حکمران اتحاد ٹوٹا تو مسلم لیگ(ق) پارلیمانی نظام کے استحکام میں کردار ادا کرے گی
حکومت کی جانب سے خود مختاری پر سمجھوتے کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کا خطرہ ہے
پارلیمانی لیڈر مخدوم فیصل صالح حیات کا پریس کانفرنس سے خطاب
اسلام آباد۔ پاکستان مسلم لیگ(ق) نے حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کے بارے میں حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ عوام سے کیے گئے ایک وعدے کو بھی پورا نہیں کیا گیا ہے ملک میں حکومت اور ا نتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔قیادت کافقدان اور حکمران اتحاد انتشار کا شکار ہے تاہم مسلم لیگ (ق) نے واضح کیا ہے کہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی ۔ نئی حکومت کو پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے حکمران اتحاد ٹوٹا تو مسلم لیگ (ق) جمہوری و پارلیمانی نظام کے استحکام میں اپنا کرادر ادا کرے گی ۔ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ(ق) کے قومی اسمبلی میںپارلیمانی لیڈر مخدوم فیصل صالح حیات نے جمعرات کو مسلم لیگ(ق) کی جانب سے 19 صفحات پر مشتمل ’’ حکومت کی سو روزہ دھوکہ دہی ‘‘ پر مبنی حقائق نامہ جار ی کرتے ہوئے پارٹی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ معیشت اوردہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت تمام شعبوں کے بارے میں سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو تسلسل حاصل ہے ۔ ہمارے دور کی اقتصادی ٹیم بیٹھی ہوئی ہے ۔ وزارت داخلہ میں بھی ہمارے دو ر کے افسران تعینات ہیں حکومت کے پہلے دو ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 45 فیصد جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 66 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ انتخابات کے بعد حکومت کو قائم ہوئے 102 دن ہو چکے ہیںوزیراعظم نے حلف اٹھانے کے بعد پہلے سو دنوں کے حکومتی پروگرام کااعلان کیا تھا انہوں نے کہا کہ سو روزہ کارکردگی سے حکومت کے مزید پونے پانچ سالوں کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ہم نے ماضی سے ہٹ کر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی نئی روایت قائم کی ۔ انہوں نے کہا کہ ان سو دنوں میں مسلم لیگ(ق) واضح اور صحیح سمت پر گامزن رہی ۔ اصولوں کی سیاست کو فروغ دیا ۔وزیراعظم کی درخواست پر اپوزیشن نے انہیں اعتماد کا ووٹ دیا جس کا مقصد قوم کو متحد ومنظم کرنا تھا۔ تاکہ حکومت کو قومی ایجنڈے کے حوالے سے اگر کوئی ایجنڈا ہے تو کوئی فکر نہ ہو ۔ اگرچہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں واضح مینڈیٹ نہیں ملا ۔ ہماری خواہش ہے کہ حکومت آئینی مدت پوری کرے۔حالانکہ اپوزیشن کے خلاف انتقام کا سلسلہ شروع ہو چکاہے حکومت کے سو دن ناکامیوں پر مشتمل ہیں ۔ عوام کو دھوکہ دیاگیا ‘ قوم مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ 1999 ء کی قیمتوں کو بحال کیا جائے گا۔ ان جماعتوں کے انتخابی منشور میں بھی عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے گئے ہمیں توقع تھی کہ دونوں جماعتیں پہلے بھی حکومتیں کر چکی ہیں معاشی طور پر واضح روڈ میپ اور اس پر عملدرآمد کے لیے موثر میکنزم کا اعلان کریں گی ۔ان جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے حوالے سے حکومت سازی کے بارے میں ترجیحات کا اعلان کیا گیا ۔ پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کاروڈ میپ بھی اس میں شامل ہے ۔ دونوں جماعتوں نے کہا کہ قوم نے یہی مینڈیٹ دیا ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر کام کریں ۔سہانے خوش کن مستقبل کا خواب دکھایا گیا ۔ مری اعلامیہ جاری ہوا ۔ تیس دنوں کی ڈیڈ لائن گزر گئی بعدازاں اعلان مری کو سیاسی بیان قراردے دیا گیا ۔ وزیراعظم نے 24 مارچ کو اپنے انتخاب پرحلف اٹھانے سے قبل ہی اختیار ات کو استعمال کرتے ہوئے ججز کی رہائی کا اعلان کردیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں روزگار ‘معیشت ‘ماحولیات ‘ توانائی ‘ تعلیم اور مساوات کے حوالے سے اقدامات کرنے کا دعوی کیا ۔ ان کا آغاز تک نہیں ہوا ہے ۔ ہم نے نئے حکمرانوں کو مضبوط اور ساؤنڈ معیشت دی تھی ۔ حکومت کو چیلنج کرتے ہیں افسو س کہ حکومت الزامات کی سیاست کررہی ہے اس قسم کی سیاست سے عوام کے پیٹ نہیں بھرتے۔ قوم بدترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہے گورنس نام کی کوئی چیز نہیںہے قومی ایشوز کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے ۔ نان ایشوز کو آگے رکھا جا رہا ہے ۔انہوں نے واضح کیا کہ ان سنگین حالات کے باوجود اپوزیشن ‘ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کرے گی استحکام چاہتے ہیں اپوزیشن حکمرانوں کے لیے مسائل کھڑے نہیں کرے گی حکومت اپنے اہداف کو ترک کر چکی ہے اتحادیوں کی جانب سے اعتماد میں نہ لینے کی بات کی جارہی ہے ۔ وزیر اطلاعات دن میں دس بار بیان دیتی ہیں کہ اتحادیوں کو اعتماد میںلیا گیا تھا۔ کیا یہی قومی مفاہمت ہے اتحادی حکومت اس طرح چلتی ہے انہوں نے کہا کہ کیا حکومت بھی لانگ مارچ ‘ ہڑتالوں ‘ شٹر ڈاؤن میں حصہ لیتی ہے ۔ عوام کے مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیاہے ۔ بجٹ میں بارہ فیصد مہنگائی کی شرح مقرر کی گئی تھی مہنگائی کی شرح تیس فیصد سے تجاوز کرچکی ہے ۔ یہ ہمارے نہیں سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار ہیں فوڈ آئٹمز کے حوالے سے مہنگائی 22 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ بدامنی اور بدانتظامی عروج پر ہے ۔ مشیر داخلہ اور سرحد حکومت کے بیانات میں تضاد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا مذاکرات کا آپشن ناکام ہو گیا ہے جو خیبر ایجنسی میں آپریشن شروع کیا گیا ہے ۔ حکومت براہ راست سبسڈی سے دستبردار ہو چکی ہے وزیر پٹرولیم کے ایک غلط بیان کی وجہ سے سی این جی صارفین کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ملک پر گھنٹے کی تیزی کی طرف جا رہا ہے ۔ حل نہ کیا گیا تو گہری کھائی سے نہیں نکل سکیںگے۔20 جون کو مسلم لیگ(ن) نے ججز کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ووٹ بھی کاسٹ کیا اور اب کہہ رہے ہیں کہ ووٹ نہیں دیا تھا قوم کے ساتھ مذاق ہے ۔ سو روزہ حکومتی پروگرام میں کفایت شعاری اپنانے اور پرتعیش طرز حکمرانی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ وفاقی وزیر اطلاعات سمیت وزراء 16 سو سی سی بڑی گاڑیاں استعمال کررہے ہیں وزیراعظم خود وزیراعظم کے اعلانات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہے ہیں ۔ 80 رکنی وفد کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا گیا۔ وزیراعظم کے دسمبر تک مزید سولہ غیر ملکی دورے ہوںگے۔وزیراعظم سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا عوام کے مسائل حل ہو گئے ہیں جو غیر ملکی دورے پر جا رہے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومتی ناکامی کے باوجود حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کریں گے حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ ا پنی ذمہ داری کو نبھائے ، عوام مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔ سو دنوں میں عوام کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ البتہ ان سو دنوں میں کیسز ضرور ختم ہوئے ہیں اور اثاثے بحال ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا تجربہ کامیاب نہ ہوا تو قوم کے لیے جمہوریت خواب بن کر رہ جائے گی ۔ ہماری حکومت کا حساب کتاب 18 فروری کو ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم واضح طور پر تیار نہیں کیا ان کے پاس اختیارات نہیںہیں ۔ ایوان صدر تو حکومتی امور سے ہٹ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ ملک تیزی سے تنزلی کی طرف جارہا ہے ۔ دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا خطرہ ہے ۔ اگر ایسا ہوا توخود مختاری طورپر کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگ(ق) کے پارلیمانی لیڈر نے کہاکہ حکومت کو قائم رہنا چاہیے حکمران اتحاد ٹوٹا تو مسلم لیگ(ق) اس کے باوجود کہ اس کا محدود کردار ہے ۔ پارلیمانی نظام کے استحکام میںاپنا کردار ادا کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں 3 ہزار پوائنٹس کا کریش آچکا ہے تاریخ کا بدترین کریش ہے ساڑھے سولہ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں ڈالر کی قیمت 60 سے 70 روپے ہو چکی ہے ۔
No comments:
Post a Comment