International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 11, 2008

کشمیری مائیں اپنے بیٹوں کی قربانی پیش کرکے تاریخ میں امر ہو چکی ہیں ۔فہمیدہ اشرف کا یوم مادر کے موقع پر اظہار خیال

سری نگر ۔ کشمیری مائیں اپنے بیٹوں کی قربانی پیش کرکے تاریخ میں امر ہو چکی ہیں ۔ ہزاروں لخت جگر جام شہادت نوش کر گئے ہیں ہزاروں لاپتہ ہیں ۔ شہداء کی مائیں اپنے بیٹوں کی آمد کی آج بھی منتظر ہیں ۔ کشمیری ماؤں کی عظیم قربانی تاریخ کا اہم باب ہے ۔ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ہزاروں لاپتہ نوجوانوں کی ماہیں اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے ان کی راہ تک رہی ہیں ۔ان خیالات کا اظہار سرینگر کی فہمیدہ اشرف ،جو پیشہ سے ایک ٹیچر ہیں،نے ’یوم مادر‘کے موقعہ پر بات چیت کر تے ہوئے کیا۔پوری دنیامیں 11 مئی کو ’’ماں کے دن‘‘ کی مناسبت سے منایا جاتا ہے ، کو کشمیری خواتین کس جذبے کے تحت اور کن نظروں سے دیکھتی ہیں، تبصرہ کر تے ہوئے شہر خاص سے تعلق رکھنےوالی ایک معمر خاتون ہاجرہ بانو کہتی ہیں ’’پچھلے 20 برسوں میں جو کچھ ہم کشمیری ماؤں نے دیکھایا ہے ،اْس تناظر میں یوم مادر ایک ایسا درد ہے جو ہمیں نہ جینے دیتا ہے اور نہ مر نے‘‘۔70سالہ اس خاتون کا کہنا ہے کہ ’’ایک طرف یہ کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کی ہلاکتیں ہم اپنے جیتے جی دیکھانا پڑی اور اس پر ستم کہ اب عمر رسدگی کو ہمارے نوجوان بچے ہماری نااہلیت تصور کر تے ہیں ‘‘۔ہاجرہ بانو نے کو بتایا ’’ جہاں میرا بیٹا1992میں سی آر پی الف اہلکاروں کی طرف سے چلائی گئی گولیوں کی زد میں آ کر ہلاک ہوگیا،وہیں میرے پڑوس میں ایک معمر خاتون کے اکلوتے بیٹے نے شادی رچا کرماںکو اکیلا چھوڑ کر اپنی سسرال میں ڈھیرہ جما لیا‘‘۔شاید یوم مادر کو منانے کے لئے یہ اچھی مثال ہے۔ اس سلسلے میں ایک نوجوان خاتون وکیل آصفہ علی کا کہنا ہے ’’ کشمیر میں آج کل ’یوم مادر ‘ کو منانے کی مختلف صورتیں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے کہ کئی معمر کشمیری خواتین ہزاروں کی تعداد میں بے نام قبروںکو کھنگالنے کی کوشش میں مصروف ہیں ، انہیں ان قبروں میں اپنے لاپتہ ہوئے جگر پاروں کا پتہ ملنے کی موہوم اْمید ہے ‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’’میں عدالت میں ایک ایسی خاتون کی کیس کی پیروی کررہی ہوں جس کے تین بیٹوں نے اسے تنہا چھوڑدیا ہے اورخاتون اب اپنی بہن کے پاس ٹھہری ہے چھوڑ دیا ہے اور کوئی بیٹا اسے پوچھتاتک نہیں‘‘ وکیل آصفہ علی کے مطابق اس خاتون کے تینوں بیٹے سرکاری ملازمت کر تے ہیں ۔امیرا کدل میں رہنے والے ایک معمر خاتون جو 6بیٹوں اور 4بیٹیوں کی ماں ہے، 80سال کی عمر میں اپنا چولہا چکی الگ کرتی ہے، کیونکہ کوئی بیٹا اسے اپنے پاس رکھنے کیلئے تیار نہیں۔ کئی امراض میں مبتلا یہ خاتون ، جس کی بصارت اور سماعت بھی جواب دے رہی ہے، اپنی بیٹیوں کے پاس اس وجہ سے رہنے کے لئے تیار نہیں کہ یہ روایتی غیرتمندی کے خلاف ہے۔ اس خاتون نے بات کرتے ہوئے اپنا نام شائع نہ کرنے کی استدعا کی، کیونکہ اس سلوک کے باوجود وہ اپنے بچوں کی ’’نیک نامی‘‘ پر حرف آنے کے صدمے کو متحمل نہیں ہوسکتی۔

No comments: