خیریت سے ہیں تاہم حکومت سے درخواست ہے طالبان کے ساتھیوں کو رہا کر دےیرغمالیوں کی ٹیلی فون پر برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو
ہنگو ۔ صوبہ سرحد کے ضلع ہنگو میں حکومت کے ساتھ جاری تصادم میں مقامی طالبان نے دعوٰی کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید کئی ’سرکاری افراد‘ کو یرغمال بنایا ہے جس سے ان کی مجموعی تعداد پچاس ہوگئی ہے۔مقامی طالبان نے کسی نامعلوم مقام سے ٹیلیع فون پر ان میں سے تین یرغمالیوں کی برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کروائی ہے۔ ان میں سے ایک فرنٹئر کور کا صوبیدار، قومی بچت ادارے کا ایک کیشئر اور ایک نیشنل بنک کا اہلکار شامل ہیں۔ اورکزئی اور ہنگو میں سرگرم مقامی طالبان نے دوآبہ کے مقام پر ایک تھانے پر پولیس قبضے کے دوران تقریباً پچیس افراد کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم ان کے تازہ دعوے سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ہفتے کے روز زرگری کے مقام پر نیم فوجی ملیشیا کے ایک قافلے پر حملے کے بعد اس تعداد کو دوگنا کر دیا ہے۔ مقامی طالبان کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے لیکن وزیر اعظم کے مشیر داخلہ رحمان ملک نے دو روز قبل ایک اخباری کانفرنس میں سپاہیوں اور دیگر سرکاری اہلکاروں کے یرغمال بنائے جانے کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے بھی ان کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ مقامی طالبان نے زرگری کے مقام پر ہوئی جھڑپ میں اپنے دو ساتھیوں کی ہلاکت اور ایک کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے قبضے میں دو سرکاری گاڑیاں بھی آئی ہیں۔ پاکستان میں مقامی طالبان کی جانب سے جاری کارروائیوں میں یہ پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ اب سویلین سرکاری اداروں سے منسلک اہلکاروں کو بھی یرغمال بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس سے قبل کبھی کبھار سرکاری اہلکار یرغمال بنائے گئے لیکن پھر انہیں جلد رہا کر دیا جاتا رہا ہے۔ مقامی طالبان کی موجودگی میں برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرنے والے قومی بچت کے ایک کیشئر امین جان نے بتایا کہ وہ ایک عام مسافر گاڑی فلائینگ کوچ میں کوہاٹ سے صدہ سرکاری سامان لے جا رہا تھا کہ راستے میں طالبان نے انہیں روک کر ان سے ان کا شناختی اورمحکمے کے کارڈز لے لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سرکاری نوکری کے چوبیس سال پورے ہوچکے ہیں اور اب مقامی طالبان سے ملنے کے بعد ان کی خواہش ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ باقی زندگی انہیں کے ساتھ گزاریں۔ ’ہمارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرتا ہے، نہ مارتا ہے۔ ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بندے حکومت چھوڑ دے جس کے بعد ہم جا سکیں گے‘۔ امین جان کا کہنا تھا کہ ابتداء میں اس کے ساتھ پانچ افراد تھے لیکن اب یرغمالیوں کی تعداد لگ بھگ پچاس ہوگئی ہے۔ ’یہ لوگ مختلف محکموں کے ہیں ۔ کسی کا تعلق ملیشیا فورس سے ہے،کسی کا بنک سے تعلق ہے اور کوئی واپڈا اور سی اینڈ ڈبلیو سے وابستہ ہیں۔ جگہ کم ہے اس لیے ان سب کو مختلف جگہوں پر رکھا ہوا ہے۔ طالبان کی موجودگی میں اٰمین جان نے موجودہ صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ان کا کہنا ہے کہ’یہ امیر صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ میں کسی دباؤ میں نہیں ہوں۔ بس طالبان درست ہیں یہ حکومت بالکل زیرو ہے۔ اپنے آپ کو فرنٹئر کور کا صوبیدار ظاہر کرنے والے ایک شخص شعیب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضلع مردان میں کاٹلانگ سے تعلق رکھتا ہے اور چھٹی پر گھر جا رہا تھا کہ طالبان نے پکڑ لیا۔ اس نے بھی کسی بدسلوکی کی شکایت نہیں کی البتہ اس امید کا اظہار کیا کہ حکومت کے ان کے ساتھی چھوڑنے پر وہ بھی رہا کر دیئے جائیںگے۔ ایک تیسرے یرغمال شخص صوبہ سرحد کے ضلع کرک کے محمد خورشید تھے جن کا تعلق نیشنل بنک کی صدہ شاخ سے ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’میری فکر نہ کریں میں اچھا ہوں بس حکومت ان طالبان سے مذاکرات کرے‘۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ان یرغمالیوں کی باتوں سے کوئی تناؤ ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ جہاں سے وہ ٹیلیفون کر رہے تھے وہاں کا ماحول بھی خوشگوار معلوم ہوتا تھا۔ مقامی طالبان ان کی باتوں سے محضوض ہوتے معلوم ہوتے تھے۔ ایک مقامی طالبان رہنما نے بتایا کہ جرگے کے ذریعے حکومت سیان کے رابطے جاری ہیں۔ یہ شدت پسند حکومت سے دوآبہ کے مقام پرگرفتار ہونے والے ان کے چار ساتھیوں جن میں سے ایک سرکردہ رہنما رفیع الدین بھی شامل ہیں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سرحد حکومت کے وزیر اطلاعات افتخار حسین نے شدت پسندوں پر واضح کیا تھا کہ یرغمالیوں کو کسی قسم کے نقصان کا ذمہ دار مقامی طالبان کو قرار دیا جائے گا۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment