International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 11, 2008

پاکستان کا مستقبل،فاطمہ بھٹو اور عوام ۔۔۔تحریر چودھری احسن پریمی



نئی اتحادی حکومت کو عوام نے صرف روٹی، کپڑے اور مکان کا نہیں بلکہ عدلیہ کی بحالی کا بھی مینڈیٹ دیا ہے۔ وعدوں سے پھرنے کی بجائے عوام کی توقعات پر پورا اتریں عدلیہ کی آزادی، ملک میں قانون کی حکمرانی، ملکی معیشت کو مضبوط بنانا اورخاص طور پر بجلی کے بحران کو حل کرنا حکومت کی اولین ترجیح کے دعوے تھے حکومت کا اصل مقصد عوام کو بحرانوں سے نجات دلانا ہے اور جب تک ملکی معیشت کو مضبوط اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر نہیں بنایا جاتا اس وقت تک نئی حکومت اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتی۔عدلیہ کی بحالی قوم کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے اورنئی حکومت کو قوم کو یقین دلاتا ہوگا کہ ججز کی بحالی سمیت تمام وعدوں کو پورا کیا جائیگا اور اس سے ملک میں آئین، انصاف اور قانون کی حکمرانی ہو گی۔اگر حکمرانوں نے اس بار پھر عوام کو چکر دینے کی کوشش کی تو نئے اتحادی یہ بات یاد رکھیں اب دونوں جماعتوں کے خلاف نعرہ لگے گا۔اور فو ج کو سیاست سے پاک کرنے کی باتیں کرنے والے سیاستدان یہ بھی ےاد رکھیں کہ جب تک ہماری سیاسی قیادت میں بدیانتی،بدعنوانی، غلط بیانی اور دو نمبری موجود رہے گی فوج کو بھی مداخلت کا موقع ملتا رہے گا ۔ اور اس وقت ہر طرف جو پہیہ جام کی کیفیت نظر آرہی ہے لگتا ہے کہ تیاری شروع ہے۔ عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ اس دفعہ چور، بدمعاش اور قرضہ چوروں کا ساتھ دینے کی بجائے فوج عوام کا ساتھ دے گی اور ملک کی بھاگ دوڑ اور قیادت عالمی و ژن رکھنے والی فاطمہ بھٹو کے حوالے ہوگی ۔اور فاطمہ بھٹو کو وزیر اعظم بنایا جائے گا اور تمام بحرانوں پر قابو پایا جائے گا جو ساٹھ سالوں سے بدعنوان سول و فوجی حکمرانوں کے پیدا کردہ ہیں۔جبکہ وزارت قانون نے گزشتہ دنوں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک بریفنگ جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آ ئینی ترمیم کے بغیر بارہ مئی کو بحال کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ یہ ناممکن بھی ہے وزارت قانون نے یہ بھی کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت ہم معزول ججز کو ایڈہاک جج کے طور پر بحال کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے بھی ہمیں صدر اور چیف جسٹس کی مرضی کی ضرورت ہے۔ ججوں کی بحالی کے حوالے سے اختلافات تا حال برقرار ہیں اور آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے مابین لندن میں جاری مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے،آصف زرداری سے بعض نکات پر اختلاف ہے،3نومبر کو حلف لینے والے ججز ہماری نظر میں جائز نہیں،پی پی کے سربراہ نے سوچنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پی سی او ججز کے حوالے سے کڑوی گولی کھانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ حکمراں اتحاد برقرار رہے، پی سی او ججز کو ایڈہاک کے طور پر برقرار رکھنا چاہیے۔12مئی تک تاریخ بڑھانے کا مقصد ججز کی بحالی تھا، مذاکرات کے دوران دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں،آصف زراداری نے سوچنے کے لیے مزید وقت مانگاہے عدلیہ کی بحالی پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے،انھوںنے اعتزاز احسن،فخرالدین ابراہیم اور حفیظ پیرزادہ کو دبئی بات چیت کے دوران کمیٹی میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا،کمیٹی نے پی سی او ججز کے حوالے سے مختلف رائے دی تھی،اعتزاز احسن سمیت دوارکان پی سی او ججز کو ایڈہاک ججز کے طورپر برقرار رکھنے کوتیار ہیں جبکہ حفیظ پیرزادہ کا نکتہ نظر اسکے برخلاف ہے۔نواز شریف نے کہا ہے کہ سارا کام ق لیگ والوں نے بگاڑا اور ججوں کوبرباد کیا۔ ا یڈہاک ججوں کے مسئلہ پر تنازعہ بدستور قائم ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پی سی او کے تحت حلف لینے والے سپریم کورٹ کے ججوں کو مستقل جج کے طور پر رکھا جائے اور ججوں کی تعداد بڑھائی جائے لیکن مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ ان ججوں کو ایڈہاک بنیاد پر رکھا جائے اور تعداد بڑھانے کے لئے آئین میں ترمیم کی جائے۔ آصف زرداری اور نواز شریف کی قیادت میں دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان مذاکرات میں ان تجاویز پر غور کیا گیا جو ان دونوں جماعتوں کی آئینی کمیٹی نے تیار کی تھیں۔ ایک کے سوا دیگر تمام سفارشات پر اتفاق رائے ہے صرف ایڈہاک ججوں کی تقرری کا ایشو متنازع ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ تعداد بڑھانے کے لئے آئین میں ترمیم کی خاطر مزید مہلت دی جائے لیکن مسلم لیگ (ن) نے دھمکی دی ہے کہ توسیع دو مرتبہ ہو چکی ہے اور معزول ججوں کو 12مئی تک بحال نہ کیا گیا تو ان کے وزیر کابینہ چھوڑ دیں گے اور دونوں حکمرانوں جماعتوں کی راہیں جدا ہو سکتی ہیں۔ البتہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے چہروں سے پریشانی واضح دکھائی دے رہی تھی اور اندازہ ہو رہا تھا کہ ”مذاکرات کے اندر سب اچھا نہیں تھا“ البتہ میاں شہباز شریف نے یہ تبصرہ کیا کہ ایڈہاک ججوں کے معاملے پر ہم اپنے موقف پر قائم ہیں مذاکرات میں آصف زرداری کے ہمراہ اس بار رحمن ملک کے بجائے امریکہ میں نامزد پاکستانی سفیر حسین حقانی تھے جبکہ میاں نواز شریف کے ہمراہ شہباز شریف، اسحق ڈار، خواجہ آصف اور سید غوث علی شاہ تھے۔ حسین حقانی کی مذاکرات میں موجودگی اور امریکہ کے پیغام کے حوالے سے خواجہ آصف کے مطابق یہ محض قیاس آرائی ہے امریکہ نے پیغام بھیجنا ہوتا تو فون پر بتا سکتا تھا نمائندہ بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ ججوں کی بحالی کی ڈیڈ لائن کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ 12 مئی حتمی تاریخ ہے۔پاکستان میں ججز کی بحالی کے ایشو میں امریکہ کی براہ راست مداخلت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس ضمن امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ باو¿چر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری سے ملاقات کے لیے لندن پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کے اعلیٰ عہدیدار بھی اس معاملے پر امریکی ایما پر نواز شریف پر اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کا دباو¿ ڈال رہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے ججز کی بحالی کے معاملے پر امریکی دباو¿ کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ امریکی نائب وزیر خارجہ حکمران اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین سے ججز کی بحالی کے ایشو پر بات چیت کے لیے گزشتہ اتوار کو لندن پہنچیں ہیں ۔ اسی ملاقات کے پیش نظر نواز شریف نے لندن میں اپنے قیام میں ایک دن کی توسیع کی ہے ۔ ججز کی بحالی کے معاملے پر نواز شریف نے کسی صورت اپنے موقف پر سمجھوتہ اور کسی بھی بیرونی دباو¿ کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف نے متبادل حکمت عملی طے کر لی ہے جس کا اعلان آج( پیر کو) اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا جائے گا سعودی عرب کے اعلی حکام کی جانب سے بھی امریکی ایما پر نواز شریف کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کا دباو¿ ڈالا جا رہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ(ن) نے ججز کی بحالی کے ایشو پر کمزوری نہ دکھانے اور بیرونی دباو¿ قبول کرنے کا دو ٹوک فیصلہ کر لیا ہے ۔ پاکستان کے اس اہم قومی ایشو کے حوالے سے امریکہ کی براہ راست مداخلت پر سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جارہا ہے ۔معزول ججوں کی بحالی کے پیچیدہ مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی آخری کوششوں کے سلسلے میں حکومتی اتحاد کی دو اہم جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مذاکرات کا تازہ دور شروع ہوا۔ دونوں جماعتیں گذشتہ روز اس مسئلہ پر کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی تھیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنماو¿ں کے درمیان لندن میں سات گھنٹوں پر مشتمل بات چیت کے دو دور ہوئے تاہم ایک دوسرے کو بعض نکات پر آمادہ نہیں کر سکے، اگرچہ دونوں جماعتیں عمومی طور پر ججوں کی بحالی پر متفق ہیں تاہم اصل مسئلہ ججوں کی بحالی کا طریقہ کار کا ہے۔معزول ججز کی بحالی کے حوالے سے قوم کو مسلسل اضطراب میں رکھا جا رہا ہے جو ایک تشویشناک بات ہے ۔ آصف علی زرداری کے ساتھ شہباز شریف کے مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچنے کی توقع نہیں ہے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ۔عوام کسی آئینی پیکج کو تسلیم نہیں کریں گے اس کا مطلب مشرف کے اقدام کو جائز قرار دینا ہو گا امریکہ ہماری پالیسیوں میں مسلسل مداخلت کر رہا ہے اور وہ حکومت پر مسلسل دباو¿ ڈال کر اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے ۔۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف ہمارے ساتھ رہیں گے12مئی کے بعد نئی اپوزیشن نہیں بنے گی تاہم سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی (ق) لیگ سے اتحاد ہو گا یا نہیں ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ججز کی بحالی پر نہیں طریقہ کار پر اختلاف ہے، اداروں میں تصادم اوربیک وقت 2چیف جسٹس نہیں چاہتے،عدلیہ کی بحالی کا وعدہ ضرور پورا کیا جائیگا لیکن کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے اداروں میں تصادم ہو ۔ صدر پرویزکے مستقبل کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے ‘امریکہ کو ججز کی بحالی سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے تعاون چاہتا ہے۔ ججز کی بحالی کے معاملہ میں صرف طریقہ کار پر معمولی اختلاف ہے اور انشاء اللہ اسے بہت جلد حل کر لیا جائیگاکوئی ایسا کام نہیں چاہتے کہ جس سے کوئی ایک بحران ختم اور دوسرا کھڑا ہو جائے۔دو چیف جسٹس لانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں۔حکمران اتحاد 12 مئی کو ججز کی بحالی کے معاملہ پر انتہائی سنجیدہ ہے ۔ ا ن افواہوں میں کوئی صداقت نہ ہے کہ میاں نواز شریف 12 مئی کے بعد اپوزیشن میں چلے جائیں گے نواز شریف ان کے انتہائی قابل احترام اتحادی ساتھی ہیں جن کی تمام حکمران اتحاد انتہائی عزت کرتا ہے ذا تی طور پر ضلعی حکومتوں کے حق میں ہیں۔ لیکن ضلعی حکومتوں کا جو بنیادی تصور تھا اس کی بنیاد اصل میں پارٹی کی بنیاد پر الیکشن تھے جس میں ضلعی نمائندے مناسب طریقے سے منتخب ہوتے تھے تاہم موجودہ ضلعی حکومتوں کے نظام میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔اعتزاز احسن کو ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارٹی کی قیادت ہی کرنے کی مجاز ہے اور وہ بحیثیت وزیراعظم اس سلسلہ میں کچھ نہ کہنا چاہتے ہیں ذاتیات کی بات نہیں کرنی بلکہ ملک آئین اور قانون کی بات کرنی ہے صدر سے میرے تعلقات صرف اتنے ہیں جس کا آئین اور قانون تقاضا کرتا ہے، گورنر کی تبدیلی ایک معمول کا معاملہ ہے، ہماری پہلی ترجیح امن و امان کی بحالی ہے توانائی کے بحران پر قابو پانا اور غذائی قلت کو دور کرنا اور بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہے۔ ججوں کی بحالی کیلئے مذاکرات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا 13 نکاتی موقف جاری کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ (1) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری یہ محسوس کرتے ہیں کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت ہونی چاہئے اور ملک کو بچانے کیلئے ان میں بڑے معاملات پر اتفاق ہونا چاہئے۔ پارٹیوں کے اندر اور درمیان یا ان کا اداروں کے ساتھ تصادم پاکستان کی سالمیت کیلئے تباہ کن ہوگا۔ (2) محترمہ بینظیر بھٹو کی تدفین کے بعد آصف زرداری نے تحمل کی اپیل کی اور تمام طاقتوں سے پ±رتشدد رویّے کی بجائے پ±رامن رویّے کا مظاہرہ کرنے کیلئے کہا تاکہ پاکستان کو بحران سے بچایا جاسکے۔ پیپلز پارٹی نے اس وقت بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور نہ اب کرے گی۔ (3) ججوں کی بحالی کیلئے بھوربن معاہدہ ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی سیاسی عزم کا اظہار اور دوسری طرف قومی مفاہمت کا اظہار تھا۔ (4) کچھ لوگوں نے اعلان بھوربن کو، اسکے ساتھ منسلک آئینی اور سیاسی ایشوز کو دیکھے بغیر ہی، ججوں کی بحالی تک ہی محدود کرلیا ہے۔ میثاق جمہوریت یا پھر قومی مفاہمت کے وسیع معاملات کے تحت ججوں کی بحالی کے سوال کو آئینی معاملات کو علیحدہ کرتے ہوئے حل نہیں کیا جاسکتا۔ (5) شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی کتاب ”اسلام، جمہوریت اور مغرب“ کی روح کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک نئے کل کیلئے آج ہی سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان، سول سوسائٹی اور پاکستان کے عوام الناس کے درمیان پل تعمیر کر رہے ہیں جو ماضی میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرے گا اور ہمیں بہتر مستقبل کی جانب لے جائے گا۔ ملک میں مفاہمت کے ماحول کی ضرورت ہے تاکہ ملک ان چیلنجز کا سامنا کرسکے جس کا اسے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو سابقہ حکومت سے کئی مسائل ورثے میں ملے ہیں اور ان مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر زیر بحث لانا چاہئے۔ (6) پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو نے میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اور پیپلز پارٹی اس پر قائم ہے۔ اعلان بھوربن درحقیقت اس ہی عزم کا تسلسل تھا اور یہ سمجھا گیا تھا کہ اعلان بھوربن پر میثاق جمہوریت کے تحت ہی عمل ہوگا۔ (7) پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ تصادم ملک، اسکی سالمیت اور معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ پارٹی چاہتی ہے کہ تمام جمہوری قوتیں عوام کی خدمت اور اداروں، بشمول پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ، کے استحکام پر توجہ مرکوز رکھیں۔ (8) پاکستان پیپلز پارٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کی واپسی کو روکا جاسکے اور قومی مفاہمت اور حکمران اتحاد کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ (9) پاکستان پیپلز پارٹی اور اسکی قیادت ججوں کی بحالی میں حائل قانونی رکاوٹیں اس طرح سے ختم کرنا چاہتی ہے کہ اس عمل میں ایسی کوئی خرابی پیدا نہ ہو جسے غیر جمہوری قوتوں استعمال کر سکیں۔ (10) یہ اصول کی بات ہے کہ دونوں جماعتیں عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں۔ اختلاف صرف بحالی کے طریقہ? کار پر ہے۔ اختلافات کو آئین کے تحت ختم کیا جائے گا اور متعلقہ آئینی ایشوز پر مختلف تشریحات موجود ہیں۔ (11) پاکستان پیپلز پارٹی عدلیہ کی صورتحال میں بہتری لانے اور عوام کو سستے اور تیز رفتار انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے آئینی پیکیج لانا چاہتی ہے۔ میثاق جمہوریت میں پہلے ہی اس آئینی پیکیج کا ذکر موجود ہے اور 2006ء میں میاں نواز شریف اس سے اتفاق کر چکے ہیں۔ (12) پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ عوام اور تمام جمہوری قوتیں ملک میں جمہوری اقدار کو مزید مستحکم بنانے کیلئے کام کریں۔ (13) پاکتسان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ اس وقت ملک کے عوام کو تعلیم سے آراستہ کرنے اور ان کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی جمہوریت اور ملک کی ترقی کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ یہ الجھے ہوئے معاملات کی تشریح اور سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کا وقت نہیں ہی ہے۔ پیپلزپارٹی مخلوط حکومت کو قائم رکھنے کیلئے تمام درکار اقدامات اور اتحاد کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے بھرپور کوشش کررہی ہے ۔ جو کہ اس کا خوش آئند اقدام ہے ۔اور اس حوالے سے شری رحمن نے کہاکہ مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلزپارٹی کا اتحاد برقرار رہے گا۔ ا ججوں کی بحالی کا مسئلہ ایک آئینی مسئلہ ہے اور پولیس کے ذریعہ نہ جج بحال ہوسکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ ججوں کو سبکدوش کیا جاسکتا ہے۔ معزول ججوں کی بحالی کے مسئلے پر مذاکرات کی مکمل ناکامی کی صورت میں مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنا تعاون یکسر ختم نہ کرے بلکہ وقتی طور پر اپنے احتجاج کو کابینہ سے علیحدگی تک محدود رکھے اگرچہ ن نے جو کچھ بھی کرنا ہے اس بارے میں انھیں کوئی ابہام نہیں ہے۔ جو کچھ وکلا کمیونٹی اور عوام چاہتے ہیں وہ اس کی قدر کریں انھوں نے اتنے طویل مذاکرات صرف اسی لئے کئے ہیں تاکہ کوئی حل نکل آئے“۔ چوہدری نثار کا اہم ترین بیان یہ تھا کہ ”معزول ججوں کی بحالی کے اپنے مطالبے کیلئے ہم اپنی پنجاب حکومت کی بھی قربانی دے سکتے ہیں۔ اگر پنجاب حکومت قائم رہتی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر ختم ہوجاتی ہے تو بھی ہمیں کوئی پشیمانی نہیں ہوگی۔ ”فی الوقت پیپلز پارٹی کیلئے حکومت قائم رکھنا ہوسکتا ہے مشکل نہ ہو لیکن کابینہ سے ن کی علیحدگی سے مختصر عرصے میں اس کو شدید جھٹکا ضرور لگے گا“۔ ”پاکستان کو درپیش مسائل کے انبار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بنیادی ضرورت ہے کہ یہ دونوں بڑی پارلیمانی پارٹیاں تعاون کے راستے پر چلتی رہیں اور ملک کو تمام مسائل سے چھٹکارا دلانے کیلئے صلاحیتوں کا مشترکہ استعمال کریں“۔ اس بارے میں جانتے ہوئے کہ مسلم لیگ ن کا ان کے ساتھ تعاون زیادہ دیر نہیں چلے گا زرداری نے ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملاکر تیاری پہلے ہی کرلی ہے تاکہ کسی بھی نقصان سے بچا جاسکے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ اول الذکر حکمران اتحاد میں تنہا رہ گئی ہے کیونکہ اتحاد کے دوسرے ارکان ایم کیو ایم‘ اے این پی‘ جے یو آئی اور آزاد ارکان معزول ججوں کی بحالی کے خلاف ہیں۔ اسی حقیقت کے باعث پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین زرداری کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں کیونکہ وہ تمام ان کی حمایت کررہے ہیں ۔لیکن ان سب کی یہی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن نے ججوں کے معاملے پر اپنے موقف کے باعث سیاسی طور پر بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور اگر اس کے وزراء نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی تو انہیں مزید بونس مل جائے گا‘ تاہم زرداری کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کشتی سے نہیں اترے گی کیونکہ ان کو احساس ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے اولین دشمن پرویز مشرف کے سوا کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے حکمران اتحاد کی کمزوری سے صدر کو خود بخود فائدہ ہوگا اور اتحاد کا کوئی رکن بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد میں دراڑیں پڑنے سے مشرف خوش ہوں گے۔ وہ ایسی صورتحال کا طویل عرصے سے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا واحد ہدف نواز شریف ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ ن کے لیڈر کو اس قدر تنہا کردیا جائے کہ تمام اتحادی انہیں چھوڑ دیں۔ مسلم لیگ ن کے وزراء نے نشاندہی کی کہ زرداری کے اہم مشیر ان کی لندن مذاکرات میں مدد کررہے ہیں‘ غیرمنتخب شدہ ہیں جبکہ عوامی نمائندوں کو معاملات سے دور رکھا ہوا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر داخلہ رحمن ملک اور امریکا میں متعین پاکستان کے سفیر حسین حقانی لندن میں زرداری کی نواز شریف کے ساتھ اہم مذاکرات میں مدد کررہے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کی مدد شہباز شریف‘ خواجہ آصف اور اسحاق ڈار کررہے ہیں۔ مسلم لیگ ق جس نے ابھی مناسب اور ابہام سے عاری پالیسیاں بنانی ہیں‘ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اس سہولت کی شادی / اتحاد کے ٹوٹنے کے انتظار میں ہے۔ اگر مسلم لیگ ن حکمران اتحاد سے علیحدہ ہوجاتی ہے تو ق لیگ کے 51اراکین قومی اسمبلی مشرف کے حکم پر پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گے۔ مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے بتایا ہے کہ ”اتحاد کے وجود کا انحصار معزول ججوں کی بحالی کے معاملے پر ہونے والے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مذاکرات کے نتیجے پر ہے“۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ ق نے ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وفاق اور پنجاب کی سطح پر پیپلز پارٹی کی طرف دست تعاون بڑھانے کی باتیں قبل ازوقت ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے باہمی تعاون کیا تو مسلم لیگ ن کی پنجاب میں چھٹی ہوجائے گی کیونکہ دونوں پارٹیوں کے ملنے سے بڑی اکثریت وجود میں آئے گی۔“ موجودہ حکمران امریکا کے دباو¿ میں ہیں، ججوں کی بحالی کے معاملے میں امریکا مداخلت کررہاہے جبکہ لندن مذاکرات بھی کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں اورایسی صورتحال میں عوام تماشائی نہیں رہیں گے۔ ملک کے 16کروڑ عوام اورکسی صورت 3نومبر کے بعد والی صورتحال اور پی سی او ججوں کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو قبول نہیں کریگی۔ جبکہ ججوں کی بحالی میں روڑے اٹکانے کے خلاف اے پی ڈی ایم کے قائدین کا اہم اجلاس 14 مئی کو منعقد کیا جارہا ہے جس میں اے پی ڈی ایم آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی جبکہ جماعت اسلامی کی شوریٰ کا اجلاس 16مئی کو طلب کیا گیا ہے اور انھوں نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے کہ اس ملک سے پرویزمشرف کی آمریت کو ختم کرکے دم لیں گے۔ انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم کسی آئینی پیکج کو تسلیم نہیں کرینگے، آئینی پیکج دراصل پرویز مشرف کے غیرآئینی اور غیر قانونی اقدامات کو تحفظ دینے کیلئے لایا جارہا ہے اور ایوان صدر سے منصوبے پھیلائے جارہے ہیں کہ ملک میں 2سپریم کورٹ اور دو چیف جسٹس ہونگے جو کہ ایک مضحکہ خیز بات ہے اور ملک کو تقسیم کرنے کااورافراتفری پھیلانے کا منصوبہ ہے، ایسے منصوبوں کو وکلائ، سول سوسائٹی اور ہم ملکر ناکام بنائیں گے۔ پاکستان کے عوام جسٹس افتخا ر چوہدری کے بغیر ججوں کی بحا لی قبول نہیں کریں گے عوام اعلان مری کے مطابق تما م جج بحال چاہتے ہیں ۔ ججز کی بحا لی کیلئے آئین میں ترمیم تین نومبر کے غیر آئینی اقدامات کو تسلیم کر نے کے مترادف ہو گی ۔ ججز بحا لی کمیٹی کے فیصلوں سے قوم کو ایک فوری طور پر آگا ہ کیا جائے۔ فرد واحد کو اختیار نہیں کہ وہ آئین میں تر میم کر ے یا اسے معطل کر کے 60جج گرفتار کر لے ۔فر د واحد کے اقدامات تسلیم کر لئے گئے تو آئندہ ججوں کے ساتھ ارکا ن پا رلیمنٹ بھی گرفتار کر لئے جا ئیں گے ۔ سیاسی جماعتوں کے اختلافات جلد ختم ہونے چاہئیں۔ میثاق جمہوریت پر عمل کریں قومی سطح پر خوراک کابحران پیداہورہاہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 126ڈالرفی بیرل تک پہنچ گئی ہے ،ملک معاشی بحران سے دوچارہے،لوگ خودکشیاں کررہے ہیں، لہٰذا سیاسی جماعتوں میں باہمی اختلافات جتنی جلدختم ہوں اتنااچھاہے تاکہ ہم غریب عوام کے بنیادی مسائل حل کرسکیں۔ ملک پہلے ہی ان گنت مسائل کاشکار ہے اور ججوں کامسئلہ ایک ایسی شکل اختیارکرتاجارہاہے کہ جتنی جلدحل ہوجائے ملک کیلئے بہترہے ۔ملک کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے‘ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بھلا دیں اتحادی حکومت کے کندھوں پر قوم نے بھاری ذمہ داری ڈالی ہے اورانھیں عوامی توقعات پر پورا اترنا چاہیے

No comments: