لاہور ۔ پنجاب حکومت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے دیگر معزول جج صاحبان کو 24 مئی کو فیصل آباد اور اس کے بعد لاہور میں وکلاء کنونشن کے موقع پر آئین کے تحت ان جج صاحبان کو مکمل پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کرے گی جبکہ وکلاء تحریک کے دوران لانگ مارچ سمیت ہر ایونٹ کے موقع پر وکلاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی ۔ اس امر کا اظہار صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے پنجاب اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے ججوں کے معزولی کے 3 نومبر کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتی ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔ لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور معزول کئے جانے والے دیگر تمام ججوںکو آئین کے تحت انہیں سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا وہی پروٹوکول ہو گا جو آئین و قانون کے تحت ایک چیف جسٹس کا ہونا چاہیئے کیونکہ آئین کے تحت انہیں معزول نہیں کیا گیا اور ہماری نظرمیں وہ آج بھی حقیقی چیف جسٹس ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو اس فیصلہ سے متعلق اعتماد میں لینے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ پر ہمیں پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے کیونکہ ججوں کی بحالی کے حوالہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے تاہم ان کی بحالی کیلئے طریقہ کار پر اختلاف ضرور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت تو ان ججوں کو تنخواہ دینے کی پیش کش بھی کر چکی ہے ،تنخواہ صرف حاضر سروس ججوں کو ہی دی جا سکتی ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا اس فیصلہ سے صدر کے پنجاب میں نمائندے گورنر پنجاب اور پنجاب حکومت کے درمیان مزید فیصلے پیدا نہیں ہوں گے اورکیا وہ اس اقدام کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کوئی غیر آئینی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کسی کو بھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیئے ۔ انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر اختلافات کو دور کیا جا چکا ہے ۔ باقی ماندہ اختلافات دور کرنے کیلئے دونوں جماعتوں کی جانب سے 3`3 ارکان پر مشتمل سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اگر چیف جسٹس کے پروگراموں پر متعلقہ بار ایسوسی ایشن سیاسی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دیں تو اسے قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ماضی میں ایسے پروگراموں میں سیاسی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تاہم مسلم لیگ (ن) کے ورکرز چیف جسٹس اور دیگر معزول جج صاحبان کا بار ایسوسی ایشن کی باؤنڈری وال کے باہر بھرپور استقبال کریں گے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے مسلم لیگ (ن) کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے تاہم جب وہ نگران وزیر تھے اس دوران کچھ مسائل ضرور پیدا ہوئے ۔ اس سوال پر کہ پنجاب حکومت کی معزول ججوںکو پروٹوکول دینے کی پالیسی ایوان صدر سے ٹکراؤ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب 3 نومبر کا اقدام ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا تو پھر ٹکراؤ کیسا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معزول ججوں کی بحالی کیلئے مسلم لیگ اپنی صوبائی حکومت سمیت کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کر ے گی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر مشرف کو بھی پنجاب حکومت سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ یہاں آئیں گے تو اس کا فیصلہ بھی کرلیا جائے گا ۔وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے گورنر ہاؤس نہ جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اتحادی ضرور ہیں لیکن یہ کوئی ڈسپلن فورس نہیں ہے ہماری اپنی سیاسی سوچ اور اپنا منشور ہے جس پر ہم اپنے اپنے طریقے سے عمل پیرا ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر نے 18 فروری کے انتخابات کے نتائج کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا حالانکہ جنرل (ر) پرویز مشرف انتخابات سے پہلے اعلان کر چکے تھے کہ اگر ان کی حامی جماعتیں الیکشن ہار گئیں تو وہ مستعفی ہو جائیں گے ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, May 20, 2008
پنجاب حکومت افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس اور دیگر سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے معزول ججوں کو حاضر سروس ججز کا پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کرے گی ۔وزیر ق
لاہور ۔ پنجاب حکومت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے دیگر معزول جج صاحبان کو 24 مئی کو فیصل آباد اور اس کے بعد لاہور میں وکلاء کنونشن کے موقع پر آئین کے تحت ان جج صاحبان کو مکمل پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کرے گی جبکہ وکلاء تحریک کے دوران لانگ مارچ سمیت ہر ایونٹ کے موقع پر وکلاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی ۔ اس امر کا اظہار صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے پنجاب اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے ججوں کے معزولی کے 3 نومبر کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتی ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔ لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور معزول کئے جانے والے دیگر تمام ججوںکو آئین کے تحت انہیں سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا وہی پروٹوکول ہو گا جو آئین و قانون کے تحت ایک چیف جسٹس کا ہونا چاہیئے کیونکہ آئین کے تحت انہیں معزول نہیں کیا گیا اور ہماری نظرمیں وہ آج بھی حقیقی چیف جسٹس ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو اس فیصلہ سے متعلق اعتماد میں لینے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ پر ہمیں پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے کیونکہ ججوں کی بحالی کے حوالہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے تاہم ان کی بحالی کیلئے طریقہ کار پر اختلاف ضرور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت تو ان ججوں کو تنخواہ دینے کی پیش کش بھی کر چکی ہے ،تنخواہ صرف حاضر سروس ججوں کو ہی دی جا سکتی ہے ۔ اس سوال پر کہ کیا اس فیصلہ سے صدر کے پنجاب میں نمائندے گورنر پنجاب اور پنجاب حکومت کے درمیان مزید فیصلے پیدا نہیں ہوں گے اورکیا وہ اس اقدام کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کوئی غیر آئینی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کسی کو بھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیئے ۔ انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر اختلافات کو دور کیا جا چکا ہے ۔ باقی ماندہ اختلافات دور کرنے کیلئے دونوں جماعتوں کی جانب سے 3`3 ارکان پر مشتمل سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اگر چیف جسٹس کے پروگراموں پر متعلقہ بار ایسوسی ایشن سیاسی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دیں تو اسے قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ماضی میں ایسے پروگراموں میں سیاسی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تاہم مسلم لیگ (ن) کے ورکرز چیف جسٹس اور دیگر معزول جج صاحبان کا بار ایسوسی ایشن کی باؤنڈری وال کے باہر بھرپور استقبال کریں گے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے مسلم لیگ (ن) کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے تاہم جب وہ نگران وزیر تھے اس دوران کچھ مسائل ضرور پیدا ہوئے ۔ اس سوال پر کہ پنجاب حکومت کی معزول ججوںکو پروٹوکول دینے کی پالیسی ایوان صدر سے ٹکراؤ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب 3 نومبر کا اقدام ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا تو پھر ٹکراؤ کیسا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معزول ججوں کی بحالی کیلئے مسلم لیگ اپنی صوبائی حکومت سمیت کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کر ے گی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر مشرف کو بھی پنجاب حکومت سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ یہاں آئیں گے تو اس کا فیصلہ بھی کرلیا جائے گا ۔وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے گورنر ہاؤس نہ جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اتحادی ضرور ہیں لیکن یہ کوئی ڈسپلن فورس نہیں ہے ہماری اپنی سیاسی سوچ اور اپنا منشور ہے جس پر ہم اپنے اپنے طریقے سے عمل پیرا ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر نے 18 فروری کے انتخابات کے نتائج کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا حالانکہ جنرل (ر) پرویز مشرف انتخابات سے پہلے اعلان کر چکے تھے کہ اگر ان کی حامی جماعتیں الیکشن ہار گئیں تو وہ مستعفی ہو جائیں گے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment