اسلام آباد ۔ سینٹ کی ذیلی قائمہ کمیٹی برائے سماجی بہبود نے توانا پاکستان پروگرام میں مالی باضابطگیوں کانوٹس لیتے ہوئے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ،ڈپٹی چےئرمین پلاننگ کمیشن اکرم شیخ اور سابق وفاقی وزراء اور وزارت کے سینئر افسران کو 23 اگست کو طلب کر لیاہے ۔جبکہ بے ضابطگیوں کے مبینہ اہم کردار عرفان اللہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہفتہ کے روز کمیٹی کا اجلاس سینیٹر انور بیگ کی صدارت میں ہوا ۔ اجلاس میں سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم کی وزارت کے سابق اور حاضر سروس افسران شامل ہوئے جن میں سیکرٹریز بھی شامل تھے ۔ ان افسران نے کمیٹی کو پروگرام کی تمام تفاصیل سے آگاہ کیا اوربتایا گیا کہ یہ منصوبہ 36 سو ملین روپے کاتھا جو 2003 ء کو شروع ہوا اور مجموعی طور پر 1247 ملین روپے جاری کئے گئے اس دوران جون 2005 ء میں یہ منصوبہ بعض بے ضابطگیوں کے باعث معطل کر دیاگیا تاہم مارچ 2007 ء کو ایک بار پھر غیر قانونی طور پر اس وقت کی وزیر بہبود آبادی اور سماجی ترقی زبیدہ جلال نے منصوبے کے پروجیکٹ منیجر عرفان اللہ کے ساتھ مل کر دوبارہ شروع کیا جس کا کوئی پی سی ون منظور نہیں ہوا تھا ۔ اس منصوبے کو قانونی شکل دینے کے لیے صدر مملکت پرویز مشرف اور اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے دورہ گوادر کے موقع پر منصوبے کا دوبارہ افتتاح کروایاگیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس منصوبے کے تمام اکاؤنٹس منجمد ہیں اور نومبر 2007 ء کو یہ منصوبہ ایک بار پھر معطل کر دیاگیا ۔ اس دوران مختلف آڈٹ کرائے گئے جس میں موبائل فون کے استعمال میں 94 ہزار روپے سے زآئد مالیت کی مالی بے ضابطگیاں ہوئی ۔ 2004-5 میں 22 لاکھ 59 ہزار روپے کی ایسی ادائیگیاں ہوئیں جو غیر منصفانہ تھیں ۔182 ملین روپے کے دودھ اور بسکٹ بچوں میں تقسیم کئے گئے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا ۔اس کے علاوہ 75 لاکھ روپے کے مختلف بیس لائن سروے اور مانیٹرنگ کی مالی بے صابطگیاں ہوئیں ۔ انہوں نے بتایا 37.144 ملین روپے کی فرنیچر اوردیگر آلات کی خریداری میں مالی بے ضابطگیاں ہوئیں ۔اجلاس کو بتایا گیا کہ 20 ملین روپے کی ادویات آغا فاؤنڈیشن نے پاک پتن کی بچیوں کو فراہم کیں جس کے استعمال سے وہ بچیاں موقع پر بے ہوش ہو گئیں بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ادویات بچیوں کے استعمال کے لیے نہیں تھیں بلکہ حاملہ خواتین کے استعمال کے لیے تھیں ۔ اے ڈی بی کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر علیم نے بتایا کہ یہ منصوبہ غیر قانونی طور پر چلایا گیا جس میں بے شمار مالی بے ضابطگیوں کا مظاہرہ کیاگیا اور پی سی ون کی منظوری کے بغیر ہی اس منصوبے کو چلایا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ سینیٹر کلثوم کی بیٹی کو اس منصوبے سے 73 لاکھ روپے ادا کئے گئے جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیاگیا ۔ اس کے علاوہ اس وقت کی وفاقی وزیر کے گھر سینکڑوں لیٹر منرل واٹر بھیجا جاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے میں غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں اور لوگوں میں روپے تقسیم کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ تین بین الاقوامی کمپنیوں ، ای ایم ایس ، ویٹا ، اور مازا کو سادے کاغذ پر معاہدے کئے گئے تاہم ویٹا کے ساتھ معاہدے پر اس وقت کے سیکرٹری وزارت بہبود آبادی نعیم خان نے دستخط کئے تھے جبکہ مازا کمپنی کے ساتھ پروجیکٹ منیجر عرفان اللہ نے دبئی میں جا کر خود ہی معاہدے پر دستخط کئے ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے لیے جب انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی تو وزارت پرنسپل اکاؤنٹس آفیسر اور انکوائری ٹیم کے ارکان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں جو توانا پاکستان پی سی ون منظور کیا گیا وہ درست نہیں تھا اور عملے کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات اس پی سی ون میں شامل نہیں تھیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس پروجیکٹ کے تحت جو ٹھیکے مختلف اداروں کو دئیے گئے تھے اس میں بھی قوانین و ضوابط کی بے قاعدگیاں کی گئیں ۔ ایم ڈی بیت المال زمرد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ پروگرام پر 60 کروڑ روپے خرچ ہوئے لیکن ان میں سے 18 کروڑ صرف بچوں اور بچیوں کو کھانا فراہم کرنے کے لیے خرچ کئے گئے جبکہ 42 کروڑ روپے کی رقم خردبرد ہوئی ہے۔انہوں نے بتایاکہ اداکار فردس جمال نے اس پروگرام سے اڑھائی کروڑ روپے وصول کئے ہیں جبکہ 20 کروڑ روپے ای ایم ایس ،ویٹا اور مازا کے پاس زائد پڑے ہوئے ہیں ان تمام معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے چےئرمین کمیٹی انور بیگ نے حکم دیا ہے کہ 23 اگست کو سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سابق ڈپٹی چےئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر اکرم شیخ ، سابق وفاقی وزیر بہبود آبادی زبیدہ جلال ، آغا فاونڈیشن کے جنرل منیجر قاسم طارق تینوں کمپنیوں کے منیجر ڈائریکٹرز ، سابق رکن اسمبلی عطیہ عنایت اللہ اس وقت کے سیکرٹری وزارت بہبود آبادی نعیم خان ، پروجیکٹ منیجر عرفان اللہ ، ناصر جمیل ، اداکار فردوس جمال 23 اگست کو حاضر ہو کر وضاحت کریں۔دریں اثناء اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر انور بیگ نے کہا کہ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ توانا پاکستان پروگرام کے تحت سابقہ حکومت کے دور میں سکولوں کے بچوں اور بچیوں کو جو خوراک فراہم کی جاتی رہی وہ انسانی صحت کے لیے مفید نہیں تھی ۔ انہوں نے بتایاکہ اس پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی اشیاء مضر صحت تھیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی لیبارٹری میں ٹیسٹ کے بعد اس بات کی تصدیق کی گئی ہے ۔ سینیٹر انور بیگ نے کہاکہ یہ قوم کے بچوں پر بہت بڑا ظلم تھا اور اس پروگرام کے نام پر لوگوں نے اربوں روپے غبن کئے اور ایسے لوگوں کو سرعام لٹکا دیا جانا چاہیے ۔انہوں نے بتایا کہ یہ ابھی تحقیقات کی ابتداء ہے اس کی مکمل تحقیقات ہوگی اور اس میں ملوث تمام افراد کو وضاحت کے لیے طلب کرلیا ہے ۔اور اس میں ملوث پائے جانے والے افراد کے لیے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک کی فراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق تین سے چار سو ملین روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہواہے ۔ تحقیقات کے مکمل ہونے کے بعد ایسے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے گی۔ کیونکہ ان لوگوں نے نہ صرف غریب لوگوں کی رقوم کو لوٹا ہے بلکہ قوم کے بچوں کو مضر صحت ادویات پلائیں ہیں ۔جن سے ان کی صحت اچھی ہونے کی بجائے بگڑ گئی ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, July 19, 2008
توانا پاکستان پروگرام بے ضابطگیاں ، شوکت عزیز اوران کی ٹیم کی طلبی
اسلام آباد ۔ سینٹ کی ذیلی قائمہ کمیٹی برائے سماجی بہبود نے توانا پاکستان پروگرام میں مالی باضابطگیوں کانوٹس لیتے ہوئے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ،ڈپٹی چےئرمین پلاننگ کمیشن اکرم شیخ اور سابق وفاقی وزراء اور وزارت کے سینئر افسران کو 23 اگست کو طلب کر لیاہے ۔جبکہ بے ضابطگیوں کے مبینہ اہم کردار عرفان اللہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہفتہ کے روز کمیٹی کا اجلاس سینیٹر انور بیگ کی صدارت میں ہوا ۔ اجلاس میں سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم کی وزارت کے سابق اور حاضر سروس افسران شامل ہوئے جن میں سیکرٹریز بھی شامل تھے ۔ ان افسران نے کمیٹی کو پروگرام کی تمام تفاصیل سے آگاہ کیا اوربتایا گیا کہ یہ منصوبہ 36 سو ملین روپے کاتھا جو 2003 ء کو شروع ہوا اور مجموعی طور پر 1247 ملین روپے جاری کئے گئے اس دوران جون 2005 ء میں یہ منصوبہ بعض بے ضابطگیوں کے باعث معطل کر دیاگیا تاہم مارچ 2007 ء کو ایک بار پھر غیر قانونی طور پر اس وقت کی وزیر بہبود آبادی اور سماجی ترقی زبیدہ جلال نے منصوبے کے پروجیکٹ منیجر عرفان اللہ کے ساتھ مل کر دوبارہ شروع کیا جس کا کوئی پی سی ون منظور نہیں ہوا تھا ۔ اس منصوبے کو قانونی شکل دینے کے لیے صدر مملکت پرویز مشرف اور اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے دورہ گوادر کے موقع پر منصوبے کا دوبارہ افتتاح کروایاگیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس منصوبے کے تمام اکاؤنٹس منجمد ہیں اور نومبر 2007 ء کو یہ منصوبہ ایک بار پھر معطل کر دیاگیا ۔ اس دوران مختلف آڈٹ کرائے گئے جس میں موبائل فون کے استعمال میں 94 ہزار روپے سے زآئد مالیت کی مالی بے ضابطگیاں ہوئی ۔ 2004-5 میں 22 لاکھ 59 ہزار روپے کی ایسی ادائیگیاں ہوئیں جو غیر منصفانہ تھیں ۔182 ملین روپے کے دودھ اور بسکٹ بچوں میں تقسیم کئے گئے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا ۔اس کے علاوہ 75 لاکھ روپے کے مختلف بیس لائن سروے اور مانیٹرنگ کی مالی بے صابطگیاں ہوئیں ۔ انہوں نے بتایا 37.144 ملین روپے کی فرنیچر اوردیگر آلات کی خریداری میں مالی بے ضابطگیاں ہوئیں ۔اجلاس کو بتایا گیا کہ 20 ملین روپے کی ادویات آغا فاؤنڈیشن نے پاک پتن کی بچیوں کو فراہم کیں جس کے استعمال سے وہ بچیاں موقع پر بے ہوش ہو گئیں بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ادویات بچیوں کے استعمال کے لیے نہیں تھیں بلکہ حاملہ خواتین کے استعمال کے لیے تھیں ۔ اے ڈی بی کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر علیم نے بتایا کہ یہ منصوبہ غیر قانونی طور پر چلایا گیا جس میں بے شمار مالی بے ضابطگیوں کا مظاہرہ کیاگیا اور پی سی ون کی منظوری کے بغیر ہی اس منصوبے کو چلایا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ سینیٹر کلثوم کی بیٹی کو اس منصوبے سے 73 لاکھ روپے ادا کئے گئے جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیاگیا ۔ اس کے علاوہ اس وقت کی وفاقی وزیر کے گھر سینکڑوں لیٹر منرل واٹر بھیجا جاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے میں غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں اور لوگوں میں روپے تقسیم کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ تین بین الاقوامی کمپنیوں ، ای ایم ایس ، ویٹا ، اور مازا کو سادے کاغذ پر معاہدے کئے گئے تاہم ویٹا کے ساتھ معاہدے پر اس وقت کے سیکرٹری وزارت بہبود آبادی نعیم خان نے دستخط کئے تھے جبکہ مازا کمپنی کے ساتھ پروجیکٹ منیجر عرفان اللہ نے دبئی میں جا کر خود ہی معاہدے پر دستخط کئے ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے لیے جب انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی تو وزارت پرنسپل اکاؤنٹس آفیسر اور انکوائری ٹیم کے ارکان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں جو توانا پاکستان پی سی ون منظور کیا گیا وہ درست نہیں تھا اور عملے کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات اس پی سی ون میں شامل نہیں تھیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس پروجیکٹ کے تحت جو ٹھیکے مختلف اداروں کو دئیے گئے تھے اس میں بھی قوانین و ضوابط کی بے قاعدگیاں کی گئیں ۔ ایم ڈی بیت المال زمرد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ پروگرام پر 60 کروڑ روپے خرچ ہوئے لیکن ان میں سے 18 کروڑ صرف بچوں اور بچیوں کو کھانا فراہم کرنے کے لیے خرچ کئے گئے جبکہ 42 کروڑ روپے کی رقم خردبرد ہوئی ہے۔انہوں نے بتایاکہ اداکار فردس جمال نے اس پروگرام سے اڑھائی کروڑ روپے وصول کئے ہیں جبکہ 20 کروڑ روپے ای ایم ایس ،ویٹا اور مازا کے پاس زائد پڑے ہوئے ہیں ان تمام معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے چےئرمین کمیٹی انور بیگ نے حکم دیا ہے کہ 23 اگست کو سابق وزیر اعظم شوکت عزیز سابق ڈپٹی چےئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر اکرم شیخ ، سابق وفاقی وزیر بہبود آبادی زبیدہ جلال ، آغا فاونڈیشن کے جنرل منیجر قاسم طارق تینوں کمپنیوں کے منیجر ڈائریکٹرز ، سابق رکن اسمبلی عطیہ عنایت اللہ اس وقت کے سیکرٹری وزارت بہبود آبادی نعیم خان ، پروجیکٹ منیجر عرفان اللہ ، ناصر جمیل ، اداکار فردوس جمال 23 اگست کو حاضر ہو کر وضاحت کریں۔دریں اثناء اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر انور بیگ نے کہا کہ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ توانا پاکستان پروگرام کے تحت سابقہ حکومت کے دور میں سکولوں کے بچوں اور بچیوں کو جو خوراک فراہم کی جاتی رہی وہ انسانی صحت کے لیے مفید نہیں تھی ۔ انہوں نے بتایاکہ اس پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی اشیاء مضر صحت تھیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی لیبارٹری میں ٹیسٹ کے بعد اس بات کی تصدیق کی گئی ہے ۔ سینیٹر انور بیگ نے کہاکہ یہ قوم کے بچوں پر بہت بڑا ظلم تھا اور اس پروگرام کے نام پر لوگوں نے اربوں روپے غبن کئے اور ایسے لوگوں کو سرعام لٹکا دیا جانا چاہیے ۔انہوں نے بتایا کہ یہ ابھی تحقیقات کی ابتداء ہے اس کی مکمل تحقیقات ہوگی اور اس میں ملوث تمام افراد کو وضاحت کے لیے طلب کرلیا ہے ۔اور اس میں ملوث پائے جانے والے افراد کے لیے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک کی فراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق تین سے چار سو ملین روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہواہے ۔ تحقیقات کے مکمل ہونے کے بعد ایسے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائے گی۔ کیونکہ ان لوگوں نے نہ صرف غریب لوگوں کی رقوم کو لوٹا ہے بلکہ قوم کے بچوں کو مضر صحت ادویات پلائیں ہیں ۔جن سے ان کی صحت اچھی ہونے کی بجائے بگڑ گئی ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment