International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, May 27, 2008

مولانافضل الرحمن نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیلئے حکمران اتحاد کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کر دیا



اسلام آباد ۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیلئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔ آصف علی زرداری کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو آج ( منگل ) آئینی پیکج کی کاپی سپرد کی جائے گی ۔ مولانا فضل الرحمن نے سترہویں ترمیم کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ پی سی او کے تحت وزارت اعظمیٰ کے عہدے سے نواز شریف اور صدر رفیق تارڑ کی برطرفی پر انتظامی حکم کے تحت ان کی بحالی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا پرویز مشرف خود کو آئینی صدر سمجھتے ہیں تو انہیں فوری طور پر آرمی ہاؤس کو چھوڑ دینا چاہیے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جے یو آئی (ف) کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پیپلزپارٹی نے جو آئینی پیکج تیار کیا ہے اس وقت تک اس کی نقول ہمیں نہیں دی گئی ہیں اس سلسلے میں آصف علی زرداری سے رابطہ کیا تھاتاکہ فوری طور پر آئینی پیکج کی تفصیلات مل سکیں آصف علی زرداری نے آج (منگل کو ) آئینی پیکج کی کاپی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہماری پارلیمانی پارٹی نے شدت کے ساتھ اس ضرورت کو محسوس کیا ہے کہ آئینی پیکج کے حوالے سے وزیراعظم کی سربراہی میں پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کا اجلاس ہونا چاہیے تاکہ حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کا ایک متفقہ موقف سامنے آسکے انہوں نے کہاکہ صرف دو جماعتوں کے درمیان بات چیت نیتجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی بات چیت کے دائرے کو تمام اتحادی جماعتوں تک وسیع کیاجائے مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں چین میں آنے والے زلزلے اور نقصانات پر چین کے عوام اور چینی حکومت کے ساتھ بھرپور ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیاگیا ہے چین کے ساتھ ہمارے دیرینہ گہرے تعلقات ہیں اور چینی قوم جس صدمے سے دو چار ہوئی ہے اس پر پوری قوم کو دکھ ہے ۔ ملک کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اصولی طور پر ہمارا یہ دیرینہ موقف ہے کہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو بڑھنا چاہیے ظاہر ہے پارلیمانی طرز حکومت میں تمام تر انتظامی اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں ماضی میں یہ انتظامی اختیارات صدر کے پاس چلے گئے جنہیں وزیراعظم کو منتقل ہونا چاہیے انہو ںنے کہاکہ جب تک آئینی پیکج کا مسودہ سامنے نہیں آتا اس کی جزیات میں نہیں جا سکتے سارے بحران سے نکلنا ہے انہوں نے کہاکہ حکومت تحریک کیلئے نہیں ہوتی حکومت کو ذمہ داری کا ثبوت فراہم کرنا ہوتا ہے فریقین کے تعاون سے بحران کو قانون سازی کے ذریعے حل کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ گزشتہ پانچ سالوں میں بھی ہم عبوری دور سے گزر رہے تھے ایل ایف او کو پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی تحفظ نہیں دیا جاتا تو پالریمنٹ کا وجود ہی غیر آئینی تھا انہوں نے کہاکہ کچھ دو کچھ لو کی بنیاد پر ہم نے سترہویں ترمیم کے حوالے سے معاہدہ کیاتھا تاہم صدر کی جانب سے عہد کو توڑا گیا اب ہمارا موقف وہ نہیں ہو سکتا جو سترہویں ترمیم کے وقت تھا۔ آئینی پیکج کے ذریعے سترہویں ترمیم کو مکمل طور پر ختم کیا جائے انہوں نے کہاکہ ساڑھے تین سالوں تک جب سترہویں ترمیم کو ووٹ دینے کو ہمارا جرم قرار دیا جاتا رہا اسی سترہویں ترمیم کو برقرارکیوں رکھا جارہا ہے انہوں نے کہاکہ سترہویں ترمیم کو ختم کرتے ہوئے آئین کو 1999ء کی پوزیشن پر بحال کیا جائے پھر یہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس میں کیا اصلاحات اور ردوبدل چاہتی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ صدر پرویزمشرف کے مواخذے کے حوالے سے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اس وقوت کے استعمال کا کیا یہ وقت ہے تاہم باہمی مشاورت سے اس مسئلے کو طے کیا جا سکتا ہے انہوں نے کہاکہ ہمیں بتایا جائے کہ ججز کیلئے معیار میثاق جمہوریت ہے یا اعلان مری ہے انہوں نے کہاکہ پورے زور و شور اور دعوؤں کے ساتھ میثاق جمہوریت قوم کے دل و دماغ پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اب اعلان مری میثاق جمہوریت کی اہمیت کیوں ختم کر دی گئی ہے دونوں جماعتوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے نئی صورتحال کیوں پیدا کر دی ہے آزاد عدلیہ کے بارے میں ترجیحات یکسر کیو ںتبیدل ہوگئیں ہیں سابقہ پی سی او کیوں آئینی حیثیت اختیار کر گیا انہوں نے کہاکہ تین نومبر 2007ء کا پی سی او غلط اقدام تھا تو بارہ اکتوبر 1999ء کا اقدام بھی غیر آئینی اور جمہوریت پر شب خون تھا لیکن دوسرے پی سی او کے تحت صرف انتظامی آرڈر کے ذریعے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی کیوں بات کی جارہی ہے پی سی او کے تحت وزیراعظم نواز شریف اور صدر رفیق تارڑ کو برطرف کیوں کیاگیا تھا ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نواز شریف اور رفیق تارڑ کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ اس وقت نہ صرف جمہوریت اور پارلیمنٹ کا قتل کیاگیا بلکہ صدر کو بھی یرغمال بنایا گیا تھا اور منتخب وزیراعظم کو قید کر دیا گیا تھا ظاہر ہے کچھ تو مشکلات اور رکاوٹیں تو ہوں گی کہ اس بحالی کا مطالبہ نہیں کیا جارہا ہے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ یہ مثال قائم ہو گی کہ ایک صوبے کی حکومت تحریک کی نگرانی کرے گی ایک جج کو ایک صوبے میں آئینی چیف جسٹس تسلیم کیا جائے گا اور وہ روڈ پر کھڑا ہو گا ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ مطالبات کی ہم حمایت کرتے ہیں تاہم لانگ مارچ سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوںگی بحران سے نکلنے کی یہ شکل نہیں ہوتی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہو ںنے کہاکہ اگر پرویزمشرف خود کو آئینی اور قانونی صدر سمجھتے ہیں تو انہیں آرمی ہاؤس چھوڑ کر مکمل طور پر ایوان صدر منتقل ہو جانا چاہیے

No comments: