International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, July 27, 2008

امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مزید سات افراد کو رہا کر دیا ہے، میاں افتخار حسین

نوشہرہ ۔ صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مزید سات افراد کو رہا کر دیا ہے ۔باچا خان کے پیرو کار محبت کی زبان سمجھتے ہیں ۔پختونوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والے اپنے انجام پر غور کریں ۔ہم تاریخ کے سامنے سرخرو ہیں ۔ہم نے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا ۔اے این پی کی حکومت ہر کسی کے ساتھ امن کی بحالی کے لئے مذاکرات کی انتہا تک جانے کے لئے تیار ہے ۔با امر مجبوری افہام و تفہیم کا راستہ اختیار نہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال حکومت کا استحکام ہو گا ۔عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ہماری حکومت کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہو گی نہ ہم کسی کو دھمکیاں دیتے ہیں اور نہ کسی کی دھمکیاں مانتے ہیں ۔افسوس اور عقل سے بالا تر امر یہ ہے کہ جوان سے مذاکرات کرتے ہیں ان کو دھمکیاں دیتے ہیں اور جو ان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف ہیں اور ان سے طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں ان کے ساتھ دوستیاں ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز اپنی رہائش گاہ پبی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔میاں افتخار حسین نے کہا کہ صوبائی حکومت مقامی طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہی ہے ۔معاہدے کی شق کے مطابق ہم نے طالبان کے انیس افراد کو عدالتی احکامات کی روشنی میں ضمانت پر رہا کیا اور آج مزید سات افراد کو رہا کیا جا رہا ہے ۔معاہدے کی پاسداری کے باوجود صوبائی حکومت کو دھمکیاں دی گئیں،سکول جلائے گئے،مختلف علاقوں میں گشت کی جا رہی ہے،گھروں کے محاصرے ہو رہے ہیں،متوازن عدالتی نظام قائم کیا جا رہا ہے جو معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو معاہدے کی پاسداری کریں ان کے ساتھ صلح کی بات ہو گی اور جو خلاف ورزی کریں گے ان کے ساتھ ان کی زبان میں بات ہو گی ۔موت و حیات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ہم کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہونگے ۔ہنگو کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہاں پر امن قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انتیس افراد کو یرغمال بنایاگیا ہے ان کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اس میں ان لوگوں کاکوئی قصور نہیں وہاں فوج بہت مجبوری کے تحت آئی کیونکہ وہاں پر حکومتی رٹ کو چیلنج کیاگیا تھا ۔ان علاقوں میں امن بحال ہوتے ہی فوج مرحلہ وار بیرکوں میں چلی جائے گی۔انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم محبت اور افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلے کا حل چاہتے ہیں لیکن ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ مذاکرات کے حامی نہیں ان کے ساتھ دوستیاں ہیں جو سوچ سے بالا تر ہے ۔ہم تشدد کے خلاف ہیں خطے میں پختونوں کا خون بہانے پر ہمیں دکھ ہوتا ہے ۔حکومت کے خاتمے کی ڈیڈ لائن سے حکومت پر کوئی فرض نہیں پڑتا ہم پختون ہیں ہمیں پختون روایات کا پاس ہے لیکن پختونوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے والے اپنے انجام پر غور کریں ۔

No comments: