International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, March 23, 2008

یوسف رضا گیلانی سزا سے جزا تک ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی






مخدوم سید علمدار حسین گیلانی کی زندگی اور ان کی ملک و قوم کے لئے خدمات ہمیشہ یوسف رضا گیلانی کہلئے مشعل راہ رہی رہیں نیز جیل کی سلاخوں کے پیچھے آنے کے بعد یوسف رضا گیلانی کی آنکھیں مزید کھلیں اور ان کی زندگی کے بعض واقعات کی معنویت یوسف رضا گیلانی پر ایک اور طرح سے عیا ں ہوئی ان کے عزم ، حوصلے ،صبر ، انتھک محنت ، خدمت خلق اور سیا سی جدو جہد نے یوسف رضا گیلانی کی زندگی اور شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑے۔آمریت ، آزادی انسان کے منافی ہے آمریت کے خلاف جمہوریت کی جنگ لڑنے والوں کو ذہنی اور ، اعصابی ، اور جسمانی صعو بتیں بر داشت کرنے کے لئے زندگی کے وقار کا احساس ہی حو صلہ ، ہمت ، اور جرئات عطا ء کرتا ہے کیونکہ جمہوریت مکمل انسانی رو یے کا نام ہے پس دیوار زنداں ، کائنات قید میں کٹی ہوئی محسوس ہوتی ہے مگر ارادے اور حو صل قائم رہتی ہے سید ہوسف رضا گیلانی اپنے آبائو اجداد کی روحوں کو گواہ بنا کر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ قید نے یوسف رضا کے ارادوں اور حوصلوںکو پیلے سے زیادہ بلند اور مضبوط بنا دیا ہے چاہ یوسف سے صدا ، اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر مثبت تبدیلی کے لئے با طل نظام کے سامنے ڈٹے ر رہنا ہے صبر و استقامت اس یقین کا اظہار ہے کہ با طل کو آخر مٹ جا نا ہے۔ حضرت موصی علیہ السلام سے کہا گیا تھا کہ فرعون سے بات نرمی سے کریں ۔ اضطراب کا اظہار اپنی ناکامی اور باطل کی فتح تسلیم کرنے کے مترادف ہے ۔ سو صعوبتوں کے سفر میں کبھی ا ضظراب کا اظہار نہیں ہو گا ۔ باقی رہا باطل، اسے تو جا نا ہے یہی ارض پاک کی خاموش اکثریت کی آ رزو ہے ۔اب میں ادبی جرنلزم کی زبان سے نکل کر عوامی جرنلزم کی زبان میں بات کرتا ہوں کہ عوامی حلقو ں نے کہا ہے کہ پی پی پی کا پرویز مشرف کی صدارت اور معزول ججوں کی بحالی پر خا موشی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عرصہ دراز سے پرویز مشرف اور پی پی پی کے در میان ہونے والی ڈیل آخر کار رنگ لے آئی جبکہ صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک مرتبہ پھر نئی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ اسے ان کی پوری حمایت حاصل ہوگی۔ نئی حکومت سیاسی امن اور اقتصادی ترقی کو برقرار رکھے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے واضع کیا ہے کہ نئے حکمرانوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ماضی کی قوت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے سابق سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی کو ملک کے نئے وزیراعظم کے لیے نامزد کیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی کے لئے نامزد ہونے پر اگرچہ عو امی حلقوں نے بلاول بھٹو زرداری کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے اس کے علاوہ یوسف رضا گیلانی تمام سیاسی رہنما ئوں بمعہ پرویز مشرف کو بھی قابل قبول ہے اس کے پس پردہ یوسف رضا کی وہ تعلق داری ہے جو اسے سابقہ تینوں امید وار برائے وزارت عظمی سے منفرد اور وزارت عظمی کے لئے سب کو قابل قبول کرتی ہے یوسف رضا گیلانی کی مسلم لیگ ن کے جاوید ہاشمی کے خاندان سے لیکر پیر پگا را تک رشتہ داری ہے پیر پگارا یوسف رضا گیلانی کے خالو بھی لگتے ہیں جبکہ وزارت عظمی کے نامزد امید وار کے اعلان سے ایک دن پیلے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی کراچی میں پیر پگارا کی پوتی سے شادی بھی ہو ئی ہے پیر پگارا کے زکر کرنے کا مقصد پرویز مشرف کی طرف ا شارہ ہے کیونکہ ابھی تک اعلانیہ طور پر پیر پگارا پرویز مشرف کے حمائتی ہیں اور یہی کہانی جاوید ہاشمی کی ہے جو کہ مسلم لیگ ن میں اہم مقام رکھتے ہیں اگرچہ آسف زرداری اور نواز شریف کی جلا وطنی کے دور میں ہونے والی اہم آہنگی بھی ہے اجہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو چودھری شجاعت کو بھی احمد مختار کی بجائے یوسف رضا گیلانی قابل قبول ہے اور یوسف رضا گیلانی کو جیل سے باہر لانے میں چودھری شجا عت کا بھی اہم کردار ہے جس کی وجہ چودھری شجاعت اور یوسف رضا گیلانی کے بییٹوں کی دوستی ہے یوسف رضا گیلانی اگرچہ بے نظیر کے بعد ہارٹی میں جو مقام رکھتے ہیں اس کی حقیقت بھی سب کے سامنے ہے ان کو صرف اور صرف پارٹی سے تعلق ختم نہ کرنے پر سزا دے کر اڈیالہ جیل میں بند کیا گیا سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے سزا کو جزا سمجھ کر قبول کر لیا تھا جب کہ ان کے دوسرے ساتھیوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کی بجائے پٹریاٹ بنا ڈالی اور بلیک میل ہوکر پرویز مشرف کے ساتھ حکومت کرتے رہے پی پی نے دعوی کیا ہے کہ سپیکر نے دو سو انچاس ووٹ حاصل کیے اور اب وزیراعظم پونے تین سو سے زیادہ ووٹ حاصل کرے گا‘ ’اب تو ایم کیو ایم نے پی پی کے امیدوار کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے اور اپنے امیدوار فاروق ستار کو دستبردار کر لیا ہے‘۔ اشریک چیئرمین اور سینئر پارٹی رہنما مخدوم امین فہیم کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوئے جو تاحال بظاہر ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ وزیراعظم کے نام کے انتخاب کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے اپنی جماعت کے نومنتخب اراکین سے ڈویڑنل سطح تک مشاورت کی اور بیشتر اراکین نے انہیں اختیار سونپا کہ جو بھی پارٹی اور ملک کے مفاد میںجو فیصلہ کریں گے وہ انہیں قبول ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی چند ماہ کے لیے نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے وزیراعظم بنے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم کے لیے نامزد کیے جانے کے بارے میں یوسف رضا کے بانجھے جواد بخاری نے راقم الحروف کو بتایا کہ ما موں نے دکھ سکھ میں پارٹی کا ساتھ نبھایا۔سپیکر کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں کے کل دو سو انیس ووٹ تھے لیکن انہیں دو سو انچاس ووٹ ملے جن میں سے بیشتر آزاد اراکین تھے جنہوں نے عین وقت پر ان کی حمایت کی۔ اب ایم کیو ایم کے ووٹ شامل ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے امیدوار کو 276 ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں جواد بخاری نے بتایا کہ اس سے زیادہ ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ ادھر سابقہ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ق) جس نے پہلے ایم کیو ایم کے فاروق ستار کی وزیراعظم کے لیے حمایت کی تھی اب ان کے سربراہ چودھری شجاعت نے مسلم لیگ (ق) کی طرف سے چودھری پرویز الہی کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا سید جواد معین بخاری جس کا زکر یوسف رضا گیلانی نے اپنی تسنیف ©' چاہ یوسف سے صدا ' ' کے صفحہ نمبر گیارہ بعنوان اظہار تشکر میں کیا ہے یوسف رضا گیلانی کے بھا نجے سید جواد معین بخاری جنہوں نے چاہ یوسف سے صدا کو عملی شکل دینے میں خاندان کے بزرگوں کی تحروں اور تصویروں کو اکھٹا کرنے میں مدد دی انھوں نے یوسف رضا کے حا لات زندگی بیا ن کرتے ہوئے کہا کہ ما موں یوسف رضا گیلانی نے عملی سیاست کا آغاز سنہ انیس سو اٹھہتر میں کیا سید جواد معین بخاری نے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ما موں یوسف نے عملی سیاست کا آغاز فروری سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں ملتان سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے اگرچہ ابتدائمیں ما موں کو وزارتِ عظمٰی کے لیے مضبوط امیدوار گردانا نہیں جا رہا تھا سید جواد معین نے اس با ت کی بھی وضاحت کی کہ اگرچہ میرے ما موں کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے لیکن ان کا ایک روائتی جا گیر داروں والے لا ئف سٹائل اور سوچ سے کو ئی تعلق نہیں البتہ آپ لوگ ان کے گھرانے کو مذہبی و سیاسی گھرانہ کہہ سکتے ہیں سید جواد بخاری نے مزید کہا کہ ماموں اور ان کے آبائو اجداد کو سیاست میں جو عزت ملی وہ صرف اور صرف ان کے مثنت کردار کی وجہ سے ملی جواد نے اپنے ما موں کا خا ندانی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی نو جون سنہ انیس سو باون کو جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان کے ایک مذ ہبی و سیا سی گھرانے میں پیدا ہوئے جو پچھلی کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ ملتان کی درگاہ حضرت موسی پاک کا گدی نشین ہونے کی بناءپر ان کا خاندان مریدین یا روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ ان کے دادا سید محمد رضا شاہ گیلانی تحریک پاکستان کے رہنماو¿ں میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کبھی کسی انتخاب میں شکست نہیں کھائی۔ ان کے والد کا نام سید علمدار حسین گیلانی ہے جبکہ معروف سیاست دان حامد رضا گیلانی ان کے چچا تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ اور نامور بزرگ سیاست پیر پگاڑا سے بھی قریبی نسبتی عزیز داری بھی ہے اور پیر پگاڑا کی پوتی یوسف رضا گیلانی کی بہو ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے انیس سو ستر میں گریجویشن اور انیس سو چھہتر میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ انہوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز سنہ انیس سو اٹھہتر میں اس وقت کیا جب انہیں مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن چنا گیا اور سنہ انیس سو بیاسی میں وہ وفاقی کونسل کے رکن بن گئے۔ یوسف رضا گیلانی نے انیس سو تراسی میں ضلع کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے موجودہ رہنما سید فخر امام کو شکست دیکر چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوئے۔ سنہ 1985 میں انہوں نے صدر جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیااور وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر ہاوسنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے بنائے گئے۔ انیس سو اٹھاسی میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے مدمقابل نواز شریف کو شکست دی جو قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر امیدوار تھے۔ان انتخابات میں کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی ایک مرتبہ پھر وفاقی کابینہ کے رکن بننے اور اس مرتبہ انہیں بینظیر بھٹو کی کابینہ میں سیاحت اور ہاو¿سنگ و تعمیرات کی وزارت ملی۔ سنہ انیس سو اٹھانوے میں انہیں پیپلز پارٹی کا وائس چیئرمین نامزد کر دیا گیا لیکن دسمبر 2002ئمیں انہوں نے اپنے بھانجے اور رکن قومی اسمبلی اسد مرتضیٰ گیلانی کی جانب سے پیپلز پارٹی میں بننے والے فارورڈ بلاک میں شامل ہونے پر پارٹی کے عہدے سے استعفی دیدیا۔یوسف رضا گیلانی نوے کے انتخاب میں تیسری مرتبہ رکن اسمبلی بننے اور انیس سو ترانوے میں صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کی نگران کابینہ میں انہیں بلدیات کا قلم دان سونپاگیا۔ انیس سوترانوے کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی چوتھی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے سپیکر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے اپنی سپیکر شپ کے دوران قائم مقام صدر کے فرائص بھی سرانجام دیے۔ ماضی میں انتخابات میں کامیابی کے باوجود یوسف رضا گیلانی فروری ستانوے میں ہونے والے انتخابات میں ناکام رہے۔ سنہ انیس سو اٹھانوے میں انہیں پیپلز پارٹی کا وائس چیئرمین نامزد کر دیا گیا جو اد بخاری نے آخر میں کہا کہ سیاسی کیرئر کے دوران ما موں کو پار ٹی کی وفا داری تبدیل نہ کرنے پر اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں نیب نے ریفرنس دائر کیا اور راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے ستمبر سنہ دو ہزار چار میں ما موں کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تین سو ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی تاہم سنہ دو ہزار چھ میں ما موںکو عدالتی حکم پر رہائی مل گئی ۔ ما موں یوسف نے نے اڈیالہ جیل میں اسیری کے دوران اپنی یاداشتوں پر مبنی پر ایک کتاب’چاہ یوسف سے صدا‘ بھی لکھی۔ میں سکول سے آکر اس کا م میں معاونت کرتا ر ہتا تا کہ ما موں محسوس کریں کہ ان کا با نجھا جواد معین بخاری جیل میں بھی ان کے سا تھ ہے

No comments: