ملک بھر میں ضمنی انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) قاضی محمد فاروق نے ملک میں امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد نے کہا کہ ضمنی انتخابات کیلئے امیدواروں کو دوبارہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ضرورت نہیں تاہم نئے انتخابی شیڈول کا اعلان جلد کیا جائے گا الیکشن کمیشن ایک مکمل خود مختار ادارہ ہے،التواء پر ایوانِ صدر نے مداخلت کی نہ ہدایات جاری کی بلکہ التواء کا فیصلہ صوبہ سرحد کے سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ کی پر کیا گیا جبکہ حکمراں اتحاد اس سلسلے میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ،عدالت جائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میں شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے التواء کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوان صدر کی سازش ہے۔تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے دوسری مرتبہ ضمنی انتخابات ملتوی کردیئے۔ پہلے 3 جون کو ضمنی انتخابات ہونا تھے اس کے بعد 18 جون کو ضمنی انتخابات منعقد کرنے کے لئے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ نئے فیصلے کے تحت اب 18 اگست کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 38 نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے۔ ان میں قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ سرحد اور ملک کے بعض حصوں میں امن وامان اور سیکورٹی کے حالات بہتر نہیں ہیں جبکہ جون میں قومی اور صوبائی بجٹ منظور ہونا ہیں اس لئے ضمنی انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے الیکٹرول ریفارمز کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو نہ صرف تمام انتخابی قوانین کا بغور جائزہ لے گی بلکہ عام انتخابات اور اس کے بعد آنے والی تمام تجاویز کا بھی مشاہدہ کرے گی۔ جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں، انہیں نئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم الیکشن کمیشن 18 اگست کے لئے نئے انتخابات شیڈول کا اعلان جلد کرے گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مکمل خود مختار اداراہ ہے تاہم ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کے لئے ایوان صدر کی نہ تو کوئی مداخلت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ضمنی انتخابات دوسری بار ملتوی کئے گئے ہیں ،قبل ازیں انہیں 18جون تک ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت کمیشن کا موقف تھا کہ اسمبلی اجلاسوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے لئے مشکل ہے کہ وہ ان ضمنی انتخابات کے سلسلے میں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر سکیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کو سہولت کے لئے ضمنی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی لائی گئی ہے ۔ اس مرتبہ انتخابی کمیشن کے سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ فیصلہ صوبہ سرحد کے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے موصول رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔ اس رپورٹ میں انہوں نے امن عامہ کی صورتحال کو خراب قرار دیا ہے ۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے التواء کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوان صدر کی سازش ہے،انہوں نے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں حلقہ پی پی 141 اور پی پی 154 سے اپنے کاغذات نامزدگی گزشتہ روز ریٹرذنگ آفیسر ابراہیم اصغر اور چوہدری شاہد کی عدالت میں جمع کرا دیئے۔ وہ ایک مختصرسے جلوس کے ہمراہ آئے ان کی آمد کے موقع پر وہاں موجود کارکنوں نے نعرے لگائے۔ میاں شہبازشریف نے ریٹرننگ آفیسرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی طرح ڈنڈی نہ ماری جائے کیونکہ پہلے ڈنڈی مارتے ہوئے میرے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے، اس دفعہ معاملہ بالکل صاف ہے کاغذات مسترد نہ کئے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کی وجوہات ٹھیک نہیں، مجھے سازش کی بو آرہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ سازش کون کر رہا ہے لیکن بیوروکریسی کے ذریعے سازش ہو رہی ہے، اگر مسلم لیگ (ن) ان انتخابات کے التواء پر عدالت میں جائے گی تو ہم ان کے ساتھ ہونگے، اٹارنی جنرل وہ شخص ہیں جنہوں نے میرے ساتھ شہید بینظیر کو بھی سزا دی تھی اور وکلاء نے انہیں اپنی بار کا صدر بنایا تھا لیکن ہم ذاتی اختلافات میں نہیں پڑنا چاہتے، کسی کو ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہئے کہ 12 مئی کو جج بحال نہیں ہونگے، فخر الدین جی ابراہیم مسلم لیگ (ن) کے تجویز کردہ لوگوں میں سے ہیں، ہم بہت جلد انہیں آئینی کمیٹی میں واپس لے آئینگے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ججوں کی بحالی میں 30 روز کا وقت دینے کے بعد مزید 12دن کا اضافہ کیوں کیا گیا، ملک سے آمریت کو ہٹاکر جمہوری نظام کو بحال کرنے کا جو موقع ملا ہے تو اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے لیکن ججوں کی بحالی میں کچھ روز کی تاخیر کو صحیح کہنا ٹھیک نہیں، کسی بھی نئی حکومت کا ہنی مون پیریڈ صرف 100 دن ہوتا ہے، اس کے بعد اگر یہ کسی اور پر الزام دھریں گے تو لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ سب سے بڑا ذریعہ ایوان صدر ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ حکمراں اتحاد کی مضبوطی اور ججوں کی بحالی سے سب سے زیادہ نقصان ایوان صدر کو ہی ہوگا، جب تک سابقہ دور کے اہم افراد کو نہیں ہٹایا جائے گا، اس وقت تک سازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ ججوں کی بحالی کمیٹی سے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا لاتعلقی کا اعلان پاکستان بار کونسل کی قرارداد کے عین مطابق ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا کہ کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17سے بڑھا کر 27کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے ایسا کرنا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے اعلان مری اور میثاق جمہوریت کی بھی نفی ہے کیونکہ میثاق جمہوریت میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ پی سی او کے تحت کسی بھی جج کو حلف لینے نہیں دیا جائے گا۔ فخر الدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ ان حالات میں اس کمیٹی کا حصہ بننے سے قاصر ہیں۔ ججوں کی بحالی ایسا نہیں جو حل نہ کیا جاسکے اس کے لئے صرف انتظامی حکم نامہ کافی ہے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی ملازمت بڑھا کر نوازنے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب آئین کی پاسداری کرنے والے ججوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا جارہا ہے۔ ججز بحالی کی کمیٹی میں وہ مسائل بیان کئے جارہے ہیں جو سال بھر میں بھی حل نہیں ہوں گے۔ معزول ججوں کو چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں وہ پریشانیوں کا شکار ہیں۔ 16 مئی کو پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ کہ ہمارے چبف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں۔ اگر ججوں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی ایسا فیصلہ آیا جو قوم کی امنگوں کے خلاف ہوا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ وزیراعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ انہوں نے ضمنی الیکشن کے التواء کی درخواست مشیر داخلہ رحمن ملک کے کہنے پر کی تھی۔ ایک سرکاری ہینڈ آو¿ٹ میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں مختصر مدت کے التواء کی تجویز دی گئی تھی رحمن ملک نے کہا تھا کہ تین صوبے مان گئے ہیں آپ بھی مان جائیں۔ اس سلسلے میں رحمن ملک نے ٹیلی فون کرکے ان سے بات کی تھی انتخابات کا التواء صوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی خواہش پر عمل میں لایا گیا ہے صوبے میں ضمنی انتخابات صوبائی حکومت نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی خواہش پر ملتوی ہوئے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے انعقاد کو طوالت نہیں دینی چاہئے کیونکہ ان سے ان حلقوں کی عدم نمائندگی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاء اتحاد اور وکلاء تحریک سے زیادہ الیکشن یا عہدے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، لیکن میرے الیکشن لڑنے کے اعلان سے ایوان صدر لرز گیاہے اور وہ تشویش میں مبتلا ہے۔ ( ن ) لیگ نے راولپنڈی میں مجھے اپنی سیٹ دی اور پیپلز پارٹی مجھے ٹکٹ دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے میرا چالیس سال کا رشتہ ہے اور میرا عہد ہے کہ پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر ججوں کو بحال کراو¿ں گا۔ آج وکلاء کو باہم متصادم کرانے کے بعد وکلاء اور میڈیا میں تصادم کی سازش کی جا رہی ہیں۔ میڈیا پر ہاتھ اٹھانے والے وکلاء ایوان صدر کی سازشوں کا حصہ نہ بنیں وکلاء تحریک ذرائع ابلاغ کی مرہون منت ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ صدر مشرف کا کوئی کام نہیں کہ وہ ہماری پارٹی کی قیادت تبدیل کرنے کی باتیں کریں، حکومتی اتحاد کے پرویز مشرف سے اچھے تعلقات ہیں، ہماری دعا ہے کہ موجودہ حکومت پانچ سال پورے کرے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ حکومتی اتحاد پرویز مشرف کا مواخذہ تو دور کی بات ہے اس کیلئے اسمبلی میں تحریک بھی نہیں لائے گا، نواز شریف اپنی مرضی کے ججز لا کر اپنی سزائیں اور مقدمات ختم کروانا چاہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کہ جس طرح آصف علی زرداری اور نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے ، معزول ججوں کی بحالی میں مشکلات پیدا کرنے کی صورت میں صدر پرویز کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں فریقوں نے ایوانِ صدر کی جانب سے ممکنہ رکاوٹوں سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ایوانِ صدر اب بھی پاک فوج کی پشت پناہی پر انحصار کر رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اسلام آباد اور دبئی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مختلف سطحوں پر ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ ججوں کی سادہ قرار داد اور اسکے بعد انتظامی حکم نامے کے ذریعے بحالی کی صورت میں بھی حکومت کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کیلئے مجوزہ آرڈیننس یا پارلیمنٹ کی جانب سے قانون میں منظور کردہ ترمیم کیلئے صدر کی فوری رضامندی درکار ہوگی۔ چونکہ پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ معزول ججوں کو بحال کرتے ہوئے پی سی او ججوں کو نہ ہٹایا جائے اس صورت میں ان معزز ججوں، جنہوں نے تین نومبر کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا، کی واپسی سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ کے معاملے میں قانونی طور پر 17 ججوں کی گنجائش بڑھ کر 27 ہوجائے گی۔ اس قانونی بے قاعدگی سے نمٹنے کیلئے پی پی اور نواز لیگ کے رہنما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرارداد اور انتظامی حکم نامے کے علاوہ ججوں کی تعداد میں اضافے کو ضابطے کے مطابق بنانے کیلئے موجودہ قانون میں ترمیم بھی کرنا ہوگی۔ اگر پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس عمل میں ہفتوں اور اگر صدر نے بل پر فوری دستخط نہ کئے تو اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ آئین صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ 30روز کے اندر بل پر اپنی رضامندی ظاہر کریں یا پھر مزید ترمیم کیلئے واپس پارلیمنٹ کو بھجوا دیں۔ بل واپس کرنے کی صورت میں آئین کے مطابق اس پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غور کیا جائیگا اور اگر یہ دوبارہ کسی ترمیم یا اس کے بغیر منظور کیا جاتا ہے تو یہ پھر ایک بار صدر کے پاس جائے گا جنہیں اس صورت میں اپنی رضامندی دینی ہی ہوگی۔ اگر صدر اس بل پر 30 یوم کے اندر دستخط نہیں کرتے تو یہ از خود ایکٹ بن جائے گا۔ چونکہ یہ عمل طویل ہے لہٰذا اتحادیوں میں غالب نکتہ نظر یہی ہے کہ آرڈیننس جاری ہونا چاہئے۔ اسی سوال پر حال ہی میں قائم کردہ 10 رکنی کمیٹی، جس کے سربراہ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ہیں، بھی غور کر رہی ہے اور جس کی سفارشات یہ فیصلہ کریں گی کہ آیا پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جائے یا پھر آرڈیننس جاری کیا جائے۔ کسی بھی قانون میں ترمیم کیلئے آرڈیننس کا اجراء سب سے تیز ترین راستہ ہے۔ آئین کے تحت صدر مملکت کسی ہنگامی معاملے پر آرڈیننس جاری کرتے ہیں اور یہ وزیراعظم ہیں جو صدر کو آرڈیننس جاری کرنیکا مشورہ دیتے ہیں۔ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی جانب سے اس قسم کے مشورے پر عمل کرنا صدر کیلئے لازمی ہوتا ہے۔ تاہم، صدر مملکت آرڈیننس کے مسودے کو دوبارہ جائزے کیلئے وزیراعظم کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کے ذرائع نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی مذاکرات کئے ہیں کہ اگر صدر مملکت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کیلئے آرڈیننس منظور کرنے میں تاخیر کرتے ہیں تو یہ پرویز مشرف کیخلاف مواخذے کی تحریک لانے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ مواخذے کیلئے، پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن ان الزامات کی تحقیقات کرتا ہے جس کی وجہ سے مواخذے کی تحریک لائی گئی ہے۔ ایسی تحقیقات یا اسکے بغیر اگر مشترکہ سیشن کل ارکان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ یہ قرارداد منظور کرلیتا ہے کہ صدر عہدے پر برقرار رہنے کیلئے اہل نہیں، تو اس صورت میں قرارداد منظور ہوتے ہی فوری طور پر صدر کو عہدہ چھوڑنا ہوگا۔ ایک ذریعے کے مطابق، صدر پرویز کی جانب سے مسلم لیگ (ق)، جسے کنگز پارٹی کا نام بھی دیا جاتا رہا ہے، کی قیادت تبدیل کرنے کی حالیہ کوششیں بھی ان کے مواخذے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ چوہدریوں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کو (ق) لیگ کے صدر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی ہے، یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے چوہدریوں نے حیران کن طریقے سے مسترد کردیا ہے۔ ضمنی انتخابات کی میعاد مقرر ہے، مدت گزرنے کے بعد الیکشن ہوئے تو غیر آئینی ہوں گے۔ نشست خالی ہونے کے 60 دن میں انتخابات کرانے چاہئیں۔ کسی بناء پر التواء ناگزیر ہو جائے تب بھی آئین کی خلاف ورزی سے پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔ حکومت یا عدلیہ کے پاس الیکشن کمیشن کو ریگولیٹ کرنے، مانیٹر کرنے یا ایڈوائس دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ الیکشن کمیشن اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے۔ اس ادارے کے اپنے اختیارات ہیں۔ ججوں کی بحالی کے معاملے پر کمیٹی کوسنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔جہاں آمر کے ہاتھوں معزول ہونے والے حقیقی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہو سکا وہاں صدر مشرف کے تعینات کردہ پی سی او ججوں کی پیشگی کنفرمیشن وہ وجہ بنی جس کے باعث انتہائی محترم اور اعلیٰ سطحی آئینی ماہر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم ججوں کی پارلیمانی قرارداد کے ذریعے بحالی کا طریقہ کا روضع کرنے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ فخرالدین جی ابراہیم کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے کمیٹی چھوڑنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی کمیٹی کا حصہ بننے سے محفوظ رکھ سکیں جو مستقبل میں گڑبڑ پیدا کرتے ہوئے 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد مشرف کے تعینات کردہ پی سی او ججوں کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ ذرائع کے مطابق فخرالدین جی ابراہیم کو یقین ہے کہ کمیٹی میں عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے لوگوں کی موجودگی اعلان مری اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کو مذاق بنا کر رکھ دے گی۔ مزید برآں یہ کمیٹی 9 مارچ کو طے پانے والے مری معاہدے کے مطابق کسی فیصلے پر پہنچتی دکھائی نہیں دے رہی۔ 14 ماہ سے بھی کم وقت میں ایک اور حرف انکار نے صدر پرویز مشرف کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا۔اس مرتبہ یہ انکار ایک جہاندیدہ سیاستدان کی جانب سے کیا گیا ہے۔چوہدری شجاعت حسین قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کے بعد اس طرح کے کسی حادثے کی زد میں تھے ۔ مسلم لیگ قائد اعظم کی صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے سے چوہدری شجاعت حسین نے انکار کرکے پورا منظر نامہ تبدیل کردیا ہے اور ایوان صدر کے سیاسی عزائم کو ناکام بنادیا ہے۔ گی۔ نواز لیگ اس طرح کے کسی پیشرفت میں پیپلز پارٹی کے ردعمل کو بھی ذہن میں رکھے گی۔ ذرائع نے کہا کہ اس مقصد کیلئے چوہدری نواز شریف کے ساتھ وقار سے ڈیل کی اپنی پیشکش کا احیا کرسکتے ہیں اور ایسی صورتحال میں صدر پرویز مشرف کے پاس ایوان صدر خالی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’قومی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے اجرا کے باوجود صدر کو اگر اعتماد میں نہ لیا گیا تو وہ معزول ججوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرینگے“۔معزول ججوں کی بحالی کیلئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے انتظامی حکم کے باوجود صدارتی نوٹیفکیشن ضروری ہوگا۔ آئین کے تحت صدر نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرریاں کیں جو کہ ”چیف جسٹس آف پاکستان کے مشورے“ سے عمل میں آئیں۔ ایک ماہر نے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ”اپنے فرائض کی ادائیگی میں صدر کابینہ (یا وزیر اعظم) کی ایڈوائس پر کارروائی کرینگے“ ماسوائے ان معاملات کے جو ان کے صوابدیدی اختیارات کے تحت آتے ہیں تاہم کچھ آئینی ماہرین سختی سے اس نقطہ نظر کے قائل ہیں کہ عدالتی تقرریوں کے معاملے میں صدر محض ڈاک خانے کے طور پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, May 6, 2008
آصف زرداری اہم افراد کو ہٹا دیں۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی اے پی ایس
چودھری احسن پریمی اے پی ایس
ملک بھر میں ضمنی انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) قاضی محمد فاروق نے ملک میں امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد نے کہا کہ ضمنی انتخابات کیلئے امیدواروں کو دوبارہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ضرورت نہیں تاہم نئے انتخابی شیڈول کا اعلان جلد کیا جائے گا الیکشن کمیشن ایک مکمل خود مختار ادارہ ہے،التواء پر ایوانِ صدر نے مداخلت کی نہ ہدایات جاری کی بلکہ التواء کا فیصلہ صوبہ سرحد کے سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ کی پر کیا گیا جبکہ حکمراں اتحاد اس سلسلے میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ،عدالت جائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میں شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے التواء کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوان صدر کی سازش ہے۔تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے دوسری مرتبہ ضمنی انتخابات ملتوی کردیئے۔ پہلے 3 جون کو ضمنی انتخابات ہونا تھے اس کے بعد 18 جون کو ضمنی انتخابات منعقد کرنے کے لئے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ نئے فیصلے کے تحت اب 18 اگست کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 38 نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے۔ ان میں قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ سرحد اور ملک کے بعض حصوں میں امن وامان اور سیکورٹی کے حالات بہتر نہیں ہیں جبکہ جون میں قومی اور صوبائی بجٹ منظور ہونا ہیں اس لئے ضمنی انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے الیکٹرول ریفارمز کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو نہ صرف تمام انتخابی قوانین کا بغور جائزہ لے گی بلکہ عام انتخابات اور اس کے بعد آنے والی تمام تجاویز کا بھی مشاہدہ کرے گی۔ جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں، انہیں نئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم الیکشن کمیشن 18 اگست کے لئے نئے انتخابات شیڈول کا اعلان جلد کرے گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مکمل خود مختار اداراہ ہے تاہم ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کے لئے ایوان صدر کی نہ تو کوئی مداخلت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ضمنی انتخابات دوسری بار ملتوی کئے گئے ہیں ،قبل ازیں انہیں 18جون تک ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت کمیشن کا موقف تھا کہ اسمبلی اجلاسوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے لئے مشکل ہے کہ وہ ان ضمنی انتخابات کے سلسلے میں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر سکیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کو سہولت کے لئے ضمنی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی لائی گئی ہے ۔ اس مرتبہ انتخابی کمیشن کے سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ فیصلہ صوبہ سرحد کے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے موصول رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔ اس رپورٹ میں انہوں نے امن عامہ کی صورتحال کو خراب قرار دیا ہے ۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے التواء کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوان صدر کی سازش ہے،انہوں نے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں حلقہ پی پی 141 اور پی پی 154 سے اپنے کاغذات نامزدگی گزشتہ روز ریٹرذنگ آفیسر ابراہیم اصغر اور چوہدری شاہد کی عدالت میں جمع کرا دیئے۔ وہ ایک مختصرسے جلوس کے ہمراہ آئے ان کی آمد کے موقع پر وہاں موجود کارکنوں نے نعرے لگائے۔ میاں شہبازشریف نے ریٹرننگ آفیسرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی طرح ڈنڈی نہ ماری جائے کیونکہ پہلے ڈنڈی مارتے ہوئے میرے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے، اس دفعہ معاملہ بالکل صاف ہے کاغذات مسترد نہ کئے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کی وجوہات ٹھیک نہیں، مجھے سازش کی بو آرہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ سازش کون کر رہا ہے لیکن بیوروکریسی کے ذریعے سازش ہو رہی ہے، اگر مسلم لیگ (ن) ان انتخابات کے التواء پر عدالت میں جائے گی تو ہم ان کے ساتھ ہونگے، اٹارنی جنرل وہ شخص ہیں جنہوں نے میرے ساتھ شہید بینظیر کو بھی سزا دی تھی اور وکلاء نے انہیں اپنی بار کا صدر بنایا تھا لیکن ہم ذاتی اختلافات میں نہیں پڑنا چاہتے، کسی کو ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہئے کہ 12 مئی کو جج بحال نہیں ہونگے، فخر الدین جی ابراہیم مسلم لیگ (ن) کے تجویز کردہ لوگوں میں سے ہیں، ہم بہت جلد انہیں آئینی کمیٹی میں واپس لے آئینگے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ججوں کی بحالی میں 30 روز کا وقت دینے کے بعد مزید 12دن کا اضافہ کیوں کیا گیا، ملک سے آمریت کو ہٹاکر جمہوری نظام کو بحال کرنے کا جو موقع ملا ہے تو اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے لیکن ججوں کی بحالی میں کچھ روز کی تاخیر کو صحیح کہنا ٹھیک نہیں، کسی بھی نئی حکومت کا ہنی مون پیریڈ صرف 100 دن ہوتا ہے، اس کے بعد اگر یہ کسی اور پر الزام دھریں گے تو لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ سب سے بڑا ذریعہ ایوان صدر ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ حکمراں اتحاد کی مضبوطی اور ججوں کی بحالی سے سب سے زیادہ نقصان ایوان صدر کو ہی ہوگا، جب تک سابقہ دور کے اہم افراد کو نہیں ہٹایا جائے گا، اس وقت تک سازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ ججوں کی بحالی کمیٹی سے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا لاتعلقی کا اعلان پاکستان بار کونسل کی قرارداد کے عین مطابق ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا کہ کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17سے بڑھا کر 27کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے ایسا کرنا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے اعلان مری اور میثاق جمہوریت کی بھی نفی ہے کیونکہ میثاق جمہوریت میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ پی سی او کے تحت کسی بھی جج کو حلف لینے نہیں دیا جائے گا۔ فخر الدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ ان حالات میں اس کمیٹی کا حصہ بننے سے قاصر ہیں۔ ججوں کی بحالی ایسا نہیں جو حل نہ کیا جاسکے اس کے لئے صرف انتظامی حکم نامہ کافی ہے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی ملازمت بڑھا کر نوازنے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب آئین کی پاسداری کرنے والے ججوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا جارہا ہے۔ ججز بحالی کی کمیٹی میں وہ مسائل بیان کئے جارہے ہیں جو سال بھر میں بھی حل نہیں ہوں گے۔ معزول ججوں کو چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں وہ پریشانیوں کا شکار ہیں۔ 16 مئی کو پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ کہ ہمارے چبف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں۔ اگر ججوں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی ایسا فیصلہ آیا جو قوم کی امنگوں کے خلاف ہوا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ وزیراعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ انہوں نے ضمنی الیکشن کے التواء کی درخواست مشیر داخلہ رحمن ملک کے کہنے پر کی تھی۔ ایک سرکاری ہینڈ آو¿ٹ میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں مختصر مدت کے التواء کی تجویز دی گئی تھی رحمن ملک نے کہا تھا کہ تین صوبے مان گئے ہیں آپ بھی مان جائیں۔ اس سلسلے میں رحمن ملک نے ٹیلی فون کرکے ان سے بات کی تھی انتخابات کا التواء صوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی خواہش پر عمل میں لایا گیا ہے صوبے میں ضمنی انتخابات صوبائی حکومت نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی خواہش پر ملتوی ہوئے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے انعقاد کو طوالت نہیں دینی چاہئے کیونکہ ان سے ان حلقوں کی عدم نمائندگی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاء اتحاد اور وکلاء تحریک سے زیادہ الیکشن یا عہدے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، لیکن میرے الیکشن لڑنے کے اعلان سے ایوان صدر لرز گیاہے اور وہ تشویش میں مبتلا ہے۔ ( ن ) لیگ نے راولپنڈی میں مجھے اپنی سیٹ دی اور پیپلز پارٹی مجھے ٹکٹ دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے میرا چالیس سال کا رشتہ ہے اور میرا عہد ہے کہ پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر ججوں کو بحال کراو¿ں گا۔ آج وکلاء کو باہم متصادم کرانے کے بعد وکلاء اور میڈیا میں تصادم کی سازش کی جا رہی ہیں۔ میڈیا پر ہاتھ اٹھانے والے وکلاء ایوان صدر کی سازشوں کا حصہ نہ بنیں وکلاء تحریک ذرائع ابلاغ کی مرہون منت ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ صدر مشرف کا کوئی کام نہیں کہ وہ ہماری پارٹی کی قیادت تبدیل کرنے کی باتیں کریں، حکومتی اتحاد کے پرویز مشرف سے اچھے تعلقات ہیں، ہماری دعا ہے کہ موجودہ حکومت پانچ سال پورے کرے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ حکومتی اتحاد پرویز مشرف کا مواخذہ تو دور کی بات ہے اس کیلئے اسمبلی میں تحریک بھی نہیں لائے گا، نواز شریف اپنی مرضی کے ججز لا کر اپنی سزائیں اور مقدمات ختم کروانا چاہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کہ جس طرح آصف علی زرداری اور نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے ، معزول ججوں کی بحالی میں مشکلات پیدا کرنے کی صورت میں صدر پرویز کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں فریقوں نے ایوانِ صدر کی جانب سے ممکنہ رکاوٹوں سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ایوانِ صدر اب بھی پاک فوج کی پشت پناہی پر انحصار کر رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اسلام آباد اور دبئی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مختلف سطحوں پر ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ ججوں کی سادہ قرار داد اور اسکے بعد انتظامی حکم نامے کے ذریعے بحالی کی صورت میں بھی حکومت کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کیلئے مجوزہ آرڈیننس یا پارلیمنٹ کی جانب سے قانون میں منظور کردہ ترمیم کیلئے صدر کی فوری رضامندی درکار ہوگی۔ چونکہ پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ معزول ججوں کو بحال کرتے ہوئے پی سی او ججوں کو نہ ہٹایا جائے اس صورت میں ان معزز ججوں، جنہوں نے تین نومبر کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا، کی واپسی سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ کے معاملے میں قانونی طور پر 17 ججوں کی گنجائش بڑھ کر 27 ہوجائے گی۔ اس قانونی بے قاعدگی سے نمٹنے کیلئے پی پی اور نواز لیگ کے رہنما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرارداد اور انتظامی حکم نامے کے علاوہ ججوں کی تعداد میں اضافے کو ضابطے کے مطابق بنانے کیلئے موجودہ قانون میں ترمیم بھی کرنا ہوگی۔ اگر پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس عمل میں ہفتوں اور اگر صدر نے بل پر فوری دستخط نہ کئے تو اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ آئین صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ 30روز کے اندر بل پر اپنی رضامندی ظاہر کریں یا پھر مزید ترمیم کیلئے واپس پارلیمنٹ کو بھجوا دیں۔ بل واپس کرنے کی صورت میں آئین کے مطابق اس پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غور کیا جائیگا اور اگر یہ دوبارہ کسی ترمیم یا اس کے بغیر منظور کیا جاتا ہے تو یہ پھر ایک بار صدر کے پاس جائے گا جنہیں اس صورت میں اپنی رضامندی دینی ہی ہوگی۔ اگر صدر اس بل پر 30 یوم کے اندر دستخط نہیں کرتے تو یہ از خود ایکٹ بن جائے گا۔ چونکہ یہ عمل طویل ہے لہٰذا اتحادیوں میں غالب نکتہ نظر یہی ہے کہ آرڈیننس جاری ہونا چاہئے۔ اسی سوال پر حال ہی میں قائم کردہ 10 رکنی کمیٹی، جس کے سربراہ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ہیں، بھی غور کر رہی ہے اور جس کی سفارشات یہ فیصلہ کریں گی کہ آیا پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جائے یا پھر آرڈیننس جاری کیا جائے۔ کسی بھی قانون میں ترمیم کیلئے آرڈیننس کا اجراء سب سے تیز ترین راستہ ہے۔ آئین کے تحت صدر مملکت کسی ہنگامی معاملے پر آرڈیننس جاری کرتے ہیں اور یہ وزیراعظم ہیں جو صدر کو آرڈیننس جاری کرنیکا مشورہ دیتے ہیں۔ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی جانب سے اس قسم کے مشورے پر عمل کرنا صدر کیلئے لازمی ہوتا ہے۔ تاہم، صدر مملکت آرڈیننس کے مسودے کو دوبارہ جائزے کیلئے وزیراعظم کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کے ذرائع نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی مذاکرات کئے ہیں کہ اگر صدر مملکت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کیلئے آرڈیننس منظور کرنے میں تاخیر کرتے ہیں تو یہ پرویز مشرف کیخلاف مواخذے کی تحریک لانے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ مواخذے کیلئے، پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن ان الزامات کی تحقیقات کرتا ہے جس کی وجہ سے مواخذے کی تحریک لائی گئی ہے۔ ایسی تحقیقات یا اسکے بغیر اگر مشترکہ سیشن کل ارکان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ یہ قرارداد منظور کرلیتا ہے کہ صدر عہدے پر برقرار رہنے کیلئے اہل نہیں، تو اس صورت میں قرارداد منظور ہوتے ہی فوری طور پر صدر کو عہدہ چھوڑنا ہوگا۔ ایک ذریعے کے مطابق، صدر پرویز کی جانب سے مسلم لیگ (ق)، جسے کنگز پارٹی کا نام بھی دیا جاتا رہا ہے، کی قیادت تبدیل کرنے کی حالیہ کوششیں بھی ان کے مواخذے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ چوہدریوں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کو (ق) لیگ کے صدر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی ہے، یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے چوہدریوں نے حیران کن طریقے سے مسترد کردیا ہے۔ ضمنی انتخابات کی میعاد مقرر ہے، مدت گزرنے کے بعد الیکشن ہوئے تو غیر آئینی ہوں گے۔ نشست خالی ہونے کے 60 دن میں انتخابات کرانے چاہئیں۔ کسی بناء پر التواء ناگزیر ہو جائے تب بھی آئین کی خلاف ورزی سے پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔ حکومت یا عدلیہ کے پاس الیکشن کمیشن کو ریگولیٹ کرنے، مانیٹر کرنے یا ایڈوائس دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ الیکشن کمیشن اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے۔ اس ادارے کے اپنے اختیارات ہیں۔ ججوں کی بحالی کے معاملے پر کمیٹی کوسنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔جہاں آمر کے ہاتھوں معزول ہونے والے حقیقی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہو سکا وہاں صدر مشرف کے تعینات کردہ پی سی او ججوں کی پیشگی کنفرمیشن وہ وجہ بنی جس کے باعث انتہائی محترم اور اعلیٰ سطحی آئینی ماہر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم ججوں کی پارلیمانی قرارداد کے ذریعے بحالی کا طریقہ کا روضع کرنے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ فخرالدین جی ابراہیم کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے کمیٹی چھوڑنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی کمیٹی کا حصہ بننے سے محفوظ رکھ سکیں جو مستقبل میں گڑبڑ پیدا کرتے ہوئے 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد مشرف کے تعینات کردہ پی سی او ججوں کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ ذرائع کے مطابق فخرالدین جی ابراہیم کو یقین ہے کہ کمیٹی میں عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے لوگوں کی موجودگی اعلان مری اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کو مذاق بنا کر رکھ دے گی۔ مزید برآں یہ کمیٹی 9 مارچ کو طے پانے والے مری معاہدے کے مطابق کسی فیصلے پر پہنچتی دکھائی نہیں دے رہی۔ 14 ماہ سے بھی کم وقت میں ایک اور حرف انکار نے صدر پرویز مشرف کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا۔اس مرتبہ یہ انکار ایک جہاندیدہ سیاستدان کی جانب سے کیا گیا ہے۔چوہدری شجاعت حسین قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کے بعد اس طرح کے کسی حادثے کی زد میں تھے ۔ مسلم لیگ قائد اعظم کی صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے سے چوہدری شجاعت حسین نے انکار کرکے پورا منظر نامہ تبدیل کردیا ہے اور ایوان صدر کے سیاسی عزائم کو ناکام بنادیا ہے۔ گی۔ نواز لیگ اس طرح کے کسی پیشرفت میں پیپلز پارٹی کے ردعمل کو بھی ذہن میں رکھے گی۔ ذرائع نے کہا کہ اس مقصد کیلئے چوہدری نواز شریف کے ساتھ وقار سے ڈیل کی اپنی پیشکش کا احیا کرسکتے ہیں اور ایسی صورتحال میں صدر پرویز مشرف کے پاس ایوان صدر خالی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’قومی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے اجرا کے باوجود صدر کو اگر اعتماد میں نہ لیا گیا تو وہ معزول ججوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرینگے“۔معزول ججوں کی بحالی کیلئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے انتظامی حکم کے باوجود صدارتی نوٹیفکیشن ضروری ہوگا۔ آئین کے تحت صدر نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرریاں کیں جو کہ ”چیف جسٹس آف پاکستان کے مشورے“ سے عمل میں آئیں۔ ایک ماہر نے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ”اپنے فرائض کی ادائیگی میں صدر کابینہ (یا وزیر اعظم) کی ایڈوائس پر کارروائی کرینگے“ ماسوائے ان معاملات کے جو ان کے صوابدیدی اختیارات کے تحت آتے ہیں تاہم کچھ آئینی ماہرین سختی سے اس نقطہ نظر کے قائل ہیں کہ عدالتی تقرریوں کے معاملے میں صدر محض ڈاک خانے کے طور پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
ملک بھر میں ضمنی انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) قاضی محمد فاروق نے ملک میں امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد نے کہا کہ ضمنی انتخابات کیلئے امیدواروں کو دوبارہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ضرورت نہیں تاہم نئے انتخابی شیڈول کا اعلان جلد کیا جائے گا الیکشن کمیشن ایک مکمل خود مختار ادارہ ہے،التواء پر ایوانِ صدر نے مداخلت کی نہ ہدایات جاری کی بلکہ التواء کا فیصلہ صوبہ سرحد کے سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ کی پر کیا گیا جبکہ حکمراں اتحاد اس سلسلے میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ،عدالت جائیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میں شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے التواء کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوان صدر کی سازش ہے۔تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے دوسری مرتبہ ضمنی انتخابات ملتوی کردیئے۔ پہلے 3 جون کو ضمنی انتخابات ہونا تھے اس کے بعد 18 جون کو ضمنی انتخابات منعقد کرنے کے لئے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ نئے فیصلے کے تحت اب 18 اگست کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 38 نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے۔ ان میں قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ سرحد اور ملک کے بعض حصوں میں امن وامان اور سیکورٹی کے حالات بہتر نہیں ہیں جبکہ جون میں قومی اور صوبائی بجٹ منظور ہونا ہیں اس لئے ضمنی انتخابات دو ماہ کے لئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان نے الیکٹرول ریفارمز کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو نہ صرف تمام انتخابی قوانین کا بغور جائزہ لے گی بلکہ عام انتخابات اور اس کے بعد آنے والی تمام تجاویز کا بھی مشاہدہ کرے گی۔ جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں، انہیں نئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم الیکشن کمیشن 18 اگست کے لئے نئے انتخابات شیڈول کا اعلان جلد کرے گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مکمل خود مختار اداراہ ہے تاہم ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کے لئے ایوان صدر کی نہ تو کوئی مداخلت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ضمنی انتخابات دوسری بار ملتوی کئے گئے ہیں ،قبل ازیں انہیں 18جون تک ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت کمیشن کا موقف تھا کہ اسمبلی اجلاسوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے لئے مشکل ہے کہ وہ ان ضمنی انتخابات کے سلسلے میں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر سکیں لہٰذا سیاسی جماعتوں کو سہولت کے لئے ضمنی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی لائی گئی ہے ۔ اس مرتبہ انتخابی کمیشن کے سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ فیصلہ صوبہ سرحد کے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے موصول رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔ اس رپورٹ میں انہوں نے امن عامہ کی صورتحال کو خراب قرار دیا ہے ۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف نے ضمنی انتخابات کے التواء کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوان صدر کی سازش ہے،انہوں نے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں حلقہ پی پی 141 اور پی پی 154 سے اپنے کاغذات نامزدگی گزشتہ روز ریٹرذنگ آفیسر ابراہیم اصغر اور چوہدری شاہد کی عدالت میں جمع کرا دیئے۔ وہ ایک مختصرسے جلوس کے ہمراہ آئے ان کی آمد کے موقع پر وہاں موجود کارکنوں نے نعرے لگائے۔ میاں شہبازشریف نے ریٹرننگ آفیسرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی طرح ڈنڈی نہ ماری جائے کیونکہ پہلے ڈنڈی مارتے ہوئے میرے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے، اس دفعہ معاملہ بالکل صاف ہے کاغذات مسترد نہ کئے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کی وجوہات ٹھیک نہیں، مجھے سازش کی بو آرہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ سازش کون کر رہا ہے لیکن بیوروکریسی کے ذریعے سازش ہو رہی ہے، اگر مسلم لیگ (ن) ان انتخابات کے التواء پر عدالت میں جائے گی تو ہم ان کے ساتھ ہونگے، اٹارنی جنرل وہ شخص ہیں جنہوں نے میرے ساتھ شہید بینظیر کو بھی سزا دی تھی اور وکلاء نے انہیں اپنی بار کا صدر بنایا تھا لیکن ہم ذاتی اختلافات میں نہیں پڑنا چاہتے، کسی کو ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہئے کہ 12 مئی کو جج بحال نہیں ہونگے، فخر الدین جی ابراہیم مسلم لیگ (ن) کے تجویز کردہ لوگوں میں سے ہیں، ہم بہت جلد انہیں آئینی کمیٹی میں واپس لے آئینگے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ججوں کی بحالی میں 30 روز کا وقت دینے کے بعد مزید 12دن کا اضافہ کیوں کیا گیا، ملک سے آمریت کو ہٹاکر جمہوری نظام کو بحال کرنے کا جو موقع ملا ہے تو اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے لیکن ججوں کی بحالی میں کچھ روز کی تاخیر کو صحیح کہنا ٹھیک نہیں، کسی بھی نئی حکومت کا ہنی مون پیریڈ صرف 100 دن ہوتا ہے، اس کے بعد اگر یہ کسی اور پر الزام دھریں گے تو لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ سب سے بڑا ذریعہ ایوان صدر ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ حکمراں اتحاد کی مضبوطی اور ججوں کی بحالی سے سب سے زیادہ نقصان ایوان صدر کو ہی ہوگا، جب تک سابقہ دور کے اہم افراد کو نہیں ہٹایا جائے گا، اس وقت تک سازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ ججوں کی بحالی کمیٹی سے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا لاتعلقی کا اعلان پاکستان بار کونسل کی قرارداد کے عین مطابق ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے خط میں موقف اختیار کیا کہ کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17سے بڑھا کر 27کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے ایسا کرنا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے اعلان مری اور میثاق جمہوریت کی بھی نفی ہے کیونکہ میثاق جمہوریت میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ پی سی او کے تحت کسی بھی جج کو حلف لینے نہیں دیا جائے گا۔ فخر الدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ ان حالات میں اس کمیٹی کا حصہ بننے سے قاصر ہیں۔ ججوں کی بحالی ایسا نہیں جو حل نہ کیا جاسکے اس کے لئے صرف انتظامی حکم نامہ کافی ہے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی ملازمت بڑھا کر نوازنے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب آئین کی پاسداری کرنے والے ججوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا جارہا ہے۔ ججز بحالی کی کمیٹی میں وہ مسائل بیان کئے جارہے ہیں جو سال بھر میں بھی حل نہیں ہوں گے۔ معزول ججوں کو چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں وہ پریشانیوں کا شکار ہیں۔ 16 مئی کو پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ کہ ہمارے چبف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں۔ اگر ججوں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی ایسا فیصلہ آیا جو قوم کی امنگوں کے خلاف ہوا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ وزیراعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ انہوں نے ضمنی الیکشن کے التواء کی درخواست مشیر داخلہ رحمن ملک کے کہنے پر کی تھی۔ ایک سرکاری ہینڈ آو¿ٹ میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں مختصر مدت کے التواء کی تجویز دی گئی تھی رحمن ملک نے کہا تھا کہ تین صوبے مان گئے ہیں آپ بھی مان جائیں۔ اس سلسلے میں رحمن ملک نے ٹیلی فون کرکے ان سے بات کی تھی انتخابات کا التواء صوبائی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی خواہش پر عمل میں لایا گیا ہے صوبے میں ضمنی انتخابات صوبائی حکومت نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی خواہش پر ملتوی ہوئے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے انعقاد کو طوالت نہیں دینی چاہئے کیونکہ ان سے ان حلقوں کی عدم نمائندگی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وکلاء اتحاد اور وکلاء تحریک سے زیادہ الیکشن یا عہدے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، لیکن میرے الیکشن لڑنے کے اعلان سے ایوان صدر لرز گیاہے اور وہ تشویش میں مبتلا ہے۔ ( ن ) لیگ نے راولپنڈی میں مجھے اپنی سیٹ دی اور پیپلز پارٹی مجھے ٹکٹ دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے میرا چالیس سال کا رشتہ ہے اور میرا عہد ہے کہ پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھا کر ججوں کو بحال کراو¿ں گا۔ آج وکلاء کو باہم متصادم کرانے کے بعد وکلاء اور میڈیا میں تصادم کی سازش کی جا رہی ہیں۔ میڈیا پر ہاتھ اٹھانے والے وکلاء ایوان صدر کی سازشوں کا حصہ نہ بنیں وکلاء تحریک ذرائع ابلاغ کی مرہون منت ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ صدر مشرف کا کوئی کام نہیں کہ وہ ہماری پارٹی کی قیادت تبدیل کرنے کی باتیں کریں، حکومتی اتحاد کے پرویز مشرف سے اچھے تعلقات ہیں، ہماری دعا ہے کہ موجودہ حکومت پانچ سال پورے کرے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ حکومتی اتحاد پرویز مشرف کا مواخذہ تو دور کی بات ہے اس کیلئے اسمبلی میں تحریک بھی نہیں لائے گا، نواز شریف اپنی مرضی کے ججز لا کر اپنی سزائیں اور مقدمات ختم کروانا چاہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق کہ جس طرح آصف علی زرداری اور نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے ، معزول ججوں کی بحالی میں مشکلات پیدا کرنے کی صورت میں صدر پرویز کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں فریقوں نے ایوانِ صدر کی جانب سے ممکنہ رکاوٹوں سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ایوانِ صدر اب بھی پاک فوج کی پشت پناہی پر انحصار کر رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اسلام آباد اور دبئی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مختلف سطحوں پر ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ ججوں کی سادہ قرار داد اور اسکے بعد انتظامی حکم نامے کے ذریعے بحالی کی صورت میں بھی حکومت کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کیلئے مجوزہ آرڈیننس یا پارلیمنٹ کی جانب سے قانون میں منظور کردہ ترمیم کیلئے صدر کی فوری رضامندی درکار ہوگی۔ چونکہ پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ معزول ججوں کو بحال کرتے ہوئے پی سی او ججوں کو نہ ہٹایا جائے اس صورت میں ان معزز ججوں، جنہوں نے تین نومبر کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا، کی واپسی سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ کے معاملے میں قانونی طور پر 17 ججوں کی گنجائش بڑھ کر 27 ہوجائے گی۔ اس قانونی بے قاعدگی سے نمٹنے کیلئے پی پی اور نواز لیگ کے رہنما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرارداد اور انتظامی حکم نامے کے علاوہ ججوں کی تعداد میں اضافے کو ضابطے کے مطابق بنانے کیلئے موجودہ قانون میں ترمیم بھی کرنا ہوگی۔ اگر پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس عمل میں ہفتوں اور اگر صدر نے بل پر فوری دستخط نہ کئے تو اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ آئین صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ 30روز کے اندر بل پر اپنی رضامندی ظاہر کریں یا پھر مزید ترمیم کیلئے واپس پارلیمنٹ کو بھجوا دیں۔ بل واپس کرنے کی صورت میں آئین کے مطابق اس پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غور کیا جائیگا اور اگر یہ دوبارہ کسی ترمیم یا اس کے بغیر منظور کیا جاتا ہے تو یہ پھر ایک بار صدر کے پاس جائے گا جنہیں اس صورت میں اپنی رضامندی دینی ہی ہوگی۔ اگر صدر اس بل پر 30 یوم کے اندر دستخط نہیں کرتے تو یہ از خود ایکٹ بن جائے گا۔ چونکہ یہ عمل طویل ہے لہٰذا اتحادیوں میں غالب نکتہ نظر یہی ہے کہ آرڈیننس جاری ہونا چاہئے۔ اسی سوال پر حال ہی میں قائم کردہ 10 رکنی کمیٹی، جس کے سربراہ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ہیں، بھی غور کر رہی ہے اور جس کی سفارشات یہ فیصلہ کریں گی کہ آیا پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جائے یا پھر آرڈیننس جاری کیا جائے۔ کسی بھی قانون میں ترمیم کیلئے آرڈیننس کا اجراء سب سے تیز ترین راستہ ہے۔ آئین کے تحت صدر مملکت کسی ہنگامی معاملے پر آرڈیننس جاری کرتے ہیں اور یہ وزیراعظم ہیں جو صدر کو آرڈیننس جاری کرنیکا مشورہ دیتے ہیں۔ وزیراعظم اور اس کی کابینہ کی جانب سے اس قسم کے مشورے پر عمل کرنا صدر کیلئے لازمی ہوتا ہے۔ تاہم، صدر مملکت آرڈیننس کے مسودے کو دوبارہ جائزے کیلئے وزیراعظم کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کے ذرائع نے کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی مذاکرات کئے ہیں کہ اگر صدر مملکت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کیلئے آرڈیننس منظور کرنے میں تاخیر کرتے ہیں تو یہ پرویز مشرف کیخلاف مواخذے کی تحریک لانے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ مواخذے کیلئے، پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن ان الزامات کی تحقیقات کرتا ہے جس کی وجہ سے مواخذے کی تحریک لائی گئی ہے۔ ایسی تحقیقات یا اسکے بغیر اگر مشترکہ سیشن کل ارکان کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ یہ قرارداد منظور کرلیتا ہے کہ صدر عہدے پر برقرار رہنے کیلئے اہل نہیں، تو اس صورت میں قرارداد منظور ہوتے ہی فوری طور پر صدر کو عہدہ چھوڑنا ہوگا۔ ایک ذریعے کے مطابق، صدر پرویز کی جانب سے مسلم لیگ (ق)، جسے کنگز پارٹی کا نام بھی دیا جاتا رہا ہے، کی قیادت تبدیل کرنے کی حالیہ کوششیں بھی ان کے مواخذے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ چوہدریوں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کو (ق) لیگ کے صدر کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی ہے، یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جسے چوہدریوں نے حیران کن طریقے سے مسترد کردیا ہے۔ ضمنی انتخابات کی میعاد مقرر ہے، مدت گزرنے کے بعد الیکشن ہوئے تو غیر آئینی ہوں گے۔ نشست خالی ہونے کے 60 دن میں انتخابات کرانے چاہئیں۔ کسی بناء پر التواء ناگزیر ہو جائے تب بھی آئین کی خلاف ورزی سے پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے۔ حکومت یا عدلیہ کے پاس الیکشن کمیشن کو ریگولیٹ کرنے، مانیٹر کرنے یا ایڈوائس دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ الیکشن کمیشن اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے۔ اس ادارے کے اپنے اختیارات ہیں۔ ججوں کی بحالی کے معاملے پر کمیٹی کوسنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔جہاں آمر کے ہاتھوں معزول ہونے والے حقیقی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہو سکا وہاں صدر مشرف کے تعینات کردہ پی سی او ججوں کی پیشگی کنفرمیشن وہ وجہ بنی جس کے باعث انتہائی محترم اور اعلیٰ سطحی آئینی ماہر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم ججوں کی پارلیمانی قرارداد کے ذریعے بحالی کا طریقہ کا روضع کرنے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ فخرالدین جی ابراہیم کے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے کمیٹی چھوڑنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی کمیٹی کا حصہ بننے سے محفوظ رکھ سکیں جو مستقبل میں گڑبڑ پیدا کرتے ہوئے 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد مشرف کے تعینات کردہ پی سی او ججوں کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ ذرائع کے مطابق فخرالدین جی ابراہیم کو یقین ہے کہ کمیٹی میں عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے لوگوں کی موجودگی اعلان مری اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کو مذاق بنا کر رکھ دے گی۔ مزید برآں یہ کمیٹی 9 مارچ کو طے پانے والے مری معاہدے کے مطابق کسی فیصلے پر پہنچتی دکھائی نہیں دے رہی۔ 14 ماہ سے بھی کم وقت میں ایک اور حرف انکار نے صدر پرویز مشرف کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا۔اس مرتبہ یہ انکار ایک جہاندیدہ سیاستدان کی جانب سے کیا گیا ہے۔چوہدری شجاعت حسین قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کے بعد اس طرح کے کسی حادثے کی زد میں تھے ۔ مسلم لیگ قائد اعظم کی صدر کی حیثیت سے استعفیٰ دینے سے چوہدری شجاعت حسین نے انکار کرکے پورا منظر نامہ تبدیل کردیا ہے اور ایوان صدر کے سیاسی عزائم کو ناکام بنادیا ہے۔ گی۔ نواز لیگ اس طرح کے کسی پیشرفت میں پیپلز پارٹی کے ردعمل کو بھی ذہن میں رکھے گی۔ ذرائع نے کہا کہ اس مقصد کیلئے چوہدری نواز شریف کے ساتھ وقار سے ڈیل کی اپنی پیشکش کا احیا کرسکتے ہیں اور ایسی صورتحال میں صدر پرویز مشرف کے پاس ایوان صدر خالی کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’قومی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے اجرا کے باوجود صدر کو اگر اعتماد میں نہ لیا گیا تو وہ معزول ججوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرینگے“۔معزول ججوں کی بحالی کیلئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے انتظامی حکم کے باوجود صدارتی نوٹیفکیشن ضروری ہوگا۔ آئین کے تحت صدر نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرریاں کیں جو کہ ”چیف جسٹس آف پاکستان کے مشورے“ سے عمل میں آئیں۔ ایک ماہر نے آرٹیکل 48 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ ”اپنے فرائض کی ادائیگی میں صدر کابینہ (یا وزیر اعظم) کی ایڈوائس پر کارروائی کرینگے“ ماسوائے ان معاملات کے جو ان کے صوابدیدی اختیارات کے تحت آتے ہیں تاہم کچھ آئینی ماہرین سختی سے اس نقطہ نظر کے قائل ہیں کہ عدالتی تقرریوں کے معاملے میں صدر محض ڈاک خانے کے طور پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment