پاکستان کے عوام کا قانون کی حکمرانی کا مطالبہ ہے اس ضمن میں وہ چاہتے ہیں کہ نہ صرف آئین توڑنے والوں کو بلکہ قو می خزانے سے کھربوں روپے لوٹنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جا ئے خواہ ان کا کسی بھی سیا سی جما عت سے تعلق ہو ۔ آئینی کی حکمرانی کی تعریف بھی یہی ہے کہ چور، ڈاکو، بدمعاش اور قرضہ چور حکمرانوں سے لیکر قانون شکن طا قتوں کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور ضمن میں ضروری ہے کہ احتسا بی عمل کو فعال کیا جا ئے۔ ان کرپٹ عناصر کے پیدا کردہ بحران کی وجہ سے عوام کا زندگی گزارنامشکل ہوگیا ہوا ہے۔ اور اب بھی یہ سب اپنے چکروں میں دن گزار رہے ہیں۔ عوام آسماں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرنے اور کرپٹ اور قانون شکنوں سے نجات دہندہ کب آئے گا۔ معزول ججوں کی بحالی کے بغیر آئینی پیکج نا مکمل ہے پیکج میں پی سی او کے ججوں کو بحال رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر معزول ججز بحال نہ ہوئے اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں کو بحال رکھا گیا توعوام اس کو عدلیہ کی آزادی نہیں کہیں گے ا ور دیگر آئینی پیکج پر سیاست چمکائی جا رہی ہے ۔ اس وقت اصل مسئلہ معزول ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوںکو فارغ کرنے کا ہے ۔ جبکہ قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے نام پر کرپٹ لوگوں کے اربوں روپے معاف کر دیئے گئے قومی دولت لوٹنے والوں کے کیس واپس لئے گئے ۔وہ کیس واپس لئے گئے جن پر قومی احتساب بیورو نے اربوں روپے خرچ کئے تھے ۔ حکمران افتخار محمد چوہدری سے ڈرتے ہیں اور ان سے خوفزدہ ہیں ۔ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا اور فوجی جرنیلوں کا حکم نہیں مانا اور ان کے سامنے سر جھکانے سے گریز کیا ۔ ا مریکہ کے کہنے پر پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے اور بعد ازاں انہیں گوانتا ناموبے منتقل کیا جا رہا ہے ۔لاپتہ افراد کا نوٹس لیکر ان کی بازیابی کے لئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اقدامات اٹھائے جس کی پاداش میں انہیں جج کے عہدے سے برطرف کیاگیا ۔ حکمران مشرف کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔پی سی او والے جج کہلانے کے قابل نہیں ۔معزول ججوں کا معاملہ کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔صدر مشرف نے آئین سے بغاوت کی ہے اور جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا ہے وہ بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں صدر مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے آئین کو معطل کیا اور پی سی او کا نفاذ کیا ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا ۔ تین نومبر کا اقدام غیر آئینی تھا اور ججوں کی برطرفی کا آرڈر صرف ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت ختم کیا جا سکتا تھا مگر حکمرانوں نے ججوں کو بحال نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ۔ بڑی جماعتیں کبھی دبئی کبھی لندن میں مذاکرات کرتی رہیں مگر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وہ لشکر اسلام اور دوسری مذہبی تنظیموں سے اختلافات نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ فروعی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو شیر و شکر کی دعوت دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دس جون سے معزول ججوں کی بحالی کے لئے ہونے والے لانگ مارچ میں بھر پور حصہ لیا جائے گا ۔صدر مشرف کے مواخذے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں ایسی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آئینی پیکج میں صدر کے مواخذے کو شامل کیاگیا ہے ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ امریکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے امریکہ دہشت گردی نہیں مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑیں اور انتشار پھیلے ۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو قبائلی علاقوں اور بند وبستی علاقوں میں اپنے لوگوں سے لڑوایا گیا ۔لال مسجد اور جامع حفصہ میں فوج کو مسلمانوں کے خلاف لاکھڑا کیاگیا ۔قاضی حسین احمد نے کہا کہ وزیرستان میں فوج کو عوام کے سامنے لایاگیا ۔سوات میں فوج کے ذریعے مسلمانوں کا خون بہایاگیا ۔یہ تمام پالیسیاں امریکہ کی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکمرانو ں نے مشرف کو مہلت دی اور اس کو فارغ نہیں کیا جس کے اچھے اثرا ت مرتب نہیں ہونگے ۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی بالادستی ہے اور امریکہ کے غلام قوم پر مسلط ہیں ۔جب تک امریکہ کے غلاموں سے آزادی نہیں ملتی تو اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا اس وقت ملک میں بہت بڑا خلاء ہے اور یہ خلاء جماعت اسلامی ہی پر کر سکتی ہے ۔انہو ں نے کہا کہ قومی دولت لوٹ کر کرپٹ عناصر نے پاکستان کے سرمائے کو بیرونی ممالک منتقل کیااور وہاں بینکوں میں رکھ کر اس پر سود لیا جا رہا ہے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سراج الحق نے کہا کہ مسائل کا حل آمریت اور جمہوریت میں نہیں جمہوریت بھی ناکام ہو چکی ہے اسلامی نظام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیراور اے پی ڈی ایم کے مرکزی رہنمالیاقت بلوچ نے کہاہے کہ ملک کے تمام تربحرانوں کے ذمہ دار پرویز مشرف ہیں اور وہ اپنے غیر آئینی ، غیر قانونی غیرا خلاقی اقدامات کی بدولت ملک کے عوام میں نفرت کی علامت بن چکے ہیں۔ وہ متنازعہ اور غیر آئینی صدر ہیں اور ان کی پالیسیوں سے ملک کی آزادی ، خود مختاری، قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ وہ اقتدار چھوڑ دیں اور مستعفی ہوجائیں۔ ایوان صدر سازشوں کا مرکزی گڑھ بن چکا ہے۔ جس سے ملک میں عدم استحکام اور غیر یقینی فضا بنی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا فقید المثال استقبال سے آئینی پیکیج پیش کرنے والے نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ 2نومبر کی پوزیشن پر ججز کی بحالی کے علاوہ کوئی آپشن قوم قبول نہیں کرے گی اور چیف جسٹس کی میعاد مدت میں کمی کرنے ، پی سی او والے ججز کو تحفظ دینے کا عمل بھی ناقابل قبول ہے۔ اے پی ڈی ایم پوری طرح موجودہ حالات سے آگاہ ہے اور اے پی ڈی ایم کی اپنی قومی کانفرنس 19,18جون کو ہورہی ہے اس کے سامنے اس آئینی پیکیج کی تجاویز کو رکھا جائے گا۔ ہم عدلیہ کی آزادی ، ججز کی بحالی، آئین و قانون کی بالادستی کے لیے وکلاء کی تحریک کے دست و بازوپشتیبان ہیں اور ہم اس تحریک کو سبوتاڑ کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ وکلاء کے لانگ مارچ کے استقبال کرنے کے حوالے سے ہماری تیاریاں مکمل ہیں۔ ہمارے کارکنان پوری طرح متحرک ہیں۔ لانگ مارچ کا ہر شہر میں فقید المثال استقبال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان قومی محسن ہیں۔ انہیں مکمل طور پر رہا کیا جائے۔ اسی طرح لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ڈی ایم ملک کے عوام کا نمائندہ اتحاد ہے۔ اس نے اپنے اصولی او ر دو ٹوک موقف اپنا کر ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی ، عدلیہ کی آزادی ججز کی بحالی کی داغ بیل ڈالی ہے۔ انشاء ا للہ ہماری جدوجہد قومی مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ جبکہ یوسف گیلانی نے کہا کہ ایوانِ صدر اور پارلیمنٹ کے اختیار میں توازن لایا جائے گا وہ صدر کا بے حد احترام کرتے ہیں اور کسی تصادم کی بات نہیں کرتے۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ اپنی پارٹی کی پالیسی، بے نظیر بھٹو کے منشوراور ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی بات کرتےہیں جو ان کے لیے اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ سابق پالیسی کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے اور اب ان کی حکومت ہتھیار پھینک دینے والوں سے گفت و شنید کرے گی اور انہیں مرکزی سیاسی دھارے میں لے آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مذاکرات ان لوگوں سے کیے جائیں گے جو انتہاپسند اور عسکریت پسند نہیں ہونگے۔ ان کی پالیسی ہے کہ بنیادی وجوہات کو دیکھنا ہے آیا کہ جو دہشت گردی یا انتہا پسندی ہے اس کی زمینی حقائق کیا ہیں۔ امریکہ، برطانیہ سمیت سب یہ جانتے ہیں کہ سابق پالیسیوں کو کچھ زیادہ نتائج نہیں مل سکے۔پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ ساتھ ساتھ ان علاقوں میں صحت و تعلیم کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے گا۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے،علاقے کے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہوگا اور ترقی کے ذریعے ان علاقوں میں انقلاب لایا جائے گا۔ فورسز ان علاقوں میں بدستور موجود رہیں گی اور جب ان کی ضرورت محسوس ہو تو انہیں استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر بش سے ملاقات کی تھی جس کے بعد دونوں رہنماو¿ں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ ان کی حکومت کی پالیسی کو پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری نیت ہے کہ ملک میں امن وامان ہو۔‘ وزیر اعظم نے پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اسی سلسلے میں مجوزہ آئینی ترامیمی پیکج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک ایوان صدر کا تعلق ہے ہم صدر صاحب کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ہم اپنی پارٹی کی پالیسی، بے نظیر بھٹو کے منشوراور ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی بات کرتےہیں۔ہم کسی تصادم کی بات نہیں کرتے۔‘ انیس سو تہترکے آئین پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی تھا لیکن جب اس میں ترامیم کی گئیں تو وہ نہ پارلیمانی رہا نہ صدارتی رہا۔اب اس میں توازن لایا جائے گا۔ ’ان کا عوام سے وعدہ ہے کہ انیس سو تہتر کا آئین بحال کیا جائے گا اور اس کا مقصد(آئینی پیکیج کا) اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے وہ کسی سے تصادم نہیں چاہتے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس آئینی پیکج کے حوالے سے پارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے اورتمام اتحادی جماعتوں سے رائے لی جائے گی۔ ان ترامیم کے نفاذ کے لیے قرارداد لائی جائے گی یا کوئی دوسرا طریقہ استعمال ہوگا اس کا فیصلہ وزارت قانون کرے گی اور پارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ آئینی پیکج بجٹ سے پہلے آنا چاہیے یا اس کے بعد پارلیمان میں پیش کیا جائے۔ بلوچستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہاں طاقت کا استعمال نہ کیا جائے اور مذاکرات کیے جائیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جارہی ہے۔ جبکہ تجزیہ کا روں کا کہنا ہے کہ جب چودہ اگست انیس سو تہتر کو آئین کا نفاذ ہوا تو اس کے تحت صدر پابند تھا کہ وہ اپنے اختیارات وزیرِ اعظم کے لازمی یا غیر لازمی مشورے کے ساتھ ہی استعمال کرسکتا ہے۔چوبیس مئی کو پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے جس مجوزہ آئینی پیکیج کا خلاصہ بیان کیا ہے اس میں موجودہ صدر کو حاصل جو جو اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کم و بیش یہ سب اختیارات انیس سو تہتر کے آئین کے تحت بننے والے پہلے وزیرِ اعظم زوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھے۔ مجوزہ آئینی پیکیج میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے دائرے میں ان ججوں کو بھی لایا جائے جو مستقبل میں کسی بھی فوجی آمر کے احکامات کو جائز قرار دیں یا عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اٹھائیں۔ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ زرداری نائک لیگل ایسوسی ایٹس آرٹیکل چھ کے دائرے میں جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ ساتھ ان ارکانِ پارلیمان کو بھی شامل کرلیں جو مستقبل کے آمروں کو انڈیمنٹی یا استثنی فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ یوں جہاں جرنیل اور جج آئین کی پامالی میں حصہ دار بنتے ہوئے دس بار سوچیں گے وہیں ارکانِ پارلیمان بھی غیر آئینی اقدامات کو قانونی چوغہ پہنانے سے پہلے گلے میں پڑنے والے ممکنہ پھندے کو تصور میں لا سکیں گےاگر آصف علی زرداری اور ان کے وزیرِ قانون فاروق نائیک آرٹیکل چھ کو بغور پڑھ لیں تو شاید انہیں اندازہ ہوجائے کہ پینتیس برس پہلے ہی اس آرٹیکل میں یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ پارلیمنٹ ایک بالاتر قانون ساز ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کو جو شخص بھی جبراً یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے تحلیل، تبدیل یا پامال کرنے کی کوشش یا سازش کا حصہ یا مددگار بنے گا وہ شخص انتہائی غداری کا مرتکب ہوگا اور ایسے شخص کو پارلیمنٹ سزا دینے کی مجاز ہوگی۔ گویا آرٹیکل چھ کے دائرہ کار میں جرنیل اور ججوں سمیت وہ تمام عناصر خود بخود آجاتے ہیں جو اسے توڑنے یا اس کی پامالی یا سازش یا کوشش میں شامل ہوں۔ اس آرٹیکل کے ہوتے ہوئے جسٹس انوار الحق نے پھانسی جنرل ضیا الحق کے لیے نہیں بلکہ آئین کے خالق کے لیے تجویز کی۔ اور اسی سے حوصلہ پا کر بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو یہ آئین دوسری دفعہ پامال ہوا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ جب جب بھی آئین کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونے کا موقع آیا مملکت کے بالا ترین قانون ساز ادارے کے ارکان کی ریڑھ کی ھڈی کا گودا خشک ہوگیا اور اس ایوان نےآرٹیکل چھ کے تحت سزا تجویز کرنے کے اپنے ہی اختیار کو آئین اور اس کی روح سمیت آمروں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ انیس سو پچاسی کی غیر جماعتی پارلیمان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اور سن دوہزار دو کی جماعتی پارلیمان نے سترہویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل چھ کے پتھر کو پھول میں بدل دیا۔ کیا یہ اچھا نہ ہو کہ زرداری نائیک لیگل ایسوسی ایٹس آرٹیکل چھ کے دائرے میں جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ ساتھ ان ارکانِ پارلیمان کو بھی شامل کرلیں جو مستقبل کے آمروں کو انڈیمنٹی یا استثنیٰ فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ یوں جہاں جرنیل اور جج آئین کی پامالی میں حصہ دار بنتے ہوئے دس بار سوچیں گے وہیں ارکانِ پارلیمان بھی غیر آئینی اقدامات کو قانونی چوغہ پہنانے سے پہلے گلے میں پڑنے والے ممکنہ پھندے کو تصور میں لا سکیں گے۔ اگر پیپلز پارٹی واقعی یہ سمجھتی ہے کہ مستقبل کے آمروں کو کہیں پناہ نہ ملے تو آغاز اس سے کیوں نہیں ہوسکتا کہ موجودہ پارلیمان ایسے تمام ججوں اور سابقہ پارلیمانوں کے خلاف قرارِ دادِ مذمت منظور کرے جنہوں نے پچھلے ساٹھ برس میں بلواسطہ یا بلاواسطہ آمرانہ اقدامات کو آئینی طور پر حلال قرار دیا۔ جبکہ ممتاز تجزیہ کا ر نے اپنی آراءکے آخر میں یہ بھی کہا ہے کہ جب تک بلی اپنے گلے میں خود گھنٹی نہ باندھے وہ ملک کترنے والے چوہوں کو کیسے دور رکھ سکتی ہے۔ وکلاءاور جج صاحبان کسی صورت میں سمجھوتے کی پوزیشن میں نہیں رہے اور عوام نے مینڈیٹ دے کر انہیں اس جگہ پر کھڑا کر دیا ہے کہ اب صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنا پڑے گی۔اس کے علاوہ کسی نے دیگر کوئی بات سوچی تو یہ قوم معاف نہیں کرے گی‘۔ اس ملک میں کبھی بھی قانون کا بول بالا نہیں ہوا اور کسی نہ کسی طریقے سے عدلیہ اور آئینی کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے بہانے تلاش کیے جاتے رہے ہیں۔ جب بھی اس ملک پر کسی آمر نے طالع آزمائی کی، اس نے آئین کو معطل کیا اور آٹھ سے دس سال حکمرانی کی اور آخر میں عدالت سے اس کی توثیق حاصل کی، چند دنوں کے لیے حکومت کا اختیار سیاستدانوں کو دیا گیا بعد میں دوبارہ یہ مشق شروع ہوگئی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری ’بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان میں وہ اس تمام صورتحال سے عدلیہ کو مبرا نہیں سمجھتا اور ان کے نزدیک اگر عدلیہ انیس سو چون سے لیکر انیس سو اٹھاون، اور انیس سو اٹھہتر میں مختلف اہم مقدمات میں ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتی تو شاید آج کا دن ساٹھ سال کے بعد دیکھنے کو نہیں ملتا‘۔ ساٹھ سالوں میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں نے اصولوں کی سیاست شروع کر دی ہے۔ تاریخ دیکھیں تو کسی سیاسی جماعت نے کبھی اتنی بڑی قربانی نہیں دی جس طرح ایک سیاسی جماعت نے اپنی پندرہ وزارتیں چھوڑ کر دی ہے عوام اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان فیصلوں نے اس ملک میں آئین کی بالادستی یا قانون کی حکمرانی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا بلکہ ملک پیچھے سے پیچھے جاتا رہا۔ ’ساٹھ سال کے بعد ہم نے ایک طویل سفر طے کیا اور ایک دن ایسا آیا جو وکلاء، جج صاحبان ، سول سوسائٹی اور سولہ کروڑ عوام نے پہلی مرتبہ یہ سوچنا شروع کیا کہ اب بہت ہو چکا اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ جن جج صاحبان نے حلف اٹھانے سے انکار کیا عوام کو ان پر فخر ہے اور وہ پی سی او کے تحت حلف لینے والوں کو جج تسلیم نہیں کرتے۔’چند حضرات نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ کسی کا شخصی حلف اٹھائیں قوم نے ان کی جو عزت کی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ماروائے آئین اقدامات کی نہ صرف تائید کی ایسے حلف کی پاسداری کی جس کا کوئی جواز نہیں ملتا انہیں نہ صرف اپنے بچوں بلکہ قوم کے سامنے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا‘۔ عوام نے اٹھائیس فروری کو بتادیا کہ پاکستانی قوم باضمیر اور باغیرت قوم ہے اور اپنی غیرت کا دفاع کرنا ہر صورت میں جانتی ہے اور اسی غیرت سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کراچی میں عوام کے ہاتھوں ڈاکوو¿ں کی تشدد میں ہلاکت کے واقعے کا ذکر کے حوالے سے عوام نے تنگ آ کر وہ راستہ اختیار کرنے شروع کر دیے ہیں جس کو ہم ہجوم کا انصاف کہتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے۔ چند حضرات نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ کسی کا شخصی حلف اٹھائیں، قوم نے ان کی جو عزت کی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ماروائے آئین اقدامات کی نہ صرف تائید کی ایسے حلف کی پاسداری کی جس کا کوئی جواز نہیں ملتا انہیں نہ صرف اپنے بچوں بلکہ قوم کے سامنے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ’ اس سے پیشتر کہ لوگوں کا غم وغصہ اور زیادہ بڑ ھے ہم پر یہ فرض ہوتا ہے ہم ایسے ہجوم کے انصاف کی نہ صرف مذمت کریں جتنا جلد ممکن ہو سکے اپنے اداروں کو دوبارہ بحال کریں اور کروائیں اور کوشش کریں کہ لوگوں میں عدلیہ کے لیے دوبارہ اعتماد بحال ہو‘۔ تمام وکلاء جج، سول سوسائٹی اور ایلیٹ کلاس یہ سمجھ چکی ہے کہ بغیر آئین کی بالادستی اور بغیر قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے اس ملک کے حالات صحیح نہیں ہوں گے اور وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے توقع کریں گے کہ وہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور خاص طور پر وہ سمجھوتہ جس میں ذاتی مفاد کا عمل دخل ہو۔ پاکستان بار کونسل نے پی سی او کے تحت حلف ا±ٹھانے والے ججوں کی قانونی حثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہوا ہے اور فیصلہ کیا تھا کہ اگر بارہ مئی تک پی سی او کے تحت حلف نہ ا±ٹھانے والے جج بحال نہ ہوئے تو سولہ مئی کو لاہور میں وکلاء کی تنطیموں کا اجلاس ہوگا جس میں وکلاء کا آئندہ کا لائحہ عمل وضح کیا جائے گا۔پاکستان کی نئی اتحادی حکومت کے معزول ججز کی بحالی کے فیصلے پر جہاں ایک طرف گرمجوشی کی فضا ہے وہیں دوسری جانب خدشات بھی ہیں۔گرمجوشی اس لیے کہ یہ امید حقیقت بنتی نظر آرہی ہے کہ معزول ججز اپنے عہدے سنبھال لیں گے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ حکمراں اتحاد اور صدر مشرف کے درمیان تصادم شروع ہوسکتا ہے جن کے پاس حکومت کو برخاست کرنے کا حق ہے۔ جہاں تک ججز کی بحالی کا سوال ہے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شرف کو یقین ہے کہ ایسا ہوجائے گا۔نواز شریف نے ایک روز اخبارنویسوں کو بتایا: ’پارلیمان میں ایک قرارداد لائی جائے گی جس کی بنیاد پر اسی روز ایک سرکاری حکم نامہ جاری کیا جائے گا، اور انشاء اللہ، مشرف کے ہاتھوں معزول ہونے والے ججز بحال ہوجائیں گے۔‘ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ سابق وزیر اطلاعات اور صدر مشرف کے حامی شیخ رشید احمد نے کہا ہے: ’عوام ججز کی صرف بحالی نہیں، فعالی چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’یہہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ایسے اقدام پر اس لیے روک لگاسکتے ہیں کیونکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی سے نقصان ان ہی کو ہوگا۔شیخ رشید احمد کے خیالات معنی خیز اس لیے ہیں کہ بعض لوگوں کی رائے میں عدالت ایسے اقدام پر روک لگا سکتی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ایسے اقدام پر اس لیے روک لگاسکتے ہیں کیونکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی سے نقصان ان ہی کو ہوگا۔ مبصرین کے خیال میں معزول ججز کی بحالی سے متاثر ہونے والے ججز کا موقف بھی یہی ہوگا۔اس سے ان سارے معاملات پر عدالتی کارروائیوں کا ایک سیلاب شروع ہوجائے گا جو تین نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ سے اب تک طے پائے ہیں۔لیکن اگر موجود ججز حکمراں اتحاد کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے شکست تسلیم کرلیں تب بھی کئی قانونی پیچیدگیاں جواب طلب ہیں۔نواز شرف نے اعتراف کیا ہوا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دباو¿ میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ معزول ججز کی جگہ لینے والے موجودہ ججز کو نہیں ہٹایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت میں ججز کی تعداد بڑھ جائے گی جس کی بعض ماہرین کی نظر میں آئین میں اجازت نہیں۔نواز شریف نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر قانون اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق نائک کی سربراہی میں قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی قانونی پیچیدگیوں کے حل پر غور کرے گی۔ اس پر فاروق نائک نے ٹی وی چینلز کو بتایا تھا کہ اس عمل میں وقت لگے گا۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم کوشش کریں گے کہ یہ کام جتنا جلد ممکن ہو مکمل ہوجائے۔ لیکن اس میں کوئی برائی نہیں کہ ججز کی (حقیقی) بحالی بارہ مئی کے بعد ہو پائے۔‘ مبصرین اور سیاست دانوں نے کہا ہے کہ صدر مشرف معزول ججز کی بحالی کے اقدام کے خلاف کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر مشرف نے پیپلز پارٹی کو ڈھکی چھپی وارننگ دی ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو وہ پارلیمان کو برخواست کرسکتے ہیں۔ صدر پرویز مشرف نے عوامی سطح پر اپنا ردعمل نہیں ظاہر کیا ہے۔ تاہم ایوان صدر میں وہ حالات پر غور کرنے کے لیے مسلم لیگ (ق) اور دیگر سیاسی اتحادیوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ صدر مشرف کو خدشہ ہے کہ ججز کی بحالی کا سیاسی عمل پارلیمان میں ان کے مواخذے تک جاسکتا ہے۔لیکن اب جب کہ حکمراں اتحاد نے ججز کی بحالی کی کا اعلان کردیا ہوا ہے، کیا صدر مشرف اپنے پتے کھیلیں گے؟ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید وہ ڈگمگا جائیں۔ ماضی قریب میں صدر کی اختلافی سیاست سے ملک عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور اس سے گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی اقتصادی ترقی بھی متاثر ہوئی ہے۔ اس وجہ سے آج وہ پاکستان میں سب سے غیرمقبول رہنما بن گئے ہیں۔ بعض مبصرین کی نظر میں فوج صدر مشرف کی وقت پر مدد کرسکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج نے حال میں خود کو سیاست سے الگ رکھا ہے۔ اور سیاسی سطح پر نئی حکومت، ججز اور سِول سوسائٹی سب ہی صدر مشرف کے خلاف صف آراء ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ معطل شدہ ججوں کی بحالی عدلیہ میں اصلاحات کے ایک پیکج کے تحت عمل میں لائی جائے گی۔ اور معطل شدہ ججوں کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ کے موجودہ جج بھی کام کرتے رہیں گے۔ آصف علی زرداری نے ان خدشات کو رد کر دیا تھاکہ ججوں کو تیس دن کے اندر بحال نہ کیئے جانے کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت سے علیحدگی اختیار کر لے گی۔ آئینی پیکج کی تیاری اور اس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بارے میں آصف علی زرداری نے وقت کا تعین کرنے سے انکار کر دیا تھاتاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس سارے عمل میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ دریں اثناءپاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر دبئی میں مذاکرات کے دو دور ہوئے جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے تھے۔ ان مذاکرات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت آصف علی زرداری نے کی تھی جبکہ مسلم لیگ نون کے وفد کی سربراہی میاں شہباز شریف نے کی تھی ۔ان مذاکرات کے اختتام پر بھی کوئی اعلان سامنے نہیں آ سکا۔آصف علی زرداری نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس آئینی پیکج کی تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ پیکج وزیر قانون فاروق ایچ نائیک بنا رہے ہیں اور اس میں متبادل تجاویز رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا یہ بھی کہا تھا کہ وزیر اعظم اور صدر کے عہدوں کی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد بھی مقرر ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس مدت کا تعین کرنے سے انکار کر دیا تھا البتہ انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا تھاکہ اس پیکج میں ججوں کی مدتِ ملازمت بڑھائی جا رہی ہے۔ اور اس آئینی پیکج میں آئین کی شق اٹھاون ٹو بی کو بھی ختم کرنے کی ترمیم شامل ہو سکتی ہے۔ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء کی طرف سے تیس دن کی مہلت کے بارے میں انہوں نے کہا تھاکہ وہ کسی ایسی مہلت کو نہیں مانتے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرحوم چیئر پرسن بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے بارے میں اپنا عزم دھراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قتل ایک سازش کا حصہ ہے اور جس کا مقصد پاکستان کی ’بالکانزیشن‘ کرنا یا پاکستان کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ انہوں نے ان خدشات کو رد کردیا تھاکہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں ملوث کرنے سے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ججوں کی بحالی پر معاہدے پر حکمران اتحاد کی دو چھوٹی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کی تائید آنکھیں بند کر کے نہیں کریں گی۔ ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ہی مشاورت ہوئی اور اس معاملے پر دو دیگر چھوٹی جماعتوں سے بظاہر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا کہنا ہے کہ چونکہ مری معاہدہ ان دو جماعتوں کے درمیان ہوا ہے لہٰذا یہ مذاکرات ان کی حد تک محدود ہی بہتر ہیں۔ اے این پی کے تر جمان کا کہنا تھا کہ’ہماری اپنی ایک سوچ و فکر ہے کیونکہ ہم آزاد عدلیہ کی بات کرتے ہیں، اداروں کی آزادی کی بات کرتے ہیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اس وقت اس نظریے کے نزدیک ہیں ظاہر ہے کہ ہماری سوچ وہی ہوگی۔ ہماری سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘ 'ہم اس ملک کی عدلیہ کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بھی آئے تو وہ عدلیہ کی آزادی کے اوپر شب خون نہ مارے، پارلیمنٹ پر شب خون نہ مارے کیونکہ ساٹھ سال سے اس قوم کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے، اب ہم اسی بات پر قائم ہیں کہ آئین کے ذریعے پارلیمنٹ کے بالا دستی ضروری ہے اور اس کے ساتھ عدلیہ اور سارے اداروں کے آزادی ضروری ہے جس میں میڈیا بھی ہے۔‘ چھوٹی موٹی شکایتیں اپنی جگہ لیکن ججوں کے معاملے پر اب تک اعتماد میں نہ لینا کتنا بڑا مسئلہ ہے اس پر جمیعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام اتحادیوں کو شامل مشاورت کیا جاتا۔ ’لیکن اگر یہ فیصلہ ہماری سوچ کے مطابق نہ ہوا تو اسے ہماری تائید بھی حاصل نہیں ہوگی۔‘ بڑی جماعتیں وسعت نظر کے ساتھ اگر دبئی مذاکرات میں چھوٹی جماعتوں کو بھی شریک کر لیتی تو اس پر اتفاق رائے کی راہ میں ایک ساتھ تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی تھیں۔ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ایوان صدر، آرمی چیف اور امریکی اہلکاروں کے حالیہ بیانات کو بعض تجزیہ کار ملک میں ایک نئے سیاسی تنازعہ کھڑے ہونے سے تعبیر کرتے ہوئے ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔آصف علی زرداری کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ مصالحت کے نام پر صدر پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں اور ججوں کی بحالی کے معاملے پر آئینی پیکیج لانے کی بات کر کے صدر مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ لیکن آصف علی زرداری کےپی ٹی آئی‘ کو دیے گئے انٹرویو کے بعد یہ تاثر الٹا ہوتا دکھائی دیاہے۔ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف ’ریلک آف دی پاسٹ‘ یا ماضی کی باقیات بن چکے ہیں اور انہیں ہٹانے کے لیےحکومت پر عوام کا دباو¿ ہے اور حکومت عوامی خواہشات سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ان کے مطابق عوام کو آٹے اور بجلی سے بھی زیادہ فکر صدر مشرف سے نجات حاصل کرنے کی ہے۔ آصف علی زرداری کے اس انٹرویو سے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا تھاکہ فوج عوام کی مدد سے بیرونی اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ ایوان صدر میں مسلم لیگ (ق) کی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد یہ بیان کیا گیا کہ صدر نے کہا ہے کہ انہیں آصف علی زرداری پر بھروسہ نہیں ہے۔ مقامی میڈیا میں ایوان صدر سے منسوب اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر آئینی پیکیج کے ذریعے صدر کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی تو صدر ا±سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ اس کے اگلے روز یعنی جمعرات کو پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اس طرح کی خبروں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری عوام کے اعتماد پر یقین اور ا±سے برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں کسی فرد کے اعتماد کی ضرورت نہیں۔‘ ’ہماری جماعت ایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان اختیارات کے عدم توازن کو میثاق جمہوریت اور دنیا کے جمہوری اصولوں کے مطابق ٹھیک کرنا چاہتی ہے اور ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون اس سے خوش ہوتا ہے اور کون نا خوش۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ جب بھی کسی آمر نے دھوکہ دہی، چال بازی اور طاقت کی بنا پر اختیارات حاصل کیے ہیں تو جمہوری قوتوں کے آنے کے بعد انہیں ختم کیا گیا ہے۔ ’بھٹو خاندان کی شہید ہونے والی دو نسلوں نے اپنی جماعت کو یہی سکھایا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ غریب عوام ہیں نہ کہ کوئی بندوق بردار آمر۔‘ جب تک پیپلز پارٹی کو عوام کا اعتماد حاصل ہے جیسا کہ اٹھارہ فروری کے انتخابات سے بھی عیاں ہے ایسے میں مشرف پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری پر بھروسہ کریں یا نہ، یہ بیکار بات ہے۔‘ پاکستان کے اندر فی الوقت اقتدار کے منبعوں کے اس طرح کے بیانات کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جنوبی ایشیا کے بارے میں نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے نے ایک بیان میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کا بیان دیا ہے۔ باوجود اس کے کہ امریکی اہلکار کا یہ بیان پاکستان حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ساتھ معاہدوں کے تناظر میں ہے لیکن امریکہ کی اس طرح کی سوچ کو پاکستان کے اندرونی معاملات سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ صدر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے حامی رہے ہیں۔ تاحال صدر پرویز مشرف کا براہ راست کوئی تبصرہ نہیں آیا لیکن ان کے ترجمان راشد قریشی نے چند روز قبل واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ جب صدر کو سویلین استحکام کا یقین ہوجائے گا تو وہ کسی مناسب وقت پر خدا حافظ کہہ سکتے ہیں۔ راشد قریشی کے خیالات اپنی جگہ لیکن آصف علی زرداری کے بیان اور ایوان صدر سے منسوب بیانات (جن کی تردید نہیں کی گئی) ان سے ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت کے سربراہ اور صدر پرویز مشرف کے درمیاں جہاں اعتماد کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے وہاں تعلقات بھی حد سے زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں۔ ایسے میں صدر مشرف کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں کہ وہ اسمبلی توڑ دیں یا پھر مستعفی ہوجائیں۔شاید یہی وجہ ہے انٹرویو میں آصف علی زرداری نے ایک سوال پر کہا ہے کہ ’کسے معلوم کہ کون جاتا ہے، صدر پرویز مشرف، میں یا پھر ہماری حکومت۔‘ پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ماضی میں کچھ جج آمروں کے کہنے پر فیصلے کرتے رہے ہیں لیکن اب وہ وقت گزر گیا ہے۔معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے فیصل آباد بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کچھ ججوں نے آمروں کا ساتھ دیا لیکن اب وہ وقت گذر گیا اور ان تمام لوگوں کو سزا ملے گی جنہوں نے عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ معزول چیف جسٹس نے آمروں کے ساتھ ججوں کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس محمد منیر اور جسٹس انوار الحق کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ جسٹس محمد منیر نے پاکستان میں نظریہ ضرورت کی بنیاد ڈالی جبکہ جسٹس انوار الحق نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے بینچ کی سربراہی کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری جب فیصل آباد پہنچے تو وکلاءعام شہریوں، سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ چیف جسٹس کا قافلہ گیارہ گھنٹے کی مسافت کے بعد فیصل آباد پہنچا۔ فیصل آباد بار ایسوسی ایشن کی تقریب ساری رات جاری رہی اور بارش کے باوجود لوگوں کی ایک کثیر تعداد چیف جسٹس کی تقریر سننے کے لیے بار ایسوسی ایشن کے دفتر کے باہر جمع رہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ تین نومبر کو سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی نہ لگائی جائے اور اس حکم کی تعمیل تمام متعلقہ محکموں سے کروائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی۔ ملک کی بقا اسی میں ہے کہ تمام فیصلے آئین کے مطابق ہوں اور ’ملک کے اندر ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ عوام فیصلہ کریں کہ ان کو کیسی عدلیہ چاہیے۔ ’ایسی عدلیہ جو آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرے یا ایسی عدالیہ جو آمر کے کہنے پر فیصلہ کرے۔‘ انہوں نے کہا ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ انہوں نے از خود نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت کی۔ جسٹس افتخار نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کیا لیکن وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے ججوں نے تو از خود نوٹس نہیں لیے تھے ان کو کیوں ہٹایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے مجوزہ آئینی پیکج کے بارے کوئی بات نہیں کی لیکن ان کی وکلاء نے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کیے جانے والے آئینی پیکیج پر کھل کرتقاریر کیں۔ جس آئینی پیکیج کو پارلیمنٹ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اس کا مقصد عدلیہ کے وقار میں اضافہ نہیں بلکہ ان ججوں کو سزا دینا ہے جنہوں نے عدلیہ کے وقار کو بلند کیا۔ انہیں خدشہ ہے کہ جج دس جون سے پہلے بحال نہیں ہوں گے اور وکلاء کو لانگ مارچ کی تیاری کرنی چاہیے۔ حکومت پنجاب نے جسٹس افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس آف پاکستان کا مکمل پروٹوکول دیا اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس کا استقبال کیا۔ اگر چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد مقرر کیگئی تو وکلاء اسے ’مائنس ون فارمولہ‘ سمجھیں گے جسے وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ مجوزہ آئینی پیکیج سے عدلیہ کے وقار کو بڑھایا نہیں جا رہا بلکہ عدلیہ کے وقار کو بڑھانے والوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ وکلاء پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو بھی اپنے آپکو مضبوط کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ عدلیہ کے ملبے پر قائم نہیں رہ سکتی۔ چیف جسٹس کے وکیل حامد خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور انہیں 1996 میں عدلیہ سے لڑائی کو یاد کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ حامد خان نے کہا کہ جس طرح کا آئینی پیکیج حکومت لانا چاہا رہی ہے اس طرح کا پیکیج کسی آمر کو ہی زیب دیتا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک ایسے شخص کو نوازنا چاہتی ہے جن نے تین نومبر 2007 کو اپنے حلف سے غداری کی اور ایک آمر سے وفاداری کا حلف لیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کسی ایسے آئینی پیکیج کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی جا سکے۔ آئینی پیکیج کے ذریعے حکومت ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھانا چاہا رہی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھانے کے بعد وکلاء کے دباو¿ میں واپس لے چکے ہیں۔ حامد خان نے کہا جو شخص کمزور ہوگیا تھا پیپلز پارٹی اس کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔ جبکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ انہوں نے صدر پرویز مشرف کو کبھی آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اور ہم چاہتے ہیں وہ چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو۔ فوجی سربراہان، گورنرز اور ججوں سمیت آئینی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار صدر کے بجائے وزیر اعظم کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھنے کی تجویز ہے، سینٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیت کا نمائندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی شق ختم کرنے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے کی بھی شقیں شامل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کی دفعہ 62 ‘ 63 اور 90 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ دفعہ 62 اور 63 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے بارے میں ہیں اور دفعہ 90 صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور ترمیم کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم اور کابینہ کو بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ چاروں صوبوں کے گورنرز اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کے مشورے سے مشروط کرنے کی تجویز پیکج میں دی گئی ہے ۔مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق آئین میں کنکرنٹ لسٹ کو 80 فیصد ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے مشورے سے ہو گا ۔ اور اگر یہ نہیں ہوں گے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے مشورے سے یہ تقرر کیا جائے گا۔ نیشنل فنانس کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کو شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹ کے قائد ایوان کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ آئینی پیکج میں ایک شق شامل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں ۔ ایک دوسری شق کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے تاہم اس کے لیے مزید صلاح و مشورے ہوں گے۔ آئینی پیکج کے مطابق کوئی بھی شخص دو سے زائد مرتبہ صدر نہیں بن سکے گا اور صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے کی تجویز بھی آئینی پیکج میں شامل ہے ۔آئینی پیکج کے مطابق آرٹیکل 104کے تحت نگران حکومت سپیکر کی مشاورت سے قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں گورنر کی مشاورت سے کی جائے گی ۔سی سی آئی کا اجلاس ہر سال میں دو دفعہ ہو گا ۔ قومی اقتصادی کونسل کو فعال بنایاجائے گااور فنانشل کونسل کا اجلاس تین سال بعد ہو گا اجلاس میں پیش کی گئی قرار داد کے مطابق بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیا اور دوسری سیاسی جماعتوں سے آئینی پیکج کے بارے میں مشاور ت کی تائید کی ۔ آصف علی زرداری کے سیاسی اقدامات جمہوریت کی طرف سفر و عوام کو بحران سے نکالنے کیلئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اجلاس نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آصف علی زرداری جو پالیسی بھی اختیار کریں گے پارٹی اس پر عملدرآمد کرے گی یہ مجوزہ آئینی پیکج مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اور اس پر نواز شریف کی جانب سے آنے والی آو¿ٹ پٹ کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہاکہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے آئینی پیکج کی منظوری کے بعداس کو نواز شریف ، ایم کیو ایم ، اسفند یار ولی اور دوسری جماعتوں کو بھیج دیا گیاہے۔ آئینی پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سب جماعتوں سے لیں گے انہوںنے کہاکہ ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں گے جس کے تحت 90ہزار فوجیوں کو شملہ میں مذاکرات کے ذریعے رہاکروایا گیا اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین کو واپس لیاگیااور بے نظیر کی اسی پالیسی کے تحت صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ۔ انہوں نے کہاکہ ہم آئینی پیکج پر صدر پرویز مشرف سے بھی ڈائیلاگ کریں گے اور پارلیمنٹ سے اسے منظور کروائیں گے اور پوری دنیا کی جمہوری قوتوں کے سامنے رکھیں گے اور ان سے مشاورت کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر مشرف کوقرار دئیے جانے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ حق پیپلزپارٹی کا کیونکہ قوم نے ہمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو سبو تاڑ نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے آصف علی زرداری نے کہاکہ ججوں کی بحالی کیلئے ہم وکلاء سے بھی بات چیت کریں گے کیونکہ ہم ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔جمہوریت اور آمریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی لیکن ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس کو منظور کروا لیں انہوں نے کہاکہ وکیلوں کا اور ہمارا موقف مختلف نہیں ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب میں نے شدید مشکلات کے اندر آئی ایس آئی کی بات نہیں مانی تو اب ان حالات کے اندر کس طرح مانوں گا ۔ آئی ایس آئی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے خلاف لڑنے کا زیادہ تجربہ ہے ۔ عوام کاپریشر ہو گا ، میڈیا کاپریشر ہو گا ہمارا بل سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہوگا ۔ صوبوں میں اور قومی اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے بل کو وہاں سے پاس کروائیں گے اور پھر سینیٹر سے درخواست کروںگا۔ جبکہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمدنے کہاہے کہ پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 29مئی تک فارغ ہو جائیں گے ایک نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی خان نے کہاہے کہ آئینی پیکج کے بہت سے نکات جمہوری نظام کو مستحکم کریں گے جبکہ مسلم لیگ نواز کے رہنما راجہ ظفر الحق نے اپنے رد عمل میں کہاکہ آئینی پیکج پر غور کے بعد فیصلہ کیاجائے گا جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے اس آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں کہاہے کہ ایسا لگتاہے کہ یہ آئینی پیکج واشنگٹن میں تیار کیاگیا ہے جسے ایوان صدر کے ذریعے پیپلز پارٹی کے حوالے کیاگیا۔اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ یہ آئینی پیکج قوم کیلئے نا قابل قبول ہو گا جس میں پرویز مشرف کے ناجائز اقدامات کو بھی تحفظ دیا جارہا ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو بھی تحفظ فراہم کیاگیا ہے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) بھی اس آئینی پیکج کو مسترد کردے گی انہوں نے کہاکہ اے پی ڈی ایم کی جانب سے اٹھارہ اور انیس جون کو بلائی جانے والی کانفرنس میں آئینی پیکج کے مسودے کی تجاویز پر غور کیاجائے گا مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ابھی پورا آئینی پیکج ہمارے سامنے نہیں آیا میں نے اپنی پارٹی کا پارلیمانی اجلاس سموار کو طلب کیا ہے پیکج کی تفصیلات جاننے کے بعد ہی اس کی مختلف شقوں پر اپنی حتمی رائے دے سکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار بنایا جانا چاہیے ایگزیکٹو کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیاجانا چاہیے کیونکہ یہ پارلیمان طرز حکومت کی اصل روح ہے ۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی ترجمان محمد صدیق الفاروق نے کہاکہ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف بے نظیربھٹو کے مبینہ قاتل،2002ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے مجرم ،کارگل شکست کے ذمہ دار ،پاکستان میں گندم اور انرجی کا دانستہ بحران پیدا کرنے کے مبینہ مجرم،عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو غیر مستحکم کرنے ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کو فروغ اور تحفظ دینے ، صنعتی و تجارتی کارٹلز(Cartels)کوتحفظ فراہم کرنے ،غیر ملکی اورملکی قرضوں کو 6ہزار ارب روپے تک بڑھانے ،تجارتی خسارے کو 1.6ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک پہنچانے ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کرنے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پہنچانے اور پاکستان کو Ungoverable بناکر سول وار کی طرف دھکیلنے کے مجرم ہیں۔ان جرائم کی روشنی میں وہ Misconduct اور ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے مجرم ہیں ۔ وہ اس وقت جبراً صدر کے عہدے اور ایوان صدر پرقابض ہیں اور موجودہ منتخب مخلوط حکومت کے خلاف مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ ملکرسازشیں کرنے میںبھی مصروف ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ اِن جرائم کے ارتکاب کی بنیاداور وفاق کو بچانے کیلئے ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو “عہدے” سے برخواست (Impeach) کرنے کیلئے بلاتاخیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایاجائے ۔اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ملک اور قوم کو مزید نقصان پہنچنے کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔مسلم لیگ(ن) کے مرکزی ترجمان نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ،بلال مشرف،ترکی میں پاکستان کے سفیر اور سابق گورنر سرحدریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل افتخارکوبیرون ملک سے طلب کرکے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی ،سابق آئی بی چیف ریٹائرڈ اعجاز شاہ،سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم یعنی پرویزمشرف سمیت8کے ٹولے سے تفتیش کی جائے جس کے نتیجے میں اِن تمام جرائم اور پرویزمشرف کی ذاتی کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے بیرون ملک اثاثے بے نقاب ہو سکیں۔صدیق الفاروق نے کہاکہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش پرویزمشرف نے ق لیگ کے رہنماو¿ں اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے مشورے سے تیار کی اور انہی کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرایا۔اس حوالے سے مارک سیگل کے نام بے نظیر بھٹو شہید کی ای میل اور 16اکتوبر 2007ء کو مشرف کو لکھاگیا خط ناقابل تردیدثبوت ہیں۔ اپنی ای میل جسے نزعی بیان سمجھا جا رہا ہے بے نظیر بھٹو نے کہا،”اگر مجھے کچھ ہوگیا(قتل کردی گئی) تو میر ے نزدیک اس کے ذمہ دار پرویزمشرف ہونگے”۔ سی آئی اے لاس انیجلس ٹائمز (CIA Times Los Angeles) نے 18 جنوری 2008ء کو اپنی اشاعت میں سی آئی اے کے حوالے سے پرویزمشرف کو ہی بے نظیر بھٹو کو قاتل بتایا ہے۔ صدیق الفاروق نے کہاکہ پرویز مشرف نے ہر ممکن کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو اپنی پارٹی میں ان کی (مشرف) کی پسند کے آدمی کو وزیراعظم بنوادیں او رخود پاکستان نہ آئیں لیکن بے نظیر بھٹو نے ان کی یہ بات نہ مانی۔ جب صدر بش کے دباو¿ پر انہوںنے نہ چاہتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دی تو18اکتوبر2007ء کو ان پر قاتلانہ حملہ کروادیا۔ اس حملے میں بھی وہی طریقہ کاراختیار کیاگیا جو 27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اختیار کیاگیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں مشرف حکومت کا تین بار موقف تبدیل کرنا،حملے سے پہلے محافظ پولیس کی گاڑیاں واپس بلالینا،جیمرزکوناکام بنانا،اوپر سے ملنے والی ہدایت پر سعودعزیز کا فوراً”جائے وقوعہ کو دھونے اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے احکامات جاری کرنابھی بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویزمشرف،وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی بی چیف وغیرہ کا ملوث ہوناثابت کرتا ہے۔کارگل شکست کی منصوبہ بندی کے ذریعے انہوںنے پاکستان اور بھارت کو نہ صرف ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچادیاتھا بلکہ وہ 3000سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بھی مجرم ہیں۔پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فاو¿ل کھیل کھیلا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور خود پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے فوجی سپاہی سے لے کر لیفٹننٹ جنرل اور خفیہ اداروں کے اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اب تک 2ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی اور ہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستانی فوج میں تقسیم کرنے کیلئے دیئے گئے 4.58 ارب ڈالر(270ارب روپے) کا کوئی حساب نہیں دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں آئی ایس آئی کے ذریعے انہوںنے دھاندلی کی اور ق لیگ کے علاوہ کچھ دیگر لوگوں کو بھی پارلیمنٹ کا ناجائز ممبر بنوایا۔ اس کی تصدیق اس وقت آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر کر چکے ہیں ۔ پرویزمشرف نے دھاندلی کے ذریعے اسمبلی میں پہنچائے جانے والے اپنے آدمیوں کے ذریعے اپنے 12اکتوبر99ئ کے غیر آئینی اقدام کو 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دلوایا۔آئین اور قانون کی نظر میں دھاندلی کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں جانے والے لوگ غیر ممبر تھے۔ لہذا انہوں نے آئین میں جوترمیم کی وہ بھی آرٹیکل6کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پرویزمشرف مس کنڈکٹ (Misconduct) کے بھی مجرم ہیں ۔ جبکہ اعلی ترین سابق عسکری قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا محفوظ اور پر امن راستہ اب بند ہو چکاہے ۔انہیں کارگل سے لے کر قبائلی علاقوں میں فوج کشی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کاحساب دینا ہو گا ۔ نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے۔ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد پرویز مشرف کو آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں وہ آرمی ہاو¿س کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کر رہے ہیں اور فوج کی حمایت کاتاثر دے رہے ہیں فوج اور حکومت ان سے فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ ایکس سروس مین مسلح افواج پر جمہوری کنٹرول کی حامی ہے کو منتخب حکومت بھی جرات مندانہ اور آزادانہ فیصلے کریں ۔ پرویز مشرف نے اگر اٹھاون ٹو بی سے تحفظ لینے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گی۔لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) اسد درانی نے کہا کہ 18 فروری سے قبل اور 3 نومبر کے بعد ہماری کوشش تھی کہ ایکس سروس مین کو اکٹھا کر کے ملک کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کی جائے اور قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 18 فروری کے انتخابات ، وکلاء سول سوسائٹی کی جدوجہد اور میڈیا کے کردار نے ملک میں ایک شعور اجاگر کیا۔ انتخابات میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کیاگیایہ ایک ریفرنڈم تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خدشات میں وقت کے ساتھ پھر اضافہ ہو رہاتھا ۔انہوں نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام کا اصل مطالبہ اور فیصلہ یہ تھاکہ پرویزمشرف صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری اور آئینی عدم استحکام پیدا کیا ۔انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت کے منصب سے الگ ہونا چاہیے ۔ پرویزمشرف نے عدلیہ کے بھی تانے بانے ادھیڑ دئیے۔ عدلیہ کے خلاف اقدام کے بعد اگر اب بھی 2 نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہوئی تو پھرکبھی یہ ادارہ آزاد نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس کو آرمی ہاو¿س ، ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاو¿س میںبلوانا عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی نئے شکوک و شبہات پیداہو رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے باہم اتحاد کا مظاہرہ کر کے احسن اقدام کیا۔ انہوں نے حکمران اتحاد سے اپیل کی کہ 18 فروری کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی پاسداری کریں۔ ایکس سروس مین حکومت کی طرف سے فاٹا ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ہمیں ہر طرح کے بیرونی دباو¿ کو مسترد کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ ہم نے جب بھی اپنے فیصلے آزاد ہو کر کئے ان میں کامیابی ملی ۔ ہمیں نیگرو پونٹے اور امریکی سفیر کے اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا راستہ اب بندہو چکا ہے۔ انہیں کارگل سے آج تک فوجی اور قومی امور پر کڑے ٹرائل سے گزرنا ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جو پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ قبائلی علاقوں میں لشکر کشی ، لال مسجد آپریشن سمیت تمام سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی فورسز پر جمہوری کنٹرول کے حامی ہیں تاکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی کی راہ متعین کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے جو فوج کے لیے بذات خود انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا پاک فوج فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فی الفور پاکستان واپس بلوا کر احتساب اور انکوائری کے عمل سے گزارا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اگرچہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن وہ آئینی صدر نہیں ہیں جو اٹھاون ٹو بی کو اپنا محافظ خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے دوبارہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گے ۔ آج ملک میں مہنگائی بد امنی بے روزگاری زوروں پر ہے ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چار سال سے جاری یہ سنگین ایشوز جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کا بھی ذریعہ بنا یہ نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے ۔ نومنتخب حکومت لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے پیشن گوئی کہ پاکستان میں آئندہ بہت جلد بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئین کی خلاف ورزی پر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی نہیں بلکہ نو منتخب حکومت کو اچھے اقدامات پر خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں بعض چیزوںکی نشاندہی کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں ذاتی حیثیت میں ہمارے بھی بع لوگوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر ایسے کام ہوئے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے ہی ہم وسیع تر قومی مفاد میں نئی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا اقدام بذات خود غیر آئینی و غیر قانونی تھا لہذا اس کے تحت جاری ہونے والے اقدامات اور تقرریاں و تعیناتیاں بھی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین نے وکلاءکی ملک گیر تحریک میں بھرپور شمولیت کرے گی اور تحریک کے دوران وکلاء کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے گی ۔ ایکس سروس مین کے پچیس لاکھ اراکین قومی مفاد کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاںمحمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسا نظام لائیں گے جس سے مستقبل میں جمہوری حقوق کے لئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ریاست کی جانب سے جارحانہ کاروائیوںکاسلسلہ ترک ہوجائیگا۔ پارٹی کی اصل طاقت اس کے کارکن ہیں اورپارٹی کے وزراء ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات انہی کارکنوں کی وجہ سے آج ان عہدوں پرسرفراز ہیں ۔ درخت کی جڑیں نہ ہوں تو وہ زمین پرآرہتا ہے اوراگر سیاسی کارکن نہ ہوں تو قیادتیں لنگڑی اور اندھی ہوجاتی ہیں ،افسران غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات ماننے کی روش اور عادت بدل لیں ،چادر اور چاردیواری کا تقدس مجروح کرنے والوں کو نظروں سے دور رکھا جائے گا عدلیہ اور ججز کی بحالی کی جنگ جاری رہے گی ۔ پارٹی قیادت گزشتہ 8سالہ دور آمریت میںجمہوریت کے لئے جد وجہد کرنے والے پارٹی کارکنوں کو سلام پیش کرتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مشرف حکومت کے ظالمانہ او رجابرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قیدو بند کی صعبوتیں برداشت کیں ، جیلیں کاٹیں ، بدترین ریاستی جبرو تشد د کا مردانہ وا رمقابلہ کیا، لاٹھیاں او رگولیاں کھائیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بھگتے لیکن ہمارے ان عظیم کارکنوں نے سخت ترین حالات میںبھی پارٹی او رلیڈر شپ کو زندہ رکھا۔جس کی قائد مسلم لیگ(ن) محمدنوازشریف او روہ دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ کارکنوں کی 8سالہ سیاسی جد وجہد پارٹی کے لئے گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے ہمارے ان کارکنوں نے آمروں کی گود میںپلنے والوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔کسی قسم کا لالچ او ردباو¿ ان کے پایہ استقلال میں لغزش پید ا نہ کرسکا مسلم لیگ(ن) اپنے ان کارکنوں کی جمہوریت کے لئے دی گئی لازوال قربانیوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ کارکنوں کی جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ 18فروی کو ایک آندھی چلی اور عوام کی اکثریت نے آمریت اور اس کی گو د میںپرورش پانے والوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیا ۔محمد شہبازشریف نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ و ہ اطمینان رکھیںکیونکہ اب زیادتیوں کا دور ختم ہوچکا ہے اور کارکنوں کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں۔آپ کے حقوق دلوانے میں میں آپ کا وکیل بن کر لڑوں گا اور عوام کو حکومت سے سہولت دلوانا آپ کے فرائض میں شامل ہے ۔یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ حکومت کی آنکھیں بن کر اسے اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگا ہ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں آٹے کی فراہمی ، صحت و علاج کی خدمات اور تھانے کچہری میں انصاف کے حصول کے لئے سرگرم رہیں ۔ آپ کو آپ کا حق ملے گااور میں اس بات کو یقینی بناو¿ں گا کہ کسی کارکن کی حق تلفی نہ ہوہم آ پ کو عوامی خدمت اور منصوبوں کی مختلف کمٹیوں میں نمائندگی دیں گے کارکن تجاویز دیں ان کی تجاویز پ رعمل کیا جائے گا اور انہیںساتھ لے کر چلیں گے جس کسی افسر نے بھی ماضی میںسیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ زیادتیاں کی انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا ہمیں پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری ، آٹے کے بحران اور بجلی کے بحران سے نجات دلانی ہے عدلیہ کو آزاد،ججوں کو بحال کرانا ہے او رپاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے ۔ ہم انشاء اللہ اپنے کارکنوں کے ساتھ عدلیہ مل کر شبانہ روز محنت کریں گے اورا س ملک سے مہنگائی بے روزگار،غربت کا خاتمہ کرکے عوام کو انصاف مہیا کریں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے آج قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کا یہی خواب ہے کہ پاکستان میں جج بحال ہوںآزاد ہو مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران کا خاتمہ ہو عوام کا معیار زندگی بلندہو انہیں روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوں ملک سے بھوک افلاس کا خاتمہ ہو اور ہم انشاءاللہ عوام کے تعاون اور آپ کی تجاویز سے یہ تمام کام کریں گے۔ انہوں نے کہا نوکر شاہی کو اس بات کا پابندبنایا جائے گا کہ وہ کارکنوں کی عزت کریں اور انہیں ان کا جائز مقام دے ۔ ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج میں تبدیلی کی ضرورت ہے اگر اس پر غورو خوض اور اس میں تبدیلیاں نہ کی گئیں تو معاملہ جوں کا توں رہے گا۔ وکلاء کی تحریک ایک ہی نقطے پر مرتکز ہے اور وہ نقطہ معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کو دو نومبر 2007ء والی پوزیشن پر بحال کرنا ہے ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج کے اندر ججوں کی بحالی کے حوالے سے جو نکات ڈالے گئے ہیں ان میں تبدیلی ، غور وخوض اور بحث کی ضرورت ہے اگر ان کو تبدیل نہ کیاگیا تو معاملہ جوں کا توں رہے گا اور صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ملک کے عوام اس امید سے ہیں کہ انشاء اللہ افتخار چوہدری اور دیگر جج ضرور بحال ہوں گے اور افتخار چوہدری اس ملک کے چیف جسٹس بنیں گے۔ آزاد عدلیہ کی بحالی تک ملک میں جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اے پی ایس اسلام آباد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment