دہشت گردی کے خلاف‘ امریکہ کی جنگ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک پاکستان جیسے ملکوں میں عدلیہ کے ذریعے قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری یقینی نہیں ہوجاتی۔ پاکستان میں ججوں کی بحالی میں ہر مرتبہ اور ہر اہم موڑ پر جنرل مشرف کے لیے امریکی حمایت سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ جبکہ اعتزاز احسن نے واشنگٹن میں انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر میں ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر امریکہ سمجھ لے کہ آزاد عدلیہ کی بحالی امریکہ کے حق میں ہے کیونکہ کوئی بھی جمہوریت جو عدلیہ کی بربادی یا اس کے ملبے پر کھڑی ہو وہ نہیں چل سکتی۔ اگر امریکہ ان باتوں کو سمجھ لے تو سکیورٹی کے بارے میں ان کی تشویش ختم ہو جائے گیا ا عتزاز احسن نے ایمنسٹی کی تقریب میں ججوں کی بحالی کی تحریک کے بارے میں بتایا کہ وہ کن حالات میں شروع ہوئی اور اس کا پس منظر کیا ہے۔ اگر کوئی سوچتا ہے کہ جن ججوں کو ہٹایا گیا وہ چپ ہو جائیں اور حکومت کو اپنا کام کرنے دیں تو یہ بہت غلط سوچ ہے۔ اگر عدلیہ کو بحال نہ کیا گیا تو اگلے چند ماہ میں پھر سے لانگ مارچ کی طرح کی تحریک شروع کی جائے گی اور اس بار اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکے گی کہ تشدد نہیں ہوگا کیونکہ ضروری نہیں کہ معاملہ ان کے ہاتھ میں ہی رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر تھے، ہیں اور رہیں گے لیکن ججوں کے معاملے میں وہ آصف زرداری کی رائے سے متفق نہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ججوں کی بحالی میں آئین رکاوٹ ہے تو وہ غلط ہے۔ جو ہو رہا ہے وہ سیاست کے سوا کچھ نہیں اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ امریکہ سے مدد مانگنے نہیں آئے ان کے پاس یہ قابلیت ہے کہ وہ اپنے مسائل حل کر سکیں۔ وہ امریکہ سے صرف اتنی توقع کرتے ہیں کہ وہ صدر مشرف کی حمایت کرنا چھوڑ دے اور ہمارے اندرونی معاملے ہمیں خود حل کرنے دے۔ ماضی میں جب بھی ججوں کی بحالی کی کوئی کوشش ہوئی چاہے وہ بینظیر بھٹو نے کی یا کسی اور نے امریکہ نے معاملات میں مداخلت کی۔ امریکی نائب وزیر خِارجہ نیگروپونٹے اور ان کے نائب رچرڈ باو¿چر معاملے کو دبانے کے لیے فوراً پاکستان پہنچ جاتے تھے جج قید تھے ان کے بال بچے گھروں میں بند تھے لیکن امریکہ سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نہیں مارشل لاء نافذ کیا ہے کیونکہ انہوں نے آئین کو معطل کیا ہے اور جب آئین معطل ہوگیا تو مفاہمت کا عمل بھی معطل ہوگیا یہ بات انہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کے چند گھنٹوں بعد وطن واپسی پر بلاول ہاوس کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔بینظیر بھٹو نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھاکہ ملک میں مارشل لاء فوری طور پر ختم کیا جائے اور آئین اور سپریم کورٹ کو بحال کر کے بروقت منصفانہ الیکشن کرائے جائیں ورنہ پاکستانی عوام یوکرین کے عوام کی طرح سڑکوں پر آئیں گے۔’یہ ہمارے لیے بہت تاریک دن ہے کہ اس قسم کے فیصلے کیے گئے ہیں۔ ہمیں پہلے خدشہ تھا کہ ایمرجنسی نافذ کی جائے گی لیکن یہ تو ایمرجنسی سے بھی بدترین صورتحال ہے کیونکہ یہ تو مارشل لاء ہے ایمرجنسی نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایمرجنسی لگانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ عدالت جنرل صاحب کی اہلیت کے بارے میں فیصلہ سنانے والی تھی اور کیونکہ ایک فرد واحد کو عدالت کا فیصلہ قبول نہیں تھا اس لیے ایمرجنسی نافذ کی گئی۔‘انہوں نے کہا کہ یہ اقدام کسی جماعت یا سپریم کورٹ کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے عوام کے خلاف ہے۔بینظیر بھٹو نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلح افواج نے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو گرفتار کرکے عدلیہ کی دوبارہ توہین کی ہے۔’اس سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوجائے گی اور کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا اگر قانون کی حکمرانی کمزور کی جائے ہماری تو کوشش ہے کہ سول اور سیاسی اداروں کو مضبوط بنایا جائے کیونکہ سول ادارے ہماری انتظامیہ کی قوت ہے اور سیاسی ادارے عوام کی قوت کا مظہر ہوتے ہیں۔ اس مو قع پر ‘انہوں نے ٹی وی چینلز کی نشریات بند ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ جب میڈیا، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ پر حملہ ہوتا ہے تو یہ کسی بھی قوم کے اہم مفادات پر حملہ ہوتا ہے وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے کریں گی اور ان سے صلاح مشورہ کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ تھا ہماری کوشش ہوگی کہ ہم احتجاج کریں اور عوام کے پاس جائیں۔‘بے نظیر بھٹو نے مقررہ وقت پر منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’انتخابات اس وقت تک منصفانہ نہیں ہوسکتے جب تک ملک میں مارشل لاء ہے کیونکہ آمریت اور جمہوریت ایک اسپیکٹرم کی دو انتہائیں ہیں جو اکٹھے نہیں چل سکتے۔ وہ اس پر احتجاج کریں گے کیونکہ پاکستان کے عوام مارشل لاء کو قبول نہیں کریں گے۔ ’یہ عوامی میدان سے بھاگنے کی کوشش ہے کیونکہ انتخابات کا وقت آرہا تھا اور الیکشن کو اسی دسمبر یا جنوری میں ہونا تھا اسی لئے مارشل لاء لگایا گیا ہے تاکہ انتخابات نہ ہوں اور عوام کو طاقت نہ ملے کیونکہ منصفانہ انتخابات ہوں گے تو عوام کو طاقت ملتی ہے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جنرل مشرف سے مفاہمت کی کوششوں کا کیا ہوگا تو ان کا جواب تھا کہ ’ہماری مفاہمت جمہوریت کے لیے تھی اس وقت جمہوریت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ جب آئین کو معطل کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ مفاہمت کو بھی معطل کیا گیا ہے۔‘انہوں نے بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ ان کے بقول فرد واحد کی پشت پناہی کرنے کے بجائے پاکستان کے عوام کی پشت پناہی کرے۔بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے قوم سے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ ایمرجنسی کا ایک جواز یہ پیش کیا گیا کہ عدلیہ کے کچھ ارکان انتظامیہ اور مقننہ کے ساتھ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے سلسلے میں تعاون نہیں کررہے ہیں۔ ’یہ ٹھیک ہے کہ سپریم کورٹ نے عبدالعزیز کی فیملی کو لال مسجد واپس دے دی تھی مگر اب سپریم کورٹ پر یہ داغ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ انتہاپسندوں کے پیچھے جو لوگ کارفرما ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پی پی انتہا پسندی کے خلاف ہے لیکن جمہوریت کی بحالی کے بغیر انتہاپسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عوام ہی ملک کا دفاع کرسکتے ہیں۔ ’اس وقت تمام اختیارات ایک ہی شخص کے ہاتھ میں دیئے گئے ہیں وہ آئین کو تبدیل کرسکتا ہے اور اب اس نے آئین کو معطل کردیا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ پہلے سے ملک کو بہت سے خطرات لاحق ہیں اور اس اقدام سے ان خطرات میں اضافہ ہوگا اور اب پاکستان کی یکجہتی کو بھی خطرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے دوبئی گئی تھی کیونکہ وہ اٹھارہ اکتوبر کے بم دھماکوں کے بعد پریشان تھے۔ مگر جیسے ہی انہیں خبر ملی کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کو بند کیا جارہا ہے تو وہ فوری طور پر وطن واپس آئی ہیں۔ ’میں پاکستان کے سولہ کروڑ عوام کی حوصلہ افزائی بھی کرنا چاہتی تھی اور ان کو بتانا چاہتی تھی کہ مشکل دنوں میں میں آپ کے ساتھ ہوں۔،‘انہوں نے کہا کہ عوام غربت اور بیروزگاری سے پریشان ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپوٹ چوراسی صفحات پر مشتمل ہے ہیومن رائٹس واچ نے امریکہ اور برطانیہ سے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں قید وکلاء، ججوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی رہائی، تین نومبر سے پہلے والی عدلیہ کی بحالی اور آئین کی حکمرانی کے لیے دباو¿ ڈالیں۔تنظیم نے پاکستان کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے مشرف کے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف رسمی بیانوں کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدام سامنے نہیں آیا۔ اگر امریکہ اور برطانیہ پاکستان کے سیاسی مستقبل اور استحکام کے خواہاں ہیں تو انہیں پاکستان میں تین نومبر سے پہلے کی عدلیہ کی بحالی پر توجہ دینی چاہیے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی طرف سے نافذ کیئے گیے ہنگامی حالات کے اٹھائے جانے کے باوجود اب بھی درجنوں وکلاء، جج اور حکومت کے مخالفین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر تے رہے ۔ہیومن رائٹس واچ کی پاکستان کی صورت حال کے بارے میں چوارسی صفحات پر مشتمل ’عدلیہ کی تباہی: پاکستان میں وکلاء اور ججوں پر جبر‘ کے عنوان سے شائع کی گئی تھی اس رپورٹ میں تین نومبر کے بعد وکلاء پر پولیس تشدد، گرفتاریوں اور گرفتار شدہ وکلاء کے ساتھ زیادتیوں کے عینی شاہدوں کے بیانات پر قلمبند کیئے گئے اس رپورٹ میں ملک کی مختلف اضلاع اور چاروں ہائی کورٹس کے احاطوں کے اندر آئین کی معطلی اور ہنگامی حالات کے نفاذ کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے وکلاء پر پولیس کے بہیمانہ تشدد اور لاٹھی چارج کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا کس طرح صدر مشرف نے اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے کے نام پر ہنگامی حالات نافذ کرکے ملک کی عدلیہ کو بے اختیار کیا اور وکلاء اور دیگر طبقعوں سے اپنے مخالفین اپنے غیر قانونی اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کیا۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں سیاسی جماعتوں نے ملک میں فوجی آمریت کے لیے اتنی قربانیاں اور جدوجہد نہیں کی جتنی وکلاء برادری کی طرف سے دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے کیونکہ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اپنی لیڈر بینظیر بھٹو کی زندگی سمیت کئی قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کے قیام کا مقصد نظام کی تبدیلی تھا۔ اور یہ نظام کی تبدیلی کس دن سے شروع ہوگی عوام اس کا انتظار کر رہے ہیں۔اور اس ضمن میںسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ ججوں کی بحالی میں اس وقت صدر پرویز مشرف نہیں بلکہ پارلیمان رکاوٹ ہے۔ اور یہ بات حرف آخر ہے کہ نظام کی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب عوام کو انصاف ملنا شروع ہوگا۔ اور اس ضمن میں حائل رکا وٹو ں کا خا تمہ کرنا ہوگا۔ اے پی ایس
No comments:
Post a Comment