International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, June 25, 2008

عوام کی رائے کی پا مالی اور طاقتور مافیا ۔۔۔ تحریر : اے پی ایس

وفاقی حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دو درخواستیں دائر کیں۔ یہ درخواستیں کو ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبد الرحمن نے دائر کی جن میں سے ایک میں ضمنی انتخابات ملتوی کرنے جبکہ دوسری میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے یہ درخواستیں سماعت کے لیے منظورکر لی تھی اورجسٹس موسیٰ لغاری، جسٹس زوار جعفری اور جسٹس فرخ محمود پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دیا جس نے اس کیس کی سماعت کی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف کی اہلیت سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ متعلقہ فورم نہیں اور اس کیس کو الیکشن ٹریبونل میں بھیجنا چاہیے تھا۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ درخواست گزار خرم شاہ نہ ہی متعلقہ حلقے کے ووٹر ہیں اور نہ ہی انہیں اس قسم کے کیس دائر کرنے کا استحقاق حاصل ہے لہذاہ یہ کیس بغیر سماعت کے لاہور ہائی کورٹ میں ہی ختم کر دینا چاہیے تھا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں اس مقدمے میں وفاقی حکومت کو بھی فریق بنایا گیا ہے جو کہ اپنا واضح مو¿قف رکھتی ہے۔ اس سے قبل نواز شریف کے پروپوزر ظفر اقبال کے وکیل ارم شیخ نے بھی اس حوالے سے خرم شاہ کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔ اکرم شیخ نے بھی ایک درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ انہیں اب لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ترمیمی پٹیشن دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ ان کی درخواستوں کی سماعت وفاقی حکومت کی دونوں درخواستوں کے ساتھ ہی کی جائے۔ واضح رہے کہ پیر کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سید خرم شاہ اور نور الہی کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف دائر کی گئی دو علیحدہ علیحدہ درخواستوں پر کیا تھا اور لاہور ہائی کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس عبدالشکور پراچہ، جسٹس ایم بلال خان اور جسٹس شبر رضا رضوی پر مشتمل تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کی تین رکنی فل بنچ کے رکن جسٹس حسنات احمد خان نے شریف برادران کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کے معاملے کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا ۔دوسری طرف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے شریف برادران کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل دے دیا جو درخواستوں پر دوبارہ سماعت کرے گا۔ شریف برادران کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے جو تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ۔ اس میں جسٹس عبدالشکور پراچہ، جسٹس ایم بلال خان اور جسٹس شبر رضا رضوی شامل ہیں۔ ہائی کورٹ کے جسٹس حسنات احمد خان نے درخواستوں پر انکار مسلم لیگ نون لائیرز فورم کے صدر خواجہ محمود کی طرف سے بنچ کی تشکیل کے اعتراض کے بعد کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس فضل میراں چوہان ، مسٹر جسٹس حسنات احمد خان اور مسٹر جسٹس احسن بھون پر مشتمل بنچ شریف برادران کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کے معاملے سماعت کررہا ہے کارووائی کے دوران مسلم لیگ لائیرز فورم پاکستان کے صدر خواجہ محمود احمد نےتین رکنی فل بنچ کی تشکیل پر اعتراض کیا اور کہا کہ بنچ کے ایک رکن قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف پرویز الہی کے رشتہ دار ہیں جبکہ دوسرے رکن مسلم لیگ قاف کے سینیٹر ڈاکٹر خالد رانجھا کے جونئیر رہ چکے ہیں اور ڈاکٹر خالد رانجھا کو نواز شریف کے دور حکومت میں لاہور ہائی کورٹ کا مستقل جج مقرر کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس حسنات احمد خان نے بنچ پر اٹھائے گئے اعتراض کی وجہ سے شریف براردارن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے سے انکار کردیا۔ شریف براردان کو انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کے خلاف سید خرم شاہ اور نورالہی نے الگ الگ درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ان درخواستوں پر نواز شریف اور شہباز شریف کو نوٹس جاری کیے تھے تاہم ان کے پیش نہ ہونے پرفل بنچ نے یکطرفہ کارروائی شروع کی تھی۔ فل بنچ کے حکم اٹارنی جنرل کے ایما پر ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمان پیش ہوئے اور انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ شریف برادران کی اہلیت کا معاملہ فریقین کے درمیان ایک نجی نوعیت کا تنازعہ ہے جس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں لاء افسر کی معاونت درکار نہیں ہے۔ سماعت کے دوران درخواست گزار سید خرم شاہ کے رضا کاظم نے شہباز شریف کے خلاف درخواست پر دلائل مکمل کیے جس کے بعد نورالہی کے وکیل ڈاکٹر محی الدین قاضی نے دلائل کا آغاز کیا تو اسی دوران مسلم لیگ نون لائیرز فورم کے صدر خواجہ محمود نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کردیا۔ خیال رہے کہ جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کے معاملے میں فریق بننے کے لیے دائر کی گئی درخواستیں مسترد کر دی ۔ یہ درخواستیں سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال، حکومت پنجاب ، مسلم لیگ نون لائیرز فورم اور نواز شریف کے تجویز کنندہ مہر ظفر اقبال نے دائر کی تھیں۔ یاد رہے کہ شہباز شریف پنجاب کے علاقہ بھکر کی صوبائی اسمبلی کی نشست اڑتالیس سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلٰی منتخب ہوئے ہیں جبکہ ان کے بھائی نوازشریف لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو تئیس سے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ایک وکیل اشتر اوصاف نے عندیہ دیا کہ صدر پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف کردہ جج دو چار روز میں بحال ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری نے بجٹ کے فوری بعد ججوں کی بحالی کی یقین دہانی کروائی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کی بات اس پر شبہ کیا جائے۔ جب انہیں یاد دلایا گیا کہ آصف علی زرداری نے تو بیان دیا ہے کہ لوگ روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہے ہیں اور ججوں کی بحالی ان کی ترجیح نہیں تو اشتر اوصاف نے کہا کہ یہ بات بالکل بجا ہے کہ لوگ روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ایک دن یا چھ ماہ میں بھی انہیں دیا جاسکتا جبکہ ججوں کو ایک ہی دن میں بحال کیا جاسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے بعد میاں نواز شریف ان کے سامنے اپیل میں پیش ہوسکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نا اہلی کے فیصلے کے خلاف میاں نواز شریف حکمت عملی اپنی جماعت کی مشاورت سے ہی طے کریں گے انتخابی معاملات میں امیدوار خود عدالت میں پیش نہیں ہوتا اور ان کے تجویز یا تائید کنندہ ہوتے ہیں وہ پیش ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر میاں صاحب خود سپریم کورٹ نہیں جاتے تو ان کے تجویز یا تائید کنندہ اپیل کرسکتے ہیں۔اشتر اوصاف نے کہا کہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں کبھی یکطرفہ طور پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اور اس مقدمے میں تو تین گھنٹے کی مختصر سماعت کے بعد ہی فیصلہ دے گیا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ میاں نواز شریف کا کوئی نمائندہ عدالت میں کیوں پیش نہیں ہوا تو انہوں نے کہا قطع نظر اس کے کہ کوئی پیش نہیں ہوا، بنیادی حقوق کے معاملات میں عدالتوں کو تمام پہلوو¿ں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ’میاں نواز شریف کو معافی مل چکی ہے، وہ انتخاب لڑنے کے اہل ہیں اور ان کے خلاف سرکار نے جو بھی اعتراضات اٹھائے ہیں وہ قابل پذیرائی نہیں ہیں‘۔ ان کے مطابق جب سرکاری وکیل نے خود تسلیم کیا ہے کہ میاں صاحب کو معافی مل چکی ہے تو پھر ان کی نااہلیت کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اور ان کے بھائی شہبازشریف نے لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلہ کے خلاف داد رسی کے لیے خود عدالتِ عالیہ سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور شریف خاندان کے وکیل اشتر اوصاف علی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو وفاقی حکومت عدالت میں چیلنج کرے گی۔پیر کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا جبکہ عدالتی حکم کے مطابق مسلم لیگ کے صدر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اس وقت تک وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں جب تک ان پر لگائے جانے والے اعتراضات پر الیکشن کمیشن طرف سے فیصلہ سامنے نہیں آ جاتا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ پیر کی رات ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا گیا جس میں نواز شریف، شہباز شریف ، اشتراوصاف علی ایڈووکیٹ، خواجہ حارث ایڈووکیٹ اور اکرم شیخ ایڈووکیٹ شامل ہوئے۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف اپنے سابقہ موقف قائم ہیں اور پی سی او کے تحت حلف لینے والوں ججوں جج کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے وہ اپنے بارے میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف داد رسی کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کریں گے۔ اشتر اوصاف علی کے بقول نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو وفاقی حکومت عدالت میں چیلنج کرے گی کیونکہ اس فیصلے سے صرف نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دیا گیا بلکہ ایک نئی ریت اور روایت ڈالی گئی ہے جس پر پیپلز پارٹی کو تحفظات ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر مایوسی اور ناامیدی کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ مو¿قف ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف درخواستیں ہائیکورٹ کے سامنے قابل سماعت نہیں تھیں۔ ادھر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے بعد ازاں ایک نجی ٹی وی چینل سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کٹ جائیں گے لیکن ان ججوں کو جج نہیں مانیں گے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے لیے حکومت کیا ہر چیز بھی چلی جائے تو یہ بڑی قربانی نہیں ہے‘۔ یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سید خرم شاہ اور نور الہی کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف دائر کی گئی دو علیحدہ علیحدہ درخواستوں پر کیا لاہور ہائی کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس عبدالشکور پراچہ، جسٹس ایم بلال خان اور جسٹس شبر رضا رضوی پر مشتمل تھا۔ عدالت نے پیر کے روز تین گھنٹے کی کارروائی کے بعد ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا اور سوموار ہی کی شام کو اس فیصلہ کا اعلان کر دیا۔عدالت کے فیصلہ سناتے ہی مسلم لیگ کے حامی وکلاءنے کمرہ عدالت میں ’پی سی او جج نامنظور‘ اور ’گو مشرف گو‘ کے نعرے لگائے۔یاد رہے کہ ان مقدمات میں نواز شریف اور شہباز شریف احتجاجاً پیش نہیں ہو رہے تھے۔ خیال رہے کہ شہباز شریف پنجاب کے علاقہ بھکر کی صوبائی اسمبلی کی نشست اڑتالیس سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلٰی چنے گئے ہیں جبکہ ان کے بھائی نوازشریف لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو تئیس سے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ فورم کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں کہاگیا کہ جسٹس شبر رضا رضوی مسلم لیگ قاف کے سینیٹر ڈاکٹر خالد رانجھا کے ایسوسی ایٹ رہے ہیں اور انہیں اس وقت ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا گیا تھا جب نوازشریف وزیر اعظم اور شہبازشریف وزیر اعلی پنجاب تھے۔ سماعت کے دوران درخواست گزار نور الہی کے وکیل ڈاکٹر قاضی محی الدین نے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کے کاغذات نامزدگی اٹھارہ فروری کو ہونے والے انتخابات کے دوران بھی مسترد کیے گئے تھے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ جب عام انتخابات میں کوئی امیدوار نااہل ہوجاتا ہے تو کس طرح اس امیدوار کے کاغذات ضمنی انتخابات میں اہل ہوسکتا ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ ہیں اور اس لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔کارروائی کے دوران سید خرم شاہ نے وکیل رضا کاظم نے دلائل میں کہا کہ شہباز شریف کے خلاف الیکشن ٹربیونل نے اختلافی فیصلہ دیا ہے اس لیے شہباز شریف کے انتخاب لڑنے کی اہلیت کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ سماعت کے دوران مسلم لیگ نون لائیرز فورم کے صدر خواجہ محمود نے بنچ کے رکن جسٹس شبر رضا رضوی پر اعتراض کیا جس پر بنچ کے سربراہ جسٹس عبدالشکور پراچہ نے انہیں ہائی کورٹ آفس میں باضابطہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی جس پر فورم کے صدر نے اس معاملہ پر درخواست دائر کردی۔ فورم کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں کہاگیا کہ جسٹس شبر رضا رضوی مسلم لیگ قاف کے سینیٹر ڈاکٹر خالد رانجھا کے ایسوسی ایٹ رہے ہیں اور انہیں اس وقت ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا گیا تھا جب نوازشریف وزیراعظم اور شہبازشریف وزیراعلی? پنجاب تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دے دیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے سوموار کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ کے صدر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اسوقت تک وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں جب تک ان پر لگائے جانے والے اعتراضات پر الیکشن کمیشن طرف سے فیصلہ سامنے نہیں آ جاتا۔ مسلم لیگ (ن) پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتی پاکستان میں حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے پارٹی کے قائد نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دینے کے فیصلے کے خلاف منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے پہلی مرتبہ احتجاجاً واک آو¿ٹ کیا۔مسلم لیگ کے کارکنوں نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران پارلیمنٹ ہاو¿س کے باہر مظاہرہ کیا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نعرے لگائے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لاہور میں میاں نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ قومی اسمبلی سے واک آو¿ٹ کرکے باہر آنے والے مسلم لیگ کے منتخب ارکان نے کہا کہ اسمبلی کے اندر موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا موقف واضح کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کا کہنا تھاکہ وہ بدھ کو نواز شریف کی نااہلیت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔اپیل کا اعلان وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے قومی اسمبلی میں کل کے عدالتی فیصلے پر بحث کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق انتخابی معاملات پر سماعت کا حق انتخابی ٹرائبونلز کے پاس ہے جو کام کر رہے ہیں۔ اگر اعلان مری پر پیپلز پارٹی کاربند رہتی تو آج یہ فیصلہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ اگر صدر نے کل کو اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو انہیں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے سامنے معاملہ پیش کرنا پڑے گا ’لاہور ہائی کورٹ کو اس کیس کی سماعت کا حق نہیں تھا تاہم انہوں نے اپنی دانست کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے حکم امتناعی کی درخواست کریں گے کیونکہ ضمنی انتخاب اگلے روز یعنی چھبیس جون کو منعقد ہو رہے ہیں۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اہم قانونی معاملہ ہے اور اس کے لیئے جائز سماعت کا موقع دیا جانا چاہیے۔‘ انہوں نے ایوان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین خاص طور پر اپنے ہی اتحادی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیپلز پارٹی پر تنقید پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے اس مسئلے پر واضع مو¿قف اختیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ حکومت اس فیصلہ کے خاتمے کے لیئے تمام آئینی و قانونی ذرائع استعمال کرے گی اور انہیں امید ہے کہ فتح ان ہی کی ہوگی۔ منگل کو ایوان کی کارروائی کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما چوہدری نثار علی خان نے نقطہ اعتراض پر عدالتی فیصلے کا معاملہ اٹھایا اور تفیصلی بحث کا تقاضہ کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ایوان سے معمول کی کارروائی روک کر اس معاملے پر تفصیلی بحث کروانا چاہی۔چودھری نثار نے اسمبلی میں پیپلز پارٹی پر تنقید کی تاہم سپیکر فہمیدہ مرزا نے چند اراکین کو اس معاملے پر اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر معاملے پر دو رائے ہوتی ہیں۔ چوہدری نثار نے اپنی تقریر میں ایوان سے دریافت کیا کہ وہ آج فیصلہ کرے کہ اسے جمہوریت کی جانب جانا ہے یا آمریت کی جانب۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کسی فوجی آمر کی وردی سے چمٹ کر اقتدار میں نہیں آئیں گے جبکہ حزب اقتدار کو اپنی غلطیاں نہیں دہرانی چاہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی اور جانوں کی قربانیاں دیں لیکن آج یہ جماعت ایسا کیسے کر سکتی ہے۔ ’میں جانتا ہوں یہ ایسا نہیں کرے گی۔’ وفاقی وزیر قانون نے واضح کیا کہ ججوں نے یہ فیصلہ ان کے کہنے پر نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اس فیصلے کی سماعت کے دوران مخالفت کی تھی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر معزول ججوں سے متعلق اپنا مو¿قف واضح کرتے ہوئے کہا کہ انہیں آئین اور قانون کے تحت بحال کریں گے۔ ’ڈنڈے کے زور پر انہیں بحال نہیں کیا جائے گا۔ دو غلط باتوں سے ایک درست بات نہیں بنتی۔‘ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے رکن ریاض حسین پیرزادہ نے حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جب بھی ضرورت پڑی وہ اپنی نشست چھوڑ دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال، اور ایاز امیر نے بھی تقاریر کیں اور کہا کہ اگر اعلان مری پر پیپلز پارٹی کاربند رہتی تو آج یہ فیصلہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر نے کل اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو انہیں پی سی او والی عدالتوں کا سہارا لیں گے۔ مسلم لیگ (ق) کے شیخ وقاص نے اپنی جماعت کا مو¿قف واضح کرتے ہوئے کہا وہ تقاریر کا اپنا وقت بھی پیپلز پارٹی کو دینے کو تیار ہیں تاکہ وہ اپنی پوزیشن واضع کرسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملہ پر مزید کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہے۔ شہباز شریف راولپنڈی سے بھی بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف پنجاب اسمبلی کی ایک دوسری سیٹ سے بلامقابلہ کامیاب ہونے کے باوجود پی پی اڑتالیس بھکر کی نشست برقرار رکھ سکتے ہیں۔شہباز شریف بھکر کی نشست سے بلامقابلہ کامیاب ہونے کے بعد اسی نشست کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں۔ راولپنڈی کے حلقہ پی پی دس سے شہباز شریف کے مخالف تمام امیدوار ان کے حق میں دستبردار ہوگئے اور انہیں اس حلقے سے بھی بلامقابلہ کامیاب قرار دیدیا گیا۔ مسلم لیگ قاف کی خاتون رکن بشری گردیزی نے پنجاب اسمبلی میں نکتہ اعتراض اٹھایا اور آئین کے آرٹیکل دوسوتیس (چار) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی سے کامیابی کے نوٹیفیکشن کے بعد ان کی بھکر والی نشست از خود خالی قرار پائی جا چکی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ شہباز شریف اب پی پی دس سے حلف اٹھائیں اور دوبارہ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے عمل سے گزریں۔ منگل کو پنجاب اسمبلی کی کارروائی شروع ہوئی تو بھکر سے مسلم لیگ نون کے رکن سعید اکبر نوانی نےنکتہ اعتراض پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی رانا مشہود سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر ابہام دورکرنے کے لیے رولنگ جاری کریں۔ان کی اس تجویز پر حکومتی اراکین اسمبلی نے ڈیسک بجا کر اس کی حمایت کی۔ ڈپٹی سپیکر رانا مشہود احمد خان نے اذان کے وقفے کے فوراً بعد کہا کہ وہ خدا کا نام لیے جانے کا انتظار کر رہے تھے اور اب وہ رولنگ دیتے ہیں چونکہ کسی شخص کے ایک سے زائد نشستوں پر امیدوار ہونے پر پابندی نہیں ہے اور شہباز شریف نے بیک وقت ایک سے زائد نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے آئین شہباز شریف کواجازت دیتا ہے کہ وہ پی پی اڑتالیس بھکر سے اپنی نشست برقرار رکھ سکیں۔منگل کو تمام دن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے حکومتی اراکین اسمبلی نکتہ اعتراض پر بات کرتے رہے اور بجٹ پر بحث نہیں ہوسکی۔ اراکین اسمبلی نے ہائی کورٹ کے ججوں اور صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے۔ اراکین نے نواز شریف کو ضمنی انتخابات کے لیے نااہل قرار دینے کے فیصلے کو ایک سازش قرار دیا اور کہا کہ ایسا ایوان صدر کے کہنے پر ہوا ہے۔ بعد میں مال روڈ پر ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں مسلم لیگ نون کے اراکین اسمبلی نے بھی شرکت کی۔

No comments: