International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Friday, June 20, 2008

شہید بے نظیر کے بعد آصف زرداری کا جمہوری عزم











بے نظیر شہید کی 55 ویں سالگرہ پر خصوصی مضمون
تحریر : ثمینہ مشتاق پگا نوا لہ ،ایم این اے




پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیائالحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور جمعرات کو بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔ جس ادارے نے عوام سے بے نظیر بھٹو کو چھین لیا آصف زرداری چاہتے ہیں کہ وہ ادارہ برقرار رہے ورنہ پاکستان میں بھی وار لارڈز ہونگے۔جیسے افغانستان میں فوج نہیں رہی تو ایک ایک پہاڑی پر کئی کئی جنگجو سردار چڑھ کر بیٹھ گئے‘انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا ہے کہ ’وہ جس ادارے کو کمزور کرنے جارہے ہیں اس کے سب سے زیادہ ڈسے ہوئے ہم ہیں۔ہم سے اس ادارے نے قربانیاں لی ہیں لیکن پھر بھی ہم اسے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ ڈر اس بات سے ہے کہ جیسا افغانستان کے ساتھ ہوا وہ پاکستان کے ساتھ نہ ہوجائے۔ ’انقلاب ایران کے بعد ان کے عوام کا کیا بنا۔ ہم تو اٹھارہ کروڑ کا ملک ہیں ہم کہاں جائیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ملک ٹوٹنے کے بعد مجھے کہیں زمین کا ایک ٹکڑا بھی ملےگا۔شاہ ایران کو بھی دربدر ہوکر مصر میں دفن ہونے کی جگہ ملی۔ ہمیں افغانستان،انڈیا نہ ایران پناہ دے گا۔ہمیں تو یہیں رہنا ہوگا اور خود کو سنبھالنا ہوگا‘۔’میں نہیں سمجھتا کہ ملک ٹوٹنے کے بعد مجھے کہیں زمین کا ایک ٹکڑا بھی ملےگا‘ پیپلز پارٹی شریک چئیرمین نے کہا ہے کہ پاکستان کو صوبہ سرحد سے زیادہ افغانستان کے اندر خطرات لاحق ہیں کیونکہ وہاں پاکستان کے معاشی مفادات زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شورش کا سامنا ہے، افغانستان میں نیٹو کی فورسز ہماری جانب بڑھ رہی ہیں۔معاشی حالات بدتر ہیں۔ جب امپورٹ بل فنانس بل نہ ہوں، تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے پیسے نہ ہوں اور سندھ کے لوگ ابھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے صدمے میں ہوں ایسے میں پاکستان کس طرح بہتر رہ سکتا ہے؟ پاکستان میں قبائل اور برادری ازم کو ہوا دی گئی، ضیا دور میں انہیں سپورٹ کیا گیا، لڑاو¿ اور حکومت کرو کی پالیسی چلائی گئی۔انہوں نے کہا سندھ میں مہر اور جتوئی قبیلوں کا بارہ پندرہ برس سے جھگڑا چل رہاہے۔راکٹ لانچر استعمال ہوتے ہیں۔لوگ کندھوں پر لانچر اٹھا ئے پھرتے ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میزائل ٹیکنالوجی ہے جو کسی کے پاس نہیں ہوتی حتیٰ کہ پولیس کو بھی خریدنے کی اجازت نہیں ہے یہ صرف انٹیلجنس اور فوج کے پاس ہوتی ہے۔ ’بے نظیر نے اپنے دور میں فوج کو قبائلی فسادات بند کرانے کا حکم دیا تو ایک جنرل نے آکر جواب دیا کہ کہ ’سوری میڈیم، پرائم منسٹر میں یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے وہ برے حالات کے باوجود برداشت کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں اور قومی مفاہمت کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ زرداری نے پرویز مشرف کو ایک غیر آئینی صدر قرار دیا اور کہا کہ صدر مشرف کے جانے کے بعد وہ اتحادی جماعتوں اور تمام چھوٹے بڑے گروپوں سے مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے۔ انہوں نے کہ عدلیہ کا ایک بڑا بحران ہے لیکن عدلیہ کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ رجسٹرار کیا کرتا ہے ریڈر کس طرح ٹائپنگ کی غلطی کرکے لوگوں کو پریشان کرتا ہے؟یہ وہ بخوبی جانتے ہیں۔ مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے آصف زرداری نے پرویز مشرف کو ایک غیر آئینی صدر قرار د یتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مشرف کے جانے کے بعد وہ اتحادی جماعتوں اور تمام چھوٹے بڑے گروپوں سے مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے۔ انہیں عدلیہ کی بحالی پر اختلاف نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ کا ایک نظام بنایا جا ئے آصف زرداری چاہتے ہیں کہ غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ایک مشاورتی بورڈ بنایا جائے جو عدلیہ کے معاملات کو دیکھے۔ ’لانگ مارچ کا فائدہ اور نقصان دونوں ہوا لیکن ہم نے برداشت کا مظاہرہ کیا۔مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی سے اتحاد میں ہے لیکن نواز شریف لانگ مارچ میں گئے‘۔ ہمارا رشتہ برداشت کا ہے اور وہ انہوں نے نبھایا ہے جب نواز شریف قید ہوئے تھے تو تب خود انہوں نے جاکر ان سے ہاتھ ملایاآصف زرداری نواز کی وجہ سے قید تھا لیکن مشرف کی بجائے انھوں نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا‘۔ صدر مشرف نے ان کے خلاف اقوام متحدہ میں جاکر کرپشن کے الزام لگائے بعد میں خود انہیں واپس لائے۔غلام اسحاق خان نے الزام لگایا اور بے نظیر بھٹو نے انہی سے آصف زرداری کا حلف اٹھوایا۔بے نظیر حلف لینے کو انتقام سمجتھی تھیں۔ معاشی بحران کو آج حل کرنے کے لیے بیٹھا جائے تو کم از کم تین برس لگ جائیں گے۔گندم کے بحران کو حل کرنے کے لیے آنے والی فصل کا انتظار کرنا ہوگا۔پانی بجلی اور ڈیزل مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ ایوان صدر میں سلمان تاثیر جیسا جیالا صدر ہوگا اور ایوان صدر کی دیواریں جئے بھٹو کے نعروں سے گونجیں گی۔ وہ گورنر ہائوس لاہور میں پارٹی کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے یہ وہی گورنر ہاوس ہے جہاں سے جمہوریت کے غاصب فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر کے انہیں گرفتار کیا تھا یہ اس وقت بھی جمہوریت کے مجرم تھے اور آج بھی ہیں اور ’جمہوریت کے انہی مجرموں نے عوام سے ہماری بینظیر چھین لی ہے‘ پاکستان میں کوئی بھی ایسی قوت نہیں جو فخر سے سر اٹھا کر یہ کہ سکے کہ وہ جمہوریت کے شہیدوں کی وارث ہے ہم شہیدوں کی سیاست کرتے ہیں۔آصف زرداری عام انتخابات میں بھی کہتے رہے ہیں اور اب پھر کہتے ہیں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ صرف جان دینا جانتے ہیں جان لینا نہیں جانتے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ جان دے سکتے ہیں تو جان لے بھی سکتے ہیں۔ آصف زرداری کو کوئی جمہوریت نہ سکھائے۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان میں جمہوریت سکھائی ہے۔ بھٹو نے ایوب خان کو دفن کیا، یحیٰ خان سے جنگ کی، اور اب بھی اگر جمہوریت کے ان ڈاکو¿ں سے جنگ کرنا پڑی تو وہ صرف ارو صرف پیپلز پارٹی کر سکتی ہے سیاسی تحریکیں کیا ہوتی ہیں وہ جانتے ہیں۔ لانگ مارچ تب ہوگا جب وہ لانگ مارچ کریں گے اور میلہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے لیکن لانگ مارچ صرف وہ ہی کریں گے۔

No comments: