اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے لانگ مارچ کامشکل ترین مرحلہ بخیر وخوبی گزر گیا۔ جمعہ13جون کی رات لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا ۔ اسی روز میں نے خبر دے دی تھی کہ ”حکومت اوروکلاءرہنمائوں میں یہ انڈرسٹینڈنگ ہوچکی ہے کہ ہمیں امن وامان برقرار رکھنا ہے جس کی وجہ سے ملک اورقوم پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکی ہے اورمزید کی شاید متحمل نہ ہوسکے۔ لانگ مارچ آرمی ہائوس ،چیئرمین جوائنٹ چیفس کی رہائش، پارلیمنٹ اور ایوان صدر کی طرف نہیں جائے گا تاہم پریڈ ایونیو میںجلسہ کیاجاسکے گا جہاں ایوان صدر بھی بالکل سامنے ہے اورپارلیمنٹ ہائوس بھی۔ اس طرح لانگ مارچ کے مقاصد بھی حاصل ہوجائیںگے اورحکومت امن وامان کے قیام کی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہوسکے گی۔ چونکہ بجٹ کے فنانس بل میں سپریم کورٹ ججوں کی تعداد29کرنے کااعلان ہوچکا ہے اس لیے بھی لانگ مارچ کی طرف سے کسی سخت اقدام کاامکان کم ہے“۔ شباب ملی اور اے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے حوالے سے حکومت کے خدشات ضرور تھے کیونکہ لانگ مارچ پرامن رکھنے کیلئے بات چیت مسلم لیگ(ن) کے مرکزی اوروکلاءکی جڑواںشہروں کی قیادت سے ہورہی تھی مگر اس میں اکثریت اوراہمیت چونکہ انہی دو کی تھی جن سے بات ہورہی تھی اس لیے کڑا وقت کسی آزمائش کے بغیر گزر گیا۔ یار لوگ بے شک شور مچاتے رہیں کہ دونوں طرف اپنے ہی لوگ تھے۔ حکومت میں بھی اورلانگ مارچ میں بھی بہرحال یہ بہت بڑی بات ہے کہ عوام کی اتنی بڑی تعداد کے اتنے لمبے مارچ کے باوجود کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا اورپریڈ ایونیو سے چند گز کے فاصلے پرموجود عالمی برادری کے نمائندہ غیرملکی سفیروں کے شہر ڈپلومیٹک انکلیو میں یہ پیغام پہنچنا کہ پاکستانی شدت پسندی ،توڑپھوڑ اورجلائو گھیرائو کے بغیر بھی احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ میری رائے میں بلاشبہ قابل تعریف ،لائق اعتراف ہے ورنہ غیرملکی سفیروں نے ڈنمارک ایمبیسی دھماکے کے بعد انتہائی سخت اورواضح الفاظ میں حکومت کوبتادیا تھا کہ یہی حالات رہے تو وہ یہاں نہیں رہ سکیںگے۔ علاوہ ازیں فرانس اورچین کے سفارتخانوں کودھمکی بھی مل چکی ہے اورفرانس ایمبیسی تو ہے بھی شاہراہ دستور کے بالکل اوپر۔باقی سفارتخانے تو پھر بھی ڈپلومیٹک انکلیو کی بائونڈری کے اندر ہیں۔مشیرداخلہ رحمان ملک ایک ملاقات میں بتا رہے تھے کہ کس لہجے میں سفیروں نے ان سے بات کی مگر انہوں نے یہ یقین دلا کرمطمئن کرنے کی کوشش کی کہ انشاءاللہ ان کی طرف کوئی نہیںجائے گا۔ ظاہر ہے میاں نوازشریف بطور سابق وزیراعظم اوراعتزاز احسن بطور صدر سپریم کورٹ بار ملک اورقوم کی طرف اپنی ذمہ داریوں سے بہت اچھی طرح واقف ہیںاس لیے 4روز تک ملک بھرسے عوام کے طوفان کے ساتھ گزرنے کے باوجود کہیں کوئی گڑ بڑ نہیںہوئی اور نہ غیرملکی نمائندوں ہی کوخوف وہراس کاسامنا کرنا پڑا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ جب لانگ مارچ اسلام آباد پریڈ ایونیو پہنچ جائے گا تو پھر کیاہوگا؟ جلسہ تو ہوگا مگر کیاکچھ اوربھی ہوگا۔ لانگ مارچ کالفظی مطلب لمبی پیش قدمی ہے۔ کیا ایک ہزار میل پیش قدمی کے بعد عوام کا”لشکر“ پسپا ہوجائے گا؟ کیاپارلیمنٹ ہائوس اورایوان صدر کے سامنے پڑائو ڈال دے گا جب تک جج بحال اور صدر فارغ نہ ہوجائیں؟ یاپھر مارچ کرتے کرتے پارلیمنٹ ہائوس اور ایوان صدر پرحملہ کردیاجائے گا؟ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں تھے اورسب سے بڑا سوال ہی یہ تھا کہ ایساہوگیا تو پھر کیاہوگا ؟ پیر پگاڑا کافرمان لوگ پڑھ چکے تھے کہ جج بحال نہیںہوںگے اورملکی تاریخ کابدترین مارشل لاءلگنے والا ہے۔ گویہ امر باعث اطمینان ہے کہ مکمل تصادم سے دونوں فریقوں نے گریز بھی کیا اوراپنا اپنا کام بھی کرلیاجج تو تقریباً بحال ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ بجٹ فنانس بل کے ذریعے تعداد 29کردی گئی ہے اوراس پر نواز لیگ بھی راضی ہے۔ مشیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق ان کی تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی ظاہر ہے کہ وہ حاضر سروس ہیں۔ اوربدترین مارشل لاءاب اس لیے نہیں لگ سکتا کہ جنرل مشرف کے مارشل لاءسے بدترین اورکیاہوگا؟ علاوہ ازیں خود وکلاءتحریک ،نوازلیگ کوبھی علم اورشعور ہے کہ ان کی طرف سے کسی بھی قسم کاسخت اقدام ایوان صدر کومضبوط اورپارلیمنٹ کوکمزور کرسکتاہے اوریہ دونوں کبھی نہیں چاہیںگے۔ جہاں تک ایوان صدر کی بات ہے یہ لوگ ایسی دیوار کودھکا مار کراپنی توانائیاں ضائع نہیں کریںگے جو پہلے ہی شکستہ ہوکرگرنے والی ہے اور پارلیمنٹ جو اب ان کی امیدوں کامرکز ہے اسے مجبور تو کرسکتے ہیں اپنے مطالبات ماننے کیلئے مگر اس پرحملہ آور نہیں ہوسکتے ورنہ ان میںاور آمروں میں کیافرق رہ جائے گا۔ 13جون جمعة المبارک کے روز پریڈ ایونیو پرجب لانگ مارچ کے قافلوں کی آمد ہورہی تھی اورسٹیج سے قومی وملی نغمے نشر ہورہے تھے ۔ اللہ اکبر اللہ اکبراے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیاہم زندہ قوم ہیں،پائندہ قوم ہیں۔یہ ترانے شرکاءکے جذبات کوگرما رہے تھے۔ جب قافلے نعرے لگاتے آرہے تھے اور سٹیج سے ان کوخوش آمدید کہا جارہا تھا۔ چاروں طرف چیف جسٹس افتخار کے حق اور صدر مشرف کے خلاف نعروں والے بینر لگے ہوئے تھے سٹیج کے ایک طرف وکلاءنے کیمپ لگا رکھا تھا جبکہ دوسری طرف ٹی وی چینلز کے کیمرے نصب تھے۔ ایمبیسی روڈ سے ہرلمحے کوئی نہ کوئی قافلہ،کوئی نہ کوئی جلوس آتا جارہاتھا۔ کوئی سرحد سے آرہا تھا تو کوئی بلوچستان سے، کوئی سندھ سے پہنچ رہاتھا اورکوئی پنجاب کے مختلف شہروں سے۔ لوگ آتے جارہے تھے اور پریڈ ایونیو کادامن تنگ پڑتا جارہاتھا۔ لوگوں کاجوش وخروش ہرگزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جارہاتھا ۔ سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا اور جون کی گرمی اچھے بھلے آدمی کے کس بل نکالنے کیلئے کافی تھی مگر ایک عجیب کیفیت ہرشخص پرطاری نظر آرہی تھی۔ کسی کوگرمی کی پروا تھی نہ بھوک اورپیاس کی۔ ان میں مرد بھی تھے اورعورتیں بھی۔ بڑے بھی تھے اوربچے بھی۔ ہرکسی کے لب پرایک ہی نعرہ تھا۔ ”ہم ملک بچانے نکلے ہیں۔ آئو ہمارے ساتھ چلو“۔ اوراس ماحول کے درمیان میںایک طرف کھڑا ایوان صدر کی طرف دیکھ رہاتھا جوسٹیج کے عین پیچھے نظر آرہاتھا اورجس کی چھت پرقومی پرچم لہراتھا میرے ذہن میں اس وقت ایک ہی سوال گردش کررہاتھا۔ صدرمشرف اس وقت کہاں ہیں؟ یہاں ہیں یاآرمی ہائوس میں ہیں؟12مئی کو جب کراچی مےں لاشےں گرائی جا رہی تھیں تو اسلام اÈباد مےں اسی مقام پر صدر نے جلسہ کیا جس میں کہا گیا کہ” دےکھی عوام کی طاقت “،اور اب وقت نے عوام کی اصل طاقت اسی جگہ لا کر دکھا دی ہے۔اب بھی کسی کو سمجھ آتی ہے ےا نہیں ،اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا،تاہم عوام کی اکثریت نے اےک بار پھر فےصلہ سنا دےا ہے اور خوب سناےا ہے۔اب جبکہ لانگ مارچ مکمل ہوچکا۔ کراچی سے اسلام آباد تک جوڈیشل بس چل چکی۔ سوال یہ ہے کہ اس سے حاصل کیاہوا؟ ججوں کی بحالی اور صدر کی رخصتی کااعلان کب ہوگا؟ اس پر تاریخ کامثالی لانگ مارچ کرنے والے عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماوزے تنگ کاقول سامنے رکھناہوگا۔ مائو کے مطابق ”لانگ مارچ ایک منشور ہے۔ایک پراپیگنڈہ فورس ہے۔ یہ ظاہر کرتاہے کہ جس راستے پرچل کرلانگ مارچ اپنی منزل پرپہنچا وہی راستہ ہماری آزادی اورخوشحالی کاراستہ ہے“10 جون سے14جون تک پاکستان میں جولانگ مارچ ہوا اورجس میں ہرطبقہ فکر نے بھرپور شرکت کی دراصل ایک منشور تھا کہ آئین اورقانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور جمہور کی حکمرانی ہی اس ملک کے 16کروڑ عوام کے مسائل کاحل ہے اوریہی وہ راستہ ہے جس پرچل کرہم بھی آزادی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ملکی تاریخ کی سب سے ”بڑی پیش قدمی “کس کس کو پچھاڑے گی ، ہم دیکھیں گے
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, June 17, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment