی کی اپنی ضرورت تھی سابقہ ادوار میں شوکت عزیز سمیت تما م ق لیگ کے قومی مجرموں نے اپنا دفاع کرنے کیلئے این آر او ایجاد کیا لیکن آصف زرداری پر پر ویز مشرف کی وساطت سے احسان عظیم کر دیا۔اور آصف زرداری صاحب شرم کے ما رے اور احسان کی خاطر ججز کی بحالی کے حوالے سے کوئی د و ٹوک بات ہی نہیں کر رہے۔ جناب آصف زرداری کو چاہیے کہ وہ صدر کو فارغ کریں اس کے نتیجے میں اگر این آر او ختم ہوتا ہے تو اس میں بھی آپ کی بہتری ہے آپ اپنے مقد مات کے حو الے سے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کروایں کہ میرے اوپر تمام مقد مات صرف سیاسی انتقام کا نتیجہ تھے جبکہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سابقہ دور کے قو می مجر موں کو قانون کی گرفت میں دیںاور قانون کی با لا دستی کو یقینی بنائیں۔ جو اسمبلی اپنا مستقبل نہیں جانتی وہ مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کر سکتی جس اسمبلی کو یہ معلوم نہیں کہ صدر پرویز مشرف اگلے لمحے اس کا کیا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ وہ کیا پلاننگ کرے گی اور عوامی خواہشات کیسے پوری کرے گی۔ پہلے صدر پرویز مشرف کو ایوان صدارت سے الگ کرنا ہوگا اس کے بعد مہنگائی، بے روزگاری کو کنٹرول کرنے بارے سوچا جا سکتا ہے۔ جبکہ جاوید ہاشمی نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آرمی ہاو¿س سے ناجائز قبضہ ختم کرائیں، اس موقع پر انہوں بتایا کہ 10 جون کوملتان سے وکلا کا لانگ مارچ شروع ہورہا ہے نواز لیگ نے اسے کامیاب بنانے کیلئے ٹیمیں بنا دی ہیں، اگر صدر پرویز مشرف 58ٹو بی کے ذریعے غیرآئینی اقدام اٹھاتے ہوئے اسمبلیوں کو برخاست کر دیتے ہیں اور پی سی او والے جج ان کے اس اقدام کو آئینی قرار دے دیتے ہیں تو پھر کیا راستہ بچے گا؟ صدر پرویز مشرف کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں پارلیمنٹ کو توڑ کر لمبے عرصے کے لیے حکومت پر قابض ہو جائیں۔ آصف علی زرداری کو آئینی پیکیج لے کر صدر پرویز مشرف کے پاس جانے کی بجائے عوام کے پاس آنا چاہئے کیونکہ اس بات کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے کہ آصف علی زرداری پرویز مشرف کو اپنے دلائل سے اقتدار سے الگ ہونے پر قائل کر لیں گے۔ ڈاکوو¿ں کو پکڑ کر جلانے کا جو طریقہ کارعوام نے اپنایا ہے۔ یہ عدالتوں پر کھلا عدم اعتماد ہے۔ عدالتی نظام بحال نہ ہوا تو معاشی نظام بھی بحال نہیں ہو سکے گا۔ آئینی مسودے کے حوالے سے انہوں نے کہا ہے کہ مسودہ جب سامنے آئے گا اس کے پہلوو¿ں پر غور کرکے فیصلہ کریں گے۔ گورنر پنجاب کے پاس اپنے کوئی اختیارات نہیں کہ وکلا کے لانگ مارچ کو روک سکیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجودتمام طاقتور سیاسی قوتوں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے سامنے لائے جانیوالے پیکیج کی حمایت نہ کی تو یہ پالیمنٹ سے منظور نہیں ن لیگ کے اہم رہنما چوہدری نثار علی خان نےکے مطابق ہم پارلیمنٹ سے پیکیج منظور کرانے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ ہمیں سینٹ میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے“۔ ن لیگ کے رہنما نے کہاکہ آئینی پیکیج سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہونگے اور اسکا مقصد صرف ججوں کے ایشو سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے ق لیگ کی سینٹ میں بہت زیادہ نشستیں ہیں اور وہ صدر پرویز کے اختیارات کے خاتمے کی کوشش پر اپنی پوزیشن واضح کرچکی ہے ۔ ن لیگ اور اس طرح وکلاء کمیونٹی بھی ساتھ نہیں ہے چوہدری نثار نے توقع ظاہر کی کہ شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کا مجوزہ آئینی پیکیج سے متعلق پر امید ہونا بے محل نہیں ہوگا۔”جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے ہم پیکیج میں اٹھائے گئے تمام ایشوز کے حقیقی طورپر حامی ہیں لیکن ہماری مکمل حمایت 2نومبر کی عدلیہ کی قومی اسمبلی کی معمول کی قرار داد کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحالی کیلئے ہے تاکہ برطرف جج واپس آجائیں“ انکی پارٹی ججوں کی بحالی کیلئے آئینی ترمیم کا فریق نہیں بنے گی کیونکہ یہ 3نومبر کے مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی حیثیت دینا اور اسکی توثیق ہوگی جوکہ مری ڈیکلریشن کی خلاف ورزی ہے۔ چوہدری نثار طلب کئے جانے پر سوموار کو پیپلزپارٹی کے آئینی پیکیج پر نواز شریف اور شہباز شریف سمیت ن لیگ کے رہنماو¿ں سے مشاورت کیلئے لاہور روانہ ہوگئے جو کہ انہیں موصول ہوچکا ہے یہ عمل آئندہ چند روز جاری رہیگا جس میں مجوزہ ترامیم کا غور سے جائزہ لیا جائیگا اور پارٹی کا حتمی موقف سامنے آئیگا ۔ن لیگ کے ایک اور رہنما نے کہا ہے کہ پیکیج کچھ نہیں صرف صورتحال کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ اس سے زرداری کی توجہ مسلسل ہٹائی جارہی ہے کہ اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ماسوائے اس کے کہ لوگوں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے معزول ججوں کو واپس لایا جائے۔ آئینی پیکیج سامنے آنے کی خوشی قبل از وقت ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ زرداری اس سارے معاملے کو کیسے سنبھالیں گے ۔ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں کہ صدر پرویز مجوزہ آئینی ترمیم کو قبول کرلیں گے اور اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کردینگے ”میں نہیں سمجھتا کہ زرداری کی مہارت مشرف کو پیکیج سے اتفاق یا عہدے سے رخصت ہونے پر قائل کرلے گی“۔ صدر پرویز مشرف سے نجات کا قابل عمل راستہ صرف انکا مواخذہ ہے بجائے اسکے کہ انکی رخصتی کیلئے بے سود کوششیں کی جائیںمعزول ججوں کی بحالی سے پاکستان کو درپیش بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔ صدر پرویز مشرف کے حامی ق لیگ، پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور متحدہ قومی موومنٹ مشرف کے اختیارات میں کمی کے کسی عمل پر ردعمل شروع کر دیتے ہیں یا کہیں اور بہت زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔ جبکہ این اے 123 سے (ق) لیگ کے امیدوار اخلاق گڈو دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ نواز شریف نے راولپنڈی این اے52 سے کا غذات نامزدگی واپس لینے کا اعلان کیا ہے، اس حلقے میں انکے مخالف امیدوار راجہ محمد ناصر کی انتخابی درخواست لاہور ہائیکورٹ نے سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے 28 مئی کیلئے شریف برادران کو نوٹس جار ی کر دیئے ہیں،اسی طرح مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے کیخلاف ایک درخواست پرانہیں نوٹس جاری کر دیاگیا ہے۔ادھر نواز شریف نے مشاورتی اجلاس کے بعد کہا ہے کہ لاہور سے ان کے انتخابات لڑنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی،ا ور اب وہ مستند اور غیر متنازعہ امیدوار کے طور پر حصہ لیں گے اس لئے وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 52 راولپنڈی سے کاغذات نامزدگی واپس لے رہے ہیں اسی طرح میاں شہباز شریف بغیر کسی قانونی ہیچ کے امیدوار ہونگے۔اس موقع پر میں میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، رانا مشہود، اشتر اوصاف علی، نصیر بھٹہ بھی موجود تھے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ہم دونوں بھائیوں کو اسمبلی سے باہر رکھنے کی جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کا ایک نمونہ آج آپ سب نے دیکھ لیا ہو گا۔ چودھری پرویز الٰہی کی آواز سب پہچانتے ہیں ، ہمیں پہلے معلوم ہوا تھا کہ صدر بنفس نفیس اس منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔ ساری قوم کے سامنے حقائق آ چکے ہیں اگر یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو الیکشن، آئین اور قانون کی کیا اہمیت ہوتی۔ ساری قوم کی یہ خواہش تھی کہ 18 فروری کے بعد منظر بدل جائے اور سازشوں کا وہ کھیل تماشا بند ہو جائے لیکن افسوس کہ ابھی بھی سازشیں جاری ہیں، ٹربیونل میں پی سی او ججز کے سامنے پیش ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بارے ہمارا موقف اصولی اور واضح ہیں، ہم پی سی او ججز کو جج نہیں مانتے انہیں نہ دل مانتا ہے نہ قوم مانتی ہے نہ ضمیر مانتا ہے۔ قرارداد کے حوالے سے زرداری کے کہنے پر ہم نے پی سی او ججز کے حوالے سے کڑوا گھونٹ بھی پی لیا تھا لیکن چونکہ اعلان مری پر عمل نہیں ہوا اسی لئے اب ہم اس کے بھی پابند نہیں رہے۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف نے کہا کہ زہر کا تریاق زہر سے ہی نکلتا ہے۔ میاں نواز شریف نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو برقرار رکھنے کی صورت میں 3 نومبر کے اقدامات کو تحفظ حاصل ہو جاتا، انڈیمنٹی صرف پارلیمنٹ دے سکتی ہے سپریم کورٹ کو اس کا اختیار حاصل نہیں، ہم نے اصول اور اقدار کو برقرار رکھنا ہے اور آئندہ نسلوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہمیں یہ جنگ جاری رکھنا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں میاں شہباز شریف نے کہا کہ ان پی سی او والے ججز کو ہم نہیں مانتے، 3 نومبر 2007ء کو ان ججز نے غلامی کا طوق پہن لیا تھا اور چھڑی کے اشاروں پر ناچنا شروع کر دیا، انہوں نے قاتل کو بے گناہ اور ظالم کو مظلوم قرار دینا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کفر کی حکومت تو برقرار رہ سکتی ہے مگر ناانصافی کی نہیں۔ 3 نومبر کی متنازع معزولی کے بعد پہلی مرتبہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کسی اہم امریکی عہدیدارنے ان کے گھر میں ملاقات کی اور عین ممکن ہے کہ امریکی رہنماو¿ں کی ایسی اعلیٰ سطح پر ملاقاتیں جاری رہیں۔تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے انصاف کے رکن سینیٹرز فین گولڈ نے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ان کی رہائش گاہ پر اعتزاز احسن، جسٹس(ر)طارق محمود اورسپریم کورٹ کے وکیل اطہر من اللہ کی موجودگی میں ملاقات کی۔مبصرین کے مطابق یہ ملاقات معزول چیف جسٹس اورپاکستان کے دورے پر آئے ہوئے3 امریکی سینیٹرزسے مزید ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرسکتی ہے،جس میں امریکی عہدیدار اپنے دوست صدرپرویزمشرف کے مصیبت زدہ وقت میں ان سے کیاکچھ لے سکتے ہیں ۔وہ سب کچھ جس کیلئے وہ گذشتہ چند دنوں سے پاکستان میں لابنگ کررہے ہیں۔ امریکی ارکان کانگریس نے پیرکوصدرپرویزمشرف،وزیراعظم یوسف رضاگیلا نی اور (ن) لیگ کے رہنماچوہدری نثارسے ملاقات کی ۔تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹرز فائن گولڈ نے صدر پرویز مشرف سے صدارتی کیمپ آفس میں ملاقات میں پاکستان میں جمہوریت کے قیام اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ اس موقع پر صدر پرویز مشرف نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کسی کو خوش کرنے کیلئے نہیں بلکہ اصولی اور قومی مفاد میں ہے ، پاکستان دہشت گردوں کو کوئی رعایت نہیں دیگا، القاعدہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ پہاڑوں میں چھپ رہے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران صدر پرویز مشرف نے کہا کہ انتہا پسندی اوردہشت گردی کو شکست دینے کیلئے فوج کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی بھی ناگزیر ہے اور حکومت اسی پر عمل پیرا ہے تاہم دہشت گردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی۔ وہ بطور صدر اپنا آئینی کردار ادا کررہے ہیں اور حکومت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں جبکہ ان کی خواہش ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ بھی اپنی آئینی مدت پوری کرئے۔دریں اثناء وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات میں کہا کہ ہماری جمہوری حکومت دہشت گردی انتہا پسندی کا ڈٹ کرمقابلہ کریگی اورپاکستان کے بہتر ین مفاد میں کثیر الجہتی حکمت عملی بنا کر دہشت گردی کے مسئلے کو موثر طور پر حل کیا جائیگا۔ اس موقع پرامریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن بھی ملاقات کے دوران موجود تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کی جڑ کو ختم کئے بغیر یہ لعنت ختم نہیں ہو سکتی۔ علاوہ ازیں امریکی سینیٹ کے 5 رکنی وفدنے خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹرز فائن گولڈ کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی جس میں پاک بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیراور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے سمیت باہمی دلچسپی کے امورپرتبادلہ خیال کیا گیا ۔ پنجاب ہاو¿س میں ہونیوالی ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔چوہدری نثارنے وفد سے بات پر زور دیا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے طاقت کے استعمال کی بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ انہوں نے امریکی وفدکوبتایا کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات کوبہتربنانے کے خواہاں ہیں، مسئلہ کشمیر ان تعلقات کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازع امور کو مذاکرات سے حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے مزید کہا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دباو¿ ڈالے تاکہ خطے کے عوام کیلئے امن اور خوشی کی فضا یقینی بنائی جاسکے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اپوزیشن لیڈر چوہدری پرویز الٰہی کے آڈیو ٹیپ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز الٰہی کا عدلیہ پر شریف برادران کے کاغذات مسترد کرنے کیلئے دباو¿ ڈالنا غیرجمہوری اور مکروہ سازش ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت کے اقدامات بھی ہمیشہ مشکوک رہے ہیں اور وہ اقتدار کیلئے منفی ہتھکنڈے استعما ل کرتے رہے ہیں مگر پاکستان کے عوام نے 2008ء کے انتخابات میں ایسے انداز حکمرانی کے خلاف اپنا واضح فیصلہ دیا ہے تاہم کچھ لوگ اب بھی اس فیصلے سے سبق حاصل نہیں کررہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کی پس پردہ سازشوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ دوسری جانب امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رس فن گولڈ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ عدلیہ کے معاملے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے، قبائلی علاقوں میں مذاکرات سے امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ امریکی سینیٹر کے ساتھ ملاقات کے موقع پر امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن اور وفاقی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار بھی موجود تھے۔ آصف علی ز رداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی وفاقی جماعت ہے، ہم جمہوری اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام کیلئے وہاں کے قبائلی عمائدین کیساتھ مذاکرات حوصلہ افزاء ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہم وہاں پر امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بلوچستان میں بھی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکی کانگریس کے سینیٹر رس فن گولڈنے آصف علی زرداری کو یقین دلایا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لئے ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گا ۔ غذائی اجناس کے حالیہ بحران پر انہوں نے امریکا کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن نے کہاہے کہ آڈیو ٹیپ میں جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ ملک کا نظام خراب کرنے میں ان کا ہاتھ ہے۔ ماضی میں بھی ملک قیوم کی ٹیپیں سامنے آ چکی ہیں، اب بھی جو ٹیپ سامنے آئی ہے وہ درست لگتی ہے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف اپیلوں میں میاں برادران چاہے خود عدالت میں پیش نہ ہوں وکیل پیش کریں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے موٹر وے کے راستے فیصل آباد جانے کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ وقت نہ لگے لوگ پھر بھی سڑکوں پر آ گئے چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد 2013ء تک ہے وہ دوبارہ بحال ہوں گے آئینی پیکیج کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئینی پیکیج اچھا اقدام ہے اس سے پارلیمنٹ مضبوط ہو گی جو بھی عدلیہ کی بحالی میں رکاوٹ ہو گا اس کا گراف گرے گا چاہے وہ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری ہی کیوں نہ ہو ۔اعتزاز احسن نے کہا وہ ایسے آئینی پیکیج کی حمایت کریں گے جس سے صدر پرویز کے اختیارات کم ہوں ۔ بش انتظامیہ یہ نہیں چاہتی کہ صدر پرویز مشرف مستعفی ہوں کیونکہ صدر پرویز امریکی مفادات کے تحفظ کی علامت ہیں۔ ہمارے رہنما اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں نہ ملک کی پروا ہے نہ عوامی مینڈیٹ کی بلکہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے، ذاتی مفادات کیلئے ملک کے مستقبل کو داو¿ پر لگایا جارہا ہے، جس سے سوائے انتشار اور بے یقینی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس وقت ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما این آر او کو بچا رہے ہیں جبکہ صدر اپنی کرسی بچارہے ہیں۔ اب فوج مداخلت نہیں کرے گی اور ملک جس صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے اس میں تصادم ہی نظر آتا ہے جس کا انجام بالآخر انتخابات پر ہی منتج ہوگا۔ اب جو حالات نظر آتے ہیں اس میں بحران در بحران ہی نظر آتا ہے موجودہ حکومت نے اچھا موقع گنوادیا اب تک حکومت کی پالیسی ہی واضح نہیں ہوئی ہے معاشی بحران سے عوام تنگ آگئے ہیں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ملک انتشار کی طرف جارہا ہے بجٹ سے زیادہ ججز کی بحالی مسئلہ ہے۔ تحریر اے پی ایس اسلام آباد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, May 27, 2008
صدر کرسی اور سیاسی جما عتیں این آر او کا دفاع کر رہی ہیں ۔۔ تحریر اے پی ایس،اسلام آباد
ججز کی بحالی کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے وہ یہ کہ صدر پر ویز مشرف ضد کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نہیں کوئی اور ہوگا کوئی مائنس ون اور کوئی مائنس ٹو کا فا ر مولا پیش کر رہا ہے آصف زرداری بھی این آر او پر آکر اپنی رفتار آہستہ کر لیتے ہیں حا لانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جناب آصف زرداری سے گزارش ہے کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ پر جو مقدمات بنائے گئے تھے وہ سرا سر سیا سی انتقام کا نتیجہ تھے اگرچہ آپ کی مسکراہٹ معنی خیز ہوتی ہے اس کے با وجود آپ ایک سادہ انسان ہیں۔ کیونکہ این آر او آپ کیلئے نہیں بلکہ سابقہ حکومت میں لوٹ ما ر کرنے والی کی اپنی ضرورت تھی سابقہ ادوار میں شوکت عزیز سمیت تما م ق لیگ کے قومی مجرموں نے اپنا دفاع کرنے کیلئے این آر او ایجاد کیا لیکن آصف زرداری پر پر ویز مشرف کی وساطت سے احسان عظیم کر دیا۔اور آصف زرداری صاحب شرم کے ما رے اور احسان کی خاطر ججز کی بحالی کے حوالے سے کوئی د و ٹوک بات ہی نہیں کر رہے۔ جناب آصف زرداری کو چاہیے کہ وہ صدر کو فارغ کریں اس کے نتیجے میں اگر این آر او ختم ہوتا ہے تو اس میں بھی آپ کی بہتری ہے آپ اپنے مقد مات کے حو الے سے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کروایں کہ میرے اوپر تمام مقد مات صرف سیاسی انتقام کا نتیجہ تھے جبکہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سابقہ دور کے قو می مجر موں کو قانون کی گرفت میں دیںاور قانون کی با لا دستی کو یقینی بنائیں۔ جو اسمبلی اپنا مستقبل نہیں جانتی وہ مہنگائی، بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کر سکتی جس اسمبلی کو یہ معلوم نہیں کہ صدر پرویز مشرف اگلے لمحے اس کا کیا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ وہ کیا پلاننگ کرے گی اور عوامی خواہشات کیسے پوری کرے گی۔ پہلے صدر پرویز مشرف کو ایوان صدارت سے الگ کرنا ہوگا اس کے بعد مہنگائی، بے روزگاری کو کنٹرول کرنے بارے سوچا جا سکتا ہے۔ جبکہ جاوید ہاشمی نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آرمی ہاو¿س سے ناجائز قبضہ ختم کرائیں، اس موقع پر انہوں بتایا کہ 10 جون کوملتان سے وکلا کا لانگ مارچ شروع ہورہا ہے نواز لیگ نے اسے کامیاب بنانے کیلئے ٹیمیں بنا دی ہیں، اگر صدر پرویز مشرف 58ٹو بی کے ذریعے غیرآئینی اقدام اٹھاتے ہوئے اسمبلیوں کو برخاست کر دیتے ہیں اور پی سی او والے جج ان کے اس اقدام کو آئینی قرار دے دیتے ہیں تو پھر کیا راستہ بچے گا؟ صدر پرویز مشرف کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں پارلیمنٹ کو توڑ کر لمبے عرصے کے لیے حکومت پر قابض ہو جائیں۔ آصف علی زرداری کو آئینی پیکیج لے کر صدر پرویز مشرف کے پاس جانے کی بجائے عوام کے پاس آنا چاہئے کیونکہ اس بات کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے کہ آصف علی زرداری پرویز مشرف کو اپنے دلائل سے اقتدار سے الگ ہونے پر قائل کر لیں گے۔ ڈاکوو¿ں کو پکڑ کر جلانے کا جو طریقہ کارعوام نے اپنایا ہے۔ یہ عدالتوں پر کھلا عدم اعتماد ہے۔ عدالتی نظام بحال نہ ہوا تو معاشی نظام بھی بحال نہیں ہو سکے گا۔ آئینی مسودے کے حوالے سے انہوں نے کہا ہے کہ مسودہ جب سامنے آئے گا اس کے پہلوو¿ں پر غور کرکے فیصلہ کریں گے۔ گورنر پنجاب کے پاس اپنے کوئی اختیارات نہیں کہ وکلا کے لانگ مارچ کو روک سکیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجودتمام طاقتور سیاسی قوتوں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے سامنے لائے جانیوالے پیکیج کی حمایت نہ کی تو یہ پالیمنٹ سے منظور نہیں ن لیگ کے اہم رہنما چوہدری نثار علی خان نےکے مطابق ہم پارلیمنٹ سے پیکیج منظور کرانے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ ہمیں سینٹ میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے“۔ ن لیگ کے رہنما نے کہاکہ آئینی پیکیج سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہونگے اور اسکا مقصد صرف ججوں کے ایشو سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے ق لیگ کی سینٹ میں بہت زیادہ نشستیں ہیں اور وہ صدر پرویز کے اختیارات کے خاتمے کی کوشش پر اپنی پوزیشن واضح کرچکی ہے ۔ ن لیگ اور اس طرح وکلاء کمیونٹی بھی ساتھ نہیں ہے چوہدری نثار نے توقع ظاہر کی کہ شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کا مجوزہ آئینی پیکیج سے متعلق پر امید ہونا بے محل نہیں ہوگا۔”جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے ہم پیکیج میں اٹھائے گئے تمام ایشوز کے حقیقی طورپر حامی ہیں لیکن ہماری مکمل حمایت 2نومبر کی عدلیہ کی قومی اسمبلی کی معمول کی قرار داد کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحالی کیلئے ہے تاکہ برطرف جج واپس آجائیں“ انکی پارٹی ججوں کی بحالی کیلئے آئینی ترمیم کا فریق نہیں بنے گی کیونکہ یہ 3نومبر کے مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی حیثیت دینا اور اسکی توثیق ہوگی جوکہ مری ڈیکلریشن کی خلاف ورزی ہے۔ چوہدری نثار طلب کئے جانے پر سوموار کو پیپلزپارٹی کے آئینی پیکیج پر نواز شریف اور شہباز شریف سمیت ن لیگ کے رہنماو¿ں سے مشاورت کیلئے لاہور روانہ ہوگئے جو کہ انہیں موصول ہوچکا ہے یہ عمل آئندہ چند روز جاری رہیگا جس میں مجوزہ ترامیم کا غور سے جائزہ لیا جائیگا اور پارٹی کا حتمی موقف سامنے آئیگا ۔ن لیگ کے ایک اور رہنما نے کہا ہے کہ پیکیج کچھ نہیں صرف صورتحال کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ اس سے زرداری کی توجہ مسلسل ہٹائی جارہی ہے کہ اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ماسوائے اس کے کہ لوگوں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے معزول ججوں کو واپس لایا جائے۔ آئینی پیکیج سامنے آنے کی خوشی قبل از وقت ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ زرداری اس سارے معاملے کو کیسے سنبھالیں گے ۔ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں کہ صدر پرویز مجوزہ آئینی ترمیم کو قبول کرلیں گے اور اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کردینگے ”میں نہیں سمجھتا کہ زرداری کی مہارت مشرف کو پیکیج سے اتفاق یا عہدے سے رخصت ہونے پر قائل کرلے گی“۔ صدر پرویز مشرف سے نجات کا قابل عمل راستہ صرف انکا مواخذہ ہے بجائے اسکے کہ انکی رخصتی کیلئے بے سود کوششیں کی جائیںمعزول ججوں کی بحالی سے پاکستان کو درپیش بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے۔ صدر پرویز مشرف کے حامی ق لیگ، پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور متحدہ قومی موومنٹ مشرف کے اختیارات میں کمی کے کسی عمل پر ردعمل شروع کر دیتے ہیں یا کہیں اور بہت زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔ جبکہ این اے 123 سے (ق) لیگ کے امیدوار اخلاق گڈو دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ نواز شریف نے راولپنڈی این اے52 سے کا غذات نامزدگی واپس لینے کا اعلان کیا ہے، اس حلقے میں انکے مخالف امیدوار راجہ محمد ناصر کی انتخابی درخواست لاہور ہائیکورٹ نے سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے 28 مئی کیلئے شریف برادران کو نوٹس جار ی کر دیئے ہیں،اسی طرح مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے کیخلاف ایک درخواست پرانہیں نوٹس جاری کر دیاگیا ہے۔ادھر نواز شریف نے مشاورتی اجلاس کے بعد کہا ہے کہ لاہور سے ان کے انتخابات لڑنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی،ا ور اب وہ مستند اور غیر متنازعہ امیدوار کے طور پر حصہ لیں گے اس لئے وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 52 راولپنڈی سے کاغذات نامزدگی واپس لے رہے ہیں اسی طرح میاں شہباز شریف بغیر کسی قانونی ہیچ کے امیدوار ہونگے۔اس موقع پر میں میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، رانا مشہود، اشتر اوصاف علی، نصیر بھٹہ بھی موجود تھے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ ہم دونوں بھائیوں کو اسمبلی سے باہر رکھنے کی جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کا ایک نمونہ آج آپ سب نے دیکھ لیا ہو گا۔ چودھری پرویز الٰہی کی آواز سب پہچانتے ہیں ، ہمیں پہلے معلوم ہوا تھا کہ صدر بنفس نفیس اس منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔ ساری قوم کے سامنے حقائق آ چکے ہیں اگر یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو الیکشن، آئین اور قانون کی کیا اہمیت ہوتی۔ ساری قوم کی یہ خواہش تھی کہ 18 فروری کے بعد منظر بدل جائے اور سازشوں کا وہ کھیل تماشا بند ہو جائے لیکن افسوس کہ ابھی بھی سازشیں جاری ہیں، ٹربیونل میں پی سی او ججز کے سامنے پیش ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بارے ہمارا موقف اصولی اور واضح ہیں، ہم پی سی او ججز کو جج نہیں مانتے انہیں نہ دل مانتا ہے نہ قوم مانتی ہے نہ ضمیر مانتا ہے۔ قرارداد کے حوالے سے زرداری کے کہنے پر ہم نے پی سی او ججز کے حوالے سے کڑوا گھونٹ بھی پی لیا تھا لیکن چونکہ اعلان مری پر عمل نہیں ہوا اسی لئے اب ہم اس کے بھی پابند نہیں رہے۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف نے کہا کہ زہر کا تریاق زہر سے ہی نکلتا ہے۔ میاں نواز شریف نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو برقرار رکھنے کی صورت میں 3 نومبر کے اقدامات کو تحفظ حاصل ہو جاتا، انڈیمنٹی صرف پارلیمنٹ دے سکتی ہے سپریم کورٹ کو اس کا اختیار حاصل نہیں، ہم نے اصول اور اقدار کو برقرار رکھنا ہے اور آئندہ نسلوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہمیں یہ جنگ جاری رکھنا ہے، ایک اور سوال کے جواب میں میاں شہباز شریف نے کہا کہ ان پی سی او والے ججز کو ہم نہیں مانتے، 3 نومبر 2007ء کو ان ججز نے غلامی کا طوق پہن لیا تھا اور چھڑی کے اشاروں پر ناچنا شروع کر دیا، انہوں نے قاتل کو بے گناہ اور ظالم کو مظلوم قرار دینا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کفر کی حکومت تو برقرار رہ سکتی ہے مگر ناانصافی کی نہیں۔ 3 نومبر کی متنازع معزولی کے بعد پہلی مرتبہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کسی اہم امریکی عہدیدارنے ان کے گھر میں ملاقات کی اور عین ممکن ہے کہ امریکی رہنماو¿ں کی ایسی اعلیٰ سطح پر ملاقاتیں جاری رہیں۔تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے انصاف کے رکن سینیٹرز فین گولڈ نے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ان کی رہائش گاہ پر اعتزاز احسن، جسٹس(ر)طارق محمود اورسپریم کورٹ کے وکیل اطہر من اللہ کی موجودگی میں ملاقات کی۔مبصرین کے مطابق یہ ملاقات معزول چیف جسٹس اورپاکستان کے دورے پر آئے ہوئے3 امریکی سینیٹرزسے مزید ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرسکتی ہے،جس میں امریکی عہدیدار اپنے دوست صدرپرویزمشرف کے مصیبت زدہ وقت میں ان سے کیاکچھ لے سکتے ہیں ۔وہ سب کچھ جس کیلئے وہ گذشتہ چند دنوں سے پاکستان میں لابنگ کررہے ہیں۔ امریکی ارکان کانگریس نے پیرکوصدرپرویزمشرف،وزیراعظم یوسف رضاگیلا نی اور (ن) لیگ کے رہنماچوہدری نثارسے ملاقات کی ۔تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹرز فائن گولڈ نے صدر پرویز مشرف سے صدارتی کیمپ آفس میں ملاقات میں پاکستان میں جمہوریت کے قیام اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ اس موقع پر صدر پرویز مشرف نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کسی کو خوش کرنے کیلئے نہیں بلکہ اصولی اور قومی مفاد میں ہے ، پاکستان دہشت گردوں کو کوئی رعایت نہیں دیگا، القاعدہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ پہاڑوں میں چھپ رہے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران صدر پرویز مشرف نے کہا کہ انتہا پسندی اوردہشت گردی کو شکست دینے کیلئے فوج کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی بھی ناگزیر ہے اور حکومت اسی پر عمل پیرا ہے تاہم دہشت گردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائیگی۔ وہ بطور صدر اپنا آئینی کردار ادا کررہے ہیں اور حکومت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں جبکہ ان کی خواہش ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ بھی اپنی آئینی مدت پوری کرئے۔دریں اثناء وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات میں کہا کہ ہماری جمہوری حکومت دہشت گردی انتہا پسندی کا ڈٹ کرمقابلہ کریگی اورپاکستان کے بہتر ین مفاد میں کثیر الجہتی حکمت عملی بنا کر دہشت گردی کے مسئلے کو موثر طور پر حل کیا جائیگا۔ اس موقع پرامریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن بھی ملاقات کے دوران موجود تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کی جڑ کو ختم کئے بغیر یہ لعنت ختم نہیں ہو سکتی۔ علاوہ ازیں امریکی سینیٹ کے 5 رکنی وفدنے خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹرز فائن گولڈ کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی جس میں پاک بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیراور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے سمیت باہمی دلچسپی کے امورپرتبادلہ خیال کیا گیا ۔ پنجاب ہاو¿س میں ہونیوالی ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔چوہدری نثارنے وفد سے بات پر زور دیا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے طاقت کے استعمال کی بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ انہوں نے امریکی وفدکوبتایا کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات کوبہتربنانے کے خواہاں ہیں، مسئلہ کشمیر ان تعلقات کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازع امور کو مذاکرات سے حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے مزید کہا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دباو¿ ڈالے تاکہ خطے کے عوام کیلئے امن اور خوشی کی فضا یقینی بنائی جاسکے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اپوزیشن لیڈر چوہدری پرویز الٰہی کے آڈیو ٹیپ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز الٰہی کا عدلیہ پر شریف برادران کے کاغذات مسترد کرنے کیلئے دباو¿ ڈالنا غیرجمہوری اور مکروہ سازش ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت کے اقدامات بھی ہمیشہ مشکوک رہے ہیں اور وہ اقتدار کیلئے منفی ہتھکنڈے استعما ل کرتے رہے ہیں مگر پاکستان کے عوام نے 2008ء کے انتخابات میں ایسے انداز حکمرانی کے خلاف اپنا واضح فیصلہ دیا ہے تاہم کچھ لوگ اب بھی اس فیصلے سے سبق حاصل نہیں کررہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کی پس پردہ سازشوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ دوسری جانب امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رس فن گولڈ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ عدلیہ کے معاملے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے، قبائلی علاقوں میں مذاکرات سے امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ امریکی سینیٹر کے ساتھ ملاقات کے موقع پر امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن اور وفاقی وزیر دفاع چوہدری احمد مختار بھی موجود تھے۔ آصف علی ز رداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی وفاقی جماعت ہے، ہم جمہوری اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام کیلئے وہاں کے قبائلی عمائدین کیساتھ مذاکرات حوصلہ افزاء ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہم وہاں پر امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بلوچستان میں بھی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکی کانگریس کے سینیٹر رس فن گولڈنے آصف علی زرداری کو یقین دلایا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لئے ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گا ۔ غذائی اجناس کے حالیہ بحران پر انہوں نے امریکا کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن نے کہاہے کہ آڈیو ٹیپ میں جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ ملک کا نظام خراب کرنے میں ان کا ہاتھ ہے۔ ماضی میں بھی ملک قیوم کی ٹیپیں سامنے آ چکی ہیں، اب بھی جو ٹیپ سامنے آئی ہے وہ درست لگتی ہے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف اپیلوں میں میاں برادران چاہے خود عدالت میں پیش نہ ہوں وکیل پیش کریں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے موٹر وے کے راستے فیصل آباد جانے کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ وقت نہ لگے لوگ پھر بھی سڑکوں پر آ گئے چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد 2013ء تک ہے وہ دوبارہ بحال ہوں گے آئینی پیکیج کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئینی پیکیج اچھا اقدام ہے اس سے پارلیمنٹ مضبوط ہو گی جو بھی عدلیہ کی بحالی میں رکاوٹ ہو گا اس کا گراف گرے گا چاہے وہ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری ہی کیوں نہ ہو ۔اعتزاز احسن نے کہا وہ ایسے آئینی پیکیج کی حمایت کریں گے جس سے صدر پرویز کے اختیارات کم ہوں ۔ بش انتظامیہ یہ نہیں چاہتی کہ صدر پرویز مشرف مستعفی ہوں کیونکہ صدر پرویز امریکی مفادات کے تحفظ کی علامت ہیں۔ ہمارے رہنما اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں نہ ملک کی پروا ہے نہ عوامی مینڈیٹ کی بلکہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے، ذاتی مفادات کیلئے ملک کے مستقبل کو داو¿ پر لگایا جارہا ہے، جس سے سوائے انتشار اور بے یقینی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس وقت ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما این آر او کو بچا رہے ہیں جبکہ صدر اپنی کرسی بچارہے ہیں۔ اب فوج مداخلت نہیں کرے گی اور ملک جس صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے اس میں تصادم ہی نظر آتا ہے جس کا انجام بالآخر انتخابات پر ہی منتج ہوگا۔ اب جو حالات نظر آتے ہیں اس میں بحران در بحران ہی نظر آتا ہے موجودہ حکومت نے اچھا موقع گنوادیا اب تک حکومت کی پالیسی ہی واضح نہیں ہوئی ہے معاشی بحران سے عوام تنگ آگئے ہیں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ملک انتشار کی طرف جارہا ہے بجٹ سے زیادہ ججز کی بحالی مسئلہ ہے۔ تحریر اے پی ایس اسلام آباد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment