اے پی ایس ، اسلام آباد
پاکستان نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی باضابطہ درخواست اسی ماہ نیویارک میں اپنے مستقل مندوب کے ذریعے بھجوائی تھی جس میں ادارے سے اس ہلاکت کی تفتیش کرانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی درخواست کی گئی ہے کہ اس ہلاکت کے پس پردہ محرکات اور ذمہ داروں کا بھی سراغ لگایا جائے۔ دومرتبہ سابق وزیراعظم رہنے والی بینظیر بھٹو گزشتہ برس ستائیس دسمبر کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ اس وقت کی جنرل مشرف کی انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کے مطالبات کے باوجود اس ہلاکت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی سرکردگی میں بننے والی مخلوط حکومت نے پارٹی کے انتخابی منشور کے مطابق اس واقعے کی تفتیش اقوام متحدہ سے کرانے کی درخواست بھجوائی تھی۔ سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ترجمان نے بتایا ہے کہ پاکستان کی درخواست کے تمام مالی اور قانونی پہلو¿وں کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس درخواست پر کوئی بھی حتمی فیصلہ ادارے کی سلامتی کونسل کرے گی۔ ترجمان نے اس موقع پر لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات کا بھی حوالہ دیتے ہو ئے کہا ہے کہ اس موقع پر بھی تحقیقات کرانے کا حتمی فیصلہ سلامتی کونسل نے ہی کیا تھا اور پاکستان کی درخواست پر بھی یہی طریق کار اپنایا جائے گا۔ پاکستان کے صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے ایک امریکی ٹیلی ویڑن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ بےنظیر بھٹو کے سر کے زخم کی وجہ گولی لگنا بھی ہو سکتی ہے۔ صدر جنرل(ر) مشرف نے یہ انٹرویو امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز کو دیا تھا۔ نیوز چینل نے اپنی ویب سائٹ پر مختصراً انٹرویو کی جھلکیاں بھی پیش کیں۔ ویب سائٹ کے مطابق صدر مشرف نے کہا تھا کہ ممکن ہے کہ بے نظیر بھٹو کے سر میں زخم گولی لگنے سے آیا ہو بے نظیر بھٹو کی جان کو خطرہ تھا اور اس لیے جتنی سکیورٹی کسی اور کو دی جاتی ہے اس سے زیادہ ان کو دی گئی تھی۔ انٹرویو کی تفصیلات کے مطابق صدر(ر) مشرف نے یہ بھی کہا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی ذمہ دار وہ خود ہیں کوئی اور نہیں۔ ٹی وی چینل نے صدر کے حوالے سے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ مشرف حکومت پر سب سے زیادہ تنقید اس وقت ہوئی جب حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی وجہ ان کے سر کا گاڑی کے سن روف سے ٹکرانا ہے۔ جب سے مشرف نے یہ بیان دیا کہ وہ تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد مانگی گئی ہے صدر ب±ش اور ان کی انتظامیہ پورے زور شور سے ان کی حمایت کر رہی ہے۔ دو روز پہلے صدر ب±ش نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ سے صدر مشرف کے حمایتی رہے ہیں۔ دونوں صدور بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے لیے القاعدہ کے ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ حتمی طور پر تفتیش کے مکمل ہونے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا۔ یہ کہنا درست ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں میں امریکی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کا رجحان ہے جس میں پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری کے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رجحان بے نظیر بھٹو کی زندگی میں اس وقت شروع ہو گیا تھا جب وہ وطن واپس جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ آصف علی زرداری نے اپنے مضمون لکھا تھا کہ ان کے خاندان نے پاکستان اور پیپلز پارٹی کو بچانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ آصف زرداری نے یہ بھی لکھا تھا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اسی وقت ممکن ہیں جب ملک میں ایک غیرجانبدارانہ حکومت بحال کی جائے گی۔ اسی طرح کی بات کچھ روز پہلے نواز شریف کی طرف سے بھی واشنگٹن پوسٹ میں ہی کہی گئی تھی جس میں انہوں نے کل جماعتی قومی حکومت کا مطالبہ کیا تھا۔ ا±نیس سو چھیاسی میں جب بے نظیر بھٹوپاکستان پہنچیں تو ان کا بھر پور استقبال ہوا۔ اس کے صرف دو سال کے عرصے کے بعد ہی ا±ن کی پارٹی نے ملک بھر میں کامیابی حاصل کی اور انہیں ا±نیس سو اٹھاسی میں ملک کی پہلی خاتوں وزیرِاعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔مگر صرف بیس ماہ بعد ا±س وقت کے صدر غلام اسحاق خاں نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ سنہ ا±نیس سو ترانوے کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو اور ا±ن کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کرلی اور وہ دوبارہ وزیرِاعظم کے منصب پر فائز ہوئیں اس بار ا±نہیں تین سال تک حکومت کرنے کا موقع ملا تاہم سنہ ا±نیس سو چھیانوے میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی اس بار یہ کام صدر فاروق لغاری نے کیا جو ان کی اپنی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کی برطرفی آٹھویں ترمیم کے ذریعے ہوئی اور دونوں بار اس کا جواز کرپشن کے الزامات نے فراہم کیا، انہی الزامات کے تحت بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو آٹھ برس تک جیل میں رہنا پڑا۔دوسرے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو کو ایک بڑا دھچکا ا±ن کے بھائی اور سیاسی حریف میر مرتضی بھٹو کے قتل کی صورت میں لگا۔ میر مرتضی بھٹو کو ستمبر ا±نیس سو چھیانوے میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں ا±ن کے گھر کے قریب مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔میر مرتضی بھٹو کے قتل کے کچھ عرصے بعد بے نظیر کی حکومت دوسری بار برطرف ہوئی اور ا±نہون نے جلاوطنی اختیار کر لی گز شتہ سال کے وسط میں بے نظیر بھٹو اور موجودہ صدر پرویز مشرف کے درمیان شراکتِ اقتدار کے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطوں اور مذاکرات کی خبریں سامنے آئیں تاہم دونوں ہی نے اِن مذاکرات کی مکمل تردید یا تصدیق نہیں کی ۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔جب جنرل ضیا کے مارشل کے زخم ابھی نئے اور ہرے تھے تو بے بس کارکن بس احتجاج کرتیں اور روتی نصرت اور بے نظیر کو دیکھ کر ہی زندہ تھے۔پھر ایک لمبے عرصے تک بے نظیر دبے اور دبائے ہوئے سیاسی کارکنوں کے لئے ایک امکان بنی رہیں جو انیس سو چھیاسی میں ایک امید بن کر لاہور کے ائرپورٹ پر پہنچیں۔سیاسی لوگ وہ دن یاد کرکے آج بھی کچھ دیر کو اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ جنرل ضیا کے نو سال جھیلنے کے بعد ایک مسکراتی، ہاتھ ہلاتی بےنظیر جب سڑکوں پر نکلی تھی تو ہر ایک نے کم سے کم ایک بار یہ ضرور سوچا تھا کہ اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔ بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلے 1988ء میں اور پھر 1993ء میں لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔ تاہم 1988ءمیں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماو¿ں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔ بینظیر بھٹو نے 1953ء میں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ء میں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔ علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ء میں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 1988ء میں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔ بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی اور گزشتہ سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔ بینظیر بھٹو 1999ء میں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔ خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔ بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔ مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔ اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی دنیا بھر میں سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور اسے بہت بڑا نقصان قرار دیا گیا بھارت نے بینظیر کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو انتہائی ظالمانہ قرار دیا وزیرِاعظم منموہن سنگھ بے نظیر کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ بینظیر برّصغیر کے بہترین حکمرانوں میں سے تھیں۔ برطانیہ نے بینظیر کے قتل کو بے حس دہشت گردوں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ دہشت گردوں کا راستہ روکنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ ڈیوِڈ ملیبینڈ نے پاکستان میں ’تحمل اور یکجہتی‘ کی اپیل کی ہے۔ امریکہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی صدر ب±ش بینظیر کے قتل پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا ساتھ برقرار رکھنے کا کہا ویٹی کن نے بھی بینظیرکے قتل کو افسوسناک قرار دیا روس نے پاکستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں قیامِ امن کو یقینی بنائیں۔ فرانس اور اٹلی نے بینظیر بھٹو کے قتل کو انتہا پسندی کا نتیجہ قراردیا فرانس نے بینظیر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ’قابل نفرت فعل‘ افغانستان کی حکومت نے بینظیر پر قاتلانے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بربریت‘ قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ بینظیر کے قاتل پاکستان اور امن کے دشمن ہیں۔متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم کے قتل کی مذمت کی متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہان نے اسے ایک مجرمانہ عمل قرار دیتے ہوئے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف متحد رہیں۔ مصری سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے بیان میں پاکستانی عوام سے اظہارِ تعزیت کیا گیا اور بینظیرکے قتل کو ظالمانہ کارروائی قرار دیا گیا ۔ جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کوراولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا۔راولپنڈی کے جنرل ہسپتال کے باہر پی پی پی کے رہنما بابر اعوان نے بتایا تھا کہ حملے میں بینظیر بھٹو انتقال کرگئی ہیں۔ حملے کے بعد انہیں شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن انہیں نہیں بچایا جاسکا۔ وزارت داخلہ نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ خودکش حملے میں زخمی ہوئیں یا انہیں گولی مارکر ہلاک کیا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت پانچ گولیاں بھی چلی تھیں جن میں سے ایک ان کی گردن میں لگی تھی۔ اس حملے میں پی پی پی کی رہنما شیری رحمان اور ناہید خان بھی زخمی ہوئی تھیں۔ ہسپتال کے باہر بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن جمع تھے اور غم و غصے کا ماحول تھاس حملے میں کم سے کم پندرہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری دبئی سے پاکستان پہنچے تھے اور بینظیر کی ہلاکت کی خبر پر انھوں نے اس وقت تک یقین نہ کیا جب تکخود دیکھ نہ لیا ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بینظیر بھٹو کے سینے اورگلے میں گولیاں لگیں تھیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان پر فائرنگ کی گئی اور ریلی میں دھماکہ بھی کیا گیا۔ لیکن حالات واضح نہیںتھے کیو نکہ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ بینظیر بھٹو صرف زخمی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان نے کہا تھاکہ بینظیر بھٹو کی موت ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نتیجہ ہے۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو اپنی سکیورٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اورجلسے کے دوران بھی انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بابر اعوان نے کہا کہ وہ صبح بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی جلسے میں گئے تھے۔ ’جلسہ گاہ میں ہم اکھٹے بیٹھے رہے۔ ہم ساتھ ہی ان کے گھر سے آئے تھے۔ وہ بتاتی رہیں کہ انہیں کیا خطرات در پیش ہیں۔ انہوں نے کچھ تفصیلات بھی مجھے دیں جو میں ابھی نہیں بتا سکتا۔ جب ہم جلسے میں بیٹھے ہوئے تھے تب بھی محترمہ نے مجھے کچھ چیزیں لکھ کر دیں۔ وہ اس بارے میں بہت فکرمند تھیں۔ ‘ پاکستان کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے افسوس ظاہر کیا تھا اور صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیاصدر مشرف نے ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ’قوم کے غم‘ میں شامل ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی انتخابی سرگرمیاں معطل کردیں اور سوگ منانے کا اعلان کیا تھاپارٹی کے سربراہ الطاف حسین نے واقعہ کو سانحہ قرار دیتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا ۔الطاف حسین کا کہنا تھا کہ سندھ کے تیسرے وزیراعظم کو راولپنڈی میں اس طرح سے قتل کیا گیا ہے، اس سے قبل لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب سندھ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے بھی واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے بعد یہ بھٹو خاندان کے ایک بڑا سانحہ ہے۔ قاضی حسین احمد نے مطالبہ کیا کہ پرویز مشرف فوری طور مستعفی ہوجائیں کیونکہ وہ اس کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوری طور پر سویلین حکومت قائم کی جائے جو عدلیہ اور آئین کو بحال کرے اور انتخابات کے لیے مناسب فضا تیار ہو۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی اطلاع پہنچتے ہی کراچی میں تمام بازار اور دکانیں بند ہوگئیں اور رات دیر تک کھلے رہنے والے بازاروں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پورے شہر میں خوف و دہشت کی فضا تھا۔ سڑکوں پر بھگدڑ کی سی فضاور ٹریفک بھی بے ہنگم ہو گئی تھی۔ایسا لگ رہا تھاجیسے لوگ حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ وہ سڑکیں جو یکطرفہ ٹریفک کے لئے تھیں وہاں دونوں اطراف سے گاڑیاں آجانے سے صدر سمیت کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام تھی جبکہ ٹرانسپورٹ گاڑیاں بھی غائب ہوگئی جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ کئی علاقوں میں پھنس گئے تھے۔ بینظیر بھٹو کے گھر بلاول ہاو¿س پر سوگ کی فضا تھی۔ شہر بھر سے آنے والے کارکن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ بلاول ہاو¿س کے جانب سے بتایا گیا کہ آصف علی زرداری بچوں سمیت رات کے کسی وقت راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔دوسری طرف شہر کے کئی علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے لیاری، کھارادر، سلاوٹ پاڑے، گرومندر، ڈیفنس، کلفٹن،گلشن اقبال اور گلشن حدید سمیت دیگر کئی علاقوں میں ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی۔مشتعل لوگوں کے ہجوم سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے جو دیوانہ وار نعرے لگارہے تھے۔ پتھراو¿ کر رہے اور ٹائروں کو آگ لگا رہے تھے۔ سب سے جذباتی منظر لیاری میں تھا جو جہاں خواتین بھی سڑکوں پر نکل کر سینہ کوبی اور بین کررہی تھیں۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں جابجا ایسی افراتفری تھی جیسے عام طور پر زلزلے یا کسی دوسری قدرتی آف کے بعد نظر آتی ہے۔ شہر کے تشدد زدہ علاقوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی تھیں کہ مشتعل لوگ سرکاری املاک اور گاڑیوں پر پتھراو¿ کر رہے ہیں اور انہوں نے بعض گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا ہے۔ کراچی میں ہنگامہ آرائی کے دوران پندرہ سے زائد گاڑیوں کو نظر آتش کیا گیا یہ گاڑیاں ناظم آباد، لیاقت آباد، کیماڑی، اسٹیل ٹاو¿ن، راشد منہاس روڈ سہراب گوٹھ پل پر جلائی گئی تھیںگلستان جوہر تھانے پر فائرنگ اور بغدادی تھانے پر کریکر سے حملے کی بھی اطلاعات ملی تھیں۔بلاول ہاو¿س کے قریب واقع بلاول چورنگی پر مشتعل افراد نے دو بینکوں کو نذر آتش کیا جبکہ ایک سرکاری گاڑی میں سوار کچھ افراد کو تشدد کے نشانہ بنانے کے بعد گاڑی کو آگ لگادی گئی، گیس سلینڈر پھٹنے سے ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ دوسری جانب سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے صوبے میں تین روز سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ شروع کر دی اور سڑکوں پرپاکستان مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کے لگے ہوئے بینرز کو آگ لگا دی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کی موت کی خبر سن کر راولپنڈی کی تمام مارکیٹیں بند ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جو مری روڈ پر موجود تھی، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور سڑکیں بلاک کر دیں۔ شہر کی پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بینظیر بھٹو نے گیارہ سال کے بعد راولپنڈی میں عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد بینظیر کا خطاب سننے کے لیے لیاقت باغ پہنچی تھی۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا گیا اور لوگوں نے خود کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا۔ اس سانحہ کے بعد فیض آباد راولپنڈی میں واقع بسوں کے اڈے بند کر دیے گئے جبکہ ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹل بھی بند کر دیے۔ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں مسلم لیگ قاف کے اس پنڈال میں آگ لگا دی گئی جہاں مسلم لیگ قاف کا جلسہ عام ہونا تھا۔ سینکڑوں مشتعل افراد نے سٹیج، کرسیوں بینر اور پوسٹروں کو آگ لگا دی گئی اس کے علاوہ مسلم لیگ قاف کے تین انتخابی دفاتر کو بھی آگ لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج اور ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کی اطلاعات ملی تھیں۔ پنجاب کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند کر دی گئی ہیں۔بیشتر شہروں میں پٹرول پمپ سینما گھر تھیٹر بند کردیے گئے لاہور میں پولیس کی دوگاڑیوں کو جلا دیا گیا تیسری کو پولیس اہلکاروں سمیت اغوا کیا گیا بعد میں پولیس اہلکاروں کو تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا۔ شہر کے ایک علاقے میں موبائل فون کے دفتر، ایک پٹرول پمپ اور دوسرے میں ایک ویگن کو نذر آتش کیا گیا ایک گھر کو بھی آگ لگائے جانے کی اطلاع پولیس کو ملی لاہور میں مختلف مقامات پر ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی اور شاد باغ اور شملہ پہاڑی کے نزدیک زبردست ہوائی فائرنگ کی گئی ہے۔ مال روڈ شام ہوتے ہی سنسان ہوگئی اور اندھیرے میں ڈوبی رہی ۔گوجرانوالہ میں دکانیں بند کرنے میں تاخیر کرنے والوں کی دکانوں میں توڑپھوڑ کی گئی ملتان میں چوک رشید آباد سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا توڑ پھوڑ کی اور ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی۔ ملتان کے ڈیرہ دارچوک اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ہوائی فائرنگ کی اطلاع ملی پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا پیپلز پارٹی کے کارکن مشتعل ہیں اور متعددنے انتقام کی بات کی۔ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی بینظیر کی ہلاکت کی خبر پہنچتے ہی مختلف علاقوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور توڑ پھوڑ کی۔ پشاور میں جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر پی پی پی کے سینکڑوں کارکن جمع تھے اور سڑک بند کر کے وہاں احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق جی ٹی روڈ پر بعض مشتعل افراد نے ایک گاڑی کو آگ لگائی اور سڑک پر نصب درجنوں سائن بورڈ اور گاڑیوں کے شیشے توڑے۔ پولیس نے مظاہرین کومنتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج اور انسو گیس کے گولے فائر کیے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کشیدگی کی اطلاعات تھیں جبکہ لورالائی اور تربت میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جوں جوں اطلاعات پہنچ رہی تھیں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ لورالائی شہر میں سب سے پہلے توڑ پھوڑ شروع کی گئی جہاں گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہ ملی۔اس کے علاوہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں خوف کی غم و غصہ کی فضا پائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ پر بڑی تعداد میں کارکن جمع ہو گئے لیکن کسی تشدد کے واقعے کی اطلاع نہ ملی۔کوئٹہ میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس ہوا جس میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ۔ اے پی ڈی ایم کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ فوجی حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو سیاست اور سیاسی جماعتوں کو برداشت نہیں کر رہے۔ کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق تمام اہم مقامات پر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی تاکہ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ لسبیلہ سے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماو¿ں کے مطابق بیلہ میں دکانیں اور بازار بند کر دیے گئے ہیں اور تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ۔امریکی حکومت نے بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے پاکستان میں مفاہمتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ روس کی حکومت نے بھی حملے کی مذمت کی روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھ نےمحترمہ بھٹو کی موت پرگہرے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی موت سے برصغیر ایک بہترین رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ محترمہ بھٹو کی موت سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے اور وہ اس مشکل گھڑی میں پاکستانی عوام کے غم میں شریک ہیں۔ فرانس نے بینظیر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی اور کہا ہے کہ یہ ’قابل نفرت فعل‘ ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ ڈیوِڈ ملیبینڈ نے پاکستان میں ’تحمل اور یکجہتی‘ کی اپیل کی ۔افغانستان کی حکومت نے بینظیر پر قاتلانے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بربریت‘ قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ بینظیر کے قاتل پاکستان اور امن کے دشمن ہیں۔ بینظیر بھٹو اور حامد کرزئی نے اسی دن اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔ بینظیر بھٹو پر کراچی میں اٹھارہ اکتوبر پاکستان واپسی پر ایک استقبالیہ ریلی میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان واپسی کے بعد سے ان کی سکیورٹی پر مسلسل تشویش پائی جارہی تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی چالیس برس کی ہوگئی ہے۔ ان چالیس برسوں میں پارٹی نے کئی نشیب و فراز دیکھے اور پارٹی کے کئی ممتاز رہنماو¿ں نے مشکل گھڑی میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی اور پارٹی کے نام کےساتھ لاحقہ لگا کر نئی جماعتیں تشکیل دیں تاہم وقت کے ساتھ افادیت ختم ہونے پر نومولود جماعتیں بھی ختم ہوگئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی چالیس برس قبل تیس نومبر 1967 کو وجود میں آئی اور اس جماعت کے پہلے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پیپلز پارٹی نے 1970 میں ہونے والے عام انتخابات میں مغربی پاکستان سے بھرپور انداز میں کامیابی حاصل کی۔پیپلزپارٹی پر مشکل وقت کے دوران پارٹی کے ممتاز رہنماو¿ں نے اس سے علیحدگی اختیار کی تاہم اقتدار ملنے پر ان میں کئی رہنما پارٹی میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے کئی رہنماو¿ں نے اسی جماعت کے نام پر نئی جماعتیں قائم کیں اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد اس میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں پہلی حکومت بنائی اور مارچ 1977 کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی تاہم پانچ جولائی1977میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردی جس کے بعد پارٹی میں اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد بھٹو کابینہ کے وزیر قانون ایس ایم مسعود نے ایک قراردادکے ذریعے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا تاحیات صدر بنا دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے قر یبی ساتھی کوثر نیازی نے مشکل کی اس گھڑی میں علیحدگی اختیار کر لی اور پروگریسِو پیپلز پارٹی کے نام سے جماعت بنالی۔ نیازی کی پیپلز پارٹی میں بھٹو کا ساتھ چھوڑنے والے رہنما شامل ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بنایا گیا۔سن 1986 میں بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی اور بھٹو کے سیاسی شاگرد غلام مصطفیٰ کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی تاہم کچھ عرصہ کے نیشنل پیپلز پارٹی مزید دو، جتوئی اور کھر گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔انیس سو اٹھاسی میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد غلام مصطفیٰ کھر نے اپنے گروپ کواصل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا۔بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارٹی کی چیئرپرسن اور اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹا دیا اور خود پارٹی کی چیئرپرسن بن گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی تبدیلی کے بعد ان کے حامی رہنماو¿ں نے نصرت بھٹو کی سربراہی میں پارٹی کا شہید بھٹو گروپ بنا لیا اور نہ صرف بھٹو کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا گیا بلکہ بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پر شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھال لی۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو کے ہاتھ میں آگئی اور وہ تاحال شہید بھٹو گروپ کی سربراہ ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 1996 میں تحلیل کر دیا اور بھٹو کے قربیی ساتھی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نگران مقرر کر دیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود نے بھی 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ پر پیپلز پارٹی زید اے بھٹو کے نام پر جماعت بنائی تاہم اکتوبر دوہزار دو میں عام انتخابات سے قبل رانا شوکت محمود دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔سردار فاروق لغاری نے صدر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملت پارٹی بنائی اور اس جماعت میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماو¿ں نے شمولیت کی۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب شرپاو¿ نے اختلافات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی شرپاو¿ گروپ کے نام جماعت بنائی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو نے خود پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کا سربراہ مخدوم امین فہیم کومقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے سنہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ جماعت بینظیر بھٹو کی واپسی اور اسمبلیوں کی تحلیل کےساتھ ہی اب عملی طور پرختم ہوگئی ہے۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی پیڑیاٹ قائم کی اور مسلم لیگ قاف کو حکومت بنانے میں مکمل مدد اور تعاون فراہم کیا۔پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو¿ کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرایا گیا تھا تاہم آفتاب شرپاو¿ کے سوا پیپلز پارٹی پیڑیاٹ مسلم لیگ قاف میں شامل ہوگئی۔بینظیر بھٹو نے حال میں پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو¿ کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور شرپاو¿ گروپوں کے انضمام کرکے انہیں پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور پیپلز پارٹی کا نام بحال کر دیا۔پیپلز پارٹی اپنے قیام سے اب تک چار مرتبہ اقتدار میں آئی اور دو مرتبہ پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے اور دو مرتبہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو اقتدار میں رہنے کاموقع ملا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ایک فوجی جنرل نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کو فروغ دینے کے لیے ملک کی تحقیر کی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو پر جو تنقید کی وہ شرمناک ہے اور یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے ایک شکست خوردہ فوج کا احترام بحال کیا۔ جنرل مشرف کی کتاب بازار میں آنے کے چار دن بعددوسرے سیاسی رہنماو¿ں کی نسبت قدرے تاخیر سے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ فوجی حکمرانوں کی طرف سے بار بار آئین کی اس خلاف ورزی نے پاکستان کے وجود کو ہی خطرہ میں ڈال دیا ہے۔گیارہ ستمبر کے بعد رچرڈ آرمیٹیج کی دھمکی پر جنرل مشرف کی جانب سے امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے واقعہ کا نام اور حوالہ دیے بغیر بے نظیر نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے جرنیل بیرونی دباو¿ کے سامنے تو فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں لیکن ملک میں سول حاکمیت کا حکم ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ نے جنرل مشرف پر سرکاری وسائل سے اپنی تشہیر کرنے، ریاستی راز ظاہر کرکے حلف کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کیئے اور ان کی اپنے والد اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کو آڑے ہاتھوں لیا ۔کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی چئیر پرسن نے کہا کہ جنرل مشرف نے ملک کے اہم قومی مفاادت کو خطرہ میں ڈالتے ہوئے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ قابل افسوس بات ہے کہ جنرل مشرف اپنے ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے اپنی سرکاری حیثیت استعمال کررہے ہیں۔ قومی خزانہ سے لاکھوں روپے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ پر خرچ کیے گئے جو عملاً ان کی کتاب کی تشہیر کا دورہ بن کر رہ گیا ۔بے نظیر نے کہا کہ اس بات کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ ریاست کا سربراہ ذاتی تشہیر کے لیے ساٹھ افراد کے وفد کے ہمراہ تین ہفتوں سے بیرون ملک دورے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکمران کو ان کی کتاب کی تشہیر کے لیے سرکاری خزانہ سے خرچ کی جانے والی رقم کا حساب دینا چاہیے۔بے نظیر نے کہا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ایک فوجی جنرل اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کو فروغ دینے کے لیے ملک کو حقیر کرکے دکھا رہا ہے۔ قومی مفاد سے متعلق رازوں اور خفیہ معلومات کو افشا کرکے جنرل مشرف نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ بے نظیر نے کہا کہ کسی فوجی سربراہ کو ملازمت میں رہتے ہوئے ان معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرکے جنرل مشرف نے ملکی سلامتی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کرلیا ہے کہ انہوں نے ہی سرکاری جماعت مسلم لیگ(ق) بنوائی جو کہ فوجی اہلکار اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے کیونکہ حلف انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت سے منع کرتا ہے۔بے نظیر نے کہا کہ جنرل مشرف کی کتاب سے ایک بار پھر یہ افسوس ناک اور تلخ بات سامنے آئی ہے کہ فوجی حکومتوں سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا پہلا منتخب وزیراعظم اور شہید قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی حیثیت نامقبول فوجی جرنیلوں پر منحصر نہیں جو ریاستی سرپرستی کے بغیر کسی ایک حلقہ انتخاب کی نشست بھی نہیں جیت سکتے جبکہ ’شہید بھٹو لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔‘ بے نظیر نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آئین اور ایٹمی ہتھیار دے کر منقسم پاکستان اور شکست خوردہ فوج کا احترام بحال کیا اور ملک کو متحد کیا۔انہوں نے کہا کہ فوجی جرنیلوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات فراموش نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ وہ پاکستان کے قابل فخر سپوت تھے اور انہوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی جان دی۔بے نظیر بھٹو نے کہا کہ جنرل مشرف کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو پر پاکستان کے ٹوٹنے کا الزام لگانے کی بجائے ایوب خان اور یحییٰ خان کی آمریتوں پر غور کریں جنہوں نے تقسیم کے بیج بوئے تھے۔صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ سے پہلے پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں کہ اس دوران جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کے نمائیندوں کے درمیان کوئی پس پردہ بات چیت ہوگی جو فوجی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کا راستہ ہموار کرسکے گی۔جنرل پرویز مشرف کی کتاب پر پاکستان کے حزب مخالف کے سیاستدانوں نے سخت تنقید کی اور اسے قومی مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ۔ تاہم بے نظیر کی چند روز تک خاموشی سے یہ چہ موگوئیاں زور پکڑ رہی تھیں کہ وہ دانستہ طور پر خاموش ہیں۔بے نظیر نے اپنے دور میں فوج کو قبائلی فسادات بند کرانے کا حکم دیا تو ایک جنرل نے آ کر جواب دیا کہ کہ ’سوری میڈیم، پرائم منسٹر یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘۔ پیپلزپارٹی کے شریک چئر پرسن آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’جس ادارے نے ہم سے بے نظیر بھٹو کو چھین لیا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ادارہ برقرار رہے ورنہ پاکستان میں بھی وار لارڈز ہونگے۔جیسے افغانستان میں فوج نہیں رہی تو ایک ایک پہاڑی پر کئی کئی جنگجو سردار چڑھ کر بیٹھ گئے‘۔انہوں نے کہا کہ کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’وہ جس ادارے کو کمزور کرنے جارہے ہیں اس کے سب سے زیادہ ڈسے ہوئے ہم ہیں۔ہم سے اس ادارے نے قربانیاں لی ہیں لیکن پھر بھی ہم اسے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ آصف زرداری نے کہا کہ ڈر اس بات سے ہے کہ جیسا افغانستان کے ساتھ ہوا وہ پاکستان کے ساتھ نہ ہوجائے۔ ’انقلاب ایران کے بعد ان کے عوام کا کیا بنا۔ ہم تو اٹھارہ کروڑ کا ملک ہیں ہم کہاں جائیں گے۔‘ ’میں نہیں سمجھتا کہ ملک ٹوٹنے کے بعد مجھے کہیں زمین کا ایک ٹکڑا بھی ملےگا۔شاہ ایران کو بھی دربدر ہوکر مصر میں دفن ہونے کی جگہ ملی۔ ہمیں افغانستان،انڈیا نہ ایران پناہ دے گا۔ہمیں تو یہیں رہنا ہوگا اور خود کو سنبھالنا ہوگا‘۔پیپلز پارٹی شریک چئیرمین نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو صوبہ سرحد سے زیادہ افغانستان کے اندر خطرات لاحق ہیں کیونکہ وہاں پاکستان کے معاشی مفادات زیادہ ہیں بلوچستان میں شورش کا سامنا ہے، افغانستان میں نیٹو کی فورسز ہماری جانب بڑھ رہی ہیں۔معاشی حالات بدتر ہیں۔ جب امپورٹ بل فنانس بل نہ ہوں، تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے پیسے نہ ہوں اور سندھ کے لوگ ابھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے صدمے میں ہوں ایسے میں پاکستان کس طرح بہتر رہ سکتا ہے؟ پاکستان میں قبائل اور برادری ازم کو ہوا دی گئی، ضیا دور میں انہیں سپورٹ کیا گیا، لڑاو¿ اور حکومت کرو کی پالیسی چلائی گئی۔انہوں نے کہا سندھ میں مہر اور جتوئی قبیلوں کا بارہ پندرہ برس سے جھگڑا چل رہاہے۔راکٹ لانچر استعمال ہوتے ہیں۔لوگ کندھوں پر لانچر اٹھا ئے پھرتے ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ میزائل ٹیکنالوجی ہے جو کسی کے پاس نہیں ہوتی حتیٰ کہ پولیس کو بھی خریدنے کی اجازت نہیں ہے یہ صرف انٹیلجنس اور فوج کے پاس ہوتی ہے۔ ’بے نظیر نے اپنے دور میں فوج کو قبائلی فسادات بند کرانے کا حکم دیا تو ایک جنرل نے آکر جواب دیا کہ کہ ’سوری میڈیم، پرائم منسٹر میں یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘۔ اسی لیے وہ برے حالات کے باوجود برداشت کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں اور قومی مفاہمت کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ زرداری نے پرویز مشرف کو ایک غیر آئینی صدر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مشرف کے جانے کے بعد وہ اتحادی جماعتوں اور تمام چھوٹے بڑے گروپوں سے مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے۔ عدلیہ کا ایک بڑا بحران ہے لیکن عدلیہ کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ رجسٹرار کیا کرتا ہے ریڈر کس طرح ٹائپنگ کی غلطی کرکے لوگوں کو پریشان کرتا ہے؟یہ وہ بخوبی جانتے ہیں۔ زرداری نے پرویز مشرف کو ایک غیر آئینی صدر قرار دیا اور کہا کہ صدر مشرف کے جانے کے بعد وہ اتحادی جماعتوں اور تمام چھوٹے بڑے گروپوں سے مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے۔ انہیں عدلیہ کی بحالی پر اختلاف نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ کا ایک نظام بنایا جائے وہ چاہتے ہیں کہ غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ایک مشاورتی بورڈ بنایا جائے جو عدلیہ کے معاملات کو دیکھے۔ ’لانگ مارچ کا فائدہ اور نقصان دونوں ہوا لیکن ہم نے برداشت کا مظاہرہ کیا۔مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی سے اتحاد میں ہے لیکن نواز شریف لانگ مارچ میں گئے‘۔انہوں نے کہ ہمارا رشتہ برداشت کا ہے اور وہ انہوں نے نبھایا ہے۔ آصف زرادی نے کہا کہ جب نواز شریف قید ہوئے تھے تو تب خود انہوں نے جاکر ان سے ہاتھ ملایا۔’میں نواز کی وجہ سے قید تھا لیکن مشرف کی بجائے میں نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا‘۔ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف نے ان کے خلاف اقوام متحدہ میں جاکر کرپشن کے الزام لگائے بعد میں خود انہیں واپس لائے۔غلام اسحاق خان نے الزام لگایا اور بے نظیر بھٹو نے انہی سے میرا (آصف زرداری کا) حلف اٹھوایا۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر حلف لینے کو انتقام سمجھتی تھیں۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا ہے کہ معاشی بحران کو آج حل کرنے کے لیے بیٹھا جائے تو کم از کم تین برس لگ جائیں گے۔گندم کے بحران کو حل کرنے کے لیے آنے والی فصل کا انتظار کرنا ہوگا۔پانی بجلی اور ڈیزل مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بتایا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے کے لیے حکومت نے باضابطہ درخواست اقوام متحدہ کو بھجوادی ہے۔ یہ بات انہوں نے سوشلسٹ انٹرنیشل ایشیا پیسیفک کمیٹی کے اجلاس کے بعد نیوز بریفنگ کے دوران بتائی۔دنیا کی ایک سو ساٹھ سیاسی جماعتیں سوشلسٹ کمیٹی کی ممبر ہیں جن میں سے ساٹھ جماعتوں کی مختلف ممالک میں اس وقت حکومتیں قائم ہیں۔ بریفنگ میں جب آصف علی زرداری سے پوچھا گیا کہ صدر پرویز مشرف کو کب چکلالہ ائر بیس پر الوداع کرنا ہے تو انہوں نے کہا: ’جب آپ چاہیں گے، جب آپ کی پارلیمان چاہے گی اور جب پاکستان کے لوگ چاہیں گے۔‘ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صدر پرویز مشرف کو جلد ہٹانے کے بارے میں آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ جمہوریت کے سفر میں ان کے ساتھ شریک ہیں اور اب تک انہیں لیڈ کرتے ہوئے اگر یہاں تک لے آئیں ہیں تو آگے بھی لے جائیں گے۔ ’لیکن اس کے لیے تھوڑا تحمل چاہیے اور یہ معاملہ میں ڈائلاگ سے طے کرنا چاہتے ہیں۔‘ آصف علی زرداری نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ستر لاکھ گھرانوں کو بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب ایک کارڈ جاری ہوگا۔ ان کے مطابق کریڈٹ کارڈ کے طرز پر اس کارڈ میں ہر ماہ پندرہ سو سے دو ہزار روپے تک رقم اپ لوڈ ہوجائے گی اور وہ کھانے پینے کی اشیاء مفت حاصل کرسکیں گے۔ قتل کے فوراً بعد پیپلز پارٹی نے تفتیش اقوام متحدہ سے کرانے کا مطالبہ کیا تھا ۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کی مقتول لیڈر بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے پر تمام تحفظات کو رد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکومت بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کروائے گی اور انہیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں۔یہ بات انہوں نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر دو روزہ بحث سمیٹتے ہوئے کہی تھی۔سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین سید مشاہد حسین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے پر سخت تحفظات ظاہر کیے تھے اور کہا تھا کہ اس سے ملک کے لیے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس سے پہلے سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان اور بعض قانونی ماہرین نے بھی اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے نہ کروائی جائے کیونکہ ان کے بقول اس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ قتل کی تفتیش کے لیے برطانوی ماہرین کی مدد بھی لی گئی تھی۔ حکومت نے بعد میں کانٹریکٹ پر کام کرنے والے سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان کو فارغ کردیا لیکن اس کی وجہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ کی مخالفت کرنا نہیں بتائی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ امریکی جنرل جے ہوڈ کو پاکستان میں تعینات کرنے پر حکومت کو تحفظات ہیں اور امریکہ کو اس تشویش سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا تو حکومت کے پاس بہت آپشن ہیں اور جنرل ہوڈ اور ان جیسی سوچ کے حامل افراد کو ملک میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ جنرل ہوڈ کو امریکی حکومت نے اسلام آباد میں واقع اپنے سفارتخانے میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے خلاف سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں سے سخت رد عمل ظاہر کیا گیا تھا۔ جنرل ہوڈ پر الزام ہے کہ گوانتانامو بے میں تعیناتی کے دوران انہوں نے قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتا اور قرآن مجید کی توہین کی۔ لیکن جنرل ہوڈ ایسے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بعض سینیٹرز کی جانب سے امریکہ پر تنقید کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ پر تنقید کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن امریکہ کی اہمیت اور ان سے پاکستان کو ملنے والے فوائد سے غافل بھی نہیں ہونا چاہیے۔‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان رضا ربانی نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میں شامل بعض عناصر کی مہم کے باوجود سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے ضرور کروائے گی۔ یہ بات انہوں نے سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ کے رکن اور سینئر قانون دان ایس ایم ظفر کی جانب سے اقوام متحدہ کو اس قتل کی تحقیقات میں ملوث کرنے کی مخالفت میں کی گئی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل سے متعلق حقائق سے پردہ ہٹ جانے کے خوف سے انکے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کے ذریعے کروائے جانے کے فیصلے کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھاکہ لبنان کے رفیق حریری کی طرز پر اس قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کے کمیشن سے کروائے جانے کی مخالفت میں چلائی گئی اس مہم کا مقصد اس قتل کی سازش میں ملوث ملکی اور غیر ملکی عناصر کو منظر عام پر آنے سے بچانا ہے۔ ایس ایم ظفر نے نکتہ اعتراض پر حریری طرز کے اقوام متحدہ کے مشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیشن کے ملک میں آ کر تحقیقات سے ملکی سالمیت اور دفاع خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی روایات کے مطابق اس قسم کے کمیشن کو ملک میں جا کر کسی بھی شخصیت سے باز پرس کرنے اور کسی بھی جگہ کا دورہ کرنے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ ’اس صورت میں غیر ملکیوں کی رسائی پاکستان کے ایٹمی پروگرام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور دیگر اہم اور خفیہ مقامات اور افراد تک رسائی ممکن ہو گی جس سے ملکی سالمیت براہ راست خطرے کا شکار ہو جائے گی۔‘ ایس ایم ظفر نے سبکدوش ہونے والے سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں افراد نے بھی اس قسم کی تحقیقات کے ملک پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس معاملے میں اقوام متحدہ کو ملوث کرنے سے باز رہے کیوں کہ یہ ملکی مفاد کے بالکل منافی ہے۔ رضا ربانی نے ان نکات کے جواب میں کہا کہ بینظیر قتل ایک بین الاقوامی سازش تھی لیکن اسکا ملک کے ایٹمی پروگرام یا تنصیبات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایس ایم ظفر اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں جو اقوام متحدہ کی تحقیقات رکوانے کے لیے بعض مخصوص حلقوں کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔ یہ محض پروپیگنڈا ہے کہ بینظیر قتل کی تحقیقات سے ملکی سالمیت یا وقار متاثر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور انکی جماعت بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا کہ کوئی اور۔ رضا ربانی نے کہا کہ اس ملک میں ہمیشہ سے سیاسی رہنماو¿ں کو قتل بھی کیا جاتا رہا ہے اور پھر ان کی تحقیقات بھی نہیں کرنے دی جاتی۔ ’ہم اس روایت کو توڑیں گے اور بینظیر کے قتل کی تحقیقات کروائیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت اور ایٹمی اثاثوں کو اصل خطرہ تو اس وقت ہوا تھا جب پرویز مشرف نے پریس کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی پھیلاو¿ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جب اس اعلان سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کچھ نقصان نہیں ہوا تو بینظیر قتل کا تو اس سے کوئی واسطہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی کراچی سے اسلام آباد تک اراکین اسمبلی اور وزراء کے گھروں اور دفاتر کے سا منے اندرون سندھ کے لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں مگر اس مرتبہ تاحال ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آئی۔پیپلز پارٹی کی حکومت میں پہلی مرتبہ کوئی غیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوا ہے۔ ورنہ پارٹی کے کارکنان ایک ہی نعرے سے مانوس تھے کہ وزیراعظم بینظیر۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھٹو خاندان کے آبائی گھر نئوں دیرو میں بھی عوام کا رش نہیں ہے۔ انیس سو اٹھاسی اور انیس سو بانوے میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بنتے ہی نئوں دیرو میں امیدیں اور درخواستیں لیکر آنے والوں کے ٹھٹ لگ گئے تھے۔ اس مرتبہ بینظیر سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کی منزل نئوں دیرو سے پانچ کلومیٹر دور گڑھی خدابخش کا قبرستان ہے جہاں لوگوں کا رش برقرار ہے۔ ہرگھنٹے کے بعد ملک کے کسی نہ کسی کونے سے عقیدت مندوں یا پارٹی کارکنوں سے بھری کوئی بس یا ویگن بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش پہنچتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کو کئی ماہ ہو چلے ہیں مگر عقیدت اور محبت کے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ اور عورتیں آج بھی بینظیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے گڑھی خدا بخش جاتے ہیں۔ بے نظیر کے عقیدت مند کہتے ہیں کہ وہ بدقسمت ہوگا جو ’شہید ملکہ‘ کی قبر پر حاضری دینے نہیں آیا ہوگا۔ دور دراز سے آنے والے لوگوں میں سے کچھ گروپ ’زندہ ہے بی بی زندہ ہے’ کے نعرے لگاتے ہوئے اس تین گنبدوں والے زیر تعمیر مقبرے میں داخلے ہوتے ہیں، تو کچھ خاموشی اور چہرے پر افسردگی لے کر چپ چاپ کسی کونے میں جا بیٹھتے ہیں۔ مرکزی دروازے سے مقبرے میں داخل ہوتے ہی سامنے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالقفار علی بھٹو کی قبر ہے اور ساتھ ہی میں بینظیر بھٹو کئی من مٹی تلے سو رہی ہیں۔ مرد سیدھے بینظیر کی قبر پر آتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں جبکہ خواتین قرآن مجید یا سورہ یاسین کی تلاوت میں مصروف ہوجاتی ہیں اور مرد بھی زمین پر گھٹنوں کے بل یا آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھولوں سے ڈھکی قبر سے ہر آنے والے ایک مٹھی کے قریب پھول تبرک کے طور پر جیبوں یا پرس میں ڈال لیتے ہیں۔ زائرین کی طرح آنے والے لوگوں میں سے بمشکل بیس فیصد لوگ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر دعا کے لیے جاتے نظر آئے۔ جبکہ ان کے فرزندوں میر مرتضیٰ اور شاہنواز کی قبروں پر فاتحہ کرنے والوں کی تعداد تو اس سے بھی کم ہے۔ یہ تمام قبریں بغیر کتبوں کے ہیں۔بینظیر بھٹو نے وطن واپسی سے قبل روزگار دینے کا اعلان کیا تھا آج ان کی قبر بھی کئی لوگوں کے لیے روزگار کا وسیلہ بن چکی ہے، جہاں پھول والے، مزار کے اندر داخلے ہونے سے قبل جوتیوں کی رکھوالی کرنے والے، بینظیر بھٹو کی تصاویر، پوسٹر، کی چین اور کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ مقبرے کے باہر دونوں بڑے دروازوں پر ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے اسٹال لگائے لیئے ہیں۔ مزار کے جنوبی دروازے پر ٹھیلہ لگائے ہوئے حکیم نے بتایا کہ وہ روزانہ دو سے تین سو روپے تک کماتے ہیں جس سے اچھا گزارا ہوجاتا ہے۔ ایسی ایک سو سے زائد دکانیں یہاں موجود ہیں۔ اس مزار کے اندر اور باہر کے مناظر کچھ ایسے ہی ہیں جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور قلندر شھباز کی مزاروں پر نظر آتے ہیں۔ لوگ عقیدت کے ساتھ یادگار یا تحفے کے طور پرکوئی نہ کوئی چیز خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔عام لوگ اور سیاستدان تو یہاں آتے ہی رہتے ہیں مگر اب نوبیاہتا جوڑوں نے بھی یہاں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے، گزشتہ ہفتے تو یہاں خیرپور اور رتوڈیرو سے دو نوبیاہتا جوڑے حاضری دنے آئے تھے۔ راستے میں نوجوان گلوکار احمد مغل کی درد بھرے انداز میں گائے ہوئے گیت ’ سندھ جی رانی ، نیانی نمانی سندھ کھی روارے وئیں‘ بھی سننے کو مل جاتا ہے۔ مزار کے اندر اور باہر پینافلکس پر بنی ہوئی بینظیر بھٹو کی قد آدم تصاویر آویزاں ہیں جن پر اشعار درج ہیں۔ ان اشعار میں بعض میں ان کی ہلاکت کو واقعہ کربلا سے مشہابت دی گئی ہے۔ بقول ایک خدمتگار کہ نواسے پیغمبر اسلام امام حسین کو دھوکے سے کربلا بلا کر قتل کیاگیا تھا اور بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔ ان عبارتوں کے علاوہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں اپنے موبائل اور پرس کا خیال رکھیں کی عبارت بھی دیواروں پر تحریر ہے۔ بقول ایک خدمتگار کئی عقیدت مند اپنے رقم اور موبائل فون سے محروم ہوچکے ہیں ’لوگ غم میں نڈھال ہوتے ہیں اور بدبخت لوگ ان کی جیب کاٹ لیتے ہیں۔‘ حکومت کے بقول بینظیر بھٹونے سیاسی سرگرمیوں کی خاطر ذاتی حفاظت کے تقاضے پورے نہیں کیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ اصرار بڑھتا جارہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پاکستانی ادارے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کرے تاکہ ملک میں بڑھنے والے خود کش حملوں کے پیچھے عناصر کا مکمل طور پر پتہ لگایا جاسکے۔پیپلز پارٹی کے چئیرپرسن آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ملک میں ہی کوئی طاقت ہے اور ان کا اشارہ براہ راست حکومت کے خفیہ اداروں کی جانب ہے جن پر خود بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی سے پہلے شبہات کا اظہار کیا تھا۔ صدر مشرف اس تاثر کو رد کرتے ہوکئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور لبنان میں فرق ہے اور عالمی ادارے کا اس واقعے کی تفتیش کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ستائیس دسمبر کے بعد جب اقوام متحدہ کے پندرہ اراکین پر مشمل سلامتی کونسل نے بے نظیر بھٹو کے قتل پر ہنگامی اجلاس بلاکر اس پر شدید افسوس ظاہر کیا تو بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کے اصرار کے باوجود کونسل نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے پر کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ کسی شریک ملک نے عالمی ادارے سے قتل کی تفتیش کرانےکی آواز اٹھائی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر مشرف نے اپنے اتحادیوں کو پہلے ہی آمادہ کرلیا ہے کہ وہ آزادانہ تحقیقات کرانے پر زور نہ ڈالیں اور نہ ان کی حکومت پر کوئی تنقید کریں حالانکہ ہلری کلنٹن سے لے کر انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے رابرٹ ٹیمپلر تک سبھی نے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں پر سوالیہ نشان لگاکر عالمی ادارے کو ازخود تحقیقات کرنے پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ اقوام متحدہ اس طرح کی سیاسی ہلاکتوں کی گھتی سلجھانے کا اہل ہے مگر ادارہ ایسا اقدام اسی وقت کرسکتا ہے جب ا سکیلئے حکومت پاکستان اپیل کرے یا خود سلامتی کونسل اسکا فیصلہ کرسکے۔ اس کے سوا اپنے طور پر وہ خود کوئی تحقیقات کرنے کے مجاز نہیں ہوتے ۔پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈالتی ہے اور دنیا اس تنظیم کو عالمی دہشت گرد گروہ سمجھتی ہے تو عالمی ادارے سے تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاسکتی ۔ جب ملک کے حکمرانوں پر شک ہو جو ہر خود کش حملے کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالتے ہیں تو ایسے حالت میں آزادانہ ادارے سے تحقیقات کرانے سے شکوک کو دور کیا جاسکتا ہے۔ یہ مطالبہ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کیا ہے اورحکومت پاکستان کو یہ مطالبہ ماننا ہوگا۔ جہاں سکاٹ لینڈ یارڈ کی یہ رپورٹ کہ ’بینظیر بھٹو کی ہلاکت گولی لگنے سے نہیں بلکہ بم دھماکے کی شدت سے واقع ہوئی‘ بیشتر پاکستانی اخبارات میں شہہ سرخیوں سے شائع ہوئی وہاں اکثر اخبارات نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی وجہ جاننے سے کہیں زیادہ اہمیت قاتلوں کی نشاندہی کرنا ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری سمیت ان کے اکثر ساتھی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی لیڈر کے قتل کے بعد یہ جاننا کہ وہ کیسے قتل ہوئیں، ایک ثانوی معاملہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ کس نے بنایا، قاتل سخت سکیورٹی کے باوجود ان تک کیسے پہنچ گئے، قاتل کون ہیں اور اس قتل کا فائدہ کس کو پہنچا؟ لیکن یہ سب کچھ معلوم کرنے کا اختیار سکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کاروں کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر تھا۔ اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ اگر حکومت قاتلوں کا پتہ چلانے میں سنجیدہ ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کو قاتلوں کا پتہ چلانے سے روکا گیا؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر سکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کاروں کا دائرہ کار محدود کرکے بینظیر بھٹو کی جانب سے سولہ اکتوبر کو صدر پرویز مشرف کو لکھے گئے خط میں جن چار افراد کی نشاندہی کی تھی انہیں بچانے کی کوشش کی کر رہی ہے۔ صدر پرویز مشرف کہتے ہیں کہ قاتلوں کا پتہ چلانا پاکستانی تفتیش کاروں کا کام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی کئی بار کہ چکے ہیں کہ بینظیر کے قتل میں بیت اللہ محسود کا ٹولہ ملوث ہے۔ ضیاءالحق نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر انہوں نے اپنا راستہ تو صاف کردیا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کی قبر مہنگی پڑے گئی اب بھی کچھ لوگ ویسا ہی کہہ رہے کہ زندہ بینظیر کی نسبت مقتولہ بینظیر اسٹیبلشمنٹ کو بھاری پڑے گی !!ظاہر ہے کہ جب ریاست کے سربراہ نے کہہ دیا کہ قاتل کون ہے تو کیا گریڈ بیس یا اکیس کا پولیس افسر انہیں غلط ثابت کرسکتا ہے؟ ایسی صورتحال میں تو پھر مزید تفتیش بے معنی ہو جاتی ہے۔ بیت اللہ محسود کو بینظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ ساز قرار دینے والے صدر صاحب کے بیانات کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ حکومت اور طالبان شدت پسندوں میں صلح اور فائر بندی کے اعلانات سامنے آ گئے۔ کیا ایسے میں پھر یہ سوال نہیں اٹھتا کہ صدر پرویز مشرف بینظیر کے قاتلوں سے معاہدہ کر رہے ہیں؟ سوال اٹھتا ہے کہ ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں اگر حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے درمیاں معاہدہ ہوتا ہے تو کیا پھر انہیں شامل تفتیش کیا جاسکے گا یا انہیں سزا مل پائے گی؟ پاکستان میں اعلیٰ شخصیات کے قتل، چاہے وہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ہوں یا فوجی صدر ضیاءالحق یا پھر میر مرتضیٰ بھٹو، کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹیاں اور کمیشن بنے ان کی رپورٹس تاحال سامنے نہیں آئیں اور نہ ہی قاتلوں کی نشاندہی ہوئی۔ پاکستانی تفتیش کاروں کی اس روایت سے یہی خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بھی شاید ہی بے نقاب کیا جاسکے!!اس طرح کے خدشات سے قطعہ نظر بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب حالات انیس سو ستتر والے نہیں اور اگر بینظیر بھٹو کے قتل کی ہڈی کسی نے نگلنے کی کوشش کی تو ا±سے اس کی قیمت ملکی سالمیت کے تار تار ہونے کی صورت میں چکانی ہوگی۔ جس طرح ضیاءالحق نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر انہوں نے اپنا راستہ تو صاف کردیا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کی قبر مہنگی پڑے گئی اب بھی کچھ لوگ ویسا ہی کہہ رہے کہ زندہ بینظیر کی نسبت مقتولہ بینظیر اسٹیبلشمنٹ کو بھاری پڑے گی !!۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پرویز مشرف کو صدر نہیں مانتی مگر وہ ایک حقیقت ہیں۔ ڈاکٹر قدیر کا مسئلہ سابقہ حکومت کا پیدا کردہ ہے وہی اسے حل کرے۔ بجٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر رقم رکھنے کا مقصد معزول ججز کی بحالی کے کام کا آغاز ہے ہم بھی اگر (ن) لیگ کی طرح پنجاب سے وزارتیں چھور دیتے تو چھانگا مانگا کی تاریخ دہرائی جاتی۔ میڈیا نے جتنی کوریج ججز کی بحالی کو دی اتنی کوریج اگر جمہوریت کی بحالی کو دی جاتی تو نتائج بہت بہتر ہوتے آصف علی زرداری نے کہاکہ فنانس بل میں ججز کی تعداد میں اضافہ نواز شریف کے مشورے سے کیاگیا تھا پیپلز پارٹی صدر پرویز مشرف کو صدر نہیں مانتے مگر وہ ایک حقیقت ہیں۔ یحییٰ خان کی وردی کے تنازعہ سے ملک ٹوٹ گیا مگر بے نظیر بھٹو نے پرویزمشرف کی وردی اتروا کر جمہوریت کی راہ ہموار کی آصف علی زرداری نے ایک سوال پر کہاکہ میں تو سزا کاٹ چکا ہوں این آر او کا مجھے نہیں بلکہ تمام جماعتو ںکے کارکنوں کو فائدہ ہوا انہوں نے کہاکہ این آر او کے تحت ناجائز مقدمات ختم کئے گئے۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ صدر کے پاس کافی اختیارات ہیں جنہیں آئینی پیکج کے ذریعے ختم کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا نے جتنی کوریج ججز کی بحالی کو دی ہے اتنی کوریج اگر جمہوریت کی بحالی کو دی ہوتی تو نتائج بہتر ہوتے زرداری نے کہاکہ میثاق جمہوریت کے مطابق پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والا جج نہیں رہ سکتا مگر ہم نواز شریف کی اس بارے پوزیشن کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معزول ججز بحال ہوں اور موجودہ ججز بھی ڈسٹرب نہ ہوں انہوں نے کہاکہ بجٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر رقم رکھنے کا مقصد ججز کی بحالی کے کام کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے ہم میاں نواز شریف کی مشاورت سے کام کر رہے ہیں اگر پیپلز پارٹی بھی پنجاب سے وزارتیں چھوڑ دیتی تو چھانگا مانگا کی تاریخ دہرائی جاتی ۔ غلام اسحاق خان نے مجھ پر کئی مقدمات بنائے میں ان میں سے14میں بری ہوا ۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ میں پھر کہتا ہوں کہ موجودہ ججز بھی رہیں گے اور معزول ججز بھی ضرور بحال ہوں گے- انہوں نے کہاکہ عوام کیلئے صرف ججز کی بحالی ہی مسئلہ نہیں بلکہ مہنگائی بے روزگاری ، بجلی ، پانی کی کمی اور دیگر بہت سے مسائل بھی ہیں جن سے انہیں نجات دلایا جانا ضروری ہے پاکستان سٹیل ملز کی یونین پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلی بار جیتی ہے ہم نے آتے ہی یونین بحال کر دیں تھیں عوام کو ان کا حق دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ سے حکومت مزید مضبوط ہوئی ہے ہم نے لانگ مارچ کی مکمل آزادی دی ۔انہوں نے کہاکہ ن(ن) لیگ نے مرکز سے وزرائ نکال لئے مگر پی پی پی نے پنجاب سے نہیں نکالے۔ انہوں نے کہاکہ قومی مفاہمت کا مقصد ملک کو بچانا ہے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ اعتزاز احسن پارٹی پالیسی کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں مگر پارٹی نے انہیں اس پر کوئی نوٹس نہیں دیا پارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کو مضبوط کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ سے حکومت کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوئی ہے آصف علی زرداری نے کہاکہ پیپلز پارٹی کو لگنی والی ضرب بہت گہری ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت سے ہونے والا نقصان ابھی تک پورا نہیں ہوا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر کا مسئلہ پچھلی حکومت کا پیداکردہ ہے اس کا تسلسل موجود ہے وہی اسے حل کرے۔انہوں نے کہاکہ فنانس بل میں ججز کی تعداد میں اصافہ ، نواز شریف کے مشورے سے کیاگیا تھا ۔ گزشتہ روز لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہاکہ یہ ایک محض ملاقات تھی اورمیں لاہور آو¿ں اور ان سے نہ ملوں یہ کیسے ممکن ہے انہوں نے کہاکہ میرا میاں نواز شریف سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب ایوان صدر میں بھی سلمان تاثیر جیسا پیپلزپارٹی کا صدر بیٹھا ہوگا۔ہم جانتے ہیں کہ لانگ مارچ کسے کہتے ہیں جب ہم لانگ مارچ کریں گے تو پورا پاکستان دیکھے گا کہ یہ صرف میلہ نہیں لانگ مارچ ہو گا۔پیپلزپارٹی کے جیالے اور لیڈر تھکے نہیں بلکہ ہم وقت کا انتظار کر رہے ہیں ہماری طاقت دنیا جانتی ہے کسی کو دکھانے کی ضرورت نہیں ۔ ہم جان دینا بھی جانتے ہیں اور جان لینا بھی جانتے ہیں اور نظام بدل کر بی بی کی شہادت کا بدلہ لیں گے۔ہمیں کسی کو بتانے یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں کہ ہم محب وطن ہیں ہم ملک کو غاصبوں اور جمہوریت کے دشمنوں سے نجات دلوائیں گے۔ملک میں مکمل جمہوریت کس روز ہو گی اس کا فیصلہ ہم کریں گے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بلاول بھٹو زرداری کو ہمارے لئے تحفہ کے طور پر چھوڑا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج گورنر ہاو¿س لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر گورنرز پنجاب سلیمان تاثیر نے بھی خطاب کیا۔ آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ گورنر ہاو¿س وہ جگہ ہے جہاں مجھے اس دن گرفتار کیا گیاتھا جب ایک غاصب اور لغار نے جمہوریت پر شب خون مارا تھا اور شب خون کے نتیجے میں جمہوریت او رپاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے جو اس وقت جمہوریت کے مجرم تھے وہ آج بھی جمہوریت کے مجرم ہیں اورانہی مجرموں نے ہم سے بی بی کو چھیناہے ہم ان جمہوریت کے مجرموں کو کہتے ہیں کہ یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے ۔ انہوں نے کہاکہ ہماری پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جو اپنا سر فخر سے بلند کر کے یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم شہیدوں کے وارث ہیں اور ہم نے اس ملک کیلئے اپنا خون دیا ہے ہم اس طرز پر جیئں گے جس کا سبق ہمیں ذوالفقار علی بھٹو نے دیاہے۔ہمیں کسی کو اپنے محب وطن ہونے کے بارے میں بتانے یاکسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔پاکستان کو جمہوریت پیپلز پارٹی نے سکھائی ہے اگر اب بھی کسی غاصب اور جمہوریت کے ڈاکو سے جنگ کی تو وہ پیپلز پارٹی ہی کرے گی ہم یہ چیلنج قبول کرتے ہیں ہم جمہوریت کو غاصبوں سے نجات دلائیں گے اور پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ کب او رکس طرح ہو گا اس کا فیصلہ پیپلز پارٹی خود کرے گی 21جون کو بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر خون کا عطیہ دے کر ہم دشمن کو بتائیں گے کہ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں ۔ہمارے پاس بی بی صاحبہ کا دیا ہوا ایک بھٹو موجود ہے جس کا نام بلاول بھٹو زرداری ہے وہ ہمارے لئے یہ تحفہ چھوڑ گئیں ہیں تاکہ گورنر ہاو¿س اور ایوان صدر میں جیئے بھٹو کے نعرے لگتے رہیں وہ وقت دور نہیں جب ایوان صدر میں پیپلز پارٹی کاسلمان تاثیر جیسا صدر بیٹھا ہوگا۔ ہم ملک میں جمہوریت لا کر بی بی کا بدلہ لیں گے اور پنجاب میں بیٹھ کر بی بی کے پاکستان کو بچائیں گے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کھپے ۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ پیپلز پارٹی کے جیالے اورلیڈر کمزور ہیں ہم نہ کمزور ہیں اور نہ تھکے ہیں بلکہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ لانگ مارچ کسے کہتے ہیں اور جب ہم لانگ مارچ کریں گے تو پورے پاکستان کو معلوم ہو جائے گا کہ لانگ مارچ کیسے ہوتا ہے یہ میلہ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ صرف بے نظیر کا خون ہی کر سکتا ہے آصف علی زرداری نے کہا کہ تمہارے پاس وہ امنگیں ، خون اور نظریہ نہیں ہے جو پیپلز پارٹی کے پاس ہے ۔قائداعظم نے یہ ملک ڈائیلاگ کے ذریعے بنایا اورہم بھی پاکستان میں ڈائیلاگ کے ذریعے جمہوریت لائیں گے ہماری طاقت دنیا جانتی ہے کسی کو دکھانے کی ضرورت نہیں
پاکستان نے بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی باضابطہ درخواست اسی ماہ نیویارک میں اپنے مستقل مندوب کے ذریعے بھجوائی تھی جس میں ادارے سے اس ہلاکت کی تفتیش کرانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی درخواست کی گئی ہے کہ اس ہلاکت کے پس پردہ محرکات اور ذمہ داروں کا بھی سراغ لگایا جائے۔ دومرتبہ سابق وزیراعظم رہنے والی بینظیر بھٹو گزشتہ برس ستائیس دسمبر کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ اس وقت کی جنرل مشرف کی انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کے مطالبات کے باوجود اس ہلاکت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم اٹھارہ فروری کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی سرکردگی میں بننے والی مخلوط حکومت نے پارٹی کے انتخابی منشور کے مطابق اس واقعے کی تفتیش اقوام متحدہ سے کرانے کی درخواست بھجوائی تھی۔ سیکریٹری جنرل بان کی مون کی ترجمان نے بتایا ہے کہ پاکستان کی درخواست کے تمام مالی اور قانونی پہلو¿وں کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس درخواست پر کوئی بھی حتمی فیصلہ ادارے کی سلامتی کونسل کرے گی۔ ترجمان نے اس موقع پر لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات کا بھی حوالہ دیتے ہو ئے کہا ہے کہ اس موقع پر بھی تحقیقات کرانے کا حتمی فیصلہ سلامتی کونسل نے ہی کیا تھا اور پاکستان کی درخواست پر بھی یہی طریق کار اپنایا جائے گا۔ پاکستان کے صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے ایک امریکی ٹیلی ویڑن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ بےنظیر بھٹو کے سر کے زخم کی وجہ گولی لگنا بھی ہو سکتی ہے۔ صدر جنرل(ر) مشرف نے یہ انٹرویو امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز کو دیا تھا۔ نیوز چینل نے اپنی ویب سائٹ پر مختصراً انٹرویو کی جھلکیاں بھی پیش کیں۔ ویب سائٹ کے مطابق صدر مشرف نے کہا تھا کہ ممکن ہے کہ بے نظیر بھٹو کے سر میں زخم گولی لگنے سے آیا ہو بے نظیر بھٹو کی جان کو خطرہ تھا اور اس لیے جتنی سکیورٹی کسی اور کو دی جاتی ہے اس سے زیادہ ان کو دی گئی تھی۔ انٹرویو کی تفصیلات کے مطابق صدر(ر) مشرف نے یہ بھی کہا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی ذمہ دار وہ خود ہیں کوئی اور نہیں۔ ٹی وی چینل نے صدر کے حوالے سے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ مشرف حکومت پر سب سے زیادہ تنقید اس وقت ہوئی جب حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی وجہ ان کے سر کا گاڑی کے سن روف سے ٹکرانا ہے۔ جب سے مشرف نے یہ بیان دیا کہ وہ تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد مانگی گئی ہے صدر ب±ش اور ان کی انتظامیہ پورے زور شور سے ان کی حمایت کر رہی ہے۔ دو روز پہلے صدر ب±ش نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ سے صدر مشرف کے حمایتی رہے ہیں۔ دونوں صدور بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے لیے القاعدہ کے ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ حتمی طور پر تفتیش کے مکمل ہونے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا۔ یہ کہنا درست ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں میں امریکی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کا رجحان ہے جس میں پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری کے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رجحان بے نظیر بھٹو کی زندگی میں اس وقت شروع ہو گیا تھا جب وہ وطن واپس جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ آصف علی زرداری نے اپنے مضمون لکھا تھا کہ ان کے خاندان نے پاکستان اور پیپلز پارٹی کو بچانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ آصف زرداری نے یہ بھی لکھا تھا کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اسی وقت ممکن ہیں جب ملک میں ایک غیرجانبدارانہ حکومت بحال کی جائے گی۔ اسی طرح کی بات کچھ روز پہلے نواز شریف کی طرف سے بھی واشنگٹن پوسٹ میں ہی کہی گئی تھی جس میں انہوں نے کل جماعتی قومی حکومت کا مطالبہ کیا تھا۔ ا±نیس سو چھیاسی میں جب بے نظیر بھٹوپاکستان پہنچیں تو ان کا بھر پور استقبال ہوا۔ اس کے صرف دو سال کے عرصے کے بعد ہی ا±ن کی پارٹی نے ملک بھر میں کامیابی حاصل کی اور انہیں ا±نیس سو اٹھاسی میں ملک کی پہلی خاتوں وزیرِاعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔مگر صرف بیس ماہ بعد ا±س وقت کے صدر غلام اسحاق خاں نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ سنہ ا±نیس سو ترانوے کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو اور ا±ن کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کرلی اور وہ دوبارہ وزیرِاعظم کے منصب پر فائز ہوئیں اس بار ا±نہیں تین سال تک حکومت کرنے کا موقع ملا تاہم سنہ ا±نیس سو چھیانوے میں ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی اس بار یہ کام صدر فاروق لغاری نے کیا جو ان کی اپنی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کی برطرفی آٹھویں ترمیم کے ذریعے ہوئی اور دونوں بار اس کا جواز کرپشن کے الزامات نے فراہم کیا، انہی الزامات کے تحت بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو آٹھ برس تک جیل میں رہنا پڑا۔دوسرے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو کو ایک بڑا دھچکا ا±ن کے بھائی اور سیاسی حریف میر مرتضی بھٹو کے قتل کی صورت میں لگا۔ میر مرتضی بھٹو کو ستمبر ا±نیس سو چھیانوے میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں ا±ن کے گھر کے قریب مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔میر مرتضی بھٹو کے قتل کے کچھ عرصے بعد بے نظیر کی حکومت دوسری بار برطرف ہوئی اور ا±نہون نے جلاوطنی اختیار کر لی گز شتہ سال کے وسط میں بے نظیر بھٹو اور موجودہ صدر پرویز مشرف کے درمیان شراکتِ اقتدار کے بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطوں اور مذاکرات کی خبریں سامنے آئیں تاہم دونوں ہی نے اِن مذاکرات کی مکمل تردید یا تصدیق نہیں کی ۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔جب جنرل ضیا کے مارشل کے زخم ابھی نئے اور ہرے تھے تو بے بس کارکن بس احتجاج کرتیں اور روتی نصرت اور بے نظیر کو دیکھ کر ہی زندہ تھے۔پھر ایک لمبے عرصے تک بے نظیر دبے اور دبائے ہوئے سیاسی کارکنوں کے لئے ایک امکان بنی رہیں جو انیس سو چھیاسی میں ایک امید بن کر لاہور کے ائرپورٹ پر پہنچیں۔سیاسی لوگ وہ دن یاد کرکے آج بھی کچھ دیر کو اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ جنرل ضیا کے نو سال جھیلنے کے بعد ایک مسکراتی، ہاتھ ہلاتی بےنظیر جب سڑکوں پر نکلی تھی تو ہر ایک نے کم سے کم ایک بار یہ ضرور سوچا تھا کہ اب تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔ بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلے 1988ء میں اور پھر 1993ء میں لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔ تاہم 1988ءمیں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماو¿ں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔ بینظیر بھٹو نے 1953ء میں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ء میں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔ علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ء میں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ 1988ء میں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔ بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی اور گزشتہ سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔ بینظیر بھٹو 1999ء میں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔ خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔ بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔ مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔ اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی دنیا بھر میں سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور اسے بہت بڑا نقصان قرار دیا گیا بھارت نے بینظیر کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو انتہائی ظالمانہ قرار دیا وزیرِاعظم منموہن سنگھ بے نظیر کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ بینظیر برّصغیر کے بہترین حکمرانوں میں سے تھیں۔ برطانیہ نے بینظیر کے قتل کو بے حس دہشت گردوں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ دہشت گردوں کا راستہ روکنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ ڈیوِڈ ملیبینڈ نے پاکستان میں ’تحمل اور یکجہتی‘ کی اپیل کی ہے۔ امریکہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی صدر ب±ش بینظیر کے قتل پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا ساتھ برقرار رکھنے کا کہا ویٹی کن نے بھی بینظیرکے قتل کو افسوسناک قرار دیا روس نے پاکستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں قیامِ امن کو یقینی بنائیں۔ فرانس اور اٹلی نے بینظیر بھٹو کے قتل کو انتہا پسندی کا نتیجہ قراردیا فرانس نے بینظیر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ’قابل نفرت فعل‘ افغانستان کی حکومت نے بینظیر پر قاتلانے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بربریت‘ قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ بینظیر کے قاتل پاکستان اور امن کے دشمن ہیں۔متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم کے قتل کی مذمت کی متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہان نے اسے ایک مجرمانہ عمل قرار دیتے ہوئے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف متحد رہیں۔ مصری سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے بیان میں پاکستانی عوام سے اظہارِ تعزیت کیا گیا اور بینظیرکے قتل کو ظالمانہ کارروائی قرار دیا گیا ۔ جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کوراولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا۔راولپنڈی کے جنرل ہسپتال کے باہر پی پی پی کے رہنما بابر اعوان نے بتایا تھا کہ حملے میں بینظیر بھٹو انتقال کرگئی ہیں۔ حملے کے بعد انہیں شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن انہیں نہیں بچایا جاسکا۔ وزارت داخلہ نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ خودکش حملے میں زخمی ہوئیں یا انہیں گولی مارکر ہلاک کیا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت پانچ گولیاں بھی چلی تھیں جن میں سے ایک ان کی گردن میں لگی تھی۔ اس حملے میں پی پی پی کی رہنما شیری رحمان اور ناہید خان بھی زخمی ہوئی تھیں۔ ہسپتال کے باہر بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے کارکن جمع تھے اور غم و غصے کا ماحول تھاس حملے میں کم سے کم پندرہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری دبئی سے پاکستان پہنچے تھے اور بینظیر کی ہلاکت کی خبر پر انھوں نے اس وقت تک یقین نہ کیا جب تکخود دیکھ نہ لیا ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بینظیر بھٹو کے سینے اورگلے میں گولیاں لگیں تھیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان پر فائرنگ کی گئی اور ریلی میں دھماکہ بھی کیا گیا۔ لیکن حالات واضح نہیںتھے کیو نکہ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ بینظیر بھٹو صرف زخمی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان نے کہا تھاکہ بینظیر بھٹو کی موت ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نتیجہ ہے۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو اپنی سکیورٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اورجلسے کے دوران بھی انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بابر اعوان نے کہا کہ وہ صبح بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی جلسے میں گئے تھے۔ ’جلسہ گاہ میں ہم اکھٹے بیٹھے رہے۔ ہم ساتھ ہی ان کے گھر سے آئے تھے۔ وہ بتاتی رہیں کہ انہیں کیا خطرات در پیش ہیں۔ انہوں نے کچھ تفصیلات بھی مجھے دیں جو میں ابھی نہیں بتا سکتا۔ جب ہم جلسے میں بیٹھے ہوئے تھے تب بھی محترمہ نے مجھے کچھ چیزیں لکھ کر دیں۔ وہ اس بارے میں بہت فکرمند تھیں۔ ‘ پاکستان کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے افسوس ظاہر کیا تھا اور صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیاصدر مشرف نے ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ’قوم کے غم‘ میں شامل ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی انتخابی سرگرمیاں معطل کردیں اور سوگ منانے کا اعلان کیا تھاپارٹی کے سربراہ الطاف حسین نے واقعہ کو سانحہ قرار دیتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا ۔الطاف حسین کا کہنا تھا کہ سندھ کے تیسرے وزیراعظم کو راولپنڈی میں اس طرح سے قتل کیا گیا ہے، اس سے قبل لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کیا گیا اور اب سندھ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے بھی واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے بعد یہ بھٹو خاندان کے ایک بڑا سانحہ ہے۔ قاضی حسین احمد نے مطالبہ کیا کہ پرویز مشرف فوری طور مستعفی ہوجائیں کیونکہ وہ اس کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوری طور پر سویلین حکومت قائم کی جائے جو عدلیہ اور آئین کو بحال کرے اور انتخابات کے لیے مناسب فضا تیار ہو۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی اطلاع پہنچتے ہی کراچی میں تمام بازار اور دکانیں بند ہوگئیں اور رات دیر تک کھلے رہنے والے بازاروں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پورے شہر میں خوف و دہشت کی فضا تھا۔ سڑکوں پر بھگدڑ کی سی فضاور ٹریفک بھی بے ہنگم ہو گئی تھی۔ایسا لگ رہا تھاجیسے لوگ حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ وہ سڑکیں جو یکطرفہ ٹریفک کے لئے تھیں وہاں دونوں اطراف سے گاڑیاں آجانے سے صدر سمیت کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام تھی جبکہ ٹرانسپورٹ گاڑیاں بھی غائب ہوگئی جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ کئی علاقوں میں پھنس گئے تھے۔ بینظیر بھٹو کے گھر بلاول ہاو¿س پر سوگ کی فضا تھی۔ شہر بھر سے آنے والے کارکن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ بلاول ہاو¿س کے جانب سے بتایا گیا کہ آصف علی زرداری بچوں سمیت رات کے کسی وقت راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔دوسری طرف شہر کے کئی علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے لیاری، کھارادر، سلاوٹ پاڑے، گرومندر، ڈیفنس، کلفٹن،گلشن اقبال اور گلشن حدید سمیت دیگر کئی علاقوں میں ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی۔مشتعل لوگوں کے ہجوم سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے جو دیوانہ وار نعرے لگارہے تھے۔ پتھراو¿ کر رہے اور ٹائروں کو آگ لگا رہے تھے۔ سب سے جذباتی منظر لیاری میں تھا جو جہاں خواتین بھی سڑکوں پر نکل کر سینہ کوبی اور بین کررہی تھیں۔ملک کے سب سے بڑے شہر میں جابجا ایسی افراتفری تھی جیسے عام طور پر زلزلے یا کسی دوسری قدرتی آف کے بعد نظر آتی ہے۔ شہر کے تشدد زدہ علاقوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی تھیں کہ مشتعل لوگ سرکاری املاک اور گاڑیوں پر پتھراو¿ کر رہے ہیں اور انہوں نے بعض گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا ہے۔ کراچی میں ہنگامہ آرائی کے دوران پندرہ سے زائد گاڑیوں کو نظر آتش کیا گیا یہ گاڑیاں ناظم آباد، لیاقت آباد، کیماڑی، اسٹیل ٹاو¿ن، راشد منہاس روڈ سہراب گوٹھ پل پر جلائی گئی تھیںگلستان جوہر تھانے پر فائرنگ اور بغدادی تھانے پر کریکر سے حملے کی بھی اطلاعات ملی تھیں۔بلاول ہاو¿س کے قریب واقع بلاول چورنگی پر مشتعل افراد نے دو بینکوں کو نذر آتش کیا جبکہ ایک سرکاری گاڑی میں سوار کچھ افراد کو تشدد کے نشانہ بنانے کے بعد گاڑی کو آگ لگادی گئی، گیس سلینڈر پھٹنے سے ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ دوسری جانب سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے صوبے میں تین روز سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ شروع کر دی اور سڑکوں پرپاکستان مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کے لگے ہوئے بینرز کو آگ لگا دی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کی موت کی خبر سن کر راولپنڈی کی تمام مارکیٹیں بند ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے جو مری روڈ پر موجود تھی، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور سڑکیں بلاک کر دیں۔ شہر کی پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بینظیر بھٹو نے گیارہ سال کے بعد راولپنڈی میں عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد بینظیر کا خطاب سننے کے لیے لیاقت باغ پہنچی تھی۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا گیا اور لوگوں نے خود کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا۔ اس سانحہ کے بعد فیض آباد راولپنڈی میں واقع بسوں کے اڈے بند کر دیے گئے جبکہ ہوٹل مالکان نے اپنے ہوٹل بھی بند کر دیے۔ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں مسلم لیگ قاف کے اس پنڈال میں آگ لگا دی گئی جہاں مسلم لیگ قاف کا جلسہ عام ہونا تھا۔ سینکڑوں مشتعل افراد نے سٹیج، کرسیوں بینر اور پوسٹروں کو آگ لگا دی گئی اس کے علاوہ مسلم لیگ قاف کے تین انتخابی دفاتر کو بھی آگ لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج اور ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کی اطلاعات ملی تھیں۔ پنجاب کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند کر دی گئی ہیں۔بیشتر شہروں میں پٹرول پمپ سینما گھر تھیٹر بند کردیے گئے لاہور میں پولیس کی دوگاڑیوں کو جلا دیا گیا تیسری کو پولیس اہلکاروں سمیت اغوا کیا گیا بعد میں پولیس اہلکاروں کو تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا۔ شہر کے ایک علاقے میں موبائل فون کے دفتر، ایک پٹرول پمپ اور دوسرے میں ایک ویگن کو نذر آتش کیا گیا ایک گھر کو بھی آگ لگائے جانے کی اطلاع پولیس کو ملی لاہور میں مختلف مقامات پر ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی اور شاد باغ اور شملہ پہاڑی کے نزدیک زبردست ہوائی فائرنگ کی گئی ہے۔ مال روڈ شام ہوتے ہی سنسان ہوگئی اور اندھیرے میں ڈوبی رہی ۔گوجرانوالہ میں دکانیں بند کرنے میں تاخیر کرنے والوں کی دکانوں میں توڑپھوڑ کی گئی ملتان میں چوک رشید آباد سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا توڑ پھوڑ کی اور ٹائر جلاکر آگ لگائی گئی۔ ملتان کے ڈیرہ دارچوک اور کنٹونمنٹ کے علاقے میں ہوائی فائرنگ کی اطلاع ملی پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا پیپلز پارٹی کے کارکن مشتعل ہیں اور متعددنے انتقام کی بات کی۔ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی بینظیر کی ہلاکت کی خبر پہنچتے ہی مختلف علاقوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور توڑ پھوڑ کی۔ پشاور میں جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر پی پی پی کے سینکڑوں کارکن جمع تھے اور سڑک بند کر کے وہاں احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق جی ٹی روڈ پر بعض مشتعل افراد نے ایک گاڑی کو آگ لگائی اور سڑک پر نصب درجنوں سائن بورڈ اور گاڑیوں کے شیشے توڑے۔ پولیس نے مظاہرین کومنتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج اور انسو گیس کے گولے فائر کیے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کشیدگی کی اطلاعات تھیں جبکہ لورالائی اور تربت میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جوں جوں اطلاعات پہنچ رہی تھیں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ لورالائی شہر میں سب سے پہلے توڑ پھوڑ شروع کی گئی جہاں گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہ ملی۔اس کے علاوہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں خوف کی غم و غصہ کی فضا پائی گئی۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر لشکری رئیسانی کی رہائش گاہ پر بڑی تعداد میں کارکن جمع ہو گئے لیکن کسی تشدد کے واقعے کی اطلاع نہ ملی۔کوئٹہ میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس ہوا جس میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ۔ اے پی ڈی ایم کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ فوجی حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو سیاست اور سیاسی جماعتوں کو برداشت نہیں کر رہے۔ کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق تمام اہم مقامات پر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی تاکہ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ لسبیلہ سے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماو¿ں کے مطابق بیلہ میں دکانیں اور بازار بند کر دیے گئے ہیں اور تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ۔امریکی حکومت نے بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے پاکستان میں مفاہمتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ روس کی حکومت نے بھی حملے کی مذمت کی روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حملے سے دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے وزیراعظم منموہن سنگھ نےمحترمہ بھٹو کی موت پرگہرے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی موت سے برصغیر ایک بہترین رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ محترمہ بھٹو کی موت سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے اور وہ اس مشکل گھڑی میں پاکستانی عوام کے غم میں شریک ہیں۔ فرانس نے بینظیر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی اور کہا ہے کہ یہ ’قابل نفرت فعل‘ ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بینظیر بھٹو پر حملے کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ ڈیوِڈ ملیبینڈ نے پاکستان میں ’تحمل اور یکجہتی‘ کی اپیل کی ۔افغانستان کی حکومت نے بینظیر پر قاتلانے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بربریت‘ قرار دیا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ بینظیر کے قاتل پاکستان اور امن کے دشمن ہیں۔ بینظیر بھٹو اور حامد کرزئی نے اسی دن اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔ بینظیر بھٹو پر کراچی میں اٹھارہ اکتوبر پاکستان واپسی پر ایک استقبالیہ ریلی میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک سو چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان واپسی کے بعد سے ان کی سکیورٹی پر مسلسل تشویش پائی جارہی تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی چالیس برس کی ہوگئی ہے۔ ان چالیس برسوں میں پارٹی نے کئی نشیب و فراز دیکھے اور پارٹی کے کئی ممتاز رہنماو¿ں نے مشکل گھڑی میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی اور پارٹی کے نام کےساتھ لاحقہ لگا کر نئی جماعتیں تشکیل دیں تاہم وقت کے ساتھ افادیت ختم ہونے پر نومولود جماعتیں بھی ختم ہوگئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی چالیس برس قبل تیس نومبر 1967 کو وجود میں آئی اور اس جماعت کے پہلے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پیپلز پارٹی نے 1970 میں ہونے والے عام انتخابات میں مغربی پاکستان سے بھرپور انداز میں کامیابی حاصل کی۔پیپلزپارٹی پر مشکل وقت کے دوران پارٹی کے ممتاز رہنماو¿ں نے اس سے علیحدگی اختیار کی تاہم اقتدار ملنے پر ان میں کئی رہنما پارٹی میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے کئی رہنماو¿ں نے اسی جماعت کے نام پر نئی جماعتیں قائم کیں اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد اس میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک میں پہلی حکومت بنائی اور مارچ 1977 کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی تاہم پانچ جولائی1977میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردی جس کے بعد پارٹی میں اکھاڑ بچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد بھٹو کابینہ کے وزیر قانون ایس ایم مسعود نے ایک قراردادکے ذریعے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا تاحیات صدر بنا دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے قر یبی ساتھی کوثر نیازی نے مشکل کی اس گھڑی میں علیحدگی اختیار کر لی اور پروگریسِو پیپلز پارٹی کے نام سے جماعت بنالی۔ نیازی کی پیپلز پارٹی میں بھٹو کا ساتھ چھوڑنے والے رہنما شامل ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن بنایا گیا۔سن 1986 میں بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی اور بھٹو کے سیاسی شاگرد غلام مصطفیٰ کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی تاہم کچھ عرصہ کے نیشنل پیپلز پارٹی مزید دو، جتوئی اور کھر گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔انیس سو اٹھاسی میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد غلام مصطفیٰ کھر نے اپنے گروپ کواصل پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا۔بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارٹی کی چیئرپرسن اور اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹا دیا اور خود پارٹی کی چیئرپرسن بن گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کی تبدیلی کے بعد ان کے حامی رہنماو¿ں نے نصرت بھٹو کی سربراہی میں پارٹی کا شہید بھٹو گروپ بنا لیا اور نہ صرف بھٹو کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا گیا بلکہ بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے جلاوطنی کے بعد پاکستان واپسی پر شہید بھٹو گروپ کی قیادت سنبھال لی۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو کے ہاتھ میں آگئی اور وہ تاحال شہید بھٹو گروپ کی سربراہ ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما اور صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 1996 میں تحلیل کر دیا اور بھٹو کے قربیی ساتھی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نگران مقرر کر دیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رانا شوکت محمود نے بھی 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ پر پیپلز پارٹی زید اے بھٹو کے نام پر جماعت بنائی تاہم اکتوبر دوہزار دو میں عام انتخابات سے قبل رانا شوکت محمود دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔سردار فاروق لغاری نے صدر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملت پارٹی بنائی اور اس جماعت میں پیپلزپارٹی کے ناراض رہنماو¿ں نے شمولیت کی۔ سابق وزیر داخلہ آفتاب شرپاو¿ نے اختلافات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی شرپاو¿ گروپ کے نام جماعت بنائی۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات سے قبل بینظیر بھٹو نے خود پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کا سربراہ مخدوم امین فہیم کومقرر کیا گیا۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کی وجہ سے پیپلزپارٹی نے سنہ دو ہزار دو کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ جماعت بینظیر بھٹو کی واپسی اور اسمبلیوں کی تحلیل کےساتھ ہی اب عملی طور پرختم ہوگئی ہے۔سنہ دوہزار دو کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی پیڑیاٹ قائم کی اور مسلم لیگ قاف کو حکومت بنانے میں مکمل مدد اور تعاون فراہم کیا۔پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو¿ کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرایا گیا تھا تاہم آفتاب شرپاو¿ کے سوا پیپلز پارٹی پیڑیاٹ مسلم لیگ قاف میں شامل ہوگئی۔بینظیر بھٹو نے حال میں پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور پیپلز پارٹی شرپاو¿ کے انضمام کے بعد اس جماعت کو پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی پیڑیاٹ اور شرپاو¿ گروپوں کے انضمام کرکے انہیں پیپلز پارٹی کے نام سے رجسٹر کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور پیپلز پارٹی کا نام بحال کر دیا۔پیپلز پارٹی اپنے قیام سے اب تک چار مرتبہ اقتدار میں آئی اور دو مرتبہ پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے اور دو مرتبہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کو اقتدار میں رہنے کاموقع ملا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ایک فوجی جنرل نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کو فروغ دینے کے لیے ملک کی تحقیر کی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو پر جو تنقید کی وہ شرمناک ہے اور یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے ایک شکست خوردہ فوج کا احترام بحال کیا۔ جنرل مشرف کی کتاب بازار میں آنے کے چار دن بعددوسرے سیاسی رہنماو¿ں کی نسبت قدرے تاخیر سے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ فوجی حکمرانوں کی طرف سے بار بار آئین کی اس خلاف ورزی نے پاکستان کے وجود کو ہی خطرہ میں ڈال دیا ہے۔گیارہ ستمبر کے بعد رچرڈ آرمیٹیج کی دھمکی پر جنرل مشرف کی جانب سے امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے واقعہ کا نام اور حوالہ دیے بغیر بے نظیر نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے جرنیل بیرونی دباو¿ کے سامنے تو فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں لیکن ملک میں سول حاکمیت کا حکم ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ نے جنرل مشرف پر سرکاری وسائل سے اپنی تشہیر کرنے، ریاستی راز ظاہر کرکے حلف کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کیئے اور ان کی اپنے والد اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کو آڑے ہاتھوں لیا ۔کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی چئیر پرسن نے کہا کہ جنرل مشرف نے ملک کے اہم قومی مفاادت کو خطرہ میں ڈالتے ہوئے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ قابل افسوس بات ہے کہ جنرل مشرف اپنے ذاتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے اپنی سرکاری حیثیت استعمال کررہے ہیں۔ قومی خزانہ سے لاکھوں روپے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ پر خرچ کیے گئے جو عملاً ان کی کتاب کی تشہیر کا دورہ بن کر رہ گیا ۔بے نظیر نے کہا کہ اس بات کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ ریاست کا سربراہ ذاتی تشہیر کے لیے ساٹھ افراد کے وفد کے ہمراہ تین ہفتوں سے بیرون ملک دورے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکمران کو ان کی کتاب کی تشہیر کے لیے سرکاری خزانہ سے خرچ کی جانے والی رقم کا حساب دینا چاہیے۔بے نظیر نے کہا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ایک فوجی جنرل اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کو فروغ دینے کے لیے ملک کو حقیر کرکے دکھا رہا ہے۔ قومی مفاد سے متعلق رازوں اور خفیہ معلومات کو افشا کرکے جنرل مشرف نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ بے نظیر نے کہا کہ کسی فوجی سربراہ کو ملازمت میں رہتے ہوئے ان معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرکے جنرل مشرف نے ملکی سلامتی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کرلیا ہے کہ انہوں نے ہی سرکاری جماعت مسلم لیگ(ق) بنوائی جو کہ فوجی اہلکار اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے کیونکہ حلف انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت سے منع کرتا ہے۔بے نظیر نے کہا کہ جنرل مشرف کی کتاب سے ایک بار پھر یہ افسوس ناک اور تلخ بات سامنے آئی ہے کہ فوجی حکومتوں سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا پہلا منتخب وزیراعظم اور شہید قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی حیثیت نامقبول فوجی جرنیلوں پر منحصر نہیں جو ریاستی سرپرستی کے بغیر کسی ایک حلقہ انتخاب کی نشست بھی نہیں جیت سکتے جبکہ ’شہید بھٹو لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔‘ بے نظیر نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آئین اور ایٹمی ہتھیار دے کر منقسم پاکستان اور شکست خوردہ فوج کا احترام بحال کیا اور ملک کو متحد کیا۔انہوں نے کہا کہ فوجی جرنیلوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات فراموش نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ وہ پاکستان کے قابل فخر سپوت تھے اور انہوں نے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی جان دی۔بے نظیر بھٹو نے کہا کہ جنرل مشرف کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو پر پاکستان کے ٹوٹنے کا الزام لگانے کی بجائے ایوب خان اور یحییٰ خان کی آمریتوں پر غور کریں جنہوں نے تقسیم کے بیج بوئے تھے۔صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ سے پہلے پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں کہ اس دوران جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کے نمائیندوں کے درمیان کوئی پس پردہ بات چیت ہوگی جو فوجی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کا راستہ ہموار کرسکے گی۔جنرل پرویز مشرف کی کتاب پر پاکستان کے حزب مخالف کے سیاستدانوں نے سخت تنقید کی اور اسے قومی مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ۔ تاہم بے نظیر کی چند روز تک خاموشی سے یہ چہ موگوئیاں زور پکڑ رہی تھیں کہ وہ دانستہ طور پر خاموش ہیں۔بے نظیر نے اپنے دور میں فوج کو قبائلی فسادات بند کرانے کا حکم دیا تو ایک جنرل نے آ کر جواب دیا کہ کہ ’سوری میڈیم، پرائم منسٹر یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘۔ پیپلزپارٹی کے شریک چئر پرسن آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’جس ادارے نے ہم سے بے نظیر بھٹو کو چھین لیا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ادارہ برقرار رہے ورنہ پاکستان میں بھی وار لارڈز ہونگے۔جیسے افغانستان میں فوج نہیں رہی تو ایک ایک پہاڑی پر کئی کئی جنگجو سردار چڑھ کر بیٹھ گئے‘۔انہوں نے کہا کہ کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’وہ جس ادارے کو کمزور کرنے جارہے ہیں اس کے سب سے زیادہ ڈسے ہوئے ہم ہیں۔ہم سے اس ادارے نے قربانیاں لی ہیں لیکن پھر بھی ہم اسے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں‘۔ آصف زرداری نے کہا کہ ڈر اس بات سے ہے کہ جیسا افغانستان کے ساتھ ہوا وہ پاکستان کے ساتھ نہ ہوجائے۔ ’انقلاب ایران کے بعد ان کے عوام کا کیا بنا۔ ہم تو اٹھارہ کروڑ کا ملک ہیں ہم کہاں جائیں گے۔‘ ’میں نہیں سمجھتا کہ ملک ٹوٹنے کے بعد مجھے کہیں زمین کا ایک ٹکڑا بھی ملےگا۔شاہ ایران کو بھی دربدر ہوکر مصر میں دفن ہونے کی جگہ ملی۔ ہمیں افغانستان،انڈیا نہ ایران پناہ دے گا۔ہمیں تو یہیں رہنا ہوگا اور خود کو سنبھالنا ہوگا‘۔پیپلز پارٹی شریک چئیرمین نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو صوبہ سرحد سے زیادہ افغانستان کے اندر خطرات لاحق ہیں کیونکہ وہاں پاکستان کے معاشی مفادات زیادہ ہیں بلوچستان میں شورش کا سامنا ہے، افغانستان میں نیٹو کی فورسز ہماری جانب بڑھ رہی ہیں۔معاشی حالات بدتر ہیں۔ جب امپورٹ بل فنانس بل نہ ہوں، تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے پیسے نہ ہوں اور سندھ کے لوگ ابھی بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے صدمے میں ہوں ایسے میں پاکستان کس طرح بہتر رہ سکتا ہے؟ پاکستان میں قبائل اور برادری ازم کو ہوا دی گئی، ضیا دور میں انہیں سپورٹ کیا گیا، لڑاو¿ اور حکومت کرو کی پالیسی چلائی گئی۔انہوں نے کہا سندھ میں مہر اور جتوئی قبیلوں کا بارہ پندرہ برس سے جھگڑا چل رہاہے۔راکٹ لانچر استعمال ہوتے ہیں۔لوگ کندھوں پر لانچر اٹھا ئے پھرتے ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ میزائل ٹیکنالوجی ہے جو کسی کے پاس نہیں ہوتی حتیٰ کہ پولیس کو بھی خریدنے کی اجازت نہیں ہے یہ صرف انٹیلجنس اور فوج کے پاس ہوتی ہے۔ ’بے نظیر نے اپنے دور میں فوج کو قبائلی فسادات بند کرانے کا حکم دیا تو ایک جنرل نے آکر جواب دیا کہ کہ ’سوری میڈیم، پرائم منسٹر میں یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتا‘۔ اسی لیے وہ برے حالات کے باوجود برداشت کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں اور قومی مفاہمت کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ زرداری نے پرویز مشرف کو ایک غیر آئینی صدر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مشرف کے جانے کے بعد وہ اتحادی جماعتوں اور تمام چھوٹے بڑے گروپوں سے مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے۔ عدلیہ کا ایک بڑا بحران ہے لیکن عدلیہ کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ رجسٹرار کیا کرتا ہے ریڈر کس طرح ٹائپنگ کی غلطی کرکے لوگوں کو پریشان کرتا ہے؟یہ وہ بخوبی جانتے ہیں۔ زرداری نے پرویز مشرف کو ایک غیر آئینی صدر قرار دیا اور کہا کہ صدر مشرف کے جانے کے بعد وہ اتحادی جماعتوں اور تمام چھوٹے بڑے گروپوں سے مشاورت کے بعد نیا صدر لائیں گے۔ انہیں عدلیہ کی بحالی پر اختلاف نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ کا ایک نظام بنایا جائے وہ چاہتے ہیں کہ غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل ایک مشاورتی بورڈ بنایا جائے جو عدلیہ کے معاملات کو دیکھے۔ ’لانگ مارچ کا فائدہ اور نقصان دونوں ہوا لیکن ہم نے برداشت کا مظاہرہ کیا۔مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی سے اتحاد میں ہے لیکن نواز شریف لانگ مارچ میں گئے‘۔انہوں نے کہ ہمارا رشتہ برداشت کا ہے اور وہ انہوں نے نبھایا ہے۔ آصف زرادی نے کہا کہ جب نواز شریف قید ہوئے تھے تو تب خود انہوں نے جاکر ان سے ہاتھ ملایا۔’میں نواز کی وجہ سے قید تھا لیکن مشرف کی بجائے میں نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا‘۔ انہوں نے کہا کہ صدر مشرف نے ان کے خلاف اقوام متحدہ میں جاکر کرپشن کے الزام لگائے بعد میں خود انہیں واپس لائے۔غلام اسحاق خان نے الزام لگایا اور بے نظیر بھٹو نے انہی سے میرا (آصف زرداری کا) حلف اٹھوایا۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر حلف لینے کو انتقام سمجھتی تھیں۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا ہے کہ معاشی بحران کو آج حل کرنے کے لیے بیٹھا جائے تو کم از کم تین برس لگ جائیں گے۔گندم کے بحران کو حل کرنے کے لیے آنے والی فصل کا انتظار کرنا ہوگا۔پانی بجلی اور ڈیزل مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بتایا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے کے لیے حکومت نے باضابطہ درخواست اقوام متحدہ کو بھجوادی ہے۔ یہ بات انہوں نے سوشلسٹ انٹرنیشل ایشیا پیسیفک کمیٹی کے اجلاس کے بعد نیوز بریفنگ کے دوران بتائی۔دنیا کی ایک سو ساٹھ سیاسی جماعتیں سوشلسٹ کمیٹی کی ممبر ہیں جن میں سے ساٹھ جماعتوں کی مختلف ممالک میں اس وقت حکومتیں قائم ہیں۔ بریفنگ میں جب آصف علی زرداری سے پوچھا گیا کہ صدر پرویز مشرف کو کب چکلالہ ائر بیس پر الوداع کرنا ہے تو انہوں نے کہا: ’جب آپ چاہیں گے، جب آپ کی پارلیمان چاہے گی اور جب پاکستان کے لوگ چاہیں گے۔‘ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صدر پرویز مشرف کو جلد ہٹانے کے بارے میں آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ جمہوریت کے سفر میں ان کے ساتھ شریک ہیں اور اب تک انہیں لیڈ کرتے ہوئے اگر یہاں تک لے آئیں ہیں تو آگے بھی لے جائیں گے۔ ’لیکن اس کے لیے تھوڑا تحمل چاہیے اور یہ معاملہ میں ڈائلاگ سے طے کرنا چاہتے ہیں۔‘ آصف علی زرداری نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ستر لاکھ گھرانوں کو بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب ایک کارڈ جاری ہوگا۔ ان کے مطابق کریڈٹ کارڈ کے طرز پر اس کارڈ میں ہر ماہ پندرہ سو سے دو ہزار روپے تک رقم اپ لوڈ ہوجائے گی اور وہ کھانے پینے کی اشیاء مفت حاصل کرسکیں گے۔ قتل کے فوراً بعد پیپلز پارٹی نے تفتیش اقوام متحدہ سے کرانے کا مطالبہ کیا تھا ۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کی مقتول لیڈر بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے پر تمام تحفظات کو رد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکومت بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کروائے گی اور انہیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں۔یہ بات انہوں نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر دو روزہ بحث سمیٹتے ہوئے کہی تھی۔سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین سید مشاہد حسین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے کرانے پر سخت تحفظات ظاہر کیے تھے اور کہا تھا کہ اس سے ملک کے لیے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس سے پہلے سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان اور بعض قانونی ماہرین نے بھی اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ اقوام متحدہ سے نہ کروائی جائے کیونکہ ان کے بقول اس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ قتل کی تفتیش کے لیے برطانوی ماہرین کی مدد بھی لی گئی تھی۔ حکومت نے بعد میں کانٹریکٹ پر کام کرنے والے سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان کو فارغ کردیا لیکن اس کی وجہ بینظیر بھٹو کے قتل کی جانچ کی مخالفت کرنا نہیں بتائی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ امریکی جنرل جے ہوڈ کو پاکستان میں تعینات کرنے پر حکومت کو تحفظات ہیں اور امریکہ کو اس تشویش سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا تو حکومت کے پاس بہت آپشن ہیں اور جنرل ہوڈ اور ان جیسی سوچ کے حامل افراد کو ملک میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ جنرل ہوڈ کو امریکی حکومت نے اسلام آباد میں واقع اپنے سفارتخانے میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے خلاف سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں سے سخت رد عمل ظاہر کیا گیا تھا۔ جنرل ہوڈ پر الزام ہے کہ گوانتانامو بے میں تعیناتی کے دوران انہوں نے قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتا اور قرآن مجید کی توہین کی۔ لیکن جنرل ہوڈ ایسے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بعض سینیٹرز کی جانب سے امریکہ پر تنقید کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ پر تنقید کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن امریکہ کی اہمیت اور ان سے پاکستان کو ملنے والے فوائد سے غافل بھی نہیں ہونا چاہیے۔‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان رضا ربانی نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میں شامل بعض عناصر کی مہم کے باوجود سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے ضرور کروائے گی۔ یہ بات انہوں نے سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ کے رکن اور سینئر قانون دان ایس ایم ظفر کی جانب سے اقوام متحدہ کو اس قتل کی تحقیقات میں ملوث کرنے کی مخالفت میں کی گئی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل سے متعلق حقائق سے پردہ ہٹ جانے کے خوف سے انکے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کے ذریعے کروائے جانے کے فیصلے کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھاکہ لبنان کے رفیق حریری کی طرز پر اس قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کے کمیشن سے کروائے جانے کی مخالفت میں چلائی گئی اس مہم کا مقصد اس قتل کی سازش میں ملوث ملکی اور غیر ملکی عناصر کو منظر عام پر آنے سے بچانا ہے۔ ایس ایم ظفر نے نکتہ اعتراض پر حریری طرز کے اقوام متحدہ کے مشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیشن کے ملک میں آ کر تحقیقات سے ملکی سالمیت اور دفاع خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی روایات کے مطابق اس قسم کے کمیشن کو ملک میں جا کر کسی بھی شخصیت سے باز پرس کرنے اور کسی بھی جگہ کا دورہ کرنے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ ’اس صورت میں غیر ملکیوں کی رسائی پاکستان کے ایٹمی پروگرام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور دیگر اہم اور خفیہ مقامات اور افراد تک رسائی ممکن ہو گی جس سے ملکی سالمیت براہ راست خطرے کا شکار ہو جائے گی۔‘ ایس ایم ظفر نے سبکدوش ہونے والے سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان دونوں افراد نے بھی اس قسم کی تحقیقات کے ملک پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس معاملے میں اقوام متحدہ کو ملوث کرنے سے باز رہے کیوں کہ یہ ملکی مفاد کے بالکل منافی ہے۔ رضا ربانی نے ان نکات کے جواب میں کہا کہ بینظیر قتل ایک بین الاقوامی سازش تھی لیکن اسکا ملک کے ایٹمی پروگرام یا تنصیبات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایس ایم ظفر اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں جو اقوام متحدہ کی تحقیقات رکوانے کے لیے بعض مخصوص حلقوں کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔ یہ محض پروپیگنڈا ہے کہ بینظیر قتل کی تحقیقات سے ملکی سالمیت یا وقار متاثر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور انکی جماعت بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا کہ کوئی اور۔ رضا ربانی نے کہا کہ اس ملک میں ہمیشہ سے سیاسی رہنماو¿ں کو قتل بھی کیا جاتا رہا ہے اور پھر ان کی تحقیقات بھی نہیں کرنے دی جاتی۔ ’ہم اس روایت کو توڑیں گے اور بینظیر کے قتل کی تحقیقات کروائیں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت اور ایٹمی اثاثوں کو اصل خطرہ تو اس وقت ہوا تھا جب پرویز مشرف نے پریس کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی پھیلاو¿ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جب اس اعلان سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کچھ نقصان نہیں ہوا تو بینظیر قتل کا تو اس سے کوئی واسطہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتے ہی کراچی سے اسلام آباد تک اراکین اسمبلی اور وزراء کے گھروں اور دفاتر کے سا منے اندرون سندھ کے لوگوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں مگر اس مرتبہ تاحال ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آئی۔پیپلز پارٹی کی حکومت میں پہلی مرتبہ کوئی غیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوا ہے۔ ورنہ پارٹی کے کارکنان ایک ہی نعرے سے مانوس تھے کہ وزیراعظم بینظیر۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھٹو خاندان کے آبائی گھر نئوں دیرو میں بھی عوام کا رش نہیں ہے۔ انیس سو اٹھاسی اور انیس سو بانوے میں بینظیر بھٹو کے وزیراعظم بنتے ہی نئوں دیرو میں امیدیں اور درخواستیں لیکر آنے والوں کے ٹھٹ لگ گئے تھے۔ اس مرتبہ بینظیر سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کی منزل نئوں دیرو سے پانچ کلومیٹر دور گڑھی خدابخش کا قبرستان ہے جہاں لوگوں کا رش برقرار ہے۔ ہرگھنٹے کے بعد ملک کے کسی نہ کسی کونے سے عقیدت مندوں یا پارٹی کارکنوں سے بھری کوئی بس یا ویگن بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش پہنچتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کو کئی ماہ ہو چلے ہیں مگر عقیدت اور محبت کے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ اور عورتیں آج بھی بینظیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے گڑھی خدا بخش جاتے ہیں۔ بے نظیر کے عقیدت مند کہتے ہیں کہ وہ بدقسمت ہوگا جو ’شہید ملکہ‘ کی قبر پر حاضری دینے نہیں آیا ہوگا۔ دور دراز سے آنے والے لوگوں میں سے کچھ گروپ ’زندہ ہے بی بی زندہ ہے’ کے نعرے لگاتے ہوئے اس تین گنبدوں والے زیر تعمیر مقبرے میں داخلے ہوتے ہیں، تو کچھ خاموشی اور چہرے پر افسردگی لے کر چپ چاپ کسی کونے میں جا بیٹھتے ہیں۔ مرکزی دروازے سے مقبرے میں داخل ہوتے ہی سامنے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالقفار علی بھٹو کی قبر ہے اور ساتھ ہی میں بینظیر بھٹو کئی من مٹی تلے سو رہی ہیں۔ مرد سیدھے بینظیر کی قبر پر آتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں جبکہ خواتین قرآن مجید یا سورہ یاسین کی تلاوت میں مصروف ہوجاتی ہیں اور مرد بھی زمین پر گھٹنوں کے بل یا آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھولوں سے ڈھکی قبر سے ہر آنے والے ایک مٹھی کے قریب پھول تبرک کے طور پر جیبوں یا پرس میں ڈال لیتے ہیں۔ زائرین کی طرح آنے والے لوگوں میں سے بمشکل بیس فیصد لوگ ہی ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر دعا کے لیے جاتے نظر آئے۔ جبکہ ان کے فرزندوں میر مرتضیٰ اور شاہنواز کی قبروں پر فاتحہ کرنے والوں کی تعداد تو اس سے بھی کم ہے۔ یہ تمام قبریں بغیر کتبوں کے ہیں۔بینظیر بھٹو نے وطن واپسی سے قبل روزگار دینے کا اعلان کیا تھا آج ان کی قبر بھی کئی لوگوں کے لیے روزگار کا وسیلہ بن چکی ہے، جہاں پھول والے، مزار کے اندر داخلے ہونے سے قبل جوتیوں کی رکھوالی کرنے والے، بینظیر بھٹو کی تصاویر، پوسٹر، کی چین اور کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ مقبرے کے باہر دونوں بڑے دروازوں پر ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے اسٹال لگائے لیئے ہیں۔ مزار کے جنوبی دروازے پر ٹھیلہ لگائے ہوئے حکیم نے بتایا کہ وہ روزانہ دو سے تین سو روپے تک کماتے ہیں جس سے اچھا گزارا ہوجاتا ہے۔ ایسی ایک سو سے زائد دکانیں یہاں موجود ہیں۔ اس مزار کے اندر اور باہر کے مناظر کچھ ایسے ہی ہیں جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور قلندر شھباز کی مزاروں پر نظر آتے ہیں۔ لوگ عقیدت کے ساتھ یادگار یا تحفے کے طور پرکوئی نہ کوئی چیز خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔عام لوگ اور سیاستدان تو یہاں آتے ہی رہتے ہیں مگر اب نوبیاہتا جوڑوں نے بھی یہاں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے، گزشتہ ہفتے تو یہاں خیرپور اور رتوڈیرو سے دو نوبیاہتا جوڑے حاضری دنے آئے تھے۔ راستے میں نوجوان گلوکار احمد مغل کی درد بھرے انداز میں گائے ہوئے گیت ’ سندھ جی رانی ، نیانی نمانی سندھ کھی روارے وئیں‘ بھی سننے کو مل جاتا ہے۔ مزار کے اندر اور باہر پینافلکس پر بنی ہوئی بینظیر بھٹو کی قد آدم تصاویر آویزاں ہیں جن پر اشعار درج ہیں۔ ان اشعار میں بعض میں ان کی ہلاکت کو واقعہ کربلا سے مشہابت دی گئی ہے۔ بقول ایک خدمتگار کہ نواسے پیغمبر اسلام امام حسین کو دھوکے سے کربلا بلا کر قتل کیاگیا تھا اور بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔ ان عبارتوں کے علاوہ جیب کتروں سے ہوشیار رہیں اپنے موبائل اور پرس کا خیال رکھیں کی عبارت بھی دیواروں پر تحریر ہے۔ بقول ایک خدمتگار کئی عقیدت مند اپنے رقم اور موبائل فون سے محروم ہوچکے ہیں ’لوگ غم میں نڈھال ہوتے ہیں اور بدبخت لوگ ان کی جیب کاٹ لیتے ہیں۔‘ حکومت کے بقول بینظیر بھٹونے سیاسی سرگرمیوں کی خاطر ذاتی حفاظت کے تقاضے پورے نہیں کیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ اصرار بڑھتا جارہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پاکستانی ادارے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کرے تاکہ ملک میں بڑھنے والے خود کش حملوں کے پیچھے عناصر کا مکمل طور پر پتہ لگایا جاسکے۔پیپلز پارٹی کے چئیرپرسن آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ملک میں ہی کوئی طاقت ہے اور ان کا اشارہ براہ راست حکومت کے خفیہ اداروں کی جانب ہے جن پر خود بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی سے پہلے شبہات کا اظہار کیا تھا۔ صدر مشرف اس تاثر کو رد کرتے ہوکئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور لبنان میں فرق ہے اور عالمی ادارے کا اس واقعے کی تفتیش کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ستائیس دسمبر کے بعد جب اقوام متحدہ کے پندرہ اراکین پر مشمل سلامتی کونسل نے بے نظیر بھٹو کے قتل پر ہنگامی اجلاس بلاکر اس پر شدید افسوس ظاہر کیا تو بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کے اصرار کے باوجود کونسل نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے پر کوئی بات نہیں کی تھی اور نہ کسی شریک ملک نے عالمی ادارے سے قتل کی تفتیش کرانےکی آواز اٹھائی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر مشرف نے اپنے اتحادیوں کو پہلے ہی آمادہ کرلیا ہے کہ وہ آزادانہ تحقیقات کرانے پر زور نہ ڈالیں اور نہ ان کی حکومت پر کوئی تنقید کریں حالانکہ ہلری کلنٹن سے لے کر انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے رابرٹ ٹیمپلر تک سبھی نے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں پر سوالیہ نشان لگاکر عالمی ادارے کو ازخود تحقیقات کرنے پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ اقوام متحدہ اس طرح کی سیاسی ہلاکتوں کی گھتی سلجھانے کا اہل ہے مگر ادارہ ایسا اقدام اسی وقت کرسکتا ہے جب ا سکیلئے حکومت پاکستان اپیل کرے یا خود سلامتی کونسل اسکا فیصلہ کرسکے۔ اس کے سوا اپنے طور پر وہ خود کوئی تحقیقات کرنے کے مجاز نہیں ہوتے ۔پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈالتی ہے اور دنیا اس تنظیم کو عالمی دہشت گرد گروہ سمجھتی ہے تو عالمی ادارے سے تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاسکتی ۔ جب ملک کے حکمرانوں پر شک ہو جو ہر خود کش حملے کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالتے ہیں تو ایسے حالت میں آزادانہ ادارے سے تحقیقات کرانے سے شکوک کو دور کیا جاسکتا ہے۔ یہ مطالبہ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کیا ہے اورحکومت پاکستان کو یہ مطالبہ ماننا ہوگا۔ جہاں سکاٹ لینڈ یارڈ کی یہ رپورٹ کہ ’بینظیر بھٹو کی ہلاکت گولی لگنے سے نہیں بلکہ بم دھماکے کی شدت سے واقع ہوئی‘ بیشتر پاکستانی اخبارات میں شہہ سرخیوں سے شائع ہوئی وہاں اکثر اخبارات نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی وجہ جاننے سے کہیں زیادہ اہمیت قاتلوں کی نشاندہی کرنا ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری سمیت ان کے اکثر ساتھی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی لیڈر کے قتل کے بعد یہ جاننا کہ وہ کیسے قتل ہوئیں، ایک ثانوی معاملہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ انہیں قتل کرنے کا منصوبہ کس نے بنایا، قاتل سخت سکیورٹی کے باوجود ان تک کیسے پہنچ گئے، قاتل کون ہیں اور اس قتل کا فائدہ کس کو پہنچا؟ لیکن یہ سب کچھ معلوم کرنے کا اختیار سکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کاروں کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر تھا۔ اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ اگر حکومت قاتلوں کا پتہ چلانے میں سنجیدہ ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کو قاتلوں کا پتہ چلانے سے روکا گیا؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر سکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کاروں کا دائرہ کار محدود کرکے بینظیر بھٹو کی جانب سے سولہ اکتوبر کو صدر پرویز مشرف کو لکھے گئے خط میں جن چار افراد کی نشاندہی کی تھی انہیں بچانے کی کوشش کی کر رہی ہے۔ صدر پرویز مشرف کہتے ہیں کہ قاتلوں کا پتہ چلانا پاکستانی تفتیش کاروں کا کام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی کئی بار کہ چکے ہیں کہ بینظیر کے قتل میں بیت اللہ محسود کا ٹولہ ملوث ہے۔ ضیاءالحق نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر انہوں نے اپنا راستہ تو صاف کردیا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کی قبر مہنگی پڑے گئی اب بھی کچھ لوگ ویسا ہی کہہ رہے کہ زندہ بینظیر کی نسبت مقتولہ بینظیر اسٹیبلشمنٹ کو بھاری پڑے گی !!ظاہر ہے کہ جب ریاست کے سربراہ نے کہہ دیا کہ قاتل کون ہے تو کیا گریڈ بیس یا اکیس کا پولیس افسر انہیں غلط ثابت کرسکتا ہے؟ ایسی صورتحال میں تو پھر مزید تفتیش بے معنی ہو جاتی ہے۔ بیت اللہ محسود کو بینظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ ساز قرار دینے والے صدر صاحب کے بیانات کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ حکومت اور طالبان شدت پسندوں میں صلح اور فائر بندی کے اعلانات سامنے آ گئے۔ کیا ایسے میں پھر یہ سوال نہیں اٹھتا کہ صدر پرویز مشرف بینظیر کے قاتلوں سے معاہدہ کر رہے ہیں؟ سوال اٹھتا ہے کہ ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں اگر حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے درمیاں معاہدہ ہوتا ہے تو کیا پھر انہیں شامل تفتیش کیا جاسکے گا یا انہیں سزا مل پائے گی؟ پاکستان میں اعلیٰ شخصیات کے قتل، چاہے وہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ہوں یا فوجی صدر ضیاءالحق یا پھر میر مرتضیٰ بھٹو، کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹیاں اور کمیشن بنے ان کی رپورٹس تاحال سامنے نہیں آئیں اور نہ ہی قاتلوں کی نشاندہی ہوئی۔ پاکستانی تفتیش کاروں کی اس روایت سے یہی خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بھی شاید ہی بے نقاب کیا جاسکے!!اس طرح کے خدشات سے قطعہ نظر بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب حالات انیس سو ستتر والے نہیں اور اگر بینظیر بھٹو کے قتل کی ہڈی کسی نے نگلنے کی کوشش کی تو ا±سے اس کی قیمت ملکی سالمیت کے تار تار ہونے کی صورت میں چکانی ہوگی۔ جس طرح ضیاءالحق نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر انہوں نے اپنا راستہ تو صاف کردیا لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کی قبر مہنگی پڑے گئی اب بھی کچھ لوگ ویسا ہی کہہ رہے کہ زندہ بینظیر کی نسبت مقتولہ بینظیر اسٹیبلشمنٹ کو بھاری پڑے گی !!۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پرویز مشرف کو صدر نہیں مانتی مگر وہ ایک حقیقت ہیں۔ ڈاکٹر قدیر کا مسئلہ سابقہ حکومت کا پیدا کردہ ہے وہی اسے حل کرے۔ بجٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر رقم رکھنے کا مقصد معزول ججز کی بحالی کے کام کا آغاز ہے ہم بھی اگر (ن) لیگ کی طرح پنجاب سے وزارتیں چھور دیتے تو چھانگا مانگا کی تاریخ دہرائی جاتی۔ میڈیا نے جتنی کوریج ججز کی بحالی کو دی اتنی کوریج اگر جمہوریت کی بحالی کو دی جاتی تو نتائج بہت بہتر ہوتے آصف علی زرداری نے کہاکہ فنانس بل میں ججز کی تعداد میں اضافہ نواز شریف کے مشورے سے کیاگیا تھا پیپلز پارٹی صدر پرویز مشرف کو صدر نہیں مانتے مگر وہ ایک حقیقت ہیں۔ یحییٰ خان کی وردی کے تنازعہ سے ملک ٹوٹ گیا مگر بے نظیر بھٹو نے پرویزمشرف کی وردی اتروا کر جمہوریت کی راہ ہموار کی آصف علی زرداری نے ایک سوال پر کہاکہ میں تو سزا کاٹ چکا ہوں این آر او کا مجھے نہیں بلکہ تمام جماعتو ںکے کارکنوں کو فائدہ ہوا انہوں نے کہاکہ این آر او کے تحت ناجائز مقدمات ختم کئے گئے۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ صدر کے پاس کافی اختیارات ہیں جنہیں آئینی پیکج کے ذریعے ختم کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا نے جتنی کوریج ججز کی بحالی کو دی ہے اتنی کوریج اگر جمہوریت کی بحالی کو دی ہوتی تو نتائج بہتر ہوتے زرداری نے کہاکہ میثاق جمہوریت کے مطابق پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والا جج نہیں رہ سکتا مگر ہم نواز شریف کی اس بارے پوزیشن کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معزول ججز بحال ہوں اور موجودہ ججز بھی ڈسٹرب نہ ہوں انہوں نے کہاکہ بجٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر رقم رکھنے کا مقصد ججز کی بحالی کے کام کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے ہم میاں نواز شریف کی مشاورت سے کام کر رہے ہیں اگر پیپلز پارٹی بھی پنجاب سے وزارتیں چھوڑ دیتی تو چھانگا مانگا کی تاریخ دہرائی جاتی ۔ غلام اسحاق خان نے مجھ پر کئی مقدمات بنائے میں ان میں سے14میں بری ہوا ۔ آصف علی زرداری نے کہاکہ میں پھر کہتا ہوں کہ موجودہ ججز بھی رہیں گے اور معزول ججز بھی ضرور بحال ہوں گے- انہوں نے کہاکہ عوام کیلئے صرف ججز کی بحالی ہی مسئلہ نہیں بلکہ مہنگائی بے روزگاری ، بجلی ، پانی کی کمی اور دیگر بہت سے مسائل بھی ہیں جن سے انہیں نجات دلایا جانا ضروری ہے پاکستان سٹیل ملز کی یونین پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلی بار جیتی ہے ہم نے آتے ہی یونین بحال کر دیں تھیں عوام کو ان کا حق دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ سے حکومت مزید مضبوط ہوئی ہے ہم نے لانگ مارچ کی مکمل آزادی دی ۔انہوں نے کہاکہ ن(ن) لیگ نے مرکز سے وزرائ نکال لئے مگر پی پی پی نے پنجاب سے نہیں نکالے۔ انہوں نے کہاکہ قومی مفاہمت کا مقصد ملک کو بچانا ہے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ اعتزاز احسن پارٹی پالیسی کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں مگر پارٹی نے انہیں اس پر کوئی نوٹس نہیں دیا پارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کو مضبوط کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ لانگ مارچ سے حکومت کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوئی ہے آصف علی زرداری نے کہاکہ پیپلز پارٹی کو لگنی والی ضرب بہت گہری ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت سے ہونے والا نقصان ابھی تک پورا نہیں ہوا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر کا مسئلہ پچھلی حکومت کا پیداکردہ ہے اس کا تسلسل موجود ہے وہی اسے حل کرے۔انہوں نے کہاکہ فنانس بل میں ججز کی تعداد میں اصافہ ، نواز شریف کے مشورے سے کیاگیا تھا ۔ گزشتہ روز لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہاکہ یہ ایک محض ملاقات تھی اورمیں لاہور آو¿ں اور ان سے نہ ملوں یہ کیسے ممکن ہے انہوں نے کہاکہ میرا میاں نواز شریف سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب ایوان صدر میں بھی سلمان تاثیر جیسا پیپلزپارٹی کا صدر بیٹھا ہوگا۔ہم جانتے ہیں کہ لانگ مارچ کسے کہتے ہیں جب ہم لانگ مارچ کریں گے تو پورا پاکستان دیکھے گا کہ یہ صرف میلہ نہیں لانگ مارچ ہو گا۔پیپلزپارٹی کے جیالے اور لیڈر تھکے نہیں بلکہ ہم وقت کا انتظار کر رہے ہیں ہماری طاقت دنیا جانتی ہے کسی کو دکھانے کی ضرورت نہیں ۔ ہم جان دینا بھی جانتے ہیں اور جان لینا بھی جانتے ہیں اور نظام بدل کر بی بی کی شہادت کا بدلہ لیں گے۔ہمیں کسی کو بتانے یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں کہ ہم محب وطن ہیں ہم ملک کو غاصبوں اور جمہوریت کے دشمنوں سے نجات دلوائیں گے۔ملک میں مکمل جمہوریت کس روز ہو گی اس کا فیصلہ ہم کریں گے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بلاول بھٹو زرداری کو ہمارے لئے تحفہ کے طور پر چھوڑا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج گورنر ہاو¿س لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر گورنرز پنجاب سلیمان تاثیر نے بھی خطاب کیا۔ آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ گورنر ہاو¿س وہ جگہ ہے جہاں مجھے اس دن گرفتار کیا گیاتھا جب ایک غاصب اور لغار نے جمہوریت پر شب خون مارا تھا اور شب خون کے نتیجے میں جمہوریت او رپاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے جو اس وقت جمہوریت کے مجرم تھے وہ آج بھی جمہوریت کے مجرم ہیں اورانہی مجرموں نے ہم سے بی بی کو چھیناہے ہم ان جمہوریت کے مجرموں کو کہتے ہیں کہ یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے ۔ انہوں نے کہاکہ ہماری پارٹی وہ واحد پارٹی ہے جو اپنا سر فخر سے بلند کر کے یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم شہیدوں کے وارث ہیں اور ہم نے اس ملک کیلئے اپنا خون دیا ہے ہم اس طرز پر جیئں گے جس کا سبق ہمیں ذوالفقار علی بھٹو نے دیاہے۔ہمیں کسی کو اپنے محب وطن ہونے کے بارے میں بتانے یاکسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔پاکستان کو جمہوریت پیپلز پارٹی نے سکھائی ہے اگر اب بھی کسی غاصب اور جمہوریت کے ڈاکو سے جنگ کی تو وہ پیپلز پارٹی ہی کرے گی ہم یہ چیلنج قبول کرتے ہیں ہم جمہوریت کو غاصبوں سے نجات دلائیں گے اور پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ کب او رکس طرح ہو گا اس کا فیصلہ پیپلز پارٹی خود کرے گی 21جون کو بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر خون کا عطیہ دے کر ہم دشمن کو بتائیں گے کہ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں ۔ہمارے پاس بی بی صاحبہ کا دیا ہوا ایک بھٹو موجود ہے جس کا نام بلاول بھٹو زرداری ہے وہ ہمارے لئے یہ تحفہ چھوڑ گئیں ہیں تاکہ گورنر ہاو¿س اور ایوان صدر میں جیئے بھٹو کے نعرے لگتے رہیں وہ وقت دور نہیں جب ایوان صدر میں پیپلز پارٹی کاسلمان تاثیر جیسا صدر بیٹھا ہوگا۔ ہم ملک میں جمہوریت لا کر بی بی کا بدلہ لیں گے اور پنجاب میں بیٹھ کر بی بی کے پاکستان کو بچائیں گے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کھپے ۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ پیپلز پارٹی کے جیالے اورلیڈر کمزور ہیں ہم نہ کمزور ہیں اور نہ تھکے ہیں بلکہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ لانگ مارچ کسے کہتے ہیں اور جب ہم لانگ مارچ کریں گے تو پورے پاکستان کو معلوم ہو جائے گا کہ لانگ مارچ کیسے ہوتا ہے یہ میلہ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ صرف بے نظیر کا خون ہی کر سکتا ہے آصف علی زرداری نے کہا کہ تمہارے پاس وہ امنگیں ، خون اور نظریہ نہیں ہے جو پیپلز پارٹی کے پاس ہے ۔قائداعظم نے یہ ملک ڈائیلاگ کے ذریعے بنایا اورہم بھی پاکستان میں ڈائیلاگ کے ذریعے جمہوریت لائیں گے ہماری طاقت دنیا جانتی ہے کسی کو دکھانے کی ضرورت نہیں
No comments:
Post a Comment