یہ مارچ2003ءکا واقعہ ہے، راولپنڈی میں فوجی افسروں کے رہائشی علاقہ ویسٹریج کے ایک گھر سے ایک عرب باشندہ گرفتار ہوا، یہ گھر ایک کیپٹن کا تھا جو اس وقت کوہاٹ میں ڈیوٹی پر تھااور جسے وہیں پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ عرب باشندہ خالد شیخ محمد ہے جو امریکہ کے نزدیک اسامہ بن لادن کا نمبر ٹو تھا اور اس کی وانٹڈ لسٹ میں ٹاپ پر تھا، حکومت کا یہ دعویٰ درست نکلا کیونکہ امریکہ نے اسے خالد شیخ محمد کے نام سے شناخت کر لیا، یہ بات بتانے والی نہیں کہ حکومت پاکستان نے حوالگی کے قانون اور طرےقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے پہلی فرصت میں امریکہ کے حوالے کر دیا جہاں اس پر مقدمہ چلا مارچ2007مےں توقعات کے عےن مطابق خالد شےخ محمد نائن الےون سمےت اور بھی بہت سے گناہ قبول کر لئے 11فروری 2008 کو اس پر جنگی جرائم اور قتل وغارت سمےت مختلف سنگےن فرد ہائے جرم عائد کر دی گئےں جن پر اسے سزائے موت ہونا ےقےنی ہے ۔ امریکی چارج شیٹ کے مطابق نائن الیون کےلئے طیارے اغواءکر کے (ٹوئن ٹاورز)(نیویارک) اور پینٹاگون(امرےکی وزارت دفاع)کو نشانہ بنانے کی ساری پلاننگ خالد شیخ محمد نے کی تھی، اس تمہید سے Èپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ خالد شیخ محمد کتنا اہم Èدمی تھا اور نائن الیون سے اب تک امریکہ سے افغانستان اور پاکستان تک جاری دہشتگردی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار کتنا بڑا تھا۔ خالد شیخ محمد ےکم مارچ کو آئی اےس آئی اور سی آئی اے کے مشترکہ آپرےشن مےں ہاتھ آےا ۔اس کی گرفتاری کے چند روز بعد میں راولپنڈی کے صحافیوں رسالت فاضل عباسی اور Èصف شبیر کے ہمراہ اس گھر گیا جہاں سے خالد شیخ محمد گرفتار ہوا، جب ہم وہاں پہنچے تو میرے ذہن میں بار بار یہ سوال کلبلا رہا تھا کہ اتنا بڑا ”ہدف“ یہاں سے پکڑا گیا ہے؟چلتے وقت میرا خیال تھا جب ہم ویسٹریج میں داخل ہوں گے تو وہاں فوج اور ایجنسیوں کے لوگوں کی بھاری نفری پوزیشنیں سنبھالے ہو گی، ہمیں جگہ جگہ روک کر شناخت طلب کی جائے گی۔ شناخت تو دور کی بات ہمیں ادھر پھٹکنے ہی نہیں دیا جائے گا اور واپس بھیج دیا جائے گا اور جب ہم جیسے تیسے کر کے اس گھر پہنچیں گے تو وہاں مسلح کمانڈوز الرٹ کھڑے ہوں گے اور اہل خانہ ایک کمرے میں بند ڈرے سہمے بیٹھے ہوں گے جہاں سیکیورٹی حکام کی موجودگی ہی میں ملاقات ہو سکے گی اور ایسی صورت میں ہم کیا پوچھیں گے اور وہ کیا بتا سکیں گے؟ مگر حیرت انگیز طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا، ہم ویسٹریج پہنچے تو دور نزدیک کوئی غیر معمولی بات دیکھنے میں نہیں Èئی، ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے سیدھے اس گھر تک پہنچ گئے اور راستے میں کہیں کوئی سیکیورٹی اہلکار نظر Èیا نہ کسی نے ہماری طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا، گھر کے اندر باہر بھی کوئی ایجنسی والا یا کمانڈو نہیں تھا۔ ہم نے بیل بجائی، ایک بزرگ نے دروازہ کھولا جو گھر کے سربراہ تھے۔ سلام دعا کے بعد وہ ہمیں اندر لے گئے، ڈرائنگ روم میں ہماری تقریباً ایک گھنٹہ تک ایسے بات چیت ہوئی جیسے بالکل نارمل حالات میں کسی کے گھر کوئی مہمان Èتا ہے اور میزبان سے مل کر چلا جاتا ہے، اس ایک گھنٹے کے دوران ہمیں گھر کے ماحول سے، گھر والوں کی کسی بات سے کسی انداز سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ کچھ روز پہلے یہاں سے وہ Èدمی برÈمد ہوا ہے جس نے اپنی پلاننگ سے دنیا بدل کر رکھ دی تھی۔ وہاں سے واپسی کے بعد سے Èج 5برس بعد تک مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں مل سکا کہ اتنے بڑے ”ٹارگٹ“ کی برÈمدگی پر اس گھر کے Èس پاس غیر معمولی انتظامات کیوں نہیں تھے؟اس گھر کے باسی روٹین کی طرح کےوں کر رہ رہے تھے؟انہیں اول تو زیر حراست ہونا چاہئے تھا یا زیر نگرانی اور کم از کم یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ گرفتاری کے چند روز بعد ہی وہ نارمل زندگی گزار رہے ہوں یہاں تک کہ میڈیا سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہوں۔ 11ستمبر2001ءکو جب ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا تو امریکہ نے تحقیقات سے پہلے ہی اس کا الزام اسامہ بن لادن پر عائد کر دیا جو اس وقت افغانستان میں تھے، ساتھ ہی القاعدہ کا نام بھی سامنے È گیا کہ یہ کارروائی اسی تنظیم نے کی ہے اور اسی کی Èڑ لے کر امریکہ بہادر مسلمان ملکوں پر حملہ Èور ہو گیا، ”القاعدہ“ کا نام دنیا بھر میں دہشت کی علامت بن گیا اور امریکہ نے اس کے خاتمے کیلئے دہشتگردی کے خلاف جنگ چھیڑ دی جو Èج بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک رہے گی کیونکہ جن لوگوں کوالقاعدہ کے کرتادھرتا قرار دیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی امریکہ کے ہاتھ نہیں È سکا، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری Èج بھی کسی نامعلوم مقام پر موجود ہیں جبکہ ملاعمر جو اسامہ کے میزبان تھے ان کا بھی پتہ ٹھکانہ کوئی نہیں جانتا، ان تینوں حضرات کو امریکہ اور مغربی ممالک کا دشمن نمبر ایک مانا جاتا ہے۔ ان تینوں کا مقصد دنیا میں اسلام کا غلبہ اور امریکہ سمیت تمام اسلام دشمن قوتوں کا مکمل خاتمہ ہے جیسا کہ ان کے Èڈیو، ویڈیو پیغامات Èتے رہتے ہیں۔ ملا عمر افغانستان میں مکمل اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، یعنی یہ تینوں ہستیاں صرف اور صرف اپنے دین کی خاطر جانیں ہتھیلی پر رکھ کر وقت کی طاقتوں سے ٹکرا رہی ہیں مگر دین تو تب تک مکمل ہی نہیں ہوتا، ایمان تب تک کامل ہی نہیں ہوتا جب تک نبی Èخر الزماں حضرت محمد کی محبت ہمارے دلوں میں موجےں نہ ماررہی ہو اور ناموس رسالت کی خاطر کٹ مرنے ےا ماردےنے کا حوصلہ اور ہمت ہمارے اندر نہ ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کئی برس سے عراق اور افغانستان میں دندنا رہے ہیں اور اب تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی گھس Èئے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کی بڑی اور مضبوط فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اور افغانستان میں طالبان حکومت کا تورا بورا بنا دیا گیا۔ ان گزرے برسوں میں بش سے لے کر بُوچر تک تقریبا ً تمام اعلیٰ امریکی حکام نے کئی کئی بار عراق اور افغانستان کے دورے کئے مگر کیا یہ بات بہت حیرت انگیز نہیں کہ نہ تو امریکی و اتحادی فوجوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہو سکی، نہ اعلیٰ امریکی و دیگر حکام ہی کو نشانہ بنایا جا سکا۔ سوال یہ ہے کہ جو القاعدہ وقت کی سپر پاور کے اندر جا کر اس کے اقتصادی اور جنگی مراکز کو نیست و نابود کر سکتی ہے وہ القاعدہ اس وقت کیوں ناکام ہو گئی جب دشمن خود چل کر اپنے گھر سے ہزاروں مےل دور القاعدہ کے علاقوں میں È پہنچا۔ اور سوال ےہ بھی ہے کہ جو القاعدہ اللہ کے دےن کی خاطر جہاد کا علم بلند کرتے ہوئے دنےا کی سپر طاقتوں سے ٹکر لے رہی ہے وہ القاعدہ اللہ کے محبوب ترےن نبی حضرت محمد کی شان مےں گستاخی کرنے والوں کو جہنم واصل کر نے کے لئے اپنے وسائل کےوں استعمال نہےں کرتی؟ کےوں اےک نہتے عامر چےمہ کو ےہ بےڑا اٹھانا پڑتا ہے اور نذےر چےمہ کے اکلوتے فرزند کو اپنی جان گنوانا پڑتی ہے ؟ نائن الےون والی القاعدہ اگر ہے تو سلمان رشدی اور تسلےمہ نسرےن کےوں زندہ ہےں؟ ڈنمارک کے کارٹونسٹ اور ہالےنڈ کے فلمساز کےوں اہل اےمان کامنہ چڑاتے پھر رہے ہےں؟ جبکہ ان کو جہنم رسےد کرنے کے لئے نائن الےون جےسی عظےم منصوبہ بندی کی ضرورت بھی نہےں؟ القاعدہ کہاں ہے اور کہاں ہےں اسامہ بن لادن،اےمن الظواہری اور ملاعمر؟
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, April 16, 2008
القائدہ ہے تو شاتمین رسول کیوں زندہ ہیں ۔۔۔ تحریر تزئین اختر
یہ مارچ2003ءکا واقعہ ہے، راولپنڈی میں فوجی افسروں کے رہائشی علاقہ ویسٹریج کے ایک گھر سے ایک عرب باشندہ گرفتار ہوا، یہ گھر ایک کیپٹن کا تھا جو اس وقت کوہاٹ میں ڈیوٹی پر تھااور جسے وہیں پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ عرب باشندہ خالد شیخ محمد ہے جو امریکہ کے نزدیک اسامہ بن لادن کا نمبر ٹو تھا اور اس کی وانٹڈ لسٹ میں ٹاپ پر تھا، حکومت کا یہ دعویٰ درست نکلا کیونکہ امریکہ نے اسے خالد شیخ محمد کے نام سے شناخت کر لیا، یہ بات بتانے والی نہیں کہ حکومت پاکستان نے حوالگی کے قانون اور طرےقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے پہلی فرصت میں امریکہ کے حوالے کر دیا جہاں اس پر مقدمہ چلا مارچ2007مےں توقعات کے عےن مطابق خالد شےخ محمد نائن الےون سمےت اور بھی بہت سے گناہ قبول کر لئے 11فروری 2008 کو اس پر جنگی جرائم اور قتل وغارت سمےت مختلف سنگےن فرد ہائے جرم عائد کر دی گئےں جن پر اسے سزائے موت ہونا ےقےنی ہے ۔ امریکی چارج شیٹ کے مطابق نائن الیون کےلئے طیارے اغواءکر کے (ٹوئن ٹاورز)(نیویارک) اور پینٹاگون(امرےکی وزارت دفاع)کو نشانہ بنانے کی ساری پلاننگ خالد شیخ محمد نے کی تھی، اس تمہید سے Èپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ خالد شیخ محمد کتنا اہم Èدمی تھا اور نائن الیون سے اب تک امریکہ سے افغانستان اور پاکستان تک جاری دہشتگردی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار کتنا بڑا تھا۔ خالد شیخ محمد ےکم مارچ کو آئی اےس آئی اور سی آئی اے کے مشترکہ آپرےشن مےں ہاتھ آےا ۔اس کی گرفتاری کے چند روز بعد میں راولپنڈی کے صحافیوں رسالت فاضل عباسی اور Èصف شبیر کے ہمراہ اس گھر گیا جہاں سے خالد شیخ محمد گرفتار ہوا، جب ہم وہاں پہنچے تو میرے ذہن میں بار بار یہ سوال کلبلا رہا تھا کہ اتنا بڑا ”ہدف“ یہاں سے پکڑا گیا ہے؟چلتے وقت میرا خیال تھا جب ہم ویسٹریج میں داخل ہوں گے تو وہاں فوج اور ایجنسیوں کے لوگوں کی بھاری نفری پوزیشنیں سنبھالے ہو گی، ہمیں جگہ جگہ روک کر شناخت طلب کی جائے گی۔ شناخت تو دور کی بات ہمیں ادھر پھٹکنے ہی نہیں دیا جائے گا اور واپس بھیج دیا جائے گا اور جب ہم جیسے تیسے کر کے اس گھر پہنچیں گے تو وہاں مسلح کمانڈوز الرٹ کھڑے ہوں گے اور اہل خانہ ایک کمرے میں بند ڈرے سہمے بیٹھے ہوں گے جہاں سیکیورٹی حکام کی موجودگی ہی میں ملاقات ہو سکے گی اور ایسی صورت میں ہم کیا پوچھیں گے اور وہ کیا بتا سکیں گے؟ مگر حیرت انگیز طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا، ہم ویسٹریج پہنچے تو دور نزدیک کوئی غیر معمولی بات دیکھنے میں نہیں Èئی، ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے سیدھے اس گھر تک پہنچ گئے اور راستے میں کہیں کوئی سیکیورٹی اہلکار نظر Èیا نہ کسی نے ہماری طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا، گھر کے اندر باہر بھی کوئی ایجنسی والا یا کمانڈو نہیں تھا۔ ہم نے بیل بجائی، ایک بزرگ نے دروازہ کھولا جو گھر کے سربراہ تھے۔ سلام دعا کے بعد وہ ہمیں اندر لے گئے، ڈرائنگ روم میں ہماری تقریباً ایک گھنٹہ تک ایسے بات چیت ہوئی جیسے بالکل نارمل حالات میں کسی کے گھر کوئی مہمان Èتا ہے اور میزبان سے مل کر چلا جاتا ہے، اس ایک گھنٹے کے دوران ہمیں گھر کے ماحول سے، گھر والوں کی کسی بات سے کسی انداز سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ کچھ روز پہلے یہاں سے وہ Èدمی برÈمد ہوا ہے جس نے اپنی پلاننگ سے دنیا بدل کر رکھ دی تھی۔ وہاں سے واپسی کے بعد سے Èج 5برس بعد تک مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں مل سکا کہ اتنے بڑے ”ٹارگٹ“ کی برÈمدگی پر اس گھر کے Èس پاس غیر معمولی انتظامات کیوں نہیں تھے؟اس گھر کے باسی روٹین کی طرح کےوں کر رہ رہے تھے؟انہیں اول تو زیر حراست ہونا چاہئے تھا یا زیر نگرانی اور کم از کم یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ گرفتاری کے چند روز بعد ہی وہ نارمل زندگی گزار رہے ہوں یہاں تک کہ میڈیا سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہوں۔ 11ستمبر2001ءکو جب ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا تو امریکہ نے تحقیقات سے پہلے ہی اس کا الزام اسامہ بن لادن پر عائد کر دیا جو اس وقت افغانستان میں تھے، ساتھ ہی القاعدہ کا نام بھی سامنے È گیا کہ یہ کارروائی اسی تنظیم نے کی ہے اور اسی کی Èڑ لے کر امریکہ بہادر مسلمان ملکوں پر حملہ Èور ہو گیا، ”القاعدہ“ کا نام دنیا بھر میں دہشت کی علامت بن گیا اور امریکہ نے اس کے خاتمے کیلئے دہشتگردی کے خلاف جنگ چھیڑ دی جو Èج بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک رہے گی کیونکہ جن لوگوں کوالقاعدہ کے کرتادھرتا قرار دیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی امریکہ کے ہاتھ نہیں È سکا، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری Èج بھی کسی نامعلوم مقام پر موجود ہیں جبکہ ملاعمر جو اسامہ کے میزبان تھے ان کا بھی پتہ ٹھکانہ کوئی نہیں جانتا، ان تینوں حضرات کو امریکہ اور مغربی ممالک کا دشمن نمبر ایک مانا جاتا ہے۔ ان تینوں کا مقصد دنیا میں اسلام کا غلبہ اور امریکہ سمیت تمام اسلام دشمن قوتوں کا مکمل خاتمہ ہے جیسا کہ ان کے Èڈیو، ویڈیو پیغامات Èتے رہتے ہیں۔ ملا عمر افغانستان میں مکمل اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، یعنی یہ تینوں ہستیاں صرف اور صرف اپنے دین کی خاطر جانیں ہتھیلی پر رکھ کر وقت کی طاقتوں سے ٹکرا رہی ہیں مگر دین تو تب تک مکمل ہی نہیں ہوتا، ایمان تب تک کامل ہی نہیں ہوتا جب تک نبی Èخر الزماں حضرت محمد کی محبت ہمارے دلوں میں موجےں نہ ماررہی ہو اور ناموس رسالت کی خاطر کٹ مرنے ےا ماردےنے کا حوصلہ اور ہمت ہمارے اندر نہ ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کئی برس سے عراق اور افغانستان میں دندنا رہے ہیں اور اب تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی گھس Èئے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کی بڑی اور مضبوط فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اور افغانستان میں طالبان حکومت کا تورا بورا بنا دیا گیا۔ ان گزرے برسوں میں بش سے لے کر بُوچر تک تقریبا ً تمام اعلیٰ امریکی حکام نے کئی کئی بار عراق اور افغانستان کے دورے کئے مگر کیا یہ بات بہت حیرت انگیز نہیں کہ نہ تو امریکی و اتحادی فوجوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہو سکی، نہ اعلیٰ امریکی و دیگر حکام ہی کو نشانہ بنایا جا سکا۔ سوال یہ ہے کہ جو القاعدہ وقت کی سپر پاور کے اندر جا کر اس کے اقتصادی اور جنگی مراکز کو نیست و نابود کر سکتی ہے وہ القاعدہ اس وقت کیوں ناکام ہو گئی جب دشمن خود چل کر اپنے گھر سے ہزاروں مےل دور القاعدہ کے علاقوں میں È پہنچا۔ اور سوال ےہ بھی ہے کہ جو القاعدہ اللہ کے دےن کی خاطر جہاد کا علم بلند کرتے ہوئے دنےا کی سپر طاقتوں سے ٹکر لے رہی ہے وہ القاعدہ اللہ کے محبوب ترےن نبی حضرت محمد کی شان مےں گستاخی کرنے والوں کو جہنم واصل کر نے کے لئے اپنے وسائل کےوں استعمال نہےں کرتی؟ کےوں اےک نہتے عامر چےمہ کو ےہ بےڑا اٹھانا پڑتا ہے اور نذےر چےمہ کے اکلوتے فرزند کو اپنی جان گنوانا پڑتی ہے ؟ نائن الےون والی القاعدہ اگر ہے تو سلمان رشدی اور تسلےمہ نسرےن کےوں زندہ ہےں؟ ڈنمارک کے کارٹونسٹ اور ہالےنڈ کے فلمساز کےوں اہل اےمان کامنہ چڑاتے پھر رہے ہےں؟ جبکہ ان کو جہنم رسےد کرنے کے لئے نائن الےون جےسی عظےم منصوبہ بندی کی ضرورت بھی نہےں؟ القاعدہ کہاں ہے اور کہاں ہےں اسامہ بن لادن،اےمن الظواہری اور ملاعمر؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment