International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, July 28, 2008

مہنگائی میں اضافے، لاقانونیت سے اکتائے اور حکمرانوں سے مایوس لوگ

عوام میں خود کشی کے رحجان میں مزید اضافہ۔۔۔تحریر اے پی ایس

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بدامنی ، ناانصافیاں ، مظالم ، سماجی و معاشی ناہمواریاں ودیگر مسائل نے خودکشی کے رجحان میں اضافہ کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے سال 2008ءکے شروعاتی 5 ماہ کے دوران کیئے گئے سروے کے بعد ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی۔ اس ضمن میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2008ء کے شروعاتی 5 ماہ میں جنوری تا مئی کے سروے کے مطابق 1ہزار1سو75 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا جن میں 7سو 41مرد جبکہ 2سو33 خواتین اور 55 بچے شامل ہیں۔ پولیس نے خودکشی کے 82 اور اقدام خود کشی کے 1سو5کیس درج کیئے۔ سروے کے مطابق خودکشیوں کی وجوہات غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ، بدامنی ، ناانصافیاں ، بڑھتے ہوئے مظالم ، سماجی و معاشرتی ناہمواریاں اور نفسیاتی مسائل ہیں۔ سروے کے مطابق ملک بھر میں کاروکاری اورغیرت کے نام پر 1سو17قتل کیئے گئے جن میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 13عورتوں کو تیزاب پھینک کر قتل کیا گیا جبکہ ان واقعات کی رپورٹس درج ہونے کے باوجود ان تمام کیسز اور اس سے پہلے درج ہونے والے کیسز میں سے کسی کا بھی فیصلہ نہیں ہوسکا۔حکمران طبقے اور سول سوسائٹی کے باشعور افراد کو عمومی معاشرتی رویوں میں بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ حکومت کو خصوصی طور پر معاشرتی بگاڑ پیداکرنے والی برائیوں جیسے کہ ناانصافی کا جڑ سے خاتمہ کرنے کیلئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ جبکہ قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ پاکستان کوامریکہ کی طفیلی ریاست نہیں بننے دیں گے۔ ہر چوک اور چوراہے پر پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑیںگے۔کراچی کے بعد اب صوبہ سرحد کے لیے قبضہ گروپ تیار کیے جارہے ہیں۔ ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ،اور رائے عامہ کی بیداری اور عوام کو منظم کرنے کے لیے دن رات ایک کردیں گے۔مہنگائی میں اضافے، لاقانونیت سے اکتائے اور حکمرانوں اورسیاستدانو ں کی کارکردگی سے مایوس لوگ گھروں میں بیٹھنے کے بجائے روشن مستقبل کی آبیاری کے لیے ہما را ساتھ دیں۔جنوبی پنجاب میں چیف جسٹس کے شاندار استقبال نے ثابت کردیا ہے کہ کسان اور مزدور سمیت ہرطبقہ عدلیہ کی آزادی چاہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی ججوں کی بحالی میں سنجیدہ نہیں ہے، اور معزول ججوں میں پھوٹ ڈالنے کی سازش کررہی ہے اس لیے مسلم لیگ ن کو مستقبل کے حوالے سے فوری فیصلہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ معزول جج صاحبان اپنے اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھیں اور حکومتی جھانسے اور دھوکے میں نہ آئیں۔ پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے،اورباوقار طریقے سے ان کی 2نومبر کی پوزیشن پر بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ ملک میں اس وقت کوئی نظام اور حکومت نہیں ہے۔ انتخابی وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بے یقینی اور بے چینی کی صورتحا ل ہے ،اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن چارماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی واضح لائحہ عمل اور پالیسی اختیار نہیں جا سکی ہے۔ افراتفری اوربدامنی چاروں طرف پھیل گئی ہے ۔مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کا جینا محال ہو گیا ہے جبکہ حکومت پٹرولیم مصنوعات، بجلی،گیس اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوںمیں اضافے کے سوا کوئی کام نہیں کرسکی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن حکمران اس کی قیمت میں مزید اضافے کی نوید سنا رہے ہیں۔ حکمران پارٹی نے عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے حل نہ کیا تو اس کے اقتدار کے دن جلد ہی پورے ہو جائیںگے امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں پاکستان توڑنے کی پالیسی پر گامزن ہے، پرویز مشرف کے بعد موجودہ حکومت بھی اس کے آلہ کار کا کردار ادا کررہی ہے۔ ایک طرف امریکہ اور نیٹو نے افغان سرحد پراپنی فوجیں تعینات کر دی ہیں اور پاکستان پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور دوسری طرف قبائلیوں کواشتعال دلاکر فوج کے ساتھ لڑایا جا رہاہے تاکہ برے وقت میں فوج اپنے بازوئے شمشیر زن سے محروم ہو جائے۔ اس طرف سے قبائلی اس کے خلاف برسرپیکار ہوں اور دوسری طرف نیٹو افواج اس پر چڑھ دوڑیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ دشمن کا کھیل ہے جس میں پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کو مہرے کے طورپر استعمال کیا جارہاہے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ ملکی سلامتی اورقبائلی علاقوں میں امن و امان کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ سے علیحدہ ہو جائے اور فاٹا سے فوج کو واپس بلا کر قبائلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں کے مشورے سے معاملات کو حل کیا جائے۔ جبکہ ترجمان افواج پاکستان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی اور دیگر قومی سلامتی کے اداروں کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیے جانے کا نوٹیفکیشن غلط تشریح کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہے ۔ کیونکہ آئی ایس آئی اور وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں اور کام کی نوعیت مختلف ہے آئی ایس آئی کا مینڈیٹ بیرونی خطرات سے متعلق سلامتی کے لیے اسٹریٹیجک انٹیلی جنس مہیا کرنا اور اپنے دفاعی اداروں کو باخبر رکھنا ہے جبکہ وزارت داخلہ ملک کے داخلی امور نمٹائی ہے اس لیے آئی ایس ائی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی بات کرنا بڑی عجیب ہے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے فوجی ترجمان نے کہا کہ آئی ایس آئی، آئی بی اور مختلف داخلی سلامتی کے اداروں اور وزارت داخلہ کے درمیان روابط کو مزید بہتر اور موثر بنانا بنیادی مقصد ہے خاص طورپر د ہشت گرد ی کے خلاف جنگ اور داخلی سلامتی کے حوالے سے ان کے درمیان روابط کو مزید موثر بنانا ہے کچھ غلط فہمی اور غلط تشریح کی وجہ سے اس نوٹیفکیشن کی صحیح ترجمانی نہیں ہو سکی جس سے یہ غلط تاثر سامنے آیا ہے کہ آئی بی اور آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیا جا رہا ہے اب اس غلط تاثر کو دور کردیا گیا ہے وزیراعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے پریس ریلیز بھی جاری کردی گئی ہے کہ آئی ایس آئی بدستور وزیراعظم کے ماتحت کام کرے گی اور نوٹیفکیشن کا مقصد وزارت داخلہ اور آئی ایس آئی کے درمیان روابط کو بہتر بنانا تھا انہوں نے واضح کیا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی وزیراعظم ، صدر اور آرمی چیف کے درمیان بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسی کسی بات کا مجھے علم ہے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی وزیراعظم سے حالیہ ملاقاتیں سیکورٹی کے حوالے سے تھیں انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کا مینڈیٹ بیرونی خطرات سے متعلق سلامتی کے لیے اسٹریٹیجک انٹیلی جنس مہیا کرتا ہے اور اپنے دفاعی اداروں کو باخبر رکھنا ہے اور یہ اسٹریٹیجک انٹیلی جنس قومی سلامتی کے تمام اداروں کے ہوتی ہے جن میں افواج پاکستان اور اس سے منسلک دیگر ادارے شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ملک میں خارجہ اور داخلی سیکورٹی کے الگ الگ ادارے ہوتے ہیں اور ہر قسم کے ماڈل ادارے ا س میں موجود ہوتے ہیں ہمارے ملک میں ایکسٹرنل انٹیلی جنس کی ذمہ داری آئی ایس آئی کو آئی ہے آئی ایس آئی کا کام80 سے 90 فیصد بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس مہیا کرنا ہے بیرونی خطرات سے نمٹنے والا یہ ہراول دستہ ہوتاہے انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ ا ور آئی ایس آئی کی ذمہ داریاں مختلف ہیں اس لیے اسے کسی وجہ سے وزارت داخلہ کے ماتحت کرنا عجیب لگتا ہے انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ہی کام کرتی ہے آئی ایس آئی چیف ایگزیکٹو کو جوابدہ ہوتی ہے۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں دیے جانے کا اعلان غلط فہمی کا نتیجہ تھا اور وہ بدستور وزیراعظم کو ہی جوابدہ ہے۔ وفاقی حکومت نے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی ) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو وزارت داخلہ کے ما تحت کر دیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ مذکورہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ کیبنٹ ڈویڑن سے جاری ہو نے والے نوٹیفکیشن کے مطابق انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) اور آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان دونوں سیکورٹی اداروں کے انتظامی ،مالی اور آپریشنل امور کو وزارت داخلہ کے ما تحت کر دیا ہے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا تھا کہ یہ دونوں ادارے 1973کے آئین کے مطابق پہلے وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ پیش کر تے تھے تاہم اب یہ دونوں ادارے مکمل طور پر وزارت داخلہ کے ما تحت کام کریں گے اور وزار ت داخلہ کو ہی رپورٹ کر یں گے ۔ جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بش کے لئے ایک بہت بڑا تحفہ لے کر جارہے ہیں آئی ایس آئی پہلے ہی پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی نظر میں کھٹکتی تھی اس فیصلے سے تو بھارت میں دشمنوں کے دلوں میں لڈو پھوٹ رہے ہوں گے انہوں نے کہاکہ آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ ختم کرنے کے بجائے اسے وزارت داخلہ کے ماتحت کر کے اسے مکمل طور پر سیاسی کر دیا گیاہے اس طریقے سے آئی ایس آئی کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ تو مٹی کا مادھو بنی بیٹھی ہے اور اس سے بالاتر تمام فیصلے ہو رہے ہیں اصل فیصلے جو کرنے کے ہیں ان سے گریز کیا جارہاہے انہوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کی تذلیل بھی امریکہ کے ساتھ ڈیل کاحصہ ہے امریکہ نے بہت زبردست چال چلی ہے اور پاکستان کو گونگا بہرہ بنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ آئی ایس آئی کا کردار غیر ملکی عناصر پر نظر رکھنا ہے جنرل حمید گل نے کہاکہ حکومت کو یہ فیصلہ فوری طور پر واپس لینا چاہیے اور آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے اس معاملے میں آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو بھی مداخلت کرنا چاہیے کیونکہ یہ غیر ضروری طور پر فوج کے ادارے میں مداخلت ہے اگرچہ آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا جائے اور اپنے لوگوں کی جاسوسی کیلئے اسے استعمال کیاجائے یہ فیصلہ پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جبکہ لندن سے مشیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ انہیں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق کسی فیصلے کا علم نہیں اور ایسا کوئی نوٹیفکیشن میری اجازت کے بغیر جاری نہیں ہو سکتا یہ بات انہوں نے لندن میں ایک نجی تی وی سے گفتگو کرتے ہوءکہی ۔ اس سے پہلے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے وضاحت کی تھی کہ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن کے غلط معنی لیے گئے تھے اور آئی ایس آئی بدستور وزیراعظم کے ماتحت ہی کام کرتی رہے گی ۔ اس سے پہلے کیبنٹ ڈویڑن کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیاتھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی انٹرسروسز انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کو انتظامی ، مالی اور آپریشنل طورپر وفاقی وزارت داخلہ کے کنٹرول میں دیدیا ہے۔ حکومت کے فیصلہ واپس لینے کے رد عمل پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کر کے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے حکومت خارجی دباو¿ کے زیر اثر بھی اور وہ پاکستان کے دشمنوں کو خوش کرنا چاہتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی نے وہ کام کیا جو ندیا میں کوئی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں کر سکی مختلف ٹیلیویڑن چینلوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم آئی ایس آئی کو تباہ کر کے دم لیں گے اور یوں لگتا ہے کہ حکومت پاکستان نے خارجی دباو¿ کے باعث آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی تو ہمیشہ ہی بیرونی دباو¿ کا نشانہ رہی ہے اوریہ کہ جب وہ خود آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو جارج بش سنیئر نے کہا تھا کہ اب آئی ایس آئی کے باندھ دینے کا وقت آ گیا ہے اور اسی پروگرام کے تحت انہیں آئی ایس آئی سے الگ کیا گیا۔ پھر 1993 میں پیپلز پارٹی کے دور میں نیوز ویک میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں جنرل جاوید اشرف قاضی کے حوالے سے کیا گیا تھا کہ انہوں نے 130افسر آئی ایس آئی سے نکال دیئے ہیں جو نظریاتی قسم کے تھے اور اب امریکہ ہم سے بہت خوش ہے ۔ جنرل حمید گل نے کہا کہ آئی ایس آئی چیف ایگریکٹو کو جواب دہ ہے اور اس کا شمار دنیا کی اعلی ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہوتا ہے اور جو کام آئی ایس آئی نے کہا وہ کسی دوسری ایجنسی نے نہیں کیا اور اس نے ایک پرپاور کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور امریکہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ آئی ایس آئی پاکستان میں اہم کردار کی حامل ہے۔ حمید گل نے کہا کہ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کروا کر ایک کچا وزیر اع۔ظم اپنی نوکری پکی کرانے کے لیے ایک تحفہ لے کر جارج بش کے پاس جا رہا تھا جو کہ غلط تھا۔ اچھا ہوا کہ یہ فیصلہ واپس ہو گیا اور آئندہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ حکومت اپنے عزائم میں کامیاب ہو جاتی ہے یہ پاکستانی کے دفاع پر ایک کاری ضرب ہوتی اور ہمارے دشمن اس جنگ میں مصروف رہتی ہے انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے 61 سالوں میں صرف 36دن جنگ کی ہے جبکہ باقی وقت آئی ایس آئی ہی دشمنوں سے برسرپیکار رہی ہے۔ جنرل حمید گل نے کہا کہ آئی ایس آئی فوج نظام کی آنکھوں اور کانوں کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو اچھا ہو گیا تو حکومت نے نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن حکومت نے بامر مجبوری واپس لیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ اے پی ایس

No comments: