International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, July 8, 2008

اتحادی جماعتوں کا حکومت کی ١٠٠ روزہ کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار

اسلام آباد ۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) ، جمعیت علماء اسلام ( ف)ا ور عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت کی 100 روزہ کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا تاہم اس کی وجوہات کو مدنظر رکھنے اور سنگین چیلنجز کی جانب قوم کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے پاکستان مسلم لیگ(ن) نے کہا ہے کہ حکومت کو اہداف کے حصول میں ناکامی ہوئی ہے ۔ ہم حکومتی پالیسیوں کے ذمہ دار نہیں ہے حکومت خود اس حوالے سے جواب دہ ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ امن وامان کا قیام اور پارلیمنٹ کی بالادستی حکومت کی ترجیحات ہے ۔اس میں حائل رکاوٹوں کو جو کمزور ہو چکی ہیںکودور کرنے کی ضرورت ہے۔جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف) نے حکومتی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سودنوں میں حکمران اتحاد میں یکجہتی کا فقدان رہا ۔ چاروں جماعتوں کا ایک بھی مشترکہ اجلاس نہ ہو سکا ۔ دینی و مذہبی حلقوںکو ناراض کیا گیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں فیصلے کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا ہے جبکہ جماعت اسلامی پاکستان اور سینٹ میں آزاد اپوزیشن نے قرار دیاہے کہ صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں نظام حالات پالیسیاں تبدیل نہیں ہوئیں حکومت نے سو دنوں میں ناکامیوں ، مایوسی اور ناامیدی کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ ا س امر کا اظہار جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری جنرل سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا ، سینٹ میں آزاد اپوزیشن کے رہنما اور جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر پروفیسر خورشید احمد ، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان نے منگل کو ثناء نیوز سے حکومتی کارکردگی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ حکومت کے سو روزہ پروگرام پرعملدرآمد کے حوالے سے 9 جولائی (کل) مقررہ مدت پوری ہوجائے گی بیشتر قومی ایشوز میںپیش رفت نہیں ہو سکی ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ حکومت نے اپنی ترجیحات اور سمت کاتعین تھاکہ اہداف کے حصول کے لیے سفر کا آغاز کرناہے ۔ تاہم رکاوٹوں کی دوری کے لیے موثر حکمت عملی سامنے نہیں ہے۔ ان سو دنوں میں اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت کا فقدان رہا کسی معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ عدلیہ کے حوالے سے دونوں بڑی جماعتیںش مسئلے کے حل پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکیں ہیں جس کی وجہ سے عوام میں مسائل کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ عوام آٹے کے بحران ، بے روزگاری ،مہنگائی ، گیس ، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں بد امنی کیوجہ سے حکومت سے ناراض نظر آ رہے ہیں۔حکومت کو مہنگائی کے حوالے سے عوام کے کرب کا اندازہ اور ادراک نہیں ہے ۔ دونوں بڑی جماعتوں کی ترجیحات میں فرق عام آدمی کی مشکلات کے حل میں رکاوٹ کا سبب ہے ۔ مایوسیوں کی وجہ ہے ۔ ایسے میں قبائلی علاقوں میں آپریشن کی باتیں کی گئیں فوج کو استعمال کیاگیا ۔ اگرچہ اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں ہوا۔ تاہم فاٹا سے فوجیں واپس بلانے کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں ملا ہے ان سو دنوں میں یہ تاثر عام کیاگیا کہ حکومت قبائل اور بلوچستان میں فوج کے استعمال کو ترجیح دینا چاہتی ہے اس تاثر نے عوام کو مزید تشویش میں مبتلا کیا امن و امان میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ البتہ باڑہ میں ضرور آپریشن شروع ہوا ۔ معاہدے توڑنے کے بیانات دئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بد امنی کی فضا دوبارہ پیدا ہو گئی ہے ۔ اسلام آباد اور کراچی میں دھماکوں کے امن کی فضا کو سبوتاژ کیاہے۔ بہرحال ان ساری چیزوں کا تعلق پالیسیوں سے بنتا ہے ۔ اس بات پر اطمینان ہوا تھاکہ تمام فیصلے پارلیمنٹ میں کئے جائیں گے۔ مگر پارلیمنٹ کو نہ فاٹا آپریشن کے بارے میں اعتماد میں لیاگیا نہ خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ میں بحث ہو سکی ہے ۔ اس طرح خطے میں عالمی قوتوں کی موجودگی جو کہ فساد کی اصل جڑ ہے اور جس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بری طرح متاثر کیا کے حوالے سے بھی خارجہ پالیسی کو نئی سمت نہیں دی گئی ۔اس حوالے سے ابھی تک پارلیمنٹ کا کردار محدود ہے ۔ کسی معاملے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ بلکہ ان سو دنوں میں چار جماعتوں کا کوئی ایک مشترکہ اجلاس بھی نہیں ہو سکا ہے۔ جو حکمران اتحاد میں کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سزائے موت کو ختم کر کے مذہبی حلقوں کو ناراض کیاگیا ۔ کارکنان میں حکمران اتحاد کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو بالا دست بنانے کے لیے مستحکم پالیسیاں بنانا ہوں گی ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں دینی و مدہبی قوتوں کے درمیان اسلامی نطریے کے حوالے سے نصب العین کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔ دینی و مذہبی قوتوں کا مقصد اوردشمن مشترک ہیں ۔طریقہ کار میں اختلاف ہوسکتا ہے ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آپس میں لڑتے رہیں۔ اتحاد یکجہتی کو فروع دینا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ دینی حلقوں کو لڑانے کی سازشیں ہو رہی ۔ بد اعتمادی کی جو فضا قائم کی کوشش جاری ہے اسے ناکام بنانا ہو گا شہدا لال مسجد کانفرنس میں دینی و مذہبی جماعتوں نے بے مثال یکجہتی کا اظہار کیا ہے اسے فروغ ملنا چاہیے ۔سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا نے کہاہے کہ وزیر اعظم نے 100 روزہ اہداف کا اعلان کیا تھا ۔ ان کو چاہیے کہ وہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے قوم کو بتائیں ۔جہاں تک پاکستان مسلم لیگ ن کا تعلق ہے ہم حکمران اتحاد کا حصہ ضرور ہیں مگر حکومت کا حصہ نہیں ہیں ۔ حکومت کی جانب سے جواعلانات کئے گئے تھے غالباً انمیں پیش رفت نہیں ہوئی ہے نہ انہیں حاصل کیا جا سکا تاہم اس کی وجوہات بھی ہیں ۔ اس دوران حکومت کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا رہا تاہم یہ بات بھی ہے کہ حکومت کو سوچ سمجھ کر اعلانات کرنے چاہےئں تھے ۔ دعا ہے کہ حکومت نے جن اہداف کا اعلان کیا ہے ان میں وہ کامیاب ہو جائے ۔قومی کی بہتری ، حالات سدھریں ظاہر ہم سے جو مدد ہوگی ہم وہ کریں گے۔ چیلنجز کافی سنگین ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت صرف حکمران اتحاد کا حصہ ہے حکومتی پالیسیوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ٹائم فریم میں ججز بحال نہ ہوئے ، پاکستان مسلم لیگ ن کے وفاقی وزراء مستعفی ہو گئے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ سارے معاملات میں پرویزمشرف رکاوٹ ہیں۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے بھی اقدامات نہیں کئے گئے۔ حکومت نے سو دنوں میں کیاحاصل کیاہے ۔ کیا کارکردگی ہے۔ ہم حکومت کا حصہ نہیں ہیں اس لےیئ اس بارے میں حکومت خود ہی بہتر بتا سکتی ہے۔ سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ سو روزہ پروگرام محض اعلان تھا ۔ قوم کو دھوکہ دیاگیاہے ۔ عملدرآمد تو دور کی بات ہے ان اہداف کے حصول کے لیے اعلانات پر عملدرآمد کا آغاز تک نہیں ہو سکا۔ مایوس کن صورتحال ہے۔ 18 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں قوم کو توقع تھی کہ سیاسی قیادت قربانی دیگر عوام پر توجہ دے گی۔ حکومت تبدیل ضرور ہے مگر پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے ۔ 18 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں پرویز مشرف ختم ہو گئے تھے ۔ جو دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں ۔اس حوالے سے عوامی توقعات کو پورا کرنے کے سلسلے میں حکومت بری طرح ناکام ہو ئی ہے ۔ خرابی اورمسائل بڑھ رہے ہیں ۔ اسلام آباد اور کراچی میں بم دھماکے ہو رہے ہیں ۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی کا یہ حال ہے کہ جو بجٹ تین ہفتوں تک زیر بحث رہتا تھا صرف گیارہ دنوں میں بجٹ کی منظوری حاصل کر لی گئی ۔ آئینی پیکج پارلیمنٹ اور عدلیہ کے پر کاٹنے کے لیے لایا گیاہے ۔ تاکہ ان دونوں اداروں پر ایگزیکٹو حاوی ہو ۔ حالات زیادہ خراب ہیں ہو شربا مہنگائی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گر رہی ہے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں ۔افراط زر قابو میں نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں فیصلے کرنے کا دعوی کیاگیاتھا جبکہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فرنٹ لائن اتحادی ملک ہونے کی حیثیت میں پاکستان کی پوزیشن زیادہ خراب ہوئی ۔ پاکستان نے اپنی روایات ضرورت اور مفاد کے مطابق جو امن معاہدے کئے انہیں سبوتاژ کیا جارہاہے ۔ صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں ۔ نظام پالیسی اور حالات تبدیل نہیں ہوئے ناکامی مایوسی نا امیدی کے سوا کچھ نہیں دیا گیا ۔عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان نے کہا کہ نئی حکومت کو تشدد اور مخدوش امن و امان کی صورت حال ورثے میں ملی ہے ۔ صورت حال میں بہتری کے لیے مختلف سطح پر مذاکراتی عمل شروع ہوا اگرچہ سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔ تاہم کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کیا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ عوام کو وہ ریلیف نہ د ے سکے جس کی وہ توقعات کررہے تھے۔ تاہم زیادہ ترجیح پارلیمنٹ کی بالادستی اور امن وامان کے شعبے کو دی گئی ہے ۔ پارلیمنٹ کے استحکام اور مضبوطی کے لیے آئینی پیکج تیار کیا گیا یقینا پارلیمنٹ کی بالادستی کے نتیجے میں عوامی خواہشات پوری ہو سکیںگی ۔ حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ عوام کے سامنے ہین ۔ یہی مشکلات اور رکاوٹین امن وامان کو سبوتاژ کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور امن کی راہ میں حائل یہ رکاوٹیں مضبوط نہیں کمزور ہو گئی ہیں اہداف حاصل کرلیں گے کوشش ہے کہ عوام کے مسائل حل کریں انہوں نے کہا کہ گزشتہ آٹھ دس روز میں حکمران اتحاد کا اجلاس متوقع ہے ۔

No comments: