International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Thursday, April 10, 2008

دنیا بھر کے مسلمان جارح مغربی ملکوں کے اصولوں کی تعریف کرتے ہیں ، سروے رپورٹ

لندن ۔ 11 ستمبر کو امریکا میں دھماکوں کے بعد مسلم دنیا کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا لیکن پختہ دلیل کے ساتھ بہت کم باتیں کہی گئی ہیں ۔ مغرب کے بارے میں مسلمان کیا سوچتے ہیں ان باتوں کو ایک کتاب میں یکجا کیا گیا ہے جس کا نام ’’ اسلام کے بارے میں کون کیا بولتا ہے ‘‘ رکھا گیا ہے ۔ عالمی پولنگ گروپ نے گزشتہ چھ سال کے دوران دنیا بھر کے 35 مسلم ممالک کے کم و بیش پچاس ہزار مسلمانوں سے باتیں کر کے ان کی رائے معلوم کی ہے۔ اس طرح اس کو عالم اسلام کی رائے کے بارے میں پہلا جامع سروے قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کتاب میں ان لوگوں کی رائے اس لیے جمع کی گئی ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ایک ارب تیس کروڑ مسلمان حقیقت میں کیا سوچتے ہیں ۔ کتاب میں بعض مقامات پر ایسے حیرت انگیز شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب کے بارے میں مسلمانوں کی رائے کیا ہے اور وہ کس طرح دونوں جانب غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں بعض اوقات سیاستدان اور میڈیا ہوا دے کر کشیدگی کا سبب بناتے ہیں ۔ کتاب کی شریک مصنف ڈالیا موگا ہیڈ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں اور مغربی برادری کے درمیان تنازعات ایسے نہیں ہیں جن سے گریز ممکن نہ ہو ۔ ڈالیا اور جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر جون اسپوسیٹو نے جمع کئے گئے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان تنازعات کا تعلق اصولوں کی بجائے پالیسی سے ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر پائے جانے والے جذبات کے باوجود پوری دنیا کے مسلمان ان اصولوں کی تعریف کرتے ہیں جو مغرب نے اپنا رکھے ہیں جن میں آزادی اظہار رائے ۔ جمہوریت ، ٹیکنیکل ترقی اور علم تک رسائی شامل ہے ۔ مسلمان مغرب کو بت تراش نہیں سمجھتے بلکہ مختلف ملکوں کے بارے میں ان کی رائے کا انحصار ان کی ثقافت اور مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی پالیسیوں کی بنیاد پر ہے ۔ڈالیا نے لکھا ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی جارحیت سے جس کی برطانیہ نے کھل کر حمایت کی۔ مسلم دنیا میں ان کی ساکھ جارح ملکوں کی ہو گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں جو اب بھی امریکا اور برطانیہ کو ان کے شہریوں کو حاصل آزادی کی وجہ سے ان کی تعریف کرتے ہیں ۔ مغربی اقدار کی تعریف کرنے کے باوجود بہت سے مسلمانوں کو یہ احساس ہے کہ ان کی قدر نہیں کی جاتی اور جب مسلم دنیا پر جمہوری اقدار کا اطلاق کا وقت آتا ہے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوری اقدار کے بارے میں مغر ب کا تصور زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس کی ایک حالیہ مثال 2006 ء میں فلسطین کے انتخابات ہیں جن میں حماس نے صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے کامیابی حاصل کی لیکن امریکا اور اسرائیل نے ان نتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے حماس کو حکومت سے بے دخل کر دیا

No comments: