راولپنڈی ۔ اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر شیری رحمن نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں طالبانائزیشن کو پروان نہیں چڑھنے دیں گے تاہم کسی بیرونی طاقت کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے موجودہ مشکل اور نازک ترین حالات میں ہم ملک کو عدم استحکام سے بچانا چاہتے ہیں ۔ بعض ملک دشمن عناصر اسلام کا نام استعمال کررہے ہیں لیکن ہم مفاہمت سے معاملات سلجھانا چاہتے ہیں ۔ 5 سالہ کرپشن اور لوٹ مار کی صفائی کے بعد ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے موجودہ حکومت کو کم از کم چودہ ماہ کا عرصہ درکار ہے عوام تحمل کا مظاہرہ کریں پیپلزپارٹی اپنے وعدوں ‘ منشور اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے ۔ صحافت اور صحافیوں کی آزادی و فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کی سہ پہر راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے دورے کے موقع پر منعقدہ بریفنگ میں کیا ۔ اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات اکرم شہیدی اور پرنسپل انفارمیشن افسر و ایم ڈی پی تی وی غلام رسول باجوہ بھی موجود تھے۔ شیریں رحمان نے اس موقع پر نیشنل پریس کلب کے لیے دو کروڑ 9 لاکھ روپے کے فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے چیک پریس کلب کے صدر کو دیا۔ شیری رحمان نے کہا کہ آپ کی نمائندہ حکومت میڈیا کے حوالے سے انتہائی حساس ہونے کے ساتھ مسائل سے آگاہ ہے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کیے جائیں گے حکومت میڈیا کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے وزارت اطلاعات نے ماضی میں میڈیا پر پابندیاں عائد کیں ہم ایسا تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں ہم نے بیشتر کالے قوانین ختم کیے ۔ پیمرا کو بذات خود ایک حد بندی میں رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈنینس کا مسودہ بھی نظر ثانی کے لیے کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے ۔ جو بعدازاں جلد اسمبلی میںپیش کردیا جائے گا۔ ویکٹم (VICTIM ) فنڈ کا آغاز کردیا جس کے شفاف استعمال کے لیے آئندہ ماہ ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی ۔ صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں حکومت ہر ممکن حد تک اپنا فرض سنبھالنے کے ساتھ مالکان کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے گی موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کی براہ رست کوریج کا نظام متعارف کروایا ۔ تاکہ عوام حکومتی کارکردگی سے پوری طرح آگاہ ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا وعدہ معلومات تک رسائی کا قانون ہے ۔ جس کے لیے انفارمیشن بل کا مسودہ تیاری کے مراحل میں ہے جس سے شفافیت کا نیا کلچر سامنے آئے گا ہم معلومات تک رسائی کو موثر اور فعال بنائیں گے انہوں نے کہا کہ میڈیا اور اس کے ادارے اپنے اندر بھی ضابطہ اخلاق کو فروغ دیں کیونکہ ایسے اقدامات ریاست پر مسلط نہیں کیے جاتے ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ایسی سنسنی خیز ی سے گریز کرے جس سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہو صحافی اپنے رویوں پر بھی دھیان دیں ۔ حکومت میڈیا پر کوئی ضابطہ اخلاق مسلط نہیں کرنا چاہتی تاہم اس حوالے سے میڈیا سے معاونت کرنے کو تیار ہے کیونکہ صحافیوں کی اپنی بدنظمی بعض تقریبات انتہائی بدمزگی کا سبب بنتی ہے اور ایسے کسی موقع پر اگرانہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتے ہیں انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ذمہ داریوںا وروعدوں اور منشور سے آگاہ ہے ۔ ورکنگ جرنلسٹوں کے لیے ویج بورد کے نفاذ پر جلد صحافی تنظیموں سے بات چیت کا آغاز کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وزیراعطم نے بھی یہ کہا کہ پاکستان اور حکومت کو فی الوقت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے پچاس ڈالر فی بیرل پر تیل کی قیمت گزشتہ دور حکومت میں تھی جبکہ تجارتی خسارے میں انتہائی اضافہ ہو چکا تھا اب بھی حکومت پچاس روپے فی لیٹر پٹرول پر سبسڈی دے رہی ہے ۔ ہم نے جب چارج لیا تو خزانہ خالی تھا سابقہ حکومت نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ۔ ہماری حکومت سے پہلے تو یوٹیلٹی سٹورز پر بھی آٹا نایاب تھا جس پر کابینہ کے ہنگامی اجلاسوں میں اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا سابقہ حکومت نے مستقبل سے بے خوف ہو کر اس طرح گندم کا بحران پیدا کیا کہ ان کا خیال تھا کہ انہیں فرشتے دوبارہ انتخابات میں کامیاب کروائیں گیانہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کم از کم چودہ ماہ کا عرصہ درکار ہے ۔ گزشتہ حکومت نے بجلی کے انفراسٹرکچر میں ایک پیسے کی سرمایہ کاری نہیں کی جس وجہ سے آج قوم کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 75 فیصد غذائی اشیاء امپورٹ کی جا رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں کو سہولیات دی جائیں زراعت کو ترقی دی جائے اس وقت سرحدی صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے ملک خود کش حملوں کی زدمیں ہے انہوںنے چیلنج کیا کہ کوئی بھی شہری انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری تین ماہ کی کارکردگی کو سابقہ حکومت کے پانچ سال سے موازنہ کرکے دیکھ لے ۔ ہمارا مسئلہ افغان جہاد کے دور سے چلاآرہا ہے ۔ موجودہ منتخب حکومت کو اتنی مہلت ملنی چاہیئے کہ یہاںطالبانائزیشن کو پروان چڑھنے سے روکا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض ملک دشمن عناصر صرف اسلام کا نام استعمال کررہے ہیںلیکن ہم مفاہمت کے زریعے تمام بحرانوں پر قابو پاناچاہتے ہین حکومت موجودہ مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی کارروائی برداشت نہیں کی جائے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مشکل حالات مین ملک کو عدم استحکام میں نہیں ڈالنا چاہتے ۔ نہ ہی کوئی غیر آئینی کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 23 جولائی کوحکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Monday, July 21, 2008
پاکستان میں طالبانائزیشن کو پروان نہیں چڑھنے دیں گے ۔ شیر ی رحمان
راولپنڈی ۔ اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر شیری رحمن نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں طالبانائزیشن کو پروان نہیں چڑھنے دیں گے تاہم کسی بیرونی طاقت کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے موجودہ مشکل اور نازک ترین حالات میں ہم ملک کو عدم استحکام سے بچانا چاہتے ہیں ۔ بعض ملک دشمن عناصر اسلام کا نام استعمال کررہے ہیں لیکن ہم مفاہمت سے معاملات سلجھانا چاہتے ہیں ۔ 5 سالہ کرپشن اور لوٹ مار کی صفائی کے بعد ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے موجودہ حکومت کو کم از کم چودہ ماہ کا عرصہ درکار ہے عوام تحمل کا مظاہرہ کریں پیپلزپارٹی اپنے وعدوں ‘ منشور اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے ۔ صحافت اور صحافیوں کی آزادی و فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کی سہ پہر راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے دورے کے موقع پر منعقدہ بریفنگ میں کیا ۔ اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات اکرم شہیدی اور پرنسپل انفارمیشن افسر و ایم ڈی پی تی وی غلام رسول باجوہ بھی موجود تھے۔ شیریں رحمان نے اس موقع پر نیشنل پریس کلب کے لیے دو کروڑ 9 لاکھ روپے کے فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے چیک پریس کلب کے صدر کو دیا۔ شیری رحمان نے کہا کہ آپ کی نمائندہ حکومت میڈیا کے حوالے سے انتہائی حساس ہونے کے ساتھ مسائل سے آگاہ ہے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کیے جائیں گے حکومت میڈیا کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے وزارت اطلاعات نے ماضی میں میڈیا پر پابندیاں عائد کیں ہم ایسا تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں ہم نے بیشتر کالے قوانین ختم کیے ۔ پیمرا کو بذات خود ایک حد بندی میں رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈنینس کا مسودہ بھی نظر ثانی کے لیے کابینہ کو بھجوا دیا گیا ہے ۔ جو بعدازاں جلد اسمبلی میںپیش کردیا جائے گا۔ ویکٹم (VICTIM ) فنڈ کا آغاز کردیا جس کے شفاف استعمال کے لیے آئندہ ماہ ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے گی ۔ صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں حکومت ہر ممکن حد تک اپنا فرض سنبھالنے کے ساتھ مالکان کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے گی موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کی براہ رست کوریج کا نظام متعارف کروایا ۔ تاکہ عوام حکومتی کارکردگی سے پوری طرح آگاہ ہوں ۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا وعدہ معلومات تک رسائی کا قانون ہے ۔ جس کے لیے انفارمیشن بل کا مسودہ تیاری کے مراحل میں ہے جس سے شفافیت کا نیا کلچر سامنے آئے گا ہم معلومات تک رسائی کو موثر اور فعال بنائیں گے انہوں نے کہا کہ میڈیا اور اس کے ادارے اپنے اندر بھی ضابطہ اخلاق کو فروغ دیں کیونکہ ایسے اقدامات ریاست پر مسلط نہیں کیے جاتے ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ایسی سنسنی خیز ی سے گریز کرے جس سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہو صحافی اپنے رویوں پر بھی دھیان دیں ۔ حکومت میڈیا پر کوئی ضابطہ اخلاق مسلط نہیں کرنا چاہتی تاہم اس حوالے سے میڈیا سے معاونت کرنے کو تیار ہے کیونکہ صحافیوں کی اپنی بدنظمی بعض تقریبات انتہائی بدمزگی کا سبب بنتی ہے اور ایسے کسی موقع پر اگرانہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتے ہیں انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ذمہ داریوںا وروعدوں اور منشور سے آگاہ ہے ۔ ورکنگ جرنلسٹوں کے لیے ویج بورد کے نفاذ پر جلد صحافی تنظیموں سے بات چیت کا آغاز کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وزیراعطم نے بھی یہ کہا کہ پاکستان اور حکومت کو فی الوقت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے پچاس ڈالر فی بیرل پر تیل کی قیمت گزشتہ دور حکومت میں تھی جبکہ تجارتی خسارے میں انتہائی اضافہ ہو چکا تھا اب بھی حکومت پچاس روپے فی لیٹر پٹرول پر سبسڈی دے رہی ہے ۔ ہم نے جب چارج لیا تو خزانہ خالی تھا سابقہ حکومت نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ۔ ہماری حکومت سے پہلے تو یوٹیلٹی سٹورز پر بھی آٹا نایاب تھا جس پر کابینہ کے ہنگامی اجلاسوں میں اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا سابقہ حکومت نے مستقبل سے بے خوف ہو کر اس طرح گندم کا بحران پیدا کیا کہ ان کا خیال تھا کہ انہیں فرشتے دوبارہ انتخابات میں کامیاب کروائیں گیانہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کم از کم چودہ ماہ کا عرصہ درکار ہے ۔ گزشتہ حکومت نے بجلی کے انفراسٹرکچر میں ایک پیسے کی سرمایہ کاری نہیں کی جس وجہ سے آج قوم کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 75 فیصد غذائی اشیاء امپورٹ کی جا رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں کو سہولیات دی جائیں زراعت کو ترقی دی جائے اس وقت سرحدی صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے ملک خود کش حملوں کی زدمیں ہے انہوںنے چیلنج کیا کہ کوئی بھی شہری انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری تین ماہ کی کارکردگی کو سابقہ حکومت کے پانچ سال سے موازنہ کرکے دیکھ لے ۔ ہمارا مسئلہ افغان جہاد کے دور سے چلاآرہا ہے ۔ موجودہ منتخب حکومت کو اتنی مہلت ملنی چاہیئے کہ یہاںطالبانائزیشن کو پروان چڑھنے سے روکا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض ملک دشمن عناصر صرف اسلام کا نام استعمال کررہے ہیںلیکن ہم مفاہمت کے زریعے تمام بحرانوں پر قابو پاناچاہتے ہین حکومت موجودہ مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی کارروائی برداشت نہیں کی جائے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مشکل حالات مین ملک کو عدم استحکام میں نہیں ڈالنا چاہتے ۔ نہ ہی کوئی غیر آئینی کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 23 جولائی کوحکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment