International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, June 24, 2008

مایوس قوم کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق ۔۔۔۔۔ تحریر : اے پی ایس،اسلام آباد




وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے عہد کیا ہے کہ ایک بار نہیں اگر ١٠٠ بار بھی ہمیں نا اہل قرار دے دیا جائے پھر بھی ہم ان جعلی ججوں کے سامنے جائیں گے نہ سر جھکائیں گے اگر مجھے الٹا بھی لٹکا دیا جائے یا میر ے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردئیے جائیں تو پھر بھی میں ان مشرف کے جعلی ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوں گا ۔ ایوان صدر سازشوں کا منبع بن چکا ہے اور ہمارے خلاف سازشیں کرنے والی وہ قوتیں عناصر ہیں جو نہیں چاہتیں کہ یہ دونوں بھائی اقتدار میں آکر عوام کی خدمت کریں ۔ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھیں ۔ غریبو ںکو تعلیم اور ہسپتالوں میں نہیں مفت دوائی دلواسکیں ملک کو بحرانوں سے نکال کرخوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکی یہ وہ سازشی عناصر ہیں جو ہمیں عوام سے دور رکھنے کے لئے دن رات ہاتھ پاوں مار رہے ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ اس فیصلے سے ہمارا ایک بار پھر ان عدالتوں سے ایمان اٹھ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو مشرف اور ان کے حواریوں کے اشاروں پر نا اہل قرار دیا گیا ہے ۔ عدالتوں میں بیٹھے پر وہ لوگ ہیں جو 1999ء کے ایکشن کے خلاف خاموش رہے ۔جنہوں نے نہ صرف 3نومبر کے غیر آئینی اقدام پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ اس کی حمایت بھی کی یہ وہ لوگ ہیں جو جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کے قتل پر خاموش رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان ججوں کو نہیں مانیں گے اور عدلیہ کی بحالی تک خاموشی سے نہیں بٹھیں گے ۔ خواہ اس کے لئے ہمیں حکومت کیا جان کسی بھی قربانی دینی پڑ ی پرواہ نہیں کریں گے ۔مسلم لیگ (ن) کے ترجمان صدیق الفاروق نے کہاہے کہ ضمنی انتخابات میں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ میاں نواز شریف کے خلاف سازش ہے اور عدل کے فیصلوں کے منافی ہے ۔ فیصلے کے خلاف اپنے رد عمل میں انہوں نے کہاکہ یہ فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے یہ آمر کا لکھا ہوا فیصلہ ہے جو سنا دیا گیا ہے انہو ںنے کہاکہ پٹیشنر آمروں کے ٹاو¿ٹ ہوتے ہیں جو ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم مایوس نہیں قوم ہمارے ساتھ ہے اور عدلیہ دونومبر کی پوزیشن میں ضرور بحال ہو گی اور ہم اس وقت تک چین سے نہیںبیٹھیں گے جب تک عدلیہ بحال ، مشرف کا مواخذہ نہیں ہوتا اور 1999ء کا آئین بحال نہیں ہوتا جب تک یہ تینوں مقاصد حاصل نہیں ہوتے پاکستانی عوام چین سے نہیں بیٹھے گی اوران مقاصد کے حصول کے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے سازش کا مقابلہ ہم اپنے اتحاد حکمت عملی سے کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی بھی ان مقاصد کے حق میں ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہاہے کہ فنانس بل کی منظوری سے یہ تاثر دیا جارہاہے کہ ہم نے 29ججوں کافنانس بل میں ذکر آنے سے پی سی او ججز کو تسلیم کرلیا ہے یہ تاثر بالکل غلط ہے یہ ٹیکنیکل غلطی ہوئی ہے کسی فرد یا کمیٹی کی ذاتی غلطی ہے ۔مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کا واضح ایجنڈہ ہے کہ ہم پی سی او ججز کو قبول نہ کریں گے ۔ فنانس بل سے ججز کی بحالی کے طریقے سے قوم کو مایوسی ہوئی ہے قوم یہ امیدلگائے بیٹھی تھی کہ لیڈر اس کی رہنما کریں گے اور راستہ دکھائیں گے مگر تاثر یہ پھیلتا جارہاہے کہ لیڈر پیچھے اور قوم اس کے آگے جارہی ہے تمام پارٹیوں کے لیڈرز کو یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینی چاہیے کہ قوم کواب مزید طفل تسلیوں میں نہیں رکھا جاسکتا ۔ قوم کو نقصان پہنچانے والوں میں جہاں آمروں کا حصہ ہے وہاں سیاستدانوں کابھی کرادار کوئی قابل فخر نہ ہے عوام کے صبر کا جام اب چھلک رہاہے ۔ رہنما و¿ں نے اس کا احساس نہ کیاتو وقت ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔ عدلیہ کو مضبوط بنانا ہوگا ورنہ آمروں کاراستہ کوئی نہ روک سکے گا اور آئندہ نسلیں ہمیں نہ معاف کریں گی ۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں اپنے حلیفوں سے گلہ ہے ہم نے ہمیشہ نیک نیتی سے ان کا ساتھ دیا ہے مگر شیری رحمان اور دوسرے وزرائ نے ٹیکنیکل غلطی کو پوری پارٹی کا فیصلہ قرار دے دیا ہے ۔ یہ سراسر زیادتی ہے دراصل پارٹی لائن واضح نہ تھی اس لئیے سب اراکین نے منی بل کے لیے ووٹ دے دیا مجھے کیونکہ شک تھا اس لیے میں میاں نوازشریف سے اجازت لیکر وووٹ نہ دیا ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم ججز کی بحالی قرارداد کے ذریعے چاہتے ہیں جومری ڈیکلریشن میں واضح ہے ہم کسی صورت ججز کی تعداد بڑھانے کے حق میںنہ ہیں منی بل کے ذریعہ ججوں کی بحالی کاذریعہ نہ آئینی ہے نہ قانونی نہ اخلاقی طورپر درست ہے ہم اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے ہیں ججزکی بحالی ہیقوم ملک اور آئین کو بچاسکتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کی جانب سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو قومی اسمبلی کے حلقہ 123 سے الیکشن لڑنے کیلئے نا اہل قرار دیئے جانے سے متعلق فیصلہ کی اطلاع جیسے ہی پنجاب اسمبلی میں پہنچی تو ارکان صوبائی اسمبلی نے ایوان میں بجٹ پر بحث چھوڑ کر گو مشرف گو ، پی سی او ججز نا منظور ، مشرف کا جو یار ہے وہ غدار ہے اور دیگر نعرے لگانا شروع کر دیئے ۔ سپیکر نے صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بجٹ پر بحث روک دی اور اجلاس ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ بجٹ پر بحث آج مکمل ہونا تھی جو نہیں کی جا سکی لہذا اب کل بھی بجٹ پر بحث جاری رہی گی ۔ اجلاس ملتوی ہونے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تمام ارکان ایوان سے باہر آگئے اور اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر زبردست نعرہ بازی شروع کر دی ۔ ارکان اسمبلی گو مشرف گو، پی سی او ججز نا منظور اور مشرف کو پھانسی دو ، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کرو ، ہم نہیں مانتے مشرف تیرے ضابطے ، مشرف کی عدلیہ نا منظور کے نعرہ لگاتے ہوئے واپڈا ہاو¿س کی جانب سے جلو س کی شکل میں مال روڈ پر آگئے اور سڑک پر لیٹ کر ٹریفک بلاک کر دی ارکان اسمبلی نے اس موقع پر نعرے لگاتے ہوئے سینہ کوبی بھی کی اور تقریبا آدھا گھنٹہ تک ٹریفک بلاک رکھنے کے بعد افلاح بلڈنگ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے احاطہ میں واپس آگئے اور صدر مشرف اور پی سی اوججز کے خلاف احتجاج اور نعرہ بازی جاری رکھی ۔مسلم لیگ (ن ) کے رہنما احسن اقبال نے لاہور ہائی کورٹ کے نواز شریف کی نا اہلی کے بارے میں سنائے گئے فیصلے کو پاکستانی عدلیہ جمہوریت اور قوم سے سنگین مذاق قرار دیتے ہوئے اسے عالمی سطح پر جگہسائی سے تعبیر کیا ہے اپنے رد عمل میں انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کی مقبولیت کو عالمی سطح پر بھی مانا جارہا ہے دو دن قبل امریکی تھینک ٹینک کی جاری کردہ رپورٹ میں بھی اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کی مقبولیت 86فیصد سے زائد ہے ۔ احسن اقبال نے کہا کہ دو دفعہ وزیر اعظم رہنے والے اور 86فیصد مقبول رہنما کو اگر انتخاب کے لئے نا اہل قرار دیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں جگ ہسائی کا باعث بنے گا ۔ اس فیصلے نہ ہمارے اس موقف کو بھی سچ ثابت کردیا ہے کہ پی پی اور عدلیہ سے کسی قسم کے انصاف کی توقع نہیں ہے ۔ یہ پی سی او عدالتیں نہیں بلکہ جنرل مشرف کے حامی ججز ہیں وہ مشرف کے ایجنڈے پر عملدر آمد کرا رہے ہیں تاکہ جمہوریت اور مخلوط حکومت کو ناکام بنایا جائے اور مشرف کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جائیں تاکہ وہ اپنے تسلط کو برقرار رکھ سکیں ۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ 4مہینے ہونے کو ہیں مگر حکومت مشرف کے دیے ہوئے نظام اور مشرف کے اٹارنی جنرل کی حکومت ختم نہیں کر سکی ہم اپنے اتحادیوں سے بھی یہ پوچھیں گے کہ ہمارے خلاف جو ایکشن جاری ہے اور جمہوریت کی بساط الٹتی نظر آرہی ہے وہ اس پر خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں اب ایک جمہوری حکومت ہے اور اس کی موجودگی میں غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلے دیے جارہے ہیں ۔ اس سے ثابت ہے کہ یہ حکومت موثر نہیں ہے ۔ آج بھی نظام کار مشرف کے پاس ہے اگر یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا تو شاید اس کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مشرف کے حامی نواز شریف کی مقبولیت سے گھبرا گئے تھے کہ اگر نواز شریف اسمبلی میں آگئے تو وہ ایک چیلنج ہوں گے اور شہباز شریف پر بھی بطور وزیر اعلیٰ ایک تلوار لٹکا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ گورنر پنجاب کی تعیناتی کی گئی وہ اس کا شاف نہ ہے ۔ ایسی سب باتیں 18فروری کے عوامی فیصلے کی نفی کررہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستانی عوام کے ساتھ گہری سازش ہے ۔ مگر یہ ایسے فیصلے ہیں جن کی حیثیت پاکستان کی تاریخ میں ردی کی ٹوکری سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہم اس فیصلے کی مذمت اور مزاحمت کریں گے کیونکہ یہ عدلیہ کا نہیں پی سی او ججز کا فیصلہ ہے یہ مشرف کی عدالتوں کا فیصلہ ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو ضمنی انتخابات لڑنے کے لیے نااہل قراردے دیا گیا ہے تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے آج پیر کو میان نواز شریف کے این اے 123 اور میاں شہباز شریف کے پی پی 48 بھکر سے مختلف مقدمات کی سماعت کررہا تھا یہ سماعت پیر کو بارہ بجے تک مکمل ہو گئی اس کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اس کے بعد تقریبا ساڑھے چھ بجے عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے تحت میاں نواز شریف کے خلاف دائر کی گئی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا ہے ا ور میاں نواز شریف کی این اے 123 سے انتخابات لڑنے سے روک دیا گیا ہے جبکہ د وسری جانب میاں شہباز شریف جو انتخابات میں کامیاب ہو چکے تھے ان کا معاملہ بننے والی ٹریبونل کے سپرد کردیا گیا ہے تاہم اس وقت تک میاں شہباز شریف بطور وزیراعلی اپنا کام جاری رکھ سکیں گے عدالت کا یہ فیصلہ سننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بھاری تعداد میں کارکن جمع ہو گئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس طرح کے فیصلے وہ کسی صورت قبول نہیں کریں گے جبکہ مسلم لیگ(ن) کے لائرز ونگ کے مختلف عہدے داروں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کا شدید احتجاج کرتے ہوئے ” گو مشرف گو “ کے نعرے لگائے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے سے میاں نواز شریف کو نہ صرف قومی اسمبلی لے جانے سے روکا گیا بلکہ عوامی مینڈیٹ کی بھی توہین کی گئی ہے۔ میاں نواز شریف نے این اے 123 سے اپنے کاغذات جمع کرائے تھے اور ان کے خلاف نور الہی نامی شخص نے مختلف اعتراضات فائل کیے گئے تھے جن کے تحت طیارہ سازش کیش مختلف بینکوں کا ڈیفالٹر ہونے اور عدالتوں کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرنے کے ممکنہ الزامات عائد کیے گئے تھے لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کا فی الحال مختصر فیصلہ سامنے آیا ہے جبکہ تفصیلی فیصلہ ایک دو دن میں جاری کردیا جائے گا تاہم اپنے مختصر فیصلے میں عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ میاں نواز شریف پٹشنر نور الہی نے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ حقیقی طورپر درست ہیں ۔ طیارہ ساز ش کیس ‘سپریم کورٹ پر حملہ کیس مختلف بنکوں کے ڈیفالٹر ہونا شامل ہے ۔ اس سے قبل جو بینچ تشکیل دیا گیا تھا اس پر وکلاء نے احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ ا ن ججز کی مختلف حوالوں سے سابق حکومت (ق) سے ان کی وابستگی تھی اس لیے ان سے صحیح فیصلے کی توقع نہیں رکھتے جبکہ جسٹس حسنات نے اس بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا تھا ۔نتیجتا یہ بینچ ٹوٹ گیا تھا۔مسلم لیگ ( ن ) کے راہنما چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی 29 ججوں کی کلاز پر رائے شماری میں شریک نہیں تھی اور نہ ہی وہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو جج تسلیم کرتے ہیں ۔ پیر کو پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ فنانس بل میں 21 ججوں کی کلاز پر رائے شماری نہیں ہوئی تھی ۔ البتہ مسلم لیگ ( ن ) کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیر نے اس موضوع پر اظہار خیال ضرور کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پالیسی زیادہ واضح نہ ہو سکی ۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ 29 ججوں کی کلاز صوتی ووٹ سے منظور ہوئی اور اس صوتی ووٹ میں پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کی کوئی آواز شامل نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اسی حوالے سے آج انہوں نے اسمبلی میں کھڑا ہو کر اپنی جماعت کی پالیسی کی وضاحت کی اور کہا کہ مسلم لیگ ( ن ) کے ارکان اسمبلی نے فنانس بل کی منظوری میں یقیناً شریک تھے لیکن 29 ججوں کی کلاز میں حصہ نہیں لیا ۔ اور نہ ہی ووٹ ڈالا بلکہ لاتعلق رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کا موقف ہے کہ پی سی او ججوں کو ہم اس طرح جائز جج نہیں مانتے اور معزول ججوں کی بحالی بھوربن معاہدے کے تحت ایگزیکٹو آرڈر سے ہونی چاہئے ۔ جبکہ پاکستان بار کونسل کے صدر بیرسٹر اعتزاز احسن نے ججوں کی تعداد کو 16سے بڑھا کر29کرنے کے فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پرویزمشرف کے 3نومبر کے اقدامات کو تحفظ دینے کی ایک کوشش ہے جسے پاکستان کے وکلاءاور عوام تسلیم نہیں کرتے تاہم وہ معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے آل پاکستان وکلاء نمائندگان کنونشن میں ملک بھرکے تمام شہروں میں ہفتہ میں ایک دفعہ جمعرات کے روز وکلاء کے عدالتی بائیکاٹ اور ریلی کے موقعہ پر اہم مقامات پر تین گھنٹے کیلئے وکلاء کے دھرنے کی تجویز دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ معزول چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مسٹر افتخار محمد چودھری دیگرمعزل ججوں کو معاہدہ بھوربن کے تحت ایک قراردا دکے زریعے بحال کیاجائے اور اس کیلئے قانو ن سازی کی کوئی ضرورت نہ ہے تاہم اگر معزول ججوںکو بحال نہ کیا گیا تو وکلاء کی جدوجہد جاری رہے گی اور حکمرانوں کو معزول جج ہر صورت میں بحال کرنا ہونگے کیونکہ ملک میں عدلیہ آزاد نہ ہونے سے سرمایہ کاری نہ ہورہی ہے اورترقی وخوشحالی کا عمل رکا ہوا ہے پی سی او ججوں کو تسلیم نہیںکیااور نہ ہی پی سی او ججوں کو تسلیم کرے گی تاہم حکومت نے معزول ججوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کرکے معزول ججوں کو تسلیم کرلیا ہے لیکن اب آئنی پیکیج کے زریعے ججوں کی تعداد بڑھا کر پی سی او ججوں کو بھی بحال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھر کے وکلاء نے کامیاب لانگ مارچ اور عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلا کر تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھ لیا ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر کی بار ایسوسی ایشنوں نے پاکستانی وکلاءکی تحریک کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ دس غیر ملکی یونیورسٹیوں نے معزول چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیدی ہے جبکہ دنیا بھر کی62بار ایسوسی ایشنوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کی جرات کی وجہ سے تاحیات ممبر شپ دیدی ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی نے چیف جسٹس افتخا رمحمد چودھری کو میڈل آف فریڈم کا ایواڈ دیا ہے جو یونیورسٹی کی طرف سے دیا جانے والا تیسرا ایوارڈ ہے تاہم بارسلونہ کی بار ایسوسی ایشن نے پاکستان بھر کے وکلاء کو اعزاز ی ممبر شپ دیدی ہے ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جلد ہی انٹرنیشنل لائرز کانفرنس بلائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کی کسی تنظیم نے بھی اسلام آباد میں دھرنے کا فیصلہ نہیں کیاتھا تاہم ملک میں وکلاء کے تمام فیصلے پاکستان بار کونسل کررہی ہے جس نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تھاجس میں دھرنے کا کوئی فیصلہ شامل نہیں تھا تاہم وہ وکلاء اور عوام کے دھرنے کے فیصلہ کی قدر کرتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکلاء کی تحریک پرامن ہے اور پرامن ہی رہے گی تاہم ڈاکٹر شیرافگن پر تشدد کے واقعہ کی وجہ سے وکلاء دنیا بھر میں بدنام ہوئے اور بعض کالم نگاروں نے تنقید کا نشانہ بنایا تاہم حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن کووکلاء نے بچایا تھا لیکن ڈاکٹر شیرافگن پر تشد د کے واقعہ کے بعد ایک سازش کے تحت کراچی میں وکلاء کو قتل کیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ پاکستان با رکونسل کے صدر نے کہا کہ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک فرار ہوگئے اور ا ب واپس نہ آرہے ہیں تاہم اگر ملک میں عدلیہ آزاد ہوتی تو شوکت عزیز کو ملک سے بھاگنے کا موقعہ نہ ملتا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وکلاء کے کامیاب لانگ مارچ نے ساری دنیا میں وکلائکے وقار کو بڑھایا ہے تاہم جب تک معزول جج بحال نہیں ہوجاتے اس وقت تک وکلا کی تحریک جاری رہے گی ۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ لانگ مارچ تاریخی ہے تاہم لانگ مارچ مزاحمتی موبائیل دھرنا بھی تھا جو9جون کو شروع ہوا اور اس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ معزول ججوں کی بحالی سے پارلیمنٹ اور جمہوریت بھی مضبوط ہوگی ۔ اس سے قبل کنونشن سے پنجا ب با رکونسل کے وائس چےئرمین اسلم سندھو ایڈووکیٹ ، معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے چیف کوآرڈنیٹر اطہر من اللہ، صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ارشد محمود بگو ایڈووکیٹ کے علاوہ ڈویثرن بھر کی پندرہ تحصیلوں کی بار ایسوسی ایشنوں کے صدور نے بھی خطاب کیا ۔ کنونشن میں ممبران پنجاب با رکونسل ایم اظہرچودھری ، رانا نصر اللہ خان کے علاوہ سینکڑوں وکلاء شریک تھے جنہوں نے گو مشرف گو کے زبردست نعرے بھی لگائے جبکہ بیرسٹر اعتزاز احسن کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ۔ پاکستان بار کونسل کے صدر چودھری اعتزاز احسن کا سیالکوٹ آمد پر بھرپور استقبال کیاگیااور ان پر منوں پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور ایک جلوس کی شکل میں انوار کلب آڈیٹوریم لایا گیا جہاں چار گھنٹے سے زائد عرصہ تک کنونشن جاری رہا ۔اے پی ایس۔

No comments: